بدھ، 12 دسمبر، 2012

ون ٹو ، ون ٹو کی تکرار

اج بارہویں سال کے بارہویں مہینے کی بارہویں تاریخ ہے
یعنی
12/12/12
ون ٹو ، ون ٹو کی تکرار
دو ہزارایک سے لے کردو ہزار بارہ  تک  کے سالوں میں  ، یہ تکرار تو ہوئی لیکن اب اگلے سال سے یہ تکرار نہیں ہو گی
بس جی ہونے  یا ناں ہونے سے کیا ہوتا ہے
کاروبار پر جمود طاری ہے ، موسم ٹھنڈا ہے اور کاروبار بھی ٹھنڈا
تسی سناؤ ؟
اگر اپ کا کاربار چل رہا ہے تو
اپ سیانے ہو جی، عقل چاہے ناں بھی ہو  ، اپ سیانے ہو جی
کاروبار کا چلنا شرط ہے کہ سیانف کی

منگل، 11 دسمبر، 2012

صاف پانی کا لالچ اور میں

پاکستان میں اپنی جوانی سے مقیم ،ایک جاپانی سے مل بیٹھنے کا موقع ملا
کچھ باتیں هوئیں ، یه صاحب دنیا کی تاریخ کا خاصا زیاده علم رکھتے هیں
لیکن جب پاکستان کی حالات کی بات چلی تو ان کی وضاحتیں
کچھ وہیں تھیں
جو پاکستان کی ریاست نے پچھلے پچاس سال سے عوام کو تعلیم دی هیں
مثلاً قوموں کی تعمیر میں پانچ چھ دهایاں  بہت کم وقت هوتا هے
ابھی پاکستان کو بنے دن هی کتنے هوئے هیں ؟
پاکستانیوں کے غیر محفوظ هونے کی بات چلی تو وهی دلیل که
جی جاپان میں امریکه میں اس تعداد سے کہیں زیاده تعداد میں لوگ
ٹریفک کے حادثوں ميیں مارے جاتے هیں
وزیر سائینس کی بات چلی تو میں نے کہا
وهی صاحب ناں جی جن کو سائینس کا علم نہیں هے لیکن وزیر سائینس هیں ؟
تو ؟ ان صاحب نے اپنےاور وزیر صاحب کے تعلقات کی بلکه اس خاندان سے تعلقات کی تاریخ بیان کرکے مجھے لاجواب کردیا
باتوں ميں بات چل نکلی بجلی اور پانی کی کمی کی !!ـ
تو ان صاحب کے پاس پانی کے صاف کرنے کا نظام هونے کا علم هوا
میں نے اس کام کے لیے اس ملاقات کے بعد بھی ایک ملاقات کی اور
یه نتیجه نکالا که
پانی کے صاف کرنے کا نظام تو ان کے پاس هے لیکن
میں ان کے ساتھ مل کر پاکستان ميں پانی کی صفائی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا
ان صاحب کے پاس ایک مشین هے جو که ایک دن ميں چھ ہزار لیٹر پانی کو صاف کر سکتی هے
اور یہ مشین کوئی بیس لاکھ روپے میں  لگ جاتی ہے
جو کہ روزانہ چھ ہزار لیٹر پانی کو  صاف کرکے پینے کے قابل بنا سکتی ہے۔
پاکستان کو پینے کا صاف پانی دینے کے پر کشش نظریات  بھی ہیں کہ پانی فی لیٹر فقط ایک روپیا میں ہی بیچا جائے گا
ایک مشین روزانہ چھ ہزار لیٹر پانی ہی صاف کرئے گی ، منافع کمانے کا شوق ہے تو ایک اور مشین لگا لیں۔
ان اخلاقیات پر کنٹرول ہو گا، مشینیں بنانے والے جاپانی کا۔
اور پاکستان میں جاپانی صاحب کی خاصی "اپروچ " بھی ہے اس لئے مشین لگانے کے خواہشمند کو بنک سے قرضہ بھی لے کر دیا جاسکتاہے۔
میں نے کیوں سوچا کہ
میں یہ کام نہیں کر سکتا؟
اس لئے کہ
اس سارے معاملے میں ، میں یا کوئی بھی پانی کی کمائی سے زیادہ اس بات کی کوشش میں ہو گا کہ اپنے دوستوں رشتے داروں کو بھی یہ مشین لگوا دے۔
ہر کوئی یہ سوچے کا کہ ایک جاپانی سے تعلق کی وجہ سے اس کو یہ چانس ملا  ہے اور اس سے فائیدہ اٹھا لینا چاہیے
اور جاپانی کی مشینیں ڈھڑا دھڑ بک رہی ہوں گی ، اور یہی اس کام  کا مقصد ہے۔
باقی سارے فلسفے ایک ضمنی چیز ہیں
پانی کو صاف کرنے کا کیمیکل یا چیز جو پانی کو فلٹر کرئے گی اس کی مستقل ترسیل کے لئے ، اور مشین کی مرمت کے لئے مستقل طور پر ایک بندے کا ہی مرہون منت ہو کر رہ جانا پڑے گا
جو کہ مجھے جدید غلامی کی سی ایک قسم لگی تھی اس لئے میں تو جی اس کام میں پڑا نہیں
ہاں ہو سکتا ہے کہ اپ سے بھی ان صاحب کی ملاقات ہو، اور اپ اسی نظریے کو قابل عمل بلکہ قابل ترقی پائیں ، تو یہ اپ کی سمجھ ہے
اور ہو سکتا ہے کہ اپ بہتر سمجھے ہوں

اتوار، 25 نومبر، 2012

انوکی کے ساتھ ایک شام

خاور کھوکھر اور انوکی محمد حسین
میری عمر کے لوگوں میں سے پاکستان میں کون ہو گا جو
انوکی کو نہیں جاتا ہو گا
جی ہاں جاپانی پہلوان انوکی جس کا نام ہے انتونی انوکی
لیکن اسلامی دنیا میں انوکی خود کو محمد حسین انوکی کہلوانا پسند کرتا ہے
انوکی اگلے ہفتے پاکستان جا رہا ہے
جس کے لئے انتظامات میں مصروف ہیں قیصر محبوب اور ہمایوں مغل صاحب
جمعرات کو سفارت خانے میں انوکی کی کے ساتھ سفیر کی ملاقات تھی جہاں میڈیا والوں کو بھی بلایا گیا تھا
جاپانی عادت کے مطابق انوکی صاحب طے شدہ وقت سے ٹھیک پندرہ منٹ پہلے ُپہنچ گئے تھے
سفیر صاحب صاحب ابھی تیار ہو رہے تھے
اس لئے میں اور ہمایون مغل اور قیصر ، انوکی صاحب سے باتیں کرتے ہے
انوکی صاحب اپنی عمر کے سترویں سال میں ہیں
جی ہاں بزرگ بندے ہیں
انوکی نے بتایا کہ انیس سو چھتر یں ان کو پاکستانی پہلوان اکرم  عرف اکّی کی طرف سے چیلنج کیا گیا
جو کہ میرے لئے بڑا حیران کر دینے والا عمل تھا
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان کے اس دنگل کو دیکھنے کے لئے بے شمار لوگ جمع ہوئے تھے

ایک اندازے کے مطابق کوئی کوئی پچاس ہزار لوگ ہوں گے
انوکی صاحب سن چھہتر کی بات کر رہے ہیں جب ابھی سرمے والی سرکار جرنل ضیاع کا شریفین سے مل کر لایا ہوا ہارس ٹریڈنگ اور ہیرئین اور کلاشنکوف کلچر انے میں ابھی کچھ سال باقی تھے
پھر تو جی فنون لطیفہ مرتے گئے
اور
فنون کثیفہ بشمول مذہب اور پیسے کو عروج ہوا کہ
اج ہم بھگت رہے ہیں
سفیر نور محمد جادمانی، انوکی اور خاور کھوکھر

انوکی صاحب بتاتے ہیں کہ مختلف کلچر اور کشتی کے اصولوں کا اختلاف ہونے کے باوجود دنگل ہوا تھا
جس میں ماحول کچھ اس طرح کا بنا دیا گیا تھا کہ زندگی اور موت کی جنگ جیسا تھا
میری کلائی پر اج بھی اکیّ کے دانت کا نشان ہے
اکی پہلوان نے میری کلائی منہ میں دبائی ہوئی تھی جس سے جان چھڑانے کے لئے میں نے اکی پہلوان کی انکھوں میں انگلیاں ماری تھیں
وہاں ایک شور مچا ہوا تھا ، میں بھی اندیشوں میں گرا ہوا تھا
پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کی طرح اوپر اتھا دئے
ایک معجزہ سا ہو گیا کہ مجمع پر سکوت طاری ہو گیا
انوکی کا کہنا ہے کہ اکیّ پہلوان کے ساتھ دنگل میں جیت، کبھی بھی میرے لئےفخر نہیں رہی ، بعد میں اکیّ پہلوان کے بھتیجے زبیر عرف جھارا سے سے کشی کے متعلق بتاتے ہیں کہ
یہ دنگل برابر رہا ، لیکن میں نے کشتی کے بعد جھارے کا ہاتھ پکڑ کر اوپر اٹھا دیا تھا ،۔
اس دفعہ پاکستان جانے کے متعلق انوکی صاحب کا کہنا تھا کہ سال ہا سلا سے میں اکی پہلوان کی قبر پر فاتحہ کے لیے جانا چاہتا تھا لیکن ہر دفعہ کوئی ناں کوئی بات نکل اتی تھی
تو اس دفعہ پاکستان کی ساٹھویں سالگرہ کے طور پر ہی سہی میں پاکستان جا رہا ہوں
ایمبیسی مٰن ہونے والی اس ملاقات میں سوالات کے سیشن میں انوکی صاحب سے صرف دو ہی سوال پوچھے گئے تھے
ایک جاپانی میڈیا کے بندے نے پوچھا تھا
کہ پاکستان میں سیکورٹی کی کیا پوزیشن ہو گی
جس کا جواب سفیر صاحب نے دیا تھا کہ
جی فکر ہی ناں کریں جی وغیرہ وغیرہ
دوسرا سوال مٰں نے پوچھا تھا کہ
اپ کے مسلمان ہونے کی افواہ بھی ہے کیا یہ سچ ہے
تو انوکی صاحب نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ جی ہاں میں انیس سو نوے میں مسمان ہواتھا
کربلا کی سیر کو گئے تھے جب اس موضوع پر بات ہوئی اور دوسری مسجد مین میں نے مولوی صاحب کے ساتھ کلمہ پڑھا
جس کے بعد دو دنبوں کا صدقہ کیا گیا
سب لوگوں نے ایک عربی نام ہونے کا کہا تو
ایک نام محمد علی بھی تجویز ہوا لیکن ایک تو یہ نام عظیم باکسر محمد علی کا تھا
جس کے ساتھ میرا ایک مقابلہ بھی ہو چکا تھا
اس لئے محمد حسین پر اتفاق ہوا، جس میں "حسین " اس دور کے عراقی صدر صدام حسین سے لیا گیا تھا

اگلے ہفتے انوکی صاحب پاکستان میں ہوں گے
میڈیا بریکنگ نیوز اور پتہ نہیں کیا کیا نیوز اور باتیں کہے گا
لیکن جی

یہان سوشل میڈیا میں بھی انوکی صاحب کے دورے کا لکھ دیا گیا ہے

بدھ، 21 نومبر، 2012

گالی نما لوگ


کھلتا کسی پہ کیوں میرے کنجر ھونیکا معاملہ،
دوستوں کے انتخاب نے مشہور کیا مجھے :ڈ
یہاں جاپان میں اپ کو بہت سے ایسے بڑے ناموں والے لوگ مل جائیں گے جو کہ اصل میں چھوٹے لوگ ہیں
ان کے چھوٹے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ بندہ اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے
یہ بڑے لوگ ہیں کہ ان کے اردگرد ہے لوگ چھوٹے ہیں
یہ لوگ بڑی باتیں کرتے ہیں کہ ان کے آس پاس کے لوگ کند ذہن ہیں
یہ لوگ بڑے علم والے ہیں کہ ان کے دوست بے علم ہیں
بس جی مختصر یہ کہ یہ لوگ بونوں میں عالم چنا بنے بیٹھے ہیں
اور اہل نظر کو یہ لوگ بھی بونوں میں بونے ہی لگتے ہیں
عظیم چینی مفکر اور فلسفی کہ جس میں چین کا پیغمبر کہتا ہوں
نے کہا تھا
خوش بخت لوگ اپنے کاموں کی وجہ سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں
اور بد بخت لوگ
شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں،
اور
بدنامی انکا پیچھا کرتی ہے
 اس کی مثال کہ اپ دیکھ سکتے ہیں کہ
جاپان میں سستی شہرت بیچنے والی سائٹوں پر ان کی فوٹو لگی ہیں اور فوٹو لگوانے کے بہانے کے لئے احمقانہ بیانات لگے ہیں
کچھ سائٹوں والے پانچ ہزار ین اور کچھ دس ہزار لیتے ہیں ، "ان" کی کمپنی کے اشتہار کا۔
اور ان کے بیانات کی عوض "کھانا " کھاتے ہیں ریستورینٹوں میں
دوستوں کے انتخاب نے مشہور کیا ان کو
کھلتا کسی پہ کیوں ان کےچول ہونے کا راز
دوسری طرف
بقول کنفوشس کے خوش بخت لوگ بھی ہیں جی جاپان میں
ان خوش بخت لوگوں کے اردگرد بھی خوش بخت لوگ ہیں
یہ لوگ کام کر رہے ہیں
اور شہرت کے پیچھے نہیں بھاگتے
لیکن ان کو لوگ جانتے ہیں
بندہ اپنی محفل سے پہچانا جاتا ہے
ناں جی
خوش بخت لوگ اپنے دوستوں سے برابری کی بنیاد پر ملتے ہیں ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارتے ہیں
پیٹھ پیچھے دوستوں کی تعریف کرتے ہیں
جیسے کہ رقم بڑے دعوے سے کہا کرتا ہے کہ
میرے سارے دوست بڑے سیانے معتبر اور گریٹ لوگ ہیں
اور ان گریٹ لوگوں میں سے میں بھی ہوں
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ
اپ کن میں سے ہیں ؟؟
ان میں سے جو محفل سے اٹھ کر جانے والوں کو گالیاں دیتے ہیں
اور خود بھی گالیاں لایق ہوتے ہیں
یا کہ دوسری قسم کے لوگ؟؟
کہ
جو ایک دوسرے کو پرموٹ کرتے ہیں
اب جب کہ جاپان میں ایسوسی ایشن کے انتخابات انے والے ہیں
او ان میں ایک بندہ چنا جائے گا
جو کہ پھر ساری زندگی صدر ہی کہلوائے گا
کہ پھر کہاں ایمبیسی انتخاب کروائے گی
اور اگر یہ بندہ " وہ" والا منتخب ہو گیا ناں جی
تو پھر ساری کمیونٹی گالیان ہی کھانے والی بن جائے گی
کہ "اس " کی تو پہلے ہی عادت ہے کہ محفل سے اٹھ کر جانے والے کے متعلق کہتا ہے
چنگا ہویا مگروں لتھا
اب دیکیں کہ کمیونٹی پر کوئی خوش بخت آتا ہے
کہ
کوئی"گالی" بن کر اتا ہے جو کہ کمیونٹی کے لئے مستقل گالی ہو گا

پیر، 19 نومبر، 2012

نام اور پہچان

ایک دفعہ جاپان کے شہنشاہ ،غالبآ میجی نے حکم جاری کیا کہ ملک کے سب لوگوں کو ایک ایک خاندانی نام چننے دیا جائے
اہلکاروں کی ٹیمیں نکل پڑیں
جس جس گاوں میں گئے ، اس گاؤں کے لوگوں کو ایک ایک خاندانی نام چننے کا کہا
اور یہ نام اسی وقت رجسٹر میں لکھ دیا گیا
لوگوں نے نام چننے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ تھا کہ جس کو جو اچھا لگا یا جس کی جس چیز سے پہچان تھی اس کا وہی خاندانی نام رکھ دیا  گیا
اردو میں یہ نام کچھ اس طرح سے بنتے ہیں
لکڑی کا گاؤن
بڑا کھیت، بڑا دریا ، چھوٹا دریا،پتھر کا پل ، لکڑی کا پل ، چھوٹا جزیرہ ، برا جزیرہ
جس گاؤن کے نزدیک یا جس گاؤں کو جس نام سے جانا جاتا تھا ان کے رہنے والوں کا بھی وہی نام رکھ دیا گیا
چند مکانوں کے گاؤں کا تو یہ حال ہوا تھا
زیادہ گھروں والے دیہاتوں میں
جس گھر کا پتھر کا سٹور روم تھا ان کو  سٹور روم والا اور جس کے پاس بڑا درخت تھا اس نام ہی بڑا درخت ہو گیا
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بس ایسے ہی کچھ دن کی بات ہے بعد میں یہ نام بدل لیں گے یا ہوسکتا ہے کہ یہ سسٹم چلے ہی نہ!!!۔
اس لئے کچھ لوگوں کے پاس جب سرکاری اہلکار پہنچے تو لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے
کسی نے اپنا نام مولی اور بینگن بتا دیا تو اس کا وہی نام رجسٹر ہو گیا اور وہی نام رائیج بھی ہو گیا
اس لئے اب بھی اپ بہت کم ہی سہی لیکن مولی کے خاندانی نام والے جاپانی بھی دیکھیں گے
یہ تو ہوا کنبے کا نام
باقی جی بندے کا جو نام تھا وہی رہا
جیسے کہ اب جاپانیوں کے نام ہوتے ہیں مشتاقا ، تھارو جیرو ، کینجی، ان ناموں سے اس فرد کو اس کے قریبی بندے ہی جاتے ہوتے ہیں
یا پھر سرکاری معاملات مین یہ کام اتا ہے ورنہ اپ جب بھی کسی جاپانی سے اس کا نام پوچھیں  گے وہ اپ کو صرف کنبے کا نام ہی بتائے گا
ہمارے یہاں جس علاقے کو ان دنوں پاکستان کہتے ہیں ، یہاں اس علاقے کا نام پاکستان ہونے سے پہلے اور ہونے بعد بھی کئی دہائیوں تک عدالتوں میں نام کچھ اس طرح پکارے جاتے تھے
پھتا ، نورے دا ۔ مالا رکھےدا،ان کوسلیس اردو مین کہیں گے
فتح محمد ولد نور دین، محمد مالک ولد اللہ رکھا
لیکن یہ نام اگر کہیں کسی نے لکنے ہوں تو ہی کام اتے تھے ورنہ محمد مالک ، مالا ہی ہوتا تھا اور فتح محمد ، پھتو ہی ہوتا تھا
لیکن کی گاؤں یا علاقے میں ایک سے زیادہ ہھتو اور مالے بھی ہوسکتے تھے اس لئے ان کو ان کے کبے کے نام سے جانا جاتا تھا
کنبے کا نام بھی کچھ اس طرح ہوا کرتا تھا کہ زمین دارلوگوں کے زرعی ڈیرے کا نام ہوا کرتا تھا
مثلآ بیری والا ، کیکر والا ، ککڑاں والا ، پرانی والا، ککھاں والا۔
اس لئے ان کنبوں کو جن کی زرعت ان ڈیروں پر ہوتی تھی ، اس ڈیرے کی نسبت سے پکارا اور پہچانا جاتا تھا
مثلآ پپو بیری والیا، کھالو ککڑاں والیا وغیرہ وغیرہ
اور غیر زمین دار لوگون کو ان کے پیشے سے پکارا جاتا تھا
محمد افضل تیلی کو اپھو تیلی کہا کرپکارا جاتا تھا
لیکن اگر کسی گاؤں میں یا علاقے میں تیلیوں کی ابادی زیادہ ہے تو اپھو تیلی کو اپھو تیلی رکھے دا کہ کر بھی پکاتا جاتا ہوگا
پاکستان بننے کے بعد جب ہم لوگون کو اپنی اہمیت کا احساس پوا تو ہم لوگون نے اپنے ناموں سے اپنی کولٹی کو بڑہانے کی کوشش کی
سب سے پہلے تو اپنے اپنے نام کو مالا اپھو  پھتو سے محمد مالک ، محمد افضل اور فتح محمد کیا
مزے ک بات کہ ایک نسل پہلے کے نام کچھ اور تھے
دوسرا ہم نے اپنے اپنے کنبے کے نام کو ‘‘ وجھکے ‘‘ والا بنانے پر بہت توجہ کہ
گھوڑے گدھوں پر ٹرانسپورٹ کرنے اور مٹی کے برتن بنانے والے تو بہت بعد میں رحمانی بنے
لیکن سیانے آئیل ملوں کے وارث جلدی ہی ،ملک بن گئے تھے
اس کے بعد پھر چل سو چل
کہ جس کو جو نام زیادہ بھایا اس نے وہ ہی اپنا نام بنانے کی تگ دو کی اور بن کے چھوڑا
بخاری کون لوگ تھے؟ قادری کس کنبے کا نام تھا ؟قریشی یا ہاشمیوں کی جڑیں اگر کسی نے انے والی صدیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش شروع بھی برصغیر سے کی تو بندہ پاگل ہو جائے گا
پر سانوں کی!!!!
اج جو نام پاکستان میں چل رہے ہیں ان میں سے نام کیا ہے اور کنبہ کیا ہے اور عرفیت کیا ہے اور پہچان کیا ہے کے کنفیوژن سے نکلنے کے لئے
میں تو یہ سمجھتا ہون کہ
جن لوگوں میں سے اکثریت کو اپنی تاریخ پیدائش تک کا علم نہیں ان کو اپنے کنبے کا کیا علم ہو گا اور اپنی جڑوں کی کیا پہچان
میں بندے کا نام اس اس کی ولدیت سے پہلے حصے کو سمجھتا ہوں
غلام مصطفے میں غلام اور مصطفے کو علیحدہ کرنے کی بجائے ایک نام غلام مصطفے ہی جانتا ہوں
اب جب کہ میں پاکستان سے باہر ہوں
تو
لیکن اس کے بعد اس کا کنبے کا نام کیا ہے
کی بجائے اس کے پیشے، جو کہ اس نے ان دنوں اپنایا ہوا ہے سے اس کی پہچان کرتا ہوں
اور اپنے گاؤں میں کسی کو بھی اس کے کنبے کی وجہ سے پہچانتا ہوں
لیکن یہ ایک کنفیوژن تو ہے ناں جی
اسی لئے میں کہتا ہون کہ پاکستان بننے کے بعد میرے لوگوں کو مغالطوں اور مبالغوں کی تعلیم دی گئی ہے
کس نے دی ہے؟
برطانوی راج کے دور کے سرکاری ملازموں نے اور جن کی پالیسوں کو جاری رکھا جرنیلوں نے
اس لئے ہماری قوم میں بھی کوئی ایسا ہونا چاہئے کہ سب کو ایک ہی دفعہ جاپانی شہنشاہ کی طرح  ایک ایک کنبہ نام چن لینے دے
کہ سب  کے ناموں کی ایک پہچان تو بنے

بدھ، 14 نومبر، 2012

کھرکیات


ماہر کھرکیاتِ پاکستان بھٹی صاحب باتیں کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف کھرکوں (خارشوں)پر سیر حاصل بکواس سے سامین کے کان کھا رہے تھے
اور سامیں کی بڑی تعداد بھی انہیں کھرکوں کی مریض تھی لیکن سب ہی یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ باتیں اور کھرکیں دوسرں میں ہیں ہم نہیں ہیں
حتی کہ ماہر کھرکیات بھی دراڑوں کی کھرک (خارش) کے مریض ہیں
پاکستان کے لوگ سب سے زیادہ جس کھرک (خارش) میں مبتلا ہیں وہ ہے جی
مذہبی کھرک(خارش) !!۔
اس موض میں مردو زناں کی کوئی تفرہق نہیں ہے
اس مرض کے مریض کو اپنی کھرک اور دوسروں کو کھرک کرکرک کے ہلکان ہو جاتا ہے
اور اپنی اس کھرک کو بڑی اعلی سمجھتا ہے اور اس امید میں ہے کہ ایک دن ساری دنیا کو اس کھرک میں مبتلا کر کے ہی چھوڑے گا
کسی بھی دوسری قسم کی کھرک میں  مبتلا بندے کو اس خارش کا مریض اپنی ہی خارش باتٹ دینے پر تلا ہوتا ہے بلکہ کوئی چاہے یا نان چاپے
مذہبی خارش زدہ ہر بندہ کو بے رحمی سے کھجلانے لگتا ہے
لٹکتی چیزوں کی کھرک(خارش)
اس مرض میں پاکستان کے مرد حضرات ہی مبتلا ہیں ناقابل تحریر چیزوں کو کھرک کھرک
کر ، اگر انہون نے پتلون پہنی ہو تو کھرک کے نشانات واضع نظر ا رہے ہوتے ہیں
پاکستان سے باہر کے ممالک میں یہ کھرک پاکستانی مردوں کی نشانی بن چکی ہے
روحانی کھرک(خارش)
یہ کھرک مذہبی کھرک کی ہی ایک ذیلی لیکن بڑی زہریلی قسم ہے
اس میں مبتلا بندہ جیسے جیسے مرض بڑہتا جائے خود کو آل اور دوسروں کو امت سمجھنے لگتا ہے
اور امت کو کھرک کھرک کر احساس دلاتا رہتا ہے کہ
جس کھرک میں میں مبتالا ہون اس تک کیسے پہنچا اور
اس کھرک کا مریض جب کسی دوسرے اپنی قسم کے مریض کو دیکھتا ہے تو
اس کی کھرک کو جعلی اور اپنی کھرک کو اصلی کھرک کی کھجلی کرنے لگتا ہے
فوجی کھرک(خارش) !!
نہیں جی اس کھر کے متعلق میں نہیں بتا سکتا
یہ الفاظ تھے جی بھٹی کے جو کہ کمینوں کی اعلی ترین اور حرامیوں کی اصلی ترین چیز ہے
کسی نے پوچھا کہ کیوں
تو بھٹی کا جواب تھا
یہ کمیار بھی سن رہا ہے یہ کہیں لکھ ہی ناں دے جی
اور میں غایب کر دیا جاوں یا مارا جاوں
سیاسی کھرک(خارش)
یہ مرض پاکستان مٰیں کم اور
اور باہر کے پاکستانیوں میں زیادہ پائی جاتی ہے
اس کھرک میں مبتلا سیاسی بندے کے اندر کا کتورا لپک لپک کر کسی کے پاوں چاٹنا چاہتا ہے
کسی کے سامنے لوٹنیاں لگانا چاہتا ہے
کسی کے ساتھ فوٹو بنوا کر اخبار میں لگوانا چاہتا ہے
یہ کھرک بھی خاچی زہریرلی ہوتی ہے
اور اس کا مریض دوسورں پر بھونک بھوک کر پلکان ہوتا رہتا ہے اور اس بھونکنے کو سیاسی بیانات کہتا ہے
لیکن ہوتی یہ بھی ایک قسم کی کھرک ہی ہے
دراڑوں کی کھرک(خارش)
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ہے
      ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور
اس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔!!،
۔
۔
۔
۔
۔
۔۔
 دیگر کھرکیں
ان اقسام کے علاوہ بھی بہت سی خارشیں ہوتی ہیں جو مختلف لوگوں میں مختلف زمینی حقائق اور حالات مٰیں اثر انداز ہوتی ہیں
 

پیر، 12 نومبر، 2012

پانی کا بلبلہ

بی بی سی پر وسعت اللہ صاحب کے کالم کا اخری پیرا ہے

بری خبر یہ ہے کہ اس گلا کاٹ دنیا کو خود ترسی کے مرض میں مبتلا لوگوں اور معاشروں سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی یعنی یا تو ساتھ چلو، یا پھر گمنامی کی دھول میں گم ہوجاؤ۔ فل سٹاپ۔۔۔

یہاں میرا سوال ہے
اردو کے سوشل میڈیا کے جغادری لوگوں یعنی کہ اردو کے بلاگران سے کہ
اپ کے ذہن میں یہ پڑہ کر کیا سوچ آئی یا کہ اپ کو کیا سمجھ لگی؟؟
میں اپنی سمجھ کی بات کرتا ہوں!!۔
مجھے سمجھ لگی ہے کہ
سوشل میڈیا جس نے ملالہ کو ہیرو بنانے کے بی بی سی کے پروگرام میں خلل ڈالا  یا ڈالنے کی کوشش کی
ان کے منہ پر ایک طمانچہ یہ کہ
ملالہ ہیرو بن چکی ہے
اس کو بوبل انعام ، ہاں ہاں وہی والے نوبل صاحب جن کا نام الفریڈ نوبل تھا
جن کی ایجاد ڈائینامائٹ کی دھماکہ خیز امدن ، دھماکہ خیز امن کا انعام دینے کا سلسلہ چلایا ہوا ہے
یہ انعام ملالہ کو دلانے کی کوشش بھی کردی گئی ہے
اور جو کچھ بی بی سی پر لکھ دیا گیا ہے وہی  تاریخ اور وہی حقائق ہیں
باقی سب کچھ ہے جی
پانی کا بلبلہ
جی ہان پانی کا بلبلہ
ٹوئٹ کرنے والوں نے ٹوئٹ کیا!!۔
جس ٹوئت کو بی بی سی نے لکھ دیا وہ ٹویٹ امر ہو گئی
باقی کیا ہوئیں؟
پانی کا بلبلہ
چند لمحے ابھرا پانی  سے سر نکالا ، خود کو منفرد جانا ،خود کو سطح سے بلند دیکھا
پبر بلبلے کی حیاتی ختم !!۔
ملاملہ سے جو کام لینے کی کوشش تھی کامیاب ہوئی کہ نہیں
لیکن سوشل میڈیا کی یہ کوشش کہ ملالہ کے معاملے میں شکوک ہیں
اس بات کو پانی کا بلبلہ بنا دیا گیا ہے
فیس بک کی وال پوسٹیں
کسی گاوں کی وال چاکنگ بنا دی گئی ہیں
بھی ایک پانی کا بلبلہ ہی ہے
اسی لئے کپا گیا ہے
یا تو ساتھ چلو، یا پھر گمنامی کی دھول میں گم ہوجاؤ
میں ٹویٹ نہیں کرتا کہ مجھے ٹویٹ بے وقعت سی لگتی ہے
لیکن فیس بک پر حلقہ احباب رکھتا ہوں
اور اگر چہ کہ ایک کم نام سا بندہ ہوں لیکن بے نام نہیں ہوں
جی میرے کچھ نام ہیں ۔ جن میں ایک نام اردو کا بلاگر بھی ہے
یہ نام اتنا بے نام بھی نہیں ہے
اس لئے میں بلاگ لکھتا ہوں
کہ اگر میں پرنٹڈ اور کمرشل میڈیا کے ساتھ ناں بھی چلوں تو گمنام نہیں ہو جاوں گا
ہاں کم نام ہو سکتا ہوں
بلاگ پوسٹ پانی کا بلبلہ نہیں پے
بلاگ لکھیں ، اس پوسٹ کو جو موضوع سے تعلق  رکھتی ہو اس کو فیس بک پر لگائیں ، کومٹ میں حوالہ دیں
ٹوئٹ کریں ، پوسٹ ٹوئٹ کریں
تو میرے یا اپ کے خیالات پانی کا بلبلہ نہیں رہیں گے
بلاگ کی پوسٹ پر چار یا چالیس سال بعد بھی کوئی تبصرہ ہو سکتا ہے
ٹویٹ اور فیس بک کو چھوڑیں نہیں
لیکن یاد رہے کہ یہان کی گئی بات ایسے ہی ہے جیسے
رات گئی بات گئی
ا انگریزی میں
ون نائٹ سٹینڈ
ہر دو کے معنی بڑے ہی معنی خیز ہیں
 

منگل، 6 نومبر، 2012

شارجہ کا فتورا اور فضل ربی خان

عجیب سے نام بھی ہوتے ہیں لیکن
فضل ربی بھی نام ہی ہے ایک پٹھان کا
فضل ربی جاپان سے کئی ممالک کو مال ایکسپورٹ کرتا ہے
کل ملا تو اس نے پوچھا کہ کیا بنا جی خاور صاحب اپ کے دبئی کے کاروبار کا ؟
میں نے اس کو بتایا کہ بس جی چھ کنٹینر میں کوئی ڈھائی ملین کا نقصان کر کے چھوڑ دیا ہے
خاور صاحب دبئی میں مجھے تو ان لوگون نے فتورے  کی مار ماری تھی
فضل ربی بتانے لگا
اپ کو پتہ ہی ہے ناں وہاں دبئی میں فتورا ، رسید کو کہتے ہیں
میں نے جاپان سے سالم گاڑیاں شارجہ بھیجی تھیں
کہ ہمارے سیلز میں نے ایک گاڑی سات ہزار درہم مین بیچ دی
میں نے پوچھا کہ یار اتنے کی تو میں نے جاپان میں خریدی تھی
جس قیمت میں تم نے بیچ دی
فضل صاحب اج کل مارکیٹ مندی جارہی ہے
اور میں اپ کو فتورا دیکھا دیتا ہوں
اس نے مجھے فتورا دیکھا دیا
اور مجھے ایسا ہی لگا کہ اس نے
فتورے کی
میڈ اے تھرٹی تو اینڈ گیوڈ می!!۔
یہ گاڑی عراق کی مارکیٹ کی تھی اور میرا خیال تھا کہ پندرہ ہزار درہم کی ہو گی
میں اسی مارکیٹ میں ایک دوست کو مل کر نکلا تو
میں وہی گاری ایک بندے کو چلا کر جاتے دیکھا
میں نے اپنی گاڑی پہچان لی اور اس کو رکنے کا شارہ کیا
گاڑی ایک عربی چلا رہا تھا وہ میرے اشارے پر رک گیا
میں جو کہ عربی کی زبانی کی سمجھ رکھتا ہوں ، میں نے  اس سے پوچھا کہ اس طرح کی گاڑیاں میرے پاس بھی ہیں کیا تم کو خریدنے میں دلچسپی ہے؟
عربی کہنے لگا کہ ہاں ہاں کیوں نہیں !
میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کتنے کی خریدی ہے؟
عربی جو کہ عراقی تھا اس نے بتایا کہ تیرہ ہزار درہم کی !
میں ے اس کو کہا کہ یہ تو تم نے بڑی سستی خرید لی ہے
اس گاڑی کی مارکیٹ ویلیو تو پندرہ ہزار درہم ہے
تم کو سستی کیسے مل گئی ؟
عراقی نے مجھے جیب سے فتورا نکال کر دیکھایا کہ یہ دیکھو پاکستانی سے لے کر ایا ہوں میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا
اس نے مجھے یہ گاڑی اس شرط پر تیرہ ہزار کی دی ہے کہ فتورا سات ہزار کا کٹے گا
عراقی مجھے سات ہزار کا فتورا دیکھا رہا تھا اور میرے ذہن میں اندہیاں چل رہی تھیں
فضل ربی جب مھے یہ بات سنا رہا تھا تو میرا بھی وہی حال تھا جو فضل ربی کا فتورا دیکھ کر ہوا تھا
اور ایسے لگا کہ جیسے کوئی بندہ مجھے فتورا دیکھا کر کہ رہا ہو کہ
میک اے تھرٹی ٹو، اینڈ  ٹیک اٹ!!!۔

بدھ، 31 اکتوبر، 2012

ٹاپ سیکرٹ فائیل

طریقہ کار یہ اختیار کیا جائے گا لوگوں کو ذلیل کرنے کا
کہ
آبادیوں کے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہ کیا جائے
تاکہ یہ پانی سڑکوں پر آ کر سڑکوں کی توڑ پھوڑ کا باعث بنے
تھوڑی ٹوٹی ہوئی سڑک کو مرمت کے نام پر اکھاڑ کر چھوڑ دیا جائے
آبادی کے پانی سے اس سڑک نما کو ٹریفک کے ساتھ ریڑکا لگایا جائے
کہ ابادی کے لوگوں کی بد بو اور دھول سے مت مار دی جائے کہ ان میں سے ہر کوئی بلبلانے لگے کہ سڑک کی تعمیر کو مکمل کیا جائے
لیکن سڑک کی تعمیر میں مسلسل تاخیر کی جائے گی تاکہ کسی کو پانی کے نکاس کے انتظام کا احساس ناں ہو جائے
اس دوران سڑک پر مٹی اور بجری ڈال ڈال کر سڑک کو سڑک سے ملحقہ مکانات سے اونچا کر دیا جائے گا
اسی طرح ابادیوں کو ذلیل کر کے سڑک مکمل کر دی جائے گی
اور ساری ابادی کو نیچا کر دیا جائے
پانی کا نکاس نہ ہونے کہ وجہ سے لوگ اپنے مکانات کو اونچا کریں گے
جس سے ان کی ساری زندگی کی کمائی اور توجہ اسی کام پر لگی رہے گی
ایسا ہر علاقے  میں ہر پندرہ سال بعد کیا جائے گا
لیکن اس بات کا دیہان  رہے کہ حکومتی ادارے ایسا خود سے نہیں کریں گے
بلکہ علاقے کے عوامی نمائیندوں کے اصرار پر ہی ایسا کیا جائے گا
تاکہ ابادیوں کو حکومتی طاقت کا احساس رہے
اس بات کو انتہائی خفیہ رکھا جائے گا
اور سکولوں کالجوں یا میڈیا میں کہیں بھی اس بات کا ذکر کسی کو نہیں کرنے دیا جائے گا کہ پانی کا نکاس کیا ہوتا ہے اور اس کی تفصیلات تکنیک اور فوائید پر کسی فورم میں کسی کالم میں یا
تعلیم کے کسی شعبے میں بات نہیں کرنے دی جائے گی
اور اگر کوئی اس موضوع پر بات شروع کر ہی دے تو اس کو غیر متعلقہ سواات یا الزامات سے زچ کر دیا جائے گا

پیر، 22 اکتوبر، 2012

حقوق آدم اور مولوی

محفل میں بات چل پڑی
کہ
شیطان کی ذاتی زندگی اور نظریات اور مذہب کیا ہے؟
اور
کس کام سے شیطان ہے؟
بتانے والے نے بتانا شروع کیا
کہ
اس کا نام عزازئیل تھا!۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ
عزازئیل آدم کی تعمیر کا بھی شاہد ہے
کہ جب اس نے ادم کا بت دیکھا تو یہ اس میں داخل ہو کر کبھی ناک سے نکل جاتا اور کبھی کان سے داخل ہو کر منہ سے نکل جاتا
اس نے رب سے یہ بھی کہا کہ
یہ کیا چیز بنائی ہے اتنے سوراخوں والی؟ اس چیز کو مجھے سونپ دے میں اس کو سیدھا کردیتا ہوں!۔

رب کا بڑا ہی عبادت گزار ، فرمانبردار ۔ حتی کی شرک سے بھی بہت دور ، خالص توحید والا۔
اس نے زمین کے چپے چپے  پر سجدہ کیا ہوا ہے
رب کی ربوبیت کی حقیقت کا نزدیک سے شاہد!۔
جنت میں ایک جھولا بنا ہوا تھا اس کے لئے  جس پر بیٹھ کر یہ فرشتوں کو رب کی ربوبیت کا علم دیا کرتا تھا
فرشتے اس کے اس جھولے کو اگے دھکیلتے جاتے تھے
اور "وہ" ان کو علم کی باتاں بتاتا جاتا تھا
یعنی کہ فرشتوں کا بھی استاد!
اس کا کام  رب کی عبادت اور اسی کا نام جپنا تھا!
عبادت گزار ہر وہ عبادت کرتا تھا جس جس سے کہ رب راضی ہو
رب کی رضا کے حصول کے لئے اس نے جتنی کوشش کی ہے اتنی کسی اور مخلوق نے کم ہی کی ہو گی

جب بات یہاں تک پہنچی تو
سننے والوں میں سے ایک نے پوچھا
کہ پھر کیا ہوا کہ ، ایک عبادت گزار ، کو رب نے ناپسند کر دیا ؟

بتانے والے نے بتایا کہ
پھر ایک دن رب نے "اس" کو حکم دیا کہ
یہ ہے آدمی ! اس کی رسپکٹ کرو یعنی کہ آدم کے حقوق کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے ۔ اس نظام کے تحت میرے حکم سے ان کو ادا کرو!!!۔
تو
عبادت گزار نے رب کی عبادات کو ترجیع دی اور بندے کے حقوق ماننے سے انکار کر دیا
حالنکہ ان حقوق کی ادائیگی کا حکم بھی "وہی رب" دے رہا ہے ، جس کی عبادت ، عبادت گزار کرتا ہے
اس لئے
عبادت گزار عزازئیل  حقوق العباد کے انکار سے شیطان ہو گیا!!!۔
سننے والوں میں سے سے ایک نے سوال جڑ دیا
کہ
سر جی
یہ اپ نے شیطان کا "سی وی " بتایا ہے
کہ
ہمارے زمانے کے عبادت گزار مولوی کا؟؟
جو وظیفے پر وظیفے اور ثواب پر ثواب کے طریقے بتاتا ہے
اور اولاد ادم  میں سے بہت سوں کو کم تر جانتا ہے!!۔

 شیطان کی پرسنل ہسٹری بتانے والے نے اس سوال کا کوئی  جواب نہیں دیا تھا
اس لئے
اپ بھی امریکیوں کی طرح کندھے اچکا کر ، پنجابیوں کی طرح کہیں
سانوں کی!!!۔

اتوار، 21 اکتوبر، 2012

سوشل میڈیا کی تعریف

سوشل میڈیا؟
اج کل پیشہ ور لکھاری لوگ سوشل میڈیا کو کوسنے دے رہے ہیں
کہ ان کے پیٹ پر لات لگنے کا اندیشہ ہے،
اسی بات سے ان کی علمی سطح کا اندازہ لگا لیں کہ
ان کو رزق کی ترسیل کے نظام کی بھی سمجھ نہیں ہے
اور سوشل میڈیا کے جغادری لوگ
اس بات کا لکھ رہے ہیں کہ جی ہاں سوشل میڈیا میں سچ اور جھوٹ اس طرح ملا ہوا ہوتا ہے کہ
کبھی کبھی علیحدہ کرنا دشوار ہوتا ہے
لیکن میں اس دشواری میں سے کم ہی گزرا ہوں
کیونکہ میں نے سوشل میڈیا کی ڈیفینیشنز مقرر کر لی ہیں
میرے نزدیک سوشل میڈیا کا ایک درخت کی طرح کی مثال لے لیں

تو
اس درخت کی جڑیں اور تنا ہیں بلاگ لکھنے والے
اور اس کی شاخیں اور پتے ہیں ان بلاگ پر تبصرے کرنے والے
یہ درخت بو(خوش یا بد) دیتا ہے
جس بو کی ترسیل کا بڑا ذریعہ ہیں فیس بک اور ٹویٹر
اور چھوٹا ذریعہ ہیں اردو کے سب رنگ جیسی سائیٹیں!۰
http://urdu.gmkhawar.net/
اور اس درخت کا پھل ہیں وہ رویے جو لکھاریوں کی تحاریر سے پیدا ہوتے ہیں
جیسا کہ اس موسم کا پھل ہے "انگل"جی ہاں انگل جو اج کل میڈیا کے پیشہ وروں کو پہنچ چکی ہے
اس درخت کے علاوہ کی جو چیزیں ہیں وہ ہیں
جڑی بوٹیاں اور جھاڑ جھنگاڑ!۔
جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں چار قسم کی
ایک وہ جن کی دوائیاں بن سکتی ہیں
دوسری وہ جن کے زہر بنتے ہیں
تیسری وہ جن کے زہر بھی بن جاتے ہیں اور دوائیاں بھی

اس لئے میں، سوشل میڈیا میں بلاگروں کی تحاریر کو سنجیدگی سے لیتا ہوں
چاہے یہ تحریر فیس بک پر ہو یا کہ بلاگ لکھاری کی بلاگ سائیٹ پر
اور اس پوسٹ پر ہونے والے کومنٹس کو پوسٹ کی نوک پلک سنوارنے والی چیزوں کے طور پر لیتا ہوں
ایک بلاگ لکھنے والی کی تحاریر سے ہم اس بلاگر کے رویے اور خیالات سے واقف ہوتے ہیں
میں جو اس وقت اردو کے بلاگروں میں سب سے پرانا ایکٹو بلاگر ہوں
تو میں جانتا ہوں کہ اس وقت اردو کے بلاگروں کے رویے کیسے تیار ہوئے
مذہبی جنونی بھی اس دنیا میں ائے اور چلے گئے ، جھوٹ اور کاپی پیسٹ بھی ایا اور چلا گیا
اب ماحول اس طرح کا تیار ہوچکا ہے کہ
اس تالاب میں گندی مچھلی کے لیے ماحول خراب  کر دیا جاتا ہے

پس ثابت ہوا کہ بلاگ لکھنے والے ہی اصلی سوشل میڈیا ہیں
اور اپ دیکھیں گے کہ یہی لوگ سوشل میڈیا کی وکالت کریں گے اور یہی لوگ سوشل میڈیا کے اصول بھی وضع کریں گے
اور انے والے سالوں میں سوشل میڈیا کے فورمز ، گروپس اور دیگر، انہی بلاگورں کی تحاریر کو حوالوں کے طور پر استعمال کریں گے

جمعرات، 11 اکتوبر، 2012

ہیپی اینڈ اور استعمال ہوتے ہوئے لوگ

ںوٹ : مندرجہ ذیل تحریر ان لوگوں کے لئے ہے جو میڈیا کے ذریعے  برین واشنگ کرنے والوں کی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش میں رہتے ہیں

افغان طالبان اور پاکستان کے حکومت مخالف گروپس کو خلط ملط ناں کریں
اس طرح اپ کو سمجھ لگے کی کہ
کہاں کہاں بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالی جارہی ہے
-----------------------------------------------
لو جی یہ ہے پاک طالبان کی کوالٹی
کہ
ایک بچی کو قتل کرنے کے پروجیکٹ تک کو کامیابی سے مکمل نہیں کر سکے
اور ان کی دہشت اور وحشت اور شر پسندی
اور پتہ نپہں کہ کیا کیا سے
پاکستان کی سلامتی کو خطرات سے قوم کو ڈرایا جارہا ہے
-------------------------------------------------
جس کو پرجیکٹ ہی بچی کو زخمی کرنے کا دیا گیا ہو
اس کی کامیابی بھی تو یہی ہو گی ناں جی کہ
بچی زخمی ہو گئی!!
-------------------------------
امن مارچ میں کچھ دن پہلے  ہی عمران کے ذریعے پیغام پہنچایا گیا ہے کہ
لوگو ! امن کی خواہش پیدا کرو
اور بہت سے لوگوں کو بیرون ممالک "پیس پروگرام" کروایا گیا ہے
کہ امن کی کوشش کرو
-----------------------------------------------
ایک معصوم بچی کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والے شر پسند امن مخالف لوگ
امن مارچ کے کچھ ہی دن بعد اپنے مشن میں ناکام
امن کی کوشش کرنے والوں کی فتح دشمنوں کے منہ کالے
ٹینشن کے کچھ دن
گولی نکال لی گئی ہے
ہیپی اینڈ!!!
----------------------------------------

جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

امن پروگرام ، اور پاک لوگ

جاپان سے دبئی کے لئے پرواز تھی میری پچھلے ہفتے
اکانومی کے کانٹر پر کھڑا تھا کہ فرسٹ کلاس کے کانٹر پر دو شلوار قمیض پہنے پٹھان کھڑے دیکھ کر بڑے رشک کا احساس ہوا
لاؤنج میں ان سے ملاقات ہو گئی
فارسی میں باتیں کرتے دیکھ کر احسا س ہوا کہ
بندے افغان ہیں
ان میں سے ایک سے بات شروع کی تو علم ہوا کہ اغان ہی ہیں
اور جاپان کی حکومت کی سکیم کے تحت جاپان دورے پر اآئے ہوئے تھے
اور پروگرام تھا
پیس پروگرام
یعنی کہ امن پروگرام
اج صبح یہان شارجہ میں ایک ریسٹورینٹ پر پاک ٹی وی دیکھنے کا اتفاق ہوا
 عمران صاحب کے امن مارچ کا پروغرام چل رہا تھا
جس مٰیں ان کے ساتھ
شامل ہوں گے بتیس امریکی ، اور وہ والی خاتون  جس کے اسلام قبول کرنے کے بڑے چرچے ہیں
سابق برطانوی وزیر اعظم کی سالی !!
پروگرام کروانے والے تھے جی حامد میر صاحب
جن کے متعلق میرا خیال ہے کہ یہ صاحب فرشتوں کے ایجنڈے کا مشہوری کا ذمہ دار بندہ ہے
بات کرنے کا مقصد ہے کہ
یہ کیا بات ہے کہ جو بھنک "آسمانوں" سے نکلتی ہے
وہی بات پاکستان کے بڑوں کے منہوں سے نکلنے لگتی ہیں
اور اس بات کو خاص پاک سیانوں کا آئیڈیا بتا کر بیان کیا جاتا ہے
کہ یہ امن پروگرام جاپان کی ایک سرکاری تنظیم کے کرنے کی بھنک ملتی ہے اور
پاکستان میں وہی الفاظ استعمال کرنے والے سیانے نکل آتے ہیں
یہ بات ہے کہ
آئیڈیا بھی کہیں اور سے اتے ہیں اور امداد بھی
اور حکم بھی اور حکمران بھی
کیا ہم آزاد ہیں
یا کہ یہ ہے آزادی
ہم کیا قوم ہیں
ادمی مشاہدے کا غلام ہے
میرا مشاہدہ مجھے امریکیوں کا غلام براستہ فرشتے دیکھاتا ہے
ہم وہ قوم ہیں کہ جس کے لکھنے والے بھی اوریجنل آئیڈیا نہیں رکھتا
سیاستدان بدذات خود ہی اوریجنل نہیں ہے
میری قوم کی سوچ تکنیک ، علم کچھ بھی اوریجنل نہیں رہا ہے
میری قوم کی سوچ ، علم تکنیک اگر دوسروںکے مقابلے میں کم تر بھی ہو تو اندیشہ نہیں ہے کہ
کبھی بڑھیا بھی ہوا ہی جائیں گے
لیکن
ہر چیز ہی نقلی اور اس پر لیبل ہیں لگاتے ہیں اصلی کا
جب میں نے یہاں تک لکھ لیا تو یہاں میرے پاس جاپان میں پی ٹی آئی کے تھویاما کے صدر بھیٹھے ہیں
انہوں نے عمران کی وکالت شروع کر دی اور انہوں نے بتایا ہے کہ عمران کا یہ امن پروگرام کا آئیڈیا تین مہینے پہلے کا ہے
خاور کی یہ تھریر پڑحنے والے سوچیں گے کہ خاور کی سوچ محدود اور تعصب بھری ہے
لیکن
میں کہوں کا گا کہ امن پروگرام کی بھنک مجھے جب ملی تو اس وقت لوگ جاپان کا دورہ کرکے واپس جا رہے تھے
یعنی کہ یہ بات کچھ ماہ پہلے ہی شروع ہوئی ہو گی تو اج مجھ جیسے عام سے بندے کے مشاہدے میں ائی ہو ناں جی!!
میں عمران کے خلاف نہیں ہوں
میں اس سسٹم کے خلاف ہوں جو عمران کو یا شریفیں کو یا بھٹو کو یا کسی کو بھی سیاستدان بنا کر اور قوم کا نجات دہندہ بنا پیش کرتے ہیں اور قوم کی نجات اور بھی دور ہوتی چلی جاتی ہے

منگل، 18 ستمبر، 2012

خود کلامی

آج 18 آگست ہے
مجھے گھر سے نکلے چوبیس سال ہو گئے
تئیس سال کی عمر تھی
اج میں سنتالیس کا ہوں
کچھ پیسے کما کر واپس اپنے وطن میں کام کروں گا
یہ خواب لے کر نکلا تھا
پھر
ہم زمانے میں کچھ ایسے بھٹکے کہ
ان کی بھی گلی یاد نہیں والی حالت ہے
پنجابی کا شعر
بھلدے بھلدے فریاداں دی عادت اوڑک پنچھی بھل جاندے نیں
سہندے سہندے ہر سختی اخر لوکی سہ جاندے نیں
مونہوں پاویں گل ناں نکلے ہونٹ پھڑک کے رہ جاندے نیں
اینج وی اپنے دل دیاں گلاں ، کہنے والے کہ جاندے نیں

کیا سوچ کر گھر سے نکلے تھے
کہ  کس کے لیئے کیا کریں گے ، کس کو کیا دیں گے
اور کس کو کیا کر کے دیکھائیں گے
لیکن ہوا کیا
کہ
وہ خواب و خیال کی کھیتیاں سب زمین کے شور سے جل گئیں
بھیڑیں پالنے کا پروگرام تھا
کہ  بیٹریاں بنانے کا کارخانہ
کچھ زمین خریدنے کی خواہش تھی کہ آئیس کریم کی فیکٹری
ماں کو سونے کے کنگن لے کے دینے تھے کہ دادا جی کو حج کروانا تھا

خواہش وہ خواہش ہے جو مرنے تک بھی پوری  ہو
جو دل ہی دل میں رہ جائے اسے ارمان کہتے ہیں
کچھ خواہشیں تھی کہ پوری ہوئیں
اور کچھ خواہشیں کہ
بس دل میں ارمان بن کے رہ گئیں ہیں
ایک  کسک سی اٹھتی ہے ، سینے میں
ایک لہر سی اٹھتی ہے خیالوں کی  پھر یہ لہر سونامی بن کے صبر کے بندہن توڑ کر  انسوؤں  کی شکل میں نکلتا ہے
اب تو عمر کے ساتھ انسو پی جانے کے فن میں تاک ہوگیا ہوں
لاگوں کے سامنے اس فن کی فنکاری میں تاک
لیکن تنہائی میں
میں ہوتا ہوں اور میرا رب
میرا رب کہ جو مجھے شرمندگیوں سے بچاتا ہے

ایک پرانا گانا ہوا کرتا تھا
جیدہا دل ٹٹ جائے
جدہی گل مک جائے
جنہوں چوٹ لگے 
او جانے
دکھی دل حال کی جانن لوک  بے گانے!!

بے وطنی کا احساس  ، اجنبیت نے تو ہم زاد کی جگہ لی ہے
تئیس سال کی عمر  میں وطن چھوڑا
بے وطنی کے چوبیس سال  ، وطن سے زیادہ بے وطنی کی زندگی کہ پھر بھی بے وطنی کا احساس!
وہ گیت کانے کے لئے کہ جس گیت کو انسان روز اوّل سے گاتا چلا ایا ہے کہ جس کے گانے سے آدم کو دیس نکالا ملا تھا
گلی گلی دیس بدیس  ، کہیں انترہ میں نے اٹھایا اور لے میں لے ملانے کو ساتھی ملے اور کہیں کسی کے انترے میں میں نے لے ملائی اور امرت دھارے کا وہ ازلی گیت گایا!
ایک اجنبیت تھی کہ ہر ساتھی کے ساتھ رہی ، ایک مانوسیت بھری اجنبیت!
بھیڑ میں اکیلا ، بھرے کمرے میں تنہا!
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا راستہ بھول گیا
کہ اپنی جنم بھومی میں اجنبی کی طرح کا وہ احساس کہ جو وینس کی آبی گزرگاہوں پر تھا کہ اگر ان کو گلیاں کہ سکیں تو یا کہ روم کی سنگی راہیں کہ پیرس کی گلیاں !
لندن ہو کہ زمین کی پشت پر واقع ملک کے شہر ، ہر جگہ جس اجنیت نے دل میں کسک پیدا کی
وہ کسک ایک دن مجھے اپنے گاؤں میں بھی پیدا ہوئی
کہ میں ناں ناں یہاں کا رہا ناں وہاں کا

پیر، 17 ستمبر، 2012

زرا ہٹ کے

ٹرینڈی کہتے هیں جی امریکی اس بات کو
لیکن جب ایک ٹرینڈ بن جائے تو کسی کو تو ایسا قدم اٹھانا هی پڑے گا که لوگ بھالے ٹرینڈ سے نکلیں
پاکستان ميں هونے والے کسی واقعے پر جب اخبار لکھتے هیں تو بلاگر بھی اسی پر لکھنا شروع هو جاتے هیں  حالانکه ان کو معاملے کی تعلیم اتنی هی هوتی ہے جتنی اخبار والوں نے دینی مناسب سمجھی هوتی ہے
تو ایسے وقت ميں کوشش کرتا هوں که اچھو ڈنگر یا گڑتھو چوہڑے کی کوئی بات لکھ کر ٹرینڈ کو کوما یا فل سٹاپ لگا دوں
فلسطین کے غم میں پریشان لوکاں کو کون سمجھائے که میرے اپنے پاکستانی کن دکھوں کے شکار هیں
میرے پاکستانی ریھڑیوں والے ٹانگے چلانے والے (اج کے دور میں چاند گاڑی)دوکان دار مزدور لوگ جن کے خاندان میں ناں کوئی سیاست دان ہےا ور ناں هی کوئی افسر
ان کو تو سپاہی بھی سب سے پہلے پوچھتا ہے
اوئے هوندا قون ایں؟؟

میں موٹر سائیکل پر تھا
پر کیا ! موٹر سائیکل کو گھسیٹ کر ون وے والی سڑک پر فٹ پاتھ کے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہا تھا
گوجرانوالہ میں پوسٹ افس کے سامنے
سپاہی نے روک لیا!
اس نے پوچھا هوندا کون ایں
کیوں جائداد بیچنی ہے، یا اپنا مل لگوانا اے ؟؟
اوئے میں موٹر سائیکل بند کردیاں گا
اک ہزار ڈالر  دی اے ، اے موٹر سائیکل ،تے میں اینہوں ایتھے اگ لگا کے گھر چلا جاواں گا
تے دس ہزارڈالر لگا کے تیری انکوائری لگوا دیاں تے ؟
تسی تے غصہ کرگئے اوسر جی هم بھی یہاں صبح سے دھوپ میں کھڑے هیں !!سپاہی کے گھگیانے پر
میں نے پوچھا
سو روپیا کافی اے؟
جی جی!
لیکن اگر میرے پاس جاپان کی کمائی ناں هوتی اور ميں اس کو بتادیتا که کمیار هونا واں ،
تے؟؟
موٹر سائیکل بند تھانے میں ہوتی تشریف  لال اور رشوت بھی دو ہزار اور سفارشی بھی ڈھونڈنا پڑتا جی
اور دولت کے اعتماد نے صرف سو روپے میں کام چلالیا اور سپاهی کے منگتے پن کی بھی تسکین هو گئی
چلو جی یہ  تو کام چل گیا پیسے سے
اور پیسے والوں کے ہی چلتے ہیں پاکستان میں
لیکن عام پاکستانیوں کا کیا بنے گا؟
سندہی  بھی اور بلوچی بھی پنجابی کا شکوہ کرتے ہیں
لیکن پنجابی کا اپنا برا حال ہے
پنجابی سپاہی
پوچھتا ہے ہوتا کون ہے
اور بندے کی مالی کوالٹی کا اندزہ لگا کر تڑی لگاتا ہے
اور غریب کو ماں بہن کی گالی دیتا ہے
اور رشوت لیتا ہے
اور یہی سپاہی ۔
افسر سے گالی کھاتا ہے اور  رشوت میں لی رقم کے تحائف خریدتا ہے
افسر کی بیگم کے لئے
پنجابی رینجر
دہشت کی علامت ہے
کراچی کے اصلی دہشت گردوں کے لئے
لیکن
بے چارہ خودف دہشت کا شکار ہے کہ
پنڈ(گاؤں) میں  ماں کو پیسے بھیجنے ہیں کہ بہن کی شادی کے لئے جہیز تیار کرئے
فوجی ، گولی کھاتا ہے
گالی کھاتا ہے
کسی "اور" کے تمغے اور تلوں کے لئے


بس جی میرا تو پاکستان ہی گواچ (گم ہو) گیا ہے
کیا اپ کا پاکستان گم نہیں ہوا ہے؟
پاکستان اپ کا بھی گم ہو چکا ہے
بس
اپ کو ابھی پتہ نہیں چلا ہے

اتوار، 16 ستمبر، 2012

واٹر کِٹ

بوزنوں کی سر زمین پاکستان میں جس کو بھی قریب جاکر دیکھو ، چھوٹا بندہ نکلے گا!
کسی نے بتایا کہ
پاکستان میں ہر بڑے بندے کو جب قریب سے دیکھو گے تو چھوٹا بندہ نکلے کا
سننے والے نے پوچھا کہ
اور ہر چھوٹا بندہ؟؟
تو جواب ملا کہ
چھوٹا بندہ ہے ہی چھوٹا
دور سے بھی اور قریب سے بھی!!
ڈاکٹر ثمر مبارک!!
جن کی بڑکوں اور واٹر کِٹ امیدوں سے پاک قوم خواب دیکھ رہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے

اس خبر کے مطابق فلحال تھر کے کوئلے والے خواب پر مٹی پاؤ کی بات ہے اور بعد میں ماحول تیار کرکے بتایا جائے گا کہ
اس منصوبے سے اب کچھ اور لوگ موج  اڑائیں گے
اور خاور کے علم کے مطابق!!
کچھ اس طرح ہے کہ
تھر کا کوئلہ  ،  تھر کی ریت  سے کوئی تین سو میٹر نیچے ہے
جی ہاں ریت کے نیچے!!
کوئلے کو نکالنے کے لئے سرنگ بنا کر کان کنی کی جاتی ہے!
اور ریت میں سرنگ بن نہیں سکتی!!
اب کوئلہ  نکالنے کے لئے ریت کو ہٹانا پڑے گا۔
جس پر سالوں کا وقت اور اربوں میں ڈالر خرچ ہوں گے
یہ تھر کے کوئلے کا منصوبہ بھی کسی پاک سیانے یا ڈاکٹر ثمر مبارک کا نہیں تھا
اس کو ورڈ بنک نےایک کروڑ ڈالر کے خرچ کے بعد  لوکان کو بتایا تھا
اور ورڈ بنک کے اندازوں کےمطابق ، اس کوئلے کو نکال کر بجلی بنانے تک کوئی دس سال کا عرصہ اور
کوئی بارہ بلین ڈالر کا خرچ ہو گا
اب جی
چلو جی ریت ہٹا دی ۔
تو اس کے بعد کوئلہ نکالنے کے کام میں پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔
تھر اور پانی؟؟
چلو جی دریائے سندہ سے نہر نکال لیں گے
لیکن
دریائے سندہ تھر سے نیچا بہتا ہے
پانی اوپر کیسے چڑہاؤ گے؟
سب سے بڑی بات کہ
پاک قوم
اور
نہر نکال لے!!
انگرزوں کی بنائی نہروں پر پل بنانے ناممکم بنے ہوئے ہیں
اور نئی نہر!!

پاکستان میں ایک بات بڑی مشہور ہے کہ
چین نے گیارہ سنٹ یونٹ کی قیمت پر پاکستان کو بجلی دینے کی آفر کی تھی
لیکن پاکستان  اپنی بد اندیشی کی وجہ سے یہ افر رد کر دی
لیکن اس افواہ کی حقیقت یہ ہے کہ
چین کی ایک کمپنی نے 1997 میں تھر کے کوئلے کو نکال کر اس کو استعمال کرکے اس سے بنائی جانے والی بجلی کو گیارہ سینٹ میں پاکستان کو فروخت کرنے کی بات کی تھی۔
پنجابی میں کہتے ہیں
تہاڈا ای سر تے تہاڈیاں ای جوتیاں
اور اب جب اس منصوبے پر کروڑوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں
اب بھی باز آ کر اسی چینی کمپنی( چینی کمپنی ہے ، چینی حکومت نہیں) ٹھیکہ دے دیتے ہیں تو؟
ڈالر کی قدر میں کمی ، تیل کی قیمت میں اضافہ اور دیگر عوامل کی وجوہ سے
وہ کمپنی بھی اس قیمت پر راضی نہیں ہو گی
اور اس سے زیادہ قیمت کی بجلی پاکستان افورڈ نہیں کرسکتا

اس کو پنجابی میں کہتے ہیں
سو گنڈے وی کھانا تے سو لتر وی!!
کسی  گاؤں میں بندے نے چوری کی
پکڑا گیا !
مال برامد ہو کر مالکوں کو واپس بھی مل گیا
لیکن
پنچایت نے چور کو سزا سنائی کہ
یا تو پیٹھ پر سو لتر کھا لو
یا سو عدد کچے پیاز کھا لو!
چور نے پیاز کھانے کو اسان جانا اور پیاز کھانے کی سزا قبول کر لی
دس عدد کچے پیاز کھانے تک  انکھوں کے انسو اور دیگر کیفیات سے تنگ ٓ کر اس نے کہا کہ
نہیں میں سو لتر کھا لیتا ہوں
دس لتر لگنے تک چور بد حال ہوا اور
پیاز کی سزا کو بھال کرنے کی درخواست کی۔
اسی طرح کرتے کرتے اس چور نے کوئی اسی نوے پیاز اور سو لتر بھی کھا لیے جی!۔

جو میں نے لکھا ہے اس کو دوسروں کی سائینسی سے دیکھنے کی بجائے اپنی عقل سے سوچیں کہ
تین سو میٹر موٹی ریت کی تہ کو کیسےہٹائیں گے اور اس ریت کو کہاں رکھیں گے؟؟
چلو ایک منٹ کے لئے تصور کر لیں کہ اپ ایک کلو میٹر سکوائر سے ریت کو ہٹا لیتے ہیں جس کو دو کلو میڑ کے علاقے میں رکھ لیتے ہیں ، تو اس ریت سے اس دو کلو میں میں ڈیڑہ سو میٹر اونچا ریت کا ٹیلہ بن جائے گا جو کہ اپنی بنیادوں میں ڈھلوان ہو گا جس کی وجہ سے تین کلو میٹر کا ایریا گھیرا جائے گا
اور یہاں سے ریت نکالی ہے وہاں سے ڈھلوان کی وجہ سے ادہ کلو میڑ کے ہی علاقے سے کوئلہ نکالے کا ماحول بنے گا ۔
اب جب یہان سے کوئلہ نکال لیں گے تو اگلے علاقے میں ریت تین سو میٹر پلس ڈیڑہ سو میٹر ساڑھے چار سو میٹر ہے!!!!َ۔
اس ایک سوچ کے بعد بھی تکلیف کریں اور زرا کوئلے کی کان کنی پر کافر لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں پڑہیں کہ کیسے نکالا جاتا ہے ؟
کوئلہ جل اٹھنے والی چیز ہونے ک وجہ سے (اختصار کے ساتھ بتا رہا ہوں )توڑتے ہوئےپانی کی ضرورت ہوتی ہے
بلکہ بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے
وہ پانی تھر تک لانے کے لئے کیا کیا جائے گا
اور کیسے لایا جائے گا؟
باقی اپ خود بھی سوچیں ڈاکٹروں کی سوچ تک ہی ناں رہیں کہ
پاکستان میں جھوٹ اتنا زیادہ ہے کہ
اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔

 

ہفتہ، 8 ستمبر، 2012

گم کردہ پاکستان کی تلاش


سکائیپ پر  خاور کنگ کے موڈ میں لکھا ہے
گم کردہ پاکستان کی تلاش !!!
لیکن کم ہی لوگوں کو اس کی سمجھ لگتی ہے
کہ
اللہ عالی شان جو کہ عقل کل ہیں ان کا بھی فرمان ہے کہ
اکثریت سمجھ نہیں رکھتی
اور نشانیوں کا بتاتے ہیں  فکر کرنے والوں کے لئے
سوچ رکھنے والوں کے لیے
غلام ایم یا گاما پی ایچ ڈی!!
بڑا دور اندیش بندہ ہے
کسی خرابی کی جڑوں کا اور اس کے حل کا سوچتا ہے
لیکن اس خرابی کے پیدا کرنے والوں  کی اسی خرابی پر سیاست کا بڑا مخالف ہوتا ہے
گم کردہ پاکستان کی تلاش!
حجاب کے اج سے پچپن سال پہلے والے اصول اور معاشرے کی واپسی
ریلوے ، عدالت ، محکمہ تعمیرات ، سیاست ، اور بہت سی چیزوں کی واپسی
یعنی
گم کردہ پاکستان کی تلاش!
یا یہ کہ لیں کہ پاکستان کی تلاش
مشرقی گیا مغربی گیا
باقی رہ گیا جی
لُنڈا پاکستان
جس میں کلمہ پڑہنے والے ہندؤں کی اکثریت رہتی ہے
جن کے معاشرے میں  برہمن(سید) کشتری(فوجی) ویش(عوام ) اور شودر ( اقلیتیں)  ہوتی ہیں ۔
پرستش کے لیے ان کے دیوتا( حضرت  و حضرات) ہوتے ہیں
گم کردہ پاکستان کی تلاش!

لیکن یہ سب ہندو کی ایک بھونڈی نقل کے سوا کچھ نہیں کہ جس طرح یہ مسلمان کہلواتے ہیں لیکن  ہوتے منافق ہیں اسی طرح ہندو کی طرز معاشرت رکھتے ہیں لیکن
ہندو  لفظ سے الرجی رکھتے ہیں !
ہندو ایک طرز معاشرت ہے
جس میں  صدیوں نہیں ! ہزاروں سال پہلے " لنگ جی مہاراج" کی بھی پرستش ہوتی تھی
لنگ جی مہاراج کے مندر ہوا کرتے تھے
کہ نسل انسانی کو بڑھانے میں  "ان " کی کرپا کی ضرورت ہوتی تھی
لنگ جی مہاراج کو خوش کرنے کے لئے  اور ان کی کِرپا کے "انت " کے لیے
کاما سوترا کی عبادات اور عمل ہوا کرتے تھے
مندجہ بالا بات سے اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہیدا ہو کہ خاور اس زمانے کو واپس لانا چہاتا ہے
تو جی ایسا نہیں ہے
یہ صرف اس لئے لکھا ہے کہ معاشرے کیسے اصولوں میں ترامیم کرتے رہتے ہیں

معاشرہ ترقی کرتا گیا
ابادی بڑہی تو
لنگ کی مہاراج کرپا کے جوش کو کم کرنے کے اصول وضع کیے گئے
جن کو پردے کے اصول کہ سکتے ہیں
جن میں عورتوں کو ان کے رشتوں کے مطابق خود کو چھپانے کے اصول بنائے گیے
جن کا میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں ذکر کیا تھا

جی ہاں
صدیوں نہیں ! ہزاورں سال پہلے
جو لوگ اس بات کے مغالطے کا شکار ہیں
کہ ہند میں کو کچھ ہوا اسلام کے انے کے بعد ہوا !
تو ان کے لیے
ایک بات کہ
ایک اردو کے بلاگر ہوا کرتے تھے بد تمیز !
ان کا کہنا تھا کہ جاہل کی سب سے بڑی سزا یہ ے کہ اس کو علم کی بات ناں بتائی جائے!!
اس لئے یہ علم کی باتاں اپ کے لئے نہیں ہیں جن کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے
جن کے خاندانوں کی روزی روٹی کا دارومدار ہی اسلام  کے نام ہر ہے
ان کو علم کی نہیں
بلکہ زیادہ سے زیادہ جہل اور مغالطوں کی ضرورت ہے
گم کردہ پاکستان کی تلاش!
کہ جو کچھ ہم میں تھا اس کو تباہ کیا گیا اسلام کے نام پر
اور اب اسی تباہ کر دی گئی رسوم کو مشرف اسلام کرکے ان کے دن منا کر
ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں
میں ایک مسلمان ہوں
میں ایک اللہ کو مانتا ہوں
اس لئے مندورں خانقاہوں ، مزاروں اور داروں سے دور رہتا ہوں
میں مسلمان ہوں
انسانوں کی برابری کا یقین رکھتا ہوں
اس لیے پاک برہمنوں (سید) لوگوں کو بھی کسی چوہڑے چمار یا کمہار کی طرح کا انسان ہی سمجھتا ہوں!
اگر کوئی ہندو  کسی سید کو ملیچھ کہے تو اس بھی اتنا ہی برا سمجھتا ہوں جتنا کسی پاک کے کسی ہندو کو پلید کہنے کو!
میں ایک مسلمان ہوں
اس لیے غیر اللہ کے نام پر  نذر نیاز یا بھوجن نہیں دیا کرتا
مجھے اسلام کی تبلیگ کرنے والوں نے احادیث کے نام پر بتایا ہے کہ
علم مومن کی میراث ہے  جہاں سے بھی ملے مومن اس کو اپنا مال سمجھ کر حاصل کرلیتا ہے
اور میں اس حدیث نامی قول سے قطع نظر  علم کی بات لےلیا کرتا ہوں
لیکن
پاکستان کے پاک لوگ
اگر علم کالی چمڑی والے سے ملے تو؟
ان کا مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے
جس طرح ہندو کا دھرم بھرشٹ ہو جاتا ہے


اج اتنا ہی سہی
کام پہ بھی جانا ہے!!

بدھ، 5 ستمبر، 2012

حجاب اور ہندو رسوم

حجاب حجاب ہو رہی ہے جی
زرا غیر ملکی زبان کا لفظ ہو ۔ اور غیر ملکی رسوم کی چیز ہو تو پاک لوکاں کے جذبات بڑے عروج کو پہنچتے ہیں
چنری، گھونکھٹ کا نام نہیں لینا ہے
کہ
دیسی سی چیز ہے
اور کوئی اہل علم اس کو پاک مذہب کی بجائے ، ہندو کی رسوم کا ناں بتا دے
قران کے مطابق
عورتوں کو بال کو چھپانے اور جسم کی آرائیش کی جگہوں کو نمایاں ناں کرنے کا حکم دیا ہے جی  اللہ عالی شان صاحب سچے پادشاہ نے !!!
جدید تعلیم سے ناآشنا دیہاتی خواتین کھیوتں میں کام کررہی ہوں یا جانوروں کی دیکھ بھال! ان کا ڈوپٹہ ان کے سر پر  ہی ٹکا رہتا ہے
دیسی ڈوپٹہ اپنی ساخت میں ایسی چیز ہے کہ بالوں کو اور اوپری جسم کو بڑے بہترین طریقے سے ڈھانپتا ہے
لیکن یہ ڈوپٹہ  خالصتاً  دیسی چیز ہے
برصغیر میں مسلمان خواتین اس کا استعال کرتی ہیں
تو ہندو اور سکھ خواتین بھی اس کو استعمال کرتی ہیں
ہندو میں اس ڈوپٹے کے استعمال کےاصول  پاک لوکاں کے اصولوں سے کہیں سخت ہیں
ایک ہندو بی بی کو گھونگھٹ کا پابند ہونا پڑتا ہے
لمبی گھیر دار سکرٹ (گھگرا) پہن کر سارے جسم کو چھپانے کو ساتھ ساتھ
جیٹھ ، دیور ، سسر اور کئی نزدیکی رشتے داروں سے بھی منہ چھپانا ہوتا ہے!
گھر کے کام کاج ۔  چولہا چوکا۔ پوچا پاچی ۔ اور گھر  گرستی کے سارے کام بھی جاری رہتے ہیں اور گھر میں اتے جاتے  جیٹھ سسر یا دوسرے اس عورت کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے
پردے کا یہ طریقہ  میں نے اپنی برادری کی خواتین میں بھی دیکھا ہے
ہم جو کہ مجھ سے شروع کریں تو چودہ نسل  پہلے اسلام میں داخل ہو چکے ہیں
بابا مسو تھا جس نے اسلام قبول کیا میرے اباء میں سے اور اس نے اپنے بیٹے کا نام رحیم رکھا تھا
ہمارے گھورں میں میری چاچیاں اور دادیاں اسی طرح پردہ کیا کرتی تھیں
اور ہم کوئی شاہی نسل کے تو ہیں نہیں کہ جن پر کام کرنا اور کمی کہلوانا گالی کی طرح لگتا ہے
اس لیے ہم کام کرتے ہیں اور ہماری بی بیاں مردوں کے شانہ بشانہ کام بھی کرتی تھیں اور
جن رشتوں سے گھوگھٹ نکالنا ضروری تھا ان سے گھونگھٹ بھی نکالتی تھیں
لیکن کیونکہ ہم مسلمان تھے اس لیے  میری ماں ہو کہ چاچیاں  یا دادیاں ان سب کو داج( جہیز) میں برقعے بھی ملے ہوئے تھے
لیکن  میں نے یہ برقعے اس وقت ہی دیکھے ہیں جب  پیٹیوں )(بکسوں) سے نکال کر ان کو دھوپ لگائی جاتی تھی
ورنہ جی کام کرنے والے خاندان کی عورتوں کو برقعہ پہننے کا موقعہ ہی کب ملتا تھا؟
ناں تو جی ہماری بیبیوں کو شاپنگ پر جانا ہوتا تھا
اور ناں ہی سڑکوں پر سیر کی  فرصت
یہی ہوتا تھا کسی شادی بیاہ پر تو جی
یہی دن ہوتے تھے بی بیوں کے اپنے لباس نمائیش کرنے کے مواقع!!
تو جی لمبے گھونگھٹ والی چادروں کی بہار آئی ہوتی تھی جی شادیوں اور بیاہوں میں !!
جی شادیاں بھی کوئی ایک دن والی تو نہیں ہوتی تھیں ناں جی
دو راتیں تو برات ہی ٹھر جاتی تھی
لیکن کبھی پردے کا مسئلہ نہیں ہوا تھا
لیکن جی پاکستان بنانے کے بعد ہم کو
اپنی علیحدہ شناخت کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے کہ
ہر چیز میں ہماری علیحدہ شناخت ہونی چاہیے
لیکن کیا ہونی چاہیے؟؟
شوقین کوے کی طرح
بس بگلے کا رنگ ہونا چاہئے
اس کو علیحدہ شناخت کا نام دیے لیں گے
اور یہ نقل ہو گی کسی اور معاشرے کی !!
پاکستان بنایا
اور
پھر ہم نے نام بھی دیسی والے چھوڑ دئے
اللہ دتہ ، اللہ رکھا ، چراغ دین ،
اور طفیل ، مالک اور یونس جیسے ناموں سے ترقی کرتے کرتے
ایسے ناموں ہر آ چکے ہیں کہ
عربی میں چاہے سبزیوں کے ہی نام ہوں
ہم اپنے بچوں کے رکھ لیتے ہیں
حجاب کے دن پاک لوک ایک قدم اور بڑہ کر اپنے معاشرے کو عربی کے قریب کرنے کی کوشش میں ہیں
اسلام کے پردے کے مقاصد کیا ہیں ؟
اور یہ مقاصد مقامی رسوم سے کیسے بہتر طور پر حاصل ہو سکتے ہیں ؟
اس بات کی سوچ ہی نہیں ہے
کہ اوریجنل سوچ تک بند کرکے ، سوچ تک عربی کرنے کی کوشش میں ہیں
لیکن عربوں کی کم عقلی پر تو جی ان کی تیل کی دولت نے پردہ ڈالا ہوا ہے
پاک لوکاں کی کم عقلی پر ڈالنے کے لیے پردہ بھی بھیک کی صورت اتا ہے
ڈالروں اور ریالوں میں !
اہل فکر ، ان پردوں کے پیچھے کا بھی جانتے ہیں
پس یہ معلوم ہو کہ
چنری ، چادر ، گھونگھٹ ، جیسی دقیانوسی چیزیں ہندوانہ اور کافر ہیں !!
یا پھر کمی لوگوں کا پہناوا ہیں !!
اس لیے
پاک لوکان کو عربی طرز کا حجاب اور ایرانی اور عربی ڈیزائینوں کے برقعے استعمال کرنے چاہیے

جمعرات، 30 اگست، 2012

منافق اسلام

بہت سے موضوعات ہوا کرتے تھے
گفتگو کے لئے!
کچھ دہایان پہلے تک
ماہئے ، ٹپے ۔ لوک داستانیں ْ لطیفے، دوسروں کے گلے شکوے اور تعریفیں ، موسم کی باتیں ۔ ہجر و فراق کی باتیں ۔
میلوں کی یادیں ۔ سفروں کی باتیں
بہت سے موضوع ہوا کرتے تھے
پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ
ایک ہی موضوع رہ گیا جی پاکستان میں
اسلام!!!!
میرا اسلام ، تیرا اسلام ، اس کا اسلام اور کس کس کا اسلام
دماغ سکڑ کر چھوٹے ہوتے گے
لیکن یار لوگ اس کو اسلام سے وابستگی کا نام دے کر
اپنے اپنے اسلام میں سکڑتے چلے گئے
جب ان دولے شاہ کے چوہوں کو آئینہ دکھائیں مسلمانوں کی حالت زار کا
تو فرماتے ہیں
اس میں اسلام کا کیا قصور یہ تو اسلام کے ماننے والوں کا قصور ہے
تو ؟
گاما پی ایچ ڈی سوال جڑ دیاتا ہے کہ
یعنی کہ اسلام میں یہ نقص ہے کہ اپنے مانے والوں کی اصلاح بھی نہیں کرسکتا؟
یا کہ اس دین میں رہنے والے نقائیص کا شکار ہو کر ہی رہتے ہیں
تو گامے کو کافر اور  بے دین اور اس طرح کے الزامات دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے اور
اپنی ریا کاری اور کم علمی اور کم سمجھی پر پردہ ڈالنے کے لیے
فیس بک پر اسلام تغرے تعزئے لگا لگا کر اسلام کے للکارے مارے جاتے ہیں
اور مزے کی بات ہے کہ
تغرے لگنے والوں کی اکثریت ، ان تغروں کے معانی مطالب سے کم ہی واقف ہوتی ہے
کیونکہ ان کو بھی یہ تغرے ’’ کہیں اور’’ سے ہی آئے ہوتے ہیں!
یہاں جاپان میں میں جن لوگوں کو منافق سمجھ کر
ان سے بات کرنا پسند نہیں کرتا
جن کے ساتھ دسترخان پر نہیں بیٹھتا
وہ لوگ فیس پک پر تغرے لگا لگا کر اسلامی اور مذہبی اور معزز بنے بیٹھے ہیں
ریاکاروں کی محفلوں میں خاور کا تذکرہ ؟
ناں ای پچھو جی!!
بس اتنا سمجھ لیں کہ کچھ اچھا ذکر نہیں ہوتا جی !!!

بدھ، 29 اگست، 2012

ہمارے گاؤں کے مرزائی

جذباتی  لوگوں سے معذرت کے ساتھ کہ
میں مرزائی نہیں ہوں  ، بلکہ مرزائیوں سے سخت نظریاتی اختلاف رکھتا ہوں
ہمارے بچپن میں ، گاؤں میں بہت سے گھر مرزایئوں کے تھے
جو کہ اب بھی ہیں
ان میں سے کچھ گھروں کو مرزائی کہ کر بلایا جاتا تھا
اور یہ لوگ خود کو احمدی کہتے تھے
اور ان کے خط وغیرہ جو آتے تھے ان پر بھی احمدی لکھا ہوتا تھا
ان احمدی لوگوں میں سے کوئی بھی گھر  بے وقعت نہیں تھا
سبھی لوگ ہمارے لیے معتبر اور معزز تھے
ہم لوگ ان کے ساتھ کام ، کاروبار کرتے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ دوستیاں تھیں تعلقات تھے
جس طرح گاؤں میں دوسری مساجد تھیں
کمہاراں  والی مسیت ، بیر والی مسیت اونچی مسیت بڑی مسیت
اس طرح مرزایوں کی مسیت تھی ،
لیکن یہ نہیں تھا کہ مرزائی صرف مرزایوں کی ہی مسیت میں جائیں گے
ہوتا یہ تھا کہ ، جس کو جس نماز میں جو مسیت نزدیک پڑے وہ وہیں نماز پڑہ لیتا تھا
ہم سب لوگ مل جل کر رہتے تھے ، دلوں میں پیار تھا
گاؤں کے چوہدری بھی مرزایت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے،
لیکن اس جھکاؤ کا اظہار ان کے رویے کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا
بس یہ کہ برادری میں سے احمدی گھرانوں سے میل ملاپ زیادہ تھا
ہنر مند طبقے کے مفادات ان سے منسلک تھے
ان کی زمینوں پر کام کرنا
ان کے گھروں سے اناج کا حصول  اور دیگر معاشرتی کام کہ احمدیوں میں چیمہ فیملی اور وڑائیچ لوگ معاشرتی طور پر خاصے مضبوط اور معتبر لوگ تھے
پھر لوہاروں کے کچھ گھر تھے
جو اپنی جگہ مضبوط کاروباری  اور انتہائی ملنسار خاندان تھا
چیمہ مرزائی  خاندان افرادی طور ہر مضبوط ہونے کی وجہ سے ، کئی لڑائیوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا
لیکن ان میں کوئی لڑائی  ان کے مسلک کی وجہ سے نہیں تھی
زمین کے اختلافات اور دیگر باتیں تھین جن میں اس خاندان کے کئی قتل بھی ہوئے
بابا رحمت مرازئی تھا، ہمارے گاؤں اور اس کے نزدیک کے دیہات تک کے لوگ پٹھا چڑہنے پر یا ہڈی ٹوٹنے پر بابے سے مساج کروانے اتے تھے۔
بابا رحمت ان لوگوں سے اس بات کا کوئی عوضانہ نہیں لیتا تھا
بلکہ بابا ایک جاٹ چیمہ چوہدری ہونے کے ناطے دور سے انے والوں کے کھانے پانی کا بھی ذمہ دار ہوتا تھا
پھوپھی سکینہ تھی !!
ایک انتہائی معزز عورت ۔ میں نے خود کئی دفعہ  دیکھا ہے پھوپھی کی فراخ دلی کہ غریب گھروں کی عورتوں کو گندم دیتے ہوئے،
پھوپھی کے سات بیٹے تھے ، کڑیل جوان ،
جن میں سے دو اکہتر کی جنگ میں شہید ہوئے ، دو گاؤں میں برادری کی لڑیوں میں کام آئے ۔ ایک ٹریکٹر کے حادثے میں فوت ہوا
ایک نے حلیہ بدل لیا ، دنیا چھوڑ دی ، بے کار ہو گیا
اور یہ سب حادثات پھوپھی کی انکھوں کے سامنے ہوئے!
نعیم وڑائیچ ، سلیم وڑائیچ۔ ہمارے بڑے بھایئوں کی طرح تھے ، کہ ان کی عمریں مجھ سے کچھ زیادہ تھیں
آصف ننھا ، میرا بچپن کا دوست جس کے ساتھ میں نے پہلی سے لے کر دسویں تک ایک ہی سیکشن میں تعلیم حاصل کی ہے
کئی دفعہ ایک دوسرے سے اختلاف ہوا
بول چال بند لیکن یہ اختلاف کبھی بھی مذہبی نہیں تھا
پھر ایک دن یہ ہوا کہ جی
حکومت نے اس لوگوں کو اقلیت ڈکلئیر کر دیا
ہر طرف باتیں ہونے لگیں کہ جی مرازئی تو جی اب حکومتی فیصلے میں نیچ قرار دیے گئے ہیں
اب یہ لوگ عسائیوں کی طرح ٹریٹ کیے جائیں گے
لیکن مجھے اس بات کا اعتبار ہی نہیں اتا تھا کہ
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
اج کے معتبر اور شریف لوگ کیسے ایک دم سے رذیل ہو جائیں گے؟
لیکن اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ  عیسائی بھی کیوں نیچ ہیں ؟
پھر ہم نے دیکھا کہ ۔ جس کو مخالفت کے لیے کوئی ناں ملا اس نے مرزائیوں سے مخالفت شروع کر دی
جس کو بہادری کا شوق چڑہا اس نے مرزائیوں پر چڑہائی کردی
جس کو اپنے اسلام کی دھاک بٹھانے کی سوجی اس نے مرزائیوں کو اگے رکھ لیا
اور پاکستان میں اس سوچ کو تو قتل ہی کردیا گیا کہ اپنی بھی غلطی ہوسکتی ہے
اس سوچ کی موت ہے کہ اج سبھی لوگ دوسروں کو غلط سمجھ کر سمجھا رہے ہیں
سبھی پاکستانیوں کو دوسروں کا اسلام غلط لگ رہا ہے
اج کے پاکستان میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کا دعوی ہے
اور پاکستانیوں سے نفرت !!
پاکستان میں بسنے والے ہندو ، عیسائی، مرزائی یا دیگر لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں ، جتنے کہ
آپ یا میں !!
کیا پاکستان میں وطنیت کا احساس ہی مر گیا ہے ؟
کیا پاکستان میں انسان کی جان کی وقعت ہی نہیں رہی ہے؟
میں مرزائیت کے نظرئے سے صرف اختلاف ہی نہیں رکھتا
بلکہ
ان کے نظریات سے نفرت کرتا ہوں
اور مرزائیت کے بعد بھی اسی نظرئے کی حامل دوسری پارٹیوں سے بھی نفرت کرتا ہوں
لیکن
اس بات پر ان کے پاکستانی ہونے سے ہی انکار نہیں کرسکتا
کسی بحث میں مرزایوں کی شکست پر مجھے بھی دلی خوشی ہوتی ہے
لیکن
کسی بھی پاکستانی کے قتل پر دکھ ہوتا ہے
مقتول پاکستانی کسی بھی رنگ نسل ، مسلک ، یا علاقے کا ہو!!!

منگل، 21 اگست، 2012

دودہ اور مینگنیاں


بکری کے مینگناں بھرے دودہ کی مثال مشہور ہے
پہلے تو دودہ کی مقدار کہ اگر بکری سے حاصل بھی کر لیا جائے
دو سے ڈھائی سو گرام ہو گا
اور دودہ دھونے کے لیے دو بندوں کی کوشش شامل ہوتی ہے
ایک جس نے دودہ دھونا ہے اور دوسرا جس نے اس عمل میں بکری کی پچھلی ٹانگیں پکڑ کر رکھنی ہیں ۔
اور دودہ دھونے کے دوران اپنے اندر کے خوف (بز دلی ، بکری کے حوصلے کو کہتے ہیں)کی وجہ سے بہت کوشش کرتی ہے کہ پکڑنے والے کی گرفت سے نکل جائے
اور اس جہدوجہد میں مینگنیاں بھی نکل جاتی ہیں
اور "کچھ  اور" بھی نکل جاتا ہے
لیکن محاورے میں مائع چیز کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا
جو دودہ میں مل کر دودہ کا وہ حال کرتی ہیں کہ کسی نفیس طبیت بندے سے تو پیا ناں جائے
پس یہ محاورہ مخصوص حالات میں بولا جاتا ہے
جو لوگ بکری کے دودہ دھونے کی عمل کی دشواری اور اس سے حاصل ہونے والی"چیز" کی حثیت سے واقف ہوتے ہیں
وہ لوگ محاورے کی معونیت سے لطف لیتے ہیں اور مینگنیوں کے کرب سے دیہان ہٹانے کو کہتے ہیں
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مندرجہ بالا تحریر  کا پاکستان کی موجودہ حالت یا حکومتی لوگوں کے کاموں سے تعلق پیدا ہو جانا
بلکل  ایک قدرتی عمل ہو گا لیکن
اپ  بجلی کی ترسیل میں لوڈ شیڈنگ کی مینگنیوں
یا سڑکوں کی تعمیر میں گڑھوں کی مینگیناں
یا  ملکی دفاع میں ڈورن حملوں کی مینگنیاں
یا عید الفطر کے تہوار پر فون سروس کی بنسش کی مینگیاں
کی تلخیوں کو بھولنے کی کوشش کریں
اور محاورے کی معونیت پر غور کریں
اور  لطف لیں
اس لڑکے کی طرح
جس نے گاوں میں ایک "کٹا " پکڑ کر کنویں میں پھینک دیا
کٹے کے مالکوں کو علم تو ہو ہی جانا تھا
اس پر اس لڑکے کو پنشمنٹ ہوئی
جو کہ بڑی بے عزتی اور کرب کی بات ہونی چاہیے
لیکن
وہ لڑکا بندہ بڑا حسن ظن کا مالک تھا
جب اس کو کسی نے پوچھا کہ کٹّا کنویں میں پھینکنے پر تم نے اتنی بے عزتی کروائی ہے
تمہیں کیا حاصل ہوا؟؟
تو اس نے جواب دیا تھا
کہ "گروم " کی اواز بھی تو میں نے ہی سنی تھی ناں
اپ بھی میری طرح دل کو تسلی دے لیں کہ
یہ حکومت تو بے چاری خود مجبور ہے
اس حکومت کی علمداری ، تھانوں تک ہی ہے
اور ان کی عیاشی؟
غیر ملکی دوروں تک!!!

اتوار، 19 اگست، 2012

عید مبارک


اج یہاں جاپان میں  عید ہے
اللہ ہمارے لیے اور اپ کے لیے اس عید کو مبارک فرمائیں
اور انے والے دنوں کو بھی مبارک فرمائیں
کہ سب چیزوں کا رجوع اللہ کی طرف ہے
ہم پردیسیوں کی عید ؟
اس حد تک ہوتی ہے کہ رمضان میں عید کا انتظار کرتے ہیں
اور عید کے روز ، عید کی نماز کی تیاری اور عید کی نماز پڑہ کر جاننے والوں سے گلے ملتے ہیں
اور
پھر؟؟
نوکری کی مجبوری والے نوکری پر اور باقی کے بھی طرح طرح کی مجبوریوں میں بندھے
ایک لمبآٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
اُُُُُُُُُُُور
ادآٓٓٓٓٓٓٓٓٓس
عید کا دن گزارتے ہیں
لیکن چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ لیے
اپنے بھرم کی لاش گھسیٹےسارا دن گزارتے ہیں
جن کو پردیس میں اپنےبچپن کے جاننے والے مل جاتے ہیں
ان کا دن کچھ محرومیوں کو اور بھی بڑھا جاتا ہے
اور جن کے بچپن کے جاننے والے کاروباری طور پر کامیاب ہیں
ان کو ان کی اوقات یاد کرا جاتے ہیں
بس جی
عید ہو کہ
ہر دن
اللہ تعالی مبارک فرمائیں
ہم سب کے لیے

بدھ، 15 اگست، 2012

سازشی ذہن


ایک تو جی یہ یہودی لوگ  لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی" ویلے لوک" ہوتے ہیں
پاکستان کی بربادی کے لیے دن رات کام کرتے رہتے ہیں
پاکستانیوں سے جب بھی بات کریں پاکستان کی ہر خرابی کی جڑ امریکہ اور یہودی کو بتاتے ہیں
کچھ کچھ ہندو کا بھی قصور ہوتا ہے لیکن
بلکل ہی پڑوس میں ہونے کی  وجہ سے ہندو اتنا بھی سیانا نہیں لگتا
اس لیے سارا الزام یہودی اور امریکہ پر اتا ہے
یہودی بہت سیانا ہے
اس نے دنیا کو توحید کا تصور دیا
اور پھر اس پر عسائیت اور اسلام نامی مذاہب بھی  دنیا نے استعمال کیے
هو سکتا ہے که کوئی اس سے متفق ناں هو
لیکن یه حقیقت ہے که اسلام اور عسائیت  یہودیت کی هی بدلی هوئی شکلیں ہیں
جس طرح که ہمارے علاقے کی پیدائش ،هر دھرم ہندو دھرم کی بدلی هوئی شکل هوا کرتا هے
پہلے بده  اور سکھ دھرم کا نام لیتے ہیں پھر
بریلوی دھرم کا نام آتا ہے
دنیا کو بہت زیاده متاثر کرنے والے  مذاہب !۔ ان یهودیوں کے ہی بنائے هوئے هیں جی۔

لیکن اسلام نے خود کو دین هونے کا دعوی کیا
جی هاں دین
یعنی سسٹم
لیکن یه سسٹم  جیسا بھی ہے ۔ اس باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں ۔
لیکن

اب جو زمانہ جا رها هے
یه زمانہ هے جی
نئے دھرم کا
جس کو اپ کیپٹل ازم یا  سرمایہ دار نظام کہہ لیں یا
اج کا دین بھی کہہ سکتے ہیں ۔
یه دین ایک مکمل ترین ضابطه حیات ہے
اس ميں زندگی گزارنے کے سارے اصول پائے جاتے ہیں
سڑکوں کی تعمیر سے لے کر سڑکوں پر چلنے تک کے ضوابط موجود ہیں ، تو
رقم کے لین دین سے لے کر خرچ کرنے تک کا نظام ہے ۔
بنکنگ کے نظام اور مال کی ، دنیا بھر ميں ترسیل کا نظام بھی بہت منظم اور موجود  ہے
انصاف کا نظام هو که ، فوج کا نظام !۔ اس وقت دنیا میں اسی دین ( کیپٹل ازم ) کے نظام ہی چل رهے هیں
اس دین کو پورا پورا اپنانے والے سارے ممالک خوشحال ہیں ۔
اور ان ممالک کا معاشره جنت نظیر بنا ہوا  هے
لیکن جو ممالک اج بھی انارکی اور بدحالی کا شکار ہیں
ان کی اس بدحالی کی وجہ منافقت ہے۔
یه لوگ اج کے دین ( کیپٹل ازم ) میں پورے پورے داخل نہیں ہیں ۔
یه لوگ عدالت کا نظام
سڑکوں کا نظام
بنکنگ کا نظام
یا جو جو بھی نظام  دین ( کیپٹل ازم )  ميں پائے جاتے ہیں ان کو اپناتے بھی ہیں اور
اور ان کو برا بھی کہتے ہیں
اور اس ساری منافقت کے پيچھے یهودی کی سازش ہے
که یهودی نے
کچھ ایسا چکر چلایا ہے که
کسی بھی مسلمان ملک میں کوئی طاقتور بنک بننے میں رکاوٹ  دالنے کے لیے۔
 یهودی نے سازش کر کے مسلمان ملکوں کے باشندوں کو بے ایمان کردیا هے۔
 که یه لوگ امانت میں خیانت کرنے والے بن چکے ہیں ، اس لیے خود مسلمان لوگ بھی ، اسلامی بنکوں ميں اپنی دولت کو محفوظ نهیں سمجھتے
اسی طرح یهودی نے مسلمانوں ميں جھوٹ بولنے کی عادت ڈال دی ہے ۔
اب تو یه یه عادت کچھ ممالک میں ، اتنی پختہ ہو گئی ہے ۔
که لوگ خود سے بھی جھوٹ بول رہے هوتے ہیں
پھر کام چوری کی عادت بھی یهودی کی سازش ہے
اسی طرح کی کئی بری عادات هیں جو یهودی کی سازش سے مسلمانوں ميں شامل هو چکی ہیں
لیکن یه ہوا کیسے؟؟
اس بات کا مجھے بھی علم نہیں ہے
کیونکه میں بھی مسمان هوں ،اور یهودی کی سازش کی وجہ سے میں بھی اتنی سوچ کا مال نهیں رها هوں که یهودی کی اس سازش  کی تفصیل سمجھ سکوں ۔
کہ
مسلمانوں میں اخلاقی بد حالی کس طرح سے داخل کی گئی ۔

مجھے تو سمجھ نہیں لیکن
گاما پی ایچ ڈی جو که مسلمان بھی کم ہی هے
کافر بھی نہیں ہے
گامے کی پی ایچ ڈی کی ڈیفینیشنز ناں پوچھیں تو اچھا ہے
پرزه ہیوی ڈیوٹی جیسا کوئی فقره کہتا ہے ۔
جس میں پرزے کی جگه انگریزی کا لفظ استعمال کرتا ہے
گاما یہودیوں کو گالیاں دیتا هے اور یہودیوں کی سازش کی بات کو مانتا ہی نهیں هے
سازش کے رشتے ملانے لگتا هے اسلامی لوکاں کے  اور خواتین کے
اور مجھے اور اسلامی لوکاں کو بیوقوف اور احمق اور بہت کچھ کہتا هے
نئیں پتہ لگتا که گاما یهودی کے خلاف ہے که اسلام کے خلاف
نمازں ساریاں پڑھتا ہے ۔
اور اسلام کو مانتا ہی نهیں
پاسپورٹ پاکستانی ہے
اور پاکستان کو آزاد ملک ہی نہیں  سمجھتا
بس جی پاگل هے ۔
گاما بھی یهودیوں کی سازش کا شکار ہو چکا ہے اور اس کو بھی علم نهیں هے

لیکن میں بھی کبھی کبھی سوچتا هوں که
یهودی اینے ای ویلے نیں  تے فیر امیر کیوں نیں ؟؟

منگل، 14 اگست، 2012

کاش میرا وطن ایک ملک ہوتا

میرے وطن کو ملک بنانے کا جھانسہ دے کر
ایک ملک سے ملوکیت بنا دیا گیا
اج اس بات کو پینسٹھ سال ہو گئے
که میرا وطن  ، ملک نهیں هے
جیسا که دنیا کے ممالک هوتے ہیں
نظم ضبط میں بندھے اداروں کے مجموعے کو ایک ملک کہتے ہیں
اور وطن تو جی جنم پوئیں  هوتا ہو ناں جی
جو جہاں پیدا ہوا وه اس کا وطن ٹھرا
رب نے وطن سب کو دیا ہے
هاں ایک بنده گزرا ہے چالرس سوبراج جو دھائیوں تک بے وطن رها لیکن اخر پر اس کو بھی فرانس نے نیشنیلٹی دے هی دی
بے وطن کو وطن بھی اور ملک بھی مل کيا
هم ہیں که سوچتے ہیں که کاش میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
جس ميں ایک اداره انصاف کا هوتا
ایک اداره صحت کا هوتا
ایک اداره روزگار کے انتظام کا هوتا
اسی طرح بہت سے اداروں کے خواب ہیں جی
جو هوتے تو میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
ایک اداره ملکی دفاع کا بھی هوتا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟!!!!
ملکی دفاع؟
ملک ؟
شائد یہیں غلطی لگ گئی تھی جی بابے کو
ملک بنا لیا تھا جی اس نے میرے وطن کو
لیکن اس ميں ایک اداره اس کو بنا بنایا مل گیا جی
ملک دفاع کا
ملک کمزور تھا جی میرا وطن!
لیکن جی وه تھے ناں جی آدم جی ملز والے
انہوں نے جی
ملکی دفاع کے ادارے کو تین مہینے چلانے کا خرچ اور تنخواه دی تھی
پھر جی
چل سو چل
جی ناں آدم جی ملز والے رهے جی
ناں هی میرا وطن میرا ملک رہا
بس جی ایک اداره ہی رہ گیا جی
ملکی دفاع کا
اور میرا وطن ہے جی
لہو لہان
میرے وطن کے سیاستدان بیوقوف اور غداّر گنے گئے
میرے وطن کے  لکھاری غائب هونے لگے
 اور ادارے کی بدنامی کی سازش کے نام پر مسخ شده لاشیں بن کر
آ جاتے ہیں
میرے وطن کے بلوچ مارے جاتے ہیں
میرے وطن کے ہندو ،گندے گنے گئے جی
میرے وطن کے عیسائی چوہڑے گنے گئے جی
میرے وطن کے "کمی" ، کمینے گنے گئے جی
میرے وطن کے مسلمان ؟
ابھی فیصلہ هونا باقی ہے که مسلمان کی ڈیفینیشنز کیا ہیں اور کون مسلمان ہے
اس لیے میرے وطن میں مسلمانوں کا کیا حال ہے
اس بات کا فیصلہ پہلے مسلمان کون ہیں کا فیصله کرنے کے بعد کريں گے
کاش اے کاش
که میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
جیسا که ایک ملک جاپان ہے
یا امریکہ ہے
یا چلو جی غریب ہی سہی
سری لنکا ہے
ہندوستان ہے
بنگله دیش ہے
کاش اے کاش
ابادیوں میں دھول اڑ رہی هے
پانی بجلی کے لیے لوگ ترس رہے ہیں
انصاف کے نام پر لارے دئے جارهے هیں
میرا وطن ایسا تو نہیں تھا یارو
ابھی چند دھائیاں پہلے تک !!!!٠

جمعہ، 3 اگست، 2012

جانوروں کے مقابلے

 اپنے اپنے حالات اور سورسز کی بات ہوتی ہے جی
شوقین لوگ ککڑ لڑاتے ہیں ، کچھ لوگ کتے لڑاتے ہیں
جو مقدور ہیں جی وه لوگ ریچھ اور کتے کو بھی لڑا دیتے ہیں
لڑائی دیکھنے کا شوق ہے ناں جی
که کچھ لوگ بٹیرے بھی تو لڑاتے ہیں
سارا دن بٹیرے کو  هاتھ میں پکڑے کھیلتے رہتے ہیں
اور جب بٹیرا میدان میں نکلتا ہے تو بٹیرے باز کہتا ہے
اوے میرا بٹیرا پنجہ مار کے دھرتی ہلا دے !!!٠
پرانے دنوں کو باتیں کر رہا هوں جی
اس پاکستان کی جو گم ہے چکا ہے
اب تو جی ایسی گیموں پر پابندیاں ہیں
کچھ کاروباری حالات برے ہیں جی
اور کچھ اسلام کا دور دورا ہے جی
اس لیے اب مقدور رکھنے والے لوگ جی
کچھ اور ہی لڑاتے ہیں
اپ نے دیکھی ہیں اج کل کے جانوروں کی لڑیائیاں ؟؟
نئے جانور مارکیٹ میں آئے ہیں جی
اپنے موسیقی پسند سرکار روشن خیال  سرکار جناب شاه صاحب سید آل رسول حضور مشرف صاحب کے دور سے
اج کل جو جاور لڑائی کے لیے میدانوں میں اتارے جارهے ہیں جی بڑے خاص لوکاں کے خاص جانور ہیں جی
بلکل انسانی شکل ہیں جی
یہ جانور ان کو اج کی پاک بولی میں اینکرز ، مفکر ، علم دین ، اور سائنس دان بلکه پروفیسر اور دیگر انسانی پیشوں کے نام بھی دیے دئے گئے ہیں
ان جانوروں کی لڑائی کے شو  ٹیلی ویژن پر دیکھائے جاتے ہیں اور ساری قوم ان کو بڑے شوق سے دیکھتی ہے
یهاں ان جاوروں کی عقل اور علم کی دھاک بیٹھانے کی کوشش ہوتی هے
لیکن کیونکه هوتے تو یہ جانور ہیں  اور ان کو میدان میں لانے والوں کا مقصد بھی ناظرین کو لڑائی دیکھنا ہو تا ہے
اس لیے میدان کو گرم کیا جاتا ہے
مغالطوں اور مغالغوں  کے پینترے بدل بدل کر جہالت کے لتر مارے جارہے هوتے ہیں جی ناظرین کے قیمتی دماغوں پر
کتوں کی لڑائی میں کثے والا اپنے ہی کتے کو تھپڑ مار مار  کر کتے گو گرم کرتا تھا که
ماقبل کتے پر زور دار حملے
تاکہ تماشا دیکھنے لیے آئے ہوئے ناظرین کی کتی طبیت کو تسکین ملے
انسان نما جاورں کو لڑانے والے کو صحافی کہتے ہیں اج کل
یہ صحافی طنز اور تعریف کے لتروں سے اپنے جانوروں کو تپائے رکھتے ہیں
کہ میدان گرم رہے
میدان میں الٹا دریا چلانے کا دعوه لے کر آ جاتے ہیں اور اور اس کی حمائت میں سائنسدان اور پروفیسر نامی جانور
فون پر جا دیگر ذرائع سے الٹا دریا چلنے کے مغالطے لے کر آجاتے ہیں

اج کل ایسے ہی جانوروں کی لڑائی کے مقابلے کی ویڈیو بڑی مقبول ہے
جس ميں پانی سے گاڑی چلنے کا مبالغہ لے کر آتے ہیں جی
مشہور صحافی حامد میر کے جانور انجئنیر وقار!!٠
اس جانور کے نام مين انجئینیر هونے کا مطلب انجنئر نہیں ہے
بس مقابلے میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے جانور کا نام زرا علمی سا اور زور دار ہونا ضروری ہے بس اس لیے
خود ان صحافی صاحب کو سائینس کا اتنا بھی علم نہیں ہے جتنا که
ایک میٹرک کے عام سے طالب علم کو بھی هوتا ہے
مقابلے میں سنسنی اس وقت پیدا ہوئی
جب لائین پر مقابلے ميں ایک اصل والا انسان آ گیا جی
اس نے جی مبالغے کے پینترے پر سائنسی اصول کی حقیقت کا "لتر" رکھ دیا
بس جی پھر
سنسنی
اور اس کی حمایت کے لیے بڑے بڑے نام
ڈاکٹر عبدل قدیر صاحب کو پهلی دفعہ کسی معاملے میں بات کرتے سنا
بڑی مایوسی ہوئی
که اس بندے کو میں نے رهائی ملنے پر یہان جاپان سے سینکڑوں کارڈ لکھوا کر بھیجے تھے که
میں علم کی اور اهل علم کی بڑی ہی عزت کرتا ہوں اور پاکستان ميں پچھلی دھائیوں ميں پڑھائے جانے والے مغالطوں میں سے ایک مغالطے که ڈاکٹر قدیر صاحب بڑے علم والے ہیں کے مغالطے کا شکار ہو چکا تھا
ان کی گفتگو سن کر میرا مغالطہ نکل گیا که یه صاحب اهل علم ہیں
اور حقیقت اشکار ہوئی که ڈاکٹر صاحب بڑے  فنکار ہیں
که قوم کی سوچ کو مد نظر رکھ کر
صرف میٹھی گولی ہی دیتے ہیں
حامد میر صاحب نے جو میدان سجایا ہے
میں بھی یہ تحریر لکھ کر اس میدان کا ایک جانور ہی محسوس کر رہا ہوں
خود کو!!!٠
میدان ٹی وی  سے نکل کر یو ٹیوب پر منتقل ہو چکا ہے
اور ان جانور لوگ  فیس بک اورانٹر نیٹ پر اور میری طرح بلاگنگ میں لڑ رہے ہیں
اور مقابلے کے انعقاد کروانے والے
اصلی کھلاڑی  "وہاں " بیٹھے لطف اندوز ہو رہے ہیں
کہ کہیں لوکاں کو  اس بات کی بھنک ناں مل جائے که
نیٹو سپلائی اگر پارلمنٹ نے ہی قبول کی ہے
تو
آئی ایس آئی کے سربراہ کا امریکہ جانے کا کردار کیا ہے
وغیرہ وغیره

بدھ، 1 اگست، 2012

برما کے مسلمان اور عالمی دین (عالمی برادری)٠


برما کے مسلمانوں کے قتل پر عالمی میڈیا کی خاموشی اور اس خاموشی پر
پاک لوکاں کا شور غوغہ !!
که خدا کی پناه
خود کو مسلمان کہلوانے والے اس گروه کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے که
اج کے دور ميں جو دین چل رها هے
ميں اس کو گورا دین (عالمی برادری ) کا نام دوں گا
اس دین میں جھوٹ کی سزا یہ هے که بنده معتبر نہیں رہتا
شائد پرانے زمانے ميں  اسلام کہلوانے والے دین میں بھی کچھ اسی طرح هوا کرتا تھا
معاملہ اس طرح شروع ہوا که
ایک لڑکی نے اسلام قبول کر لیا
کچھ لوک جو اسلام کے مبلغ کهلواتے تھے انہوں نے اس علاقے کا دورہ کیا
گمان غالب که اور بھی لڑکیوں کو اسلام  لذت کا احساس دلانے کے لیے
تو جی مقامی ابادی نے غالباً غیر اسلامی لذت کی بے قدری سے بچنے کے لیے
یا برصغیر کے جذبه غیرت کی طرح کی چیز که وجه سے ان اسلامی مبلغوں کو قتل کردیا
بڑا ظلم ہوا
دس بندے قتل ہو گئے
دونوں طرف سے لوگ نکل آئے
گھاس پھونس کے مکانات ، جھونپڑیاں  جن کو اگ جلدی لگ جاتی هے دونوں طرف سے جلائی گئیں
بده لوگوں کے ساتھ مقامی حکومت کی حمایت تھی
که بده لوگوں کی بچیاں  استعمال کرتے ہیں اور نام دیتے ہیں اس کو اسلام کی خدمت کا!!٠
اس لیے مقامی اہلکاروں نے نظر اندازی کا رویہ اپنایا
روہنگیا مسلمانوں کو عالم اسلام یاد آیا که ان کو مدد کے لیے پکاریں
تھائی اور برما کی سرحد پر اباد روہنگیا مسلمان  کجھ قبائیل طرز زندگی گزارتے ہیں
ان میں کوئی قابل ذکر لیڈر نہیں هے
اپنے علاقے ميں یہ لوگ خاصے " ڈنگے  ٹائیپ کے لوگ ہیں
جس کا اندازه اس بات سے لگا لیں که جاپان سے گاڑیوں اور پرزه جات کی  برما کو اسملنگ کا سب سے بڑ روٹ جو کہ تھائی کے راستے جاتا ہے اس پر ان کی اجاره داری ہے
کوئی قابل ذکر لیڈر ناں هونے کی وجہ سے یہاں کے سبھی لوگ  خود کو عقلمند سمجھتے ہوں گے
اس لیے جب ان کو عالم اسلام کی مدد کی ضرورت پڑی تو انہوں نے
ایک بہت بڑی غلطی
ایسی غلطی که جس کی کوئی بھ مذہب یا معاشره اجازت نهیں دیتا
وه غلطی تھی
جھوٹ بول کر عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش
جی هاں روہنگیا مسلمانوں نے جھوٹ بولا
یه حقیت ہو کہ ان کے بندے قتل ہوئے
یه بھی حقیقت ہو که
برما کی حکومت نے ان پر هونے والے ظلم کو نظر انداز کیا
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے که
جھوٹ بول کر ہمدردیاں سمیٹی جائیں
روہنگیا مسلمانوں کو جهاں جهاں سے دھوتی میں ملبوس لاشوں کی فوٹو ملی
انہوں نے یه برما کے مسلمانوں کی لاشیں لکھ کر انٹر نیٹ پر لگا دیں
ایک تصویر تھی جو تھائی مین دھوتی باندە  کر احتجاج کرتے سمندر کے کنارے انسانی ڈھیر کو برمی مسلمانوں کی لاشوں کا کیپشن لگا کر گردش کر رهی تھی
ایک فوٹو تھی جو کچھ سال پہلے چین کے زلزلے میں مرنے والے لوگوں کے پاس بده بگھشو پھر رہے تھے
کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا
که اگ لگا کر احتجاج کرتے تبتی بندے کی فوٹو کو بھی برمی مسلمان  کی فوٹو کہ کر لگا دیا
پھر اس بھی کچھ هاتھ اگے گزرے که
افریقه میں آئیل ٹنکر سے جھلس کر مرنے والوں کی لاشوں پر بھی برمی مسلمانوں کی  مظلومیت کا  لیبل لگا دیا
اب اس افریقہ والی تصویر مين کالے لوگ نظر بھی آ رہیں
عام فہم بندے کو بھی نظر آ رها ہے که
يه برما کی تصویر نہیں ہے
اب اس جھوٹ کو بول کر برمی اور ان کے حمایتی یه سمجھ رہے تھے که
کسی کو اس جھوٹ کا علم نہیں ہے
اور یہ غلط فمی سارے جہان کے جھوٹوں کو ہوتی ہے که
سمجھتے ہیں که سننے والے کو میرے جھوٹ کا احساس نہیں ہو رها هے
لیکن
یه سب تصاویر
عالمی میڈیا کی نظر سے گزری تصاویر تھیں
مسلسل خبروں پر نظر رکھنے والے لوگوں کو يه یاد بھی تھا که کون سی تصویر کہاں کی اور کن حالات کی هے
اس وجہ سے
عالمی میڈیا کا رویہ یہ ہو گیا که
برما کے ملک سے اصل بات باہر نهیں نکل رهی
کچھ ہو تو رها هے
لیکن
کیا ہو رها ہے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے
اس لیے یہ ناں ہو که کچھ خبر شائع کرکے بعد میں سبکی اٹھانی پڑے
اس لیے عالمی میڈیا نے برمی مسلمانوں پر هونے والے حقیقی ظلم کو بھی اجاگر ناں کیا
بلکه یه کہ سکتے ہیں که
اجاگر ناں کرسکا
اس میں قصور کس کا ہے؟؟
ان کا جنہوں نے جھوٹ بولا
ناں که
ان کا جنہوں نے جھوٹ اور سچ کو علیحده کرنے میں وقت لگا دیا
میں نے خود اس بات کی تحقیق کی کوشش کی
کیونکه جاپان ميں روہنگیا مسلمانوں کی زیادہ تر ابادی یهاں ہمارے قریب رہتی ہے
میں نے جتنے بھی لوگوں سے پوچھا که کجھ تصاویر دیکھائیں
ان سب کے پاس وهی  تصویر تھیں جو میں انٹر نیٹ پر دیکھ چکا تھا
میں نے بار بار پوچھا که که کوئی تصویر جو اپ کے رشتہ داروں کی لی گئی ہو ؟
کوئ تصویر جو انٹر نیٹ پر ناں ہو اپ کو برما سے ڈائریکٹ وصول ہوئی ہو؟؟
تو ان کا جواب هوتا تھا که برما سے تو کچھ بھی باہر نہیں نکل رها
برمی حکومت کی سختی کی وجہ سےخبروں اور تصویروں کا باہر نکلنا ناممکن ہے
تو میرا سوال هوتا تھا
که
پھر یہ تصاویر کہاں سے نکل آئی ہیں جو انٹر نیٹ پر گردش کر رہی هيں
تو ان کا جواب هوتا ہے
بس یہی تصویریں ہیں جو انٹر نیٹ پر ہیں
پس حاصل جمع
یہ ہوا که
برمی مسلمانوں پر ظلم تو هوا
لیکن
انہوں نے جھوٹ بول کر اپنا کیس خراب کر لیا
اور مسلمانوں کی عادت کے مطابق ، سارا مدعا سازشوں اور سازشیوں پر ڈال دیا
اس لیے پیارے بچو  جھوٹ ناں بولو . جھوٹ بونے سے  بندے مرتے ہیں اور ان کا کچھ بنتا بھی نہیں ہے

پیر، 23 جولائی، 2012

چنگے تے مندے دا ویروا


پنجابی بڑی بولی اے که ایس وچ تهانوں بڑا هی ادبی مال ملے گا تے نال ای بے ادبی مال وی مل جائے گا
جیویں کسی وی چیز وچ جنگے تے ماڑے پاسے هوندے نیں ایس هی طرحاں دی گل وی اکھی جاسکدی اے
بنجابی دے بارے
پر
چنگا کی اے تے مندا کی اے ایس  دا ویروا کڈنا بڑا اوکھا اے که اک  گل جیہڑی کسی لئی چنگی هو سکدی اے
تے
 او ای گل کسے دوجے لئی مندی وی هو سکدی اے
جیویں کهندے نیں
کسی نو مانه (ماش)بادی تے کسے نوں مافک
کڈا وی سوهنا نگ هوے ایس دا پچھلا پاسا ان کڑیا هویا هوندا اے تے چمک نئیں رکھدا
یاں که
کڈا وه سوهنا بندا هوئے ایس نو هگن موتن تے هوندا ای ناں جی؟؟
اک پاسے جاتکاں نوں ایس کل دا دیسا جاندا اے که چیزاں گندیاں نے
که اے ناں هووے که جاتکان نوں اپنی پاکی تے پلیتی دا وی علم ناں هووے
پر اے وی گل سچی اے که اے بندے دا مال جنهوں سماج گند کهندا اے
دھرتی دا ملڑ بندا اے دھرتی دی جمن شکتی نوں ودھاندا اے
تے وائی بیجی والیان نوں ایس دی ڈاڈی لوڑ هوندی اے
پنجابی وچ جتھے دل نوں لوبھ لیں والے شعر ماھیے ، ٹبے ، واراں اکھان نے دوجے پاسے سماج دییاں ڈونگیاں وتھاں وچ کچوکے لان والے اکھان وی هیں
جیوں که اک اکھان اے
بنڈ وچ گوں نئیں تے کاوان نوں سینتراں
تسی اپی سوچوں که کسے بے هنرے بندے تے طنز کرن لئی ایس توں ودیا گل کی هو سکدی اے ؟؟
تے نالے اے وی گل اے که اکھان کوئی ایک دو دن وچ نئیں بن دے، صدیان لگدیاں نے
تے ایفو جیاں گلاں دوجیان بولیان وچ وه هوندیاں نے
که دوجے معاشرے وی پنجابی معاشرے دی هی طرحاں عورت تے مرد دے ملاپ نال هی پیدا هوندے نے
پر جدوں اسی کوئی دوجی بولی سکھنے آں تے اسی اوس سماج لیے اک بچے هونے اں
سارے ای سماج بچیان نوں ساری کل نئیں سکھاندے
جیوں جیوں ادب جاتک توں بالغ هوندا اے ایدے رویے بدلدے جاندے نیں
پر اے گلان اپنی بولی وچ ای سمجھ اؤندیاں نے
دوجیان دی بولی وچ اینی ڈونگی تھان تک جانا ای اوکھا هو جاندا اے
ایس لئی کہ عمرا کنا حصہ تے دوجی بولی سکھن وچ ای گواچ جاندا ، تے اینے چر وچ او بولی جیڑی بنده سکھ رہیا هوندا اے
کچھ ہور وی بالغ یا بڈھی هو گئی هوندی اے
تے ساڈی ماڑی قسمت دیاں گلان نے که سانوں
اپنی اپنی مان بولی توں وی دور کرن لیے ماں بولیان دا علم ای بند کردتا گیا اے
پر پنجاب وچ پرانا توں لخن والے لخ چھڈدے نے
تے لوک ایس دے گاؤون بنا کے یاد رکھدے نے
ایس لئی پنجابی وچ لکخیاں گلاں پڑھ کے جے کسے بہتے ای نفیس بندے نوں اے گلا بنے که اے گلان گندیاں نے تے
ایس بندے نوں وچار دی لوڑ اے که وچار کرئے
که بندےدی پیدائیش والے کم نوں وی بهتے سماج لکاوندے نیں
بہتے کی ، سارے سمجاج ای لکاؤندے !ـ
تے ایدھے نال کی او کم ماڑا کم هو جاندا اے یا لوکاں نے او کم چھڈ دتتا اے؟؟
میں کئی وار وچار کرنا واں که
گلاں نوں جس طرحاں میں پنجابی وچ  کر لینا واں یا لکخ لینا وان
اس طراں میں اردو وچ نئیں لکخ سکدا!!ـ
کیوں ؟
اک چاکا جیا آؤندا اے

اتوار، 15 جولائی، 2012

شیخ چلی

شیخ چلی والی اس کہانی ميں جس میں
شیخ صاحب ایک درخت کے اوپر چڑھے ، درخت کی اسی شاخ کو کاٹ رهے تھے ، آری سے جس پر که خود سوار تھے
کیونکہ تنے سے لپٹ کر آری چلانا ممکن نہیں تھا
اور ناں هی تنے پر کوئی کرسی تھی
شیخ صاحب اس کو اپنی عقل ميں سورسز کی کمی سمجھ رهے هوں گے
اور پاس سےگزرنے والے کسی کو یه دیکھ کر ، کوئی افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں تھی که پیشینگوئی کر سکے که
شیخ صاحب جس شاخ پر بیٹھے هیں اس کو کاٹ کر اپ شاخ کے ساتھ خود بھی گر جائیں گے
جیدو ڈنگر کو بچپن سے ہی اس کی حرکتوں کی وجه سے لوگ ڈنگر کہنے لگے تھے
لیکن جوانی میں باپ کے مرتے هی جائیداد  اپنے نام کروائی اور خود کے چوھدری جاوید کہلوانے لگا
اور لوگوں کو بھی اس کی عقل مندی کا احساس هونے لگا
چالاکی کی حد کر دی که
کچھ دور کے گاؤں کے لوہاروں  سے زمین  کی گارنٹی پر قرضہ بھی لے لیا
اور زمین کی کاشت بھی جاری رکھی
لوهار خاصے امیر تھے ان کو تھوڑے سے اناج اور پھلوں پر ٹرخاتا رها
لوهاروں کو بھی پیسے کی واپسی کی جلدی نہیں تھی
جیدو نے یه سلسلہ جاری رکھا اور پیسے کی فراوانی که
کام کرنے سے جی کترانے لگا
پھر کیا کیا که زمین ٹھیکے پر دی اور خود کھل کر اسانی کرنے لگا
اس پاس کے گاؤں دیہاتوں کے جن بڑے بزرگوں کو  اس بات کا شک تھا که
جیدو ڈنگر هی هے
اور ڈنگر ہی رهے گا
ان کے اس شک میں دارڑیں پڑنے لگیں که
جیدو بہت عقل مند هے
که
لوگوں کے پیسے پر اسان زندگی گزار رها هے
اچھا کھاتا ہے اچھا پہنتا هے
پرہے پنچائت میں لوگ اس کی بات مانتے هیں
گچھ سال گزرے که لگژری کے لیے قرم کم پڑنے لگی تو زمینوں پر اگے درخت بیچنے لگا
کچھ بھنسں بھی تھیں
ان کی دکھ بھال کرنے والے ملازمین کے پاس جانا پڑتا تھا
جس سے کہ کپڑوں سے بو وغیره انے لگتی تھی اس لیے بھینسوں کو بیچ کر بھی پیسے کھرے کر لے
پیسے که ریل پیل
جیدو کا نام جیدو سے بدل گیا
اپ کوئی اس کو جیدو کہتا هی نہیں تھا
اب یه چوہدری جاوید
اتنا عقل مند بن چکا تھا که
لوگوں کو فراڈ کرنے اور چالاکیاں کرنے کی تعلیم بھی دیتا تھا
چوہدری جاوید نے ایک قدم اور بڑھایا اور جس چائدا پر قرض لیا تھا
اس کو بیچنے کے لیے خریدار تلاش کیے اور
زمین کا سواد ان سے کیا
کہ لوهاروں کو بھی پتہ چل گیا
اب جی نئے خریداروں سے رقم لی اور زمیں ان کے نام کرکے
باہر کے ملک منتقل هو گیا
لوهاروں نے زور سے کچھ زمیں پر قبضہ کرلیا اور کچھ زمین دوسرے خریداروں کے قبضے ميں چلی گئی
سبھ پارٹیوں سے  هاتھ کر جانے والے چوہدری جاوید کی چلاکیوں اور عقل مندیوں  بلکہ فراڈ گے آرٹ ميں نام کی دھوم مچ گئی
لوگ سالوں تک چوہدری جاوید کی سیانف پر عش عش کرتے رهے
لوہاروں اور دوسرے خریداروں کو کچھ سال اس بات کا غم رها که زمیں زیاده قیمت پر ملی
لیکن زمین کی قدر بڑھنے پر
ان لوگوں کا غم بھی کچھ کم هو ہی گیا
اور چوہدری ؟ جو باہر چلا گیا
اس کا کچھ سال تو لوگوں کو علم تھا که بڑے عیاشی کی زندگی گزار رها هے
بعد ميں سنا
که
کہیں مر مرا گیا اور بیٹیوں نے وهیں کسی گورے اور کالوں سے شادیاں کر کے اپنے گھر بسا لیے هیں
اصل مطالعہ ؟؟
کچھ بھی نهیں !!!ـ
کون سپانا تھا؟
اپ اج کے پاکستان ميں اس بات کا فیصلہ نهیں کر سکتے
کیونکه پاکستان ميں یه تعلیم دی گئی ہے کہ جو پیسا ہتھیانے ميں جتنا هوشیار ہے وهی عقل مند هے

منگل، 26 جون، 2012

مصر میں تبدیلی

مصر میں اخر کار لوگوں نے اپنی حکومت بنا لی ہے
اور مزے کی بات که مصریوں نے
اپنی فوج کو بھی کسی حد تک هی سہی " حد " میں لے آئے هیں
که غیر ترقی یافتہ ممالک کی فوج کا وطیره رها ہے که
اپنی قوم کو اس بات کا نشہ چڑھا کر رکھیں که
ساری مشکلات کا مشکل کشا هے تو
فوج هے
لیکن پاکستان جو که سارے عالم اسلام کا درد اپنے دل میں رکھتا هے
یهاں میڈیا ، مصر مين انے والی اس تبدیدلی کو اجاگر نہیں کر رها
کیوں؟ کیون که لوکاں کو اس بات کی بھنک بھی ناں مل جائے که زمانے میں کہیں لوگ فوج کے خلاف بھی سوچتے هیں اور فوج کو حکومت کے ماتحت کرنے کی کوشش کرتے هیں !!ـ
لوکاں کو ایسا علم انتشار کا باعث بنتا هے اور " ریاست " کے مفادات پر زد کرتا هے
سارے عالم اسلام کا درد دل ميں رکھنے والے جذباتی لوگوں کو اس بات کا علم نہیں هے که
فلسطینی لوگ پاکسانوں کو کتنا نیچ سمجھتے هیں
میرے مزدور پاکستانی بھائی جو عربوں ميں کام کرتے هیں ان سے پوچھیں که مصری اور فلسطینی لوگ هم پاکستانیوں سے کیا رویہ رکھتے هیں ؟
عالم اسلام کے درد مند ، ماں کے لاڈلے پترو!!!ـ پاکستان بھی مسلمان ملک هے
اس ملک کے مسلمانو کا بھی درد کرو
ڈرون حملوں میں مرنے والے پٹھانوں ، اپنی کانوں کے حقوق مانگنے والے بلوچوں کے قتل پربھی کچھ افسوس کریں اور ان کے متعلق بھی ایمج بنا بنا کر فیس بک پر لگائیں
"ریاست" کے گندے کاموں کا کھوج لگانے کی کوشش مين غائب هو جانے والے صحافیوں اور لکھاریوں کی لاشوں کا ماتم بھی کریں
پاکستان میں بڑھتی هوئی جسم فروشی کی وجوهات پر بھی اعتراض کریں
فلسطینیوں اور دوسرے عربوں کا سوچنے والے بہت لوگ هیں اور فلسطینی اپ کی حمایت کے طلب گار بھی نہیں هیں
هاں دنیا کی سیاحت میں میں نے کئی بار دیکھا ہے که
فلسطیوں کو جب کرنسی کی ضرورت هوتی هے تو پاکستانیوں کی مسجدوں ميں چنده منگوانے آ جاتے هیں
بھلیون لوکو پاکستان کا سوچو پاکستان کا درد رکھو
هاں ميں جانتا هوں که پاکستان میں پجھلی تین  نسلیں جھوٹ کی تعلیم پر پروان چڑھی هیں
مغالطے اور مبالغے ان کا اوڑھنا بچھونا هیں
اس لیے جو بات میں لکھ رها هوں اس  کے بین السطور کا سمجھنا تو محال هے هی
عین السطور کی بھی سمجھ نہیں رکھتے
لیکن پھر بھی ایک لکھنے والا لکھ دیتا هے که
شائید کہیں کوئی چنگاری بھڑک اٹھے
اور جال دے وقت کے فرعونوں کو
اور جھوٹے خداؤں کو

پیر، 25 جون، 2012

سوشل میڈیا

یه سوشل میڈیا کیا ہے ؟
جس کا اج کل بڑا ذکر خیر هو رها هے ، پرنٹڈ میڈیا میں  !!ـ
یه میں هوں ناں جی سوشل میڈیا !ـ
یعنی که خاور کھوکھر!!ـ
جس کو شک هے  دلیل سے رد کرئے میرے اس دعوے کو!!ـ
خاور کھو کھر بلاگ لکھتا هے
خاور فیس بک پر حلقہ احباب رکھتا هے اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرتا رهتا هے
جس سے خاور کے حلقہ احباب کے لوگ  اختلاف بھی کرتے هیں اور تائید بھی !ـ
میں هوں جو وکی پیڈیا میں بھی شامل هوں ـ
تو جی میں هی هوا ناں جی سوشل میڈیا
اور میرے هم عصر لکھاری ، جو بلاگ لکھتے هیں ، جو ٹویٹ کرتے هیں جو فیس بک پر لکھتے هیں
لیکن سوشل میڈیا میں میں فیس بک کی بجائے بلاگنگ کو معتبر سمجھتا هوں
میرے بلاگر هم عصر جو دلبرداشتہ هوتے هیں که تبصرے نہیں هیں
جو شکوہ کناں هیں که قاری نہیں هیں
لیکن کچھ ناں کچھ لکھتے بھی رہتے هیں
یہی لوگ هیں ناں جی اصلی والے سوشل میڈیا !!ـ

یہی لوگ هیں جی سوشل میڈیا کے جغادری  لوگ جو اردو کے سب رنگ  کی لسٹ میں شامل هیں جو سیاره پر اجاگر هوتے هیں
تو جی آئیں بلاگ پر لکھیں ، اپنی اپنی سوچ کے ساتھ  ، خلوص نیت سے لکھے ہوئے  پر کوئی اپ کی سمجھ پر تو شک کرئے گا لیکن اپ کے خلوص پر نہیں
اور یاد رکھیں
که کوئی بھی مذہب ، سسٹم دین یا نظام یا ملک
خلوص نیت نے سوا نہیں چل سکتا جی هاں خلوص نیت هی بنیاد هے
کسی بھی کام کی ـ
اپ دیکھیں گے که انے والا وقت همارا هے انے والے زمانوں میں لوگ همیں جانتے هوں گےـ
کیا اپ کو علم هے که دنیا میں بہت سے لکھاری اور مصور مرنے کے بعد مشہور هوئے
اگر اپ کہیں که مرنے کے بعد کی مشہوری کو کیا کرنا هے
جیسے پنجابی میں کہتے هیں
عیدوں بعد تنبا پھوکنا اے
یعنی عید کے بعد نئی شلوار سلو کر کیا اگ لگانی ہے
یا جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا
تو میں کہوں گا که
اپ نے امرت کا سنا هو گا
جسے آب حیات کہتے هیں
کیا ہے یه آب حیات؟
کیا کسی نے دیکھا ہے ، یا کسی نے ایسابنده دیکھا هے جس نے اب حیات پیا هو ؟
میں نے اب حیات تو دیکھا نهیں هے لیکن
ایسے بہت سے لوگ دیکھے هیں جو مر کے بھی نہیں مرتے
اور کچھ تو مر کے بھی کمائی کرتے رہتے هیں
جیسے که اپنی میڈم نور جہاں اور بہت سے کتابوں کے لکھاری که جن کی اولادوں کو رائلٹی ملتی هے
یہی لگ هیں ناں جی جنہوں نے آب حیات پیا هوتا هے
کیا خیال هے اپ
جو که سوشل میڈیا هیں
جی هان اپ
جو بلاگ لکھتے هیں ، جو اون لائین اخبار چلاتے هیں
اپ بھی تو ا لوگوں کے ٹولے میں شامل هیں ناں جی جن میں سے کچح کو اب حیات مل جاتا هے
هو سکتا هے که وه اپ هوں
جو انے والے زمانوں کے بندے هوں
کیا خیال هے جی خاور هے که نہیں  سوشل میڈیا
اج کے زمانے کا سوشل میڈیا

جمعرات، 21 جون، 2012

مخدوم وزیر اعظم

مخدوم شہاب الدین وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/06/120620_pm_election_rh.shtml
پاکستان کا باوا آدم هی نرالا ہے
چنگے ملکوں میں حکمران خادم هوتے هیں
یهاں
مخدوم !!!ـ
مخدوم کے بعد مخدوم
چنگے ملکوں میں
سرکاری ملازم پبلک سرونٹ هوتے هیں
یہاں افسر شاہی
چنگے ملکوں میں پولیس تحفظ کا احساس
اوریہاں ؟؟
چنگے ملکوں ميں فوج ملازم هوتی هے
اور یہاں؟؟؟
چنگے ملکوں میں سیاستدان هوتے هیں اور
یہاں؟؟؟
ایک ملک کا نام تھا
پاکستان، مشرقی پاکستان
پھر کیا هوا ؟
لیکن پاکستان میں تو تعلیم دی جاتی ہے که
پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا هے
قائم کے معنی بھی کچخ اور هوں گے جی
یہاں!!
جیسے که اس ملک میں اور بہت سی چیزوں کے نام کچھ اور هی هوتے هیں
چلو جی سانوں کی
الله جاپان کو اور بھی ترقی دے

اتوار، 10 جون، 2012

ملک صاحب

ملک صاحب بڑے دولتمند چالو اور سیانے بندے هیں
لیکن دوستی کے معاملے میں بڑے بد قسمت هیں
که ان کے سارے دوست نیچ  کمینے اور گالیوں کے لائق هیں
ملک صاحب کے دوستوں کے نیچ پن اور گالیوں کے لائق هونے کا علم دوسروں کو ملک صاحب کی زبانی هی هوجاتا هے
که ملک صاحب اپنے دوستوں کو جانے  کے بعد گالیان دیتے هیں
اس لیے وه گالیاں کھانے والے هوئے
اور ملک صاحب کا رویہ اپنے جاننے والوں سے اس طرح کا هوتا هے که ان کو نیچ سمجھتے هیں
اس لیے وه سارے نیچ هوئے
تو وه جو محاوره هے که بنده اپنی صحبت سے پہچانا جاتا هے
اس کا کیا هوا ؟؟
وه ملک صاحب نے دوسروں کے متعلق  سن رکھا هے اپنے متعلق نہیں!!!ـ
حاجی صاحب نے گامے یملے کو بتایا که جب تم جاتے هو تو ملک صاحب شکر کرتے هیں که " مگروں لتھا"!!!ـ
گامي یملے نے جاندار قہقہ لگا کر حاجی صاحب کو بتایا که
یہی رویہ ملک صاحب اپ کے متعلق اور فلان اور فلاں کے متعلق بھی  هوتا هے
تو خود کو معتبر سمجھنے کے مغالطے کا شکار حاجی صاحب کا تراه هی نکل گيا
لیکن گاما یملا ملک صاحب کی اس عادت کو پہلے هی جانتا تھا !!ـ
وه ایک لطیفه هے ناں جی که
اپ کے غریب رشتے دار هیں ؟
هاں هوں کے لیکن میں  ان کو نہیں جانتا!!ـ
کیا اپ کے امیر رشتے دار هیں ؟؟
هاں هیں لیکن وه مجھے نہیں جانتے!!ـ
تو کچھ اسی طرح کے ملک صاحب کے گریٹ فرینڈز بھی هیں

لیکن وه ملک صاحب کو گھاس نہیں ڈالتے
وه فرینڈز هیں ملک کی سیاسی پارٹیوں کے سجاده نشین لوگ
اعلی ترین سیاسی لیڈر لوگ
ان کو ملنے کے لیے ان کے ساتھ فوٹوگھنچوانے کے لیے ملک صاحب مرے جاتے هیں
لیکن
ان لوگوں کا روه ملک صاحب کے ساتھ وه والا هوتا هے جو ملک صاحب کا
اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ هیں
یعنی ملک صاحب کے جانے کے بعد وه  لیڈر بھی کہتا هے " مگروں لتھا" اور ان کو چمچه ٹائیپ اور چاپلوس اور خوشامدی سمجتھا هے
بس جی مختصر یه سمجھ لیں که جی ملک صاحب لوکاں کی "اس" قسم سے تعلق رکھتے هیں
جو
یا تو چمچه بن کر رہتے هیں یا چمچه بنا کر رکھتے هیں
ملک صاحب کے بھی کچھ چمچے هیں اور ملک صاحب بھی کچھ لوگوں کا چمچه هیں ـ
ملک صاحب بہت زیاده مذہبی اور عبادت گزار هیں
اتنے زیاده که کسی مسجد کی انتظامیه کو بھی نماز ناں پڑھنے پر ڈانٹ سکتے هیں
مذہبی محفلوں کے دلداه
چنده دے کر فوٹو کنچھوانے کے شوقین
لیکن ان کے حاسد ان کی اس کوالٹی کو
لڑکیاں اور کاروباری مددگار پھنسانے کا جال کہتے هیں
حاسدین کا کیا هے
وه کوئی بھی هو سکتا هے اور کسی کا بھی هو سکتا هے
جسے که ملک صاحب
بدذات خود هیں !!!ـ
نوٹ یه تحریر سماج سدھار کے طور پر لکھی گئی هے
کسی سے مشابہت اتفاقیه هی هو سکتی هے
لیکن اگر پھر بھی کسی پر فٹ بیٹھ هی جائے تو ؟
تے غصہ کھا کے اپنیاں عادتاں صحیع کرو جی !! عادتاں!!!ـ
دوجیان نوں وی انسان سمجھو ، سوائے دولت کے ، دوسرے اپ سے بہت زیاد گریٹ هیں گریٹ!!ـ

جمعہ، 8 جون، 2012

چہ پدی چہ پدی را شوربہ

فصلوں کی تیاری ميں
زیاده تر کام الله کریسی پر هی چھوڑے جاتے هیں
که کچھ پودے نکال پھیننے پڑتے هیں
کچھ موسم کی سختی سے مرجا جاتے هیں یا کچھ
کسان کی عدم توجہی بھی هوجاتی هے که پودے هی هيں ناں جی
 کوئی انسان کے بچے تو نهیں ناں جی
بار برداری کے جانور بھی کچھ اسی طرح سے تیار کیے جاتے هیں
کچھ بچ گئے کچھ مر گئے
دوا ملی که ناں ملی
کوئی انسان کے بچے هیں نہیں ناں جی که کوئی ان کے لیے هلکان هو که
انسانی زندگی بڑی مہنگی هوتی هے
ڈنگروں کو کام کاج کےلیے تعلیم تربیت بھی دی جاتی هے
گھوڑے کو تانگے میں جوتنے کی تربیت
گدھے کو پیٹھ پر "پلانا" برداشت کرنے کی تربیت
یا که انسانی حکم کو سن کر حرکت کرنے کی تعلیم اور تربیت
اس تربیت کے دوران
کچھ جانور مر مرا بھی جاتے هیں تو کیا
کوئی انسان کے بچے تو نهیں هیں ناں جی؟
چوچے تیار کرنے کے عمل میں کچھ اگر لیباٹری میں مر مرا جائیں تو کیا جی
کوئی انسان کے بچے تو نہیں هیں ناں جی
بم دھماکے میں تارگٹ کلنگ میں یا اغوا برائے تاوان میں کچھ لوگ مر مرا بھی جاتے هیں
یا
ترقی یافته اقوام اور مقدس عربی نسل کی ترقی کو سہارا دینے کے لیےجو مزدور تیاری کے مراحل یا
دوران ٹرانسپورٹ مر مرا جاتے هیں تو کیا جی
یه کوئی
ریاست کے بندے تو نهيں ناں جی

جمعرات، 7 جون، 2012

رخِ خورشید کا تل

رخسار یار پر خال کی باتیں
که
خال یار کی قسمت کی باتیں
اردو کی رومانی شاعری
میں بہت چرچا هے جی
لیکن گزرے کل کی بات هے که جاپان میں صبح کے ساڑھے سات بجے سے لے کر دوپہر دو بجے تک
خورشید کے چہرے پر تل سابن گیا تھا
همارے نظام شمسی کے سیارے زهرہ کے زمین اور سورج کے درمیاں سے گزرنے پر
همارے علاقے میں تو مطلع ابر الود تھا
که غریب کے ارمانوں کی طرح اسمان پر بھی بادل چھائے تھے
لیکن جاپان میں بہت سے علاقوں ميں سورج کے چہرے پر بنے اس تل کو ایک طرف سے دوسری طرف پھسلتے هزاروں هی لوگوں نے دیکھا ہے
جب جاپان کے اسمان پر یه
موجود خورشید کے خال پر زہرہ کا تل پھسلتا هو اچل رها تھا
بی بی سی کے اردو اخبار ميں اس کے متعلق صیغه ماضی  میں لکھا جاچکاتھا

بدھ، 6 جون، 2012

مکتی

آواگون  کے ماننے والے
کهتے هیں که
چوراسی لاکھ جنموں کا چکر هوتا هے
کسی آتما کو مانش کی جون میں داخل هونے کے لیے
جی هاں ایک روح چوراسی لاکھ مرتبہ مختلف جسموں ميں زندگی گزارتی هے
یه جسم مختلف جانوروں کےهوتے هیں
وه جانور جو همیں نظر اتے هیں اور وه بھی جو هماری دنیا سے دور جنگلوں میں بستے هیں
ان میں وه جنم بھی هوتے هیں
جو سورج نکلنے سے لے کر سورج ڈھلنے تک کی هی زندگی رکھتے هیں

اور روح موت کا مزہ اور جس جسم میں هوتی هے اس کی مجبوریوں
اور لاچاریوں کے ساتھ ساتھ اس جسم  کی شہوتوں اور چاہتوں کو بھی بھگتتی هے
تب جا کر روح کو انسان کا جسم ملتا هے
ہندو  ماس ( گوشت ) نہیں کھاتے، کچھ کھا بھی لیتے هیں ایسے هی جیسے شراب کی پابندی کے مذهب کے کچھ لوگ شراب کی خماری شاعری اور  خراب کاری کرتے هیں
ایک برہمن نے بتایا که
جس  پشو ( جانور ) کا یه ماس کھاتے هیں ، پچھلے جنموں مین ان جانوروں نے ان کا ماس کھایا هوتا هے
تو جی چوراسی لاکھ جنموں کے چکر کے بعد
روح بنده بنتی هے
اور اگر یه بنده زندگی میں نیک کام ناں کرے تو؟؟
تو اس کی روح پھر سے چوراسی لاکھ جنموں کے چکر میں ڈال دی جاتی هے
اور اس روح کو یه چکر پورا کرنا هی پڑتا هے
اور پھر جا کر اس کو دوباره انسانی جسم ملتا هے
اور اگر یه بنده پھر نیک کام ناں کرے تو؟؟
تو پھر وهی چوراسی لاکھ جنم!!!ـ
اور اگر بنده زندگی ميں نیک کام کرے تو؟؟
یه بنده مکت هو جاتا هے
مکت یعنی که جنموں کے چکر سے نکل کر شانت هو جاتا ہے
اور یه آتما پھر سورگ ميں رهتی هے
اپ کا مذہب کیا کہتا هے
اس بات کے بیچ میں ؟؟
هندو دھرم ميں اس طرح کی بہت کہانیاں هیں که
کسی بندے نے راستے سے کانٹے ہٹائے
اور وه مکت هو گیا
فلاں نے فلاں کام کیا اور مکت هو گیا
کسی کو کسی پنڈت نے کسی کو کسی سادھو نے کسی کو کسی نے اور کسی کو کسی نے
مکت کروادیا
آپ نے بھی اس طرح کی کہانیان سنی هوں گي؟؟
لیکن
اپ نے
جو کہانیاں سنی هوں گی
وه
مشرف اسلام کرکے اپ کو سنائی گئی  هوں گی
وارث شاھ دا بولنا بھید اندر
دانش مند نوں غور ضروری اے
زبور میں لکھا هے که دانش مند خداوند سے ڈرتا هے

بدھ، 30 مئی، 2012

راگ مالنکوس

وهاں ملک حبیب الرحمن سے بات کر رها تھا
خاور
که جی جو حال هے ان دنوں پاکستان کا
کچھ ایسا نہیں لگ رها که
پاکستان کو باقی کی دنیا سے بائیکاٹ کا خدشه ہے
یا که کیا هے که اکر ملک کا نام بدل بھی جائے لیکن نام اچھا هو جائے اور
عام لوگوں کو بجلی پانی اور انصاف جیسی عیاشیاں حاصل هو جائیں ؟
حالانکه خاور اور ملک صاحب منه جوڑ کر یه باتیں کر رهے تھے که کسی اور کو سنانا ان کی مرصی نہیں تھی
لیکن جی ڈار صاحب بھدل کر ملک صاحب کے پيجھے آ بیٹھے اور لگے ٹرانے
تم یه غلط بات کر رهے هو
خوار نے حلیمی سے کہا که تم چپ رہو تمہاری سمجھ سے اوپر کی بات هے
لیکن ڈار
راشد ، شاہد اور
خاور کے درمیان والی کرسی پر آ بیٹھا اور
شورع هو گیا
خاور اگر تمہاری ماں کا نام بدل دیا جائے تو تمہیں کیسا لکے؟
سب لوگ خاور کا منه دیکھنے لگے که کیا جواب دیتا هے
که سامنے بیٹھے
یملے نے ڈار کو مخاطب کر کے اسی کو لہجے میں پوچھا
که
اوئے ڈار کیا نام چیج کیا هے اوئے خاور نے
تمہاری ماں کا؟؟
نئیں یه خاور کہتا هے که پاکستان کو ختم هو جانا چاهیے
پاکستان کو تباه کردیا جانا چاهیے ، ڈار بتانے لگا
تو شاهد اور خاور نے کہا که خاور نے تو ایسا کچھ نهں کہا
لیکن ڈار تھاکه
اسی بات کی کوشش میں که ایک
اہل علم سے بحث کرکے زرا اپنے نمبر بنا لے که
ڈار کی بڑی بات هے خاور کو لاجواب کردیا
بات کو گرم هوتے دیکھ کر راشد نے سیانف دیکھانی شروع کی که
چھڈو جی چھڈو جی
مٹی پاؤ
لیکن خاور نے کہا
اچھا میں بات کو بدلتا هوں
اور ڈار سے پوچھنے لگا
تم نے وه گانا سنا هے
الجھی هے لٹ سلجھا جا رے بالم
میں ناں لگاؤں کی هاتھ رے
ڈار نے کہا
هاں
تو خاور نے پوچھا
که اگر یه گانا
بجائے راگ تیلنران کے
راگ مالنکوس پر گایا جاتا تو کیسا لگتا؟؟
ڈار صاحب کی بولتی بند که یه کیا پوچھا گيا هے
یا که یه هے کیا
اور باقی کے سبھی لوگوں کا هاسا نکل گیا
لیکن مجھے امید هے که
سمجھ کسی کو نہیں لگی که بات کیا کر گیا ، خاور کنگ!!!ا

Popular Posts