جمعہ، 28 جون، 2019

اللہ خیر کرئے


میرے حالات  بھی بہت ٹائٹ چل رہے ہیں ، پیسے کی آمد نہیں ہے اور خرچے منہ کھولے کھڑے ، سیکوڑتی پر ہونے والے خرچوں  اور ٹینسن نے حالات بہت خراب کر دئے ہیں ،۔


میرا بھی ایک امریکہ تھا ، بلکہ ہے ، جس کی مدد سے میں نے یارڈ بنائے ، کاروبار میں کمائی کے ذرائع بنائے ،۔
میں اپنے امریکہ کی آواز پر اس کے کام کرنے جایا کرتا تھا ، کبھی کہیں کسی یارڈ کی صفائی ، کبھی کسی مکان کے پودوں کی جھاڑ جھانٹ  ،اور میرا امریکہ مجھے کئ طرح سے امداد دیا کرتا تھا ، کبھی کسی گاری کی فروخت کے منافع سے کچھ دے دیتا تھا کبھی لوہے وغیره کی صورت میں منافع کمانے کا موقع مل جاتا تھا ،۔ 
مال کی خرید فروخت کے لئے کئی ملین نقدی کا قرض بھی دیا ، جو کہ سالہا سال سے میں اس کو واپس نہیں کر سکا ، میرا امریکہ ہلکا ہلکا تقاضا کرتا رہتا ہے ،۔
میں بھی واپس کرنے کے وعدے پر اس کو ٹرخاتا رہا ہوں ،۔
میرے امریکہ کے ساتھ بھی ایک کیری لوگر بل ہو گا 
کہ ایک حاقانی ٹاپب بندہ  میرے امریکہ کے قریب ہوتا چلا گیا جس نے میرے امریکہ کو پٹیاں پڑھانی شروع کر دیں کہ  خاور بہت کمائی کر رہا ہے ، خاور کی بڑی اڑان ہے ، اس کی مدد کرنا تو اپنے کو بیوقوف سا محسوس کرنا ہے 
وغیرہ وغیرہ
اس دوران میرے امریکہ جس کو میں ساچو کہتا ہوں اس کی کچھ چیزیں میرے پاس پڑی ہوئی تھیں وہ چوری ہو گئیں ،۔
اصل میں کچھ افغانی مدد مانگنے کے لئے آئے ہوئے تھے جن کی مدد کرتا تھا لیکن وہ افغانی چور تھے  جنہوں نے میری چیزیں چوری کرنا شروع کر دیں ،۔
ہر چوری کے بعد میں سیکورٹی پر خرچ شروع کر دیتا تھا ۔
کبھی دیواریں اونچی کر رہا ہوں تو کہیں دیواروں کی تعمیر  کر رہا ہوں جس پر خرچے آ رہے ہیں اور چوری ہونے والے مال کی وجہ سے سرمایہ بھی سرکتا چلا جا رہا ہے ،۔
ایک یارڈ کے پڑوسیون نے حد بندی کا مسئلہ کھڑا کردیا ہوا ہے ،۔
ان کی طرف سے پاس پڑوس (عالمی برادری) کو یہ پٹیاں پڑھائی جا رہی ہیں کہ 
یہ بندہ ہمارے پڑوس میں ہے تو کچرا وغیرہ چھوڑ کر بھاگ جائے گا ،۔
اس کے کاروبار سے رسنے والے تیل سے ہماری فصلیں اور زیر زمیں پانی خراب ہو جائے گا ،۔
جس کے لئے مجھے اپنی پروپگینڈا مشنری بھی بنانی پڑی ہے اور کچھ لوگوں کو پانی صفائی وغیری کے لئے وضحتوں کے لئے بھی ٹائم نکالنا پڑتا ہے م،
اب یہ حال ہے کہ سیکورٹی کمپنیوں کے ماہانہ بل ہیں ،۔
رات کو سونے سے پہلے قیمتی چیزوں کے سامنے روکاوٹیں گھڑی کرنے کی ٹینشن اور وقت کا ضیاں ہے ۔
سیکورٹی کی ٹینشن میں منافع بخش کام پسِ پشت چلے گئے ہیں اور سیکورٹی بڑی ٹائٹ ہو چکی ،۔
اور ساچو نے امداد بلکل بند کر دی ہوئی ہے 
اب مال خریدنے کے لئے بھی پیشے نہیں ہیں ،۔
سیکورٹی کو میں کم نہیں کر سکتا 
کہ پھر چوری ہو جائے گی ،۔
لیکن آہستہ آہستہ حال یہ ہونے کو ہے کہ 
چوری کے قابل مال فروخت کر کرکے سیکورٹی کے بل  تو بھر لوں گا 
لیکن 
جب یہ مال بھی ختم ہو گیا تو ؟
سیکورٹی کس چیز کی ؟
لیکن بل تو پھر بھی دینے ہون گے کہ سیکوڑتی کمپنیوں معاہدے کو پانچ سال سے پہلے ختم کرنے پر ہرجانے کا معاہدہ بھی لکھوایا ہوا ہے ،۔
اس لئے میں تو سنجیدگی سے کچھ ہارڈ یا کہ زمینیں بیچنے پر غور کر رہا ہوں ،۔
تاکہ نہ ہو گا مال 
نہ ہو گی سیکورٹی 
جیسا کہ ماضی قریب کی ہسٹری میں سویت یونین نے کیا تھا ،۔
سیکورٹی کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے کچھ ممالک چھوڑ دئے تھے ،۔
میری تحریر پر یہ نہ کہہ دینا 
کہ ذات دی کوڑہ کرلی تے چھتیراں نوں جپھے ،۔
اپنے چھوٹے سے کاروبار کو ملکوں کی سیاست سے  مثالیں دے کر بتا رہا ہے ،۔
بس جی دعا کرو 
اللہ خیر کرئے اور میرے کاروبار میں منافع آئے ، یا کہ چکھ اچانک کہیں سے بڑی کرنسی مل جائے مفت میں !،۔
ورنہ حالات بہت تنگ ہیں ،۔
میں بھی ہوں تو کم عقل ہی 
لیکن
کیری لوگر بل اور سیکورٹی کے خرچوں کی وجوح زیادہ بڑی ہیں  ،۔

جمعرات، 20 جون، 2019

پنجاب کی جاتیاں


دادے کی زمین داری تھی ، چوہڑا لوگ  سیپی کر کے زمینوں پر رکھے ہوئے تھے ،۔
چوہڑا لوگوں کا کھانا پینا علیحدہ ہوتا تھا ،۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے شادی بیاھ پر چوہڑوں کے خاندان کے بچے بوڑھے اور خواتین کھانا کھانے آتے تھے ، ان کو بھی انہی برتنوں میں کھانا دیا جاتا تھا ، جیسا کہ سب لوگوں کو ،۔
میں نے دادی سے پوچھا کہ ان کے برتن علیحدہ کیوں نہیں ہیں  ؟
 تو مجھے بتایا گیا کہ کرائے کے برتن ہیں سب کے سانجھے ہیں !،۔
دلچسپ سوال اس دن پیدا ہوا جس دن  ایلس اور یونس مسیح کے بیٹے کی شادی تھی 
اور اگلے دن ولیمے پر دادا جی کو بھی بمعہ اہل عیال بلایا ہوا تھا  ،۔
میں نے پوچھا کہ 
ہم چوہڑوں کے گھر کا کھانا کھائیں گے ؟
تو مجھے بتایا گیا کہ رسم پوری کرنے کے لئے دادا جی چوہڑوں کے گھر میں جائیں گے ، اور وہاں سے کچا کھانا ملے گا جو ہم خود پکا کر کھائیں گے 
کہ
پنجاب کی یہی رسم ہے ،۔
اپنی جاتی سے اعلی جاتی کے گھر جا کر کھایا جا سکتا ہے لیکن اپنے سے کمتر جاتی سے تعلق تو رکھنا ہے اس لئے کمتر جاتی کے گھر سے کچا کھانا سوجی گھی چینی وغیرہ آ جائے گا م،۔
پنجاب میں  سکھ جاٹوں کے کئی ایسے گاؤں تھے جو تقسیم سے پہلے ایک ہی برادری کے لوگ سکھ دھرم کے بھی تھے اور مسلمان بھی تھے ،۔
تحصیل ڈسکہ کے دو مشہور گاؤں آدمکے چیمہ اور آدمکے ناگرہ 
ہر دو گاؤں میں چیمے اور ناگرے سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی ، ان کے کھروں میں شادی بیاھ پر نیوندرے کا بھی لین دین ہوتا تھا ، کھانے کی دعوتیں بھی ،۔
ایک ہی گوت کے جاٹوں میں سکھ جاٹ اعلی جاتی کے ہوتے تھے اور مسلمان ، نیچ جاتی کے ۔
اس لئے مسلمان چیمے ناگرے تو سکھ چیمے ناگروں کے شادی بیاھ پر کھانا کھانے چلے جاتے تھے 
لیکن 
خود ان کے گھروں میں ہونے والی شادیوں میں سکھ چیمے اور ناگروں کے گھر کچا اناج بھیجا جایا کرتا تھا،۔
پاکستان بننے کے بعد عظمت اسلام کے شور میں پاکستان کی پچھلی چار نسلوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہماری معاشرتی حثیت کیا تھا ؟


مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مغل شہزادے  ؟
پاکستان میں تعلیم دی جاتی ہے کہ انگریزوں نے  مغلوں سے ہندوستان  چھین لیا تھا ،۔
لیکن
ستائیس جون  1839ء  کا دن مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مرن دن ہے !،۔
رنجیت سنگھ  کہ حکومت  ملتان کشمیر  سے لے کر توخم تک پبھیلی ہوئی تھی ، یعنی کہ تقریباً  اج کا پاکستان  اور ہندوستان کا پنجاب اور ہریانہ  راجہ رنجیت سنگھ کی قلم رو تھا ،۔

سن 1857ء کا غدر المعروف جنگ آزادی   سے کوئی اٹھارہ سال پہلے موجودہ پاکستان پر کا حکمران حکومت کر کے گزر بھی چکا تھا ،۔
تو اس کا مطلب ہوا کہ موجودہ پاکستان کا علاقہ انگریز نے راجہ رنجیت سنگھ سے  یا کہ اس کی اولاد سے سازشیں کر کے حاصل کیا تھا ؟
تو یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے 
کہ
پاکستان میں رہنے والے مغل شہزادے  المروف لوہاراں ترکھاناں دے منڈے   سکھا شاہی کے دور کو بائی پاس کر کے اپنا شجرہ بہادر شاھ ظفر سے کس طرح ملاتے ہیں ؟
موجودہ پاکستان کے مغلوں کی سلطنت مغلیہ کے دور کی جاگیریں کیا ہوئیں ؟
شیر سوری نے تھوڈل مل سے مل کر پٹوار کا نظام بنایا تھا ، اس نظام کے تحت مغلوں کی زمینوں کی ملکیت کی طرح کا شجرہ ہونا چاہئے ہے جیسا کہ جاٹوں کا ہوتا ہے ،۔

ہفتہ، 15 جون، 2019

ایک کا خرچا دوسرے کی کمائی



ایک تحریر ، ان کے لئے جو تھوڑی سی عقل ، تھوڑا سا درد دل  رکھتے ہیں یا کہ کم از کم بے عقل نہیں ہیں ،۔
کہ
پاکستان میں رویہ بن چکا ہے کہ ایوان صدر کے خرچے ہوں کہ وزیر اعظم ہاؤس کے خرچے  ! سوشل میڈیا پر لوگ لٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں ،۔
عید ہو کہ شبِ برات  ، کوئی میلا ہو کہ بسنت ، بلکہ اب تو لوگ کسی کی شادی پر کے بھی خرچوں پر کوسنے دے دے کر  کوس رہے ہوتے ہیں ،۔
میں جانتا ہوں یہ فلسفہ کہاں سے آیا 
لیکن اس کی نشاندہی نہیں کروں گا کہ بات کسی  اور طرف چلی جائے گی اور جو بات میں کہنا چاہتا ہو پسِ پشت چلے جائے گی ،۔
یہ جو خرچے ہوتے ہیں 
مثال کے طور پر  ایوان صدر کے لئے طوطے کا پنجرہ بنوانا ہے م،۔
اس پر جو بھی رقم مختص ہو گی ، وہ کہاں جائے گی ؟
وہ پاکستان کے کسی شہری ٹھیکدار کی اکاؤنٹ میں جائے گی ،  وہ ٹھیکدار اس رقم میں سے کچھ رقم کسی مستری کو دے گا کہ پنجرہ بنوا دو ، وہ مستری بھی پاکستان کا شہری ہے ،۔
مستری اس پنجرے کے لئے بازار سے لوہا خریدے گا ، جس پر لوہے کا دوکان دار منافع کمائے گا ، وہ دوکاندار بھی پاکستانی شہری ہے ،۔
ہر بندہ ایوان صدر سے ملنے والی اس رقم میں سے کچھ نہ کچھ منافع کما رہا ہے ،۔
یہ منافع وہ بندہ کسی ریسٹورینٹ میں جا کر خرچ کرئے گا ، اس ریسٹورینٹ میں کام کرنے والے کک اور بیرے  بھی ایوان صدر سے ملنے والی رقم سے مستفید ہوں گے  ؟
اس طرح ایک سلسلہ چلے کا جو دولت کو گراس روٹ لیول تک لے کر جائے گا م،۔
اور یہ سارے فائدے عام پاکستانی اٹھا رہے ہوں گے ،۔
اسی طرح ٹھیکدار نے ایوان صدر سے ملنے والی رقم سے لمبی ہی دیہاڑی لگائی ہو گی ؟
اس بکر عید پر وہ ٹھیکیدار منڈی سے بیس لاکھ کا بیل خرید کر قربانی کرئے گا ،۔
وہ بیل کہاں سے آیا ہو گا ؟
چیچوکی ملیاں کے کسی آرائیں نے پالا ہو گا ،۔
گوجرانوالہ کے کسی مہر  کے گھر کا بچھڑا ہو ؟
ایک سال کی محنت سے پال پوس کر  بیس لکھ کا بیل بیچنے والا بھی ایک پاکستانی ہی ہو گا ،۔
جب بیس لاکھ اس مہر یا آرائیں کے گھر پنچے کا تو َ
ہو سکتا ہے اس نے بیٹی کی شادی کرنی ہو  ؟
مہر کی بیٹی بھی پاکستانی ہے اور اس کی شادی پر ہونے والے خرچے ، کپڑوں کی خرید داری ، زیور بنوانے ، کھانا پکوانا ، یہ سب خرچے جو ہو رہے ہیں وہ سب خرچے کسی نہ کسی کی کمائی کا باعث بن رہے ہیں  ؟
اور میری نظر میں یہ ساری کمائی کرنے والے میرے اپنے لوگ ہیں پاکستانی  !،۔
اے اے عقل رکھنے والو !۔
یہ ایک طریقہ کار ہے،  اکنامک کا، دولت کو معاشرے میں بانٹنے کا ،۔
لیکن  پسماندہ ممالک میں دولت بانٹنے کے اس طرقہ کار کو سب سے بڑی روکاٹ لگاتی ہیں ان ممالک کی فوجیں ،۔
اگر فوج کی وردیاں ، فوج کے بوٹ ، فوج کا دلیہ ، فوج کی بالٹیاں ، بیلچے  بیلٹس اور دیگر سامان ، ٹھیکے پر سول سوسائیٹی سے بنوایا جائے ، جیسا کہ امریکہ فرانس  جرمنی برطانیہ وغیرہ کرتے ہیں تو  ؟
اوپر دی گئی ایوان صدر کے پنجرے کی مثال کی طرح دولت  معاشرے میں بکھر کر اپنے ثمرات بانٹتی ہے ،۔
لیکن پس ماندہ ممالک کی افواج یہ سارے ٹھیکے  اپنے ہی جنریلوں کو دے کر ڈیفینس کے علاقوں میں فیکٹریاں اور گودام بنا کر دولت کو ڈفینس تک محدود کر دیتے ہیں جس سے ڈیفینس کی زندگی اور سول معاشرے کی زندگیوں میں طبقاتی فرق در آتا ہے ،۔
جاپان میں کاروباری لوگ ٹیکس بچانے کے لئے ایک ٹیکٹ استعمال کر تے ہیں ،۔
دو سو ملین کی انکم پر چالیس فیصد (اندازاً ) انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے ،۔
لیکن 
ایک سو ملین کی انکم پر دس فیصد(اندازاً ) ٹیکس ہوتا ہے ،۔
کاروباری لوگ جب دیکھتے ہیں کہ اس سال انکم دوسو ملین سے تجاوز کر رہی ہے تو ؟
جاپانی   لوگ ٹیکٹ استعمال کرتے ہیں کہ
نئی مشینیں خرید کر ، اور اپنے ورکروں کو بونس کے نام پر  نقد رقم دے پر ایک ڈیڑھ سو ملین خرچ کر کے دیکھا دیتے ہیں ،۔
جس سے انکم ٹیکس صرف دس فیصد رہ جاتا ہے ،۔
جاپان کی حکومت کی نظر میں ان کا یہ ٹیکٹ کوئی جرم نہیں ہے 
کیونکہ بونس کی مد میں دی گئی رقم جاپانی شہریوں کی انکم بنے گی اور نئی مشنری خریدی گئی رقم جاپان کی صنعت  کی کمائی بنے گی ،۔
بونس میں ملنے والی رقم ایوان صدر کے پنجرے والی مثال کی طرح ،  قوم کے پاس بکھر کر ایک کا خرچا دوسرے کی کمائی بنے گی ،۔
تحریر خاور کھوکھر

Popular Posts