معاشرہ اور معاشرت
میں ایک بیوہ ہوں ، خاوند کو مرئے کئی سال ہو چکے ہیں ، میرا ایک بیٹا بھی ہے ، جو کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے دیور کا کا بچہ ہے ۔
میرے خاوند کے اس چچا زاد کے گھر کی دیوار سانجھی ہے ناں ، شائد اس لئے ،۔ میرے بچے کی پیدائش کے ایک ہی سال میں میرا خاوند جوانی میں ہی بیمار پڑ کر فوت ہو گیا تھا ، محلے میں سبھی یہ کہتے ہیں کہ میں نے دیور کے ساتھ مل کر زہر دے دیا تھا ۔
بچہ چھوٹا ہے ، گھر میں اکیلی ہوتی ہوں ، دیور اور دیگر سسرالی رشتہ دار کڑوے گھونٹ کچھ ناں کچھ مدد امداد کرتے ہی رہتے ہیں ۔
پچھلے کئی ہفتوں سے رات کو، کوئی میرے گھر کی باہر سے کنڈی لگا جاتا ہے ،۔
صبح لوگوں کے جاگنے تک میں رفع حاجت کے لئے بھی نہیں نکل سکتی ، دیوار پھلاند کر باہر جانا عورت ذات کے لئے مشکل ہے ۔
بہت ذہن دوڑایا کہ کہ کون ہو سکتا ہے ، کچھ سمجھ نہیں لگی ،۔
اخر ایک رات میں نے ساری رات جاگ کر کنڈی لگانے والےکو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا ،۔ میں کوٹھے پر بیٹھ گئی کہ اج ضرور شرارتی بندے کو پکڑ کے چھوڑوں گی ۔
ساری رات چھت پر بیٹھے گزر گئی ہے ، اوس سے کپڑے بھیگ چکے ، سوچوں کی یلغار کہ لوگ کسی بیوہ کو زندہ کیوں نہیں رہنے دیتے ،۔
دیور بھی اب شادی کر کے پڑوس میں ہی اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی کر کے میرا دل جلاتا ہے
بھری جوانی کی اداس راتیں میں نے دیور کے انتظار میں گزار دیں ، ۔
رات ڈھلنے لگی لیکن کوئی بھی بندہ میرے دروازے کے سامنے نہیں گزار ، میں یہ سوچنے لگی کہ شائد آج میری محنت اکارت جائے ، ، کنڈی لگانے والا بندہ آج ناغہ کرنا چاہتا ہوگا ۔
تہجد کے وقت ہو گیا ، محلے کے صوفی صاحب کو آتا دیکھ کر میں مایوس ہو گئی کہ اج شرارت کرنے والا بندہ نہیں آئے گا ۔ اب تو لوگ تہجد کے لئے جاگ گئے ہیں ، اب کون آئے گا ۔
صوفی صاحب کا جانوروں والے باڑے کا راستہ میرے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے ۔ میں سوچوں میں گم خالی نظروں سے صوفی صاحبب کو گزرتے دیکھ رہی تھی کہ مجھے حیرانی ایک جھٹکا لگا ، صوفی صاحب گلی کے درمیان سے اچانک میرے دروازے کی طرف مڑے اور ایک سیکنڈ کے عرصے میں میرے کواڑ کی کنڈی لگا کر چلتے بنے ۔
میں نے گالی دی اور صوفی صاحب پر اینٹ پھینک ماری ،۔
صوفی صاحب بڑھاپے میں بھی بہت پھرتیلے نکلے اینٹ کے وار سے بچ کر نکل گئے ۔
صبح میں میں نے شور مچا کر سارے محلے کو اکٹھا کر لیا ۔
کہ صوفی صاحب نے یہ کام کرتے ہیں ۔
سارے محلے نے مجھے چھوٹا کیا ، ایک بڑی برادری کے بڑے بھائی ،اور فارن کی کمائی والے بیٹوں کے باپ صوفی صاحب کو کسی نے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ یہ بیوہ عورت جو کہہ رہی ہے ، اپ کا اس پر کیا موقف ہے ۔
اگر رسمی طور پر کسی نے صوفی صاحب سے بات کی بھی تو ؟
صوفی صاحب نے کہا
بےچاری بیوہ ،دیور نے بھی شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا ہے ناں اس لئے مرد کی خواہش میں اب الزامات پر اتر آئی ہے ، ۔
میں اس بات سے ہی مطمعن ہوں کہ اینٹ کا اوچھا ہی سہی وار کرنے سے یہ ہوا کہ اب میرے دروازے کی کنڈی کوئی نہیں لگاتا ۔
میرے خاوند کے اس چچا زاد کے گھر کی دیوار سانجھی ہے ناں ، شائد اس لئے ،۔ میرے بچے کی پیدائش کے ایک ہی سال میں میرا خاوند جوانی میں ہی بیمار پڑ کر فوت ہو گیا تھا ، محلے میں سبھی یہ کہتے ہیں کہ میں نے دیور کے ساتھ مل کر زہر دے دیا تھا ۔
بچہ چھوٹا ہے ، گھر میں اکیلی ہوتی ہوں ، دیور اور دیگر سسرالی رشتہ دار کڑوے گھونٹ کچھ ناں کچھ مدد امداد کرتے ہی رہتے ہیں ۔
پچھلے کئی ہفتوں سے رات کو، کوئی میرے گھر کی باہر سے کنڈی لگا جاتا ہے ،۔
صبح لوگوں کے جاگنے تک میں رفع حاجت کے لئے بھی نہیں نکل سکتی ، دیوار پھلاند کر باہر جانا عورت ذات کے لئے مشکل ہے ۔
بہت ذہن دوڑایا کہ کہ کون ہو سکتا ہے ، کچھ سمجھ نہیں لگی ،۔
اخر ایک رات میں نے ساری رات جاگ کر کنڈی لگانے والےکو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا ،۔ میں کوٹھے پر بیٹھ گئی کہ اج ضرور شرارتی بندے کو پکڑ کے چھوڑوں گی ۔
ساری رات چھت پر بیٹھے گزر گئی ہے ، اوس سے کپڑے بھیگ چکے ، سوچوں کی یلغار کہ لوگ کسی بیوہ کو زندہ کیوں نہیں رہنے دیتے ،۔
دیور بھی اب شادی کر کے پڑوس میں ہی اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی کر کے میرا دل جلاتا ہے
بھری جوانی کی اداس راتیں میں نے دیور کے انتظار میں گزار دیں ، ۔
رات ڈھلنے لگی لیکن کوئی بھی بندہ میرے دروازے کے سامنے نہیں گزار ، میں یہ سوچنے لگی کہ شائد آج میری محنت اکارت جائے ، ، کنڈی لگانے والا بندہ آج ناغہ کرنا چاہتا ہوگا ۔
تہجد کے وقت ہو گیا ، محلے کے صوفی صاحب کو آتا دیکھ کر میں مایوس ہو گئی کہ اج شرارت کرنے والا بندہ نہیں آئے گا ۔ اب تو لوگ تہجد کے لئے جاگ گئے ہیں ، اب کون آئے گا ۔
صوفی صاحب کا جانوروں والے باڑے کا راستہ میرے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے ۔ میں سوچوں میں گم خالی نظروں سے صوفی صاحبب کو گزرتے دیکھ رہی تھی کہ مجھے حیرانی ایک جھٹکا لگا ، صوفی صاحب گلی کے درمیان سے اچانک میرے دروازے کی طرف مڑے اور ایک سیکنڈ کے عرصے میں میرے کواڑ کی کنڈی لگا کر چلتے بنے ۔
میں نے گالی دی اور صوفی صاحب پر اینٹ پھینک ماری ،۔
صوفی صاحب بڑھاپے میں بھی بہت پھرتیلے نکلے اینٹ کے وار سے بچ کر نکل گئے ۔
صبح میں میں نے شور مچا کر سارے محلے کو اکٹھا کر لیا ۔
کہ صوفی صاحب نے یہ کام کرتے ہیں ۔
سارے محلے نے مجھے چھوٹا کیا ، ایک بڑی برادری کے بڑے بھائی ،اور فارن کی کمائی والے بیٹوں کے باپ صوفی صاحب کو کسی نے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ یہ بیوہ عورت جو کہہ رہی ہے ، اپ کا اس پر کیا موقف ہے ۔
اگر رسمی طور پر کسی نے صوفی صاحب سے بات کی بھی تو ؟
صوفی صاحب نے کہا
بےچاری بیوہ ،دیور نے بھی شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا ہے ناں اس لئے مرد کی خواہش میں اب الزامات پر اتر آئی ہے ، ۔
میں اس بات سے ہی مطمعن ہوں کہ اینٹ کا اوچھا ہی سہی وار کرنے سے یہ ہوا کہ اب میرے دروازے کی کنڈی کوئی نہیں لگاتا ۔