جمعرات، 27 اگست، 2015

معاشرہ اور معاشرت

میں ایک بیوہ ہوں ، خاوند کو مرئے کئی سال ہو چکے ہیں ، میرا ایک بیٹا بھی ہے  ، جو کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے دیور کا کا بچہ ہے ۔
میرے خاوند کے اس چچا زاد کے گھر کی دیوار سانجھی ہے ناں ، شائد اس لئے  ،۔ میرے بچے کی پیدائش کے ایک ہی سال میں میرا خاوند جوانی میں ہی بیمار پڑ کر  فوت ہو گیا تھا ، محلے میں سبھی یہ کہتے ہیں کہ میں نے دیور کے ساتھ مل کر زہر دے دیا تھا ۔
بچہ چھوٹا ہے ، گھر میں اکیلی ہوتی ہوں ، دیور اور دیگر سسرالی  رشتہ دار  کڑوے گھونٹ کچھ ناں کچھ مدد امداد کرتے ہی رہتے ہیں ۔
پچھلے  کئی ہفتوں سے  رات کو، کوئی  میرے گھر کی باہر سے کنڈی لگا جاتا ہے  ،۔
صبح لوگوں کے جاگنے تک میں رفع حاجت کے لئے بھی نہیں نکل سکتی ، دیوار پھلاند کر باہر جانا  عورت ذات کے لئے  مشکل ہے ۔
بہت ذہن دوڑایا کہ کہ کون ہو سکتا ہے ، کچھ سمجھ نہیں لگی ،۔
اخر ایک رات میں نے ساری رات جاگ کر کنڈی لگانے والےکو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا ،۔ میں کوٹھے پر بیٹھ گئی  کہ اج ضرور  شرارتی بندے کو پکڑ کے چھوڑوں گی ۔
ساری رات چھت پر بیٹھے گزر گئی ہے ، اوس سے کپڑے بھیگ چکے  ، سوچوں کی یلغار کہ  لوگ کسی بیوہ کو زندہ کیوں نہیں رہنے دیتے ،۔
دیور بھی اب شادی کر کے پڑوس میں ہی  اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی کر کے میرا دل جلاتا ہے 
بھری جوانی کی اداس راتیں میں نے دیور کے انتظار میں گزار دیں ، ۔
رات ڈھلنے لگی لیکن کوئی بھی بندہ میرے دروازے کے سامنے نہیں گزار ، میں یہ سوچنے لگی کہ شائد آج  میری محنت اکارت جائے ، ، کنڈی لگانے والا بندہ آج ناغہ کرنا چاہتا ہوگا ۔
تہجد کے وقت ہو گیا ، محلے کے صوفی صاحب  کو آتا دیکھ کر میں مایوس ہو گئی کہ اج  شرارت کرنے والا بندہ نہیں آئے گا ۔ اب تو لوگ تہجد کے لئے جاگ گئے ہیں ، اب کون آئے گا  ۔
 صوفی صاحب  کا جانوروں والے باڑے کا راستہ میرے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے ۔ میں سوچوں میں گم  خالی نظروں سے صوفی صاحبب کو گزرتے دیکھ رہی تھی کہ  مجھے حیرانی ایک جھٹکا لگا ، صوفی صاحب گلی کے درمیان سے اچانک میرے دروازے کی طرف مڑے اور ایک سیکنڈ کے عرصے میں میرے کواڑ کی کنڈی لگا کر چلتے بنے ۔
 میں نے گالی دی اور صوفی صاحب پر اینٹ پھینک ماری ،۔
صوفی صاحب بڑھاپے میں بھی بہت پھرتیلے نکلے اینٹ کے وار سے بچ کر نکل گئے  ۔
صبح میں میں نے شور مچا کر سارے محلے کو اکٹھا کر لیا ۔
کہ صوفی صاحب نے یہ کام کرتے ہیں ۔
سارے محلے نے مجھے چھوٹا کیا ، ایک بڑی برادری کے بڑے بھائی ،اور  فارن کی کمائی والے بیٹوں کے باپ  صوفی صاحب کو کسی نے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ یہ بیوہ عورت جو کہہ رہی ہے ، اپ کا اس پر کیا موقف ہے  ۔
اگر رسمی طور پر کسی نے صوفی صاحب سے بات کی بھی تو ؟
صوفی صاحب نے کہا
بےچاری  بیوہ ،دیور نے بھی شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا ہے ناں اس لئے مرد کی خواہش میں  اب الزامات پر اتر آئی ہے ، ۔
میں اس بات سے ہی مطمعن ہوں کہ اینٹ کا اوچھا ہی سہی وار کرنے سے یہ ہوا کہ اب میرے دروازے کی کنڈی کوئی نہیں لگاتا ۔

ہفتہ، 22 اگست، 2015

عمر رفتہ

کوئی بیس سال بعد اس کو لندن جانے کا اتفاق ہوا ،۔ایک وقت تھا کہ پیریس سے لندن ہر ہفتے کا ویک اینڈ گزرتا تھا ، ہفتے کی شام لندن پہنچ کر ساری رات گلیون کی آوارہ گردی ہوتی یا کسی ناں کسی سہیلی کے روم میں  شب بسری کر کے اتوار کی شام کو پیرس واپس ،۔
یورپ کے شمالاً جنوباً شہروں کے نام  گامے کو  اپنی سہلیوں کے ناموں سے یاد رہتے تھے ۔
پھر یہ ہوا کہ یورپ چھوڑا  ، مشرق میں بسیرا کیا ، مشرق بھی کہ مشرق بعید  جس کو خاور کہتے ہیں فارسی میں  ۔
فجر کی نماز  ، مسجدوں سے زیادہ اسٹیشنوں کے بنچوں پر ادا کرنے والے اس پلے بوائے کو یورپی لوگ مسلمان کہتے تھے اور اس کے اپنے اس کو کافر کہتے تھے اور وہ بھی پیٹھ پیچھے !۔
ایمبارکمنٹ کے اسٹیشن سے جوانی کی عادت کے مطابق پیدل ہی چلتے ہوئے چئیرنگ کراس کے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ٹیلی فون کا وہ لال بوتھ جو یہاں کونے میں ہوتا تھا  ، سمارٹ فون کی بہتات میں اپنی بقا کی جنگ ہار گیا ،۔
ٹیلی فون کے لال بکس والی جگہ پر اب کوڑے والوں کا  صفائی کا سامان پڑا تھا ۔
ٹگالگر سکوائیر کے کبوتروں والے فوارے کی بغلی سڑک کی جڑہائی چڑھتے اس کو اپنی عمر  کا احساس بہت شدت سے ہوا کہ یہ بھی کوئی چڑہائی ہے کہ جس میں اج ٹانگوں کے مسل کھچ رہے ہیں ،۔
ٹفالگر کے گرد ادھا چکر کاٹ کر  سیدہے ہاتھ کو مڑتے ہی ماتسکوشی کا براڈڈ چیزوں کا سٹور نظر آیا ۔
یہاں ساتھ ہی آکسفورڈ سٹریٹ کی کتابوں کی وہ دوکان بھی اس کو یاد آ گئی ، جہاں گھنٹوں کھڑے ہو کر کتابیں پڑھا کرتا تھا ، زیبراکراسنگ کے بغر ہی درمیان سے سڑک کراس کر کے جب کونے والی دوکان تک پہنچا تو  ، کتابون کی دوکان ختم ہو چکی تھی اب وہاں گروسری سٹور تھا ۔
جب  ، جس  ملک سے کتابوں کی دوکانیں ختم ہونے لگیں اور کھانے کی دوکانیں بڑھنے لگیں تویہ اس ملک کے علمی انحطاط کی نشانی ہوتی ہے ۔
کسی سیانے کا یہ قول اس کے ذہن میں آیا تو  اس سوچ کی لہر بھی گزر گئی کہ
برطانیہ عظمی بھی علمی انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے ؟
ہاں ! کیوں نہیں ، کہ اج علم کے ممبے تو امریکہ سے پھوٹتے ہیں ۔
پکڈلی کے فوارے کے پاس سے گزر رہا تھا کہ نسوانی آواز نے اس کو چونکا دیا جو کہ اس کو نام لے کر پکار رہی تھی ۔
عورت کی سکل دیکھ کر دو لمحے بے تاثر سے گزر گئے کہ عمر رفتہ کے اثار سے اصلی چہرہ نمودار ہوا ۔
ایمی ؟؟
ہاں ایمی ۔ تم مجھے کیسے بھول سکتے ہو ۔ یا کہ تم جتنی مضبوط یادداشت والے ہو  ، ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کی شکلیں اور نام  تمیں یاد ہوں گے ۔
تمہاری طنز کرنے کی عادت نہیں گئی ، کرتی کیا ہو؟
ساتھ چلو ، اکیلی ہی ہوں شوہر سے طلاق لے لی ہے ، بچے شوہر کے پاس ہیں ، نائٹس بریج کے پاس اپارٹ میں رہتی ہوں۔
گاما رات ایمی کے گھر ہی رہا ، صبح  فجر کی نماز  ادا کر رہاتھا کہ ایمی بھی جاگ کر رہیں آ گئی ۔
جوانی میں بھی بغیر غسل کئے نماز ادا کرنے والے سے میں کیسے توقہ کرسکتی ہونکہ وہ بڑھاپے میں  نماز چھوڑ دے گا ۔
گامے نے یہ سن کر بے تاثر سی نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں ۔
جوانی میں تم سے مل کر پہلی دفعہ علم ہوا تھا کہ مسلمان نماز بھی پڑھتے ہیں ، اور تمہاری  ہر فجر کی نماز کے بعد لازمی وچھوڑے کی تلخ یادیں بھی ہیں ۔
لیکن ہو ہی ہرجائی  ، نہ تم میرے تھے اور ناں کسی اور کے پتہ نہیں کتنی لڑکیون نے تمہاری فجر کی نماز کو  یادوں میں بسا رکھا ہو گا کہ  گاما جب بھی فجر کی نماز ادا کرتا ہے تو پھر شائد ملے کہ نہ ملے ۔
مجھے بھی تو اج رات ، تم کوئی اکیس سال پہلے ادا کی فجر کی نماز کے بعد ملے ہو ۔
،تم نے مجے بوڑھا کہا ہے ۔ کیا میں واقعی بوڑھا ہو گیا ہوں ؟
گامے نے بڑے کرب سے پوچھا ۔
ہاں تم بوڑھے ہو چکے ہو ، تمہاری جوانی کی ہر لڑکی یہ سمجھتی تھی کہ گاما کبھی بوڑھا نہیں ہو گا
اور شائد میں پہلی عورت ہوں جس نے اج کی گزری رات میں تمہارا زور ٹوٹتے محسوس کیا ہے ۔
تم آئیندہ جب کسی پرانی یا نئی سہیلی کے ساتھ ملو گے تو  آئینے میں دیکھنا
تمہاری پیٹھ ڈھلک چکی ہے ۔
ہاں تمہاری پیٹھ کا گوشت ۔
اب تمارے پاس دوسری یا تیسری دفعہ کسی پیاسے کی پیاس بجھانے کی نمی بھی نہیں ہے  ۔
گاما سیڑہیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔
اب مرنے تک نامعلوم کتنی عورتوں کے طنز سننے پڑیں گے ، وہ عورتیں جن کو وقت گزاری  کا پرزہ سمجھتا رہا وہ بھی گوشت پوست کی انسان تھیں ان کے بھی جذبات تھے جو اب  جب جب بھی سننے کو ملیں گے طنزمیں ہی ملیں گے ۔

منگل، 18 اگست، 2015

اُبون ( ایک جاپانی تہوار) کیا ہے ؟


دوسری جنگ عظیم میں  جنگ پر جانے والے فدائی لوگ  جن کا مشن ہی جان دے کر سرخرو ہونا ہوتا تھا ۔
جب خود کش حلمے کے لئے جاتے تھے تو ان کی طرف سے ایک خط گھر  کو لکھا جاتا تھا ۔
کہ
اے میرے ماں بات ! اپ کو ایک سفید بکس  گھر واپس آ کر ملے گا ،اپ کی اورمیری ملاقات اب یاسکونی   کے روحوں کے مسکن میں ہو گی ۔

جن لوگون کے پیارے  جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں  ، ان کی روحیں “یاسکونی” نامی جینجا میں  سکونت کرتی ہیں ۔ ان  کو یاسکونی کے ٹیمپل سے لا کر  گھر میں اُبون  منائی جاتی ہے ۔

جاپان میں “ اُبون” کہ چھٹیاں   سترہ اگست کو ختم ہوئی ہیں ۔ گیارہ سے سولہ آگست تک جاپان میں ابون  منایا گیا ۔
ابون کیا ہے ؟
اُبون  جاپان میں اپنے فوت ہو چکے رشتہ داروں  کی روحون کے ساتھ منایا جانے والاے ایک ہفتہ   ہوتا ہے ۔
اُبون کے شروع میں گھر والے اپنے پیاروں کے مدفون جینجا ( قبرستان کے ساتھ منسلک ٹیمپل) میں   جاتے ہیں ، جہاں سے ایک موم بتی کے  شعلے اور روشنی کے ساتھ ، اپنے بزرگون کی روحوں کو لے کر اپنے گھر لے آتے ہیں ۔
یہ موم بتی گھر میں ایک مخصوص جگہ پر رکھ دی جاتی ہے جہاں سے تقریباً گھر کے سبھی افراد کو دیکھا جاسکے ۔
اُبون کا ایک ہفتہ ( کم و بیش)  دادی دادا ، نانا نانی اور دیگر مرحومین کی روحیں  گھر والوں کے ساتھ گزارتے ہیں  ۔
جاپان میں یہ ایک ہفتہ  دوردراز نوکریاں کرنے والے جوان  بھی اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے گھر سے دور طالب علم بھی  گھر پلٹ کر اپنے دن رات اپنے پیاروں کی روحوں کے ساتھ گزارتے ہیں ۔
جاپانی بہت بہادر اور غیرت مند قوم ہیں ، جاپانی اپنے شہیدوں کی بہت قدر کرتے ہیں اور  معاشرے میں ہر سطح پر شہیدوں  کو رسپکٹ دی جاتی ہے  ۔
جاپان کے مختلف دیہات  یا شہروں میں  اُبون  پر روحون کو گھر میں ویلکم کرنے کے لئے اور  وداع کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں ، ہر طریقے میں گھر والوں کی ، اپنے مرنے والون کے ساتھ خلوص اور عزت کی جھلک واضع نظر آتی ہے ۔
یہاں   جس علاقے میں  یا گاؤں میں راقم کا بسیرا ہے ، یہاں لوگ اُبون کے شروع میں  گھر کے باہر سڑک پر

ویلکم کے لئے ایک تعظیہ سا بناتے ہیں ، اس فوٹو کی طرح کا۔


بینگن اور کھیرے کو لکڑی کی ٹانگیں لگا کر  گھوڑے کی شکل دی جاتی ہے ، فروٹ  شراب اور دیگر کھانوں کی چیزیں رکھی جاتی ہیں ۔
اگر بتیوں کے بنڈل کے بنڈل جال کر ان کو ویلکم کیا جاتا ہے

اور وداع کرتے ہوئے بھی  اس تعظیے کے پاس سے گزارا جاتا ہے ۔
اور اس دن بھی اگر بتیان چلائی جاتی ہیں ،۔
جتنے دن روحیں گھر کے اندر موجود ہوتی ہیں اتنے دن یہ اگر بتیاں ، روحوں سے منسلک روشنی کے سامنے جلائی جاتی ہیں  ۔

Popular Posts