اتوار، 28 دسمبر، 2014

پھانسی کی سزا


پھانسی کی سزا کے خلاف دنیا بھر میں کچھ تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں ،۔
جاپان میں بھی پھانسی کی سزا کے خلاف کام کرنے والی تنظیمں ہیں ، جن کے اثر سے یہ ہوا ہے کہ اب جاپانی عدالتیں موت کی سزا صرف ان کیسوں میں دیتی ہیں جن میں بہیمانہ قتل کئے گئے ہوں اور قتل بھی ایک سے زیادہ افراد کے ہوں ۔
اور جن مجرمان کو پھانسی دی بھی جاتی ہے ان کو بہت خفیہ رکھا جاتا ہے ۔
جاپان جیسے معاشرے میں جہاں کیمرہ ایک عام سی بات ہے وہاں اپ کو کبھی بھی کسی کو پھانسی دی جانے کی فوٹو یا ویڈیو نہیں ملے گی ۔

صنعتی انقلاب کے پہلے دور میں مجرموں کو گولی مارنے کی سزا بھی دی جاتی تھی ۔
گولی مارنے کے عدالتی حکم کے بعد ، اس سزا کا ایک طریقہ کار متعین تھا ،۔
گولی مارنے والے نشانے باز جلاد بھی انسان ہی ہوتے ہیں ، اور کسی انسان کی جان لینا اگرچہ کہ اپنے فرض کی ادائیگی ہی کیوں نہ ہو انسان کی نفسیات کو مےاثر کرتا ہے ۔
اس لئے گولی مارنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ
ایک مجرم کو گولی مارنے کے لئے گیارہ نشانے باز جلاد ہوں گے ، جن کے سامنے گیارہ گولیاں رکھی جائیں گی کہ ان میں سے ایک ایک اٹھا لیں ،۔
ان گیارہ گولیوں میں صرف ایک گولی اصلی ہو گی ، باقی کی دس گولیاں صرف پٹاخہ ہوں گی ۔
بہترین نشانے باز گیارہ بندے ، حکم دینے والی کی آواز پر یک دم گولیاں چلا دیں گے ۔
مجرم کی موت کس کی گولی سے ہوئی ہے ؟ اس بات کا کسی کو بھی علم نہں ہے ۔
ہر نشانے باز جلاد یہی سمجھا رہے گا کہ وہ مجرم میری گولی سے نہیں مرا ہو گا ، اس بات کا “ شک” بڑھاپے میں ، یا کہ
سردیوں کی لمبی راتوں میں ، کسی کی جان لینے دکھ آ آ کر تنگ نہیں کرئے گا ۔

میرے علم کے مطابق یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں پھانسی تو کجا موت کی سزا بھی نہیں ہے ۔
امریکہ کی کچھ ریاستوں میں موت کی سزا ہے لیکن وہاں بھی پھانسی پر نہیں لٹکایا جاتا ، بلکہ بجلی کی کرسی اور زہر کے ٹیکے کے ساتھ سلا دیا جاتا ہے ۔
کم عقل لوگوں کی آگاہی کے لئے ، ایک بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ
پھانسی کی سزا کے خلاف آواز ، موت کی سزا کے خلاف اواز نہیں ہے ۔
پھانسی کی سزا کے خلاز آواز اٹھانے والے لوگوں کو موقف یہ ہوتا ہے کہ بہیمانہ سزاؤں کو ختم ہونا چاہئے ۔
ہاں ! اس کے بعد موت کی سزا کے خلاف کام کرنے والی تنطیمیں اور ممالک بھی ہیں جیسے کہ یورپی یونین میں سزائے موت نہیں ہے ۔
بے عقل معاشروں میں ، قانون کے نام پر ، امن کے نام پر یا کہ دہشت کردی کے نام پر جو قتل گولیاں مار مار کر کئے جاتے ہیں
کھیتوں میں پہاڑوں میں گلیوں اور چوکوں میں !۔
ایسے قتلوں کو ختم ہونا چاہئے ۔
 پھانسی کی سزا میں بھی مجرم کے منہ پر کالا غلاف چڑھایا جاتا ہے ۔
جو کہ مجرم کی موت واقع ہونے کے بعد پھانسی سے اتار کر ،لٹانے تک نہیں اتارا جاتا ۔
لیکن پاکستان میں ، ہونے والی حالیہ پھانسیوں  کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ، کن میں مجرم کے منہ پر کوئی غلاف نہیں ہے ، اور پھانسی پر  لٹکی ہوئی انسانی لاشوں کی فوٹو بڑے فخر سے دکھائی جا رہی ہیں ۔

جمعرات، 25 دسمبر، 2014

کھلی کچہریاں

نام تو اس کا شمس تھا لیکن فرانس میں  وہ چوہدری جمی کے نام سے جانا جاتا ہے ،۔
ہاں ہاں وہی جمی جو ائر ہوسٹس بیوی کو قتل کر کے جیل بھگت چکا ہے ۔
اس نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا تھا کہ
اس کے ایک جج دوست کے سامنے بندے کو مجروح کرنے کا ایک کیس لایا گیا ۔
ایک فوجی حکومت کے دور کی بات ہے اور  ملزمان جنرل صاحب کے رشتے دار تھے ۔
جج کو صرف فیصلے کے لئے بلایا تھا اور کچہری بھی کھلی کچہری تھی ۔
جج صاحب کے ساتھ چار جرنیل بھی بیٹھے تھے ،۔
اور جج صاحب کو کہا گیا تھا ملزمان کو بری کر دینا ہے ۔
میز پر سرخ اور سفید کارڈ پڑے تھے  ۔
جج صاحب کو حکم تھا کہ سب باتیں سن کر ، آخر میں سفید کارڈ اٹھا کر دیکھا دینا ۔
بس اتنا سا کام ہے ۔
اب معاملہ یہ تھا کہ
ملزمان نے ایک بندے کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر  ، اس کی انکھیں بھی نکال دی تھیں اور زبان کی بھی کاٹ دی تھی ۔
جمی ! یہاں تک بتا کر کہتا ہے
یار خاور ! تم خود ہی بتاؤ کہ اب یہ بندھ تو نہ ہوا “ ٹنڈ” ہوا ناں جی ٹنڈ !!۔
بندہ مرنے سے تو بچ گیا تھا ، اور زخم بھی بھر چکے تھے  ۔

کہتا ہے جب یہ عدالت نما ڈرامہ چل رہا تھا ۔
تو کیا ہوا کہ مجروح کے گاؤں کے مراثی نے اس مجروح کو ٹوکرے میں ڈال کر عدالت  یعنی کہ کھلی کچہری میں لے آیا۔
اور مراثی جج صاحب کو مخاطب کر کے کہتا ہے ۔
جج صاحب اے ویکھ لو ، تے فیصلہ کر دیو! جان تساں وی رب نوں دینی اے ۔

جج بتاتا ہے کہ یہ وہ لمحات تھے جب میں نے فیصلے کا کارڈ دیکھانا تھا ۔
ٹوکرے میں پڑے اس ٹنڈ نما بندے کو دیکھ کر میرے رونکھٹے کھڑے ہو گئے ، ایک عجیب سے احساس کی لہر میرے جسم میں سے گزر گئی
 میرا ہاتھ خود بخود ہی سرخ کارڈ پر جا پڑا اور میں نے بے اختیار سرخ کارڈ اٹھا دیا ۔

جرنل صاحب نے اپنے سگوں کو کسی ناں کسی طرح بچا ہی لیا تھا ۔
اور مجھے بھی نوکری چھوڑنی ہی پڑی تھی کہ  جرنل صاحب بڑے ہی طاقت ور تھے ۔
یہاں تک بتا کر چوہدری جمی  کہتا ہے ۔
جج نے مجھے پوچھا کہ چوہدری اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟
میں نے جواب دیا تھا کہ میں بھی  یہی کرتا  جو آپ نے کیا ہے ۔
پھر چوہدری جمی مجھے پوچھتا ہے
خاور اگر تم ہوتے تو کیا کرتے ؟
میں چوہدری جمی کے سوال کا جواب نہیں دے سکا تھا
کیونکہ مجھے اپنی غربت  اور کم مائگی  کے احساس نے خاموش کردیا تھا ۔

بدھ، 17 دسمبر، 2014

سولہ دسمبر ، پشاور میں بچوں کا قتل


پشاور میں ہونے والا بچوں کا قتل ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس نے دل کو چیر کر سکھ دیا ہے ۔
میرے بھی بچے ہیں ، اور اپ بھی جن کے بچے ہیں ،زرا ان کے منہ دیکھ کر بتائیں کہ کیا ان کی عمر ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے ؟
فوج نے جو جیش ، لشکر اور جتھے بنا کر قوم کی بغل میں دئے ہوئے ہیں ناں   ۔
ان کی جو فصل تیار ہو رہی ہے اس کا پھل ہے ۔
پاکستان کے مسائل کا گڑھ ہی فوج ہے ،۔
نظریہ ضروت سے لے کر عدالتی نظام کس نے تباھ کیا ؟
تعلیم میں زہر کس  گھولا؟
طاقت کے بے جا اظہار کی راہیں کس نے قوم کو دیکھائیں ۔
ملک میں مسائل پیدا کر کے ، بشمول مسئلہ کشمیر فوج کے ناگزیر ہونے  کا پروپیغینڈا اور اس کی اوجھل میں چھاؤنیوں کی لگژری لائف   کون انجوائے کر رہا ہے ۔
طاقت سے اداروں کے آڈٹ جیسی بنیادی رسم کس نے ختم کی ہے ؟
دوستو! فوج کی حمایت میں بات کرنے سے پہلے سوچ لو
کہ اس فوج کی  حمایت جھوٹ کی حمایت ہے ۔
اور جس بندے کو رب نے عقل دی ہو وہ جھوٹ کی حمایت نہیں کیا کرتا ۔

پاکستان کی سیاست اب ،اج اس دور سے گزر رہی ہے  ، کہ جس میں سیاستدانوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہوا ہے کہ اب فوج کی غلطیوں پر پردہ نہیں ڈالا جائے گا ۔
اگر چہ کہ یہ سیاستدان بھی  فوج ہی کی پیداوار ہیں ۔
لیکن ایک قدرتی سیاستدان نے ان کو یہ راھ دکھلا دی ہے کہ
جس جس نے فوج کی غلطیوں پر پردہ ڈالا  ، وہ ہی مارا گیا ۔
اکہتر سے پہلے کے سیاستدان  باری باری خفیہ طور پر ٹھکانے لگا دئے گئے ، باقی کو کونے لگا کر بنگال کو علیحدہ ہی کر دیا  ، اس غلطی پر بھٹو نے پردہ ڈالا ، اور مارا گیا ۔
گارگل کے پہاڑوں سے نواز شریف نے ان کی جانیں بچائیں تو اس کو بے عزت کیا گیا ۔
زرداری کی بیوی ، سالے  کو قتل کر کے  قاتل تک غائب کر دئے گئے ۔
 تو اب اگر  آپریشن ضرب عضب کو کرنے کی آزادی ملی ہوئی ہے تو اس لئے کہ سیاستدان قوم کی فوج کا وہ چہرہ دیکھا دینا چاہتے ہیں جو کہ اس بھگیاڑ کا اصلی چہرہ ہے ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یک دم نہیں ہوا کرتے

کوؤئیں کے پانی کو پاک کرنا ہے تو؟
پہلے اس میں سے کتا نکالنا ہو گا ۔
اداروں کو ان کی حدود اور فرائض کا علم جاننا ہو گا ۔
اور خود پر اخلاقی قدغن لگانے ہوں گے ، شتر بے مہار  کو کوئی نہ کوئی کہیں ناں کہیں یا تو قتل کر دیتا ہے یا پھر نتھ ڈال دیتا ہے ۔
اور اگر یہ دونوں کام نہ بھی ہو سکیں تو خود ہی کسی گڑھے میں گر جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سولہ دسمبر ہے ۔
آج کے دن ،  انیس سو اکہتر میں پاکستان  ٹوٹ گیا تھا ، پاکستان ٹوٹ چکا ہے ۔
لوگوں کا پاکستان ، انیس سو باون (1952ء) میں چوری ہو گیا تھا ۔
اکہتر میں انہی چوروں کے ہاتھوں سے گر کر پاکستان ٹوٹ گیا تھا ۔
جوروں کے اس ٹولے کو چوری کرنے کی عادت پڑ چکی ہے ۔
الیکشن چوری کر کے  دیتے ہیں ، رقبے اور اعزاز چوری کر کے رکھ لیتے ہیں ۔
چوروں کے اس بکٹیریا کا ایک ہی تریاق ہے ۔
وہ ہے انصاف!۔
صرف اور صرف خالص انصاف کی فضا ہی  میں ان کا دم گھٹ سکتا ہے ، کہ جس سے ان  چوروں کی موت واقعی ہو سکتی ہے ۔

منگل، 16 دسمبر، 2014

مائکرو بلاگنگ ،فیس بک کے کچھ اسٹیٹس ۔


میں نے ، آج تک  کوئی ایسا گھر ، نہ دیکھا نہ  سنا ہے
کہ
جہاں “فارن” سے ائے ہوئے “کماؤ” سے کھانے کی مد میں پیسے نہ نکلوائے جاتے ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ، آج تک  کوئی ایسا گھر ، نہ دیکھا نہ  سنا ہے
کہ
جہاں “فارن سے آئے ہوئے “کماؤ”  کی دس دن مہمانوں کی طرح خدمت کر کے یہ احساس دلایا جاتا ہو
کہ جو کمائی تم بھیج چکے ہو اس کمائی سے ہم “خود انحصار” ہو چکے  ہیں ۔

جاپان میں اپ کسی بھی اسٹیشن یا سٹور کے مردانہ ٹوائلٹ میں ،پیشاب کر کے اس ٹوائلٹ کو جھک کر  ادب دیں اور کہیں کہ مہربانی ۔
ٹوائلٹ اپ کے پیشاب کو پانی چھوڑ کر بہا دے گا۔
اپ اس کو بے شک ٹوائلٹ کی تمیز سمجھ لیں  ۔
لیکن یہ جاپان کی تکنیک کا کمال ہے ۔

گندی جگہوں پر شیاطین کا تو اپ نے پڑھا سنا ہی ہو گا؟
جاپان کے ٹوایلٹ ، اپ کوئی بٹن دبائیں یا نہ دبائیں “ گند” کو ٹھکانے لگا کر اپ کے استنجے میں بھی مدد کرتے ہیں ۔
یہ کسی پیرمجیب سنگھ  کا کمال نہیں ہے کہ اس نے شیاطین کو قابو میں کر کے “کام “ پر لگایا ہوا ہے ۔
یہ جاپان کی تکنیک کا کمال ہے۔

آپ ٹوٹنی کے سامنے پاتھ کرتے ہیں ،اور پانی کی دھار نکل کر اپ کے ہاتھ چوم لیتی ہے ۔
ساتھ میں ایک ٹوٹنی ہے اس اگے ہاتھ کریں ، یہ صابن کی پچکار مار کر اپ کی کثافتوں کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔
یہ سارا کمال کسی  پیر ٹوٹنی سنگھ سائیں کی کرامات کا نہیں ہیں ۔
یہ جاپان کی تکینک کا کمال ہے ۔

ٹیچر بتا رہا تھا ،  آکسیجن انسانی زندگی کے لئے بہت ضروری چیز ہے جس سے ہم سانس لیتے ہیں ، آکسیجن 1773ء میں دریافت کی گئی تھی ۔
جیدو ڈنگر نے یہ  سن کر کہا۔ ربّا تیرا شکر اے ، میں 1773 کے بعد پیدا ہوا ، ورنہ میں نے تو مر ہی جانا تھا ۔


بیوی ، خاوند سے ! میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی !۔
خاوند : ٹھیک ہے ۔
بیوی : وجہ نہیں پوچھو گے ؟
خاوند: نئیں ! میں تمہارے فیصلے کی  قدر کرتا ہوں ، اور کے صحیع ہونے کا یقین کرتا ہوں ۔

گامے نے خان کو بتایا ، مجھے الہ دین کا چراغ ملا ہے ۔
میں نے اس جن کو کہا کہ میرے خان کی عقل کو دس گنا کر دو!۔
ریڈی میڈ خان نے اشتیاق سے پوچھا ،تو؟ اس نے کیا جواب دیا ؟
جن کہتا ہے ریاضی کی رو سے صفر پر ضرب کا اصول لاگو نہیں ہوتا ۔

گاما بتا رہا تھا کہ
جب بھی بیوی خاوند کی اٹینشن( توجہ ) چاہتی ہے تو بیمار اور پریشان بن جاتی ہے ۔
لیکن اگر خاوند بیوی کی توجہ چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ
اچھے کپڑے پہن کر خوشبو لگائے اور خود کو خوش خوش ظاہر کرئے ۔
بیوی خود ہی پوچھ لے گی ۔
کیڑی سوکن کول چلا ایں ؟؟

انڈیا میں ہونے والے میچ میں پاکستان کی جیت پر اسٹیڈم میں چھا جانے والی خاموشی  !۔
تین کے مقابلے میں چار  گول ، ایک زیادہ گول سے چھا جانتے والے خاموشی کو ایک  “انگل “ نے توڑا ۔
اور ایسا توڑا کہ ایک طوفان بد تمیزی برپا ہے ۔
اچھے کھیل پر دشمن کو بھی داد دینے والے سپورٹ مین سپرٹ  ،اسٹیڈیم میں کسی ایک بھی بھارتی میں اگر نہیں تھی تو؟
انگل کی تکلیف کی برداشت ہی پیدا کر لیتے ۔

غیر شادی شدہ لڑکوں کو اس “ ایپلی” کا کم ہی علم ہے۔
جس کے ایکٹو ہوتے ہی سسٹم کی ساری ویب سائیٹس  بند ہو جاتی ہیں ، سارے چاٹ روم ہائڈ ہو جاتے ہیں ، سبھی ضروری فولڈر کچرا اور وال  پیپر پر بیوی کی فوٹو لگ جاتی ہے ۔
اس ایپلی کو شادی کہتے ہیں ۔

دنیا میں ، اونچی ترین پہاڑ کی چوٹی، ایوریسٹ ہے ۔
سب سے لمبا دریا ، دریائے نیل ہے ۔
سب سے لمبا ہائی وے روڈ کناڈا میں ہے جس کی لمبائی آٹھ ہزار کلومیٹر ہے ۔
ورڈ بنک کا ہیڈ کواٹر واشنگٹن ڈی سی (امریکہ ) میں ہے ۔
بین القوامی عدالت ، ہیوگ ( ہالینڈ) میں ہے ۔
سعودی عرب  دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کوئی بھی قدرتی ندی یا دریا نہیں ہے  ۔

جمعہ، 28 نومبر، 2014

جیدو ڈنگر

جیدو ڈنگر! گھر جنوائی تھا ، امیر بیوی کو گامے کے گھر سے نکلتے دیکھ کر بھی اس کے گھر پہنچے تک کچھ نہیں کہا ۔
گھر پہنچ کر جیدو ڈنگر کی نظریں الٹی پہنی شلوار کی سلائی میں الجھ کر رہ گئیں  ۔
جیدو ڈنگر نے ڈرتے ڈرتے جب سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے
اس دن سے جیدو کی بیوی نے جیدو کی زندگی حرام کئے ہوئی ہے کہ
تم مجھ پر شک کرتے ہے ، یہ دشمنوں کی سازش ہے
ہمارے گھر کا سکون  تباھ کرنے کی  ۔
جیڈو ڈنگر کی بیوی کہتی ہے کہ  کسی بھی گھر کا سکون تباھ کرنے کے لئے اس گھر کی بیوی کے کردار کو مشکوک کرنے والے ہی اس گھر کے اصلی دشمن ہوتے ہیں ۔
جیدو ڈنگر تو تھا ہی اب اس پر شکی مزاج اور دشمنوں کا “لائی لگ “ ہونے کا لیبل بھی لگ گیا ہے ۔

نوٹ : یہ ایک فکشن کہانی ہے ، کسی فرد یا ادارے کے کردار سے مطابقت محض اتفاقیہ ہی ہو سکتی ہے ۔

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

لیبل


سرکے کی بوتل پر سردائی کا لیبل لگادینے سے بھی سرکے کی ترشی پر کوئی فرق نہیں پڑتا  ۔
لیکن ہماری قوم کا عمومی رویہ یہ بن چکاہے کہ اپنے اندر کی اصلیت کو چھپانے کے لئے اپنے لیبل بدل رہے ہیں ۔
دھوکہ دہی کہ یہ کوشش وہ دوسروں سے کم اور اپنے اپ سے زیادہ کر رہے ہیں  ۔
بڑی کوشش کر کے اپنے پر لگانے کے لئے ایک لیبل کسی مستند حکومت سے لے لیتے ہیں ۔
برطانیہ سے امریکہ سے فرانس سے جاپان سے ، بڑی ہی کوشش کر کے پاسپورٹ کا لیبل لے لیتے ہیں ۔
اس لیبل کو نیشنیلٹی ( قومیت) کہہ کر خود پر چپکا لیتے ہیں ۔
لیکن کیا برٹش پاسپورٹ سے اپ انگریز ، ویلش یا اسکاٹ ہو جاؤ گے ؟
جہاں جہاں اپ کو اپنا لیبل دیکھانے کی ضروت پڑے گی  ،وہاں وہاں دیکھنے والا دل میں سوچے کا “ سرکے کی بوتل پر سردائی کا لیبل “ ۔

اسی طرح  کیا خود پر ملک ، شیخ ، رحمانی  وغیرہ کا لیبل لگانے سے  کیا اپ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اب اپ کے باپ دادا کا پیشہ بھول گئے ہیں ؟
خود فریبی میں مبتلا ایسے معاشرے میں  ، اگر کوئی بندہ   اپنے اپ پر وہی لیبل لگا لے جو کہ اس بندے کے اندر ہے تو؟
ہر بندہ دیکھ کر چونک چونک جاتا ہے ۔
جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے
آپ کا تعلق پاکستان میں کس جگہ سے ہے ؟
جی میں تلونڈی کا کمہار ہوں !!۔
یقین جانیں کہ اج تک میں نے ایک بھی بندہ ایسا نہیں دیکھا  جو یہ سن کر چونکا نہ ہو ۔
اپنی اصلیت کو ٹائٹل میں چھپائے ہوئے میرے مخاطب کو  ایسے لگتا ہے کہ خاور نے اس کو ننگا کر دیا ہے ۔
ہر بوتل کے لیبل کو دیکھ کر  بوتل کے اندر جھانکنے کی عادی قوم  ، جب ہر لیبل کے کی بوتل کے اندر مختلف مال دیکھتی ہے
تو ایسی عوام کو  اصلی چیز دیکھ حیرانی ہوتی ہے ۔

اتوار، 19 اکتوبر، 2014

منظم کتوں کی کہانی ۔

ستر کی دہائی کے اخری سالوں میں سے کسی سال کی بات ہے ۔
ہمارے گاؤں میں  ایک کتے نے  تین اور کتے ساتھ ملا کر ایک ٹولی بنا لی تھی  ۔
لیڈر کتے  کی قیادت میں  یہ چار کتوں کے ٹولے کا گاؤں والوں کو اس وقت احساس ہوا جب ان کتوں نے جوگیوں کا عید پر قربانی کے لئے لیا ہوا  بھیڈو لیلا پھاڑ کھایا ۔
جوگیوں کے گھر کے سامنے ہی  پسرور روڈ کے دوسری طرف ، پرانی والے چوہدریوں کے کھیتوں میں ، کتوں کی اس واردات کو دیکھنے والے لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔
بھیڑ اس لئے لگی کہ کتوں کو  بھیڈو پر حلمہ کرتے دیکھ کر پہلے پہنچنے والے  لوگوں لوگوں نے جب کتوں کو ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی تو ، کتے بجائے ڈرنے کے ،  غرا کر ان لوگں پر بھی لپکے  ، جس سے ڈر کر لوگ ایک فاصلے پر کھڑے ہو گئے  اور دوسروں کو بھی نزدیک جانے سے منع کرنے لگے ۔
سارے گاؤں میں ان کتوں کی دلیرانہ واردات کے چرچے ہونے لگے  ۔
دوسرے ہی دن ان کتوں نے فقیروں کی کھوئی کے اوپری طرف ، کمہاروں کے  بھیڈو لیلے کو پھاڑ کھایا ۔
چاروں کا یہ ٹولہ  پسرور روڈ پر بڑی منظم اور دھلکی چال میں چلتا ہوا گاؤں کے شرقاً اور غرباً  گشت کرنے لگا ۔
قصائیوں کے پھٹوں کے نزدیک بڑے  دلیرانہ انداز میں بیٹھ جاتے تھے اور جب تک یہ چار کا ٹولہ ہوتا تھا  کسی اور کتے کو قصائی کے پھینکے ہوئے چھچھڑے کی طرف لپکنے کی جرآت نہیں ہوتی تھی ۔
لیکن منگل بدھ کے دن جب کہ قصائی گوشت کا ناغہ کرتے ہیں ۔ یہ چار کا ٹولہ کسی نہ کسی کی بھیڑ یا بکری پھاڑ کھاتے ۔
دو تین ہفتے گاؤں میں انہی کے چرچے اور باتیں ہوتی رہیں ، ۔ بڑی عمر کے مردوں کے ہاتھ میں چھڑیاں نظر انے لگیں کہ جب یہ کتے سڑک پر چل رہے ہوتے تھے  تو سامنے سے انے والے انسانوں کو طرح دے کر گزرنا پڑتا تھا ، ورنہ منظم کتے، دانت نکوستے ہوئے پاس سے گزرتے تھے تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا ۔
دین دار لوگوں نے ایک دفعہ  ڈانگیں لے کر منظم ہو کر ان کتوں پر حملہ کیا  ،  پہلے تو کتے ڈٹ گئے  لیکن آدمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے غراتے ہوئے بڑی اکڑ سے پسپا ہوتے ہوئے کھیتوں میں فرار ہو گئے ،لیکن چند ہی گھنٹوں کے بعد پیپل والی ٹیوب ویل موٹر کے پاس ٹہل رہے تھے ۔
گوشت کے ناغے کے ، منگل بدہ کے روز طھی ان کتوں نے واردات ڈالی اور گاؤں میں قربانی کے لئے پالے ہوئے دو جانور اور کم ہو  گئے ۔
دین داروں کے ڈانگ بردار ناکام حملے کے بعد  خوشی محمد فقیر  کی قیادت میں  رائفل اور ڈانگوں کے ساتھ کتوں کو قتل کرنے کی مہم نکلی ۔ خوشی محمد فقیر رائفل لئے گھوڑے پر سوار تھا  اور ساتھ میں ڈانگ بردار دین دار ہانکا کرنے اور گھیرنے کے لئے شامل تھے ۔
ان لوگوں نے چار کے ٹولے کتوں کو” ہوئے والی” (گاؤں) اور تلونڈی کے درمیانی کھیتوں میں  گھیر لیا ، راجباھ ( سوئے ) کی طرف فرار ہوتے کتوں میں سے  تین کتے خوشی محمد فقیر نے رائفل کے فائیر کر کے مار گرائے ، لیکن لیڈر کتا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا  ۔
لیڈر کتا کئی دن تک گاؤں میں نظر نہیں آیا ۔
کوئی دو ہفتے بعد یہ لیڈر کتا گاؤں میں پھر نظر انے لگا ، لیکن اب یہ کتا بڑا مسکین سا بنا ہوا  سڑک کے درمیان چلنے کی بجائے  مکانوں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ۔
قصائیوں کے پھٹے کے پاس چھیچھڑوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے کتے اس کو دیکھ کر اس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے تھے  ۔
اس لیڈر کتے  نے بھی دوسرے کتوں اور انسانوں پر غرانا چھوڑ دیا تھا ۔
اس کتے کو پھر ساری زندگی کوئی ٹیلنٹ والے کتے نہ مل سکے جس لئے یہ لیڈر کتا ایک اور ٹولہ نہ بنا سکا ۔
یہ کتا مدتوں زندہ رہا  ۔ گاؤں میں لوگ اس کی طرف اشارے کر کے بتایا کرتے تھے ۔
یہ ہے وہ کتا جو ساتھی کتوں کے ساتھ مل کر لوگوں کے جانور پھاڑ کھایا کرتا تھا ۔

جمعرات، 25 ستمبر، 2014

تکّے فیل ، صوفی

یہود نصاری کی ترقی سے مرعوب جاہلوں کا کوئی علاج نہیں ہے
رائٹ برادرز نے سائکلوں کے پرزے لگا کر جو جہاز بنایا تھا
وہ ابھی کل کی بات ہے
ان جاہلوں کو معلوم نہیں  کہ داتا گنج بخش  نے کئی صدیاں پہلے اپنی کھڑاواں اڑا کر دیکھا دی تھیں ۔
صوفی کی باتیں سن کر گامے کے منہ سے سوال نکل گیا
اچھا؟ وہ کیسے ہوا تھا؟
تم بھی جاہل ہی ہو  تم یہ بھی معلوم نہیں کہ لاہور میں دودہ لینے والے جوگی  کے دودہ میں داتا صاحب نے “انگل “ ڈال دی تھی جس پر جوگی غصے میں داتا صاحب سے مقابلہ کرنے آ گیا تھا
اور جوگی  ہرن کی کھال پر سوار اڑتا ہوا  ایا تھا
داتا صاحب نے اپنی کھڑاواں کو حکم دیا تھا جو اڑ کر جوگی کے سر پر لگنے لگی تھیں ۔
گاما :اس طرح تو فیر داتا صاحب کی فلائی  ترقی سے بھی پہلے جوگی کی فضائی ترقی ہو گئی ناں جی ؟
اوے گامیا بد بختا  تم ایک ہندو کو داتا صاحب پر ترجیع دے رہے ہو ؟
تم بھی یہود نصاری کی ترقی سے مرعوب جاہل ہو جاہل ۔
صوفی صاحب ، ہندو مریخ پر پہنچ گئے ہیں ، لیکن اپ کی فلائی ترقی کہاں گئی کہ طالبان پر جب فضائی حملے ہوئے تھے تو کھڑاواں والی تکنیک  والے کہاں تھے ؟
اور یہ جو تئیس  ستمبر سے امریکیوں نے خلافت اسلامیہ پر فضائی حملے شروع کئے ہیں ۔
یہاں بھی کوئی کھڑاواں لے کر آؤ،!۔
صوفی صاحب علم وہ ہوتا ہے جس پر عمل کی تحقیق ہو کر ترقی کرئے یہ کیسا علم ہے کہ
کھڑاواں ایک ہی دفعہ اڑی تھیں ، اس کے بعد کیا کھڑاواں کے تکے فیل ہو گئے ہیں ؟
ایک عام سا مستری سائکل کے تکے ٹھیک کر لیتا ہے
تم صوفیوں نے صدیوں میں ایک بھی ایسا  ولی پیدا نہیں کیا جو کھڑاواں کے تکے ہی ٹھیک کر لیتا ۔

بدھ، 24 ستمبر، 2014

پانچواں حصہ

ہمارے ایک بزرگ تھے ( اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے) ،انہون نے گوجرانوالہ کے ایک گاؤں جنڈیالہ باغ والا سے نکل کر یورپ میں ٹھکانا کیا تھا ۔
ستر کی دہائی کے اخری سالوں کی بات ہے ، حاجی صاحب سپین کے شہر بارسلونا میں سیٹل ہوئے ۔
ایک دفعہ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ
بارسلونا میں ، اس زمانے میں یورپ میں سیٹل ہونے کی جدوجہد، پانچ دوست بھی شامل تھے ، ان پانچ دوستوں نے کاغذوں کی مہم بھی مل کر سر تھی  ۔
ان مہمات کے دوران انہون نے مل کر یک مکان بھی کرایہ پر لیا ، جس میں ضروریات زندگی کی اشیاء  بھی مل کر خریدیں ۔
روزی روزگار  کے حصول کے معاملات ، ویزے کے انتظام کے دوران ان لوگوں نے بڑی منت سے ایک ایک چیز خریدی تھی ،  فریج ، واشنگ مشین ، ٹیلی وژن ،اور ایک ایک پلیٹ گلاس ، چمچے کانٹے کی خریداری بھی ان کی یادوں کا ایک حصہ تھیں ۔
بستر قالین اور کپڑے خشک کرنے والے ہینگر ، یہ سب چیزیں کوئی ایک دن میں ہیں بن گئیں تھی سال ہا سال لگے  تھے ۔
کام کاج بھی چلتا رہا ، مسائل میں کمی واقع ہوئی ، ماحول بدلا تو  ایک دوسرے  کی عادتوں پر تنقیدی نظر بھی پڑنے لگی ، تنقید کرنے والوں میں بھی نقائص نظر انے لگے ۔
تو؟
بات تو تکار سے بڑہ کر علیحدگی تک پہنچ گئی ۔
پانچ میں سے ایک دوست نے اکیلے میں مکان کرائے پر حاصل کر لیا ۔
اکیلے میں مکان حاصل کر لینے والے دوست نے  مشترکہ مکان میں  میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا ۔
باقی کے سب دوستوں نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، کہ چیزیں مل کر خریدی ہیں تو ، ان  کا بٹوارہ بھی ہو سکتا ہے ۔
سب دوستوں نے مل کر حساب کر کے پانچواں حصہ کرنے کے لئے محفل بنائی ،تو پانچویں دوست کا مطالبہ تھا کہ میں “ ایک  ایک” چیز میں سے پانچواں حصہ لوں گا۔
پر پلیٹ اور پر کپ میں سے ، ہر چمچے اور ہر کانٹے میں سے ، فریج میں سے اور واشنگ مشین سے ہر قالین سے اور ہر بستر سے “ کاٹ “ کر میں اپنا پانچواں حصہ لوں گا ۔
اس بات پر بہت دن بحثیں ہوئیں ، بہت سے معقولیت پسند اس معاملے میں دخیل ہوئے  ۔
اس بحث میں ایک دفعہ تو معاملہ اس نتیجے تک بھی پہنچا کہ
سارا سامان تم اکیلے لے جاؤ ، لیکن سامان کو کاٹ کر بانٹ کر  خراب نہ کرو۔
لیکن
ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ
اس بندے نے ہر چیز میں سے کاٹ کر اور توڑ کر اپنا حصہ لیا تھا ۔
ہمارے بزرگ ، حاجی صاحب کا اصرار تھا کہ ایسا واقعہ ہوا تھا یہ کوئی کہانی نہیں ہے ۔

ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

کچھ کہانیاں

ایک دفعہ کا ذکر ہے
کہ کہیں کسی گاؤں کے دو جوان دوست سفر پر نکلے تو انہوں نے زندگی میں پہلی بار کیلا دیکھا، نام تو سنا ہوا تھا  پہلی بار اس کو خرید کر بڑے چاؤ سے سنبھال کر لے کر چلے ، اس کے بعد انہوں نے زنگی میں پہلی بار ٹرین کے سفر کے لئے ٹکٹ لی اور ٹرین میں سوار ہوئے ،۔
سنبھال کر پکڑے ہوئے کیلے کو ٹرین کے چلنے کے کچھ دیر بعد ایک جوان نے  بلکل ننگا ( چھلکا اتار کر ) کر کے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ ٹرین سرنگ میں داخل ہو گئی ، یک دم اندہیرا سا چھا گیا  ، اس جوان نے فوراً اپنے ساتھی سے سوال کیا ، تم نے ابھی کیلا تو نہیں کھایا؟
جواب ملا، نہیں ! ۔
کھانا بھی نہیں ، میں تو کھاتے ہی اندھا ہو گیا ہوں ، تم بچ جانا ۔
بچپن سے ہی پڑہایا جاتا ہے
ایک تھا بادشاہ ، جو کہ بہت غریب تھا ، پھٹے پرانے کپڑے پہنتا تھا ، ٹوٹی جوتی پہنتا تھا گھر میں فاقے ہوتے تھے ، لیکن اس کے دور میں دریا کے کنارے ایک بکری بھی پیاسی نہیں رہتی تھی ۔
اب بے چاری بکری دریا کے کنارے بھی پیاسی رہ گئی تو ؟ وہ بکری  پاکستانی ہی ہو سکتی ہے کہ اس کی ٹانگ کو کسی نے رسی باندہی ہو گی ۔
پھٹے کپڑوں والے بادشاھ کے پاس اگر سمجھ بوجھ ہوتی تو ، اپنے جولاہوں اور موچیوں کو “کام” کرنے کا ماحول ہی میسر کر دیتا کہ  بادشاھ ے لئے بھی اور عام لوگوں کے لئے بھی جوتیاں اور کپڑے بنا کر کاروبار ہی کر لیتے ۔
اب پتہ نہیں کہ بادشاھ جولاہوں اور موچیوں کے خلاف تھا یا کہ ان کو “ کمی “ سمجھ کر ٹریٹ کرتا تھا ۔
ملک میں دولت اور مال کی بہتات تھی  کیونکہ دوسرے ممالک سے مال غنیمت آ جاتا تھا ۔
کبھی کبھی کپڑے کی تقسیم پر منہ ماری بھی ہو جاتی تھی  ، لیکن اپنے جولاہوں کی کارگردگی کا کوئی ثبوت نہیں  ملتا ۔

ایک اور دفعہ کا ذکر ،ایک اور بادشاہ تھا ، وہ بہت امیر تھا ، حتٰی کہ اس کا غلام بھی امیر ہو چکا تھا ، اس بادشاھ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا ، تبلیغ کے لئے اس نے کوئی سترہ دفعہ دارالکفر پر حملے کئے ۔
دارلکفر کی عورتوں اور مردوں کو غلام بنا کر منڈیوں میں اس لئے بیچتا تھا تاکہ  مذہبی آقاؤں کے مذہب کی خدمت کرئیں ۔
یہ بادشاھ بڑا علم دوست تھا کتاب لکھنے کا معاوضہ سونے میں طے کر کے چاندی میں بھی ادا کر دیا کرتا تھا،۔
۔
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں کوئی لڑکا رہتا تھا جس نے پہلے والے بادشاھ کی کہانیاں پڑھی ہوئی تھیں ،اس کو بادشاھ سے اتنی عقیدت اور محبت تھی کہ اس نے جوان ہو کر جب کمائی شروع کی تو اس نے اپنے ابا جی کو بھی مجبور کر کے اس بادشاھ کی طرح کا لباس اور جوتے پہننے پر مجبور کردیا تھا ۔
کیلا کھا کر اندھے ہوئے لوگوں کو اس کی یہ ادا بڑی پسند آئی تھی اور اس واہ واہ کیا کرتے تھے ۔
جس سے یہ جوان اور بھی بڑھ چڑھ کر اپنے اباجی کی خدمت میں  گندے سے گندے اور  کپڑے اور ٹوٹے جوتوں نہ صرف پیش کیا کرتا تھا بلکہ اباجی کے درجات بلند کرنے کے لئے اباجی کو استعمال کرنے پر مجبور کیا کرتا تھا ۔
کیلا کھانے سے بچے ہوئے لوگ اس جوان کا ابا جی کے ساتھ سلوک دیکھ جو کہا کرتے تھے وہ ناقابل تحریر ہے ۔
تاریخ کی کتابیں پڑھ پڑھ کر یہی ہوتا ہے کہ
کسی کو کیلا کھانے سے اندھیرا چھا جاتا ہے اور کوئی بچ جاتا ہے ۔
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ پڑہی گئی کتابوں کا علم شارٹ سرکٹ کر جاتا ہے ۔

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

گندے اور ملامتی لوگ

داتا گنج بخش  کی کتاب کشف المجوب میں  ایک فرقے کا ذکر آتا ہے، درویشوں کے ایک فرقے کا جس کو مصنف نے “فرقہ ملامتیہ “ لکھا ہے ۔
وہ والا پرانا لطیفہ ! خادم حیسن اور گنڈا سنکھ  والا ۔
اس لطیفے سے اپ گنڈا سنگھ کے روئے سے  ملامتی فرقے کا  اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
ضود کو ملامت زدہ بنا کر  حلئے سے  باتوں سے حرکات سے خود کر ملامتی بنا رہے ہوتے ہیں ۔
عام زندگی میں ایسے لوگ بھی آپ کو ملیں گے جو کہیں گے
جی میں تو گنہگار سا بندہ ہوں ۔
میں تو جی ادنٰی سا محب وطن ہوں ۔
میں تو جی ناقص سا مسلمان ہوں ۔
ملامتی لوگ !!۔
خود کو ملامت کر کے فخر کر رہے ایسے ذہنی مریضوں کو اگر کوئی کہے کہ یہ تو گنہگا لوگ ہیں تو؟
ان کو غصہ آ جائے گا  ۔
لیکن یہ لوگ بھی بیچارے کیا کرئیں کہ جن کو تاریخ ہی ایسی  پڑہائی گئی ہے کہ
شخصیات پرستی اور شخصیات بھی ایسی کہ
ایک تھا بادشاھ  جو ٹوپیاں بنا کر گزارہ کرتا تھا ۔
بندہ پوچھے کہ توپیوں کی کمائی سے تو لال قلعے کی “ ٹیپ “ تک نہیں ہو سکتی  تو یہ بادشاہ باقی کے گزارے کیسے کرتا تھا ؟
مرہٹوں کی  “ بغل “ میں تیر دئیے رکھا  ۔ سکھوں کے قتل کئے ۔ جنگوں میں اس کو ٹوپیاں بنانے کا وقت کب ملتا تھا ۔
ایک تھا بادشاہ ، جس کے کپڑوں کو پوند لگے تھے ،جوتیاں ٹوٹی ہوئی ہوتی تھیں ۔
یہ سب تعلیم دی جا تی رہی ہے ایک خاص ذہن بنانے کے لئے کہ لوگ بھالے اپنی غریبی میں راضی رہیں اور حکومت کرنے والے گلچھڑے اڑاتے پھریں ۔
یہاں اتنی بھی سوچ نہیں ہے کہ ٹوپیاں بنانے والے بادشاہ  نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا کیا ؟ باپ کے ساتھ کیا کیا ؟ اس بادشاھ کی موت کے بعد اس حکومت کا کیا بنا ؟
پیوند لگے کپڑوں والے وقعے تو سنائے جاتے ہیں
لیکن اس حکومت کے بعد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔؟
چھڈو پراں جی ۔
مٹی پاؤ تے روٹی شوٹی کھاؤ۔
عقل علم کی باتیں ، کافروں  ، گمراھ لوگوں  یا پھر ان کے لئے چھوڑ دو جن کو بقول پاک لوگوں کے ابھی استنجا کرنا بھی نہیں آتا ۔
استنجا پر فخر کرنے والی قوم ، باقی ساری چیزیں گلیاں سڑکیں ، کپڑے ، زبان  لہجے ، روئیے گندے
اور استنجے والئ جگہ کی صفائی پر فخر ، اوئے کون لوگ او تسی ؟؟

اتوار، 14 ستمبر، 2014

فارمی مرغی


پاؤل سے گال !! ایک سائینسدان تھا ، جو کہ جانوروں کی سائینس “ذووالوجی “ کا ماہر تھا ۔ امریکہ کی ریاست ورجینیا کے رہنے والے اس سائینس دان نے 1957ء میں برائلر چکن تیار کیا تھا ۔
اسی نے مالیکیولوں کا ایسا علاماتی چارٹ تیار کیا تھا ، جس نے ایک عام سے پرندے کو فارمی جانور بنا دیا ۔
اسی کی تحقیق سے یہ ممکن ہو سکا کہ پیدا ہونے سے لے کر “گوشت” کی عمر تک پہنچے کے لئے جس پرندے کو چھ ماہ لگتے تھے اب وہی پرندہ چھ ہفتے میں تیار ہوجاتا ہے اور اس کا وزن یعنی کہ گوشت کی مقدار بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
فارمی مرغی کی ہسٹری کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے
اس کو دینا میں آئے ہوئے ابھی آدھی صدی ہی ہوئی ہے
پاکستان میں فارمی مرغی کے فارم انیس سو اکیاسی میں پہلی بار اصغر خان کے بیٹے نے متعارف کروائے تھے ۔
تحریک استقلال والے اصغر خان کے بیٹے کے فارمنگ شروع کرنے سے پہلے  پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں بھی لوگ اس حیران کن بات سے واقف ہو چکے تھے کہ
سعودیہ میں مرغی کا گوشت ، چھوٹے بڑے دونوں گوشتوں سے سستا ہوتا ہے

اس فارمی مرغی کو تیار  کرنے میں اس بات کا خیال کار فرما تھا کہ گوشت جلد سے جلد تیار ہو کر مارکیٹ میں پہنچایا جا سکے ۔
اور میں دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے پچیس سال میں انسانوں میں بھی گوشت کی بڑہوتی کی سپیڈ کو ایکسیلیٹر لگا ہوا ہے ۔
بڑھے ہوئے پیٹ ، فارمی مرغی کی طرح کے ملائم ملائم مسل !۔
انسانی تاریخ میں فلک نے شائد پہلی بار  دیکھے ہوں گے۔
فارمی سوروں اور فارمی  مرغیوں کی  خوراک میں جو ایکسیلیٹر ان کے گوشت کو بڑہانے کے لئے لگایا گیا ہے ۔
وہ ایکسیلیٹر ! اب اس گوشت کو کھانے والے انسانی جسموں تک پہنچ چکا ہے ۔
ثواب اور عذاب ! بنانے والے رب نے کسی حد تک انسانی جسم ہی رکھ دئے ہوئے ہیں ۔
جن کو بیماریاں بھی کہہ سکتے ہیں ۔
بکٹیریا ، انسانی جسم میں بیماریاں بھی بنتے ہیں اور بیماری کے خلاف مدافعت بھی بنتے ہیں ۔
یہ کھاد لگی فارمی مرغیوں کے گوشت کی خوراک ان بیٹیریا کو بھی مضبوط کرتی ہے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کھاد بیماری کے بکٹیریا کو مضبوط کرتی ہے تو مدافعت والے بکٹیریا بھی تو مضبوط ہو رہے ہیں ۔
لیکن اس بات کا جواب یہ ہے کہ کائینات توازن پر قایم ہے کسی بھی چیز کی بہتات بھی خوبی کی بجائے خامی بن جاتی ہے ،۔
جس کی مثال انسانی جسم میں چربی ، شوگر کیشلم کی زیادتی کی دی جا سکتی ہے ۔
بیماریوں کے خلاف مدافعت کرنے والے بیکٹریا بھی اپنی بہتات کے ساتھ عذاب بن جاتے ہیں ، جس عذاب کی سب سے بڑی قسم بلڈ پریشر اور شوگر کی زیادتی بنی ہوئی پے ۔

اتوار، 7 ستمبر، 2014

ایک کہانی ،سُکھا سنگھ کی زبانی

سُکھا سنگھ
ایک دن ،سکھا سنگھ کہنے لگا !۔
پاء خاور ، میرے دل میں ایک کہانی ہے جو میں نے کسی دن لکھنی ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کب لکھنی ہے ؟ کہنے لگا کسی دن کبھی نہ کبھی۔
میں پوچھا کہ اگر کہانی کو خفیہ نہیں رکھنا چاہتے تو اسکا پلاٹ مجھے بھی سناؤ!۔
پاء خاور اپ سے کیا خفیہ رکھنا ہے ، فرانس انے کے بعد اپ ہی تو ایک بندے ملے ہو جو اپنے اپنے سے لگتے ہو اور دل کا حال تک کھول سنانے کو جی کرتا ہے ۔
سُکھا سنگھ، انڈیا والے پنجاب کے کسی گاؤں کا تھا، جو کہ انڈیا سے ماسکو تک ہوائی جہاز پر بیٹھ کر پہنچا تھا اور اس کے بعد کا سفر ، ماسکو سے پیرس تک کا، ایجنٹ کے ساتھ پیدل ، کنٹینروں اور ڈنکیاں لگا لگا کر کیا تھا۔
سُکھا  اس سفر کی روداد سناتا رہتا تھا ، یورپ میں انٹر ہونے کے اس سفر میں بیمار ہو کر رہ جانے والے ساتھیوں کا  ذکر ، اور ان کا ذکر بھی جو اس سفر میں جان کی بازی ہار گئے ۔
گوجرانوالہ کے ایک لڑکے کا بھی ذکر کیا کرتا  تھا ، جو کہ مکیش کا  گایا ہوا ایک گیت کنگناتا رہتا تھا ۔
دنیا بنانے والے ، کیا تیرے دل میں سمائی ۔
سُکھا سنکھ کہا کرتا تھا
پاء خاور ، وہ منڈا ایک گریٹ آدمی تھا ، جو کہ ٹولی کے سبھی لوگوں کے دکھ درد تو بٹاتا ہی تھا ، روز مرہ کے کاموں میں بھی بہت مدد کرتا تھا ، کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ اگر وہ منڈا نہ ہوتا تو شائد میں بھی کہیں حوصلہ ہار چکا ہوتا ۔
اور یہاں فرانس میں آ کر پاء خاور ، اپ کے ساتھ معاملہ پڑا ہے تو اپ بھی گریٹ بندے ہو ، گوجرانوالہ کا نام سنا تھا ایک تو راجہ رنجیت سنکھ کی رجہ سے اور دوسرا امرتا پریتم کی وجہ سے ، اور معاملہ پڑا تو یورپ کے سفر میں جو دو گریٹ بندے ملے وہ بھی گوجرانوالہ کے ہی نکلے ۔
میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ جب یورپ کے کسی ملک کے کاغذ مل جائیں تو پاکستان جا کر گوجرانوالہ دیکھوں ۔

اس طرح کی باتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں
کہ کہانی کی بات  کا بھی دو تین دفعہ ذکر ہوا تو
ایک دن لنچ  کے وقفے میں سُکھا سنگھ نے اپنے “ من” میں موجود کہانی کا پلاٹ سنانا شروع کیا ۔
پاء خاور کہانی تو بڑی لمبی کر کے لکھوں گا میں  لیکن اپ کو مختصر کر کے بتاتا ہوں ، کیونکہ اپ کو ماسکو سے  پیرس تک کے دکھوں کی تفصیل تو معلوم ہی ہے ، اس لئے ہم اُن دکھوں کی تکرار کو چھوڑ کر بات کرتے ہیں ۔
ایک لڑکا
انڈیا میں پنجاب  کے کسی گاؤں میں  کسی  عام سے گھر میں پیدا ہو کر جوان ہوتا ہے ۔
جس نے باہر کی کمائی کے جلوے دیکھے ہوتے ہیں ۔
ایجنٹ کو پیسے دے کر یورپ کو روانہ ہوتا ہے ۔
ماسکو سے پیرس تک کے سفر میں کئی دفعہ بیمار ہو کر مرتے مرتے بچتا ہے ۔
بھوک سے اپنی انتڑیوں کے چٹخنے کی آواز سے بھی اسی سفر میں آشناء ہوتا ہے ۔
پاء خاور ! بھوک سے انتڑیوں کے چٹخنے کی آواز تو سنی ہو گی نہ ؟
پاء خاور تم مسلمانوں میں رمضان کے روزے ہوتے ہیں نہ ؟ اس لئے پوچھا ہے !۔
میں سکھے کو یہ نہ بتا سکا کہ  “جس بھوک “ کی تم بات کر رہے ہو ، وہ بھوک روزے سے بہت ہی وراء قسم کی چیز ہوتی ہے ، جس میں افطاری کے ٹائم کا علم نہیں ہوتا اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ ۔ !۔
سکھا بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔
پنجاب میں صحرا کی گرمی کی کہانیاں تو سنی تھیں ، اور پوھ ، مانگھ کے مہینوں کی سردی بھی دیکھی ہوئی تو تھی  ، لیکن برف کا جہنم  ، نہ کسی سے  سنا تھا اور نہ اس جہنم کا تصور ہی تھا ۔
برف کے اس جہنم میں پاؤں کی انگلیاں گل کر پیک پڑتی دیکھی اور اس درد سے جوانی میں مر جانے والے ساتھیوں کے چہرے یادوں کی سکرین پر ثبت سے ہی ہو کر رہ گئے ۔
مختصر یہ کہ
ساری مصیبتیں اور دکھ  اپنی جان پر جھیل کر جب  پیرس پہنچتا ہے تو؟
ہمالیہ سے بڑا سوال یہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ رہوں گا کہاں ؟
اپنے گاؤں کے لڑکوں کے پاس جاتا ہے تو ، ان کی اپنی پریشانیوں اور مجبوریاں ہوتی ہیں کہ کوئی کسی کے ساتھ رہ رہا ہے اور کسی کے ساتھی اس کے گاؤں کے تعلقات پسند نہیں کرتے ۔
ایک گھر میں جب کچھ ساتھی اس کو اس شرط پر رکھ ہی لیتے ہیں کہ
اج سے تمہارا خرچا شروع ہے ، اور تم پر قرض کی ادائیگی فرض ہو گی کہ جیسے ہی کام ملے یہ رقم ادا کرو گے۔
انہی دوستوں میں سے کسی سے رقم ادھار لے کر جب وہ لڑکا ٹیلی فون کرنے والا کاڑد خرید کر ، انڈیا میں گھر فون کرتا ہے تو ؟
فون اس کا باپ اٹینڈ کرتا ہے ۔
ابا، میں  پیرس پہنچ گیاں !۔
ابا کہتا ہے ، شکر ہے او رب دا ، بس پتر اب تو دل لگا کر کام کرو، تمہیں تو علم ہی ہے کہ کتنا قرضہ ادا کرنا ہے ، تمہاری  بہن کی شادی کرنی ہے ،۔ میری دوا کا بھی خرچا ہے ، بس پتر اب تم نے کوئی کسر نہیں چھوڑنی ہے کام کرنے میں ۔
ابے کے بعد چھوٹا بھائی فون پکڑ لیتا ہے ۔

پاء میں  نے بائک لینی ہے تمہیں تو علم ہی ہے کہ وہ پڑوسیوں نے پچھلے سال نئی بائک نکلوائی تھی اب ہمارے پاس بھی بائک نہ ہو تو عزت نہیں رہتی ۔
چھوٹے بھائی کے بعد بہن فون پکڑ لیتے ہیں ۔
ہائے میریاں تے دعاواں قبول ہو گیاں نئیں ۔ رب نے بڑا کرم کیتا ہے بھائی اپ پیرس پہنچ گئے ہو
اب مجھے سونے کے گہنے بنوا کر دینے ہیں  کالج جانے کے لئے میرے پاس اچھے اچھے سوٹ بھی نہیں ہیں وہ بھی بنوا کر دینے ہیں ۔اور جیب خرچ ہر مہینے مجھے علیحدہ سے ہی بھیج دیا کرنا ۔
ٹیلی  فون کارڈ کے یونٹ ختم ہونے کو تھے
جب ماں کو فون پر بات کرنے کا موقع ملا ۔
ست سری اکال ، کو ماں نے سنا ان سنا کر دیا اور ماں کے منہ سے نکلا
وئے سُکھیا! روٹی بھی کھائی ہے کہ نہیں ؟
کہ لائین کٹ گئی !۔
فون کارڈ کے یونٹ ختم ہو گئے تھے ۔

جمعہ، 8 اگست، 2014

گریس ہوٹل بنکاک

آتش بھی کہیں جوان ہی ہو گا ،
لیکن آتش ضرور جوان تھی ، جذبوں کی امنگوں کی  کچھ کرنے کی  یا کہ کر گزرنے کی  ۔
لیکن پیسے اپنے اپنے گھر کے حلات کے مطابق تھے لیکن تھے سب کے  پاس کم ہی ۔
کچھ لوگ ایجینٹ افورڈ کر سکتے تھے  ، جاپان جانے کے لئے اور کچھ خود کو سیانے سمجھنے والے براستہ تھائی لینڈ  خود ہی جاپان پہنچنے کے لئے یہاں ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے ۔
ڈی پورٹ ہو کر ، دوبارہ ٹرائی کرنے اور کروائے جانے کی امید میں یہاں بنکاک کے جنرل پوسٹ آفس ( پسنی کان) کے اردگرد کے مکانوں ہوٹلوں میں بسے ہوئے تھے ۔
ہوٹلوں میں محفلوں میں جاپان کی انٹری کی تکنیکوں پر بحژیں ہوتی تھیں ، اپنے اپنے ایجنٹ کی سیانفوں کی باتیں ، کسی کے لٹے جانے کی کہانیاں لذت لے لے کر اس تسکین کے لئے کہی جاتی تھیں کہ
میں بچ گیا !!!۔
کچھ وہ بھی تھے جو شراب پی کر اپنی کوالٹی بتا رہے ہوتے تھے کہ
مینوں نشہ نئیں ہوندا!۔
اور دلیلیں ساری ایسی کہ نشہ ہر حرکت سے عیاں ۔
اپنی اپنی ریزرو کنجری کو گرل فرینڈ کا نام ہوتا تھا ۔
ایک بٹ صاحب کی گرل فرینڈ جب آتی تھی تو
دروازے کی چوکھٹ پر کونی ٹکا کر  پنجابی کہتی تھی ۔
بٹ صاحب ! آؤ ناں میری ۔ ۔ ۔  مارو!!!۔
اور بٹ صاحب بڑے فخر سے دوستوں کے چہرے دیکھتے اور بتایا کرتے تھے ،۔
اینہوں پنجابی سکھائی ہوئی اے ۔
سوکمیتھ روڈ کے سوئے نانا ( سات نمبر گلی) کے کلبوں سے لڑکی کے مغالطے میں خسرا لے کر کمرے میں پہنچنے والے کی خجالت اگلے دن دیکھنے والی ہو تی تھی ۔
جب دوست پوچھتے تھے ۔
اوئے کردا کی رہیاں ایں ساری رات ؟
ساتھ میں کوئی لقمہ دیتا تھا ۔
اوئے اینے کی کرنا سی “ اوہ” ای کچھ کردا رہا ہوئے گا ۔
شریف گھرانوں میں پلے بڑھے زندگی میں پہلی بار باہر نکلے ہوئے زیادہ تر لوگوں کے لئے عورت ایک اسرار تھا ، جو یہاں عیاں ہونے کے قریب تھا ۔
ہر ہر بندے نے یہاں اس اسرار  کو پانے کی بساط بھر کوشش کی ہے ۔
پاکستان کی ایمبیسی کے قریب گریس ہوٹل ہی وہ ہوٹل تھا جہاں “ڈسکو “ بھی تھا ۔
دوسرے ڈسکو بھی ہون گے لیکن داخلے کی فیس ادا کرنے کی بساط نہ رکھنے والے گلیوں میں پھرنے کی بجائے گریس کو ترجیع دیا کرتے تھے کہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھے یا گھومتے دیکھ کر کوئی یہ ہی سمجھے گا کہ یہاں کسی کمرے کا کرایہ دار ہے ۔
بڑی رونقیں ہوتی تھیں ہہاں ، گریس میں ، یہاں لابی کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے نوجوان دلوں میں جاپان کی کمائی کے ارمان لئے ، گرسنہ نگاہوں سے کنجریوں کو تاڑ رہے ہوتے تھے،۔
اور بنکاک کی جسم فرشی کی تاریخ میں “ان” لوگوں نے بھی پہلی بار ایسے لوگ دیکھے تھے جو مال کو دیکھتے ہی رہتے تھے ، اگے بڑھ کر بات کرنے کی ہمت   نہیں کرتے تھے ۔
اگر کسی لڑکی نے ہی بڑھ کر بات شروع کر لی تو ، دائیں بائیں دیکھنے لگتے تھے اور چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں
کہ
ہن کی کرئیے؟
ایجنٹوں کی کوشش ہوتی تھی کہ منڈے کو کسی نہ کسی کے ساتھ کچھ کروا دیں تاکہ اگر منڈا جاپان نہ پہنچا تو یم از کم اس کی رقم تو واپس نہ کنا پڑے ۔
کہ اگر منڈے نے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا بھی تو اس کو بتایا گیا کہ
دساں تینوں ؟ پیسے کتھے گئے ؟اوئے گریس وی تے توں ای جاندا ہوندا سیں ناں ؟

جمعہ، 25 جولائی، 2014

مسلمان بنو! انتہا پسند نہیں

ہمارے یہاں ، پرانوں سے ایک تہوار ہوا کرتا تھا ، لوڑی ( لوہی) ! اسلام کے انے کے بعد بھی ہند میں ، ہمارے بڑے بزرگ یہ تہوار مانتے رہے ہیں ، کیونکہ یہ تہوار کسی غیر اللہ کے نام سے نہ تو وابسطہ تھا اور نہ ہی اس میں کوئی مشرکانہ بات تھی ۔ اسی تہوار کو ہالوین کہہ کر امریکیوں نے بھی اپنایا ! ۔
جس میں لڑکے بھالے جانور کا بہروپ بھر کر ناچتے گاتے مختلف گھروں جاتے ہیں اور وہاں سے ان کو میٹھی چیزیں ملتی ہیں  ۔
پاکستان بننے کے بعد بھی یہ تہوار منایا جاتا رہا ہے ۔
پھر؟ وقت بدلا ! بقول شخصے ، چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
پاکستان میں سرمے والی سرکار نے مودودی کا سلام "نازل" کر دیا ۔
ہر معاشرتی ایکٹویٹی بدعت اور ہندوانہ چیز بن کے رہ گئی ۔
کلاشنکوف مومن کا زیور ہوا ، منافقت مومن کی فراست قرار پائی ۔
ہر طرف اسلام اسلام ہوا ۔
اب تو حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ
اسلام کے قلعے میں  بھی اسلام خطرے میں ہے ۔
اللہ بچائے ۔ پاکستان میں تفرقہ کی انتہا ہے ۔
اور ہر تفرقے باز کو اپنی اپنی شرارت  “ عین اسلام “ لگتی ہے اور دلیل اس بھی “اسی رائیٹر کی کتاب “ سے ملتی ہے جس کتاب سے اس کے مخالف تفرقے باز نے لی ہوتی ہے  ۔
ہندو کی مخالفت ۔ “ان” کی لگژری کی ضمانت ہے ۔
اور “ان” کے مذہبی ونگ والے اس مخالفت میں اتنے اگے چلے گئے ہیں کہ
پنجابی کے محاورے
گرو جنہاں دے ٹپنے
چیلے جان شڑپ
ہر علاقائی روایت کو رسم کو  “ ہندوانہ” کہہ کر مخالفت کرنے والے مذہبی لوگوں “فکر” کرنے کا ٹائم ہی نہیں ہے ۔
عربوں کے پیسے سے ہر چیز کو عربی ہی کرتے چلے جا رہے ہیں
میں نے پنجاب میں دیہاتی عورتوں سے سنا ہے
ہائے ہائے ! نی عربی لوک ، ۔
نی او تے اپنیاں دھیاں نو ویچ دے نی ۔
جیہڑا بہتے پیسے دے ، اپنی دھی دا ویاہ اوس نال کردے نی۔
ہند کی شادی بیاھ کی رسموں کے پیچھے صدیوں کا تجربہ ہے کہ
لڑکے لڑکی کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ تم لوگ ایک بہت ہی اہم رشتے میں بندھنے والے ہو۔
یہ رشتہ تم دو افراد کا نہیں ہو گا ، بلکہ دو خاندانوں کا ہو گا ،۔ یہ ڈھولک پر کئی ہفتے ۔ ماہیے ، ٹپے ، لوگ گیت کانے والی برادری کی خواتین  ، اور شادی بہاھ کے کام کرنے ولاے “ لاگی” لوگوں کے اس کام کو مٹی میں نہیں ملانا ، صلح سلوک سے رہنا ہے ، اس رشتے کو توڑ نہیں دینا ہے ْ
۔

پاکستانیوں  نے اپنا اپنا اسلام پال رکھا ہے
اسلام نہ ہوا بٹیرا ہو گیا
جس طرح شوقین لوگ بٹیرے لڑایا کرتے تھے
پاک لوگ اپنا اپنا سلام لڑاتے ہیں ۔
بٹیرے والے کہا کرتے تھے
میرا بٹیرا پنجا مار کر دھرتی ہلا دیتا ہے  ۔
بٹیرے کا پنجا کیا اور بٹیرے کی اوقات کیا!۔

جمعہ، 11 جولائی، 2014

کمہار

کمہار کو پنجاب میں اکثر گھمیار بهی کہا جاتا هے ـ
 یه کوزه گر اور اینٹیں پکانے والا هے ـ
 حصار اور سرسا میں اس کی کافی تعداد ملی ـ وهاں اوردامن کوه اور وسطی اضلاح میں وه اکثر کاشتکار هے ـ
زیریں دریائے سنده پر ان کی کچھ تعداد نے آپنا اندراج بطور جٹ کرایا ـ
 کمہار رواجی معاوضه لے کرخدمات سر انجام دینے والا حقیقی خدمت گذار ہے جن کے بدلے میں کمہار گھریلو استعمال کے لئیے مٹی کے تمام برتن اور (جہاں رہٹ استعمال هوتا هے)مٹی کی ٹنڈیں بهی فراہم کرتا ہے ـ
پنجاب کي ذاتوں میں صرف کمہارہی گدهے پالتا ہےاور گاؤں کي حدود میں اناج کی نقل حمل کرنا اور اس کے بدلے میں اپنے موّکلوں سےدیگر اشیاء مثلاَ بیج یا کهانا لے کر آنا اس کا کاروبار هے ـ لیکن کمہار اناج گاؤں کے باہربلا معاوضه لے کر نہیں جاتا ـ گاؤں اور قصبات میں کمہار چهوٹا موٹا حمال هے ـ
 بعد میں وه مٹی کهاد کوئله اور اینٹیں بهی لادنے اور لے کر جانے کا کام کرنے لگا ـ
 اس کا مذہب علاقے کاغالب مذہب هی نظر آتا هے ـ کمہار کی سماجی حثیت بہت پست ہےهی ـ کیونکه گدهے جیسے ناپاک جانور کے ساتھ اس کا موروثی تعلق اس کو بهی آلوده کر دیتا هےـ گدها چیچک کی دیوی سیتلا کا مقدس جانور ہے ـ
اس طرح کهاد اور کوڑا کرکٹ لے جانے پر اس کی آمادگی بهی اس کم حثیت بنانے کا سبب ہے ـ
وه پنجاب کا خشت ساز بهی ہے کیونکه صرف وهی بھٹوں کا کام سمجهتا هے ـ
کوزے اور اینٹیں پکانے کے لئے بطور ایندهن جلانے میں کوڑاکرکٹ استعمال هونے کی وجه سے اس کا تعلق غلاظت سے بهی هو گیا هے ـ  مجهے یقین ہے که کمہار سانچے والی اینٹیں بهی بناتا هے لیکن سوکهی مٹی سے گاؤں میں تیار کی جانے والي عام اینٹیں عموماَقلی یا چمار بناتا ہے ـ
 کوزه گر بهی کہا جاتا هے ـ(Kiln burner)کمہار کو پزاواگر اور موخرالذکر اصطلاح کا استعمال عام طور پر صرف ان کے لئیے ہوتا ہےجو نہایت عمده قسم کے برتن بناتے هیں ـ
 سرحد پر کمہار گلگو نظر آتا هے ـ ہندو اور مسلمان کمہار دونوں پائے جاتے هیں ـ ہندو کمہار کو پرجا پتی یعنی خالق دیوتا بهی کہاجاتا ہے ـ کیونکه کمہار مٹی سے چیزیں تخلیق کرتا هے ـ
 نابها میں کمہار برہما کی نسل سے ہونے کا دعوی کرتے هیں ـ
ہندی کی ایک روایت
 رام ذات کا رانگڑ ، کرشن ایک آهیر ،برہما ایک کمہار اور شیو ایک فقیر ـ
 کہانی یوں هے که
 ایک مرتبی برهما نے آپنے بیٹوں میں کچھ گنے تقسیم کئے ـ
 کمہار کے سوا سب نے آپنے آپنے حصے کا گنّا کها لیا ،لیکن کمہار نے اسے ایک مٹی بهرے برتن میں لگا کر پانی دیا جس نے جڑ پکڑ لی ـ
کچھ ریز بعدبرهما نے بیٹوں سے کنّے بارے پوچها تو صرف کمہار هي اسے گنّا دینے کے قابل هو سکا ـ
 تب برهما نے خوش هو کر کمہار کو پرجا پتی یعنی دنیا کی شان کا لقب دیا ـ
 لیکن برهما کے دیگر ٩ بیٹوں کو بهی خطابات ملے ـ ایک روایت بهگت کُبا کو کمہاروں کا جدامجد بتاتی هے ـ دہلی کے کمہار سبهی دیوتاؤں اور اولیاء کی عبادت کرتے هیں ـ وه شادیوں کے موقع پربهی پیروں کو کچھ نذر کرتے هیں ـ
 ڈیره غازی خان کے کمہار ،جوسب کے سب مسلمان هیں ،تونسه پیر کو مانتے هیں ـ لاہور کے کمہار ہولی کا تہوار دیگر ذاتوں هي کي طرح دهوم دهام سے مناتےهیں ـ مسلمان کمہاروں کے دو علاقائی گروپ بهی هیں جنڈ نابها اور ملیر کوٹله میں دیسي اور ملتانی ـ دیسی عورتیں سیتلا کو مانتی هیں لیکن ملتانی عورتیں نہیں ـ
 گورداس پور میں پنجابی اور کشمیری کمہار ، سیالکوٹ اور گجرات میں کشمیری اور دیسی کمہار هیں ـ مسلمان کمہاروں کے کوئی ذیاده اهم پیشه ورانه گروپ نہیں هیں ، ماسوائے گجرات کے کلالوں کے جو پیشے کے اعتبار سے گانے ناچنے والے هیں اور کمہاروں کي شادیوں پر خدمات انجام دیتے هیں ـ
 آگرچه دیگر کمہار انہیں به نظر حقارت دیکهتے هیں ،مگر انہیں آپني بیٹیوں کے رشتے بهی دے دیتے هیں ـ میانوالی کے کمہار برتن سازی کے ساتھ ساتھ کاشت کاری بهی کرتے هیں،اور چند ایک کوّیے اور زمیندار قبیلوں کے مغنی بهی هیں ـ
 لیّه کے کمہار جلال باقری کی نسل سے هونے کا دعوی کرتے هیں ـ گوجرانواله میں کمہار پیغمبر دانی ایل پر یقین اور کام شروع کرنے سے پہلے اسی کا نام لیتے هیں ـ
لباس کے حوالے سے بهی مختلف علاقوں کے کمہاروں میں فرق پایا جاتا ہے ـ
 کانگڑا میں ہندو دیسی کمہار عورتیں سونے کی نتهلی پہنتی هیں ـ مالیر کوٹله میں مسلمان ملتانی کمہار عورتیں آپنے پاجاموں کے اُوپرایک لمبا چولا زیب تن کرتی هیں جو کمر تک آتا هے ـ ملتان میں همدو اترادهی خواتین ناک میں نتھ پہننے کی عادی هیں ـ مسلمان ذیاده تر ملتانی کمہار عورتیں ساری ذندگی پیراہن یا چولا پہنتی هیں ـ میانوالی تحصیل میں لڑکیاں شادی کے بعد چولا پہنتی هیں ـ
موجودہ دور میں کمیار قوم نے بہت ترقی کی ہیں خاص طور پر پنجاب کے ضلع لاہور میں انکی کافی تعداد پائی جاتی ہے اور کاروباری پیشہ سے منسلک ہیں

بدھ، 9 جولائی، 2014

کفر

جاپانی لوگ بڑے خود دار ہوتے ہیں ۔
اس لئے نہیں کہ ان کے ملک کے اقتصادی حالات بہتر ہیں ۔
بلکہ اس لئے کہ ان کی خود اداری نے ان کے حالات بھی بہتر کر دئیے ہیں ۔
اپ کسی جاپانی کو کوئی چیز مفت میں دینے کی کوشش کریں تو ، وہ قبول نہیں کرئے گا
یا پھر اس کی قیمت ادا کر کے چھوڑے گا ،
یا ہھر اگر اپ کا نزدیکی دوست ہے تو چیز لے کر اس کے متبادل اپ کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرئے گا ۔
میں خود بھی ایک خود دار انسان ہوں ۔
اگر کوئی سخی بندہ ایسے ہی مجھے کہیں کھڑا کر کے رقم نکال کر کہے کہ “ رکھ لو” ! تو میرے لئے شرم کا مقام ہے کہ اس نے مجھے سمجھا کیا؟ بھکاری !۔
کیوں ؟ میں کیوں رکھ لوں ؟ ایک ایسی رقم یا چیز جو کہ میری نہیں ہے جو میری کوشش سے یا محنت سے حاصل نہیں ہوئی ہے  ۔
یہ نہیں کہ جاپان میں لوگ مجبور نہیں ہو جاتے ۔ مجبوریاں انسان  کے مقدر میں ہیں ، کوئی بھی انسان مجبور ہو سکتا ہے  ۔
لیکن جاپانی بھیک نہیں مانگتے ۔
کاروبار میں نقصان کر کے گھر سے بے گھر ہوجانے والا ایک ہوم لیس ، بھی کہیں کسی پارک میں پڑ کر سو رہتا ہے اور وقت کے وقت اپنے مخصوص کردہ ریسٹورینٹ کے پچھلے دروازے پر دستک دیتا ہے ۔
ریسٹورینٹ سے کوئی بندہ نکلتا ہے جو کہ اس ہوم لیس سے انکھیں بھی نہیں ملاتا کہ کہیں ہوم لیس کو شرمندی نہ ہو ، اور اس کو کھانے کا پیکٹ پکڑا دیتا ہے  ۔
پاکستان میں بھکاری کلچر کچھ اس طرح کا ہماری رگوں تک میں بس چکا ہے کہ جو جتنا بڑا بھکاری ہے وہ اتنا بڑا لیڈر ہے ۔
بھیک اکٹھی کر کے ایک ہسپتال بنا لیتا ہے  ۔
اور پھر اپنے اس ہسپتال کے سامنے چھوٹے بھکاریوں کی لائینیں لگی دیکھ کر اپنی انا کی تسکین کرتا ہے  ۔
بھیک مانگ کر لنگر کھول دیتا ہے
اور پھر جھولیاں پھلائے  کھانے کے لئے دھکم پیل کرتے کیڑے مکوڑوں کو دیکھ  نفس  کا حجم بڑھاتا ہے ۔
پھر کیا ہونا چاہئے؟
ہونا یہ چاہئے کہ قوم میں انا اور خود داری کی خو پیدا کرنی چاہئے ۔
ہر بندہ اپنے پیسے سے کھانا کھائے اور اپنے پیسے سے اپنا علاج کروائے ۔
جس کے لئے بیمے ہوتے ہیں انشورنس ہوتی ہیں ۔
لیکن انشورنس اور بیمے کو فراڈ کے طور پر اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر بندے کی یہ سوچ ہے کہ
پاکستان میں یہ نظام چل ہی نہیں سکتا ۔
خرابی در خرابی ، نقص در نقص ، بیماری در بیماری ۔ مغالطےاور مبالغے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ
یقین کریں
میں پاکستان سے مایوس ہو چکا ہوں ۔
اللہ مجھے اس کفر سے بچائے کہ
مایوسی کفر  ہوتی ہے

جمعہ، 4 جولائی، 2014

پاک بول چال اور پاک ٹیلنٹ


سکول میں ٹیچر نے بچوں سے کہا کہ
کل کلاس کا گروپ فوٹو ہو گا ، اس لئے سب بچے پچاس پچاس روپے لے کر آئیں ۔
اور اچھے سے کپڑے پہن کر انا ہے ۔
چلو اب چھٹی ۔
سکول سے باہر آ کر ، گاما ، اچھو سے کہتا ہے ۔
یار یہ سب مادر چود سکول ٹیچروں کی  چالاکی ہے ۔
ایک فوٹو کے باہر بیس روپے لگتے ہیں ،اور یہ ہم سے پچاس پچاس منگوا رہے ہیں ۔
مطلب یہ کہ ایک بچے سے کوئی تیس تیس روپے بچائیں گے ۔
یعنی کہ ایک کلاس سے کوئی اٹھارہ سو اور پورے سکول سے کوئی دس ہزار روپے !!!۔
ان بہن چودوں نے کھلی لوٹ مچا کر رکھ دی ہے ۔
اچھو نے لقمہ دیا ، ہاں ہاں یہ سارا کمیشن کا چکر ہے ، ہیڈ ماسٹر  بہن چود کی کمیشن کا !۔
گاما ٖغصے سے کہتا ہے
اور بعد میں یہ یہ ماں کے لوڑے سٹاف روم میں بیٹھ کر سموسےکھائیں گے ، اور ہمیں لن ملے گا ۔
اچھو گامے کو ٹھنڈا کرتے ہوئے کہتا ہے
چل چھڈ یار ماں کو چود ، ہیڈ ماسٹر کی ، گھر چل کر ماں سے پیسے مانگتے ہیں ۔
ہر دو ، گامے اور اچھو نے گھر جا کر اپنی اپنی ماں سے کہا
کل سکول میں گروپ فوٹو ہے !۔
ماسٹر نے سو سو روپے لانے کو کہا ہے !!!۔

.
.
گامے کی ماں ، اسی دن سعودیہ فون کر کے اپنے خاوند کو بتاتی ہے ۔
یہاں مہنگائی بہت ہو گئی ہے ۔
ماسٹر حرام زادے نے گروپ فوٹو کے دو دو سو روپے منگوائے ہیں ۔
تمہاری کمائی میں جس تنگی ترشی سے میں گزارا کر رہی ہوں یہ میں ہی جانتی ہوں یا میرا رب ۔

منگل، 1 جولائی، 2014

یادیں اور کمہار گھیری


بھٹی بھنگو روڈ سے ہمارے گھر کی طرف مڑیں تو ، سیدہے (دائیں ) ہاتھ پر خراس ہوا کرتا تھا ، بلکل ہمارے گھر کے سامنے ۔
خراس آٹا پیسنے کی اس چکی کو کہتے تھے جو بیلوں کی جوڑی کے ساتھ چلتا ہے ۔
پانچ دہائیاں پہلے عام گھروں میں ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکیاں ہوا کرتی تھیں  ۔
لیکن بڑے قصبوں کے مستری لوگ خراس بھی لگا کر دیتے تھے   ، آٹا پیسنے کے خواہشمند اپنی گندم اور اپنے بیل لے کر آ جاتے تھے ۔ اور خراس والے کو بھاڑے کی  مد میں اناج یا آٹا دیا جاتا تھا ۔
ہماری معاشرت کے اچھے دن تھے ، کہ جب کوئی زمنیدار اپنے بیل خراس میں جوتتا تھا تو
عام گھروں کے لوگ بھی اپنی گندم لے کر آ جاتے تھے کہ ساتھ ہی پس جائے گی ۔
ہمارے ہوش سنبھالنے تک خراس کے ساتھ ہی مستری شفیع  جن کو میاں جی کہتے تھے انہوں نے بجلی سے چلنے والی چکی لگا لی تھی ۔ اور خراس پر ہم بچے لوگ کھلا کرتے تھے ۔ یا کہ جہاں تک میری یادیں ساتھ دیتی ہیں کوئی ایک دو بار ، بھرو والئے  جاٹوں کو اپنے  بیلوں کے ساتھ آٹا پیستے ہوا دیکھا ہے ۔
یہاں خراس پر کھیلتے ہوئے مجھے ایک دفعہ بھڑوں نے کاٹا تھا ، کاٹتی کیوں ناں کہ میں نے بھی تو اندھیرے میں بھڑوں کی کھکھر کو کوئی لاٹو نما سوئچ سمجھ کر مٹھی میں بھینچ ہی لیا تھا !۔
میاں شفیع کی کی مشین جو کہ بعد میں میرے دادا نے خرید لی تھی اس کے سامنے ہی  اور میرے گھر سے جڑی ہوئی  احمدیوں کی مسیت ہے ۔
احمدیوں کی مسیت اور قصبے کے ہائی سکول کے درمیاں لوہاروں کے تین گھر ہیں ۔
سکول کے ساتھ جڑے ہوئے گھر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اردو کے مشہور اور محمور شاعر
عبدالحمید  عدؔم  اس گھر کے رہائیشی تھے ۔
لوہاروں کے گھروں کے سامنے روڑی ہوا کرتی تھی 
جس کو باجوہ صاحب سے خرید کر میرے دادا محمد اسماعیل صاحب کے  میرے چاچاؤں کے لئے گھر بنائے ، ۔
روڑی کے اگے اور سکول کے سامنے کی جگہ کو ہم کھتے کہا کرتے تھے
کھتے بمعنی چھوٹے کھیت !۔
کھتوں کے جنوب اور مشرق میں ڈسپنسری ہوا کرتی تھی ۔
ڈسپنسری سے جڑے ہوئے دو کھتے  یوسی ( محمد یوسف لوہار) کے ابا جی کے تھے اور سکول کے سامنے وال کھتا  چوہدری رحمت کا تھا
چوہدری رحمت اور یوسی کے خاندان کے کھتوں کے درمیان درختوں کی ایک دیوار بنی ہوئی تھی جو کہ انگریزی کے لفظ ایل کی طرح کی تھی ۔
یوسی میرا وہ دوست ہے کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اس کو اپنے ساتھ پایا ۔
میری یادیں جہان تک میرا ساتھ دیتی ہیں ۔
میں سکول میں ٹاٹ پر یا کہ گھر سے لائی ہو بوری پر اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں ۔
ڈسپنسری کی عمارت کی جنوبی طرف والی چاردیواری ، جو کہ پسرور روڈ کے ساتھ ملتی تھی اور جہاں ڈسپنسری کا مین گیٹ تھا ۔
یہاں ایک پیلو کا درخت ہوا کرتا تھا ۔
سرخ رنگ کی پیلو جب پک کر تیات ہو جاتی تھی تو میٹھی لگتی تھیں ۔
لیکن مجھے کبھی بھی لذیذ نہیں لگیں ، بس میٹھی لگتی تھیں ۔
اس پیلو کے درخت کے نیچے میں نے پہلی بار “کمہار گھیری” ( کمہار کی شکار گاہ ) دیکھی تھی ۔


لمبڑو ،  جو کہ ہم سے بڑی عمر کا تھا اور مھؒے کے لڑکوں کا رنگ لیڈر سا تھا  اس کے ساتھ یہاں کھیلتے ہوئے اس نے زمین پر بنے ہوئے “ کھتھی “ نما ان سوراخوں کے متعلق بتایا کہ  ان کو کمہار گھیری کہتے ہیں ۔ اس  سوراخ کی تہہ میں ایک کیڑا چھپا بیٹھا ہوتا ہے ، جس کو کمہار کہتے ہیں ۔
اگر اس سوراخ میں  چیونٹی کو ڈالیں تو مٹی کے نیچے سے نکل کر کمہار اس کیڑی کو کھا جاتا ہے ۔
اسی وقت لمبڑو نے ایک کیڑی کو پکڑ کر اس سوراخ میں ڈالا اور گانے لگا “ کمہارا ، کمہارا ، کیڑی تیرے پانڈے پن گئی آ “
کمہار او کمہار چیونٹی تمہارے برتن توڑ رہے ہے ۔
لمبڑو کا گانا سنتے ہیں زمین سے ایک کیڑے کی ٹانگیں نکلیں اور چیونٹی کو لے کر زمین میں چھپ گئیں ۔
لمبڑو نے ریت میں اس سوراخ کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سوراخ کو الٹ دیا
اور ہم نے دیکھا کہ ایک پیلے سے رنگ کا مکڑی نما کیڑا ۔ وہاں پڑا تھا ۔
لمبڑو نے کہا دیکھنا دیکھنا یہ کیڑا جس کو کمہار کہتے ہیں ، جب چلے کا تو الٹی طرف چلے گا ۔
اس کیڑے کی ساخت ہی ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ  منہ کی سیدھ کی بجائے پیٹھ کی سیدھ میں چل رہا ہے ۔
وقت گزرنے پر علم ہوا کہ یہ کیڑا اپنے گھر بناتا ہی وہاں ہے جہاں چیونٹیوں کی بہتات ہوتی ہے ۔

جاپانی میں اس کیڑے کے گھر کو “آری نو جی کوک” کہتے ہیں ۔
جس کے معنی ہیں ،۔ چیونٹی کا جہنم ۔
اس سوراخ کی ریتلی ساخت ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ اگر کوئی  چیونٹی اس سوراخ میں گر جائے تو  نکل نہیں سکتی ۔ ریت ، پھسل پھسل کر چیونٹی کو باہر نہیں نکلنے دیتی اور اس دوران وہ کیڑا نکل کر چیونٹی کو دبوچ لیتا ہے ۔
چند دن پہلے میں نے یہاں  جاپان میں اپنے یارڈ  میں ایک درخت کے نیچے کمہار کے کگر والے سوراخ دیکھے  تو ان کی تصاویر بناے لگا۔
تنزانیہ سے آئے ہوئے سلیم نامی کالے نے دیکھا تو کہنے لگا کہ سواحلی میں اس کو کیا کہتے ہیں یاد نہیں لیکن ، اگر اس سوراخ کو پلٹ دیں تو ایک کیڑا نکلتا ہے جو کہ پیٹھ کی سیدھ میں چلتا ہے ۔
مں نے اس کو بتایا کہ ہاں مجھے بھی اس بات کا علم ہے
اور یہ چیزیں میری بچپن کی یادوں میں در آتی ہیں ۔
اسی لئے میں اس سوراخ کی فوٹو لے کر اور ویڈیو بنا کر اپنے بلاگ پر لگانا چاہتا ہوں
تاکہ میرے وطن کی نئی نسل کو بھی علم ہو کہ ایسی چیزیں بھی گاؤں دیہات میں پائی جاتی ہیں  ۔

اس ویڈیو میں اپ ایک چیونٹی کو کمہار گھیری میں گرتے اور کیڑے کا شکار ہوتے دیکھ سکتے ہیں ۔

ہفتہ، 21 جون، 2014

حالات حاضرہ


مولوی طاہر نے اپنا سیکرٹریٹ بنایا ہوا ہے ۔ جس کے سامنے اپنا وجہکا بنانے کے لئے بیرئیر کھڑے کئے ہوئے ہیں ۔
جس طرح شہباز شریف کو ناجائیز تجاوزات ہٹانے کا دورہ پڑتا رہتا ہے ۔ اسی طرح اس روٹین کے دورے میں ، مولوی کی تجاوزات بھی زد میں آ گئیں ۔
جب عملہ ان تجاوزات کو ہٹانے کے لئے گیا تو مولوی صاحب نے اپنے امتیوں کو لڑنے مرنے اور اپنی وفاداری کا یقین دلانے کا ثبوت مانگ لیا ۔
جوشیلے امتیوں  نے "ایٹاں ،وٹے" مارنے شروع کر دئے ۔
غیر تربیت یافتہ اور احمق پولیس جن کو ایسے معاملے ایٹند کرنے کا ڈھنگ ہی نہیں آیا ! پولیس بھوتر گئی۔
مولوی طاہر جو کہ خود بھی اتفاق فونڈری کے ڈھلے ہوئے  ، موجودہ زمانے کے مرزا غلام احمد ہیں ۔
جہاد کی کینسلیشن  کی کوشش میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے ، کچھ لاشوں کے ضرورت مند تھے ۔
ان کو اپنی سیاست کے لئے لاشیں مہیا کر دی گئیں ہیں ۔
اب مولوی صاحب اور ان کے امتی ، شریفین کو "کوسنے " دیتے رہیں گے ۔
اور شریفین کے مریدین ، مولوی کے امتیوں کو طعنے طنز کرتے رہیں گے ۔
باقی کی قوم کی :بغل " میں "بٹ " دے دیا گیا ہے ۔ْ
“بٹ “ تو سمجھتے ہیں ہیں ناں جی آپ ؟
بندوق کی پیٹھ کو کیا کہتے ہیں ؟
بٹ !!۔
ہاں وہی بٹ !  جرنل ضیاء کی  بندوق کا “بٹ “  شریفین !!۔
یہاں سے اپ انگریزی کے “بٹ” کے معنی انجوائے کریں ۔
http://khawarking.blogspot.jp/2007/06/blog-post_11.html
اور اگر پاکستان میں ہیں تو اپنی اپنی بٹ کی حفاظت کا خود انتظام کریں ۔

بدھ، 21 مئی، 2014

نالج اور فن

ویت نامی سے سائیکلوں کا سودا کیا تھا  ،سائیکل اٹھانے کے لئے گئے ، یہ سائیکل افریقہ کو بھیجنے ہیں ۔
جب ہم سائیکل ٹرک پر لادھ چکے تو ،اسی وقت دو جیٹل مین لباس میں جاپانی ، سامنے والی لانڈری کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ویت نامی کے یارڈ پر آ گئے ۔
میں نے ویت نامی کو رقم دی اور اس کو کہا کہ رسید بنا کر بقایا رقم دو۔
دونوں جاپانیوں نے اسی دوران ویت نامی کو گاڑی کے نمبروں کی تصویورں والے کاغذ دیکھا کر ، غیر قانونی پارکنگ کے جرمانے کا تقاضا شروع کر دیا ۔
ویت نامی نے حیرانی کا اظہار کیا کہ مجھے آپ لوگوں نے کوئی خط وغیرہ یا کہ جرمانے کا بل نہیں بھیجا اس لئے میں ادا نہیں کر سکا
لیکن حکومتی لوگوں نے اس کو بتایا کہ ہم ، چھ دفعہ تم کو خط لکھ چکے ہیں ۔
ایک جاپانی ویت نامی کے دفتر میں اس سے رقم وصولنے لگا تو
دوسرے سے میں نے پوچھا کہ
آپ لوگ کس محکمے کے ہو؟
تو اس نے پولیس والی آئی ڈی نکال کر دیکھائی کہ ایک طرح سے میں ہوں تو پولیس والا لیکن میرا شعبہ جرمانے وصول کرنے کا ہے ۔
اس ویت نامی نے وہاں میتو شہر میں ایک جگہ “نو پارکنگ” والی جگہ میں گاڑی کھڑی کی تھی ، ہم اس کے جرمانے کی وصولی کے لئے آئے ہیں ۔

اس نے بتایا کہ جاپان میں پولیس مین ، رقم کے لین دین کا معاملہ نہیں کر سکتا ، ڈیوٹی کے دوران پولیس والے کا رقم کو ہاتھ لگانا غیر قانونی کام ہے ۔
لیکن ایک مخصوص شعبے کے لوگوں کو ہمارے گورنر نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ رقم  کی وصولی کا کام کر سکتے ہیں ، جن میں سے ایک میں بھی ہوں ۔
میں ابھی اس بات پر ہی غور کر رہا تھا کہ جاپانیوں نے کرپشن  سے پاک معاشرے کے لئے کیسی دانشمندی سے اصول وضع کئے ہوئے ہیں ۔
کہ
وصولی والا بندھ وصولی کر کے واپس آ گیا اور وہ دونوں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے ،۔
میرے ساتھ والے افریقیوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟
میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ان کو بتایا کہ ویت نامی کو نوپارکنگ کا جرمانہ ہوا تھا
لیکن شائد یہ ویت نامی جرمانے سے جان چھڑانے کے لئے ، جرمانے کے خطوط کو نظز انداز کرتا رہا ہے ۔
اور اج “ وہ “ خود ہی وصولی کے لئے آ گئے ہیں ۔
اسی وقت ،ویت نامی بھی وہیں آ گیا !۔
میں نے اس سے پوچھا کہ معاملہ کیا تھا
تو اس نے بتایا کہ وہاں میتو شہر میں ایک جگہ گاڑی کھڑی کرنے پر مجھے جرمانے کی ٹکٹ ملی تھی ۔
اگر میں وہ رقم ادا کر دیتا تو قانون نے میرے ڈارئیونگ لائیسنس کے ڈیڑھ پوائنٹ  کاٹ لینے تھے ۔
اس لئے میں جرمانے کے خطوط کو نظر انداز کر کے ، جرمانے کی وصولی کے لئے “ ان “ لوگوں کا انتظار ہی کر رہا تھا ۔
کیونکہ اس طرح صرف جرمانہ ادا کر کے جان چھوٹ جاتی ہے ۔
میں اپنے لائیسنس  کی ریپوٹیشن خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
میں اور میرے ساتھ موجود افریقی ، ویت نامی کے نالج اور اس نالج سے فائدہ اٹھانے کے فن پر اس کو دل ہی دل میں شاباش دئیے بغیر نہ رہ سکے ۔

منگل، 13 مئی، 2014

ڈرین کا نظام

میں نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ
ترقی یافتی اقوام نے " ڈرین" کے نظام کو صدیوں پہلے اپنا لیا تھا۔
اور "نکمی" اقوام کو سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کا نام ترقی بتا کر
ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہوا ہے ۔
پیرس کی تعمیر  میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہوا ہے کہ
بارش کے پانی کو بھی دو قسموں میں تقسیم کر کے استعمال کیا جائے گا
عمارتوں کی چھتوں کا پانی پینے کے کام اتا ہے اور سڑکوں کا گندا پانی دریا میں چلا جاتا ہے ۔
واشنگٹن ڈی سی میں ، میں نے دیکھا کہ سڑکوں کے نیچے میٹروں کی گہرائی کی گلیاں بنی ہوئی ہیں ۔
اگر کچھ دن طوفانی بارشیں بھی ہو جائیں تو لاکھون ٹن پانی تو ان گلیوں میں ہی غرق ہو جائے گا۔
لندن کی نالیاں زمین دوز اس طرح کی بنی ہوئی ہیں کہ ان کی انڈرگراؤنڈ ٹرین کے اسٹیشنوں کا پانی تک بھی ٹھکانے لگ جاتا ہے ۔
واشنگٹن چلو نیا شہر ہے (ایک سو کچھ سال) لیکن پیرس اور لندن صدیوں پہلے تعمیر کئے گئے تھے، ڈرین کے فول پروف نظام کے ساتھ!!۔
لیکن
یہاں پاکستان میں کیا ہوتا ہے ؟
سڑکوں کی تعمیر پر حکومتیں نمبر بناتی ہیں ۔
اور لوگوں کے مکان ! سڑک سے نیچے چلے جاتے ہیں ۔
لوگ اپنے مکان اونچے کر تے ہیں ۔
اور
مکانوں کا پانی سڑک پر چڑھ جاتا ہے ۔ کول تار ، ٹھنڈک اور پانی سے سخت ہو جاتی ہے ۔
جس پر چلتی گاڑی کے ٹائیر کی چوٹ لگنے سے سڑک ٹوٹ جاتی ہے ۔
دوسری تیسری گاڑی کے ٹائروں کی چوٹ اس گڑھے کو وسیع کر دیتی ہے
اور ؟
سڑک ٹوٹ جاتی ہے ۔
حکومت پھر اتی ہے اور سڑک کو اونچا کر جاتی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئی تکنیک جاپانیوں نے پاکستان کو دی ہے کہ
ابادیوں کے اندر سڑک کو کنکریٹ کا بنا دو ۔
پانی سے ٹوٹے گی نہیں ۔
لیکن پانی کے نکاس کے فوائد کا کسی کو علم ہی نہیں ہے ۔
میں نے دنیا کے کتنے ہی غیر ترقی یافتہ ممالک کے افسروں سے بات کر کے دیکھی ہے ۔
ان سب کی سوچ میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر ہی ترقی کی معراج ہوتی ہے ۔
اور اس ترقی کے لئے پیسے نہ ہونے کا رونا ہوتا ہے ۔
ابادی کے پانی کا انتظام فول پروف ہو جائے تو؟
کتنی دہایوں تک ۔سڑکوں اور مکانوں کی تعیر پر اٹھنے والی دولت کی بچت کر کے نئی عمارتیں اور سڑکیں بنائی جا سکتی ہیں ۔

ہفتہ، 26 اپریل، 2014

عاشق لوگ

حکایات انبیاء میں لکھا ہے کہ
سلیمان علیہ سلام کے دربار میں  ، اوپر گنبد میں ایک چڑا  اپنی چڑیا کو منا رہا تھا۔
چڑا چڑیا کو کہتا ہے ، تم مجھے نہیں جانتی ہو ، میں  ! اگر پر ماروں تو یہ گنبد گرا کر ڈھیر کر دوں !!۔
سلیمان علیہ سلام جو کہ جانوروں کی بولی بھی جانتے تھے ، انہوں  نے یہ سنا تو چڑے کو اپنے پاس بلایا ور پوچھنے لگے کہ
یہ تم کیا کہہ رہے تھے ؟
چڑے نے کہا ، حضور ! عاشقوں کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔
سلیام علیہ سلام نے مسکرا کر کہا ، جاؤ ، لیکن بڑی بڑی نہ چھوڑا کرو!!۔
جب چڑا واپس چڑیا کے پاس پہنچا تو چڑیا نے پوچھا  کہ سلیمان علیہ سلام کیا کہہ رہے تھے؟
چڑے نے چڑیا کو بتایا کہ
کہہ رہے تھے ایسا نہ کرنا ، گنبد گرنے سے بڑا نقصان ہو جائے گا!!!۔
صدیاں گزر گئیں لیکن
اج بھی عاشقوں کا یہ حال ہے کہ
بڑی بڑی چھوڑتے ہیں
لیکن مشعوق اب سادہ نہیں رہے ۔
ایک مرغا کسی مرغی کو کہہ رہا تھا کہ
جان من میں تمہار لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں
مرغی نے ایکسایٹڈ ہو کر پوچھا ہاے میں مار جاوان واقعی ؟؟
ہاں ہاں ! تم کہہ کر تو دیکھو!۔
مرغی نے کہا
اچھا یہ بات ہے تو ؟
انڈہ دے کر دیکھاؤ ، آج میں تھکی ہوئی سی فیل کر رہی ہوں ۔

منگل، 22 اپریل، 2014

دفاع

مصلیوں نے کسی نہ کسی طرح بندوق کا لائسینس لے کر بندوق خرید لی تھی ۔
اس کے بعد اس بندوق  کے “بٹ” کے ساتھ امام ضامن اور کئی پیروں اور فقیروں سے لئے ہوئے تعویذ باندھ رکھے تھے !!!۔
بندوق کی حفاظت کے لئے !!۔
۔۔۔۔
گامے کو ، کاروباری دورے پر نکلے کوئی تین ماھ ہونے والے تھے ، جب لاہور پہنچا تو بیوی کی ضرورت کی شدت برداشت نہ کر سکا
یا کہ “دوسری بھوک “ کی شدت تھی!۔
ہوٹل کے مینجر کی وساطت سے ایک “کسی” کا انتظام کر لیا ۔
جوان سال ، متناسب جسم ،خوبصورت لڑکی نے ہوٹل میں پہنچ کر ، پانی وغیرہ پیا ، جب کچھ ریلکس ہوئی تو اس لڑکی نے اپنے نیفے سے خنجر نکال کر میز پر رکھ دیا ۔
گامے کی سوچوں کو ساری رات  ، میز پر پڑا ہوا خنجر ،  ہلکے ہلکے کچوکے لگاتا رہا ۔
صبح جب گامے نے پیسے دے کر لڑکی کو رخصت کیا تو !۔
گامے نے لڑکی سے سوال کیا کہ
باقی سب کچھ تو ٹھیک تھا
لیکن
یہ خنجر والا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا کہ
تم یہ  خنجر کسی لئے ساتھ رکھتی ہو ؟
لڑکی نے جواب دیا !!۔ آپنی عزت کی حفاظت کے لئے!!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ! دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت  ہے ۔
بڑی مشکل سے ایٹم بنا کر لیا ہے ۔
ساری قوم کو ، بھٹو کے اس پروگرام کے شروع کرنے سے لے کر ایٹمی دھماکے کرنے تک یہی بتایا گیا کہ
ایٹم بم سے ہمارا دفاع مضبوط ہو جائے گا !!۔
اج پاکستان کی مساجد میں  “اس “ ایٹم بم کے لئے ، دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔
یا اللہ ! پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت فرما !!۔

بدھ، 9 اپریل، 2014

مولوی کو مسلمان کرو

ماسٹر جی بڑے ہی سیانے اور بیدار مغز انسان ہیں
ماسٹر جی قران کا علم رکھتے ہیں
ماسٹر جی بتا رہے تھے کہ
اس وقت عالم اسلام کے مسائل کا حل صرف ایک چیز میں پوشیدہ ہے
کہ
مولوی کو مسلمان کر دیا جائے!۔
گاما بھی سن رہا تھا
گامے نے لقمہ دیا  کہ ماسٹر جی مجھے اپ کی یہ بات سن کر ایسا لگا ہے کہ جیسے میں
ان چوہوں کی کانفرنس میں بیٹھا ہوا ہوں جنہوں نے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا  ائیڈیا نکالا تھا ۔
ماسٹر جی نے گامے کو کہا ، یار غلام ۔ ۔ ۔ یہ تم نے معیوب بات نہیں کر دی ؟
ماسٹر جی میرے منہ میں خاک کہ میں اپ سے کستاخی کروں
مجھے تو اپنا اپ ایک چوہا سا لگا ہے
وہ والا چوہا  جس نے ساری کانفرنس کو یہ کہہ کر لاجواب کردیا تھا
کہ
بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کا کون؟
اسی چوہے کی طرح میں اپ سب سے پوچھتا ہوں
کہ
مولوی کو مسلمان کرے گا کون؟؟
ماسٹر جی ! اپ کو تو علم ہی ہے کہ مکے کے مسلمان جن کو اج ہم مشرکین مکہ کے نام سے پکارتے ہیں
وہ بھی تو مکے کے حج کرتے تھے  صفا مروہ کرتے تھے قربانیاں دیتے تھے
ان کے بھی مولوی تھے ، ماسٹر جی! اور اپ کو علم ہی ہے کہ ان مولویوں کو مسلمان کرنے کے لئے نبی پاک صعلم کو کیا کیا مصائب جھیلنے پڑے تھے؟؟

اتوار، 30 مارچ، 2014

اللہ دتّہ جنتی کمہار


گاؤں کی بڑی مسجد کی تعمیر کا کام تھا ، مولوی صاحب  نے اونچی مسجد کی پرانی  عمارت  کو گرا کر نئی عمارت کا پروجیکٹ دیا تھا ، گاؤں والوں کو !!۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی کے   اوّلین سالوں کی بات ہے ۔ معاشرے میں امن اور روادار کا دور دورہ تھا ، دلوں میں محبت تھی  ۔
اللہ دتّہ کمہار ، المعروف جنتی کمیار!۔
مسجد کی تعمیر کے لئے جو چجندہ اکٹھا کیا جارہا تھا  اس پر سب کو یقین تھا کہ اس میں سے اک دانے کا بھی ہیر پھیر نہیں ہو گا ، کہ شائد اس دور میں تو مولوی صاحب پر شک تک بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔
گاؤں کے سبھی لوگ بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے تھے  ، چندے میں رقم اور اناج دیا جا رہا تھا۔
اتنے میں اللہ دتّہ کمہار ایک گدھا لے کر آ گیا
مولوی صاحب میرے گھر میں دینے کو نہ رقم ہے اور نہ اناج ، یہی ایک گدھا ہے  ، مولوی صاحب اس گدھے کو چندے میں رکھ لیں ۔
وہاں موجود سارے ہی لوگ اللہ دتہ کمہار کی سادگی پر ہنسنے لگے ۔
مولوی صاحب اللہ دتے کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتے تھے  ، اس لئے کہنے لگے
اللہ  دتیا!! ہم نے اس کھوتے کا کیا کرنا ہے ؟
بس یار تم سمجھو کہ تمہارا مسجد میں حصہ ہو گیا ہے  ، اللہ تہاری نیت کو قبول فرمائیں  ۔
تم گدھا لے کر گھر جاؤ اور کام کرو  جب اللہ تم کو استعاعت دئیں گے اس وقت تم کچھ لے آنا !!۔
لیکن اللہ دتہ التجاعیہ نظروں سے مولوی صاسحب کا منہ دیکھنے لگا کہ
مولوی صاحب مجھے ریکجیکٹ نہ کرو جی ، گدھا رکھ لو۔
مولوی صاحب بھی پریشان ہو کر پوچھتے ہیں کہ اللہ دتیا ! ہم اس گدھے کا کریں گے کیا؟
تم ہی بتاؤ!؟،
تو اللہ دتے کمہار نے مولوی صاحب کو آئیڈیا دیا کہ  جی میں خود اس گدھے کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹاؤں گا ۔
مولوی صاحب  بھی اللہ دتے کمہار کے خلوص کے سامنے لاجئواب ہو گئے ۔
پھر زمانے بھر نے دیکھا کہ  اللہ دتّہ کمہار  مسجد کی تعمیر کے لئے ہر روز دن بھر کام گا رہتا ہے ۔
مسجد کی تعمیر میں مہینوں لگ گئے ، موسم بدلے دھوپ کہ بارش گرمی ہو کہ سردی اللہ دتے کمہار کی لگن میں کمی نہیں
آئی ۔
اللہ دتے کمہار کی لگن ، محنت اور خلوص  کو دیکھ کر مولوی صاحب کے منی سے نکل گیا کہ اللہ دتّہ کمہار جنتی ہے  جی جنتی ۔
زبان خلق نقارہ خدا ، کہ گاؤں بھر میں اللہ دتہ کمہار اللہ  دتہ جنتی کے نام سے مشہور ہو گیا ۔
اللہ دتّہ جنتی کمہار

وقت گزرتا رہا مسجد کی تکمیل کو بھی سالوں گزر گئے  نئی نسلوں کو اللہ دتہ کمہار کا نام  “اللہ دتّہ “ تو یاد ہی نہ رہا ۔
بلکہ اس کا نام ہی جنتی کمہار پڑ گیا ۔جی جنتی کمہار !!۔
گوجرانوالہ سے مشرق کی طرف کے گاؤں دیہات میں سینکڑوں ہی گاؤں دیہات میں لوگون نے اللہ دتے کو دیکھا ہو کہ نہ لیکن اس کا نام ضرور  سنا ہو گا “ جنتی کمہار”۔
جنتی کمہار نے پسرور روڈ پر زمینیں ٹھیکے پر لے پر ان میں “شٹالہ” نامی گھاس بونی شروع کر دی ۔
عالقے کے سبھی کمہاروں کی طرح دوسری تجارت بھی  یعنی اناج کی خرید و فروخت  بھی جاری رکھی ۔
گوجرانوالہ سے پسرور تک کے گاؤں دیہاتوں کے لوگ یہاں سے بسوں ویگنوں پر گزرتے تھے ۔
اگر کسی نے پوچھا کہ یہ فصلیں کس کی ہیں ؟
تو اس کو بتایا گیا
“ جنتی کمہار کی”!!!۔
 جنتی کمہار کی ایمانداری پر یا جنتی کے کاروباری معاملات پر کبھی کسی کو اعتراض کاموقع نہیں ملا ۔

پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، زمانہ بدل گیا ہے
مجھے خود زمانے میں خجل ہوتے ربع صدی گزر گئی ہے ۔
جنتی کمہار جب ہم نے ہوش سنبھالا تو اس وقت بھی ہمارے محترم بزرگ تھے ۔
گزرے کل کی بات ہے کہ
میں برادری کی ایک شادی میں شامل تھا۔
فائیو سٹار ہوٹلوں کی طرز پر لگی ہوئی  میزوں پر لوگ بیٹھے تھے ۔
ایکڑوں میں لگے تنبوؤں  میں یہ میزیں لگی تھیں ۔
اپنے لوگوں سے بچھڑے سالوں سے سیلانی کی طرح کی زندگی گزارتے ہوئے  میرا بھی یہ حال ہو چکا ہے کہ
برادری کی کسی شادی میں شمولیت کا یہ موقع مجھے کوئی تیرہ سال بعد ملا تھا
اس لئے ایک میز پر بیٹھا تھا اور اپنے بیٹوں کو کہہ رہا تھا کہ
بیٹا جی نزدیک ہی رہنا کہ مجھے بتاتے رہنا کہ کو ن ! کون ؟ ہے ۔
کہ
بابے جنتی کو دیکھا !!۔
میں تو یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ
بابا جنتی گزر چکا ہو گا
بابے کو حیات دیکھ ایک خوش ہوئی  ، اور بابا بھی اس پارٹی میں خود کو اجنبی سے ماحول میں محسوس کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اس کے “اپنے” کہاں بیٹھے ہیں ۔
میں جلدی سے اتھ کر گیا ! اور بابے جنتی کو سنھبال کر اپنے ساتھ میز پر لے آیا !!۔
بابے نے میرا چہرہ دیکھا  ، مجھے پہچاننے کی کوشش کی ،
میں نے خود ہی اپنا تعارف کروایا !!۔
بابا ! میں ہوں تہڑوائی کا بڑا پوتا!!۔
بابے جنتی نے پہچان لیا
اوئے ! ۔ پاء اسماعیل تہڑوائی  کے بڑے پوتے ہو؟
جی بابا جی!۔
تم وہی ہو نہ ، جس نے ساری دنیا پھری ہے؟
کس ملک میں ہوتے ہو ان دنوں ؟ تمہاری آوارہ کردی نئیں ختم ہوئی ابھی ؟ کام کیا کرتے ہو؟
تم گھر کیوں نہیں پلٹتے  اؤئے؟
بابے نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دئے ۔
اس کے بعد بابے جنتی سے “تلونڈی کے کمہاروں “ کی بڑی باتیں سنیں ۔
میں ! جو کہ خود بھی تلونڈی کے کمہاروں میں سے ایک کمہار ہوں ۔
بابے جنتی کی باتیں میرے لئے ایک سرمایہ ہیں ،۔
انے والے دنوں میں بابے جنتی کمہار کی بتائی ہوئے باتیں بھی لکھتا رہوں گا ۔

پیر، 24 مارچ، 2014

پیار کا آمرت



جاپان میں  ایک اہم واقعہ پیش آیا ہے ( ہو سکتا ہے کہ صرف مجھے ہی آہم لگ رہا ہو!)۔
ساتیتاما کین  میں آج  ، فٹ بال کا ایک میچ “بغیر تماشائیوں” کے ہو اہے ۔
کیونکہ ! ٹیم کے سپوٹروں نے “غیر ملکیوں “ سے نفرت کا اظہار کیا تھا
معاملہ کچھ یوں ہوا
کہ

جاپان کی فٹ بال آرگنائیزیشن “ جے لیگ” کی ایک ٹیم ” اوراواریڈ”نام بھی ہے ۔
ساتیتما کین کے شہر سائیتاما کے “اوراوا وارڈ”  کی ٹیم !!۔ “اوراوا” جو کہ تین شہروں کے اختلاط سے بننے والے سائیتاما شہر سے پہلے ایک شہر کی حثیت رکھتا تھا ۔
اس شہر کی ٹیم کے سپوٹروں نے ،سٹیڈیم میں ایسے پرچم لہرانے شروع کر دئے تھے ، جن پر لکھا ہوتا تھا کہ “ صرف جاپانیوں کے لئے۔
اس قسم کے نسلی امتیاز کرنے والے بینر لہرانے کو معیوب سمجھنے والوں نے جب ٹیم کے سرکردہ افراد سے جب یہ پوچھا کہ کیا یہ کام اپ کے علم میں ہے ؟
تو ان ذمہ دار افراد نے اقرار کیا کہ ہاں ان کے علم میں ہے !۔
جس پر میڈیا نے اس بات کے معیوب ہونے کا چرچا شروع کر دیا ، اور جاپانی معاشرت میں ایسی بات ہے بھی معیوب ، کہ کسی سے صرف اس کے رنگ ، نسل یا نظریات کی وجہ سے نفرت کی جائے ۔
اس لئے “جے لیگ” نے فیصلہ کیا کہ اوراوا کی ٹیم اگلا میچ بغیر تماشائیوں  کےکھیلے گی ۔
اوراوا ریڈ اور شیمیز ایس پلس کے درمیان ہونے والا یہ میچ ایک ایک گول کے ساتھ  برابر رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک میرے وطن کا معاشرہ ہے کہ
جس کو تعلیم ہی نفرت کی دی گئی ہے ۔
دوسروں کے مذاہب ، مسالک ، زبانوں سے نفرت کی رسم اب چلتے چلتے ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہے اور بھائی بھائیوں سے بھی نفرت کرنے لگے ہیں ۔
پاکستان پر ایک عفریت کا قبضہ ہے ۔
ایسی باتوں کو “ فگر آؤٹ” کرنے کے لئے بھی “علم” کی ضرورت ہوتی ہے
اور اس “عفریت “ نے پاکستان میں تعلیم کو ہی عنقا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور جو تعلیم میسر ہے ؟
اس میں مغالطوں اور مبالغوں کا زہر ملا کر رکھ دیا ہے ۔
انسان کے اندر کہیں دور ، گہرائیوں میں اس بات کا احساس تو موجود ہے
کہ نفرت ایک زہر ہوتا ہے 
اور
باہمی پیار قوموں کے لئے آمرت!!۔
لیکن مغالطوں اور مبالغوں کی پانچ دہایوں کی تعلیم نے ہمارے اندر پائی جانے والی ایک  آفاقی حقیقت کو بھی دھندلا کے رکھ دیا ہے ۔

ہفتہ، 15 مارچ، 2014

تیرا کیا بنے گا؟


کیپیٹل ازم ( دجالی) ہی ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے!!۔
اس کے مقابلے میں کوئی مذہب کوئی کلچر کوئی نظام مکمل ترین ہونے کا اگر دعوی  کرتا بھی ہے تو ، یہ دعوی خام ہے ۔

کیپیٹل ازم   نے کبھی بھی ایک مذہب ہونے کا دعوی نہیں کیا ہے ، اور نہ ہی کوئی شخص اس مذہب کا  نبی یا “فونڈر” ہونے کا دعوے دار ہے ۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سبھی مذاہب ، اس مذہب کی مخالفت کرتے ہیں ، اور سبھی مذہب اس کیپیٹل ازم  سے مغلوب بھی ہو چکے ہیں ،۔
کیپیٹل ازم ( دجالی) ہی ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے!!۔
انسان کی اور انسانی معاشرے کی سبھی ضرورتوں کا تعین کر کے ان ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال یہ مذہب اج کی دنیا کی ضرورت بن چکا ہے ۔
افراد کے حقوق و فرائض کا ایک ایسا نظام ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔
اس مذہب میں عبادات کا بڑا مربوب نظام ہے ۔
ہر بندے کو جاب نامی عبادت کرنی ہی پڑتی ہے ، اور اس جاب نامی عبادت میں مراتب و مقامات بھی ہوتے ہیں ، جو کہ تعلیم نامی عبادت کی قلت یا کثرت سے متعین ہوتے ہیں ۔
جو بندہ تعلیم نامی عبادت  جتنے خلوص اور لگن سے کرئے گا ، اس کو تعلیم کے بعد کی عبادت “جاب “ میں اعلی مقام عطا کیا جائے گا ،۔
اور جو بندہ کیپٹل ازم کےدین میں جاب نامی عبادت جتنی لگن اور محنت سے کرئے گا  ، اس کو اتنی ہی زیادہ “نیکیاں “ ملیں گی ۔ لیکن کیپٹل ازم نے ان “ نیکیوں “ کا نام “ کرنسی “ رکھا ہوا ہے ۔ اور جاب نامی عبادت کے ایک خاص مرحلے پر عبادت گزار کو یہ کرنسی ادا کر دی جاتی ہے ۔
اور کرنسی سے سہولیات خریدی جاتی ہیں ۔

جاب نامی یہ عبادت روایتی مذاہب کی عبادات کی طرح نہیں ہوتی کہ ہر کوئی ایک ہی جیسی حرکات کرئے اور اس کو عبات کا نام دے کر نیکیوں کی امید پر کرتا ہی چلا جائے بلکہ
جاب نامی عبادت ، ہر بندے کا ایک ایسا عمل ہے جو کہ دوسروں کی سہولت کا باعث بنتا ہے ۔
اس طرح دیگر عبادات اور ان کے اجر ہیں ۔
ان سب باتوں پر دفعتاً فوقتاً روشنی ڈالی جاتی رہے گی ۔
لیکن ان باتوں کو کیپیٹل ازم کی تبلیغ نہ سمجھا جائے ۔
اگر کسی کو کیپیٹل ازم سے نفرت ہے تو ؟
اس نظام کی رسیاں ٹروا کر اگر نکل سکتا ہے تو نکل جائے ۔
دنیا بھر کے مذاہب اس نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ۔
لیکن ان کی یہ جو جہد اسی طرح ہے ، جیسے کوئی نابینا بندہ کسی جن سے گتھم گتھا ہو ، کہ اس جن کو بچھاڑ کر چھوڑوں گا۔
پہلی بات تو یہ کہ اس جن سے جیتنا ہی مشکل ہے
اور
اگر
اس جن کو بچھاڑ ہی لیا تو ؟
کریں کے کیا؟
اس بات کا کسی بھی مذہب نے سوچا   ہی نہیں
کہ
بنکنگ ، ٹرانسپورٹ ، مواصلات، قوانین ، اور خوارک کی ترسیل کے اس مرطوب نظام اور دیگر کے مقابلے میں کسی بھی مذہب کے پاس کچھ نہیں ہے ۔

اتوار، 2 مارچ، 2014

پستے بادام اور فارمی مرغیاں


قلفی کھوئے ملائی والی اے ، پستے بادام والی اے !!۔
یہ آوازیں اپ میں سے بہت سوں نے سنی ہوں گی ۔
یا کہ کھانے والی چیزوں کو پر کشش بنا کر پیش کرنے کے لئے ، مکھن کے پیڑے ، ملائی والے  یا کہ کوئی بھی ایسی چیز جس میں سے چکنائیوں کی امید ہو ، ایسی چیزوں کے نام تقریباً سبھی نے سنے ہوئے ہیں ۔
تر نوالہ ، چپڑی اور دو دو ! ۔
ذہنیتیں ! مدتیں  لگتی ہیں تیار ہونے میں ، چکنائیاں ! برصغیر میں  محنت سے حاصل ہونے والی چیزیں تھی ، اور محنت ہی چکنائیوں کا خرچ بھی ہے ۔
بھوک کے متعلق کہانیاں ہیں ، بھوک کا ایک فلسفہ ہے ، بھوک پر لکھنے والوں کی پر اثر تحاریر سے  دینا بھر کی زبانوں کے ادب میں بے بہا خزانہ اکٹھا ہے ۔
ہمارے یہاں ایسی بھوک تو نہیں تھی کہ جیسی  کہ “ہند “ پر حملہ آور ہونے والی اقوام میں تھی
لیکن ایسی بہتات بھی نہیں تھی کہ لوگوں پر چربی کی تہیں چڑہی ہوئی ہوں ۔
دینا بھر کے معاشروں میں خوراک کے لئے جد و جہد کرنے کی کہانیاں ہیں ۔
لیکن
محققین کے مطابق ۔
اج ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں ۔
اج کا دور ! انسانوں کی معلوم تاریخ میں سے ایسا دور ہے کہ جس میں خوراک کی بہتات ہے ۔
بہتات سی بہتات ! کہ لوگ خوراک کیا کھائیں کے اج خوراک ان کو کھائے جا رہی ہے ۔
پنجابی کے اس محاورے کے مطابق ،۔
بندہ ! روٹی کھاندا اے  ، تے بہتی روٹی بندے نوں کھان لگدی اے۔
زمین پر انسانوں کی بڑہتی ہوئی ابادی کے متعلق اور اس بڑہتی ہوئی ابادی سے پیدا ہونے والے خوراک کے بحران کی باتیں کرنے والے بھی بہت ہیں ۔
لیکن جن لوگوں نے اس بات کے مشاہدے کو یاد رکھا ہے کہ اج سے چالیس سال پہلے ان کے گھروں میں کھانے پینے کی مقدار اور اج کے زمانے میں مقدار  کا کیا فرق ہے
وہ لوگ جانتے ہیں کہ
پچھلے پچاس سالوں میں زمین پر رزق کی بہتات ہوئی ہے ۔
پاکستان میں ، مہنگائی کا واویلا کر کے “ باہر” سے پیسے منگوانے والے بچوں کی بات چھوڑیں ۔ “ اباجی” لوگوں سے پوچھ لیں کہ
گوشت کا سالن ، کس تسلسل سے پکتا تھا ۔
خشک میووں کے نام پر “مونگ پھل” کے علاوہ کیا ہوتا تھا ؟
پھر دیکھتے ہیں دیکھتے ! کمائی “باہر “ کی تھی کہ”اندر” کروانے والی تھی یا کہ “عام “ سی تھی ْ۔
رزق کی بہتات سبھی نے دیکھی ہے ۔
انسانیت کی معلوم تاریخ میں رزق کی اس بہتات میں کھادوں کا ہاتھ ہے
جو زمیں کو دی جاتی ہیں
اور جو گوشت کو دی جاتی ہیں ۔
کھاد
جو گوشت کو دی جاتی ہے ۔
پاؤل سے گال !! ایک سائینسدان تھا ، جو کہ جانوروں کی سائینس “ذووالوجی “ کا ماہر تھا ۔ امریکہ کی ریاست ورجینیا کے رہنے والے اس سائینس دان نے 1957ء میں برائلر چکن تیار کیا تھا ۔
اسی نے مالیکیولوں کا ایسا علاماتی چارٹ تیار کیا تھا ، جس نے ایک عام سے پرندے کو فارمی جانور بنا دیا ۔
اسی کی تحقیق سے یہ ممکن ہو سکا کہ پیدا ہونے سے لے کر “گوشت” کی عمر تک پہنچے کے لئے جس پرندے کو چھ ماہ لگتے تھے اب وہی پرندہ چھ ہفتے میں تیار ہوجاتا ہے اور اس کا وزن یعنی کہ گوشت کی مقدار بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
فارمی مرغی کی ہسٹری کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے
اس کو دینا میں آئے ہوئے ابھی آدھی صدی ہی ہوئی ہے
اس کو تیار  کرنے میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ گوشت جلد سے جلد تیار ہو کر مارکیٹ میں پہنچایا جا سکے ۔
اور میں دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے پچیس سال میں انسانوں میں بھی گوشت کی بڑہوتی کی سپیڈ کو ایکسیلیٹر لگا ہوا ہے ۔
بڑھے ہوئے پیٹ ، فارمی مرغی کی طرح کے ملائم ملائم مسل !۔
انسانی تاریخ میں فلک نے شائد پہلی بار  دیکھے ہوں گے۔
فارمی سوروں اور فارمی  مرغیوں کی  خوراک میں جو ایکسیلیٹر ان کے گوشت کو بڑہانے کے لئے لگایا گیا ہے ۔
وہ ایکسیلیٹر ! اب اس گوشت کو کھانے والے انسانی جسموں تک پہنچ چکا ہے ۔
گوشت بڑھانے کے اس ایکسیلیٹر کی کارگردگی  کی سب سے عمدہ مثال امریکہ اور پاکستانی معاشرہ ہے ۔
جہاں فارمی مرغیوں کی طرح  ملایم ملائم اور پھولے ہوئے مسلوں والے انسان نما گھوم رہے ہیں ۔

ہفتہ، 1 مارچ، 2014

غیرت ، بے غیرت

غیرت! بڑی اہم چیز ہے ۔
اور غیرت کا معیار ،اقوام کا اپنا اپنا ہی ہوتا ہے ۔
ہمارے پٹھان لوگوں میں سے اگر کسی کا بھری محفل میں پد نکل جائے تو ؟
اس کے لئے مرجانے کا مقام ہوتا ہے ۔
خواتین کے متعلق غیرت کا معیار ، برصغیر کی ساری کی اقوام میں ملتا جلتا ہے ۔
کہ اگر کسی کی بہن ، بیٹی نے کوئی غلطی کر لی
یا کہ کسی نے ورغلا لیا تو ؟
قتل !!!۔
جاپان میں غیرت کا معیار یہ ہے کہ
اگر کسی کا جھوٹ پکڑا جائے ، یا کہ کاروبار میں وعدہ خلافی کر لے ، یا ملاوٹ کر لے یا کہ فراڈ کر لے !،
تو اس بندے کا بھی غیرت سے مرجانے کا ہی مقام ہوتا ہے ۔
اور جاپانی مر بھی جاتے ہیں ۔
جیسا کہ جاپانیوں کی خود کشیوں کی تعداد کا سبھی کو علم ہے ۔
اب یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جاپانیوں کی غیرت اپنی خواتین کے متعلق کیا ہے ؟
جاپانیوں کا خواتین کے متعلق معاشرتی رویہ یہ ہے کہ
بیٹی نے جنوائی کے گھر جان اہی جانا ہے ،اس لئے اگر اپنی زندگی کا ساتھی وہ خود جن لیتی ہے تو والدین کا فرض یہ بنتا ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ لڑکی کا فیصلہ کہیں غلط تو نہیں ؟
لڑکی کا منتخب کیا گیا لڑکا نکھٹو تو نہیں ۔
اور اس طرح بہن کے متعلق بھایئوں کا رویہ ہوتا ہے ۔
ورنہ شادیاں یہاں جاپان میں بھی ارینج میرج ہی ہوتی ہیں ۔
جاپانیوں کا اپنی غیرت کو قایم رکھنا ایک بڑی بات ہے بھی اور نہیں بھی کہ
ان کے غیرت کھانے والے کام ایسے ہیں کہ ان سے بندہ بچ سکتا ہے ۔
مثلا ، جھوٹ ! کوئی بھی انسان تھوڑی سی کوشش سے سو فیصد جھوٹ سے بچ سکتا ہے ۔
تھوڑی سی کوشش سے کاروباری وعدہ خلافیوں سے سو فیصد بچا جا سکتا ہے ۔
ملاوٹ یا فراڈ یا کہ کام چوری یا کہ طاقت کا بے جا استعمال ،ایسی ہی چیزیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ تھوڑی سی کوشش کر کے ان چیوں سے سو فیصد بچ سکتا ہے ۔
اس لئے کوئی بھی جاپانی غیرت مند اپنی ساری زندگی بڑی غیرمت مندی سے گزار دیتا ہے
اور
ناں اس کو کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پتا ہے اور ناں ہی خود اپنے ظمیر کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔
لیکن
کیا کسی بھی انسان کا اس بات کا امکان ہے کہ وہ پد مارنے سے سو فیصد بچ سکے ؟
یاکہ
اپنی غیرت کو سو فیصد بچا کر رکھ سکے کہ
نہ تو بہن کسی بہنوئی کو دے اور نہ ہی بیٹی کسی جنوائی کو؟
یا کہ
اپنی پیدایش کے مراحل میں ماں بات کے کردار پر کوئی قدغن لگایا جاسکتا ؟
وہ لوگ جو احساس رکھتے ہیں
اور جاپان اور پاکستان جیسے معاشروں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں ۔
اوہ لوگ دو انتہاؤں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں ۔ْ
ایک کنفیوزن سا ہے کہ ایسے لوگ کیا ہیں ؟
غیرت مند ؟ یا کہ بے غیرت ؟

جمعہ، 14 فروری، 2014

جاپانی لوک کہانی ، بیمبو گامی

جاپان کی لوک کہانیوں میں “ بینبو گامی”  یعنی غریبی کا دیوتا کا ذکر ملتا ہے ۔
غریبی کا دیوتا جس گھر میں آ جائے وہاں پھر مفلسی ہی مفلسی ہوتی ہے ، اس دیوتا کا ایمج کچھ اس طرح کا ہے کہ جس طرح چوہے لکڑی کے گھروں کی چھتوں کے درمیان رہتے ہیں اسی طرح یہ غریبی کا دیوتا  بھی چھتوں  میں یا کونے کھدوں میں بس جاتے ہیں ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
کہیں کسی گاؤں میں ، میاں بیوی رہتے تھے ، ان کے گھر میں بھی غریبی کے دیوتا کا بسیرا تھا، کھیتوں میں محنت کر کر کے بھی غریب ہی تھے کہ  ان کی اگائی ہوئی سبزیاں کمزور سی ہوتی تھیں  ، کوئی ان کا مول ہی نہیں دیتا تھا ۔ مونجی کے کھیتوں میں چاول اتنے ہی اگتے تھے کہ پیٹ کا جہنم بھرنا مشکل تھا ۔
سال ہا سال اسی طرح گزر گئے ،
ایک دن  بڑہیا نے باباجی کو کہا کہ شہر جا کر کچھ کمانے کی کوشش ہی کر لو!۔
دونوں میاں بیوی نے بڑی محنت سے بنائی ہوئی پرالی کی جوتیاں  ، بابا جی باندھ لیں کہ ان کو بیچ کر کچھ کما کر لاتے ہیں ،۔
شہر میں سارا دن جوتیاں بیچنے کی کوشش میں ہانکیں لگاتا لگاتا بابا تھک گیا لیکن کسی نےکوئی جوتی نہیں خریدی۔
رات  کو کسی دوکان کے ٹھڑے کے نیچے سونے کے لئے گھسا تو ، وہاں ایک اور بندہ لیٹا تھا ،
جو کہ کسی گاؤں سے کوئلے بیچنے کے لئے آیا ہوا تھا۔
گرمی کے موسم میں اس کے کوئیلوں کا بھی کوئی خریدار نہیں تھا،۔
دونوں مایوس لوگ رات بھر ایک جگہ گزارنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچے کہ اپس میں ایک دوسرے کے مال کا تبادلہ کر لیتے ہیں ۔
بابا جی کوئلے لے کر گھر پہنچے ، کوئلے کسی کونے میں رکھے اور غربی کے دیوتا کے زیر سایہ مفلسی کی زندگی کے شب و روز گزارتے رہے !!۔
اسی طرح سردیاں آ گئیں ، سال کے اخری دن کی رات کو نئے سال کی  آمد کا استقبال ! لیکن کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔
کہ بابے کو یاد آیا کہ کوئیلے پڑے ہیں ، اور کچھ نہیں تو آج آگ ہی تاپ لیتے ہیں ۔
بابے نے کوئلے کی آگ دھکا دی ، بڑہیا نے لوہے کے برتن میں پانی ڈال کر اس پر رکھ دیا کہ گرم پانی میں پتے ڈال کر چاء بنا لیں ۔
کوئلے کی آگ اور لوہے کی گرمی سے ، اس گھر میں بسیرا کیے ہوئے غریبی کے دیوتا کو بڑی گرمی لگی
اس گرمی سے گھبرا کر دیوتا نے وہاں سے کوچ کیا اور کہیں اور چلا گیا ۔
نئے سال کی آمد پر نئے دیوتا ادھر ادھر نکلے!، تو ان میان بیوی کے گھر میں بھی ایک “سکھ” کا دیوتا آن بسا۔
جی کہانی بیان کرنے کا مقصد ہے کہ
جاپانی معاشرت میں غریبی کے دیوتا( بیمبو گامی) کو بھگانے کا طریقیہ یہی بتایا گیا ہے کہ کوئلے کی آگ دھکے گی اور اس آگ پر لوہا گرم ہو گا تو؟
غریبی بھاگ جائے گی۔
غریبی کے دیوتا کی عبادت کیا ہے ؟
کہ
غریبی کے دیوتا کو ٹھنڈی آہیں  بہت سکون پہنچاتی ہیں ۔
جس گھر میں بھی غریبی کا دیوتا بستا ہے اس کے مقینوں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے سے ہی فرست نہں ملتی اور غیریبی کا دیوتا بھی ان کی اس عبادت کو قبول کر کے خوش ہوتا ہے ۔
حاصل مطالعہ
کہ جس گھر میں یا ملک میں کوئلے پر لوہا گرم ہو گا
اور اس گھر کےیا ملک کے لوگ
ٹھنڈی آہیں بھرنا چھوڑ کر لوہا کوٹنے لگیں گے وہاں سے غریبی کا دیوتا کوچ کر جائے گا ۔

جمعہ، 7 فروری، 2014

معاشرتی باتیں


ابھی زمانہ اتنا ایڈوانس نامی جنگل نہیں بنا تھا ،ترقی کے نام پر بد نظمی ابھی معاشرے میں عود کر کے نہیں آئی تھی ۔
ریسکائکلنگ کا ایک نظام تھا جو صدیوں سے چلتا آ رہا تھا۔
کچے گھروں کے صحنوں کی صفائی نمی والی خاک پھلا کر جھاڑو دی جاتی تھی ، یہ خاک باہر “ روڑی” پر چلی جاتی تھی ، روڑی کی خاک کھیتوں میں کھاد کے طور پر چلی جاتی تھی ۔
مکئی ، جوار، اور کماد کی جڑوں کو کھیتوں میں سے نکالنے کے لئے سارے گاؤں کے لوگ لگے ہوے تھے کہ
ان جڑوں کو جلا کر ایندھن کا کام لیا جاتا تھا ۔
چاول کے پودے کی پرالی اور گندم کے پودے کی توڑی اگر جانوروں کے کھانے کے کام  آتی تھی تو لیپا پوتی میں یہ چیزیں وہی کام کرتی تھی جو اج فائبر گلاس کی بنی چیزوں میں روغن میں مل کر فائبر کے ریشے کرتے ہیں ۔
درختوں کی کانٹ جھانٹ  ہر سال سردی کے موسم کا ایندھن بنتا تھا،
بھینسوں کا گوبر جہاں ایندھن کے لئے کام آتا تھا ، وہیں  چکنی مٹی میں ملا کر  پانی سے پتلا کر لیا جاتا تھا ، اس مکسچر کا لیپ کچے گھروں کے صحنوں میں ایک وقتی سی “لئیر” سی بن جاتا تھا جو کہ دھول اڑنے  سے بچاتا تھا ۔
اسی طرح ایک لمبی بات ہے کہ ہم نے وہ زمانہ دیکھا کہ
ہمارے معاشرے میں بغیر کسی حکومت کے ایک معاشرتی نظم پایا جاتا تھا۔
کہتے ہیں کہ یہ نظم راجہ بکرم اجیت کے زمانے سے ہند میں چلا آتا تھا ۔
راجہ بکرم اجیت جس کا زمانہ عیسی علیہ سلام کی پیدائش سے بھی کوئی آدھی صدی پہلے کا زمانہ تھا ۔

آج پاکستان میں ٹوائلٹ کے حالت پر ایک لطیفہ یاد آیا
کہ
کہیں شہر میں دیوار کے ساتھ گاغ ہونے کے لئے ایک بندہ بیٹھا تھا کہ
پولیس والوں کی نظر پڑی کہ چلو کچھ خرچا پانی بناتے ہیں
اس لئے فاغ ہونئ کی کوشش میں مبتلا بندے کو عین موقع واردات سے پکڑ لیا
جب اس بندے کو لے کر چلنے لگے تو
اس نے آواز لگائی
اوئے قانوں کے رکھوالو! جرم کا ثبوت تو اٹھا کر ساتھ لے لو!!،

ابھی اگلے دن کی بات لگتی ہے
جب ہم لوگ ٹوائلٹ کے لئے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔
ہم اس کو جاڑہے بیٹھنے جانا کہتے تھے ۔
شام کے ہلکے اندہیرے میں  گانؤں (گاؤں) کی عورتوں  گروہ در گروہ “باہر بیٹھنے” جایا کرتی تھیں ۔
شہروں میں بسنے والے ہو سکتا ہے کہ یہ سمجھیں کہ
پینڈو جاڑہے بیٹھا ہو اور  آوارہ کتا آ جائے تو پینڈو “لکدی  چک” کر بھاگتا ہو گا
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا
کیونکہ صفائی کے لئے “وٹوانی” کا ڈہیلا ، اگر کھینچ کر مارا جائے تو ، نسلی ترین کتے کی بھی ٹیاؤں ٹیاؤں نکل جاتی ہے ۔

قصبے کے اندورنی گھروں میں  میں ٹٹی خانوں کا رواج تھا
لیکن ان گھروں کی عورتیں اور مرد صبح  شام “باہر “ ہی بیٹھنے جاتے تھے ۔
گھر پر گند ، ناگزیر حالات میں ڈالا جاتا تھا۔
ٹٹی خانوں میں چولہے کی خاک بچھائی ہوئی ہوتی تھی ، تاکہ چھوٹے پیشاب کو “ کنڑرول “ کر کے رکھ سکے ۔

پھر ہم نے ترقی کرنی شروع کر دی ، فلیش سسٹم جو کہ یورپ میں کوئی تین صدیاں پہلے ایجاد ہوا تھا
ہمارے گھروں میں چلا آیا
اور پھر یہ ٹوائلٹ گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا
کہ
ہمیں معاشرتی زندگی کا شعور ہی اتنا ہے کہ
ہم ابھی تک صرٖف گھریلو ہی ہوئے ، شہری نہیں !، اسی لئے ہمارے حکمران بھی ہمیں عام تو کہتے ہیں ، پاکستان کے شہری نہیں  کہتے۔
اج ہمارے شہروں کا یہ حال ہے کہ اگر کسی کو پیشاب آ جائے تو ؟
کھائے خصماں دا سر ! ۔
تے سانوں  کی؟؟
بازاروں میں سونے کا بازار ہو کہ کپڑے کا منیاری کا بازار ہو کہ  متھائی کا ، کروڑوں کا کاربار ہو رہا ہے ، رنگ برنگے پیرہن پہنے لوگ چل پھر رے ہیں
لیکن کہیں بھی ، کسی منظم ٹوائلٹ کا انتظام نہیں ہے ۔
اصلی میں ایسی گندی چیزوں کا ذکر تک کرنا ، ان کو تحریر میں لانا ، اس قسم کی باتیں کرنا پاکستان جیسے پاک معاشرے میں “ناپاک” سی چیز لگتی ہے ۔
اب میں بھی جو یہ بلاگ پوسٹ لکھ بیٹھا ہوں تو کئی لوگوں کی “نفیس” طبیعت پر بڑی کثیف سی گزرے گی
لیکن میں کیا کروں کہ میں ایک انسان ہوں  جس کو “پوٹی” بھی اتی ہے اور سو سو بھی !۔
لیکن میرے شہروں کا یہ حال ہے کہ سارے کے سارے شہر ٹوائلٹ بنے ہوئے ہیں ،۔
جس کو “ڈاڈہی “ آ جائے وہ کیا کرے؟
کا کیا ہے کہیں بھی کر لے۔ سارا پاکستان ہی ٹوائلٹ ہے ۔
لیکن
اس گند میں ،ایک کاروبار کا آئیڈیا ہے
کہ
اگر کوئی بندہ ، گوجرانوالہ میں بازاروں کی عقبی گلیوں میں ، مارکیٹوں کے پچھواڑے میں اگر مکان خرید کر ان میں ٹوائلٹ بنا کر ، ان پر کچھ چوہڑے اور پلمبر رکھ کر ایک نظام بنا لے تو۔

بڑا پیسہ ہے جی اس کام میں ، کہ میرے جیسے انسانوں کو جب ڈاڈہی  آتی ہے تورقم خرچ کر ہی لیتے ہیں ۔

اس پوسٹ کے لکھنے پر نفیس طبع لوگوں سے بہت ہی معذرت ، ۔


منگل، 4 فروری، 2014

طالبان کی دو قسمیں


طالبان کا موضوع بڑا ہی سنجیدہ اور ذمہ داری سے بات کرنے کا طالب ہے ،۔
اج کے حالات میں ایک ام آدمی کیسے محسوس کر رہا ہے یا کہ اس کو کیسا محسوس کروایا جا رہے ہے ، اس کے متعلق تو لوگ لکھ ہی رہے ہیں ۔
اور انے والے زمانوں کا تاریخ دان  ان کی تحاریر سے جو نتائج اخذ کرئے گا ، وہ پڑے الجھے ہوئے ہوں گے، اگر کسی کو ہماری تاریخ  مرتب کرنے کی دلچسپی محسوس ہوئی تو !!!ْ۔
جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے ، اپنے محدود سے مطالعے اور مشاہدے سے ، کہ طالبان  ! جن کو ہم ان دنوں  دوہزار چودا میں طالبان کہتے ہیں ۔، ان کو دو کیٹاگری میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے ،
ایک افغان طالبان ،
اور دوسرے پاکستانی طالبان ۔
افغان طالبان کی پدائش ہمارے سامنے ہوئی ہے ، نوے کی دہائی کے دوسرے “ہاف” میں ،  افغانستان سے غیر متوقع طور پر سویت یونین کی فوجوں کے انحلا سے  پیدا ہونے والے طاقت کے خلا سے جو انارکی پیدا ہوئی تھی ،اس کے نتیجے میں کو طاقت پیدا ہوئی یا کہ پیدا کی گئی وہ تھی طالبان، ۔
ان دنں کے حالات پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ افغانستان ایک قسم کا اکھاڑا بنا ہواتھا ، جہاں مختلف قبائل اپنی اپنی طاقت کے مطابق زمین اور وسائل پر قبضے کے لئے قتل و غارت گری میں مشغول تھے ،۔
ان حالات میں پاک فوج کی کوشش سے ایک حکومت کے قیام کے لئے طالبان کو تیار کیا گیا ۔
جو طالبان بعد میں سامہ بن لادن کی وجہ سے امریکہ کے معتوب  ٹہرئے!!۔
تو  پاک فوج  امریکہ کی حمایت میں طالبان کے بھی خلاف کمر بند ہوئی ۔
لیکن افغان طالبان نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہ تو کوئی بیان دیا اور نہ ہی کوئی حرکت کی ۔
پاکستانی طالبان!!۔
وہ لوگ ہیں  جو کہ افغانی طالبان کو پاکستان میں پناھ دینے کی پاداش  میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ۔
افغانی طالبان کو پاکستان میں پناھ دینے والے لوگ ان کو طالبان سمجھ کر نہیں بلکہ کئی رشتون اور ناتوں کی وجہ سے پناھ دیتے ہیں ۔
لیکن جب ڈورون حملہ کرتا ہے تو
بقول شخصے ۔ چنوں کے ساتھ گھن بھی  پس جایا کرتا ہے ۔
تو جی پاکستانی طالبان وہ ہیں جو “جبر “ کی پیدا وار ہیں ، اور یہ لوگ جبر کے خلاف جدوجہد میں “ مبتلا” ہیں ۔
یہ لوگ پاکستان کے حکومتی اداروں پر فوج پر اور پولیس اور دیگر پر حملے کرتے ہیں ۔
تیسری طاقت!!۔
ان دو طالبان کے علاوہ ایک تیسری طاقت بھی ہے ، اس کو اپ کوئی بھی نام دے لیں ، میں ان کو فرشتے کہتا ہوں ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستانی طالبان کو بدنام کرنے کے لئے “عوامی” مقامات پر حملے کرتے ہیں ۔
پاکستان میں پاکستانی طالبان ، افغانی طالبان اور تیسری طاقت کو اس طرح خلط ملط کر کے دیکھایا جا رہا ہے کہ پوری قوم ایک کنفیوژن کا شکار بنی ہوئی ہے ۔
میں نے سبھی دہشت گرد “چیزوں “ کا لکھ دیا ہے
اب
اپ خود فیصلہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے

منگل، 28 جنوری، 2014

جاپان اور جتین شاھ صاحب

 جاپان کی اون لائیں اردو اخبار ، روز نامہ اخبار پر یہ خبر دیکھی
کہ یہ کسی تالاب کی صفائی میں سینکڑوں سائکلیں ، تہہ میں غرق کی ہوئی ملی ہیں ۔ تو مجھے یاد آایا کہ یہان جاپان میں سائیکل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر کسی کو حاصل ہے ۔
یہاں جاپان کے دیہاتی علاقے ، اباراکی ، سائیتاما ، توچی گی اور گنماں کی ڈویژنوں کے سنگم پر ،اپ کو کئی سائکلیں ادھر ادھر کھیتوں کے کنارے یا کسی نشیب میں پڑی مل جائیں گی ۔
انیس سو اٹھاسی یں جب میں پہلی بار جاپان ایا تو اس وقت تو عام سی بات تھی کہ اسٹیشن کے سامنے ، کسی سنٹر پر یا کسی گھر کے سامنے پڑی سائیکل کو تالا نہیں لگا ہو گا۔
میری نسل کے زایدہ تر پاکستانی ، اس زمانے میں جاپان میں کمائی کے لئے انر ہوئے تھے ۔
اتھاسی سے پہلے  جو پاکستانی یہان تھے وہ زیادہ تر بھیک مانگا کرتے تھے ، بھیک مانگنے کا طرقہ یہ تھا کہ ، خود کو سٹوڈنٹ ظاہر کرکے کسی ٹرین میں ، کوئی چیز فروخت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ، یہ چیز خرید کر ایک غریب طالب عکم کی مدد کریں !۔ لیکن جاپانی لوگ پیسے بھی دے دیتے تھے اور چیز بھی نہیں لیتے تھے ۔
پھر گوجرانوالہ کے کچھ لوگوں نے نئے آنے والوں سے ڈالر لے کر ان کو فکٹریون میں کام پر لگوانے کا کام شروع کردیا  تھا۔
میں خود وحدت کالونی والے منیر کو پانچسوڈالر دے کر کام پر لگا تھا۔
اس قت بھی منیر نے میرے لئے سائکل کا انتظام مفت میں کر کے دیا تھا۔
ایک بڑی دلچسپ بات ان دنوں کی مجھے یاد ہے ، بات کہہ لیں یا کہ ان دنوں کا میرا ایک احساس ۔
کہ جب بھی کوئی جاپانی منیر ایجینٹ سے منلے آتا تھا تو ایک شاھ صاحب کا بہت ذکر ہوتا تھا، “ جتین شاھ” صاحب کا ،۔
کچھ تو ان دنوں کوجرانوالہ کے ایک شاھ صاحب کی ایجینٹی کا بھی بڑا نام تھا اور کچھ ، جاپان میں کچھ شاھ صاحب فیملیاں بھی تھیں ، اور کچھ شاھ صاحبان  کے نام بھی  ہم “پینڈو” لوگوں کے لئے عجیب ہوتے ہیں ، اس لئے میں سوچا کرتا تھا کہ کوئی بہت ہی مشہور شاھ صاحب ہیں جن کا ذکر بہت زہادہ ہو رہا ہے ۔
لیکن بعد میں پتہ چلا کہ “ جتین شاھ” جاپانی میں سائکل کو کہتے ہیں ۔
بلکہ ہر چلنے والی چیز کو شاھ کا لاحقہ لگاتے ہیں ۔
پاکستان میں ہم جو لفظ “ رکشہ” استعمال کرتے ہیں ، کم ہی لوگوں کو علم ہو گا کہ یہ لفظ بھی جاپانی زبان کا ہے۔
جاپانی میں “ریڑھی” جس کو انسان کھینچتے ہیں ، اس کو “جِن ریک شاھ”کہتے ہیں ، جو کہ تین الفاظ جِن رِیک اور شاھ کا مرکب ہے ۔ جن بمعنی انسان ، ریک بمعنی کشش یا طاقت اور شاھ ! تو جی ہر چلنے والی چیز کو کہتے ہیں ۔
جن ریک شاھ ہمارے زبان میں پہنچتے پہنچتے صرف رکشہ رہ گیا ۔

جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں معیار زندگی میں امیر غریب کا فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں نے دنیا گھومی ہے ، یورپ جس کی کشش کا ایک زمانہ دیانہ ہے ، وہاں میں  نے امیر غریب کا اتنا فرق دیکھا ہے کہ، کچھ لوگ ساری زندگی اپنے بچوں کے لئے ایک سائکل تک نہیں خرید سکتے اور کچھ لوگوں کے ذاتی ہائی اور بحری جہاز ہیں ۔
لیکن جاپان میں ، امیر غریب کا فرق ، ان کی بنک سٹیٹمنٹ کی کاپی پر موجود ہندسوں تک  ہی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ ہر جاپانی کے گھر میں بنیادی سہولیات زندگی موجود ہیں ۔
ہم پاکستانیوں کی یہ عادت ہے کہ
بقول ایک شاعر کے
تم نے تو عادت ہی بنا لی ہے منیر آپنی
جس شہر میں بھی رہنا ، اکتائے ہوئے رہنا
لیکن دو ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے پناہ دینے والے ملک کے معترف رہتے ہیں ۔
ایک جاپان اور دوسرا جرمنی!۔
میں بھی اس ملک جاپان میں اپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور ایا تھا ۔
اج اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ مں نے اس ملک سے پیسا تو جو کمانا تھا کمایا ، یہان سے سچائی کی راہ بھی پائی ہے ،
یہ وہ ملک ہے جہاں آپ بغیر جھوٹ بولے ، بغیر کسی کو دھوکا دئے ، بغیر کسی دھکم پیل کے بڑی ہی آسان زندگی گزار سکتے ہیں ،
بات شروع ہوئی ھی سائکلوں کی بہتات سے اور کہاں کی کہاں پہنچ  گئی ۔
یہں صرف سائکلوں کی ہی نہیں بہت سی چیاوں کی بہتات ہے ، جاپان میں جو پاکستانی لوگ بہت بڑے بڑے بزنس میں بنے ہوئے ہیں ۔
یہ صرف اتنا ہی کر رہے ہیں کہ جاپان کے کوڑے کو ٹھکانے لگا رہے ہیں ۔
ٹرک ، بسیں ، کاریں ، مشنری ، کمپیوٹر یا سرور ، ایک زمانہ تھا کہ جاپانی پیسے دے کر اٹھواتے تھے ۔
اس کوڑے کو ٹھکانے لگا لگا کر زیادہ تر پاکستانیوں کی سفید پوشی بنی ہوئی ہے ۔
لیکن مزے کی بات ہے کہ جاپانی معاشرہ ہمیں عزت دیتا ہے ۔
لیکن یہ عزت ہر کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
جاپانی بڑے مردم شناس لوگ ہیں ۔
کھوچل اور چالاک لوگوں کو کونے لگا دیتے ہیں
اور
اصلی والے سچے اور بھلے مانس کو سر انکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔
 جو لوگ اس ملک جاپان میں جتنے اچھے ہیں ، جاپان ان کے جنت نما ہے ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ برے لوگ اس ملک سے ختم ہوتے چلے گئے اور اچھے لوگ یہان مستقل ہوتے چلے گئے۔
لیکن
مذہب کے نام پر گند ڈالنے والوں کا کوئی علاج ابھی تک یہ معاشرہ نہیں کر سکا ۔
منیر نیازی کے کہا تھا

شیطان کولوں تے میں بچ ویساں
منافقاں کولو مینوں ، رب بچائے۔

Popular Posts