جمعہ، 19 ستمبر، 2014

گندے اور ملامتی لوگ

داتا گنج بخش  کی کتاب کشف المجوب میں  ایک فرقے کا ذکر آتا ہے، درویشوں کے ایک فرقے کا جس کو مصنف نے “فرقہ ملامتیہ “ لکھا ہے ۔
وہ والا پرانا لطیفہ ! خادم حیسن اور گنڈا سنکھ  والا ۔
اس لطیفے سے اپ گنڈا سنگھ کے روئے سے  ملامتی فرقے کا  اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
ضود کو ملامت زدہ بنا کر  حلئے سے  باتوں سے حرکات سے خود کر ملامتی بنا رہے ہوتے ہیں ۔
عام زندگی میں ایسے لوگ بھی آپ کو ملیں گے جو کہیں گے
جی میں تو گنہگار سا بندہ ہوں ۔
میں تو جی ادنٰی سا محب وطن ہوں ۔
میں تو جی ناقص سا مسلمان ہوں ۔
ملامتی لوگ !!۔
خود کو ملامت کر کے فخر کر رہے ایسے ذہنی مریضوں کو اگر کوئی کہے کہ یہ تو گنہگا لوگ ہیں تو؟
ان کو غصہ آ جائے گا  ۔
لیکن یہ لوگ بھی بیچارے کیا کرئیں کہ جن کو تاریخ ہی ایسی  پڑہائی گئی ہے کہ
شخصیات پرستی اور شخصیات بھی ایسی کہ
ایک تھا بادشاھ  جو ٹوپیاں بنا کر گزارہ کرتا تھا ۔
بندہ پوچھے کہ توپیوں کی کمائی سے تو لال قلعے کی “ ٹیپ “ تک نہیں ہو سکتی  تو یہ بادشاہ باقی کے گزارے کیسے کرتا تھا ؟
مرہٹوں کی  “ بغل “ میں تیر دئیے رکھا  ۔ سکھوں کے قتل کئے ۔ جنگوں میں اس کو ٹوپیاں بنانے کا وقت کب ملتا تھا ۔
ایک تھا بادشاہ ، جس کے کپڑوں کو پوند لگے تھے ،جوتیاں ٹوٹی ہوئی ہوتی تھیں ۔
یہ سب تعلیم دی جا تی رہی ہے ایک خاص ذہن بنانے کے لئے کہ لوگ بھالے اپنی غریبی میں راضی رہیں اور حکومت کرنے والے گلچھڑے اڑاتے پھریں ۔
یہاں اتنی بھی سوچ نہیں ہے کہ ٹوپیاں بنانے والے بادشاہ  نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا کیا ؟ باپ کے ساتھ کیا کیا ؟ اس بادشاھ کی موت کے بعد اس حکومت کا کیا بنا ؟
پیوند لگے کپڑوں والے وقعے تو سنائے جاتے ہیں
لیکن اس حکومت کے بعد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔؟
چھڈو پراں جی ۔
مٹی پاؤ تے روٹی شوٹی کھاؤ۔
عقل علم کی باتیں ، کافروں  ، گمراھ لوگوں  یا پھر ان کے لئے چھوڑ دو جن کو بقول پاک لوگوں کے ابھی استنجا کرنا بھی نہیں آتا ۔
استنجا پر فخر کرنے والی قوم ، باقی ساری چیزیں گلیاں سڑکیں ، کپڑے ، زبان  لہجے ، روئیے گندے
اور استنجے والئ جگہ کی صفائی پر فخر ، اوئے کون لوگ او تسی ؟؟

2 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

اوّل ۔ عرض ہے کہ میں چھوڑنے نہیں آیا بلکہ معلومات کی بات لکھنے آیا ہوں
دوم ۔ گستاخی کی معذرت کرنے کے بعد عرض ہے کہ کشف المحجوب ۔ سیّد ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی کتاب ہے اور یہ تصوّف کے متعلق ہے ۔ ان کی زبان فارسی تھی اور عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا
بابا فرید الدین گنج شکر پنجابی اور سرائیکی بولتے تھے

خاور کھوکھر کہا...

مہربانی ، مجھے ان صاحب کا پورا نام یاد نہیں رہا تھا
ویسے بھی یہ کتاب پڑھے ہوئے مجھے کوئی ربع صدی تو ہو گئی ہے ۔

Popular Posts