جمعرات، 31 مئی، 2018

مغالطے اور مبالغے



پرانی پہیلی نما کہانی ہے کہ 
کسی نے دوسرے سے پوچھا کہ 
ایک چیونٹیوں کی لائین جا رہی ہے 
سب سے اگے والی چیونٹی کہتی ہے ، میرے پیچھے دو چیونٹیں ہیں ۔
سب سے پیچھے والی کہتی ہے 
میرے آگے دو چیونٹیاں ہیں ۔
اور پھر درمیان والی کہتی ہے 
میرے آگے بھی دو چیونٹیاں ہیں اور میرے پیچھے بھی دو چیونٹیاں  ہیں 
بتاؤ تو بھلا قطار میں کل کتنی چیونٹیاں ہیں ؟
جواب ، اس پہیلی کا یہ بتایا جاتا ہے 
کہ

قطار میں چیونٹیاں تین ہی ہیں بس درمیان والی چیونٹی جھوٹ بولتی ہے ،۔

دوسری کہانی

چند پہلے کہیں کسی محفل میں گاما اپنے علم کا رعب ڈال رہا تھا 
کہ 
یہ جو گدھے ہوتے ہیں ناں جی یہ بھی پورا محکمہ موسمیات ہوتے ہیں ، جب   گدھا کھڑا ہو تو بارش کا امکان ہوتا ہے اور جب گدھا بیٹھا ہو تو موسم صاف ہوتا ہے ،۔
اپنا اچھو ڈنگر ، دیوار کے اوپر سے گامے کی حویلی میں جھانک کر دیکھتا ہے 
اور گامے سے پوچھتا ہے ۔
یار گامیا !۔
تمہارے آدھے گدھے بیٹھے ہیں اور آدھے کھڑے ہیں ، اس بات سے موسم کا کون سا آرتھ نکلتا ہے ؟
گاما بتاتا ہے 
کہ
اس سے موسم کا کوئی آرتھ نہیں نکلتا بس یہ سمجھ لو کہ آدھے گدھوں کو مغالطہ لگا ہوا ہے ،۔

حاصل مطالعہ 
الیکشن آنے والے ہیں ،  مغالطے اور مبالغے اپنے عروج پر ہیں ،۔

طوطے میں جان



پرانی کہانیوں میں ، ان کہانیوں میں  جو اپنے بچپن میں دادی سے سنی تھیں ۔
وہ کہانیاں  جو ٹیلی وژن کے آنے سے پہلے سردیوں کی لمبی راتوں میں  بستر میں گھس کر سنی سنائی جاتی تھیں ،۔
ان کہانیوں میں ایک دیو ہوتا تھا جو شہزادے کی شہزادی کو اغوا کر کے لے جاتا تھا ،۔
اس دیو کہ جان ، دریا پار کے جنگل میں کسی بہت پرانے درخت پر ٹنگے ہوئے پنجرے میں قید ایک طوطے میں ہوتی تھی ،۔
دیو سے  جنگ جیتنے کے سارے حربے ناکام جاتے تھے ، تو ایک بزرگ شہزادے کو بتاتا تھا کہ  ، دیو جس نے تمہاری شہزادی کو اغوا کر رکھا ہے اس کی جان اس طوطے میں ہے ،۔
تب شہزادہ اس طوطے کی تلاش میں جاتا تھا ، اور طوطے کے قتل سے پہلے دیو  کو پتہ چل جاتا تھا اور دیو بھی  وہیں پہنچ جاتا تھا اور پھر ایک کٹھن معرکہ ہوتا تھا ، لیکن شہزادہ کسی نہ کسی طرح طوطے کی گردن مروڑ  ہی دیتا ، طوطے کی گردن مڑتے ہی دیو جان سے جاتا تھا 
اور سب ہنسی خوشی  رہنے لگتےتھے ہیپی اینڈ !!،۔
اس کہانی کے  تناظر میں پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو ؟ 
شہزادے (عام عوام) کی شہزادی  (دولت ) کو جس دیو (ارباب اقتدار) نے اغوا کی ہوئی ہے ،۔
اس دیو (مقتدّر طاقتوں) کی جان (غیر ملکی نیشلنٹی )  میں ہے ،۔
اب بس اگر کوئی بزرگ شہزادے کو بتا دے کہ ان سب کی جان غیر ملکی نیشلٹی میں ہے تو بات بن سکتی ہے ،۔
لیکن اس قوم کی بد قسمتی کہ اس کے سارے بابوں کی  بھی جان ایک ایک طوطے میں ہے  ،۔
اور وہ طوطا بھی فارن کا ویزہ یا نشنیلٹی ہے ،۔
اس قوم کا کا جوبھی شہزادہ ،شہزادی کے باریاب کروانے کے لئے ملتا ہے 
کود اس کی بھی جان کسی طوطے میں ہوتی ہے یا 
کہ
وہ شہزادہ بھی اپنی جان کو کسی طوطے میں تحفظ دینے کے لئے طوطے کی تلاش میں ہوتا ہے ،۔

پیر، 28 مئی، 2018

جاپان کے مہنگے خربوزے



جاپان میں خربوزوں کی ایک نیلامی میں ایک جوڑے کی بولی بتیس لاکھ ین ، جو کہ پاکستانی روپے بھی تقریباً بتیس لاکھ ہی بنتے ہیں تک گئی ہے ،۔
جاپان کے شمالی علاقے یوباری کے خربوزے ایک برانڈ نام کی طرح جانے جاتے ہیں ، جاپان میں یوباری میلون دوستوں کو یا کہ رشتے داروں کو دینے کا رواج عام ہے ،۔
خوبصورت ساخت کے حامل یہ خربوزے اپنے مٹھاس اور خوشبو  میں بھی اپنی مثال آپ ہیں ،۔
عام طور پر ان خربوزوں کا جوڑا دس ہزار سے پندرہ ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہوتا ہے ،۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے کی بولی میں خریدے جانے والے ، اتنے مہنگے خربوزے کون خریدتا ہے اور کون کھاتا ہے ؟
تو اس کے جواب کے لئے اپ کو جاپان کے معاشی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،۔
آپ نے پڑھا اور سنا ہو گا کہ جاپان میں ٹونا مچھلی کی بولی لاکھوں ڈالر تک جا کر فروخت ہوئی ؟
اسی طرح خربوزوں یا کہ کل کلاں کو کسی اور جاپان کی پروڈکٹ کے متعلق بھی کہیں پڑھیں یا سنیں تو 
اس کو سمجھے کے لئے جاپان کے معاشی نظام پر ایک نظر ڈالیں ،۔
جاپان میں کام کاروبار کے لئے ہر فرد اور کمپنی کو اپنے نفع (یا کہ خسارہ ) کا آڈٹ کروانا ہوتا ہے ، یہ آڈٹ ماہانہ ششماہی یا کہ سالانہ بھی ہو سکتا ہے ،۔
اس آڈٹ میں ہونے والی انکم پر ٹیکس کی ادائیگی فرض ہوتی ہے ،جو کہ منافع کی شرح کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے ،۔
اس ٹیکس کی زیادہ ادائیگی کو کم سے کم کرنے کے لئے کمپنیاں اپنے خرچ بڑھا کر دیکھاتی ہیں ،۔
جیسا کہ ایک کروڑ کی انکم پر چالیس فیصد ٹیکس کو اگر دس لاکھ کی امدن پر دس فیصد پر لانے کے لئے کمپنی نوے لاکھ کی رقم کو اپنے کام کرنے والے لوگوں کو بونس کے نام پر رقم دے کر  ورکروں کو خوش کرتی ہے ،۔
یا کہ نئی مشینیں ، اور اوزار خرید کر انکم کی شرح کو کم کر لیتی ہیں ،۔
انکم کو کم کر کے دینے کے اس ٹیکٹ پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، کیونکہ اس طرح رقم ٹیکس میں جانے کی بجائے ڈائریکٹ شہریوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ۔
اور جاپانی حکومت کا یہی کام ہے کہ شہریوں کی سہولت کا سوچے نہ کہ شہریون ٹائیٹ کرنے کی تکنیک پر کام کرئے ،۔
جس سے شہری اس رقم سے اگر گاڑی خریدتے ہیں تو یہ ملکی صعنت کی کمائی بن جائے گی ، اگر کسی اور جگہ یعنی ریسٹورینٹ ، بجلی کا سامان یا کہ کہیں سفر کرنے پر بھی خرچ ہو گی تو  بھی یہ رقم ، قوم کے ہی کام آئے گی ،۔
اس لئے ٹیکس افسران یا کہ ملکی نظام کو اس فضول خرچی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ،۔
تو اس بات کے تناظر میں جب ایک خربوزوں کی تجارت کرنے والی فرم یا کہ مچھلی کے گوشت کی تجارت کرنے والی فرم کسی ایک علاقے کی پہلی فصل کے پہلے دانے کو مقابلے کی دوسری فرموں کے مقابلے میں مہنگا خریدتی ہے تو اس میں ایک تو اس فرم کی مشہوری ہوتی ہے ، دوسرا اس صنعت سے وابستہ  لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ،اور تیسرا ٹیکسوں میں بھی کمی آتی ہے ،۔
اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ اتنا مہنگا خربوزہ اور مچھلی کھاتا کون ہے ؟
تو جی 
یہ خربوزہ اس فرم کے سٹور پر کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں رکھ دیا جاتا ہے اور عام عوام کے گاہک جو یہاں آتے ہیں وہ اس خربوزے کو چکھ کر لذت لیتے ہیں اور واھ واھ کرتے ہیں ،۔
اسی طرح مہنگی بولی میں خریدی جانے والی ٹونا مچھلی بھی اس فرم کے سٹوروں پر بھیج دی جاتی ہے اور عام قیمت پر فروخت کی جاتی ، بس اس پر لکھ دیا جاتا ہے یا کہ زبانی بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ والی مہنگی مچھلی ہے ۔
میرا خیال ہے کہ بات سمجھ لگ گئی ہو گی 
کہ
جاپان کا سسٹم کہتا ہے کہ
دولت پر سانپ بن نہیں بیٹھ جاؤ ، دولت کو حرکت دو کہ اسی میں عام عوام کا بھلا ہے ،۔

جمعہ، 25 مئی، 2018

دل کی دل سے راھ


جناب شاھ جی  بلنگا شاھ سرکار گامے سے پوچھتے ہیں ،۔
گامیا ، تم اج اپنے دل کی اصلی بات بتا ہی دو کہ تم  میری کتنی عزت کرتے ہو ؟
گاما : جناب شاھ جی قبلہ ، میں اپ کی ٹھیک اتنی ہی عزت کرتا ہوں جتنی کہ اپ کے دل مبارک میں میرے لئے عزت اور قدر ہے ،۔
شاھ جی تھوڑا زیر لب مسکرا کر گویا ہوتے ہیں ۔
تم میرے دل کی پوچھتے ہو ؟ میرا دل حکمت اور نور سے بھرا ہوا دل ہے ، علم اور حکمت کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی دعاؤں سے اس دل میں ہر بندے کی  وہی قدر اور حثیت ہے جو کہ اس بندے کی اصلی حثیت  ہو سکتی ہے ،۔
گاما : جی بس  جی ، وہی ویسی ہی باتیں میرے بھی دل میں ہیں ،۔
شاھ جی : پھر بھی میں سننا چاہتا ہوں کہ تمہارے دل میں میری کتنی عزت ہے ؟
گاما پہلے اپ بتاؤ جی ؟
شاھ جی : یار گامیا ، میں نے کیا بتانا ہے اور کیا اظہار کرنا ہے ،
تم بس ایک نیچ ذات کے کمی ہی تو ہو ، تمہاری حثیت کیا اور عزت کیا ؟
تم بس سادات سے عزت کا اظہار کر کے اپنے دل کی بات بتاؤ ؟
گاما ہاتھ جوڑ کر گگیاتا ہوا کہتا ہے ،۔
شاھ جی اپ  وہ سفید پوش سیاھ کار ہو جو بھیک کی کمائی سے چلتے ہو  اور سخت کام چور واقع ہوئے ہو ۔
یہ ہے میرے دل میں اپ کے لئے شاھ جی قبلہ !!!،۔
شاھ جی غصہ کر جاتے ہیں ، عام عوام کے لہجے میں گالیاں دیتے ہوئے وہاں سے چلے جاتے ہیں ،۔
اگلے دن شاہنی صاحبہ گامے کی بیوی گھر پر بلاتی ہیں ،اور اس کو سخت سست کہتی ہیں اور جھاڑ پلاتی ہیں کہ گامے نے  شاھ کی کی بے عزتی کی ہے 
اس لئے روز محشر ہم نے اپ لوگوں کی سفارش نہیں کرنی ہے ،۔
اب شاھ جی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کا ایک ہی حل ہے۔
 کہ تم ایک تھال کچے چاولوں کا بھر کر 
 چاولوں کی چوٹی بنانی ہے ،
اور اس چوٹی پر ایک گڑ کی روڑی ٹکا کر 
اس کے اوپر ایک نئی پگ کا کپڑا رکھ کر 
شاھ جی کو کو نذر گزارنی ہے ورنہ تم لوگوں کو بہت شراپ لگے گا ،۔
گامے کی بیوی تھال تیار کر رہی تھی 
اور گاما بڑبڑا رہا تھا 
یہ ہے ان کا بھیک مانگنے کا طریقہ !،۔
گامے کی بیوی کہہ رہی تھی 
یہ بھیک نہیں ہے 
یہ نذرانہ ہے نذرانہ !۔

بدھ، 16 مئی، 2018

جاپان میں تعلیم


جاپان کے نظام تعلیم میں سرکاری سکول ہی بنیادی چیز ہیں ، کچھ پرائیویٹ سکول اور غیر ملکی سکول بھی ہیں ، لیکن معاشرے میں 
ان  پرائیوٹ اور غیر ملکی سکولوں کی کوالٹی پر اعتماد نہیں  ہے ،۔

جاپان میں تعلیم ہر کسی پر فرض ہے یعنی کہ ایجوکیشن بائی فورس ہے ،۔

غیر ترقی یافتہ ممالک کی طرح جاپان میں تعلیم سب کا حق ، یا کہ بنیادی حقوق جیسے جذباتی نعرے نہیں ہیں ،۔
یہاں جاپان میں پیدا ہونے والے ہر انسانی بچے کو نو سال تک سکول جانا ہی پڑے گا ،۔
سکول ٹائم کے دوران اگر کوئی بچہ کہیں ابادی میں یا کہ ابادی سے باہر نظر آ جائے تو یہ قابل دس اندازی پولیس ہے ،۔
اس بچے کو پولیس اپنی تحویل میں لے کر اس کے سکول سے رابطہ کرئے گی اور سکول کے استاد کی سپرد داری پر اس بچے کو چھوڑا جائے گا ،۔
سکول سے غیر حاضری کی صورت میں اسی دن سکول کی انتظاممیہ بچے کے والدین سے رابطہ کرئے گی ، رابطہ نہ ہو سکنے کی صورت میں  سکول ٹیچر شام کو بچے کے گھر میں جا کر صورت حال کا جائیزہ لے گا اور اس کی تحریری رپورٹ دے گا ،۔
تیس دن تک سکول سے غیر حاضر رہنے والے بچے کو حکومت اپنی تحویل میں لے لے گی ،۔ 
بچے کو مخصوص محکمے کی زیر نگرانی لازمی تعلیم مکمل کرنے تک بچے کو والدین سے علیحدہ کر دیا جائے گا ،۔
 ایسے بچے جن کے والدین کام کی مصروفیت یا کہ نوکری کی مجبوری کی وجہ سے رات دیر تک کام کرتے ہیں ، ان بچوں کے لئے سکول میں گاکدو نامی ایک سیکشن بنایا گیا ہوتا ہے جہاں بچے سکول کے بعد بالغ لوگوں کی زیر نگرانی اپنی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہ سکتے ہیں ،۔
والدیں شام کو کام سے واپسی پر یہاں سے بچوں کو لے لیتے ہیں ،۔

چھ سال پرائمری سکول اور اس کے بعد تین سال مڈل سکول ،۔ پرائمری سکول ہر بچے کے پیدل سکول جانے کی حد میں ہوتا ہے ،۔
بہت کم ایسا ہے کہ بچوں کو سکول بس میں جانا پڑے ،۔
 ہر گھر میں گاڑی ہونے کے باوجود  والدین بچوں کو سکول نہیں چھوڑ سکتے ،۔ 
بچوں کو گروپ کی شکل میں پیدل چل کر سکول جانا ہوتا ہے ،۔
بڑی عمر یا کہ بڑے قد کے بچے بچی کو لیڈر بن کر اگے چلنا ہوتا ہے اور باقی کے بچے اس کو فالو کر کے چلتے ہیں ،۔
شہروں کے علاوہ گاؤں دیہات میں سڑکوں کی تعمیر میں اس نظرئیے سے کی جاتی ہے کہ ہر گھر سے پرائمری سکول تک سڑک کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ بنایا جاتا ہے ،۔
تاکہ بچے ٹریفک کے حادثات کا شکار نہ ہوں ،۔
اس کے بعد مڈل سکول کے بچوں پر سکول جانے کے لئے سائیکل لازمی ہے ،۔
کیونکہ ہر مڈل سکول چند پرائمری سکولوں کے مجموعی طلبہ کے لئے ہوتا ہے ،۔
اس طرح قریبی علاقوں کے طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ جان پہچان ہوتی ہے اور معاشرے کی بنیادی اکائی جنم بھومی میں معاشرت کرنے کی راہیں استوار ہوتی ہیں ،۔
اس کے بعد ہائی سکول ، کالج یاکہ یونورسٹی کی تعلیم ہر شہری کا حق ہے ، اب یہ بات شہریوں پر منحصر ہے کہ یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں یا کہ نہیں ،۔
شہریوں کی اکثریت مڈل کے بعد ہائی سکول یا کہ کسی تکنیکی سکول میں تین سال کی تعلیم حاصل کر کے کمائی والے کسی 
کام سے منسلک ہو جاتی ہے ،۔


جیسا کہ اوپر لکھا ہے ۔

جاپان میں تعلیم ہر کسی پر فرض ہے یعنی کہ ایجوکیشن بائی فورس ہے ،۔

تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ معذور پیدا ہوتا ہے تو ؟  یعنی کہ انکھوں سے ، کانوں سے معذور ، جسمانی معذوری ہو سکتی ہے یا کہ ذہنی معذوری بھی تو ہو سکتی ہے ،۔
ایسے بچوں کو جبری طور پر تعلیم کے لئے سکول بھیجنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟
جی ہاں یہیں جاپان کی کوالٹی نظر آتی ہے  کہ اگر ایجوکیشن بائی فورس ہے تو  حکومت نے ایجوکیشن کا نظام بھی بنا کر اس کو چالو رکھنے پر مسلسل ایکٹو نظر آتی ہے ،۔
یہان جاپان میں معذوروں کے لئے علیحدہ سے سکول ہیں ،۔
جہاں گونگے بہروں کو اشاروں کی زبان سکھا کر ان کو ان کی ذہانت کے مطابق اعلی تعلیم تک رسائی حاصل ہے ،۔
جسمانی معذوروں کے لئے بھی ایسا ہی ہے کہ ان کے ایکٹو ذہنوں کو جلا بخشنے والی تعلیم سے آراستہ کر کے ان کو معاشرے کے کارآمد افراد بنایا جاتا ہے ،۔
جسمانی طور پر صحت مند لیکن ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کو اس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ اہنے جسم کی صفائی ، اپنی متعلقہ چیزوں کی ترتیب رکھ کر گھروں میں ایسے افراد بن کر رہیں جو والدین یا کہ دیگر بہن بھائیوں کے لئے رکاوٹ نہ بنیں ،  اور مستقبل میں لیڈر یا کہ فورمین کی زیر نگرانی بتایا گیا کام کر کے کمائی بھی کر سکیں ،۔
جاپان جیسا بہتریں ملک اور معاشرہ جاپان کے سرکاری سکولوں سے تعلیم یافتہ لوگوں کا بنایا ہوا معاشرہ ہے ،۔
اور انہی دیسی سرکاری سکولوں کے نظام تعلیم پر ساری قوم کو اتنا اعتماد ہے کہ اس نظام تعلیم کو برقرار رکھنے کی بھی تعلیم دی جاتی ہے ،۔ 

تاکہ جاپان کی آنے والی نسلیں بھی تعلیم کی برکات سے مستفید ہوسکیں ،۔

جمعہ، 4 مئی، 2018

جاپان کا نیا دور کس نام سے ہو گا؟


جاپانی حکومت ، آنے والے نئے زمانے کا نام (گین گو) اگلے سال فروری  میں اعلان کرئے گی ،۔
نیا دور جو کہ  سال 2019ء کے یکم مئی سے شروع ہو رہا ہے ،۔
یہاں جاپان میں ہر شہنشاھ کے دور کا ایک نام ہوتا ہے ، جس سے کلنیڈر ، سال اور مہینوں کا ، لوگوں کی تاریخ پیدائیش کا کمپنیوں کے آڈٹ کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے م،۔
جب میں 1988ء میں جاپان آیا تھا تو اس دور کا نام تھا “ شووا”، کوئی چھ ماھ بعد ہی شہنشاھ کے انتقال پر “ہے سے “ کا زمانہ شروع ہو گیا ، “ہے سے “ کا دور 31 سال پر محیط  رہ کر ختم ہو رہا ہے ،۔
چرخ گردوں  نے یہ بھی دیکھایا کہ جو کبھی  کہیں کسی ملک کی تاریخ میں نہیں ہوا وہ جاپان میں ہونے جا رہا ہے کہ زندہ شہنشاھ اپنی ذمہ داروں سے سبکدوش ہو کر دے رہا ہے ،۔
روادری ، ٹیم ورک کی ہی مثال نہیں عظمت کی بھی مثال قایم ہونے جا رہی ہے ،۔
مجھے کتاب مقدس میں لکھی ہوئی وہ آیت یاد آ گئی ، جس میں رب فرماتا ہے ،۔
وہ جو مسکینوں پر عدل قائم کرتے ہیں ان کی بادشاہی کو دوام حاصل ہوتا ہے ،۔
جاپان ، برطانیہ اور یورپی بادشاہتوں  میں بادشاھ لوگوں نے ملک میں پارلمانی نظام بنا کر عدالتوں کو اتنا مضبوط بنا دیا ہوا ہے کہ
ہر مظلوم کے ساتھ ہر مجروح کے ساتھ ہر ہدف بننے والے ساتھ حکومتی مشنری کھڑی ہوتی ہے اور ظالم کو جارح کو چور کو قرار واقعی سزا دیتی ہے ،۔
اسی لئے
جاپان کی بارشاہی کو کبھی بھی کوئی خظرہ نہیں رہا ،۔
دوسری طرف اسلامی ممالک کی بادشاہتیں ہیں ،
جہاں وطنی اور خارجی کے لئے قوانین ہی علحدہ ہیں ،۔
مسکین کے لئے عدل نہیں ہے اور ہر ہر بادشاہت کو اندرونی بیرونی خطرات نے گھیرا ہوا ہے م،۔

Popular Posts