جمعرات، 30 اگست، 2012

منافق اسلام

بہت سے موضوعات ہوا کرتے تھے
گفتگو کے لئے!
کچھ دہایان پہلے تک
ماہئے ، ٹپے ۔ لوک داستانیں ْ لطیفے، دوسروں کے گلے شکوے اور تعریفیں ، موسم کی باتیں ۔ ہجر و فراق کی باتیں ۔
میلوں کی یادیں ۔ سفروں کی باتیں
بہت سے موضوع ہوا کرتے تھے
پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ
ایک ہی موضوع رہ گیا جی پاکستان میں
اسلام!!!!
میرا اسلام ، تیرا اسلام ، اس کا اسلام اور کس کس کا اسلام
دماغ سکڑ کر چھوٹے ہوتے گے
لیکن یار لوگ اس کو اسلام سے وابستگی کا نام دے کر
اپنے اپنے اسلام میں سکڑتے چلے گئے
جب ان دولے شاہ کے چوہوں کو آئینہ دکھائیں مسلمانوں کی حالت زار کا
تو فرماتے ہیں
اس میں اسلام کا کیا قصور یہ تو اسلام کے ماننے والوں کا قصور ہے
تو ؟
گاما پی ایچ ڈی سوال جڑ دیاتا ہے کہ
یعنی کہ اسلام میں یہ نقص ہے کہ اپنے مانے والوں کی اصلاح بھی نہیں کرسکتا؟
یا کہ اس دین میں رہنے والے نقائیص کا شکار ہو کر ہی رہتے ہیں
تو گامے کو کافر اور  بے دین اور اس طرح کے الزامات دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے اور
اپنی ریا کاری اور کم علمی اور کم سمجھی پر پردہ ڈالنے کے لیے
فیس بک پر اسلام تغرے تعزئے لگا لگا کر اسلام کے للکارے مارے جاتے ہیں
اور مزے کی بات ہے کہ
تغرے لگنے والوں کی اکثریت ، ان تغروں کے معانی مطالب سے کم ہی واقف ہوتی ہے
کیونکہ ان کو بھی یہ تغرے ’’ کہیں اور’’ سے ہی آئے ہوتے ہیں!
یہاں جاپان میں میں جن لوگوں کو منافق سمجھ کر
ان سے بات کرنا پسند نہیں کرتا
جن کے ساتھ دسترخان پر نہیں بیٹھتا
وہ لوگ فیس پک پر تغرے لگا لگا کر اسلامی اور مذہبی اور معزز بنے بیٹھے ہیں
ریاکاروں کی محفلوں میں خاور کا تذکرہ ؟
ناں ای پچھو جی!!
بس اتنا سمجھ لیں کہ کچھ اچھا ذکر نہیں ہوتا جی !!!

بدھ، 29 اگست، 2012

ہمارے گاؤں کے مرزائی

جذباتی  لوگوں سے معذرت کے ساتھ کہ
میں مرزائی نہیں ہوں  ، بلکہ مرزائیوں سے سخت نظریاتی اختلاف رکھتا ہوں
ہمارے بچپن میں ، گاؤں میں بہت سے گھر مرزایئوں کے تھے
جو کہ اب بھی ہیں
ان میں سے کچھ گھروں کو مرزائی کہ کر بلایا جاتا تھا
اور یہ لوگ خود کو احمدی کہتے تھے
اور ان کے خط وغیرہ جو آتے تھے ان پر بھی احمدی لکھا ہوتا تھا
ان احمدی لوگوں میں سے کوئی بھی گھر  بے وقعت نہیں تھا
سبھی لوگ ہمارے لیے معتبر اور معزز تھے
ہم لوگ ان کے ساتھ کام ، کاروبار کرتے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ دوستیاں تھیں تعلقات تھے
جس طرح گاؤں میں دوسری مساجد تھیں
کمہاراں  والی مسیت ، بیر والی مسیت اونچی مسیت بڑی مسیت
اس طرح مرزایوں کی مسیت تھی ،
لیکن یہ نہیں تھا کہ مرزائی صرف مرزایوں کی ہی مسیت میں جائیں گے
ہوتا یہ تھا کہ ، جس کو جس نماز میں جو مسیت نزدیک پڑے وہ وہیں نماز پڑہ لیتا تھا
ہم سب لوگ مل جل کر رہتے تھے ، دلوں میں پیار تھا
گاؤں کے چوہدری بھی مرزایت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے،
لیکن اس جھکاؤ کا اظہار ان کے رویے کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا
بس یہ کہ برادری میں سے احمدی گھرانوں سے میل ملاپ زیادہ تھا
ہنر مند طبقے کے مفادات ان سے منسلک تھے
ان کی زمینوں پر کام کرنا
ان کے گھروں سے اناج کا حصول  اور دیگر معاشرتی کام کہ احمدیوں میں چیمہ فیملی اور وڑائیچ لوگ معاشرتی طور پر خاصے مضبوط اور معتبر لوگ تھے
پھر لوہاروں کے کچھ گھر تھے
جو اپنی جگہ مضبوط کاروباری  اور انتہائی ملنسار خاندان تھا
چیمہ مرزائی  خاندان افرادی طور ہر مضبوط ہونے کی وجہ سے ، کئی لڑائیوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا
لیکن ان میں کوئی لڑائی  ان کے مسلک کی وجہ سے نہیں تھی
زمین کے اختلافات اور دیگر باتیں تھین جن میں اس خاندان کے کئی قتل بھی ہوئے
بابا رحمت مرازئی تھا، ہمارے گاؤں اور اس کے نزدیک کے دیہات تک کے لوگ پٹھا چڑہنے پر یا ہڈی ٹوٹنے پر بابے سے مساج کروانے اتے تھے۔
بابا رحمت ان لوگوں سے اس بات کا کوئی عوضانہ نہیں لیتا تھا
بلکہ بابا ایک جاٹ چیمہ چوہدری ہونے کے ناطے دور سے انے والوں کے کھانے پانی کا بھی ذمہ دار ہوتا تھا
پھوپھی سکینہ تھی !!
ایک انتہائی معزز عورت ۔ میں نے خود کئی دفعہ  دیکھا ہے پھوپھی کی فراخ دلی کہ غریب گھروں کی عورتوں کو گندم دیتے ہوئے،
پھوپھی کے سات بیٹے تھے ، کڑیل جوان ،
جن میں سے دو اکہتر کی جنگ میں شہید ہوئے ، دو گاؤں میں برادری کی لڑیوں میں کام آئے ۔ ایک ٹریکٹر کے حادثے میں فوت ہوا
ایک نے حلیہ بدل لیا ، دنیا چھوڑ دی ، بے کار ہو گیا
اور یہ سب حادثات پھوپھی کی انکھوں کے سامنے ہوئے!
نعیم وڑائیچ ، سلیم وڑائیچ۔ ہمارے بڑے بھایئوں کی طرح تھے ، کہ ان کی عمریں مجھ سے کچھ زیادہ تھیں
آصف ننھا ، میرا بچپن کا دوست جس کے ساتھ میں نے پہلی سے لے کر دسویں تک ایک ہی سیکشن میں تعلیم حاصل کی ہے
کئی دفعہ ایک دوسرے سے اختلاف ہوا
بول چال بند لیکن یہ اختلاف کبھی بھی مذہبی نہیں تھا
پھر ایک دن یہ ہوا کہ جی
حکومت نے اس لوگوں کو اقلیت ڈکلئیر کر دیا
ہر طرف باتیں ہونے لگیں کہ جی مرازئی تو جی اب حکومتی فیصلے میں نیچ قرار دیے گئے ہیں
اب یہ لوگ عسائیوں کی طرح ٹریٹ کیے جائیں گے
لیکن مجھے اس بات کا اعتبار ہی نہیں اتا تھا کہ
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
اج کے معتبر اور شریف لوگ کیسے ایک دم سے رذیل ہو جائیں گے؟
لیکن اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ  عیسائی بھی کیوں نیچ ہیں ؟
پھر ہم نے دیکھا کہ ۔ جس کو مخالفت کے لیے کوئی ناں ملا اس نے مرزائیوں سے مخالفت شروع کر دی
جس کو بہادری کا شوق چڑہا اس نے مرزائیوں پر چڑہائی کردی
جس کو اپنے اسلام کی دھاک بٹھانے کی سوجی اس نے مرزائیوں کو اگے رکھ لیا
اور پاکستان میں اس سوچ کو تو قتل ہی کردیا گیا کہ اپنی بھی غلطی ہوسکتی ہے
اس سوچ کی موت ہے کہ اج سبھی لوگ دوسروں کو غلط سمجھ کر سمجھا رہے ہیں
سبھی پاکستانیوں کو دوسروں کا اسلام غلط لگ رہا ہے
اج کے پاکستان میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کا دعوی ہے
اور پاکستانیوں سے نفرت !!
پاکستان میں بسنے والے ہندو ، عیسائی، مرزائی یا دیگر لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں ، جتنے کہ
آپ یا میں !!
کیا پاکستان میں وطنیت کا احساس ہی مر گیا ہے ؟
کیا پاکستان میں انسان کی جان کی وقعت ہی نہیں رہی ہے؟
میں مرزائیت کے نظرئے سے صرف اختلاف ہی نہیں رکھتا
بلکہ
ان کے نظریات سے نفرت کرتا ہوں
اور مرزائیت کے بعد بھی اسی نظرئے کی حامل دوسری پارٹیوں سے بھی نفرت کرتا ہوں
لیکن
اس بات پر ان کے پاکستانی ہونے سے ہی انکار نہیں کرسکتا
کسی بحث میں مرزایوں کی شکست پر مجھے بھی دلی خوشی ہوتی ہے
لیکن
کسی بھی پاکستانی کے قتل پر دکھ ہوتا ہے
مقتول پاکستانی کسی بھی رنگ نسل ، مسلک ، یا علاقے کا ہو!!!

منگل، 21 اگست، 2012

دودہ اور مینگنیاں


بکری کے مینگناں بھرے دودہ کی مثال مشہور ہے
پہلے تو دودہ کی مقدار کہ اگر بکری سے حاصل بھی کر لیا جائے
دو سے ڈھائی سو گرام ہو گا
اور دودہ دھونے کے لیے دو بندوں کی کوشش شامل ہوتی ہے
ایک جس نے دودہ دھونا ہے اور دوسرا جس نے اس عمل میں بکری کی پچھلی ٹانگیں پکڑ کر رکھنی ہیں ۔
اور دودہ دھونے کے دوران اپنے اندر کے خوف (بز دلی ، بکری کے حوصلے کو کہتے ہیں)کی وجہ سے بہت کوشش کرتی ہے کہ پکڑنے والے کی گرفت سے نکل جائے
اور اس جہدوجہد میں مینگنیاں بھی نکل جاتی ہیں
اور "کچھ  اور" بھی نکل جاتا ہے
لیکن محاورے میں مائع چیز کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا
جو دودہ میں مل کر دودہ کا وہ حال کرتی ہیں کہ کسی نفیس طبیت بندے سے تو پیا ناں جائے
پس یہ محاورہ مخصوص حالات میں بولا جاتا ہے
جو لوگ بکری کے دودہ دھونے کی عمل کی دشواری اور اس سے حاصل ہونے والی"چیز" کی حثیت سے واقف ہوتے ہیں
وہ لوگ محاورے کی معونیت سے لطف لیتے ہیں اور مینگنیوں کے کرب سے دیہان ہٹانے کو کہتے ہیں
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مندرجہ بالا تحریر  کا پاکستان کی موجودہ حالت یا حکومتی لوگوں کے کاموں سے تعلق پیدا ہو جانا
بلکل  ایک قدرتی عمل ہو گا لیکن
اپ  بجلی کی ترسیل میں لوڈ شیڈنگ کی مینگنیوں
یا سڑکوں کی تعمیر میں گڑھوں کی مینگیناں
یا  ملکی دفاع میں ڈورن حملوں کی مینگنیاں
یا عید الفطر کے تہوار پر فون سروس کی بنسش کی مینگیاں
کی تلخیوں کو بھولنے کی کوشش کریں
اور محاورے کی معونیت پر غور کریں
اور  لطف لیں
اس لڑکے کی طرح
جس نے گاوں میں ایک "کٹا " پکڑ کر کنویں میں پھینک دیا
کٹے کے مالکوں کو علم تو ہو ہی جانا تھا
اس پر اس لڑکے کو پنشمنٹ ہوئی
جو کہ بڑی بے عزتی اور کرب کی بات ہونی چاہیے
لیکن
وہ لڑکا بندہ بڑا حسن ظن کا مالک تھا
جب اس کو کسی نے پوچھا کہ کٹّا کنویں میں پھینکنے پر تم نے اتنی بے عزتی کروائی ہے
تمہیں کیا حاصل ہوا؟؟
تو اس نے جواب دیا تھا
کہ "گروم " کی اواز بھی تو میں نے ہی سنی تھی ناں
اپ بھی میری طرح دل کو تسلی دے لیں کہ
یہ حکومت تو بے چاری خود مجبور ہے
اس حکومت کی علمداری ، تھانوں تک ہی ہے
اور ان کی عیاشی؟
غیر ملکی دوروں تک!!!

اتوار، 19 اگست، 2012

عید مبارک


اج یہاں جاپان میں  عید ہے
اللہ ہمارے لیے اور اپ کے لیے اس عید کو مبارک فرمائیں
اور انے والے دنوں کو بھی مبارک فرمائیں
کہ سب چیزوں کا رجوع اللہ کی طرف ہے
ہم پردیسیوں کی عید ؟
اس حد تک ہوتی ہے کہ رمضان میں عید کا انتظار کرتے ہیں
اور عید کے روز ، عید کی نماز کی تیاری اور عید کی نماز پڑہ کر جاننے والوں سے گلے ملتے ہیں
اور
پھر؟؟
نوکری کی مجبوری والے نوکری پر اور باقی کے بھی طرح طرح کی مجبوریوں میں بندھے
ایک لمبآٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
اُُُُُُُُُُُور
ادآٓٓٓٓٓٓٓٓٓس
عید کا دن گزارتے ہیں
لیکن چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ لیے
اپنے بھرم کی لاش گھسیٹےسارا دن گزارتے ہیں
جن کو پردیس میں اپنےبچپن کے جاننے والے مل جاتے ہیں
ان کا دن کچھ محرومیوں کو اور بھی بڑھا جاتا ہے
اور جن کے بچپن کے جاننے والے کاروباری طور پر کامیاب ہیں
ان کو ان کی اوقات یاد کرا جاتے ہیں
بس جی
عید ہو کہ
ہر دن
اللہ تعالی مبارک فرمائیں
ہم سب کے لیے

بدھ، 15 اگست، 2012

سازشی ذہن


ایک تو جی یہ یہودی لوگ  لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی" ویلے لوک" ہوتے ہیں
پاکستان کی بربادی کے لیے دن رات کام کرتے رہتے ہیں
پاکستانیوں سے جب بھی بات کریں پاکستان کی ہر خرابی کی جڑ امریکہ اور یہودی کو بتاتے ہیں
کچھ کچھ ہندو کا بھی قصور ہوتا ہے لیکن
بلکل ہی پڑوس میں ہونے کی  وجہ سے ہندو اتنا بھی سیانا نہیں لگتا
اس لیے سارا الزام یہودی اور امریکہ پر اتا ہے
یہودی بہت سیانا ہے
اس نے دنیا کو توحید کا تصور دیا
اور پھر اس پر عسائیت اور اسلام نامی مذاہب بھی  دنیا نے استعمال کیے
هو سکتا ہے که کوئی اس سے متفق ناں هو
لیکن یه حقیقت ہے که اسلام اور عسائیت  یہودیت کی هی بدلی هوئی شکلیں ہیں
جس طرح که ہمارے علاقے کی پیدائش ،هر دھرم ہندو دھرم کی بدلی هوئی شکل هوا کرتا هے
پہلے بده  اور سکھ دھرم کا نام لیتے ہیں پھر
بریلوی دھرم کا نام آتا ہے
دنیا کو بہت زیاده متاثر کرنے والے  مذاہب !۔ ان یهودیوں کے ہی بنائے هوئے هیں جی۔

لیکن اسلام نے خود کو دین هونے کا دعوی کیا
جی هاں دین
یعنی سسٹم
لیکن یه سسٹم  جیسا بھی ہے ۔ اس باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں ۔
لیکن

اب جو زمانہ جا رها هے
یه زمانہ هے جی
نئے دھرم کا
جس کو اپ کیپٹل ازم یا  سرمایہ دار نظام کہہ لیں یا
اج کا دین بھی کہہ سکتے ہیں ۔
یه دین ایک مکمل ترین ضابطه حیات ہے
اس ميں زندگی گزارنے کے سارے اصول پائے جاتے ہیں
سڑکوں کی تعمیر سے لے کر سڑکوں پر چلنے تک کے ضوابط موجود ہیں ، تو
رقم کے لین دین سے لے کر خرچ کرنے تک کا نظام ہے ۔
بنکنگ کے نظام اور مال کی ، دنیا بھر ميں ترسیل کا نظام بھی بہت منظم اور موجود  ہے
انصاف کا نظام هو که ، فوج کا نظام !۔ اس وقت دنیا میں اسی دین ( کیپٹل ازم ) کے نظام ہی چل رهے هیں
اس دین کو پورا پورا اپنانے والے سارے ممالک خوشحال ہیں ۔
اور ان ممالک کا معاشره جنت نظیر بنا ہوا  هے
لیکن جو ممالک اج بھی انارکی اور بدحالی کا شکار ہیں
ان کی اس بدحالی کی وجہ منافقت ہے۔
یه لوگ اج کے دین ( کیپٹل ازم ) میں پورے پورے داخل نہیں ہیں ۔
یه لوگ عدالت کا نظام
سڑکوں کا نظام
بنکنگ کا نظام
یا جو جو بھی نظام  دین ( کیپٹل ازم )  ميں پائے جاتے ہیں ان کو اپناتے بھی ہیں اور
اور ان کو برا بھی کہتے ہیں
اور اس ساری منافقت کے پيچھے یهودی کی سازش ہے
که یهودی نے
کچھ ایسا چکر چلایا ہے که
کسی بھی مسلمان ملک میں کوئی طاقتور بنک بننے میں رکاوٹ  دالنے کے لیے۔
 یهودی نے سازش کر کے مسلمان ملکوں کے باشندوں کو بے ایمان کردیا هے۔
 که یه لوگ امانت میں خیانت کرنے والے بن چکے ہیں ، اس لیے خود مسلمان لوگ بھی ، اسلامی بنکوں ميں اپنی دولت کو محفوظ نهیں سمجھتے
اسی طرح یهودی نے مسلمانوں ميں جھوٹ بولنے کی عادت ڈال دی ہے ۔
اب تو یه یه عادت کچھ ممالک میں ، اتنی پختہ ہو گئی ہے ۔
که لوگ خود سے بھی جھوٹ بول رہے هوتے ہیں
پھر کام چوری کی عادت بھی یهودی کی سازش ہے
اسی طرح کی کئی بری عادات هیں جو یهودی کی سازش سے مسلمانوں ميں شامل هو چکی ہیں
لیکن یه ہوا کیسے؟؟
اس بات کا مجھے بھی علم نہیں ہے
کیونکه میں بھی مسمان هوں ،اور یهودی کی سازش کی وجہ سے میں بھی اتنی سوچ کا مال نهیں رها هوں که یهودی کی اس سازش  کی تفصیل سمجھ سکوں ۔
کہ
مسلمانوں میں اخلاقی بد حالی کس طرح سے داخل کی گئی ۔

مجھے تو سمجھ نہیں لیکن
گاما پی ایچ ڈی جو که مسلمان بھی کم ہی هے
کافر بھی نہیں ہے
گامے کی پی ایچ ڈی کی ڈیفینیشنز ناں پوچھیں تو اچھا ہے
پرزه ہیوی ڈیوٹی جیسا کوئی فقره کہتا ہے ۔
جس میں پرزے کی جگه انگریزی کا لفظ استعمال کرتا ہے
گاما یہودیوں کو گالیاں دیتا هے اور یہودیوں کی سازش کی بات کو مانتا ہی نهیں هے
سازش کے رشتے ملانے لگتا هے اسلامی لوکاں کے  اور خواتین کے
اور مجھے اور اسلامی لوکاں کو بیوقوف اور احمق اور بہت کچھ کہتا هے
نئیں پتہ لگتا که گاما یهودی کے خلاف ہے که اسلام کے خلاف
نمازں ساریاں پڑھتا ہے ۔
اور اسلام کو مانتا ہی نهیں
پاسپورٹ پاکستانی ہے
اور پاکستان کو آزاد ملک ہی نہیں  سمجھتا
بس جی پاگل هے ۔
گاما بھی یهودیوں کی سازش کا شکار ہو چکا ہے اور اس کو بھی علم نهیں هے

لیکن میں بھی کبھی کبھی سوچتا هوں که
یهودی اینے ای ویلے نیں  تے فیر امیر کیوں نیں ؟؟

منگل، 14 اگست، 2012

کاش میرا وطن ایک ملک ہوتا

میرے وطن کو ملک بنانے کا جھانسہ دے کر
ایک ملک سے ملوکیت بنا دیا گیا
اج اس بات کو پینسٹھ سال ہو گئے
که میرا وطن  ، ملک نهیں هے
جیسا که دنیا کے ممالک هوتے ہیں
نظم ضبط میں بندھے اداروں کے مجموعے کو ایک ملک کہتے ہیں
اور وطن تو جی جنم پوئیں  هوتا ہو ناں جی
جو جہاں پیدا ہوا وه اس کا وطن ٹھرا
رب نے وطن سب کو دیا ہے
هاں ایک بنده گزرا ہے چالرس سوبراج جو دھائیوں تک بے وطن رها لیکن اخر پر اس کو بھی فرانس نے نیشنیلٹی دے هی دی
بے وطن کو وطن بھی اور ملک بھی مل کيا
هم ہیں که سوچتے ہیں که کاش میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
جس ميں ایک اداره انصاف کا هوتا
ایک اداره صحت کا هوتا
ایک اداره روزگار کے انتظام کا هوتا
اسی طرح بہت سے اداروں کے خواب ہیں جی
جو هوتے تو میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
ایک اداره ملکی دفاع کا بھی هوتا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟!!!!
ملکی دفاع؟
ملک ؟
شائد یہیں غلطی لگ گئی تھی جی بابے کو
ملک بنا لیا تھا جی اس نے میرے وطن کو
لیکن اس ميں ایک اداره اس کو بنا بنایا مل گیا جی
ملک دفاع کا
ملک کمزور تھا جی میرا وطن!
لیکن جی وه تھے ناں جی آدم جی ملز والے
انہوں نے جی
ملکی دفاع کے ادارے کو تین مہینے چلانے کا خرچ اور تنخواه دی تھی
پھر جی
چل سو چل
جی ناں آدم جی ملز والے رهے جی
ناں هی میرا وطن میرا ملک رہا
بس جی ایک اداره ہی رہ گیا جی
ملکی دفاع کا
اور میرا وطن ہے جی
لہو لہان
میرے وطن کے سیاستدان بیوقوف اور غداّر گنے گئے
میرے وطن کے  لکھاری غائب هونے لگے
 اور ادارے کی بدنامی کی سازش کے نام پر مسخ شده لاشیں بن کر
آ جاتے ہیں
میرے وطن کے بلوچ مارے جاتے ہیں
میرے وطن کے ہندو ،گندے گنے گئے جی
میرے وطن کے عیسائی چوہڑے گنے گئے جی
میرے وطن کے "کمی" ، کمینے گنے گئے جی
میرے وطن کے مسلمان ؟
ابھی فیصلہ هونا باقی ہے که مسلمان کی ڈیفینیشنز کیا ہیں اور کون مسلمان ہے
اس لیے میرے وطن میں مسلمانوں کا کیا حال ہے
اس بات کا فیصلہ پہلے مسلمان کون ہیں کا فیصله کرنے کے بعد کريں گے
کاش اے کاش
که میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
جیسا که ایک ملک جاپان ہے
یا امریکہ ہے
یا چلو جی غریب ہی سہی
سری لنکا ہے
ہندوستان ہے
بنگله دیش ہے
کاش اے کاش
ابادیوں میں دھول اڑ رہی هے
پانی بجلی کے لیے لوگ ترس رہے ہیں
انصاف کے نام پر لارے دئے جارهے هیں
میرا وطن ایسا تو نہیں تھا یارو
ابھی چند دھائیاں پہلے تک !!!!٠

جمعہ، 3 اگست، 2012

جانوروں کے مقابلے

 اپنے اپنے حالات اور سورسز کی بات ہوتی ہے جی
شوقین لوگ ککڑ لڑاتے ہیں ، کچھ لوگ کتے لڑاتے ہیں
جو مقدور ہیں جی وه لوگ ریچھ اور کتے کو بھی لڑا دیتے ہیں
لڑائی دیکھنے کا شوق ہے ناں جی
که کچھ لوگ بٹیرے بھی تو لڑاتے ہیں
سارا دن بٹیرے کو  هاتھ میں پکڑے کھیلتے رہتے ہیں
اور جب بٹیرا میدان میں نکلتا ہے تو بٹیرے باز کہتا ہے
اوے میرا بٹیرا پنجہ مار کے دھرتی ہلا دے !!!٠
پرانے دنوں کو باتیں کر رہا هوں جی
اس پاکستان کی جو گم ہے چکا ہے
اب تو جی ایسی گیموں پر پابندیاں ہیں
کچھ کاروباری حالات برے ہیں جی
اور کچھ اسلام کا دور دورا ہے جی
اس لیے اب مقدور رکھنے والے لوگ جی
کچھ اور ہی لڑاتے ہیں
اپ نے دیکھی ہیں اج کل کے جانوروں کی لڑیائیاں ؟؟
نئے جانور مارکیٹ میں آئے ہیں جی
اپنے موسیقی پسند سرکار روشن خیال  سرکار جناب شاه صاحب سید آل رسول حضور مشرف صاحب کے دور سے
اج کل جو جاور لڑائی کے لیے میدانوں میں اتارے جارهے ہیں جی بڑے خاص لوکاں کے خاص جانور ہیں جی
بلکل انسانی شکل ہیں جی
یہ جانور ان کو اج کی پاک بولی میں اینکرز ، مفکر ، علم دین ، اور سائنس دان بلکه پروفیسر اور دیگر انسانی پیشوں کے نام بھی دیے دئے گئے ہیں
ان جانوروں کی لڑائی کے شو  ٹیلی ویژن پر دیکھائے جاتے ہیں اور ساری قوم ان کو بڑے شوق سے دیکھتی ہے
یهاں ان جاوروں کی عقل اور علم کی دھاک بیٹھانے کی کوشش ہوتی هے
لیکن کیونکه هوتے تو یہ جانور ہیں  اور ان کو میدان میں لانے والوں کا مقصد بھی ناظرین کو لڑائی دیکھنا ہو تا ہے
اس لیے میدان کو گرم کیا جاتا ہے
مغالطوں اور مغالغوں  کے پینترے بدل بدل کر جہالت کے لتر مارے جارہے هوتے ہیں جی ناظرین کے قیمتی دماغوں پر
کتوں کی لڑائی میں کثے والا اپنے ہی کتے کو تھپڑ مار مار  کر کتے گو گرم کرتا تھا که
ماقبل کتے پر زور دار حملے
تاکہ تماشا دیکھنے لیے آئے ہوئے ناظرین کی کتی طبیت کو تسکین ملے
انسان نما جاورں کو لڑانے والے کو صحافی کہتے ہیں اج کل
یہ صحافی طنز اور تعریف کے لتروں سے اپنے جانوروں کو تپائے رکھتے ہیں
کہ میدان گرم رہے
میدان میں الٹا دریا چلانے کا دعوه لے کر آ جاتے ہیں اور اور اس کی حمائت میں سائنسدان اور پروفیسر نامی جانور
فون پر جا دیگر ذرائع سے الٹا دریا چلنے کے مغالطے لے کر آجاتے ہیں

اج کل ایسے ہی جانوروں کی لڑائی کے مقابلے کی ویڈیو بڑی مقبول ہے
جس ميں پانی سے گاڑی چلنے کا مبالغہ لے کر آتے ہیں جی
مشہور صحافی حامد میر کے جانور انجئنیر وقار!!٠
اس جانور کے نام مين انجئینیر هونے کا مطلب انجنئر نہیں ہے
بس مقابلے میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے جانور کا نام زرا علمی سا اور زور دار ہونا ضروری ہے بس اس لیے
خود ان صحافی صاحب کو سائینس کا اتنا بھی علم نہیں ہے جتنا که
ایک میٹرک کے عام سے طالب علم کو بھی هوتا ہے
مقابلے میں سنسنی اس وقت پیدا ہوئی
جب لائین پر مقابلے ميں ایک اصل والا انسان آ گیا جی
اس نے جی مبالغے کے پینترے پر سائنسی اصول کی حقیقت کا "لتر" رکھ دیا
بس جی پھر
سنسنی
اور اس کی حمایت کے لیے بڑے بڑے نام
ڈاکٹر عبدل قدیر صاحب کو پهلی دفعہ کسی معاملے میں بات کرتے سنا
بڑی مایوسی ہوئی
که اس بندے کو میں نے رهائی ملنے پر یہان جاپان سے سینکڑوں کارڈ لکھوا کر بھیجے تھے که
میں علم کی اور اهل علم کی بڑی ہی عزت کرتا ہوں اور پاکستان ميں پچھلی دھائیوں ميں پڑھائے جانے والے مغالطوں میں سے ایک مغالطے که ڈاکٹر قدیر صاحب بڑے علم والے ہیں کے مغالطے کا شکار ہو چکا تھا
ان کی گفتگو سن کر میرا مغالطہ نکل گیا که یه صاحب اهل علم ہیں
اور حقیقت اشکار ہوئی که ڈاکٹر صاحب بڑے  فنکار ہیں
که قوم کی سوچ کو مد نظر رکھ کر
صرف میٹھی گولی ہی دیتے ہیں
حامد میر صاحب نے جو میدان سجایا ہے
میں بھی یہ تحریر لکھ کر اس میدان کا ایک جانور ہی محسوس کر رہا ہوں
خود کو!!!٠
میدان ٹی وی  سے نکل کر یو ٹیوب پر منتقل ہو چکا ہے
اور ان جانور لوگ  فیس بک اورانٹر نیٹ پر اور میری طرح بلاگنگ میں لڑ رہے ہیں
اور مقابلے کے انعقاد کروانے والے
اصلی کھلاڑی  "وہاں " بیٹھے لطف اندوز ہو رہے ہیں
کہ کہیں لوکاں کو  اس بات کی بھنک ناں مل جائے که
نیٹو سپلائی اگر پارلمنٹ نے ہی قبول کی ہے
تو
آئی ایس آئی کے سربراہ کا امریکہ جانے کا کردار کیا ہے
وغیرہ وغیره

بدھ، 1 اگست، 2012

برما کے مسلمان اور عالمی دین (عالمی برادری)٠


برما کے مسلمانوں کے قتل پر عالمی میڈیا کی خاموشی اور اس خاموشی پر
پاک لوکاں کا شور غوغہ !!
که خدا کی پناه
خود کو مسلمان کہلوانے والے اس گروه کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے که
اج کے دور ميں جو دین چل رها هے
ميں اس کو گورا دین (عالمی برادری ) کا نام دوں گا
اس دین میں جھوٹ کی سزا یہ هے که بنده معتبر نہیں رہتا
شائد پرانے زمانے ميں  اسلام کہلوانے والے دین میں بھی کچھ اسی طرح هوا کرتا تھا
معاملہ اس طرح شروع ہوا که
ایک لڑکی نے اسلام قبول کر لیا
کچھ لوک جو اسلام کے مبلغ کهلواتے تھے انہوں نے اس علاقے کا دورہ کیا
گمان غالب که اور بھی لڑکیوں کو اسلام  لذت کا احساس دلانے کے لیے
تو جی مقامی ابادی نے غالباً غیر اسلامی لذت کی بے قدری سے بچنے کے لیے
یا برصغیر کے جذبه غیرت کی طرح کی چیز که وجه سے ان اسلامی مبلغوں کو قتل کردیا
بڑا ظلم ہوا
دس بندے قتل ہو گئے
دونوں طرف سے لوگ نکل آئے
گھاس پھونس کے مکانات ، جھونپڑیاں  جن کو اگ جلدی لگ جاتی هے دونوں طرف سے جلائی گئیں
بده لوگوں کے ساتھ مقامی حکومت کی حمایت تھی
که بده لوگوں کی بچیاں  استعمال کرتے ہیں اور نام دیتے ہیں اس کو اسلام کی خدمت کا!!٠
اس لیے مقامی اہلکاروں نے نظر اندازی کا رویہ اپنایا
روہنگیا مسلمانوں کو عالم اسلام یاد آیا که ان کو مدد کے لیے پکاریں
تھائی اور برما کی سرحد پر اباد روہنگیا مسلمان  کجھ قبائیل طرز زندگی گزارتے ہیں
ان میں کوئی قابل ذکر لیڈر نہیں هے
اپنے علاقے ميں یہ لوگ خاصے " ڈنگے  ٹائیپ کے لوگ ہیں
جس کا اندازه اس بات سے لگا لیں که جاپان سے گاڑیوں اور پرزه جات کی  برما کو اسملنگ کا سب سے بڑ روٹ جو کہ تھائی کے راستے جاتا ہے اس پر ان کی اجاره داری ہے
کوئی قابل ذکر لیڈر ناں هونے کی وجہ سے یہاں کے سبھی لوگ  خود کو عقلمند سمجھتے ہوں گے
اس لیے جب ان کو عالم اسلام کی مدد کی ضرورت پڑی تو انہوں نے
ایک بہت بڑی غلطی
ایسی غلطی که جس کی کوئی بھ مذہب یا معاشره اجازت نهیں دیتا
وه غلطی تھی
جھوٹ بول کر عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش
جی هاں روہنگیا مسلمانوں نے جھوٹ بولا
یه حقیت ہو کہ ان کے بندے قتل ہوئے
یه بھی حقیقت ہو که
برما کی حکومت نے ان پر هونے والے ظلم کو نظر انداز کیا
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے که
جھوٹ بول کر ہمدردیاں سمیٹی جائیں
روہنگیا مسلمانوں کو جهاں جهاں سے دھوتی میں ملبوس لاشوں کی فوٹو ملی
انہوں نے یه برما کے مسلمانوں کی لاشیں لکھ کر انٹر نیٹ پر لگا دیں
ایک تصویر تھی جو تھائی مین دھوتی باندە  کر احتجاج کرتے سمندر کے کنارے انسانی ڈھیر کو برمی مسلمانوں کی لاشوں کا کیپشن لگا کر گردش کر رهی تھی
ایک فوٹو تھی جو کچھ سال پہلے چین کے زلزلے میں مرنے والے لوگوں کے پاس بده بگھشو پھر رہے تھے
کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا
که اگ لگا کر احتجاج کرتے تبتی بندے کی فوٹو کو بھی برمی مسلمان  کی فوٹو کہ کر لگا دیا
پھر اس بھی کچھ هاتھ اگے گزرے که
افریقه میں آئیل ٹنکر سے جھلس کر مرنے والوں کی لاشوں پر بھی برمی مسلمانوں کی  مظلومیت کا  لیبل لگا دیا
اب اس افریقہ والی تصویر مين کالے لوگ نظر بھی آ رہیں
عام فہم بندے کو بھی نظر آ رها ہے که
يه برما کی تصویر نہیں ہے
اب اس جھوٹ کو بول کر برمی اور ان کے حمایتی یه سمجھ رہے تھے که
کسی کو اس جھوٹ کا علم نہیں ہے
اور یہ غلط فمی سارے جہان کے جھوٹوں کو ہوتی ہے که
سمجھتے ہیں که سننے والے کو میرے جھوٹ کا احساس نہیں ہو رها هے
لیکن
یه سب تصاویر
عالمی میڈیا کی نظر سے گزری تصاویر تھیں
مسلسل خبروں پر نظر رکھنے والے لوگوں کو يه یاد بھی تھا که کون سی تصویر کہاں کی اور کن حالات کی هے
اس وجہ سے
عالمی میڈیا کا رویہ یہ ہو گیا که
برما کے ملک سے اصل بات باہر نهیں نکل رهی
کچھ ہو تو رها هے
لیکن
کیا ہو رها ہے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے
اس لیے یہ ناں ہو که کچھ خبر شائع کرکے بعد میں سبکی اٹھانی پڑے
اس لیے عالمی میڈیا نے برمی مسلمانوں پر هونے والے حقیقی ظلم کو بھی اجاگر ناں کیا
بلکه یه کہ سکتے ہیں که
اجاگر ناں کرسکا
اس میں قصور کس کا ہے؟؟
ان کا جنہوں نے جھوٹ بولا
ناں که
ان کا جنہوں نے جھوٹ اور سچ کو علیحده کرنے میں وقت لگا دیا
میں نے خود اس بات کی تحقیق کی کوشش کی
کیونکه جاپان ميں روہنگیا مسلمانوں کی زیادہ تر ابادی یهاں ہمارے قریب رہتی ہے
میں نے جتنے بھی لوگوں سے پوچھا که کجھ تصاویر دیکھائیں
ان سب کے پاس وهی  تصویر تھیں جو میں انٹر نیٹ پر دیکھ چکا تھا
میں نے بار بار پوچھا که که کوئی تصویر جو اپ کے رشتہ داروں کی لی گئی ہو ؟
کوئ تصویر جو انٹر نیٹ پر ناں ہو اپ کو برما سے ڈائریکٹ وصول ہوئی ہو؟؟
تو ان کا جواب هوتا تھا که برما سے تو کچھ بھی باہر نہیں نکل رها
برمی حکومت کی سختی کی وجہ سےخبروں اور تصویروں کا باہر نکلنا ناممکن ہے
تو میرا سوال هوتا تھا
که
پھر یہ تصاویر کہاں سے نکل آئی ہیں جو انٹر نیٹ پر گردش کر رہی هيں
تو ان کا جواب هوتا ہے
بس یہی تصویریں ہیں جو انٹر نیٹ پر ہیں
پس حاصل جمع
یہ ہوا که
برمی مسلمانوں پر ظلم تو هوا
لیکن
انہوں نے جھوٹ بول کر اپنا کیس خراب کر لیا
اور مسلمانوں کی عادت کے مطابق ، سارا مدعا سازشوں اور سازشیوں پر ڈال دیا
اس لیے پیارے بچو  جھوٹ ناں بولو . جھوٹ بونے سے  بندے مرتے ہیں اور ان کا کچھ بنتا بھی نہیں ہے

Popular Posts