دودہ اور مینگنیاں
بکری کے مینگناں بھرے دودہ کی مثال مشہور ہے
پہلے تو دودہ کی مقدار کہ اگر بکری سے حاصل بھی کر لیا جائے
دو سے ڈھائی سو گرام ہو گا
اور دودہ دھونے کے لیے دو بندوں کی کوشش شامل ہوتی ہے
ایک جس نے دودہ دھونا ہے اور دوسرا جس نے اس عمل میں بکری کی پچھلی ٹانگیں پکڑ کر رکھنی ہیں ۔
اور دودہ دھونے کے دوران اپنے اندر کے خوف (بز دلی ، بکری کے حوصلے کو کہتے ہیں)کی وجہ سے بہت کوشش کرتی ہے کہ پکڑنے والے کی گرفت سے نکل جائے
اور اس جہدوجہد میں مینگنیاں بھی نکل جاتی ہیں
اور "کچھ اور" بھی نکل جاتا ہے
لیکن محاورے میں مائع چیز کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا
جو دودہ میں مل کر دودہ کا وہ حال کرتی ہیں کہ کسی نفیس طبیت بندے سے تو پیا ناں جائے
پس یہ محاورہ مخصوص حالات میں بولا جاتا ہے
جو لوگ بکری کے دودہ دھونے کی عمل کی دشواری اور اس سے حاصل ہونے والی"چیز" کی حثیت سے واقف ہوتے ہیں
وہ لوگ محاورے کی معونیت سے لطف لیتے ہیں اور مینگنیوں کے کرب سے دیہان ہٹانے کو کہتے ہیں
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مندرجہ بالا تحریر کا پاکستان کی موجودہ حالت یا حکومتی لوگوں کے کاموں سے تعلق پیدا ہو جانا
بلکل ایک قدرتی عمل ہو گا لیکن
اپ بجلی کی ترسیل میں لوڈ شیڈنگ کی مینگنیوں
یا سڑکوں کی تعمیر میں گڑھوں کی مینگیناں
یا ملکی دفاع میں ڈورن حملوں کی مینگنیاں
یا عید الفطر کے تہوار پر فون سروس کی بنسش کی مینگیاں
کی تلخیوں کو بھولنے کی کوشش کریں
اور محاورے کی معونیت پر غور کریں
اور لطف لیں
اس لڑکے کی طرح
جس نے گاوں میں ایک "کٹا " پکڑ کر کنویں میں پھینک دیا
کٹے کے مالکوں کو علم تو ہو ہی جانا تھا
اس پر اس لڑکے کو پنشمنٹ ہوئی
جو کہ بڑی بے عزتی اور کرب کی بات ہونی چاہیے
لیکن
وہ لڑکا بندہ بڑا حسن ظن کا مالک تھا
جب اس کو کسی نے پوچھا کہ کٹّا کنویں میں پھینکنے پر تم نے اتنی بے عزتی کروائی ہے
تمہیں کیا حاصل ہوا؟؟
تو اس نے جواب دیا تھا
کہ "گروم " کی اواز بھی تو میں نے ہی سنی تھی ناں
اپ بھی میری طرح دل کو تسلی دے لیں کہ
یہ حکومت تو بے چاری خود مجبور ہے
اس حکومت کی علمداری ، تھانوں تک ہی ہے
اور ان کی عیاشی؟
غیر ملکی دوروں تک!!!
1 تبصرہ:
ہاہاہا بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اس گورنمنٹ نے جو حال کیا ہے آئندہ آنے والی کسی بھی جمہوری گورنمنٹ کو سیدھا ہونے میں ہی 5 برس گزر جائیں گے
ایک تبصرہ شائع کریں