اتوار، 26 فروری، 2017

افغانوں کی ہزار سالہ تاریخ کا فخر


پاکستان سے باہر جب بھی کسی افغان سے ملاقات ہوئی ، اس نے اپنی ایک ہزار سالہ تاریخ کا ذکر ضرور کیا ، جس تاریخ میں افغان ہند کو جہاد کے نام پر لوٹنے آیا کرتے تھے ،۔
افغانوں کو اپنا وہ ماضی بھولتا ہی نہیں ہے کہ پنجاب سندہ اور ہند کی زمینوں پر اگنے والے غلے کو لوٹ کر لے جاتے تھے ساتھ میں ہندی لوگوں کو غلام بنا کر غزنوی اور بخارا کی منڈیوں میں فروخت کرتے تھے م،۔
تاریخ میں پہلی بار رنجیت سنگھ نے ان کو روکا ، اس کے بعد انگریز آ گئے انہوں نے بھی افغانوں کو روک کر رکھا ،۔ پاکستان بنتے ہیں نادر شاھ کے چاچے سردار داؤد نے اپنی اس تاریخ کو دھرانے کے لئے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا ،۔
ان سب باتوں کے تناظر میں دیکھیں کہ افغانوں کے لشکر جب پنجاب میں لوٹ مار کر کے عورتوں کو ریپ کرتے تھے ، غلہ لوٹ کر لے جاتے تھے بچے اغوا کر کے لے جاتے تھے ،۔
اپنے گھروں میں امن سے رہنے والے پنجابیوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی ؟
افغان جب بھی طاقت ور ہو گا ، ظلم کرئے گا
جب بھی کمزور ہو گا ترحم کا طلب گار ہو گا م،۔

ہم نے اپنے لڑکپن میں پنجاب میں پٹھانوں کو دیکھا ہوا ہے ،، گیڈر بھبکی دے کر ڈراتے ہیں ،۔ لیکن بھی میں نے ان پر حملہ کیا ، نیچے بیٹھ کر سر پر ہاتھ رکھ کر منمناتی چیخیں سنی ہیں ،۔
ایک دو نہیں کئی لوگوں سے ایسا ہوا ، سب افغانوں نے ایک ہی جیسی آوازیں نکالی ،۔
اج اگر کوئی افغان پنجابی کے تعصب کی بات کرئے تو ؟ غور سے سنیں کہ وہ پنجابی کے تعصب کی بات نہیں کر رہا ہوتا
بلکہ پنجابی کے رحم اور مدد کا طلب گار ہوتا ہے ،۔
اپنی ہزار سالہ تاریخ میں ہند کو اپنی " دھر " سمجھنے والے افغان اگر امن اور عزت چاہتے ہیں تو ؟
کوشش کر کے اپنا غلہ خود اگانے کی کوشش کریں ،۔
اپنے لالچ پر قابو پائیں اور پنجاب کو لوٹنے کی جبلت کو قابو کریں ،۔
اب وہ زمانہ پھر نہیں آئے گا ،۔
رنجیت سنگھ کے بعد پنجابی اپنے مال کو افغانون سے بچانے کی کچھ کم کچھ زیادہ کوشش میں ہے ،۔
سردار داؤد جیسے لوگ اج بھی وہاں ہیں لیکن ان کا بس نہیں چلتا
ورنہ پاکستان پر حملہ کر کے مسلمان پاکستان کو مذید مسلمان کرنے کے نام پر ضرور حملہ کریں گے ،۔

جمعرات، 23 فروری، 2017

حکومت کون ہے ؟

حکومت ؟ یہ حکومت کیا ہے ؟
قائد اعظم کو خراب ایمبولینس !!!۔
راول پنڈی سازش ،افشاء ہو گئی تھی اس لئے سازش کہلوائی ، کمپنی باغ میں جب واقعی لیاقت علی قتل ہو گئے تو؟
قاتل نامعلوم ،۔
کشمیر میں قبائلی داخل کر کے جونا گڑھ اور حیدر آباد میں انڈیا کی مداخلت کو جواز فراہم کر دیا ،۔
ایوب نے حکومت سنبھال لی ، ملک پر قبضہ ، یہ قبضہ واگزار ہو ہی نہیں سکا اس کے بعد کی ہر حکومت فوج کی حکومت ہے ،۔
الیکشن میں ایوب نے خود کو سلیکٹ کیا
اور مادر ملت فاطمہ جناح ہار گئیں ،۔
سارے ملک میں “جھرلو” پھیر دیا ۔
 الیکشن کے نام پر سلیکشن ،۔

باری باری ،۔
اس دوران کی بات رہ گئی کہ ایوب سے ملک کا قبضہ یحی خان نے لے لیا یعنی فوجی سے فوجی نے ،۔
اس کے دور میں الیکشن کروائے گئے
لیکن مجیب الرحمان کی بجائے سلیکشن بھٹو صاحب کی حکومت بنائی گئی وہ بھٹو ایوب کو ڈیڈی کہتا تھا ،۔
ملک ٹوٹ گیا ، الیکٹ مجیب نے بنگلہ دیش میں حکومت سنبھال لی اور سلیکٹ بھٹو نے  پاکستان کی ،۔
اقتدار فوج کے ہاتھ میں تھا ، اقتدار الیکٹ لوگون کو منتقل نہیں کیا ، ملک ٹوٹ گیا الزام سیاست پر رکھ دیا ،۔
موجودہ پاکستان کی آبادی کی ننانوے فیصد آبادی کو ملک ٹوٹنے کے اسباب کا ہی علم نہیں ہے ،۔

پھر جنرل ضیاء " خود فوجی " آ گئے ،۔ ان کی حکموت کو مذہبی سہارا جماعت نے دیا ، سیاسی سہارے کے لئے شریف پیدا کئے گئے ،۔
سیاست کی نس بندی کر دی گئی ،۔
تعلیمی اداروں میں سایسی سرگرمیاں ختم کر دی گئیں
لیکن

کالج یونورسٹیوں میں قوم کی بیٹویں کی عصمت اور قوم کے بیٹوں کے کردار کے محافظ پیدا کر دئیے گئے جن کے نزدیک مخالف سٹوڈنس کی ٹانگیں تورنا ہی امت مسلمہ کی خدمت قرار پایا ،۔
معاشرے میں سے سیاست  کا بیج ہی ختم کر دیا گیا
سیاسی طور پر خصی قوم میں ستر کی دہائی کے بعد کوئی سیاست دان پیدا نہیں ہوا ،
اگر کوئی سیاست کے نام پر آگے آیا بھی تو وہ جی ایچ کیو کے گملوں میں اگا ہوا بونسائی ہی ایا ۔

پھر مشرف صاحب آ گئے ، انہوں نے چوہدری متعارف کروائے ،۔
مجھے یہ بتائیں کہ حکومت ہے کیا ؟
سب کے سب یا تو خود فوجی ہیں یا فوجیوں کے لائے ہوئے لوگ !،۔
تو حکومت کیا ہوئی ؟
ہم لکھنے والوں کو پہلے اپنا ذہن واضع کرنے کی ضرورت ہے کہ
حکومت ہے کیا ،۔ اداروں کا کردار کیا ہونا چاہئے اور اور کیا ہوا جا رہا ہے ؟
غلط کیا ہے صحیح کیا ہے ،۔
اس بات کا ادراک کرنے کے بعد ہمیں صرف اور صرف اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو کر پارٹیوں ، اداروں کے معاملے میں انتہائی غیر جانبدار ہو کر لکھنا چاہئے ،۔
روٹی روزی کی مجبوریاں بندے کو مجبور کر دیتی ہیں ،۔
اس کے لئے اپنی یونینز مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،۔
یونییز کی مضبوطی کا مطلب ہے کہ ہمیں ٹیم ورک کی تربیت اور تعلیم کی ضروت ہے
یونین میں ہر بندہ صدر ہی نہیں بنے ، بلکہ مینجر ، ورکر ، اور دیگر کئی عہدے بھی ہیں اور ہار جانے کی صورت میں خود کو سابق صدر کہلوانے میں بھی کوئی ہتک نہیں ہے ،۔

اس کے لئے بھی انے والی نسلوں کا اگر خیال ہو تو ؟
ایسے معاشرے کی تعمیر کے لئے ذہن سازی کی کوشش ہونی چاہئے ، جس میں ادارے اپنا اپنا کردار نیک نیتی سے ادا کریں عدالتوں کو مضبوط کریں تاکہ انے والی نسلیں ہی سہی ، محفوظ ماحول میں اسان زندگی گزار سکیں ۔۔


منگل، 14 فروری، 2017

ویلینٹائین ڈے کی حقیقت

ویلینٹائین ڈے کی حقیقت
*****************
انڈیا پر مغلوں کی حکومت  کا زمانہ تھا ،۔
جب مغربی اقوام دنیا کو اپنی کالونی بنانے  کے لئے نکلی ہوئیں تھیں ،۔
اکبر کے زمانے میں پرتگیزیوں کے چھاپے خانے کی مشین متعارف کروانے سے بھی پہلے کی بات ہے کہ
ابھی برطانیہ کے گورے  ہند میں پاؤں جمانے کی کوشش میں تھے لیکن پرتگیزی لوگ سندہ کی بستیوں کو لوٹ کر سمندر میں غائب ہو جاتے تھے ،۔
سفارتی محاذ پر مغربی اقوام کے سیانے لوگ ، تاجرون کے روپ میں ، مغل بادشاہوں سے تعلق بڑھانے کی کوشش میں تھے ،۔
اکبر کے دربار میں  ملاّ دو پیازہ اور بیربل کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی ،۔
مغربی اقوام کی سفیر اور تاجر ، کچھ بیربل کے ذریعے اور کچھ ملا دو پیازہ کے ذریعے  دربار تک رسائی حاصل کرتے تھے ،۔
اس دن چودہ فروری کا دن تھا ،۔
بیربل کی  دریافت پنجابی رقاصہ اس دن دربار میں  رقص کر رہی تھی ،۔
بیربل کے ساتھ پرتگال اور برطانیہ کے کچھ تاجر بھی اکبر بادشاھ کے دربار میں رقص و سرود کی یہ محفل دیکھنے کے لئے موجود تھے ،۔
ملا دو پیازہ بھی یہیں موجود تھا ،۔
بیربل نے رقاصہ کو سیکھایا ہوا تھا کہ
ملا کو تنگ کرنا ہے ،۔
پنجابی رقاصہ اس دن رقص کے ساتھ ساتھ جو گیت گا رہی تھی ۔
اس کا طرح مصرع تھا
مینوں ، ویل تاں دے” ۔
رقص کرتے کرتے رقاصہ ملا کے پاس جاتی ہے اور اپنا گھٹنا فرش پر ٹکا کر کہتی ہے
وے سوہنیا ،  ویل تاں دے ،۔
ملا  اس کے ہر دفعہ یہ کہنے پر اس کو ایک اشرفی عطا کرتا ہے ،۔
ملا کا یہ ایکشن دیکھ کر اکبر بادشاھ  ملا پر موتی نچھاور کرتا ہے ،۔
پنجابی رقاصہ اور بھی ولولے سے گاتی ہے ،۔
وے ظالما ، مینوں ویل تاں دے ،۔
ہائے بالماں ، مینوں ویل تاں دے ۔
وے ہیریاں ، مینوں ویل تاں دے ،۔
جملے کی تکرار سن سن کر مغربی ممالک کے تاجر لوگوں کو یہ الفاظ یاد رہ جاتے ہیں ،۔
وہ تاجر لوگ یورپ واپس جا کر  اس دن کی یاد میں چودہ فروری کو  اپنی اپنی داشتاؤں اور دوستوں کے منہ سے کہلواتے ہیں ،۔
ویل تاں دے !!،۔
یورپی لہجے میں ویل تاں دے  کا تلفظ بگڑ کر  “ ویل تان ڈے “ بن گیا ۔
صدیوں کے گزرنے سے یہاں دیسی لوگوں کو یاد نہیں رہا اور مغربی اقوام ہمیشہ کی طرح  ہماری دیسی روایات کو چوری کر کے اپنی رسم بنا چکی ہیں ،۔
گامے پی ایچ ڈی کا پیغام ہے
کہ
اس پوسٹ کو اتنا شئیر کریں کہ سب دیسی لوگوں تک پہنچ جائے کہ
ویل ٹان ڈے  ،حقیقت میں ویل تاں دے  کا بگڑا ہوا  لفظ ہے اور یہ خالص دیسی اور مغلیہ دوری کی شغلیہ  رسم  ہے ،۔

پیر، 13 فروری، 2017

اللہ نوں وکیل کرن والے

پاء مصطفٰے کے مشکل دنوں کی بات ہے کہ
اس کے گاؤں کے لڑکے کہنے لگے
کہ
آپ پارٹس کے کنٹینر دبئی بھیج دیا کریں ، ہم اپ کو  مال بیچ کر رقم بھیج دیا کریں گے ،۔
پاء مصطفے نے بڑی مشکل سے رقم وغیرہ کا انتظام کیا اور کنٹینر بھر کا مال دبئی بھیج دیا ،۔
ساتھ ہی اپنے بھائی کو پاکستان سے دبئی جانے کو کہا کہ تھوڑی سیر ہو جائے گی اور مال فروخت کرتے ہوئے ذرا پاس ہونے سے  دبئی کے تارڈ والے کچھ ڈنڈی مارنے میں بھی جھجک محسوس کریں گے ،۔
پہلے کنٹنر کے پیسے بڑے معقول  آگئے تھے ،۔اس کے بعد دبئی والوں نے فیصلہ کر لیا کی پاء  مصطفے کو بس صرف بارہ لاکھ ہی بھیجنا ہے ،۔
ایک کنٹینر کا بارہ لاکھ ، اگلے مرحلے میں پاء مصطفے کے دو کنٹینر ایک ہی دن بھر کر بھیج دئے  اور ساتھ  ہی پاکستان والے بھائی سے کہا کہ دبئی گھوم پھر آؤ ، بھائی اپنا چاول کا کاروبار ہے جس کو وقت نکالنا بہت مشکل ہے لیکن پھر بھی پاء کا بھائی دبئی پہنچ گیا ۔
مال ابھی بک رہا تھا اور لگتا تھا کہ ابھی تین اور لگ جائیں گے کہ
پاء کے چھوٹے بھائی کو فوراً پاکستان جانا پڑ گیا ،۔
پاء نے اس کو کہا بھی کہ دبئی والا منڈا ٹھیک نہیں ہے اس پر اعتبار نہیں کرو ،۔
دبئی کے یارڈ پر کام کرنے والے ایک ملک صاحب نے بھی پاء کے بھائی کو کہا کہ اپنا مال یہاں کھڑے ہو کر  فروخت کرو ۔
لیکن  پاء کے بھائی کی مجبوری بھی تھی اور کچھ ان اللہ لوک  بھائی میں اللہ پر اعتماد کی بھی انتہا ۔
کہ
پاء مصطفے کا بھائی کہتا ہے
میں اللہ کو وکیل کھڑا کر کے جا رہا ہوں ، بس ، اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔
دبئی والے لڑکوں نے اپنی سی ہی کی کہ دو کنٹنیر کا بھی بارہ لاکھ بنا کر بھیج دیا ۔
دو کنٹنیر میں صرف سکریپ ہی پچاس ٹن ہو جاتا ہے جو کہ اگر جاپان میں مارکیٹ میں بھی بیچا جاتا تو   پچیس لاکھ کا مال تھا ،۔
پاء مصطفے  اپنے بھائی کو فون کر کے بتاتا ہے کہ
فیر بارہ لاکھ آیا ہے ،۔
پاء کا بھائی کہتا ہے
فیر پاء جی یہ پیسے ہمارر مقدر میں تھے ہی نہیں ۔ کہ
اللہ  کی یہی مرضی ہو گی ،۔
چلو ٹھیک اے جی ۔
اللہ اللہ تے خیر صلّا !!،۔
چھ ماھ کی مدت میں کوئی پانچ ملین روپے کا نقصان کر کے دونوں بھائی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے
اللہ جی دی  مرضی !!!،۔

کوئی چھ ماھ اور گزرے کہ پاء مصطفے تنزانیہ جاتے ہوئے  دبئی سے گزر ہوا ، پاء کے دل میں خیال آیا کہ دبئی والوں کے یارڈ پر جا کر دیکھ ہی آئے کہ
اللہ کی مرضی کیا تھی ۔
دبئی والوں کا چھوٹا بھائی یارڈ کے دروازے پر ہی مل گیا
بڑے تپاک سے ملا ، پاء جی اپ نے بتانا تھا میں آپ کو ائیرپورٹ لینے آ جاتا ،۔
پاء مسکرا کر طرح دے گیا
اور پوچھتا ہے ،۔
اوئے ، یارڈ اجے وی قائم جے ؟؟
نئیں پا جی یارڈ تے وک گیا جے ، بس میں ایتھے کاغذاں تے سائین کرن لئی کھلوتا ہویا جے (نہیں بھائی جی یارڈ تو بک چکا ہے ، میں بس یہاں کاغذوں پر سائین کرنے کو کھڑا ہوا ہوں ،۔)۔
پاء  مصطفے نے وہاں سے نکلتا بنا ، دبئی والوں کا چھوٹا بھائی کہتا ہی رہا کوئی پانی شانی کوئی روٹی شوٹی ۔۔
پاء مصطفے اندروں بہت ڈریا ہویا
کہ
اے تے اللہ  دی وکالت وچ پکڑے گئے نئیں ، اینہاں دے کول کھلو کے کلے میں وی لپیٹ وچ نہ آ جاواں
کیوں کہ پاء  مصطفے ، اللہ کولوں بڑا ڈردا اے !!،۔

جمعہ، 10 فروری، 2017

تیسری دفعہ کا ذکر

کہیں کسی جگہ دو سادھؤں کی ملاقات ہوئی ۔
ایک دوسرے سے پوچھتا ہے ،۔
جس پنتھ کے چیلے ہو ؟
دوسرا جواب دیتا ہے
میں پنتھ وچار کچھ نہیں جانتا
تم  اپنا آٹا دیکھاؤ اور میرا بھی دیکھ لو
کہ
آٹا کس کے پاس زیادہ ہے !!،۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے
کہیں کسی جگہ  دو مولویوں کی ملاقات ہوئی
ایک دوسرے سے پوچھتا ہے
کس مسلک کے ماننے والے ہیں ،۔
دوسرا جواب دیتا ہے
مسلک شسلک چھوڑو
مجھے اپنا بتاؤ اور میں اپنے بتاتا ہوں کہ
ایجنسیوں میں تعلقات کس کے زیادہ ہیں !!!،۔
اس ملک میں چندا اس کو زیادہ ملتا ہے جو  بدکارِ سرکار کو  کارِ خیر ہونے کا واعظ کرنا جانتا ہے !!م،۔۔

تیسری دفعہ کا ذکر ہے ۔
کہیں کسی جگہ
۔
۔
۔
۔
چھڈو پراں مٹی پاؤ !!،۔
سانوں کی !!۔

اتوار، 5 فروری، 2017

سرطان یعنی کینسر کا علاج اور اوپدیو

جاپان جہان ہر دوسرا شہری سرطان کے خطرے سے دو چار ہے
یہاں ، سرطان کی دوا دریافت ہو چکی ہے ،۔ کوئی ایک فیصد لوگ بلکل شفا یاب ہو جاتے ہیں اور باقی کو بھی خاصی شفا ہوتی ہے ،۔ یہ دوائی ابھی نئی ہے ، مارکیٹ میں دوہزار دس کہ بارہ  میں آئی تھی ، چار سال میں اس کی کوالٹی کا ڈیٹا بن رہا ،۔
انے والے دنوں میں آپ اس کے متعلق سننے لگیں گے
اوپدیو (http://www.opdivo.com/) نامی یہ دوا خاصی زیادہ مہنگی ہے ،۔
کوئی چھتیس لاکھ ین سالانہ کا خرچا ہے۔
جاپان جہاں کہ بیماری کا ستر فیصد خرچا انشورنس کور کرتی ہے ،۔
یہان ڈاکٹر دوائی لکھ کر دیتے ہوئے اس بات کا بلکل بھی خیال نہیں کرتے کہ دوائی کی قیمت کیا ہے
بلکہ ڈاکٹر صاحباں کو دوائی کی قیمت  علم بھی کم ہی ہوتا ہے ،۔
ڈاکٹر کا متمٰنی نظر مریض کا علاج ہوتا ہے نہ کہ مریض کی جیب کی حفاظت ،۔
 جاپان میں دانش ور اس بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ  سرطان کی علاج کو کیسے سستا کیا جاسکے ،۔
اوپدیو (opdivo) نامی دوا ایک بہت بڑی دریافت تھی ، اس دوا کی تحقیق پر کوئی 100,000,000,000 ین کی رقم خرچ ہوئی تھی ،۔
دوائی بنانے والی کمپنی کے منافع کے لئے حکومت نے اوپدیو نامی دوا پر 27 فیصد تک کا منافع رکھنے کی اجازت دے دی تھی ،۔
جو کہ رائج اصول کی شرٖح سے دس فئصد زیادہ ہے م،۔
رائج اصول میں منافع کی شرح 17 فیصد ہے ،۔
جاپان جو کہ داوائیوں کی تحقیق اور تکنیک میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر کا ملک ہے ،۔
یہاں سرطان کی دوا اس حد تک مہنگی ہے کہ ، قوت خرید رکھنے والی جاپانی معیشت بھی اس دوا کی مہنگائی سے پریشان ہے ،۔
جاپان سے باہر کے ممالک جو کہ اس دوا کو ایمپورٹ کر کے اپنے شہریوں کے علاج کا پروگرام رکھتے ہیں ،۔
ان کو مہنگی دوا کی قیمت کے علاوہ ٹرانسپوٹ کا کرایہ اور کسٹم ٹیکس اور دیگر ٹیکس ادا کر نے کے بعد یہ دوائی اور بھی مہنگی  کر کے علاج کے لئے مہیا کرنی پڑے گی ۔

سرطان ایک ایسی بیماری ہے کہ جس ہر کوئی دو اثر نہیں کرتی تھی ، ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی  کوئی دوا یا بیکٹریا ، یا کہ کوئی بھی ایسی چیز کو سرطان کے خلاف ہوتی تھی اس کے نزدیک آنے پر سرطان خود کو سمیٹ کر سخت کر لیتا تھا ،۔
اوپدیو میں یہ کوالٹی ہے کہ یہ سرطان کے خلیون میں داخل ہو کر  جسم کے مدافعتی نظام کو سرطان کے خلاف فعال کر دیتی ہے ،۔
اس لئے اب یہ ممکن ہو سکا ہے کہ سرطان پر قابو پایا جا سکے ،۔

Popular Posts