بدھ، 15 نومبر، 2023

اچھا ہونے کا سرٹیفکیٹ

 ایک کشمیری دوست جس کا مطالعہ بھی بہت ہے ، بہترین پنجابی بولتا ہے ، کبھی کشمیری میں بات کرتے نہیں سنا ، خود کو افغان نسل کشمیری ہونے کا فخر بھی کرتا رہتا ہے ،۔

بڑا پیارا بندہ ہے ،۔
چند دن پہلے پنجابیوں کو نیچ اور کمتر بتانے کے لئے طرح طرح کی دلیلیں دینے لگا ،۔
مثلا پنجابی بد ترین دوست اور بہترین غلام ہوتے ہیں ،۔
میں کہا کہ یہ فقرہ ایک افاقی فقرہ ہے ، جو کسی بھی قوم پر کوئی بھی قوم حسد میں اس کا نام فٹ کر کے بتا دیتی ہے ،۔میں نے اس کو اپنے گاؤں کا ایک واقعہ بتا کر شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک فارسی شعر اور ترجمعہ بھی بتایا تھا جو کہ پوسٹ کے اخر میں ہے۔

ہیر وارث شاھ کے جب اس شعر پر پہنچے ۔ْ

وارث شاھ نئیں پتر فقیر ہوندے
جٹاں موچیاں تیلیاں دے
وہاں ایک جاٹوں کا لڑکا تھا جس کا باپ گاؤں میں گھر جنوائی تھا ، اسکو بہت غصہ آیا تھا کہ وارث شاھ نے یہ کیا لکھ دیا ہے ہم جاٹوں کو کن لوگوں کے ساتھ ملا کر لکھ دیا ہے ،۔
حالانکہ باپ اس کا گھر جنوائی تھا اور خود نانکے گھر پل رہا تھا اور بڑا بھائی چمڑے کا کاریگر (لیدر ٹیکنالوجی کالج گوجرانوالہ میں) بن رہا تھا ،۔

فارسی کا شعر

اگرقحط الرجال افتد، بہ ایں سہ انس کم گیری
اول افغان، دوم کمبوہ، سوم بد ذات کشمیری

اردو ترجمہ
اگر کبھی افراد کا قحط پڑ جاۓ تو بھی ان تین قسم کے افراد کی دوستی سے پرہیز کرنا ‘ پہلا افغانی ‘ دوسرا کمبوہ ‘ تیسرا بدذات کشمیری ۔
راقم جو کہ نسل برتری یا کمتری کے فلسفے کے خلاف انسانون کی ذاتی صلاحتوں کو اس کی اعلی یا کمتر ہونے کی دلیل مانتا ہوں ، میرے منہ سے فارسی کا یہ شعر کشمیری دوست کے علم تھا کہ نہیں ، بہرحال سرکار دو عالم ﷺ نے اچھی عادتوں کے مالک کے اچھے انسان ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہوا ہے ،۔
راقم کے خیال میں سرکارﷺ کے سرٹیفکیٹ کو دلیل مانلینا چاہئے ،۔

ہفتہ، 19 اگست، 2023

مطالعہ پاکستان

 میں سوشل میڈیا پر عرصہ بائیس سال سے ہوں ، فیس بک کی پیدائش سے بہت پہلے سے بلاگ لکھ رہا ہوں ، بلاگ پر اور بعد میں فیس بک پر کومنٹس میں کم عقلوں اور ذہنی مریض لوگون کو ایٹینڈ کرتے ایک عمر گزر گئی ہے ،۔


ایک گورا انگریز دوست تھا جس کا دادا پاکستانی تھا (بنگالی یعنی اکہتر سے پہلے پاکستانی)، ایلی نام کا یہ گورا کم عقلوں کو کہا کرتا تھا ،۔
تم جتنا نالج رکھتے ہو اس سارے نالج کو ایک ڈاک ٹکٹ کی پشت پر لکھا جا سکتا ہے ،۔(حالانکہ ان میں ایسے بھی لوگ ہوا کرتے تھے جو اپنی کتابیں چھپوا کر لوگون کو تحفے میں دیا کرتے تھے )۔
کون لوگ ہیں یہ ؟
سوشل میڈیا میں ان ان لوگون کو مطالعہ پاکستان والے کہا جاتا ہے ،۔
یہ مطالعہ پاکستان کیا ہے ،۔
علامہ اقبال ، قائد اعظم ، اسلام کا سنہرا ماضی کشمیر کی شہہ رگ اور بہت سی باں باں باں باں باں ۔۔ْ
کسی سانے کا قول ہے کہ دنیامیں پچانوے فیصد لوگ شخصیات پر بات کرتے ہیں ، تین فیصد واقعات پر اور دو فیصد نظریات پر ،۔
مطالعہ پاکستان کے ذہنی طور پر تباہ کردئے گئے ہوئے لوگ پچانوے فیصد ہیں ، یہ اگر کچھ لکھیں گے بھی تو ، شخصیات پر لامہ کبال ،قید اعظم ، اپنا چوہدری ، اپنا ملک اپنا رانا ، اپنا اپ اور میں میں میں میں میں !،۔
اور اگر کسی کے لکھے پر کومنٹس بھی کریں گے تو اپنے علم اور عقل کے ہنکار میں لکھاری کو تعلیم دینے لگے گے کہ
لیکن اسلام ، لیکن قید اعظم ، لیکن لامہ کبال ،۔
باں باں باں باں !،۔
نہ عقل نہ علم نہ ذوق ، لیکن ہنکار ایسا کہ علمی علقی اور تکنیکی طور پر کسی کو اپنے مقابلے میں تسلیم ہی نہیں کریں گے ،۔
پچھلے پانچ دہائیون سے پاکستان میں چار ایسی نسلیں تیار کی گئی ہیں جو خود کو عربی ایرانی افغانی اور ترکی سمجھتے ہیں ،۔
اگتے پلتے پنجاب میں ہیں اور مغالطے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کی جڑیں مکے مدینے میں ہیں ،۔
مطالعہ پاکستان میں والون کی جو تعریف لکھی ہے ، میرے سوشل میڈیا کے وہ دوست سبھی جانتے ہیں ، سوائے میرے ان فرینڈر کے جو میں نے جان پہچان کی وجہ سے فرینڈز بنا رکھے ہیں ،۔
مطالعہ پاکستان والون کو علم عقل تکنیک سے کوئی غرض نہیں ہے ، انہوں نے بس اپ کو زچ کر کے رکھنا ہے ،۔
ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ انکو یا تو ان فرینڈ کردو ، بلاک کر دو ، لیکن اس سے بھی بڑی سزا یہ کہ انکو اگنور کرو ،۔
خود ہی مرجھا جائیں گے ،۔
ایک دوست کہا کرتے تھے کہ جاہل کی سب سے بڑا سزا یہ ہے کہ اس کو جاہل ہی رہنا دیا جائے اس کو علم کی بات بتائی ہی نہ جائے ،۔
لیکن میری خیال میں یہ بہت بری بات ہے ،۔
ریاست نے اگر انکے ساتھ طلم کیا ہے تو انسانیت کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی شامل رکھیں بس اگنور کریں اہل علم کے مکالمے دیکھ دیکھ کر شائید مطالعہ پاکستان کا وائیرس کمزور ہو جائے ،۔

جمعرات، 3 اگست، 2023

بابا نانک

 بابر بہ عیش کوش 

کہ عالم دوبارہ نیست

مغلوں کے جد امجد  بابر کو بھی علم تھا کہ ایک اور زندگی سوٹ کیس میں نہیں رکھی ہوئی اس لئے اسی زندگی سے عیش کرنی ہے 

لیکن

اسنے ظلم کو عیش سمجھا تھا 

اور 

پنجابی کا ایک شعر ہے کہ کر کے ظلم عروج تے اون والے 

اینی گل دا زرا خیال رکھیں 

اوچی ہوا وچ جا کے پاٹ جاندے ، جنہاں گڈیاں نوں کھلی ڈور ملے ،۔

 ابراہیم لودی کے اسلام کو کینسل کر کے اپنا اصلی اور پستے بادام والا اسلام لے کر بابر جب کابل سے چلا تھا تو ۔

پنجاب کے عظیم درویش  بابا جی نانک نے اسکو سوروں کی بارات کہا تھا ،

تگانے دا منگدا دان وے لالو 

اے کیڑا پرداھان وے لالو

بابر کی چڑھتل تھی ، اقبال تھا ، کہ ظالم نے بابے نانک کو پکڑ کر چکی پیسے پر لگا دیا ،۔

نانک ایک شخصیت کا نام نہیں تھا ، ناناک ایک روح کا نام ہے ، ایک نیکی کا نام ہے ناناک ایک برکت کا نام ہے ، جو مرتی نہیں ہے ، ۔

اور ظلم خلاف چلتی رہتی ہے ،۔

بابے کے ایک داس مان سنگھ نے بابر کی نسل کے اخری  شاھ ظفر کو ہتھکڑی لگا کر  انت کر دیا تھا ، مان سنگھ  گوجرانوالہ کے قصبے منڈیالہ کا ایک سکھ تھا جو میجر ہڈسن کے ساتھ گیا تھا بہادر شاھ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون بھیجنے کے لئے ،۔

بابا جی  ناناک بھی کوئی دور کے نیں تھے یہی تلونڈی کے تھے جس کو اج ننکانہ صاحب کہتے ہیں ،۔

وسدا رہے پنجاب 

کہ ڈاکٹر منظور اعجاز صاحب نے قادر یار کے قصہ پورن بھگت کو بھی پنجاب کا قصہ کہا ہے کہ پورن (پنجاب)کو کنوئیں سے نکال کر ہاتھ پاؤں دینے والا جوگی کوئی اور نہیں تھا بلکہ بابا جی نانک درویش تھے ،۔

جمعہ، 19 مئی، 2023

ریڈ سکوائیر ، ماسکو

 چھتیس سال پہلے  کی یہ بات مجھے کل کی کسی یاد کی طرح یاد ہے ،۔

کہ  ماسکو کے لینن سکوائیر پر ایک ایک چھوٹا جہاز لینڈ کر گیا تھا ،۔

سویت یونین ، آہنی دیوار  ، سرد جنگ ،   روس ایک اسرار تھا اس دور میں ، روس کے اندر کی ریڈ سکوائیر کی فوٹو دیکھنا ایک بڑی بات تھی ، فن لینڈ سے اڑ کر ماسکو تک کا  انیس سالہ مارتھیس روست  کا یہ سفر خوش قسمتی کی مثال ہے ، سویت  یونین کے  ڈیفینس کے نظام  کی نظروں میں فرینڈ فلائیٹ   کی طرح تڑیٹ ہوتے ہوئے ماسکو تک پہنچ گیا ،۔

غیر قانوی طور پر روس میں ڈاخل ہونے کے جرم میں اسکو چار سال  کی سزا ہوئی تھی ،۔

کوڈ وار کے اوج کا زمانہ تھا ، روسی فوجیں افغانستان میں  مجاہدین سے لڑ رہی تھیں ، ضیاء صاحب زندہ تھے  اور مجاہدین کی کمانڈ  کر رہے تھے ،۔

پاکستان میں جماعت اسلامی ڈھڑا دھڑ  زندگ سے اکتائے ہوئے مرنے مارنے پر تلے ہوئے روبوٹ تیار کرنے کی فیکٹریاں (جہادی مدرسے) بنا رہی تھی ،۔

شہیدوں کی میتیں پنجاب کے گاؤں دیہاتوں تک پہنچ رہی تھی ، افغان مہاجر کیمپ بھرے ہوئے تھے ،۔

ڈالروں کی ریل پیل تھی ، 

یارو کیا زمانہ تھا ؟ لگتا تھا کہ اب انسانیت فلاح پا ہی جائے گی ،۔

میں اور میرا بھائی بھی اپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور اسلحہ بناے کی فیکٹری میں کام  ،کمائی کے لئے علاقہ غیر ، درہ آدم خیل گئے تھے ، جہاں ہمیں بتایا گیا کہ جہاد میں امریکہ امداد کی وجہ سے لوکل اسلحہ کی مانگ ختم ہو چکی ہے ، اس لئے کچھ اور سوچو ،۔

واپسی میں روالپنڈی کے ایک ریسٹورینٹ میں روٹی کھاتے ہوئے ، اتھ کی ٹیبل پر امریکی بیٹھے تھے ،۔

جہاں سے میرے دل میں خیال آیا کہ امریکہ جیسے گریٹ ملک کیوں نہ چلا جایا جائے ۔

میں نے بھائی سے کہا یہ امریکہ بیٹھے ہیں میں ان سے بات کروں کہ یار مجھے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاؤ ،۔

بھائی نے کہا کیسی عجب بات کر رہے ہو  کس منہ سے  کوروں کو بات کر کے تنگ کرو گے ،۔

جو بھی ہوا یہی سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ عربوں کے علاوہ کے کسی ملک جانا ہو گا ،۔

اور ایک سال بعد میں جاپان مزدوری کرنے پہنچ چکا تھا ،۔

سویت یونین ، کولڈ وار ، آئیرن وال ، قصہ پارینیہ بن چکے ، سویت یونین کی تحلیل کے بعد  دو نسلیں پیدا ہو کر جون ہو چکی ہیں ،۔

لیکن کولڈ وار کے لئے جو جنگی روبوٹ تیار کئے گئے تھے ، میری قوم کی جو برین واشنگ کی گئی تھی ، وہ یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ سینکڑوں سال لڑنا پڑے گا ،۔

اللہ نے بڑا احسان کیا کہ سویت یونین کو ہی تحلیل کر دیا ،   لیکن اس زہر کے نکلتے نکلتے زمانے لگیں گے جو زہر میرے وطن کی تعیم میں گھول دیا گیا ہے ،۔

روس  کی آئیرن وال کو پار کر کے سویت یونین کے قلب تک پہنچ جانے والے ، انیس سالہ ڈچ لڑکے کے اس ایڈوینچر کو چھتیس سال ہونے کو ہیں ،۔

خاور کھوکھر

بدھ، 17 مئی، 2023

کرایہ مانگتے بھکاری

 کرایہ مانگتے  سفید پوش کا روپ دھارے بھکاریوں کی کی  تکنیک سے مجھے دو واقعات یاد آ گئے ،۔

گوجرانوالہ میں ستر کی دھائی میں مشہور بد معاش ہوا کرتا تھا ، ماجو بدمعاش ۔

وہاں شیخو پورا موڑ پر  ، بس موڑ ہی ہوا کرتا تھا ، ادرد کرد کھیت کھلیان تھے ، یا پھر سڑک سے ہٹ کر (جیسا کہ اس زمانے میں رواج تھا ) کچھ مکان تھے ،۔

وہاں کسی بندے کے کرایہ دار  نہ کرایہ دیتے تھے نہ گھر خالی کرتے تھے ،۔

جب بھی مالک مکان دروازہ کھٹکٹاتا ، اندر نے  ایک کپتی زنانی نکلتی تھی جو  مالک کو کوسنے اور گالیاں دیتی تھی ۔


وہ بندہ ماجو بدمعاش کے پاس یہ کیس لے کر گیا ، کہ  کچھ کرو جی ، جو ٹیکس وغیرہ طے ہوا ، ماجو نے یہ کیس لے لیا ،۔

اگلے دن جب دن نکلا کہ کوئی دس بجے کا وقت ہو گا ، زنانی اکیلی تھی بندہ کام پر گیا ہوا تھا کہ ماجو وہاں مکان پر پہنچ گیا ،۔

لمبے لڑوں والا رنگیلا تہمد باندھے  ماجو کو سبھی جاتے تھے کون ہو گا جس نے گوجرانوالہ میں ماجو کا ٹہکا نہیں دیکھا ہو گا ،۔

دروازہ کھٹکٹانے پر کپتی خاتون نکلی ، ماجو نے پئین جی سلاما لیکم کہ کر بات شروع کی 

کہ پئین جی گھر خالی کردو جی ،  ماڑے بندے کا گھر ہے ، تہانوں ثواب ہوئے گا ،۔

کپتی زنانی نے ماجو کو بھی گالیوں پر رکھ لیا ، وڈا بدمعاش ہوئیں گا تے گھر تے ہوئیں گا ، اساں کوئی نئیں خالی کرنا مکان ،۔

مکان خالی نہ کرنے کا انکا ارادہ  ماجو نے میک شیور کر لیا !،۔

کہ واقعی ہیں بھی یہ کرایہ دار ہی اور نکلنے کا ارادہ نہیں ہے ،۔


اس دور کے پنجاب میں عورتون کو مان ہوا کرتا تھا کہ کوئی بدمعاش کسی عورت پر ہاتھ نہیہں اٹھائے گا ، عورت کے سامنے سب بدمعاش کترا کر نکل جاتے ، یہ للکارا مارتے تھے کسی مرد کو نکالو ، اب زنانی سے کیا لڑائی کرنی ،۔


ماجو بھی اسی دور کا ایک رواتیی کردار بد معاش تھا لیکن تھا ہتھ چھٹ۔ْ


ماجو نے اگے بڑھ کر زنانی کی کلائی پکڑی اور پئین میریے  غصہ نہ کر    کہتا ہوا  کھینچ کر سڑک پر لے آیا ،۔

شیخو پورہ جانے والی بس گزار رہی تھی ماجو نے ہاتھ دے کر کھڑی کی تھی کہ کلینڈر چھال مار کے اترا اور ماجو کے پاس  آیا ، کی گل اے پاء ماجو َ پوچھا ہے کہ  ماجو سوال جڑ دیتا ہے ، مینوں جاندا ایں ؟

جی پاء ماجو !،۔ کلینڈر منمناتا ہے ،۔

تے فیر سن اے میری پئین اے تھے اسکو شیخوپورے تک پہنچنا ہے ،۔

یہ لڑائی کر کے آئی ہے لیکن تم نے اس کو اترنے نہیں دینا اور خبردار کرایہ پوچھا تو ،۔

کپتی زنانی نے بہت شور مچایا لیکن کلینڈر اور اس کے ہیلپر نے ، پئین جی پئین جی کی تکرار کرتے بس میں دھکیل کر ، چلو استاد جی کا للکارا مارا اور یہ جا وہ جا ،۔

ماجو نے جو سمان تھا چند صندوق اور چارپائیاں نکال کر باہر رکھی اور مکان خالی ،۔


اسی کی دہائی  تک گوجرانوالہ کے لاری اڈے کو بلھے دا کوٹ   یا باہرلا اڈھ کہہ کر پکارتے تھے ،۔

لائیلپور ابھی نیا نیا مشرف بہ سعودیہ ہو کر فیصل آباد بن چکا تھا لیکن  بہت سے لوگ لائیلپور ہی کہتے تھے ،۔

کوہستان کی بس سروس چلتی تھی لائیلپور سے راولپنڈی اور راجہ ٹریول چلتےی تھی لائیلپور سے سیالکوٹ ،  فیصل آباد سے گوجرانوالہ تک اس دونوں کمپنیوں کا مقابلہ ہوا کرتا تھا سروس میں تیزی میں ،۔

بھٹی کی گاڑیاں کوہستان میں چلتی تھی 

راجہ اور کوہستان بلکہ نیوخان(لاہور سے راولپنڈی) کے سارے ڈرائیور کلینڈر بھٹی کو جاتے تھے ،۔(جیسا کہ اس زمانے میں رواج تھا) ۔۔

دو بیبیاں اور انکے ساتھ ایک سفید باریش مرد اور ایک ٹین ایج لڑکا  تھے جو جیب کٹنے کا بہانہ بنا کر فیصل آباد تک کا کرایہ مانگ کر کمائی کر رہے تھے ،۔

خیبر ہوٹل  سے سڑک کی مخالف سمت طارق ترپال ہاؤس اور گولڈن پمپ والوں کے گیٹ کے سامنے  یہ مانگتوں کا ٹولا بھٹی کے ہتھے چڑھ گیا ، بھٹی تھوڑا ٹن بھی تھا (سب کو علم تھا کہ بھٹی دیسی پیتا ہے)،۔ 

بھٹی انکو کہتا ہے میرے ساتھ آؤ ،۔

 سفید پوش سیاھ کار لوگ ، بھٹی کے پیچھے چل پڑے کہ  سو دو سو اکٹھا ہی مل جائے گا ،۔

سامنے کالٹیکس کا پٹرول پمپ تھا (یہ پمپ تلونڈی موسے خان کے چیمے جاٹون کا تھا اقبال چیمہ)جہاں فیصل اباد جانے والی سبھی گاڑیاں چند منٹ کا سٹاپ کر کے سواریاں اٹھاتی تھیں ۔ْ

بھٹی نے بھی ماجو بدمعاش والا واقعہ سنا ہوا تھا ، بھٹی نے ماجو سٹائل میں 

کلینڈر اور ڈرائیو کو کہا 

کہ یار یہ میری اپنی سوریاں ہیں  انکو فیصل آباد تک لے کر جانا ہے ،۔

مانگت جو سفید پوش کے روپ میں تھے اپنی بات سے مکر بھی نہیں سکتے تھے ، فیصل آباد کا ہی تو کہا تھا اور بس بھی فیصل آباد ہی جا رہی ہے ،۔

شرمو شرمی بس میں چڑھ گئے شائد انکے ذہن میں ہو گا کہ چند کلو میٹر بعد اتر جائیں گے ،۔

لیکن بھٹی بھی ایک پرزہ تھا ، کلینڈر کو حکم دیتا ہے ،۔

اوئے کرایہ وی نئیں لینا ہے ، اور راستے میں اترنے بھی نہیں دینا ، سواریاں فیصل آباد سے اگر ایک بھی سٹاپ پہلے اتر گئی تو ، میں تمہاری ۔ ۔ ۔  ماروں گا ۔ْ

اس دن کے بعد میں نے کبھی کوئی بندہ کرایہ مانتا ہوا لاری اڈے کے پاس نہیں دیکھا ،۔

سارے شہر میں نظر آئیں گے لیکن لاری اڈے پر نہیں کہ 

پتہ نئیں کون ٹن بھٹی بسوں کا مالک نکل آئے اور  اس کی بسیں بھی وہیں جاتی ہوں ،۔

پیر، 2 جنوری، 2023

بلاگنگ کے بیس سال

 
وقت کتنی جلدی گزر جاتا ہے ، 2003 ، 2004، گردش ایام کہ میں ان دنوں سپین کے شہر بار سلونا میں کچھا پہنے سمندر کنارے ، بہت سی پریشانیاں اور کرب اٹھائے گھوما کرتا تھا ،۔

باسمتی چاولوں کے بیگ میں ایپل کا کمپیوٹر پاور بک لئے ہوتا تھا ،۔
باسمتی کے بیگ میں ڈالنے میں راز یہ تھا کہ یورپ میں چھینا جھپٹی بہت ہے ، بارسلونا میں بربر لوگ قیمتی چیزیں چھین لیا کرتے ہیں ، میں جوان تھا ، لڑائی بھڑائی میں بھی دو تین پر بھاری تھا
لیکن کراٹے کے استادوں نے سیکھیا تھا کہ لڑائی کرنا بہادری نہیں لڑائی سے بچنا بہادری ہے ، اس لئے کمپیوٹر چاول کی بوری میں ڈالا ہوتا تھا کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک بہت قیمتی چیز بوری میں بھی ہو سکتی ہے ،۔
پاور بک میں یونی کوڈ میں دنیا بھر کی بہت سی زبانون کے یونی کوڈ تھے ، عربی اور اردو کے بھی تھے لیین ابھی اردو کا نام نہیں تھا ، میں نے عربی اور اردو فارسی کے یونی کوڈ کے مکس سے ایک کی بورڈ بنا لیا ،۔
یہ 2003ء کی ہی بات ہے جب بی بی سی والون نے اردو کی یونی کوڈ اردو کی سائیٹ لانچ کی تھی جس بات سے مجھے یونی کوڈ اردو کے متعلق علم ہوا ، انہی دنوں انسائکلو پیڈیا "وکی " والوں کی سائیٹ لانچ ہوئی ، وکی پیڈیا والوں کا کہنا تھا کہ یہ ساری زبانوں میں ہو گا اور لوگ خود ہی اس کو بنائیں گے چلائیں گے ، بس وکی ہیڈیا پلیٹ فارم ہو گا ،۔
یونی کوڈ کی بورڈ تو بنا چکا تھا اس لئے چلتے ہاتھ وکی پیڈیا پر اردو کے انسائکلو پیڈیا سٹینڈ کر لیا ،۔
انسائیکلو پیڈیا تو بنا لیا لیکن تعلیم کی کمی کہ اس پر لکھوں کیا ؟
تو جو اپنی جنم بھومی نزدیک کے گاؤں دیہات تھے انکا ہی لکھنا شروع کر دیا ،۔
وکی پر ہی بلاگ بھی لکھنا شروع کر دیا ، چند ماھ میں ہی کئی لوگ وکی پر شامل ہو گئے ، دبئی میں رہنے والے ایک انڈین نے وکی سے بلاگ ڈلیٹ کر کے مجھے بتایا کہ بلاگ بنانا ہے تو علیحدہ سے کہیں بنائیں ،۔
ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا ، جب مجھے  2004ء میں “ بلاگر “ کا علم ہوا اور میں نے بلاگر پر اہنا بلاگ بنایا ، اس وقت  اردو میں بننے والا میرا بلاگ دوسرا کہ تیسرا بلاگ تھا ، پہلا اور دوسرا بلاگ ختم ہوئے مدت ہوئی ، اس وقت اردو کا سب سے پرانا بلاگ ہے تو میرا بلاگ ہے ، جس پر اج جب میں نے پوسٹ کی تو آرچیو میں بیس سال نظر آ رہے ہیں ،۔
بیس سال کی گنتی دیکھ کر دل خوش ہوا ، جب میں نے بلاگ شروع کیا تھا تو لوگوں کو لفظ بلاگ کا بھی بتانا پڑتا تھا ، کہ بلاگ ویب پر لکھی ہوئی لاگ بک  کے مخفف کو کہتے ہیں ،۔۔
فیس بک اس کے کہیں بعد میں آئی فیس بک اور ٹویٹر کو مائیکرو بلاگنگ بھی کہا گیا ،۔
فیس بک پر مولوی اور مولوی کو بنانے والے فوجی کے خلاف  لکھ کر جب کچھ لوگوں کو مولوی نے اغوا کر لیا تو اردو کے قارئین کو بھی بلاگرز اور بلاگنگ کا علم ہوا  ، ْ
اج 2023ء میں کالم نگار بھی خود کو بلاگر کہتے ہیں ، یا کہ ایک لفظ رائج ہوا ہے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، اج اپ مجھے
سوشل میڈیا ایکٹیو کہہ سکتے ہیں کہ میں بھی اس وقت بلاگ کی بجائے فیس بک پر زیادہ لکھتا  ہوں ،۔

اللہ کرئے کہ اپ کا یہ سال خوشیون بھرا ہو  اور اللہ تعالی مجھے اور میری اولاد کو برکت عطا فرمائیں ،۔
آمین
خاور کھوکھر

پولن الرجی

 پولن الرجی
میں اپ کو اس الرجی کا " حل " بتاتا ہوں ، میں نے حل لکھا ہے علاج نہیں ، کیونکہ جو میں بتانے جا رہا ہوں ، وہ دوائی نہیں ہے ،۔
پولن الرجی کسی ایک ہی درخت کے بیچوں سے نہیں ہوتی بلکہ کئی درخت ہیں جن کے بیج الرجی کا باعث بنتے ہیں ، جاپان میں بھی کچھ دہائیاں پہلے کچھ ٖغیر جاپانی درخت لگائے گئے تھے ، جو کہ فروری کے آخر سے مئی کے شروع تک عذاب بن جاتے ہیں ،۔
مجھے بھی کچھ سال پہلے یہ الرجی ہو گئی تھی، ناک بند ہو جاتا ہے ، آنکھوں میں خارش ہوتی ہے ، جاپان اس الرجی کی دوائی بھی بنا چکا ہے ، جو کہ ہر روز لینی ہوتی ہے دن میں دو بار ، کچھ ایک بار کی بھی ہوتی ہیں ،۔
کچھ داوائیاں ایسی بھی ہیں کہ ایک بار لینے سے بھی چوبیس گھنٹے نکل جاتے ہیں ، ان دائیوں سے نیند آتی ہے اور بندہ " وظیفہ زوجیت " ادا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے ۔
مختصر یہ کہ یہ بیماری لاعلاج ہے ، کہ اگر ایک دفعہ لگ گئی تو ساری زندگی اس کے ساتھ جڑی احتیاطوں کے گزارا کرنا ہے ، ہر روز دوائی لینا بھی ایک احتیاط ہی تو ہے ،۔

مجھے ایک گورا انگریز ڈاکٹر ملا تھا ، یہ ڈاکٹر کوئی اتنا بڑا ڈاکٹر تھا کہ کلینک میں بیٹھ کر مریضوں کو دیکھنے کا بھی وقت نہیں تھا اس کے پاس ، بس ڈاکٹروں کو ڈاکٹری پڑھانے والے اس ڈاکٹر سے میری ایک مندر میں ملاقات ہو گئی ، وہ جاپان سیر کے لئے آیا ہوا تھا اور میں سدا کا آوارہ گرد ، مندر(جاپانی زبان میں جینجا ) میں گھوم رہا تھا ،۔
ڈاکٹر صاحب بڑے دلچسپ اندازگفتگو کے مالک تھے ،۔
گورے کی روایت کے مطابق بات تو موسم سے ہی شروع ہوئی تھی ۔ اور پولن الرجی (کافن شو) تک پہنچی ۔
ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ ہوتا یہ ہے کہ پولن کے بیچ جب ناک میں پہنچتے ہیں تو انسانی جسم کا درجہ حرارت ان کے " پنگرنے " (پنجابی کا لفظ استعمال کرنے پر معذرت کہ مجھے اردو میں کوریکٹ لفظ نہیں مل رہا غالباً نشو نما ) کے لئے انتہائی معقول ہوتا ہے اس لئے کہ یہ بیچ اپنا اوپری کور پھاڑ کر نکلتے ہیں ، جس سے انسانی جسم کو الرجی ہوتی ہے ، اگر بیج نہ پھوٹے تو الرجی بھی نہیں ہو گی بس ناک سے داخل ہو کر معدے میں چلا جائے گا ، یا کہ انکھ میں داخل ہو کر گیڈ بن کر نکل جائے گا ، ،۔
میں نے بات کاٹ کر سوال جڑ دیا کہ اب کیا جادو کیا جائے یا کہ کس بابے سے حکم جاری کروایا جائے کہ بیج اپنی جبلت بدل کر پھوٹنے سے باز آ جائے ،۔
ڈاکٹر صاحب مسکرا کر کہتے ہیں ، بیج کو چکنا کر دو ، جس بیگ کو گریس لگ جائے وھ پیچ بنپتا نہیں ہے ،۔
اب مسکرانے کی میری باری تھی ، کہ جی بگلے کے سر پر موم بتی جلانے والی بات کر دی ،۔
ہواؤں میں تیل بکھیرنا تو ناممکن ہے ،۔
ڈاکٹر صاحب گریٹ انسان تھے ، مذاق بھی سمجھتے تھے ، ہنس کر کہنے لگے ،۔
بیسن کے اور لگے آئینے کے پاس شیلفوں میں ہر گھر میں ایک چھوٹی سی ڈبی پڑی ہوتی ہے ، واسلین کی ، ، تمہارے گھر میں بھی پڑی ہے ناں ؟
وہاں پنجاب والے گھر میں تو اس چیز کا تصور ہی نہیں تھا کہ بیسن ہو آئینہ ہو واسلین ہو ،۔
ایک لمحے کے لئے اپنے گھر کا نقشہ اپنے ذہن میں گھوم گیا ، پسار ، پچھلا کمرہ ویہڑا ، نلکا اور کھرا ، کھڑکیوں کی چوکھاٹ پر پڑے ہوئی سرسوں کے تیل کی شیشی !،۔
لیکن جاپان میں میرے گھر میں بلکل ایسا ہی تھا جیسا نقشہ ڈاکٹر صاحب نے کھینچا تھا ۔
اس لئے میں کہا جی واسلین تو ہے ۔
کہنے لگے واسلین کو انگلی پر لگا کر آنکھ کے پیوٹوں پر اور ناک میں جہاں تک انگل جائے وہاں تک واسلین سے چکنا کر دو ، یہ واسلین ہر ہر بیج کو چکنا کر دیا کرئے گی ۔ْ
چکنا کرنے سے میرے ذہن میں کھڑکی کی چوکھاٹ پر بڑی سرسوں کے تیل کی شیشی ہی اٹکی رہی ، لیکن جہاں جاپان میں سرسوں کا تیل حاصل کرنا مشکل کام ہے ۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن ایک دلچسپ گفتگو سمجھ کر دوائی کے ساتھ ساتھ واسلین  (جو کہ جاپان میں اسانی سے مل جاتی ہے ) کا بھی استعمال کر کے دیکھا ، مجھے کچھ مختلف محسوس ہوا ، اگلے دن میں نے دوائی لئے بغیر صرف واسلین سے کام لینے کا سوچ کر دوائی نہیں لی ، بغیر دوائی لئے سارا دن بغیر ناک بند ہوئے گزر گیا ۔
اس دن سے میں نے دوائی لینی بند کی ہے
ناک بہتی ہے ، جو کہ سردویں کا معمول سمجھ کر جیب میں رومال رکھا ہے ،۔

یقین کریں کہ پچھلے تین سال سے میں دوائی لئے بغیر صرف واسلین سے کام چلا رہا ہوں ،۔
ناک بند ہو کر سانس لینے میں جو تکلیف ہوتی تھی اس سے بچ گیا ہوں ،۔
واسلین بہرحال مجھے صبح شام لگانئ پڑتی ہے ، اور پولن کی بہتات کے دنوں میں ، دن کے وقت ناک کا مسح کر کے بھی دو تین دفعہ لگانی پڑتی ہے ،۔
اپ بھی ایک دفعہ ٹرائی کر کے دیکھ لیں اگر فرق نہ پڑا تو ، ایک کملے بندے کی بونگی سمجھ کر معاف کردیں ۔ْ
اگر واسلین نہیں ہے تو کوئی بھی کھانے کا تیل سرسوں بنولہ یا دیسی اور ڈالڈا گھی بھی ٹرائی کر کے دیکھ لیں ،۔

خاور کھوکھر

Popular Posts