بابے رحمے کی پریشانی ،۔
بابے رحمے کی پریشانی ،۔
بابا رحما کوئی ایک سو دس سال کا ہو گیا تھا ، اب بابے کے پوتوں کے بھی پوتے پیدا ہوگئے تھے ،۔
اپنا گاؤں تو کیا آس پاس کے گاؤں میں بھی اس سے بزرگ کوئی بابا نہیں تھا ،۔
خوش باش ، سدا کا زندہ دل بابا رحما کچھ دن سے بہت پریشان رہنے لگا تھا ،۔
مسجد میں بھی پیچھے گم سم سا بیٹھا رہتا تھا ، کوئی تین چار دن تو مولوی صاحب دیکھتے رہے ایک دن نماز کے بعد مولوی صاحب اس کے پاس جا بیٹھے کہ آخر بابا رحما سارے گاؤں کا بزرگ تھا ،۔
مولوی صاحب بابے رحمے سے پوچھتے ہیں بابا کس چیز کی پریشانی ہے ؟
کیا پوتے پوتیاں تنگ کرتے ہیں ،۔
بابا : نہیں تو !،۔
بہوئیں کھانا نہیں دیتی ؟
بابا : نہیں تو !،۔
کہیں جسم میں کوئی درد ہے ؟
نہیں تو !،۔
شادی کرنے کو جی چاہتا ہے ؟
بابا پھٹ پڑا
نئیں اوئے نئیں ۔
مولوی صاحب بھی تلخ ہو کر پوچھتے ہیں تو پھر پریشانی کیا ہے ؟ یہ منہ بنائے کیوں بیٹھے ہو !،۔
بابا ، روہنسا ہو کر شروع ہو جاتا ہے ،۔
اوئے چراغ دین وی مر گیا !،۔
مولوی : اس بات کو تو پچیس سال ہو گئے ہیں !،۔
وہ اللہ دتہ بھی مر گیا !،۔
مولوی اس کو بیس سال ہو گئے ہیں !،۔
اوئے وہ رکھا مہر بھی مر گیا !،۔
مولوی : سالوں ہو گئے ہیں اسکو مرئے ہوئے بھی اب کیوں انکی باتیں کرتے ہو ؟
اوئے وہ ماسٹر فضل دین بھی مر گیا ، وہ چوہدری رب نواز بھی مر گیا ، اوئے سارے مر گئے نے ،۔
مولوی : ہاں اپنی آئی پہ سب مر گئے ، اب یہ سب تمہیں کیوں یاد آ رہے ہیں ،۔
مجھے کئی دن سے نیند نہیں آ رہی کہ یہ سارے جنت میں بیٹھے ہوں گے ، اور اپس میں باتیں کر رہے ہوں گے کہ
رحما کمہار کہاں رہ گیا ہے ؟
سارے سڑیل لوگ وہاں جنت میں بیٹھے کہیں یہ ناں سوچ رہے ہوں کہ رحما کمہار جہنم میں چلا گیا ہے ،۔
اس بات کو سوچ سوچ کر کئی دن سے نیند نہیں رہی ،۔
اور مجے پتہ نئیں کہ کتنے سال اور لگ جانے ہیں وہاں پہنچ کر ان سب کا منہ بند کرنے میں ؟
مولوی صاحب یہ سن کر اٹھ کر چل دئے اور منہ میں بڑابڑا رہے تھے ،۔
جنے وڈے سر اونہیاں وڈیاں پیڑاں !،۔