جمعرات، 31 اگست، 2017

اکنامک کہانی کی اگلی بات


اپ نے میری تحریر کردہ وہ کہانی تو پڑھی ہو گی ؟؟
بہت کاپی ہوئی ہے وہ کہانی فیس بک پر کہ انٹرنیٹ پر ،۔

قربانی ہو یا کہ کوئی بھی رسم جس میں خرچ ہوتا ہے ، اس سے معاشرے کو فائدہ ہوتا ہے
پاکستان جیسے ملک ، جس میں پہلے ہی سرمائے کی حرکت بہت سست ہے ایسے ملک میں عید قربان ، جشن آزادی ، شب برات وغیرہ سے بہت سے لوگوں کا مال فروخت ہوتا ہے جس سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے ،۔
ہر خرچ پر یہ کہنے والے کہ یہ پیسا کسی غریب کو دے دینا تھا
اصل میں جہاد افغانستان کے لئے تیار کئے مذہبی دانشوروں کے ترتیب دئے گئے کلچر جس میں بھیک کو گراس روت لیول تک لے جایا جا چکا ہے اس کے پروردہ ہوتے ہیں ،۔
بھیک کی امید رکھنے والوں کو دوسروں کی کمائی بری لگتی ہے ،۔
ایک کسان جو چند بیل پال کر عید پر فروخت کرتا ہے ،۔
ایک بیوپاری جو یہ بیل منڈی تک لاتا ہے ،۔ منڈی میں چارہ بیچنے والا ۔
بیل ، چارہ منڈی تک لانے اور یہاں سے خریدار کے گھر تک پہنچانے والے ٹرانسپوٹڑ کا کاروبار ۔
بسنت پر پتنگ بنانے والے ، ڈور تیار کرنے والے ، پتنگ بیچنے والے دوکان دار ، ان دوکانداروں پر ڈپینڈ کرنے والے کاروبار
شب برات پر آتش بازی بنانے والے ، ،۔ کھیر کے لئے مٹی کے برتن بنانے والے لوگ ،ان سب کے کاروبار تہواروں پر خرچ کرنے کی رسم سے ہی چلتے ہیں ،۔
پاکستان ، جہاں بھیک مانگنے کو عظمت کی نشانی بنا کر رکھ دیا گیا ہے ،۔
بھیک مانگ کر اپ جتنا بھی شوخ کام کر لیں ، اس سے نظام نہیں چلا کرتے ،۔
یاد رکھیں ترقی یافتہ اقوام نے اپنی ابادیوں کے پانی کے نکاس کے بعد جو سب سے بڑا کام کیا ہے وہ ہے ۔
پیسے کو حرکت دے کر پیسے کے فوائد  گھر گھر پہنچانے کا کام کیا ہے ،۔
ایک دوسرے کے پیسے ایک دوسرے کے کام آ رہے ہیں ،۔
بھیک مانگنے والو ، تم لوگوں نے خدا اور انسانیت کے نام پر بھیک مانگ مانگ کر خدا اور انسانیت کو بہت خوار کیا ہے ،۔
لوگو! سنو !!!۔
خود داری ، عزت نفس اور غیرت کا مفہوم جانو
اور
آو امداد باہمی (بیمہ) کے نظام پر بات بات کریں ،۔
پیسے کی حرکت میں برکت پر بات کریں ،۔

جمعہ، 25 اگست، 2017

حالات حاضرہ ، امریکہ


امریکہ ، پچھلے سولہ سال میں ، جی ہاں صرف سولہ سال میں  افغانستان میں کوئی  117بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے ،۔
اس سے پہلے سویت کے اندہام میں خرچ ہونے والی رقموں کا ذکر اج کا موضوع نہیں ہے لیکن اپ ان کو بھی ذہن میں رکھیں ،۔
ایک سو سترہ بلین ڈالر کی امریکی  انوسٹمنٹ دنیا کے خطرناک ترین ملک  افغانستان میں ہوئی ہے ،۔
اتنی بڑی رقم کی واپسی کے لئے امریکی حکومت کا خیال ہے کہ افغانستان کی معدنیات  کو نکال کر اس سے وضع کر لی جائے ،۔
افغانستان  میں خام لوہے ، زنک  تانبے کے علاوہ سونے چاندی اور پلاٹنم کے بڑے ذخائیر موجود ہیں ،۔
لیتھنم کے متعلق تو یہ تک کہا جا رہا ہے کہ افغانستان لیتھنیم کا سعودیہ ہے ،۔
لیٹھینم جو کہ سمارٹ فونز اور بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
اور تانبے کی کانیں دنیا کے بہترین تانبے کا ذخیرہ رکھتی ہیں ،۔
امرکی ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ معدنیات کوئی ایک ٹریلن ڈالر کی وقعت رکھتی ہیں ،۔
جو کہ افغانستان کو ایک محفوظ ملک بنا کر اور یہاں پر ترقی یافتہ ممالک کے برابر سٹریکچر تیار کرنے اور جمہوریت قایم کرنے کے لئے ایک معقول  رقم ہے ،۔
لندن کے ایک بنکر جو کہ افغانستان میں کان کنی میں ایک بڑے انوسٹر ہیں ان کے مطابق ، افغانسان میں کان کنی  کی یہ حالت ہے کہ یہاں کوئی ایک بھی کان چالو نہیں ہے ،۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کابل سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چینی کمپنی  “ مس عینک” نامی کان سے تانبہ نکال رہی ہے ،۔
افغان حکومت  معدنیات کو نکال کر استعمال میں لانے کے لئے امریکی حکام سے رابطے میں ہے ،۔
اس معاملے میں اس سال جون میں افغانی سفیر  حماد اللہ محب نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائیٹ ہاؤس میں ملاقات بھی کی ہے ۔
 ایک امریکی اور افغان حکومت میں معدنیات کے متعلق مشترکہ دلچسپی پائی جاتی ہے  ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق  افغانستان سے سالانہ بیس بلین ڈالر کی معدنیات نکالی جا سکتی ہیں ،۔

اور دوسری طرف  کام کو چالو کرنے سے پہلے اور دوران میں اٹھنے والے مسائل پر بھی غور کیا جا رہا ہے ،۔؛
جن میں سب سے بڑا مسئلہ  خام لوہے ، تانبے اور لتھینم کو افغانستان سے باہر نکال کر امریکہ پہنچانے کا ہے ،۔
افغانستان میں سڑکوں کی حالت بہت بری ہے ،۔
افغانستان میں سڑکوں کی حالت بہتر کرنے کے بعد امریکی ماہرین کی نظر میں جو راستے ہیں ان میں پاکستان یا انڈیا سے گزر کر سمندر تک پہنچنے کا راستہ ہے ،۔
اور یہ دونوں راستے طالبان کی وجہ سے محفوظ نہیں ہیں ،۔
طالبان جن کو امریکی  ڈیفینشنز میں دہشت گرد کہا جاتا ہے ان کے ٹھکانے  پاکستان کے پہاڑوں میں ہونے کا شک کیا جاتا ہے ،۔
جس کے لئے امریکی حکومت کا خیال ہے کہ سوائے پاکستان کے یہ راستے کوئی اور محفوظ نہیں کروا سکتا ،۔
افغانستان سے نکلنے کے بعد  سی پیک نامی منصوبہ جو کہ پاکستان میں چینی حکومت کے زیر اثر چل رہا ہے اس کو استعمال کرنے میں بھی امریکی حکومت کو کئی تحفظات ہیں  ۔
امریکی حکومت افغانستان میں پچھلی صدی کی اٹھویں دہائی سے لے کر اب تک جو خرچ کر چکی ہے ، کی واپسی کے لئے افغانی معدنیات کے حصول کے سوا اور کوئی راھ نظر نہیں آتی ،۔
لیکن ان معدنیات کو نکال کر امریکہ پہنچانے میں جو قباحتیں ہیں ان کو دور کرنے لے لئے امریکی حکومت دہائیوں سے پاکستان کی امداد کر کے ایک بہت بڑی رقم انوسٹ کر چکی ہے ،۔
اس لئے امریکہ حکومت پاکستان سے اس انوسٹمنٹ کی پروگریس دیکھانے کا مطالبہ کرتی ہے ،۔
دوسری طرف پاکستانی  سیکورٹی حکام ، یہ سمجھتے ہیں کہ کہ معدنیات کی دولت سے ملنے والا حصہ جو کہ ان کو مل رہا ہے یا کہ جس کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ کم ہے ،۔
افغان معدنیات پر امریکی نظر اور ان کو نکال کر امریکہ تک پہنچانے میں جو مسائل ہیں اگر اپ ان کو غور سے دیکھیں تو امریکہ کی بھارت میں دلچسپی  کی وجہ صاف نظر آتی  ہے ،۔
تحریر : خاور کھوکھر

Popular Posts