ہفتہ، 9 مارچ، 2024

جاپان کی ٹاپ ٹین مساجد

جاپان  کی ٹاپ ٹین مساجد !،۔


جاپان ، جہاں اج اکیسویں صدی کی  دوسری دہائی میں لاتعداد مساجد ہیں ،۔

ان لاتعداد مساجد میں سے دس قابل ذکر اور خوبصورت مساجد کا ذکر ،۔


نمبر دس : شیزو اوکا مسجد 

بہت ہی خوبصورت ماحول یعنی سینری  سی لگتی ہے ۔

پرسکون ماحول ، میں اس مسجد کی عمارت مدعو کرتی ہوئی لگتی ہے ،۔

نمبر نو : سیندائی مسجد ، سیندائی 

توہوکو کے علاقے میں میں پہلی مسجد، سینڈائی مسجد، نے دیگر علاقائی نماز کی جگہوں کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے۔

 یہ مسجد 2007 میں کھولی گئی تھی اور یہ توہوکو یونیورسٹی کے کاوا اٗوچی کیمپس کے مرکز میں ہے، اس لیے یہ مسلمان طلباء کے لیے عبادت کے لیے ایک جگہ ہے۔


ایک سادہ عبادت گاہ ہونے کے علاوہ، مسجد مسلم کمیونٹی کے لیے اجتماع کی جگہ ہے۔

 جہاں اسلامک کلچرل سینٹر آف سیندائی (ICCS) ہیڈ کوارٹر ہے۔

 

نمبر آٹھ : یوکوہاما  بڑی مسجد یوکوہاما 

یوکوہاما مسجد جس کو جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے ، سن دو ہزار جھ میں تعمیر کی گئی تھی ،۔

اگر آپ اس مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو آپ اس کی باوقار اور خوبصورت شکل سے متاثر ہوں گے، خاص طور پر سنہری رنگ کے استعمال سے۔


یہ مسجد یوکوہاما میں وسیع پیمانے پر مسلم کمیونٹی کی خدمت کرتی ہے، جو نماز کے لیے ایک جگہ ساتھ ساتھ بچوں اور خواتین کے پروگراموں سمیت متنوع تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرتی ہے۔


نمبر سات : اوتسکا مسجد ٹوکیو

جاپان اسلامک ٹرسٹ کے زیر انتظام، اوتسوکا مسجد توشیما وارڈ، ٹوکیو میں ہے۔


مسجد کے اندر، آپ شووا (سن انیس سو اٹھاسی سے پہلے) دور سے ایک پرانی یادوں کا ماحول محسوس کریں گے

 جو وہاں کی مسلم کمیونٹی کی گرمجوشی کے ساتھ مل جاتا ہے۔

 یہ مسجد وسیع پیمانے پر تعلیمی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتی ہے اور کمیونٹی میں بہت سی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔


نمبر چھ : فوکوکا مسجد ،النور اسلامک کلچر سنٹر ،۔

2009 میں باضابطہ طور پر کھولی گئی، فوکوکا مسجد النور اسلامک کلچر سینٹر کیوشو جزیرے پر پہلی مسجد ہے۔

اس مسجد کی عمارت جاپان کی جمالیات کے ساتھ روایتی اسلامی تعمیراتی ڈیزائن کو شامل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔


ایک مذہبی سہولت کے طور پر کام کرنے کے علاوہ، اس میں کئی دیگر فائدہ مند سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، جو اسے فوکوکا کی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم اجتماع کی جگہ بناتی ہے۔

 یہ مسجد  جاپان کی مقامی اور ایکسپورٹ منڈیوں کے لیے حلال سرٹیفیکیشن جاری کرنے کا پروگرام بھی ہے۔


نمبر پانچ : اوساکا اباراگی مسجد اوساکا۔


اپنے جدید اور ملائم ڈیزائن کے ساتھ، جس میں براون اور سنہری رنگت جھلکتی ہے۔

 اوساکا ایباراگی مسجد اوساکا یونیورسٹی کے ایباراکی کیمپس اور کئی جاپانی کمپنیوں کے بالکل قریب واقع ہے۔


2006 میں اپنے دروازے کھولنے کے بعد سے، یہ مسجد اپنے ارد گرد کے مسلمان طلباء اور کارکنوں کی روحانی زندگی کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ یہ اوساکا میں بڑھتی ہوئی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک سیمبل کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔


نمبر چار : آراتاما مسجد ناگویا ۔

1998 میں تعمیر کی گئی ناگویا مسجد کو "اراتما مسجد" کہا جاتا ہے۔ روایتی اسلامی طرز تعمیر کی موجودگی اس مسجد کے جدید ڈیزائن میں توازن رکھتی ہے۔

 جو جدید اور اسلامی ورثے کا اظہار کرتی ہے۔ 

یہ مسجد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے اجتماع کی جگہ بن گئی ہے، جہاں ہفتہ اور اتوار کو باقاعدہ مقامی کلاسز، چائے کی پارٹیاں اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔


یہ ناگویا اور آس پاس کے علاقے میں مسلمانوں کے لیے مشاورت اور معلومات کے تبادلے کے لیے ایک اڈے کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔


نمبر تین :  اسلاما مسجد وینو اوکاچی ماچی مسجد ۔

رونق  سے بھرپور Ueno میں واقع، السلام مسجد واقعی ایک خوش آئند منظر ہے۔

 فن تعمیر سادہ ہے، لیکن مسجد ایک بہترین دار کوشش اور عبادت اور غور و فکر کے لیے کامل سکون کی جگہ ہے۔


اگرچہ اجتماعی عبادت ایک اہم پہلو ہے، لیکن اس جگہ کی کوششوں میں ٹوکیو میں ثقافتی میل جول کے مرکز کے طور پر کام کرنا بھی شامل ہے۔

 جس میں متعدد کمیونٹی تقریبات اور تعلیمی پروگرام باقاعدگی سے طے کیے جاتے ہیں۔


نمبر دو :  ٹوکیو کامی مسجد ترکش  کلچر سنٹر ۔

جاپان کی سب سے بڑی (اور سب سے مشہور) مسجد ٹوکیو کامی ہے۔ اس کے اونچے مینار اور آسمانی نیلے گنبد ترکی اور جاپانی ثقافتوں کے ملاپ کی علامت ہیں۔

 شاندار عثمانی ترک فن تعمیر کا نمونہ، ٹوکیو کامی مسجد کو اصل میں 1938 میں تعمیر کیا گیا تھا اس کے بعد اسے 2000 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ۔


محرابی ستون پر کھڑے ایک بہت بڑے گنبد نما ہال میں نماز کی دائیگی ہوتی ہے ۔

انتہائی خوش رنگ  ، رنگوں اور ڈیزائین  نے اس مسجد کو روحانی  ماحول دیا ہوا ہے،۔


 باقاعدگی سے ہونے والی تقریبات نے اس مسجد کو مذہبی مرکز ہونے کے علاوہ ٹوکیو کا ایک مرکزی ثقافتی مرکز بنا دیا ہے۔

 نمبر ایک :  کوبے مسلم موسک ، مسجد ۔

کوبی مسجد 1935 میں تعمیر کی گئی تھی ، اور یہ جاپان کی قدیم ترین مسجد ہے۔

 اس کی فنڈنگ ترکی، اور ہندوستانی مخیر لوگوں سے آتی تھی۔

 مسجد میں روایتی اسلامی فن کی نمائش کی گئی ہے، جیسے کہ ایک مینار اور ایک گنبد۔

 اسلامی دنیا کے ساتھ جاپان کے تعلقات کا ثبوت ہے۔

 جو کہ پرانے زمانے سے جاری ہے۔

 اس مسجد نے دوسری جنگ عظیم اور عظیم ہینشین زلزلے (سن انیس سو پچانوے ) کے طوفان کو برداشت کیا ہے، لیکن یہ اب بھی اپنی جگہ پر کھڑی ہے۔

 اور ان تمام لوگوں کا خیرمقدم کرتی ہے جو جاپان میں اسلامی روایت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔

تحریر اور تحقیق : خاور کھوکھر۔

اتوار، 3 مارچ، 2024

ساٹھ کی عمر کو پہنچنے سے ایک سال پہلے کے احساسات

 عمر کے ساٹھویں سال سے ایک سال پہلے کے احساسات ۔

 

۱: مٹی پاؤ  

گزری باتوں پر پریشان  ہو کر اپنا حال برباد نہ کرو جی ، جو  ہوا سو ہوا ، جو ہو رہا ہے اس کو انجوائے کرو ،۔

جو  بندہ روس وکھالا کرتا ہے ۔

 کتنا بھی قریبی یا خون کا رشتہ ہو  ، اسکو چھوڑ دو ، بس تھوک دو ، ختم شد کر دو ،۔


 :۲: سانوں کی ۔


ہر بندہ اپنے اپنی جگہ  جو بندہ جو کام کر رہا ہے اگر اس سے کوئی  غلطی ہو رہی ہے ، یا کام خراب کر رہا ہے تو  ، یہ میری سر پیڑ (سر درد) نہیں ہے ،۔

دوسرون کی غلطیوں  کی اصلاح کرنے کی کوشش  نہیں کرنی ہے کیونکہ وہ مجھ سے سیانے ہیں ۔ْ


:۳: رب تے چھڈ دیو ۔


بہت سی چیزوں کو وقت پر چھوڑ دو ، اللہ خیر کرئے گا ،۔

حسد اور شرارت کرنے والوں کے گھر میں بیماریاں اور ذہنی مریض  دیکھو گے ،۔ 


۴: تقابل نہیں کرو۔

دوسروں سے تقابل کر کے دل نہیں ساڑو ، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ  کون ، کن  دشوار منزلوں سے گزر کر یہان پہنچا ہے ،۔

پتہ نہیں اس عید مناتے بندے نے کتنے تلخ روزے رکھے تھے ،۔

یا کہ جن کے پاس کرنسی زیادہ نظر آ رہی ہے ، تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ تم سے زیادہ خوشیاں بھی رکھتے ہیں کہ نہیں !،۔

رب نے  ہر چیز میں بیلنس رکھا ہے ،۔


۵: ڈٹ جاؤ  یعنی مستقل مزاجی ۔


کوئی بھی کام کتنا بھی پھیلا ہوا ہو ، شروع کر دو ختم ہو ہی جاتا ہے ،۔

ایک ایک کر کے الجنوں کو سلجانے لگو ، جلد ختم ہو جاتی ہیں ،۔


حاصل مطالعہ

یہ میں ہی ہون جو اپنی خوشیوں کو خود سے انجوائے کر سکتا ہوں ،۔

تلخ حالات سے خوشیاں کشید کرو اور مسکراتے رہو ،ہر روز کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہے ۔

ہر موسم ہر حال میں کچھ نہ کچھ کرتے ضرور رہنا ہے ، بے شک اڑوس پڑوس کی گھاس پھونس  ہی صاف کیون نہ کرنی پڑے  ، لیزی نہیں ہونا ہے ،۔

خاور کھوکھر

بدھ، 15 نومبر، 2023

اچھا ہونے کا سرٹیفکیٹ

 ایک کشمیری دوست جس کا مطالعہ بھی بہت ہے ، بہترین پنجابی بولتا ہے ، کبھی کشمیری میں بات کرتے نہیں سنا ، خود کو افغان نسل کشمیری ہونے کا فخر بھی کرتا رہتا ہے ،۔

بڑا پیارا بندہ ہے ،۔
چند دن پہلے پنجابیوں کو نیچ اور کمتر بتانے کے لئے طرح طرح کی دلیلیں دینے لگا ،۔
مثلا پنجابی بد ترین دوست اور بہترین غلام ہوتے ہیں ،۔
میں کہا کہ یہ فقرہ ایک افاقی فقرہ ہے ، جو کسی بھی قوم پر کوئی بھی قوم حسد میں اس کا نام فٹ کر کے بتا دیتی ہے ،۔میں نے اس کو اپنے گاؤں کا ایک واقعہ بتا کر شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک فارسی شعر اور ترجمعہ بھی بتایا تھا جو کہ پوسٹ کے اخر میں ہے۔

ہیر وارث شاھ کے جب اس شعر پر پہنچے ۔ْ

وارث شاھ نئیں پتر فقیر ہوندے
جٹاں موچیاں تیلیاں دے
وہاں ایک جاٹوں کا لڑکا تھا جس کا باپ گاؤں میں گھر جنوائی تھا ، اسکو بہت غصہ آیا تھا کہ وارث شاھ نے یہ کیا لکھ دیا ہے ہم جاٹوں کو کن لوگوں کے ساتھ ملا کر لکھ دیا ہے ،۔
حالانکہ باپ اس کا گھر جنوائی تھا اور خود نانکے گھر پل رہا تھا اور بڑا بھائی چمڑے کا کاریگر (لیدر ٹیکنالوجی کالج گوجرانوالہ میں) بن رہا تھا ،۔

فارسی کا شعر

اگرقحط الرجال افتد، بہ ایں سہ انس کم گیری
اول افغان، دوم کمبوہ، سوم بد ذات کشمیری

اردو ترجمہ
اگر کبھی افراد کا قحط پڑ جاۓ تو بھی ان تین قسم کے افراد کی دوستی سے پرہیز کرنا ‘ پہلا افغانی ‘ دوسرا کمبوہ ‘ تیسرا بدذات کشمیری ۔
راقم جو کہ نسل برتری یا کمتری کے فلسفے کے خلاف انسانون کی ذاتی صلاحتوں کو اس کی اعلی یا کمتر ہونے کی دلیل مانتا ہوں ، میرے منہ سے فارسی کا یہ شعر کشمیری دوست کے علم تھا کہ نہیں ، بہرحال سرکار دو عالم ﷺ نے اچھی عادتوں کے مالک کے اچھے انسان ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہوا ہے ،۔
راقم کے خیال میں سرکارﷺ کے سرٹیفکیٹ کو دلیل مانلینا چاہئے ،۔

ہفتہ، 19 اگست، 2023

مطالعہ پاکستان

 میں سوشل میڈیا پر عرصہ بائیس سال سے ہوں ، فیس بک کی پیدائش سے بہت پہلے سے بلاگ لکھ رہا ہوں ، بلاگ پر اور بعد میں فیس بک پر کومنٹس میں کم عقلوں اور ذہنی مریض لوگون کو ایٹینڈ کرتے ایک عمر گزر گئی ہے ،۔


ایک گورا انگریز دوست تھا جس کا دادا پاکستانی تھا (بنگالی یعنی اکہتر سے پہلے پاکستانی)، ایلی نام کا یہ گورا کم عقلوں کو کہا کرتا تھا ،۔
تم جتنا نالج رکھتے ہو اس سارے نالج کو ایک ڈاک ٹکٹ کی پشت پر لکھا جا سکتا ہے ،۔(حالانکہ ان میں ایسے بھی لوگ ہوا کرتے تھے جو اپنی کتابیں چھپوا کر لوگون کو تحفے میں دیا کرتے تھے )۔
کون لوگ ہیں یہ ؟
سوشل میڈیا میں ان ان لوگون کو مطالعہ پاکستان والے کہا جاتا ہے ،۔
یہ مطالعہ پاکستان کیا ہے ،۔
علامہ اقبال ، قائد اعظم ، اسلام کا سنہرا ماضی کشمیر کی شہہ رگ اور بہت سی باں باں باں باں باں ۔۔ْ
کسی سانے کا قول ہے کہ دنیامیں پچانوے فیصد لوگ شخصیات پر بات کرتے ہیں ، تین فیصد واقعات پر اور دو فیصد نظریات پر ،۔
مطالعہ پاکستان کے ذہنی طور پر تباہ کردئے گئے ہوئے لوگ پچانوے فیصد ہیں ، یہ اگر کچھ لکھیں گے بھی تو ، شخصیات پر لامہ کبال ،قید اعظم ، اپنا چوہدری ، اپنا ملک اپنا رانا ، اپنا اپ اور میں میں میں میں میں !،۔
اور اگر کسی کے لکھے پر کومنٹس بھی کریں گے تو اپنے علم اور عقل کے ہنکار میں لکھاری کو تعلیم دینے لگے گے کہ
لیکن اسلام ، لیکن قید اعظم ، لیکن لامہ کبال ،۔
باں باں باں باں !،۔
نہ عقل نہ علم نہ ذوق ، لیکن ہنکار ایسا کہ علمی علقی اور تکنیکی طور پر کسی کو اپنے مقابلے میں تسلیم ہی نہیں کریں گے ،۔
پچھلے پانچ دہائیون سے پاکستان میں چار ایسی نسلیں تیار کی گئی ہیں جو خود کو عربی ایرانی افغانی اور ترکی سمجھتے ہیں ،۔
اگتے پلتے پنجاب میں ہیں اور مغالطے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کی جڑیں مکے مدینے میں ہیں ،۔
مطالعہ پاکستان میں والون کی جو تعریف لکھی ہے ، میرے سوشل میڈیا کے وہ دوست سبھی جانتے ہیں ، سوائے میرے ان فرینڈر کے جو میں نے جان پہچان کی وجہ سے فرینڈز بنا رکھے ہیں ،۔
مطالعہ پاکستان والون کو علم عقل تکنیک سے کوئی غرض نہیں ہے ، انہوں نے بس اپ کو زچ کر کے رکھنا ہے ،۔
ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ انکو یا تو ان فرینڈ کردو ، بلاک کر دو ، لیکن اس سے بھی بڑی سزا یہ کہ انکو اگنور کرو ،۔
خود ہی مرجھا جائیں گے ،۔
ایک دوست کہا کرتے تھے کہ جاہل کی سب سے بڑا سزا یہ ہے کہ اس کو جاہل ہی رہنا دیا جائے اس کو علم کی بات بتائی ہی نہ جائے ،۔
لیکن میری خیال میں یہ بہت بری بات ہے ،۔
ریاست نے اگر انکے ساتھ طلم کیا ہے تو انسانیت کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی شامل رکھیں بس اگنور کریں اہل علم کے مکالمے دیکھ دیکھ کر شائید مطالعہ پاکستان کا وائیرس کمزور ہو جائے ،۔

جمعرات، 3 اگست، 2023

بابا نانک

 بابر بہ عیش کوش 

کہ عالم دوبارہ نیست

مغلوں کے جد امجد  بابر کو بھی علم تھا کہ ایک اور زندگی سوٹ کیس میں نہیں رکھی ہوئی اس لئے اسی زندگی سے عیش کرنی ہے 

لیکن

اسنے ظلم کو عیش سمجھا تھا 

اور 

پنجابی کا ایک شعر ہے کہ کر کے ظلم عروج تے اون والے 

اینی گل دا زرا خیال رکھیں 

اوچی ہوا وچ جا کے پاٹ جاندے ، جنہاں گڈیاں نوں کھلی ڈور ملے ،۔

 ابراہیم لودی کے اسلام کو کینسل کر کے اپنا اصلی اور پستے بادام والا اسلام لے کر بابر جب کابل سے چلا تھا تو ۔

پنجاب کے عظیم درویش  بابا جی نانک نے اسکو سوروں کی بارات کہا تھا ،

تگانے دا منگدا دان وے لالو 

اے کیڑا پرداھان وے لالو

بابر کی چڑھتل تھی ، اقبال تھا ، کہ ظالم نے بابے نانک کو پکڑ کر چکی پیسے پر لگا دیا ،۔

نانک ایک شخصیت کا نام نہیں تھا ، ناناک ایک روح کا نام ہے ، ایک نیکی کا نام ہے ناناک ایک برکت کا نام ہے ، جو مرتی نہیں ہے ، ۔

اور ظلم خلاف چلتی رہتی ہے ،۔

بابے کے ایک داس مان سنگھ نے بابر کی نسل کے اخری  شاھ ظفر کو ہتھکڑی لگا کر  انت کر دیا تھا ، مان سنگھ  گوجرانوالہ کے قصبے منڈیالہ کا ایک سکھ تھا جو میجر ہڈسن کے ساتھ گیا تھا بہادر شاھ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون بھیجنے کے لئے ،۔

بابا جی  ناناک بھی کوئی دور کے نیں تھے یہی تلونڈی کے تھے جس کو اج ننکانہ صاحب کہتے ہیں ،۔

وسدا رہے پنجاب 

کہ ڈاکٹر منظور اعجاز صاحب نے قادر یار کے قصہ پورن بھگت کو بھی پنجاب کا قصہ کہا ہے کہ پورن (پنجاب)کو کنوئیں سے نکال کر ہاتھ پاؤں دینے والا جوگی کوئی اور نہیں تھا بلکہ بابا جی نانک درویش تھے ،۔

جمعہ، 19 مئی، 2023

ریڈ سکوائیر ، ماسکو

 چھتیس سال پہلے  کی یہ بات مجھے کل کی کسی یاد کی طرح یاد ہے ،۔

کہ  ماسکو کے لینن سکوائیر پر ایک ایک چھوٹا جہاز لینڈ کر گیا تھا ،۔

سویت یونین ، آہنی دیوار  ، سرد جنگ ،   روس ایک اسرار تھا اس دور میں ، روس کے اندر کی ریڈ سکوائیر کی فوٹو دیکھنا ایک بڑی بات تھی ، فن لینڈ سے اڑ کر ماسکو تک کا  انیس سالہ مارتھیس روست  کا یہ سفر خوش قسمتی کی مثال ہے ، سویت  یونین کے  ڈیفینس کے نظام  کی نظروں میں فرینڈ فلائیٹ   کی طرح تڑیٹ ہوتے ہوئے ماسکو تک پہنچ گیا ،۔

غیر قانوی طور پر روس میں ڈاخل ہونے کے جرم میں اسکو چار سال  کی سزا ہوئی تھی ،۔

کوڈ وار کے اوج کا زمانہ تھا ، روسی فوجیں افغانستان میں  مجاہدین سے لڑ رہی تھیں ، ضیاء صاحب زندہ تھے  اور مجاہدین کی کمانڈ  کر رہے تھے ،۔

پاکستان میں جماعت اسلامی ڈھڑا دھڑ  زندگ سے اکتائے ہوئے مرنے مارنے پر تلے ہوئے روبوٹ تیار کرنے کی فیکٹریاں (جہادی مدرسے) بنا رہی تھی ،۔

شہیدوں کی میتیں پنجاب کے گاؤں دیہاتوں تک پہنچ رہی تھی ، افغان مہاجر کیمپ بھرے ہوئے تھے ،۔

ڈالروں کی ریل پیل تھی ، 

یارو کیا زمانہ تھا ؟ لگتا تھا کہ اب انسانیت فلاح پا ہی جائے گی ،۔

میں اور میرا بھائی بھی اپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور اسلحہ بناے کی فیکٹری میں کام  ،کمائی کے لئے علاقہ غیر ، درہ آدم خیل گئے تھے ، جہاں ہمیں بتایا گیا کہ جہاد میں امریکہ امداد کی وجہ سے لوکل اسلحہ کی مانگ ختم ہو چکی ہے ، اس لئے کچھ اور سوچو ،۔

واپسی میں روالپنڈی کے ایک ریسٹورینٹ میں روٹی کھاتے ہوئے ، اتھ کی ٹیبل پر امریکی بیٹھے تھے ،۔

جہاں سے میرے دل میں خیال آیا کہ امریکہ جیسے گریٹ ملک کیوں نہ چلا جایا جائے ۔

میں نے بھائی سے کہا یہ امریکہ بیٹھے ہیں میں ان سے بات کروں کہ یار مجھے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاؤ ،۔

بھائی نے کہا کیسی عجب بات کر رہے ہو  کس منہ سے  کوروں کو بات کر کے تنگ کرو گے ،۔

جو بھی ہوا یہی سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ عربوں کے علاوہ کے کسی ملک جانا ہو گا ،۔

اور ایک سال بعد میں جاپان مزدوری کرنے پہنچ چکا تھا ،۔

سویت یونین ، کولڈ وار ، آئیرن وال ، قصہ پارینیہ بن چکے ، سویت یونین کی تحلیل کے بعد  دو نسلیں پیدا ہو کر جون ہو چکی ہیں ،۔

لیکن کولڈ وار کے لئے جو جنگی روبوٹ تیار کئے گئے تھے ، میری قوم کی جو برین واشنگ کی گئی تھی ، وہ یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ سینکڑوں سال لڑنا پڑے گا ،۔

اللہ نے بڑا احسان کیا کہ سویت یونین کو ہی تحلیل کر دیا ،   لیکن اس زہر کے نکلتے نکلتے زمانے لگیں گے جو زہر میرے وطن کی تعیم میں گھول دیا گیا ہے ،۔

روس  کی آئیرن وال کو پار کر کے سویت یونین کے قلب تک پہنچ جانے والے ، انیس سالہ ڈچ لڑکے کے اس ایڈوینچر کو چھتیس سال ہونے کو ہیں ،۔

خاور کھوکھر

Popular Posts