پیر، 17 دسمبر، 2018

جاپانی لوگ



اصل میں جاپان کے کلچر میں "ہارا کیری " کی رسم پائی جاتی ہے ،۔
ہار جانے پر ، جھوٹ پکڑے جانے پر جاپانی لوگ غیرت سے خود کشی کر لیتے ہیں ،۔
اس کلچر میں جاپان کی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ غلطی کرنے والے کو گرفتار کر کے عدالت میں زندہ اور مکمل پیش کرئے ،۔
اس لئے جاپان کی پولیس کی تربیت کی جاتی ہے اور اس طرح کے انتظامات دئے جاتے ہیں کہ بندہ خود کشی نہ کر سکے،۔
مجھے یاد ہے ایک جاپانی کا کیس ہوا تھا ، 1985ء میں لاس اینجلس میں ایک ڈاکے کی واردات میں اس کی بیوی قتل ہو گئی تھی ، میورو نامی اس جاپانی پر امریکہ پولیس کو شبہ تھا کہ اس نے یہ قتل خود کروایا ہے ،۔ 
میورا ضمانت کروا کر جاپان واپس آ گیا تھا ،۔
لیکن پھر کبھی امریکہ واپس نہیں گیا ،۔
امریکی عدالت نے اس کو اشتہاری قرار دے کر اس کے گرفتاری وارنٹ جاری کئے ہوئے تھے ،۔
دو ہزار سات میں میورا میکرونیشین جزائیر کے ایک جزیرے گوام کی سیر کو گیا تو اس کو گرفتا کر لیا گیا تھا ،۔
میورا کو علم نہیں تھا کہ میکرونیشن جزائر امریکہ کی علمداری میں آتے ہیں ،۔
جس کا کہ اس نے بڑے تاسف سے اظہار بھی کیا تھا ،۔
ریمانڈ کے بعد جب اس کو گوام سے لاس اینجلس منتقل کرنے کے لئے لے کر جانے لگے تو اس نے دعوا کیا تھا کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہو گا ،۔
امریکی پولیس اس پر ہنس رہی تھی اور جاپانی میڈیا بڑی سنجیدگی سے بتا رہا تھا کہ
میورا ساچو نے کہا ہے کہ وہ امریکی عدالت میں پیش نہیں ہو گا ،۔
امریکی پولیس جاپانی کلچر اور روایات سے نابلد تھی ،۔
میورا ساچو کو ہتھ کڑی لگا کر لاس اینجلس کی پرواز میں سوار کر لیا تھا ،۔
تیرہ گھنٹےکی اس پرواز میں میورا نے اپنی زبان کو دانتوں میں لے کر اپنی تھوڑی پر اپنے ہی گھٹنے سے زبردست وار کیا ، جس سے اس کی زبان کٹ گئی ، کٹی ہوئی زبان کو میورا نگل گیا تھا اور سار اخون اندر گرنے کی وجہ سے مر گیا تھا ،۔
امریکی پولیس میورا ساچو کو امریکی عدالت میں پیش نہیں کر سکی تھی ،۔
یہ سن دو ہزار سات کا واقعہ ہے ،۔

نمبر ون


ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔
کہ  کسی ملک میں کوئی حاضر سروس فوجی افسر ایک جاپانی کو بتا رہا تھا کہ 
پاکستان کی فوج دنیا کی نمبر ون فوج ہے ،۔
جاپانی ، مسکرا کر طرح دے گیا 
لیکن افسر صاحب برا منا گئے کہ اس نے میری بات کو سنی ان سنی کیوں کر دیا ہے ،۔
افسر صاحب کہنے لگے اپ دنیا کی کسی بھی فوج سے کسی بھی لحاظ سے تقابل کر کے دیکھ لیں ۔
اپ کو پاک فوج سے بہتر کوئی فوج نہیں ملے گی ،۔
بہادری شجاعت  دلیری ، نظم ضبط کیا کیا کوالٹیاں ہیں جو پاک فوج میں ہیں ،۔
جاپانی  ، دھیمی آواز میں گویا ہوا،۔
دوسری جنگ عظیم میں ای وو جیما کی جنگ میں امریکہ کے ساتھ لڑتے ہوئے جاپان کی فوج کے سارے ہی فوجیوں نے جان دے دی تھی ،۔
اس جنگ میں مر جانے والے جاپانیوں کی نسبت  مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد جاپانیوں سے کہیں زیادہ تھی ،۔
کوئی ایک جاپانی فوجی بھی نہیں بچا تھا ،۔
سب نے اپنے ملک کے لئے قوم کے لئے جان دے دی تھی ،۔
لیکن جاپان جنگ ہار گیا تھا اس لئے ان شہیدوں کا ذکر کم ہی ہوتا ہے ،۔
اس کے مقابلے میں ، میں پاک فوج کو جانتا ہوں 
اکہتر میں نوئے ہزار زندہ ہی قیدی بنا لئے گئے تھے ،۔
جاپانی فوج کے تو جن سپاہیں تک جنگ کے اختتام کی اطلاع نہیں پہینچی تھی 
وہ فلپائین اور گوام میں اسّی کی دہائی تک لڑتے رہے ہیں ،۔
آپ نے تو ہتھیار ڈال دئے تھے ،۔

حاصل مطالعہ 
ایک نمبر ہونے اور ایک نمبر کہلوانے میں بہت فرق ہوتا ہے ،۔
سر جی !!!،۔
بندے کو بات کرتے ہوئے تھوڑا خیال کر لینا چاہئے کہ بات کس سے کر رہا ہے ۔

جمعہ، 7 دسمبر، 2018

قدرت کے اسرار اور اقوام


خدا کے نظام پر جتنا غور کریں اتنے ہی اسرار عیاں ہوتے ہیں ،۔
مثلاً ، اس وقت زمین پر دوائیں بنانے والی تین اقوام ہیں ، جو تحقیق اور تکنیک میں ٹاپ پر ہیں ،۔
اور ان تینوں اقوام کو تین مختلف  امراض سے نوازا گیا ہے 
تاکہ ان کی تیار کی ہوئی دوائیں کم علم اور نکمی اقوام کے کام آ سکیں ،۔
امریکی
جرمن 
اور جاپانی!،۔
اوّل الذکر امریکہ کو بسیار خوری سے ہونے والی امراض یعنی میٹابولٹکس ، شوگر ، بلڈ پریشر جیسے بیماریاں دی گئیں ہیں ،۔


قدرت بڑی فیاض ہے ، صدیوں سے انسان بھوک سے لڑتا آیا ہے ، اس بھوک کی لڑائی پر بڑا ادب لکھا گیا بڑی کہانیاں اور
 کرب لکھے گئے ،۔
لیکن پھر کھاد کی دریافت ہوئی ، فارمنگ کو منظم کر دیا گیا ، تو ؟
کھاد کی دریافت کے جرم کی سزا کہہ لیں کہ کچھ اور خوراک کی بہتات کی قباحتیں بھی رب نے امریکہ کودی ہیں ،۔
اور امریکہ اس متعلق داوئیں بنا بنا کر دنیا بھر کے کام چور اور سست الوجود لوگوں کی زندگیاں بڑھا رہا ہے ،۔


خوراک کی بہتات ہوتی چلی گئی ، ادھ صدی پہلے جو انسان بڑھتی ہوئی انسانی ابادی سے خوف زدہ تھا ، ، اج انسانی ابادی کو بڑھانے پر زور دے رہا ہے ،۔

آدھ صدی پہلے تک فیملی پلاننگ اور برتھ کنٹرول کی داوئیں بنانے والے ڈچ لوگوں کو رب نے آبادی کی کمی کی قباحت میں مبتلا کر دیا ہوا ہے ،۔

اور جرمن لوگ سپرم کی صحت ، زچہ بچہ کی زندگیاں بچانے والی دواؤں پر تحقیق کر کرکے نسل انسانی کی بقا کا کام کر رہے ہیں ،۔
 اس کے بعد آتے ہیں جاپانی ،جو نہ تو بسیار خور ہیں اور نہ ہی کام چور ، اس لئے ان کی عمریں لمبی ہوتی جا رہی ہیں ،۔
قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ جب ذوالقرنین بادشاھ، آب حیات کے چشمے پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ وہاں اپنے ہی فضلے میں لتھڑے ہڈیوں ڈھانچے بنے ضعف کے عذاب میں مبتلا موت کی دعائیں کر رہے ہیں ،۔
انہوں نے آب حیات تو پی لیا تھا
لیکن اس بات سے لاعلم تھے
کہ لمبی عمر بھی اپنی جگہ ایک کرب ہے ،۔
جاپانی لوگ اس کرب کو کم کرنے والی دوائیں بنا رہے ہیں ،۔
بڑھاپے سے جسم میں اٹھنے والی دردیں ، خلیوں میں انے والے بے ترتیبی ، کے علاوہ ایسے زیر جامے بھی بنا رہے ہیں  جو ضعیف لوگوں کے کام آتے ہیں ،
کہ
ضعف سے اپنا پیشاب بھی ضبط کرنے کی طاقت نہیں رہتی ،۔

مجھے اج یہ باتیں اس لئے بھی یاد آئیں کہ
نکمی اقوام میں جب قدرت نے اس قوم کے معذور یا مجبور لوگوں کے لئے کام کروانا ہوتا ہے تو ؟
یا تو ترقی یافتہ اقوام کے دل میں رحم ڈال دیتا ہے 
یا پھر اس نکمی قوم کے اہل اقتدار کو اس مجبوری یا بیماری میں مبتلا کردیتا ہے ،۔
پاکستان میں معذور لوگوں کی سہولت کے لئے وہیل چئیر کے لئے راستے بنانے کا کام اور اس کام کے اصول اور قانون ،اللہ سائیں نے اپنے جرنل ضیاں صاحب سرمے والی سرکار سے کروائے تھے ، ان کو ایک معذور بیٹی عطا کر کے ،۔
اس بات میں بڑی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے ، سوچ رکھنے والوں کے لئے ،۔
افغان جہاد کے نام پر شروع کی گئی جنگ سے میرے وطن میں نشے در کر آئے ، نشئی لوگوں کی بہتات ہو گئی ،۔
نالیوں میں لڑھکے ہوئے جسم ،گند میں لتھڑے ہوئے لوگ ، بہتات میں ہو گئے ۔
تو ؟
رب نے 
میرے وطن کو 
ایک نشئی حکمران دے دیا ہے ، جو اج نشئی لوگوں کے لئے شیلٹر ہاؤس بنا رہا ہے ،۔
نشئی لوگوں کے تحفظ اور تیمارداری کا کام کر رہا ہے ،۔
بے شک یہ حکمران بھی اللہ کی دین ہے کہ اس معاشرے کے ان مجبور لوگوں کی مدد کے لئے لایا گیا ہے ، جو اپنی لمحوں کی لرزش سے اپنی عمریں خراب کر چکے ہیں ،۔
اب اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو کوئی ایسا حکمران بھی دے جس کا اپنا سکّا بیٹا مسنگ پرسن ہو چکا ہو کہ اس کو مسنگ پرسنز کے لواحقین کے درد کا احساس ہو اور مسنگ پرسن کا بھی کوئی پرسانِ حال نکل آئے ،۔
آمین !۔
خاور کھوکر


جمعرات، 6 دسمبر، 2018

کاسہ سر کی سرسراہٹ

 کاسہ سر کی سرسراہٹ

*********************
ہم نے دیکھا ہے کہ پرانے مذاہب کی بجائے جن لوگوں کے اس نئے دین کو مان لیا جس کا کوئی نبی نہیں ہے ، جس مذہب کو کوئی تبلیغی مرکز نہیں ہے ، وہ دنیا میں فلاح پا گئے ،۔
میں سرمایہ دارانہ نظام کی بات کر رہا ہوں ،۔ جس جس نے اس مذہب کی عبادات یعنی کمپنی بنا کر بزنس کیا ، اس اس کو نیکیوں کی بجائے کرنسی نصیب ہوئی ، جس جس نے اس مذہب میں چلے کاٹے یعنی کہ ڈپلومے اور ڈگڑیاں لیں ، اس اس کو دنیا میں اعلی مقامات ملے ،۔
مذہب عالم ، کی اپنی اپنی عبادات ہیں ، چلے ہیں ، وظائف ہیں ،۔
کسی مذہب میں عبادات کرنے پر ثواب ملتا ہے ، ساتھ میں نیکیاں ملتی ہیں
ان نیکیوں کے اکاؤنٹ رب کے پاس ہوتے ہیں ،۔
کسی کو علم نہیں کہ اس کی کتنی نیکیاں ہیں
اور حقوق العباد
کی کوتاہیوں سے کتنا قرض چڑھ چکا ہے اور نیکیوں اور بدیوں کے توازن کا حساب کسی کو معلوم نہیں ،۔
کسی مذہب میں مکت ہوجانے کا بتایا جاتا ہے
لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس جنم کی ساری محنتوں کے باوجود بھی وہ مکت ہوا کہ نہیں ،۔
کیپٹل ازم میں یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں ، فوراً کرنسی ملتی ہے ،۔
اس دین کے عبادت گزار سارا دن کام نامی عبادت کرکر کے نئی نئی چیزیں بناتے رہتے ہیں ، ان عبادت گزاروں کو اس چیزیوں کی عوض میں بھی کرنسی ملتی ہے اور اس کرنسی سے عبادت گزار لوگ دوسروں کی عبادت سے بنی چیزیں خرید کر استعمال کرتے ہیں اور زندگی سے لطف لیتے ہیں ،۔
خلوص نیت سے کہ گئی عبادات سے بنی ہوئی کاریں ٹرک الیکٹرک کا سامان زبان بے زبانی سے اپنے عبادت گزروں کی کار گردگی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے ،۔
منافق لوگ جو کہ اس دین میں پورے پورے داخل نہیں ہوتے ، یا کہ ابھی پرانے ادیان سے لپٹے ہوئے ، اس دین کیپٹل کے مزے لینا چاہتے ہیں ،۔
ان کی عبادات میں ان کی منافقت جھلکتی ہے ،۔
ایسے منافق لوگوں کی بنائی ہوئی دوائیاں بھی جعلی ہوتی ہیں، مشینیں بھی ناپائیدار ہوتی ہیں ،۔ ان کے کھانے کی چیزوں میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے ،۔ اور کے پینے۔ کے پانی تک صاف نہیں ہوتے،۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی منافق ہیں ،۔دین میں پورے پورے داخل نہیں ہوئے ہیں ،۔
اؤ یارو ، دین میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور کرنسی کماؤ ،۔
اے جہاں مٹھا
تے
اگلا کسے نہ ڈھٹھا

Popular Posts