جمعرات، 28 دسمبر، 2017

ماخوذ

توہین مذہب کے ڈر سے ،ہندوانہ رنگ میں پیش کرتے ہیں ،۔
کہ
جوان لڑکی بھگوان سے پراتھنا کرتی  ہے ،۔
پربو ! میں  بیاھ نہیں چاہتی ، میں  ودیا ، گیان کے ساتھ ساتھ آتما کی شانتی خودانحصاری چاہتی ہوں ، مجھے خصم نہیں چاہئے ،۔
اے بھگوان میری سن لے مجھے خصم سے بچا لے  ،۔
بھگوان کی آواز آتی ہے ،۔
ناری ! میں نے تمہیں بہت سندر اور بھرم بھری بنایا ہے ، بڑے ہی گن رکھے ہیں تم میں لیکن تم سارے کا م نہں کر سکتی جب جب تم غلطی کرو گی تمہیں الزام دینے کے لئے ایک خاوند کی ضرورت ہو گی ،۔
صرف اپنی غلطیوں کو الزام دینے کے لئے ایک خاوند ،۔
گاما بھی مندر میں ہی تھا ، بھگوان کی آواز سن کر گاما تلملا کر رہ گیا اور بات کئے بغیر نہ رہ سکا
اور بھگوان سے پوچھتا ہے
تو میں کیا کروں ؟ میں کس کو الزام دوں ؟؟
آواز آتی ہے ،۔
پترا ! تمہارے لئے بہت وسعت کے   میدانوں میں  ۔
تم حکومت کو الزام دے سکتے ہو ، نظام تعلیم کو الزام دے سکتے ہو ، ماحول کو الزام دے سکتے ہو ، اکنامک کی سست گروتھ کو اور تیز گروتھ کو بھی الزام دے سکتے ہو ،۔
تم مذہب کو الزام دے سکتے ہو بیوروکریسی کو الزام دے سکتے ہو ،۔
سیاستدانوں کی بہن کی سری کر سکتے ہو
اور تو اور تم مجھے ، یعنی بھگوان کو الزام دے سکتے ہو ،۔
بس ایک بات یاد رکھنا  بیوی اور فوج کو الزام نہیں دینا
اور
اور
 اور
عمران خان کو بھی الزام نہیں دینا ورنہ پی ٹی آئی والے بڑی گندیاں گالاں کڈدے نی !!،۔
ماخوذ

منگل، 19 دسمبر، 2017

محاورے کی کہانی،۔

محاورے کی کہانی،۔
پرانے زمانے میں کہیں کسی ملک میں کسی بادشاھ نے  مگر مچھ پالے ہوئے تھے ،۔
ایک دن بادشاھ نے اپنے امراء اور وزراء کو  بمع ان کے بیوی بچوں کے اکٹھا کیا اور ان کو مگر مچھوں والے تالاب کے پاس لے گیا ،۔

یہاں تالاب کے پاس  بادشاھ نے اعلان کیا کہ
جو بہادر مرد اس تالاب میں تیر کر دوسرے کنارے تک جائے گا  ، اگر وہ کامیاب ہوا تو اس کو پانچ کلو سونا اور دس گاؤں کی جاگیر عطا کی جائے گی ،۔
اور اگر  چیلنج قبول کرنے والا   مرد ،مگر مچھوں کا شکار ہو کر مارا گیا تو ؟
اس کے پسماندگان کو  دو کلو سونا اور پانچ گاؤں کی جاگیر عطا کی جائے گی ، تاکہ مرنے والے کے بیوی بچے خجل ہو کر نہ رہ جائیں ،۔
سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ، ایک سناٹا سا چھا گیا ۔
مردوں کے چہرے کا رنگ اڑا ہواتھا کہ
ایک بندہ ، کپڑوں سمیت تالاب میں کود گیا ، پھراس  نے پلٹ کر نہیں دیکھا ، مگر مچھوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن مرد بچے کی سپیڈ تھی کہ مگر مچھ رجے ہوئے تھے ،۔
کودنے والا مرد  کامیاب ٹھہرا ،۔
بادشاھ نے اعلان کیا کہ وعدے کے مطابق اس کو پانچ کلو سونا اور دس گاؤں کی جاگیر عطا کی جاتی ہے ،۔
کہ
ایک بچہ  چیخ کر کہتا ہے ۔
اس کو اس کی بیوی نے تالاب میں دھکا دیا تھا ،۔
بادشاھ کہتا ہے جو بھی ہوا  ، اب یہ بندہ کامیاب ہوا !!،۔
اس دن سے محاورہ بنا ہے کہ ہر کامیاب بندے کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے ،۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی
کیونکہ محاورہ نامکمل ہے ۔
کامیاب شخص نے جاگیر حاصل کر دولت اور نوکر چاکر بھی آ گئے ، کہ اس کو اپنی بیوی جو کہ اب موٹی ہو کر دولیٹر والی کوکے کوکے کی بوتل بن چکی تھی بری لگنے لگی ،۔
کامیاب شخص نے بہت سی باندیاں خرید کر  اپنا حرم بنا لیا ،۔
ایک سال میں اس کے پاس کوئی پچاس باندیاں تھیں اور بیوی صرف ایک ہی تھی ،۔ جس کو ایک علیحدہ محل بنا کر اس میں منتقل کردیا تھا ،۔
کہ اگلے سال  پھر اسی تالاب کے کنارے اسی بادشاھ نے اعلان کیا کہ
پچھلے سال کی طرح کامیاب بندے کو پانچ کلو سونا اور دس گاؤں کی جاگیر دی جائے گی
اور مرنے والے کے پس ماندگان کو  اس کے ادھے سونے اور جاگیر سے اشک شوئی کی جائے گی ،۔
لیکن اس سال ایک نئی شرط یہ ہو گی
کہ
جو شخص تالاب میں چھلانگ نہیں لگائے گا ! اس کی زر خرید باندیوں میں سے ادھی نفری بحق بادشاھ ضبط کر کے بادشاھ کے حرم میں داخل کر لی جائے گی ،۔
باندیوں اور کنیزوں کا بادشاہی حرم میں داخلے کا شوق تھا کہ اپنے مالک کو بچانے کی خواہش  ، سب مردوں کی باندیاں فوراً ان کے پیچھے آن کر کھڑی ہو گئی تاکہ کسی کی بیوی اس کو دھکا نہ دے سکے ،۔
اس سال کوئی بھی شخص تالاب میں نہ کود سکا ،۔
سب کی باندیوں کی ادھی نفری بحق بادشاھ ضبط کر لی گئی ،۔
کسی کی تین گئیں کسی کی پانچ سب سے زیادہ نقصان پچھلے سال کے کامیاب شخص کا ہوا کہ اس کی پچیس نفر بانیاں بادشاھ کے حرم میں داخل کر لی گئی ،۔
اس سال کا سب سے ناکام شخص بھی وہی ٹھہرا ،۔
اس طرح محاور بنا کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے اور ہر ناکام مرد کے پیچھے کئی عورتیں ہوتی ہیں ،۔

شیشہ

جاپان میں ٹوٹ جانے پر خود کو جوڑ لینے والے شیشے کی دریافت ،۔
جاپان کی لوک کہانیوں میں ایک کہانی ہے جس میں
کہ
ایک کنیز اپنے مالک کی محبت کو ازمانے کے لئے ایک شیشے کی پلیٹ ٹوڑ دیتی ہے ،۔
محبت کا ٹیسٹ ناکام ہو جاتا ہے اور مالک اس کنیز کو قتل کروا کر اندھیرے کنوئیں میں پھینکوا دیتا ہے ،۔
کنیز ایک چڑیل بن کر آ جاتی ہے اور ہر رات باقی کی بچی ہوئی پلیٹوں کو گنتی رہتی ہے ،  پلیٹیں گن گن کر کنیز کی روح مالک کی مت مار دیتی ہے کہ مالک کو بھی خود کشی کرنی پڑ جاتی ہے ،۔
ہائے ، کاش  !!۔
کہ
ٹوکیو یونیورسٹی ، خود کو جوڑ سکنے والا شیشہ اس زمانےمیں دریافت کر لیتی تو ، یہ دونوں کریزی بچے مرنے سے بچ جاتے بلکہ تھوڑی سی کوشش سے پنشن  بھی پاتے  اور ہو سکتا ہے کہ انشورینس کا کوئی اچھا سا پلان لے کر بہت سے بچے جنم دے کر چھوڑ جاتے ،۔
لیکن  ایسا نہیں ہوا تھا
اب اکیسویں صدی میں ٹوکیو یونیورسٹی نے ایک ایسا شیشہ دریافت کیا ہے جو کہ ٹوٹ جانے کی صورت میں  انسانی ہاتھوں سے اگر ٹوٹی ہوئی جگہوں پر جوڑ دیا جائے تو چند سیکنڈ میں جڑ جاتا ہے، ۔
اور اگر اس کو چند گھنٹے  آرام دیا جائے تو شیشہ اپنی اصلی اور پرانی شکل میں مضبوطی سے جڑ جاتا ہے ،۔
تصور کریں کہ اپ ہاکی یا کرکٹ کا میچ دیکھ رہے ہیں ، کرپٹ پاک انتظامی کی سلیکٹیڈ ٹیم کو ہارتے دیکھ کر  کوئی چیز اٹھا کر دیوار میں دے مارتے ہیں تو ؟
بیوی کی چخ چخ اور پیسے کے نقصان کا اندیشہ اب ختم ہو جائے گا ،۔
ہماری زبان میں جو شیشے اور دل میں تریڑ پڑنے والے محاورے ہیں وہ بھی بدل جائیں گے کہ
دلوں کی میل کو دور کرنے والی دوائی (خلوص) توصدیوں پہلے دریافت ہو چکی ہے لیکن کوئی استعمال ہی نہیں کرتا ،۔
اور اب شیشے کی تریڑ والی بات بھی کہانیوں کی بات رہ جائے گی ،۔
پروفیسر آئیدا اور ان کے طلبہ ٹیم سے یہ دریافت بھی دیگر بڑی بڑی دریافات کی طرح بلکل حادثاتی طور پر ہو گئی ہے ،۔
ورنہ پروفسر صاحب ایک قسم کی شریش (جوڑنے والی چیز) کو بنانے کی کوشش میں تھے ،۔

Popular Posts