جمعہ، 28 اپریل، 2017

درویش کی بات

پینو کے خصم نے دوسری شادی کر لی ۔
جوان بیوی کے ساتھ مگن پینو کے خاوند کی بے رخی نے پینو کا دل توڑ دیا ،۔
پینو کو سمجھ ہی نہیں لگ رہی تھی کہ جس مرد کے ساتھ لڑکپن سے لے کر جوانی  بیتا دی اب سے کے بغیر پہاڑ سی زنگی کیسے گزرے گی ۔
ہر وقت ٹھنڈی آہیں بھرتی پینو کو دیکھ کر اس کی ایک سہیلی نے اس کو بتایا کہ
وہان پہاڑوں میں ایک درویش رہتا ہے ،۔ اس کے پاس جاؤ شائد تمہاری مایوس زندگی میں کو تبدیلی آ جائے م،۔
پینو ، درویش نے ملنے کے لئے نکل پڑی ،۔ ٹانگے پر  شہر تک وہاں سے لمبے روٹ کی بس ، پہاڑوں کے پاس کی چھکڑا ویکن  اور پتہ نہیں کون کون سے سواریاں بدل کے کئی دن پیدل چل کر  جب پینو درویش کے پاس پہنچتی ہے ،۔
اور درویش کو ساری داستان سناتی ہے ،۔
درویش سر جھکائے ساری بات سنتا رہتا ہے ،۔
آخر پر پاس پڑی مٹی کی گڑوی سے کڑ کی ایک ڈلی نکلا کر پینو کو دیتا ہے ،۔
 پینو بڑے شوق سے گڑ کھا جاتی ہے ،۔
پینو گڑ ختم کرتی ہے تو
درویش پوچھتا ہے
ایک اور چاہئے ؟
پینو بڑے شوق سے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے  کہتی ہے کہ ہاں ایک اور عنایت فرما دیں ،۔
درویش ، پینو کی انھوں میں دیکھتے ہوئے فرماتا ہے ۔
کیا تمہیں مسئلے کی سمجھ لگی ہے ؟
پینو سوچ میں ڈوب جاتی ہے ،۔ سر جھکائے ہوئے آہستگی سے بولتی ہے
ہاں  ،  میرا خیال ہے کہ انسان بنیادی طور پر حریص ہے ،۔
انسان کو ایک چیز ملتی ہے تو دوسری کی حرص کرتا ہے ، ایک نئی چیز کی ایک بڑی  چیز کی ، اور اس حرص کا کبھی اختتام نہیں ہوتا ،۔
مجھے چیزوں کی ناپائیداری کا خیال کرنا چاہئے اور مایوس ہونے سے بچنا چاہئے ،۔
یہاں تک پہنچ کر پینو سر اٹھاتی ہے اور درویش کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے ۔
آپ یہی کہنا چاہتے ہیں ناں ؟
درویش نفی میں سر ہلاتا ہے اور بڑے تاسف بھرے لہجے میں کہتا ہے
نئیں ، میرا کہنے کا مطلب ہے کہ
تم بہت زیادہ  موٹی ہو ۔
تمہیں اپنا کھانا کم کرنا چاہئے !!م،۔

اتوار، 23 اپریل، 2017

قصائیاں دی لڑائی (پنجابی)۔

کالو قصائی دی شادی دی گل اے
کہ
خیر پنڈ وچ ایس گل تو تے سارے ہی واقف  سن کہ قصائیاں دے ویاھ تے لڑائی تے  مسٹ ہونی اے ،۔
جنج نکلن تو پہلوں پھپھڑ تے چاچے منان لئی  ہون والی لڑائی  تے بس ایک ادھ بندے دے کھنے سیکن  تک ای رہی ،۔
پر دوجے دن ولیمے تے جیہڑی لڑائی شروع ہوئی ،ایس وچ سر پاٹے ، کھنے سینکے تے نالے کتنے ای بندے پھٹر ہوئے تے
پنڈ والیاں نے پولیس سد لئی ،۔
پولیس والیاں آ کے سارے قصائیاں نوں نالے پھینٹی لائی تے نالے پھڑ کے لے گئے ،۔
جدوں پولیس پھڑدی  تے صلح سلوک کروان والے وی  چالو ہو جاندے نے ،۔
بہرحال ، گل چوہدریاں دے ڈیرے تک پہنچی ، وڈے چوھدری صاحب ، منجی تے بیٹھے سن تے سارے قصائی ایہاں دے سامنے ای فیر ایک دوجے نال گبھ کسنیں  ہو گئے ،۔
فیر مار کٹ تے کاکو رولا  ہون لگیا جیہڑا قصائی دے ویاہاں دا رواج سی
پر چوہردی صاحب دے ڈیرے تے پولیس والے وی کول ای کھلوتے سن ،۔ پولیس والیاں نے فیر کئی بندیاں لوں  لمیاں پاء کے پھینٹی لائی ،۔
پھینٹی کھا کے قصائیاں دا مچ مریا تے
اپی سارے تھلے زمین تے وچھیاں پھوڑیاں تے بہہ گئے ،۔
کالو دے ویاھ تے جاجو  ایس دا سربالا بنیا سی ،۔
سجے ہتھ دیاں انگلیاں تے  پٹیاں بنیاں ہویاں سن ،۔
جاجو قصائی اگے ہو کے آکھدا اے چوہدری صاحب میں ساری گل سناناں واں
کہ لڑائی کنے شروع کیتی سی، اے سارا قصور کالو دا جے ،۔
ہویا اے کہ
تہانوں پتہ ای اے کہ
ولیمے والے دن ساڈی برادری دا رواج اے کہ نویں وہٹی برادری دے نزدیکی لوکاں دے نال ناچ کردی اے ،۔
تے سب تو پہلوں سربالے دی واری ہوندی اے ،۔
ہن ایس  ویاھ دا سربالا میں ساں
ایس لئی نوئیں وہٹی دے نال میں ڈانس شروع کیتا ، برادری دیاں کڑیاں ڈھولکی وجانیداں  سن ،۔
ڈھولکی دی تاپ تے میں تے کالو دی وہٹی  ڈانس کردے رہے
پر ڈھولکی وجان والیاں  کڑیاں  جوش وچ آ گیاں تے ڈھولکی وجاندیاں ای چلیاں گیاں ،۔
نچ نچ کے
نوں وہٹی نڈھال ہو کے میریاں باہواں وچ ڈھلکی ہو گئی سی
میں ایس نوں اپنی کھبی بانہہ سے سنبھالیا ہویا سی
تے
کالو نے آ کے وہٹی دے چڈیاں وچ جتھے نازک تھاں ہوندی اے اوتھے ،اپنے زور دے نال کک مار دتی دی سی ۔ْ
جاجو دی گل سن کے چوہدری صاحب دے منہ تو نکل گیا
اوئے ، اے تے بڑا ظالماں والا کم کیتا کالو نے ،۔
اتے اگوں جو کجھ جاجو نے آکھیا
ایس نوں سن کے چوہدری صاحب نے جاجو دیاں ٹٹیاں انگلاں تے وی ترس نئیں کھادا تے جاجو نو لمیاں پوا کے ایس دی بنڈ تے سو لتر لوائے سن ،۔
پتہ جاجو نے کی آکھیا سی ؟
جدوں چوہدری صاحب دے منہوں نکلیا
کہ
اوئے ، اے تے بڑا ظالماں والا کم کیتا کالو نے ،۔
تے جاجو آکھدا اے
ظلم جہیا ظلم جی ، نازک تھاں دے اندر میریاں انگلیاں سن ، کالو نے کک مار کے میریاں انگلیاں تروڑ دتیاں نے ،۔

اتوار، 16 اپریل، 2017

طلبہ تنظیموں کو بحال کرو

جس طرح جمہوریت کی کرپشن کا علاج مذید جمہوریت ہے
کہ انتخابات کے تسلسل سے ووٹ کے ذریعے گندے لوگ ٹھکانے لگتے جائیں گے م،۔
جس طرح تفرقے بازی کا علاج مذید اسلامی تعلیم ہے ،۔
اسی طرح یونورسٹیوں میں لڑائی جھگڑے کا علاج بھی مضبوط طلبہ تنظیمیں ہیں ،۔
شروع میں لگتا ے کہ انارکی پھیل رہی ہے
لیکن آہستہ آہستہ پھینٹی کا خوف پھینٹی لگانے سے بھی باز رکھتا ہے م،۔
سب سے ؓری بات یہ کہ آپ کو اس بات کا ادارک ہونا چاہئے کہ سیاستدان کیا ہوتا ہے ؟
سیاستدان ،سوشل ورکر کی ایک اعلی ترین قسم ہوتی ہے م،۔ جس کی جبلت میں معاشرے کے لئے تعمیری کام کرنے شامل ہوتے ہیں ،۔
معاشرہ اس کو ووٹ کی طاقت سے سرکاری مشینری پر نگران (وزیر) بنا کر اس کو اپنی جبلت کی تسکین کا موقع فراہم کرتا ہے ،۔
جس کی وجہ سے امریکہ ، برطانیہ ، جاپان اور یورپ جیسے معاشرے پروان چڑھتے ہیں ،۔
اور یہ سیاستدان پیدا ہوتے ہیں طلبہ تنظیموں سے !!،۔
یاد رہے کہ امریت (فوجی حکومت) اور استعمار (سویلین قابض) ہر دو ، طلبہ تنظیموں کے دشمن ہوتے ہیں ،۔
کیونکہ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ نئی نسل میں لتنا بڑا لیڈر پیدا ہو جائے جو کہ آمریت اور استعمار کو کچل کر رکھ دے ،۔
اس لئے آمریت اور استعمار طلبہ تنظیموں پر پابندی بلکہ کچلنے کی کوشش کرتے ہیں ،۔
اگر اپ دیکھتے ہیں کہ اج ایک طلبہ تنظیم ڈنڈے کے زور پر جامعات میں اپنے فلسفے اور فرقے کے نام پر گند کر رہی ہے ، تو ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ایک تنظیم کو آمریت کی پشت پناہی حاصل تھی اور اس کے مقابلے میں کوئی تنظیم نہیں تھی جو آمریت کی دست راست اس تنظیم کے کسی بھی عمل پر رد عمل دیکھا سکتی ،۔

ہفتہ، 15 اپریل، 2017

جاپانی گالیاں

جاپانی اور گالیاں
****************
ایک دلچسپ واقعے کا میں گواھ ہوں کہ
ایک بندے نے روزمرہ کی جاپانی سیکھ لی تھی ساتھ کام کرنے والے جاپانی سے کچھ کھندک سے ہوئی تو اس پاکستانی نے جاپانی کو پنجابی کی ایک گالی جاپانی میں ٹرانس لیٹ کر کے دے دی ۔
جس گالی میں جاپانی کی ماں کو “کچھ” کرنے کی خواہش کا اظہار تھا

جاپانی گالی سن کر اس کو جواب دیتا ہے ۔
میری ماں تمہیں نہیں دے گی وہ میرے ابّے کے ساتھ بہت مطمعن ہے م،۔

پاس کھڑے خاور کا ہاسا نکل گیا تھا،۔
کہ
جاپان کی معاشرت بھی عجیب معاشرت ہے
کہ
جاپانی زبان میں گالی نہیں ہے ،۔
ایسی بھی بات نہیں غصے میں جاپانی بھی مد مقابل کو زچ کرنے کے لئے کچھ الفاظ ادا کرتے ہیں اور ان کا اثر بھی ہوتا ہے ،۔
مثلاً “ باکا یارو “ اس کو اردو میں پاگل کار کہہ لیں ، یعنی پاگل پن کے کام کرنے والا ،۔
دوسری مثال ہے “ کونو یارو” جس کو پنجابی میں کہہ لیں “وڈا کارو” ۔ اور موقع محل سے یہ بات سجتی بھی ہے اور سننے والے کو شرمندگی بھی ہوتی ہے ،۔
جاپانی زبان میں دوسرے کی تحقیر کے سارے ہی الفاظ ہیں
دلّا
کام چور ،
نکما
سست
اور جس بندے میں جو نقص ہو اسی نقص کی گالی دی جاتی ہے ،۔
اب اگر اپ کسی بندے کو غصے میں پنجابی سٹائل میں “ دلّا “ کہہ دیتے ہیں ،۔
جس کے لئے جاپانی میں “ ہیمو” کا لفظ بولا جاتا ہے ،۔
تو گالی سننے والا بجائے غصہ کرنے کے حیران ہو کر آپ کو دیکھنے لگے گا
کہ
میں دلّا ہوں ہی نہیں تو مجھے یہ کیوں کہہ رہے ہو؟
کسی عام عام کو اپ کہتے ہیں “ناماکے مونو” یعنی سست !۔ تو وہ بھی اپ کی عقل پر افسوس کر کے اپ کو “ باکا “ کہہ سکتا ہے کہ میں تو سست ہوں ہی نہیں تو تم مجھے پہچان نہ سکنے والے خود پاغل ہو گے ،۔
پاک لوگوں کی غیرت یعنی کہ ماں بہن کی گالی کا یہان تصور ہی نہیں ہے ،۔
اس لئے اگر اپ جاپان کے کسی دیوی دیوتا ، کسی گزر چکے بڑے بزرگ کو ماں بہن کی گالی دیتے ہیں تو ؟
سننے والا جبائے اپنے بزرگ کی توہین محسوس کرنے کے اپ کی عقل پر افسوس کرئے گا کہ
جس کی ماں یا بہن سے تم سیکس کرنے کی خواہش کر رہے ہو اس کو مرئے ہوئے بھی صدیاں گزر گئیں ہیں تو تم اس کو “چودو” گے کیسے ۔
کل کلاں کو اگر جاپان کسی پیغمبر کو ماننے لگتے ہیں ،۔
اور کوئی بد بحت ان کے پیغمبر کو گالی دیتا ہے تو ؟
جاپانی کندھے اچکا کر نکل دیں گے کہ
ہمارے پیغمبر میں یہ نقص تھا ہی نہیں
تم اپنی عقل کا علاج کرواؤ۔
میرا خیال ہے اپ سمجھ تو گئے ہوں گے ؟
کہ
میں کہنا کیا چاہتا ہوں ،۔

Popular Posts