جمعہ، 12 مئی، 2017

ایک کہانی


جب وہ پیدا ہوا تو اس کا نام شیباشٹن رکھا گیا ،۔
ابھی وہ چند ماھ کا تھا کہ اس کا آئریش باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا ،۔
برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک اور سوشل ویلفئیر کے نظام کی وجہ سے اس کی ماں کو اس کے پالنے میں کوئی زیادہ دقت تو نہیں ہوئی
لیکن پھر بھی ایک اکیلی عورت کو سہارا چاہئے ہوتا ہے م،۔
جو اس کو نواز کھوکھر کی صورت میں مل گیا ،۔
 نواز کھوکھر ایجنٹ کو پیسے دے کر پنجاب کے بہت سے جوانوں کی طرح خوابوں کی سرزمین برطانیہ میں آ تو  گیا تھا لیکن ویزے کی مشکلات  تھیں جن کو حل کرنے کے لے اس کو بھی ایک سہارے کی تلاش تھی ،۔
چرس  کی عادت نواز کھوکھر کو وہاں چکوال کے نواحی گاؤں میں پڑ چکی تھی اور یہاں برطانیہ میں شراب کی بہتات دیکھ کر اس کا جی چاہتا تھا کہ شراب میں ڈبکیاں لگائے ،۔
شیباشٹن کی ماں سے میرج رجسٹر کروا کر ویزے کے لئے اپلائی کر دیا ،
ایک ڈسکو کلب کے باہر گارڈ کی نوکری مل گئی ،۔
 شیباشٹن کی ماں بھری جوانی میں روڈ ایکسڈنٹ  میں شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائی گئی ،۔
ویزے کے انتظار میں  نواز کھوکھر کو اس عورت کی موت  اپنی ڈیپورٹیشن نظر آ رہی تھی ،۔
نواز کھوکھر نے دل کی  گہرائیوں سے شیباشٹن کی ماں کی زندگی کے لئے دعا کی
لیکن جو خدا کو منظور تھا
کہ شیپاشٹن کی عمر اس وقت کوئی تین سال تھی جب اس کی ماں  مر گئی ،۔
لیکن نواز کھوکھر کو ویزہ مل ہی گیا کہ اس نے شیباشٹن کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی کرنی تھی ،۔
اپنی دنیا میں مگن نواز کھوکھر جس کو عورت اور شراب ڈسکو کے گارڈ کی نوکری کی وجہ سے وافر مسیر تھیں ،۔
اس کو اب شادی کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ
ویزہ بھی مل چکا تھا ،۔
تین سالہ شیباشٹن کی دیکھ بھال اس کو مصیبت نظر آنے لگی ،۔
نواز کھوکھر نے شیباشٹن کو اپنے ماں باپ کے پاس وہاں اپنے گاؤں بھیج دیا ،۔
*********************

گاؤں میں سارے لوگ اسکو ککا کہتے  تھے ، وجہ تسمیہ اس کی یہ تھی کہ نیلی آنکھیں سنہرے بال ، سفد رنگ ، جو کہ اس علاقے میں سو میل کے ایریا میں کسی کا نہ تھا ،۔
ککا اپنے دادی دادے کے ساتھ رہتا تھا ،۔
ککے کا باپ کہیں فارن میں رہتا تھا ،جو کہ ماں باپ کو  کبھی کبھی پیسے بھیج دیتا تھا ،۔
ککے کے باپ کا فون بھی کم ہی آتا تھا
اور خود کبھی واپس آیا ہی نہیں ،
کہ
ککے کو اپنے باپ کی شکل بھی یاد نہیں تھی
کہ ککے نے جب سے ہوش سنبھالی تھی اس کے اپنے باپ کو گھر آئے دیکھا ہی نہیں تھا ،۔
ماں کے متعلق اس کو اس کی دادی نے بتایا تھا
مر کھپ گئی تماری ماں ، میرے سامنے اس کا نام نہیں لینا ،۔
ککے کو دادی سے بہت پیار تھا اس لئے ماں کا کبھی ذکر بھی زبان پر نہیں لایا م۔
دادے کی کچھ زرعی زمین تھی ککے کے لاڈ دیکھنے کو گھر کے دانے اور پیسے بھی تھے،۔

 دادی دادے کا لاڈلا پرائمری سکول تک تو گاؤں کے سکول میں ہی پڑھا،۔

جب مڈل سکول کی باری آئی تو نزدیکی قصبے کے مڈل سکول تک جانے کے لئے دادے نے سائیکل لے دیا ،۔
علاقے کے  سارے لڑکوں کی  باتیں سن سن کا ککے کا بھی ذہن   پڑھائی کی بجائے فارن میں جا کر کامیابی کی طرف ہی لگا رہتا تھا ،۔
مڈل کرنے کے بعد ککا چکوال کے ہائی سکول میں جانے لگا ،۔
چکوال میں کھلی فضا میں ککے کے پر کھلنے لگے تو یاری دوستیاں بھی بن گئیں ،۔
سکول سے بھاگ کر لاری اڈے پر چلے جانا ، کبھی کوئی دوست چائے پلادے تو عیاشی  ورنہ گھومنے پھرنے کی عادت ،۔
دادی دادے سے پیار تھا
اس لئے شام کو بڑے روٹین سے گھر پہنچ جاتا تھا ،۔
نوئیں میں فیل ہونے پر دادے نے ککے کو چکوال میں بجلی کے مکینک کے پاس شاگرد بٹھا دیا ،۔
کہ ہاتھ سیدھے کر لو  کچھ کما کھا لو گے ، ککے کا بھی اس کام میں دل لگ گیا کہ ککے کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے “نکے “ بھی فریج اور ائیر کنڈیشن کی مرمت کا کام اسی لئے سیکھ رہے تھے ، کہ ان دنوں سعودیہ میں  میں اس کام کی بڑی مانگ تھی ،۔
ککے کے ساتھ کام کرنے والا اس کا ایک سینئر  ککے کے دیکھتے ہیں دیکھتے سعودیہ چلا گیا ، اور وہاں سے پیسے بھیجنے لگا ۔
ککے کا بھی بہت جی چاہتا کہ جلدی کام سیکھ کر وہ بھی سعودیہ جائے اور دادے دادی کی اتنی خدمت کرئے گا کہ ان کو لندن گئے بیٹے کا دکھ بھول جائے گا ،۔
وقت گزرتا رہا ، کچھ سال بعد ککا ،اپنے کام میں پختہ ہو گیا ،  واشنگ مشین ، فریج اور ائیرکنڈیشن کا ایسا گاریگر بنا کہ استاد کو کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ،۔
ایک دن ککے کے استاد نے خود اس سے کہا کہ
کیا خیال ہے تمہارے لئے کسی ایجنٹ سے بات کروں ، سعودیہ جانے کے لئے ؟
سعودیہ جانے کے ان دنوں آزاد ویزے کا ریٹ بھی بیس ہزار روپے تھا ،۔
ککے نے دادے سے بات کی ، دادی نے ککے کے باہر جانے کا سن کر رونا شروع کردیا ،۔
ککے اور دادے نے بڑی مشکل سے دادی کو منایا کہ ککا سعودیہ سے ہر سال ملنے کے لئے آیا کرئے گا، ۔
اور ویزے کا ایگریمنٹ بھی بس پانچ سال کا ہے اس کے بعد یہاں آ کر چکوال میں اپنی ورکشاپ شروع کر لے گا،۔
ککے کے دادے نے ادھر ادھر سے پکڑ کر بیس ہزار کی رقم تیار کی ۔
ککے کے استاد نے ایجنٹ سے بات کہ کہ رقم تیار ہے ، اب بتاؤ کہ کب منڈے کو سعودیہ بھیج سکتے ہو ؟
ایجنٹ سے بتایا کہ پاسپورٹ کا انتظام کرو ، ایک ماھ میں منڈا سعودیہ میں ہو گا ،۔
اس دن پتہ چلا کہ ککے کا تو شناختی کارڈ ہی نہیں ہے ،۔
شناختی کارڈ بنوانے گئے تو
پتہ چلا کہ ککے کا تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے ،۔
ککا اور دادا شام کو پریشان بیٹھے تھے کہ
کس کو کہہ کر یہ کام کروائیں
کہ دادی نے پوچھا  کہ معاملہ کیا ہے ،۔
تو ککے نے بتایا کہ ایک کاپی سی ہوتی ہے جس کو پاسپورٹ کہتے ہیں ،۔ وہ ضروری ہوتا ہے جہاز پر بیٹھنے کے لئے ، وہ  بنوانا ہے ،۔
لیکن میرا تو نام ہی کہیں نہیں نکل رہا ،۔
ککے کی دادی گئی اور ایک صندوق سے ایک پرانا سا نیلے رنگ کا پاسپورٹ لے کر آ گئی کہ
بیٹا شہباز پتر ، جب تم اس گھر میں آئے تھے تو جہاز پر بیٹھ کر برطانیہ سے آئے تھے، اس وقت تمہارے پاس یہ کاپی تھی م،۔
ککے نے جب  وہ پاسپورٹ ھاتھ میں لیا تو وہ برٹش پاسپورٹ تھا
جس پر ککے کی  بچپن کی فوٹو لگی ہوئی تھی، جس پر ککے کا نام  شیباشٹن لکھا ہوا تھا،۔
یہ وہی شیباشٹن تھا جس کو نواز کھوکھر نے بوجھ سمجھ کر چکوال بھیج دیا تھا ،۔
اور ککے کے دادا دادی وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اس کو ساری زندگی احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ تم ہمارا خون ہی نہیں ہو ،۔

بدھ، 10 مئی، 2017

اونٹ کٹارے


اونٹ کٹارے
اونٹ کٹارے ۔
جاپانی زبان کا ایک محاورہ ہے ،۔ جس کے معنی ہیں موٹا کر کے کھاؤ !،۔
جاپان کے وہ تونگر لوگ جو نئے کاروباری کو ، کاریگر کو جوان یا ناتجربہ کار کو سرمایہ مہیا کر دیتے ہیں ، اوزار لے کر دیتے ہیں ،کاروباری حلقوں میں متعارف کروا کر ایک طرح سے اس بندے کو موٹا کر رہے ہوتے ہیں کہ
جب یہ بندہ موٹا ہو جائے گا تو اس بندے سے فوائد حاصل کریں گے ،۔
اب مزے کی بات یہ کہ جو لوگ کسی کو "موٹا " کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں ، وہ خود اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کو کسی کی مدد کی ضروت ہی کم پڑتی ہے ،۔
دوسروں کو اسٹنیڈ کرنے کی خواہش میں ، دوسروں کو دینے کے لئے مال حاصل کرتے کرتے اتنے مال دار اور سورسز کے مال بن چکے ہوتے ہیں کہ
کسی کو موٹا کر کے اس کو ذبح کر کے کھانے کی طلب ہی نہیں رہتی ،۔
اونٹ کٹارے ۔
کہ
یہی محاورہ جب کوئی جاپان میں پناھ گزین بے وطن بندہ سناتا ہے
تو
اس بندے کے ذہن میں "خود ترسی " کی طلب نظر آ رہی ہوتی ہے ،۔
کہ
سر جی آپ کے پاس مال ہے مجھے بھی موٹا کرو ، بعد میں بے شک کھا لینا ،۔
یعنی کہ اگر جاپانی بولے تو یہی محاورہ کچھ اور معنوں میں ہوتا ہے اور
اگر
میرے لوگ بولیں تو متروس کچھ مدد چاہتا ہے ،۔
اونٹ کٹارے ، یہ پھول زعفران جیسا ہے ، زعفران ہے نہیں ،۔

Popular Posts