بندے اور نائی کا فرق !،۔
بندے اور نائی کا فرق !،۔
چڑھتےسورج کی سرزمین جاپان سے
ایک عام سے بندے کی عام سی باتیں ـ
بندے اور نائی کا فرق !،۔
بقلم خود خاور کھوکھر 0 comments تبصرے
بغیر ن کی نیکی
چوہدری نواز جاپان سے پاکستان جا رہا تھا ،۔
ناریتا (ٹوکیو انٹرنیشنل ائیر پورٹ ) پر اس کو راجہ مل گیا ، چوہدری راجے کو نہیں جانتا تھا ، لیکن راجہ چوہدری کو جانتا تھا راجہ نے ہی آگے بڑھ کر بڑے تپاک سے چوہدری سے تعارف حاصل کیا ،۔
تھائی ائیر ویز کی فلائیٹ تھی ، دونوں نے ایک ساتھ بورڈنگ کروا کر ساتھ ساتھ سیٹ لے لی ، بلکہ اس سے آگے بنکاک سے فلائیٹ ٹرانسفر کے بعد لاہور تک کی سیٹ ساتھ ساتھ لے لی ،۔
جاپان سے تھائی ائیر ویز پر سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ ٹوکیو سے بنکاک پہنچ کر لاہور والی فلائیٹ لینے پر کئی گھنٹے انتظار کرنا ہوتا ہے ،۔
بنکاک پہنچ کر چوہدری نے راجے کو چائے کافی کی آفر کی جس کو راجے نے بڑی خوش دلی سے قبول کیا اور ساتھ بیٹھ کر کچھ چائے پانی کچھ پیسٹری سینڈوچ کھایا ،۔
فلائیٹ کے لئے ابھی بہت وقت تھا ، کنٹین ڈیپارچر گیٹ سے خاصی دور تھی لیکن پھر بھی تھوڑا ریلیکس کرکے بھی پہنچا جا سکتا تھا ،۔
اس لئے چوہدری اونگنے لگا راجے نے بھی تنگ کرنے سے گریز کرتے ہوئے خود کو موبائل فون میں مگن کر لیا ،۔
کوئی دو گھنٹے بعد جب چوہدری کی آنکھ کھلی تو لاہور والی فلائیٹ نکل چکی تھی ،۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ، چوہدری نے رات بنکاک ائیر پورٹ کے اندر والے ہوٹل میں گزاری (ویزے کے بغیر باہر نہیں جا سکتا تھا) اگلے دن کی فل گئیر کی ٹکٹ خریدی بہت سات وقت اور پیسہ ضائع کر کے، اگلی رات بارہ بچے لاہور پہنچا ،۔
گزری رات جو بندے چوہدری کو رسیو کرنے آئے تھے دوبارہ آنے پر چوہدری سے ناراض نارض سے بھی لگتے تھے ،۔
چوہدری کو بڑی شرمندگی اٹھانی پڑی ،۔
جاپان کی دیسی کمیونٹی میں یہ واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ،۔
کئی سال لوگ چوہدری کے بیوقوف بنے پر اس پر ہنستے رہے ہیں ،۔
بلکہ پھر تو چوہدری خود بھی یہ واقعہ سنا کر خود پر ہنسا کرتا تھا ،۔
کسی نے راجے سے پوچھا کہ تم نے ساتھ ساتھ سیٹ ہونے اور ہمسفر ہوتے ہوئے بھی چوہدری کو جگایا کیوں نہیں ؟
تو راجہ صاحب نے بتایا ،۔
میں چوہدری کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ،۔
اسے کہتے ہیں
بغیر ن کے والی نیکی ،۔
اور ایسے ہوتے ہیں ، بغیر ن کے والے نیک !،۔
بقلم خود خاور کھوکھر 0 comments تبصرے
جاپانی دوست شیگے کے ساتھ پاکستان اپنے گاؤں گیا ہوا تھا ، اپنے پرانے کلاس فیلو برگیڈئیر بشیر نواز سے ملنے کینٹ جانا تھا ، اپنے پاس تو گاڑی نہیں تھی شیگے کی ساتھ ہونے ک وجہ سے ایس پی مختار چیمہ صاحب نے آفر کی تھی کہ کوئی پلس کا بندہ بھیج دیں گے ،۔
چیمہ صاحب بھی میرے ہائی سکول کے کلاس فیلو تھے ،۔
میں اور شیگے گھر سے نکلے ، کہ پلی کے پاس بغل میں کلارنٹ باجا دبائے بڑی سجیلی وردی پہنے جلدی جلدی چلتا ہوا اپنا بچپن کا دوست بھولا باجے والا مل گیا جس کی ساری ٹولی سرخ سفید وریوں میں کندھوں پر جھالریں لگائے سجے بنے کھڑے تھے ،۔
بھولے کو جیسی تیسی انگریززی آتی تھی اس انگریزی میں شیگے کو بتانے لگا ، بڑی کمائی ہے ، پے یعنی سائی کی رقم تو بس ایویں نام کی ہوتی ہے ، “ اتوں “ کی کمائی بہت ہے ، ۔
میں نے شیگے کو اپنا شادیوں کے کلچر اس میں بینڈ کا کردار اور ویلوں کی طرح ملنے والی “ اتوں “ کی رقم کے متعلق تفصیل سے سمجھا دیا ،۔
چیمے نے تین فیتی والا حوالدار بھیجا تھا ڈالے پر ، وردی پوش حوالدار صاحب کو شیگے سے باتوں کا شوق تھا بڑی باتیں کرتے رہے شیگے کو بتاتے رہے کہ پے یعنی تنخواھ تو بس ایویں سی ہے “ اتوں “ کی کمائی بہت ہے ،۔
قصہ مختصر کہ کینٹ میں چیمہ صاحب بھی وردی میں ہی تھے ، شیگے جاپانی پر رعب ڈالتے رہے کہ ایویں جاپان جا کر کمائی وغیرں سے زیادہ یہاں پاکستان میں ہی رہنا چاہئے کہ پے بیشک کم ہے لیکن “اتوں “ کی کمائی بہت ہے ،۔
اس بات کو گزرے
پچیس سال ہونے کو ہیں ، شیگے اج تک اسی یقین میں مبتلا ہے کہ پاکستان میں سارے وردی والے بینڈ واجے والے ہی ہوتے ہیں م،۔
جن کی اوپر کی کمائی بہت ہوتی ہے ۔ْ
اس کا وہم کسی حد تک ٹھیک بھی ہے ،
وردی والوں نے ساری قوم کی بینڈ بجا کے رکھی ہوئی ہے ، الٹی لٹائی ساری قوم کی تشریف کو ڈھولکی کی طرح بجا رہے ہیں ،۔
ہیں ناں بینڈ باجے والے ؟
ساری قوم کی بینڈ بج رہی ہے ،۔
خاور کھوکر
بقلم خود خاور کھوکھر 0 comments تبصرے
جاپان کی ٹاپ ٹین مساجد !،۔
جاپان ، جہاں اج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں لاتعداد مساجد ہیں ،۔
ان لاتعداد مساجد میں سے دس قابل ذکر اور خوبصورت مساجد کا ذکر ،۔
نمبر دس : شیزو اوکا مسجد
بہت ہی خوبصورت ماحول یعنی سینری سی لگتی ہے ۔
پرسکون ماحول ، میں اس مسجد کی عمارت مدعو کرتی ہوئی لگتی ہے ،۔
نمبر نو : سیندائی مسجد ، سیندائی
توہوکو کے علاقے میں میں پہلی مسجد، سینڈائی مسجد، نے دیگر علاقائی نماز کی جگہوں کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے۔
یہ مسجد 2007 میں کھولی گئی تھی اور یہ توہوکو یونیورسٹی کے کاوا اٗوچی کیمپس کے مرکز میں ہے، اس لیے یہ مسلمان طلباء کے لیے عبادت کے لیے ایک جگہ ہے۔
ایک سادہ عبادت گاہ ہونے کے علاوہ، مسجد مسلم کمیونٹی کے لیے اجتماع کی جگہ ہے۔
جہاں اسلامک کلچرل سینٹر آف سیندائی (ICCS) ہیڈ کوارٹر ہے۔
نمبر آٹھ : یوکوہاما بڑی مسجد یوکوہاما
یوکوہاما مسجد جس کو جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے ، سن دو ہزار جھ میں تعمیر کی گئی تھی ،۔
اگر آپ اس مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو آپ اس کی باوقار اور خوبصورت شکل سے متاثر ہوں گے، خاص طور پر سنہری رنگ کے استعمال سے۔
یہ مسجد یوکوہاما میں وسیع پیمانے پر مسلم کمیونٹی کی خدمت کرتی ہے، جو نماز کے لیے ایک جگہ ساتھ ساتھ بچوں اور خواتین کے پروگراموں سمیت متنوع تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرتی ہے۔
نمبر سات : اوتسکا مسجد ٹوکیو
جاپان اسلامک ٹرسٹ کے زیر انتظام، اوتسوکا مسجد توشیما وارڈ، ٹوکیو میں ہے۔
مسجد کے اندر، آپ شووا (سن انیس سو اٹھاسی سے پہلے) دور سے ایک پرانی یادوں کا ماحول محسوس کریں گے
جو وہاں کی مسلم کمیونٹی کی گرمجوشی کے ساتھ مل جاتا ہے۔
یہ مسجد وسیع پیمانے پر تعلیمی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتی ہے اور کمیونٹی میں بہت سی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔
نمبر چھ : فوکوکا مسجد ،النور اسلامک کلچر سنٹر ،۔
2009 میں باضابطہ طور پر کھولی گئی، فوکوکا مسجد النور اسلامک کلچر سینٹر کیوشو جزیرے پر پہلی مسجد ہے۔
اس مسجد کی عمارت جاپان کی جمالیات کے ساتھ روایتی اسلامی تعمیراتی ڈیزائن کو شامل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ایک مذہبی سہولت کے طور پر کام کرنے کے علاوہ، اس میں کئی دیگر فائدہ مند سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، جو اسے فوکوکا کی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم اجتماع کی جگہ بناتی ہے۔
یہ مسجد جاپان کی مقامی اور ایکسپورٹ منڈیوں کے لیے حلال سرٹیفیکیشن جاری کرنے کا پروگرام بھی ہے۔
نمبر پانچ : اوساکا اباراگی مسجد اوساکا۔
اپنے جدید اور ملائم ڈیزائن کے ساتھ، جس میں براون اور سنہری رنگت جھلکتی ہے۔
اوساکا ایباراگی مسجد اوساکا یونیورسٹی کے ایباراکی کیمپس اور کئی جاپانی کمپنیوں کے بالکل قریب واقع ہے۔
2006 میں اپنے دروازے کھولنے کے بعد سے، یہ مسجد اپنے ارد گرد کے مسلمان طلباء اور کارکنوں کی روحانی زندگی کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ یہ اوساکا میں بڑھتی ہوئی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک سیمبل کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
نمبر چار : آراتاما مسجد ناگویا ۔
1998 میں تعمیر کی گئی ناگویا مسجد کو "اراتما مسجد" کہا جاتا ہے۔ روایتی اسلامی طرز تعمیر کی موجودگی اس مسجد کے جدید ڈیزائن میں توازن رکھتی ہے۔
جو جدید اور اسلامی ورثے کا اظہار کرتی ہے۔
یہ مسجد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے اجتماع کی جگہ بن گئی ہے، جہاں ہفتہ اور اتوار کو باقاعدہ مقامی کلاسز، چائے کی پارٹیاں اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
یہ ناگویا اور آس پاس کے علاقے میں مسلمانوں کے لیے مشاورت اور معلومات کے تبادلے کے لیے ایک اڈے کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔
نمبر تین : اسلاما مسجد وینو اوکاچی ماچی مسجد ۔
رونق سے بھرپور Ueno میں واقع، السلام مسجد واقعی ایک خوش آئند منظر ہے۔
فن تعمیر سادہ ہے، لیکن مسجد ایک بہترین دار کوشش اور عبادت اور غور و فکر کے لیے کامل سکون کی جگہ ہے۔
اگرچہ اجتماعی عبادت ایک اہم پہلو ہے، لیکن اس جگہ کی کوششوں میں ٹوکیو میں ثقافتی میل جول کے مرکز کے طور پر کام کرنا بھی شامل ہے۔
جس میں متعدد کمیونٹی تقریبات اور تعلیمی پروگرام باقاعدگی سے طے کیے جاتے ہیں۔
نمبر دو : ٹوکیو کامی مسجد ترکش کلچر سنٹر ۔
جاپان کی سب سے بڑی (اور سب سے مشہور) مسجد ٹوکیو کامی ہے۔ اس کے اونچے مینار اور آسمانی نیلے گنبد ترکی اور جاپانی ثقافتوں کے ملاپ کی علامت ہیں۔
شاندار عثمانی ترک فن تعمیر کا نمونہ، ٹوکیو کامی مسجد کو اصل میں 1938 میں تعمیر کیا گیا تھا اس کے بعد اسے 2000 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ۔
محرابی ستون پر کھڑے ایک بہت بڑے گنبد نما ہال میں نماز کی دائیگی ہوتی ہے ۔
انتہائی خوش رنگ ، رنگوں اور ڈیزائین نے اس مسجد کو روحانی ماحول دیا ہوا ہے،۔
باقاعدگی سے ہونے والی تقریبات نے اس مسجد کو مذہبی مرکز ہونے کے علاوہ ٹوکیو کا ایک مرکزی ثقافتی مرکز بنا دیا ہے۔
نمبر ایک : کوبے مسلم موسک ، مسجد ۔
کوبی مسجد 1935 میں تعمیر کی گئی تھی ، اور یہ جاپان کی قدیم ترین مسجد ہے۔
اس کی فنڈنگ ترکی، اور ہندوستانی مخیر لوگوں سے آتی تھی۔
مسجد میں روایتی اسلامی فن کی نمائش کی گئی ہے، جیسے کہ ایک مینار اور ایک گنبد۔
اسلامی دنیا کے ساتھ جاپان کے تعلقات کا ثبوت ہے۔
جو کہ پرانے زمانے سے جاری ہے۔
اس مسجد نے دوسری جنگ عظیم اور عظیم ہینشین زلزلے (سن انیس سو پچانوے ) کے طوفان کو برداشت کیا ہے، لیکن یہ اب بھی اپنی جگہ پر کھڑی ہے۔
اور ان تمام لوگوں کا خیرمقدم کرتی ہے جو جاپان میں اسلامی روایت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔
تحریر اور تحقیق : خاور کھوکھر۔
بقلم خود خاور کھوکھر 0 comments تبصرے
عمر کے ساٹھویں سال سے ایک سال پہلے کے احساسات ۔
۱: مٹی پاؤ
گزری باتوں پر پریشان ہو کر اپنا حال برباد نہ کرو جی ، جو ہوا سو ہوا ، جو ہو رہا ہے اس کو انجوائے کرو ،۔
جو بندہ روس وکھالا کرتا ہے ۔
کتنا بھی قریبی یا خون کا رشتہ ہو ، اسکو چھوڑ دو ، بس تھوک دو ، ختم شد کر دو ،۔
:۲: سانوں کی ۔
ہر بندہ اپنے اپنی جگہ جو بندہ جو کام کر رہا ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو رہی ہے ، یا کام خراب کر رہا ہے تو ، یہ میری سر پیڑ (سر درد) نہیں ہے ،۔
دوسرون کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش نہیں کرنی ہے کیونکہ وہ مجھ سے سیانے ہیں ۔ْ
:۳: رب تے چھڈ دیو ۔
بہت سی چیزوں کو وقت پر چھوڑ دو ، اللہ خیر کرئے گا ،۔
حسد اور شرارت کرنے والوں کے گھر میں بیماریاں اور ذہنی مریض دیکھو گے ،۔
۴: تقابل نہیں کرو۔
دوسروں سے تقابل کر کے دل نہیں ساڑو ، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ کون ، کن دشوار منزلوں سے گزر کر یہان پہنچا ہے ،۔
پتہ نہیں اس عید مناتے بندے نے کتنے تلخ روزے رکھے تھے ،۔
یا کہ جن کے پاس کرنسی زیادہ نظر آ رہی ہے ، تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ تم سے زیادہ خوشیاں بھی رکھتے ہیں کہ نہیں !،۔
رب نے ہر چیز میں بیلنس رکھا ہے ،۔
۵: ڈٹ جاؤ یعنی مستقل مزاجی ۔
کوئی بھی کام کتنا بھی پھیلا ہوا ہو ، شروع کر دو ختم ہو ہی جاتا ہے ،۔
ایک ایک کر کے الجنوں کو سلجانے لگو ، جلد ختم ہو جاتی ہیں ،۔
حاصل مطالعہ
یہ میں ہی ہون جو اپنی خوشیوں کو خود سے انجوائے کر سکتا ہوں ،۔
تلخ حالات سے خوشیاں کشید کرو اور مسکراتے رہو ،ہر روز کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہے ۔
ہر موسم ہر حال میں کچھ نہ کچھ کرتے ضرور رہنا ہے ، بے شک اڑوس پڑوس کی گھاس پھونس ہی صاف کیون نہ کرنی پڑے ، لیزی نہیں ہونا ہے ،۔
خاور کھوکھر
بقلم خود خاور کھوکھر 0 comments تبصرے
، یہ پوسٹ اپ ڈیٹ کر دی ہے دو ہزار پندرہ ! جنوری چوبیس۔ اپ ڈیٹ پوسٹ کے اخر میں ہے ۔ میکنتوش عرف ایپل کے مارک والے کمپیوٹر میں اردو ک...