بدھ، 23 ستمبر، 2015

منطق اور اصول

اپنے وڈے استاد جناب سقراط صاحب نے سوفسطائیوں کو کہا تھا
مجھے اس بات کا علم ہے کہ  میں کم علم ہوں
لیکن تم لوگوں کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے ْ۔
اپنا گاما ، یہ سب  جانتے ہوئے بھی  پچھلے کچھ دنوں سے ، مذہبی ریاکار ان لوگوں کو جن کے کاروبار کچھ چل نکلے ہیں ۔
ان کو جان بوجھ ستا ستا کر خود کو اہل علم ، سمجھدار ، بیدار مغز  بتا بتا کر مزے لے رہا ہے ۔
ریاکاروں کی کم عقلی کہ  گامے سے تپے ہوئے ہیں اور یہی گاما چاہتا ہے ۔
اب ہوا یہ کہ وہاں منڈی میں   دو تین لوگوں نے اس کو گھیر لیا ،۔
بڑی تیاری سے آئے تھے
ایک پوچھتا ہے اوئے کیا علم ہے تیرے پاس اوئے ، ہم نے تو جتنے عالم دیکھے ہیں وہ خود کو طالب علم کہتے ہیں تم خود کو اہل علم کہہ  رہے ہو ؟
تمہاری یہ بات ہی تمہاری کم عقلی کا ثبوت ہے !۔
گاما: خود کو طالب علم کہنے والے لوگ مذہبی ہوتے ہیں ، دولے شاھ کے چوہوں کی طرح سکڑے دماغوں والے  یہ لوگ جو چودہ سو سال سے  بس علمی کے حصول میں لگے ہیں ،  کسی نتیجے پر نہ پہنچے ہیں ناں پہنچیں گے ۔
پنتالیس سالہ  خان صاحب ، چربی سے چھلکتا جسم چھلکاتا اگے آئے ، آواز کی کپکپاہٹ سے لگ رہا تھا کہ گامے سے ڈرے ہوئے بھی ہیں ، اور غصے میں بھی ہیں ۔
 پتہ نہیں کس نے ان کو سوال گھڑ کر دیا تھا
جو انہوں نے گامے کے آگے رکھ دیا کہ
اگر ایسے ہی علم والے ہو تو میرے ایک سوال کا جواب دو!!۔
وہ کیا چیز ہے جو قانونی طور پر غلط اور  منطقی طور پر ٹھیک ہے ؟
منطقی طور پر ٹھیک ہے لیکن قانونی طور ہر غلط ہے  ۔
منطقی طور پر بھی غلط اور قانونی طور پر بھی غلط ہے ؟؟؟
تماشہ دیکھنے کو بہت سے لوگ اکھٹے ہو گئے تھے ، سوال جڑ کر  ریار کار لوگ  زیر لب مسکرا رہے تھے  ۔
ایک دوسرے کو انکھوں سے  زبان بے زبانی میں کہہ رہے تھے
آج آیا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے  ۔
گاما ایک کرسی پر بیٹھا ہے ، ساتھ کی دو کرسیوں کی پشت  پر بازو پھلائے ہوئے ہیں  اور ان سب کے روئے سے لطف لیتے ہوئے  پوچھتا ہے ۔
واقعی بتا دوں ؟؟
کپکپاتی آواز میں خان صاحب للکارا مارتے ہیں  ، فرار کی رہیں نہ تلاش کر ۔ بات کر بات  جواب دے ، تم کہتے ہو مذہبی لوگوں کو ادب کا علم نہیں ہوتا ۔ یہ سوال تو  علم منطق کا ہے ۔
گاما : اچھا ! سن کاکا!!۔
تم اپنی عمر چھیالیس سال بتاتے ہو ، شکل سے ساٹھ کے لگتے ہو ۔ تم نے ایک جوان بیوی بھی رکھی ہے ۔
یہ بات قانونی طور پر ٹھیک اور منطقی طور ہر غلط ہے ۔
تماہری اس بیوی کے کریانے والے جوان  لڑکے سے تعلقات ہیں ۔ یہ بات قانونی طور پر غلط ہے لیکن منطقی طور پر ٹھیک ہے ۔
اور تم نے اس کریانے والے کو دولاکھ کی رقم سود پر دی ہوئی ہے
جو کہ نہ منطقی طور پر ٹھیک ہے اور نہ  قانونی طور پر !!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گامے کو بڑی گالیاں پڑیں ،  لڑائی ہوتے ہوتے بچی ، بہت سے لوگوں نے گامے کو واجب القتل بھی کہا ۔
حاصل مطالعہ
عزت کرو اور عزت کرواؤ۔ْ
جب اہل علم ، کسر نفسی چھوڑ دیں تو ؟ سمجھو کہ معاشرے میں بے غیرت زیادہ ہوگئے ہیں ۔

بدھ، 16 ستمبر، 2015

فیس بک اسٹیٹس جولائی ،آگست


مسجدوں اور محفلوں میں افطاری کے لئے پچاس پچاس ہزار دے دے گا
کہیں اللہ کے نام پر کھانا پکانا ہو تو  سو سو بندے کا کھانا ،سارا خرچا کر کے بنا دے گا
جاننے والے مجبور لوگوں کو گندم اور چاول کی بوریاں لے کر دے دے گا
لیکن
اگر کوئی “ کارکن” چندہ مانگنے آ جائے تو، ایک روپیہ دیتے ہوئے بھی اس کو موت پڑتی ہے  ۔
کہتا ہے
میں اپنی کمائی سے غیر اللہ کے نام پر کچھ دے دوں ، یہ میرے لئے شرمندگی سے مر جانے کی بات ہے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مسجدوں کے متولیوں سے کاروباری تعاون کی امید رکھنے والوں کے لئے ایک شعر !!۔


مانگت کولوں منگن والا رہیا ہمیشہ خالی
او کی دیوے ،دان محؔمد  جیہڑا آپ سوالی

میاں محمد بخش



پاکستان میں فلم انڈسٹری کے زوال نے بہت سے لوگوں کو اپنا مستقبل بنانے کے لئے ذاکر ، واعظ ، نعت خوان اور دیگر غیر فلمی ایکٹنگ کے شعبوں میں قدم بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے ۔
طارق جمیل صاحب کا خاندانی پس نظر کیا ہے ؟
تلمبہ میں وہ برادری اکثریت میں تھی جو کہ برصغیر کی سب سے سیانی اور اپنی بقا میں بہت مضبوط برادی ہے
یعنی مراثی ( میں ان لوگون کو استاد سمجھتا ہوں اور ان کی رسپکٹ کرتا ہوں ) جن کی اکثریت اج کے پاکستان میں یا تو سید بن چکی ہے یا پھر مذہب کے ڈسٹریبیوٹر ( ذاکر ، واعظ ، نعت خوان اور دیگر ) ۔
مولوی جمیل صاحب کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اپنے اردگرد کی بدنام ( تلمبہ کی کنجریاں ) کی شادیاں کروا کر ان کے مستقبل محفوظ کر دئے ہیں ۔
یہ بھی اپنی بقا کی کوالٹی کی ایک دلیل ہے ۔

کنجر ہونا ، اپنی جگہ ایک کوالٹی ہے ۔
ہیرا منڈی کا وہ ادبی ماحول ، سر کی سمجھ ، سنگیت کی تانیں ، ادب اداب کا کلچر ، میں تو اس بات کا نوحہ لکھنا چاہتا ہوں کہ جرنل ضیاع کے اسلام نے یہ ماحول تباھ کردیا ۔
ہیرا منڈی کے کوٹھے ویران کر دئے اور ان ادبی لوگوں نے کوٹھے چھوڑ کر کوٹھیاں بسا لیں ۔
جاپان میں بلکہ برصغیر میں بھی نواب لوگ اپنے بچوں کو اچھی بول چال اور گفتگو کا سلیقہ سیکھانے کے لئے کنجریوں کے پاس بھیجا کرتے تھے ۔
ان سب باتوں کے تناظر میں میں نے لکھا ہے کہ مولوی طارق صاحب بھی اس ماحول کے پروردہ ہیں تو
ان کی گفتگو ، ان کیا سلیقہ ان کی داستان کوئی میں ایک کوالٹی ہے ۔
لیکن میں اس کو اسلام کی خدمت ہونے کا نہیں مان سکتا

یار جی میں کسی مسلک کا نہیں ہوں اس لئے مجھے سے مذہبی بحیثں کرانے کی کوشش ناکام ہو گی
مولوی صاحب فلم انڈسٹری کے بندے ہیں
اج کا زمانہ یوٹیوب فلموں کا تھا
اس لئے ویڈیو داستان گو سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔
اپ کا اگر جی چاہتا ہے کہ ان کو کوئی اعلی ہستی ماننے کو ، تو اپ کی اپنی مرضی ۔
دیکھیں میں مولوی صاحب کی کوالٹی کی تعریف کر رہا ہوں ۔ ان کی بے عزتی نہیں ۔
مولوی صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے تھے وہ ماحول بڑا ادبی ذوق والا ماحول تھا ۔
اس ماحول کو اگر جرنل ضیاؑع والے اسلام کی بیماری لاحق نہ ہوتی تو اس ماحول کے پروردہ لوگ ، فلم ، ڈارامے ، گینت سنگیت اور دیگر ادبی سرگرمیوں میں بڑا نام پیدا کرتے ۔
اب بھی مولوی صاحب جو کر رہے ہیں ، وہ صرف داستان گوئی اور قصہ خوانی ہی تو ہے ۔



بھکاری نے ایک  دروازے پر صدا لگائی ۔
بھوکا ہوں  کچھ کھانے کو دو۔
ایک مرد باہر نکلا اور بھکاری کو بتایا کہ گھر کی ساری عورتیں تو شادی پر گئیں ہوئی ہیں ۔
بھکاری تپ کر بولا
میں کون سی بارات لے کر آیا ہوں عورت بیاہنے!!۔
روٹی مانگی ہے روٹی ۔

بکواس فلسفے
 دولت سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتیں ، یہاں جنت کی بشارتیں تو دولت کے بغیر ملتی نہیں ۔

شراب پینے سے مسئلے حل نہیں ہوتے پریشانیاں دور نہیں ہوتیں ،  کوکا کولا یا شربت روح افزاء پینے سے کیا حل ہو جاتی ہیں  ؟
 اپنے دشمنوں کو معاف کر دو ، تاکہ وہ پھر تنگ کرنے آ جائیں ۔
مصیبت میں رشتے داروں کی مدد کر ، تاکہ وہ ادھار مانگنے کے لئے تمہیں تنگ کرتے رہیں ۔
تمباکو نوشی کرنے والے مر جاتے ہیں ۔ تو کیا نہ کرنے والے نہیں مرتے ؟


ایک لڑکی نے فیس بک پر اپنی تصویر کچھ اس طرح کی لگائی ہوئی تھی کہ دیکھ کر مردوں کو اشکل آ جائے ۔
گامے نے اس کو میسج کیا کہ ، کیا یہ”  چیز “ برائے فروخت ہے؟
لڑکی نے جواب دیا گندی ذہنیت کے گندے ! میں برائے فروخت نہیں ہوں ۔
گاما: تو پھر بی بی ! اگر چیز بیچنی نہیں ہے تو اس کی ایڈورٹائزنگ  ہی بند کردو !!!۔


اچھو ڈنگر ؛ یار گامیا، پاکستان میں تین نسلیں ( عمرانیاں کے ماہرین کے مطابق پندرہ سال میں ایک نسل تیار ہوتی ہے ) گزر گئیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سہتے سہتے ،
اب تک تو اس قوم کو عادی ہو کر شکایت چھوڑ دینی چاہئے تھی ، ہے ناں یار؟
گاما: اچھو یہ ذہنی مریضوں کا ٹولہ ہے جو ملک پر قابض ہے ،
اگر ایک مسلسل روٹین سے عوام کو صرف ایک گھنٹہ بجلی کی تریسل کا بھی عادی بنا دیتے تو لوگ خود کو اس میں ڈھال لیتے
لیکن یہ بکری کی طرح دودہ بھی مینگنیاں ڈال کر دیتے ہیں ۔ کہ اذیت پسند لوگوں کا یہ وطیرہ ہوتا ہے ۔


یہ صرف اور صرف دین اور بے دینی کے کرشمے ہیں
کہ” دین “ ( سسٹم ) کے داعی ممالک میں
سعودی عرب جیسی جمہوریت ہے صومالیہ جیسی خوش حالی ، ایران جیسی آزادی ، افغانستان جیسا امن ، پاکستان جیسی روادری اور بھائی چارہ نائیجیریا جیسا استحکام عراق جیسی وحدت یمن جیسی ترقی ، سوڈان جیسی شرح تعلیم  ہے ۔
اور دوسری طرف بے دین ممالک کا یہ حال ہے کہ
سوئس لینڈ میں آمریت ، امریکہ میں جہالت ، سویڈن میں دہشت گردی ، سکینڈے نیویا ممالک میں بد امنی ، جاپان میں پسمانندگی برطانیہ میں غربت جرمنی میں قحط جیسی صورت حال اور کناڈا میں تفرقے بازی  کا حال سب کے سامنے ہے ۔

اللہ تعالی سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور بے دین لوگوں کو دین کی سمجھ عطافرمائے ۔
آمین
خاور کھوکھر


اگر آپ ؟
سعودی عرب جیسی جمہوریت ، صومالیہ جیسی خوش حالی ، ایران جیسی آزادی ، افغانستان جیسا امن ،
 پاکستان جیسی روادری اور بھائی چارہ نائیجیریا جیسا استحکام عراق جیسی وحدت یمن جیسی ترقی ، سوڈان جیسی شرح تعلیم چاہتے ہیں تو؟
ان ممالک میں رائج تعلیمی نظام سے مستفید کرنے والے  دینی سکول جاپان میں بھی کھل چکے ہیں ۔
اپ بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں تعلیم دلوائیں
اور دنیا و آخرت کی فلاح پائیں ،۔

مہر سنگھ ببر ( ببر خالصہ ) کا بیٹا دیوندر سنگھ وہاں فرانس میں میرے ساتھ بجلی کا کام کرتا تھا ۔
بڑی درد ناک تھی اس کی کہانی ۔
دو بھائی اور یک بہن تھی ، بھائی لاس اینجلیس میں تھا اور ماں کناڈا میں ، باپ مہر سنگھ لاہور میں تھا ۔
سب کے سب خالصتان تحریک کے بڑے بڑے آگو تھے ،۔
کہایناں تو بہت لمبی ہیں کہ کس طرح انڈیا سے فرار ہوئے ، بنکاک میں پنجاب پولیس کی دسترس سے کیسے بچے ، پنجاب میں پنجاب پولیس کیسے کیسے مارتی تھی ۔ بالوں کی چوٹی ( دیویندر سنگھ کیس رکھنے والا سکھ تھا) کو چھت سے باندہ کر کیسے لٹکایا کرتی تھی ۔
فرانس کے گاغذ کیسے ملے ، موہن سنگھ کو کیسے امریکہ پہنچایا ۔
اصلی باتیں تو وہ ہوا کرتی تھی کہ اسلحہ کہاں سے آتا تھا ؟
پیسے کون دیتا تھا ؟
اس تحریک کے لئے ٹریننگ کون دیتا تھا ۔
اور اک دم یہ تحریک ختم ہی کیوں ہو گئی ۔

دیوندر سنگھ الزام تو نہیں دیتا تھا 
کہ سکھوں کو بیوقوف بنا کر مروانے والے پاک فوج کے جرنیل تھے ، لیکن اس کے بتانے کے انداز سے سمجھ سب لگ رہی ہوتی تھی ۔
شائد وہ الزام اس لئے نہیں لگایا تھا کہ اس کا باپ ابھی فوج کی حفاظت میں لاہور میں ہی تھا ( شائد اب بھی ہو ) ۔
بلوچستان میں انڈیا کی مداخلت کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہو گی۔
انڈیا ہمارا دشمن ہے  ، مجھے انڈیا سے ہارنا پسند نہیں ہے
لیکن اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے
میں جنگی میدان میں جیتنے سے زیادہ اس بات میں جیتنا چاہتا ہوں
کہ تکنیک ، کاروبار ، معاشرتی ترقی اور سہولتیں پاکستان میں اتنی زیادہ ہوں کہ
ہندو حسد سے سڑ سڑ کر مرتے رہیں
اور ہمارے کھیتون میں باغوں میں فیکٹریون میں سے مال اتنی بہتات سے نکلے کہ ہم ان کو بھیک دیں
ہمارے سکولوں کالجوں میں سے تعلیم لے کر ایسے ایسے اہل علم نکلیں کہ
ادب ، علم ، موسیقی ، سائینس ،انجرنگ میں ہندو کو وہ مات دیں کہ ہندو صدیوں تک اس ہار کو جیت میں نہ بدل سکے ۔


جیدو ڈنگر ، بڑا تپا ہوا گھر آیا ، اور بیوی کو کہنے لگا تمہارے باپ چاچے عمر دین کی “انگل “ کروانے کی عادت نہیں  گئی ۔
بیوی : ہائے ہائے کیا ہوا ہے ؟ ایسا کیا کہہ دیا جی میرے ابا جی نے ؟؟
جیدو ڈنگر: مجھے بازار میں ملا تھا بڑا مسکرا مسکرا کر پوچھ رہا تھا “ خوش تو ہو ناں میری بیٹی سے شادی کر کے ؟”۔

جیدو گامے سے ، یار وہ کون سے تین لفظ ہیں جن کو سن کر ہر بیوی خوش ہو جاتی ہے ؟
گاما : غلطی میری تھی !!!۔
جیدو ڈنگر : میں تو سمجھا تھا تم آئی لوّو یو ، بتاؤ گے ۔
گاما : اوئے  ڈنگرا ! دیسی کھوتی تے ولائیتی ٹیٹنے  مجھے نہیں آتے ۔

بڑے دبدبے والا چوہدری تھا  چوہدری رب نواز ، پرہے پنچایے کا سرپنچ ، علاقے کے سبھی مسائل کے حل کے لئے لوگ اس کے در پر آتے تھے۔
پھر اچانک اسلام اسلام ہو گیا
قصبے کی بڑی مسجد میں اسلام آباد سے مولوی آ گیا ، لوگ اہستہ اہستہ مولوی کے گرویدہ ہونے گے
مولوی جنت کی باتیں کرتا تھا ، جنت میں جانے کے طریقے بتاتا تھا ، بے دینوں کے خلاف جہاد میں شامل ہونے کے لئے رابطے کراتا تھا
چوہدری رب نواز کو اپنی دوکانداری خطرے میں پڑی نظر آنے لگی ۔
ایک دن چوہھدری رب نواز حواریوں کے ساتھ مولوی کی جنت کی باتیں سننے کے لئے مسجد آیا ، چوہدری کو دیکھ کر بہت سے دیہاتی بھی آ شامل ہوئے ۔
مولوی نے جنت کا نقشہ کھینچا ، بڑی سوہنی سوہنی باتیں کیں دیہاتی بڑے متاثر نظر آ رہے تھے
کہ
چوہدری نے سوال کیا
وہاں جنت میں زمین کے جھگڑوں کے فیصلے کون کرئے گا؟
جنت میں زمین کے جھگڑے ہوں گے ہی نہیں ۔
مولوی نے بتایا
چوہدری : کیوں ؟
مولوی : لوگوں کے دلوں دے غصہ ہی نکال دیا جائے گا   اس لئے !۔
چوہدری : اچھا تو یہ غیرت کے معاملے کیا کیا ہوگا اگر کسی نے کسی کی بہن بیٹی کو چھیڑ دیا  ، نکال کر لے گیا تو؟؟
مولوی : جنت میں ایسا کچھ نہیں ہو گا لوگوں کے دلوں سے یہ جذبات ہی نکال دیئے جائیں گے !۔
چوہدری : کیا مطلب مولوی صاحب جنت میں “ غیرت “ ہی نہیں ہو گی ؟ یعنی جنت میں سارے بے غیرت ہوں ؟
چلو اوئے لوکو چلو ، اس مولوی کی تو جنت ہی بے غیرت ہے ۔ ہمیں نہیں چاہئے ایسی جنت جو ہمیں بے غیرت بنا دے ۔
ہم غیرت مند لوگ ہیں ہم نہیں جاتے بے غیرت جنت میں ۔
چوہدری ایک کامیاب سیاستدان نکلا ، ہجوم کو ساتھ لے کر نکل گیا ۔
مولوی کا جہاد کا کاروبار تو پھر بھی چلتا ہی رہا  ، کہ غربت اپپنی جگہ ایک حقیقت ہے
لیکن چوہدری کے اس حربے کے بعد مولوی کاروبار بہت مندا پڑ گیا تھا ْ۔

ایک خان صاحب دوسرے سے پوچھتے ہیں
اگر میں ونڈو سیون کی بتیس بیٹ ، دو دفعہ انسٹال کر لوں تو کیا یہ چونسٹھ بیٹ کی ہو جائے گی؟
ہاں ہاں کیوں نہیں ! بیٹ تو چونسٹھ ہو جانی چاہئے
اور ساتھ میں ونڈوز بھی سیون کہ بجائے دوگنی ہو کر فورٹین ہو جائے گی!!۔

شوسلسٹ کہتے تھے مذہب ایک افیم کا نام ہے ۔
میں کہوں گا کہ اس نشے میں ٹن بندے کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو ؟
ملکی ماحول پاکستان جیسا بن جاتا ہے ۔
مذہب کے نشے میں ٹن ایک بھکاری کے حجرے کے باہر مسجد کے چندے کا ڈبہ پڑا تھا
جس پر لکھا تھا
غلے میں ریزگاری ڈال کر شور نہ کریں

بڑے نوٹ ڈالیں ۔
جزاک اللہ!!۔

رمضان کی بات ہے ،گرمی سے برا حال تھا ، بیوی کی چخ چخ جاری تھی ۔
جب صبر بلکل ہی جواب دے گیا تو
گاما کراہ کر بولا : بھلیے لوکے !اب بس کر !۔
 کسی کا دماغ کھانے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔

انالله و انا الیه راجعون۔
جان دی کہ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا
جبر کے خلاف ڈت جانا ، اپنے وعدوں کے پاس کے لئے ،اپنے نظرئے کے لئے ، اپنے لوگوں کے لئے کبھی بھی نہ جھکنا۔
تاریخ میں جب بھی خود دار ،لوگوں کا ذکر آئے گا ، اپ کا نام ادب سے لیا جائے گا۔
کہ مولوی عمر کو دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین قتل نہ کر سکی ۔


چچ نامہ میں لکھا ہے کہ
سندہ کی فتح کے بعد عربوں نے سیوہن کے قریب ایک شہر بسایا تھا ، جس کا نام “منصورہ” تھا۔
منصورہ عربی دور میں “ علم “ کا مرکز رہا ۔
صدیوں بعد  سعودی عربوں نے لاہور کے نزدیک ایک اور منصورہ بنایا ، کہتے ہیں یہ منصورہ بھی علم کا مرکز ہے ۔
منصورہ سے منصورہ تک کا علم  اور تاریخ ۔
قیاس غالب ہے کہ پرانے منصورہ کے علم سے بھی عام لوگوں کا یہی حال ہوتا ہو گا جیسا کہ جدید منصورہ کے علم سے ہو رہا ہے ۔ْ۔
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے ۔

پاکستان میں طالبان کے لاجسٹک سپورٹر ملک اسحاق کے مبینہ پولیس مقابلے میں مرتے ہی
افغانستان سے کئی اموات کی خبریں وصول ہونے لگی ہیں اور خبریں بھی “گڑھے مردے “ اکھاڑ کر اچھالی جا رہی ہیں ۔
سمجھ نہیں لگ رہی کہ اگر مولوی عمر دو سال پہلے فوت ہو گیا تھا تو ، یہ اینکر ، تجزیہ نگار یہ جرنسلٹ ، کسی کو بھی حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی کہ “ کوئی “ مر نہ گیا ہو ۔
یہ کم عقل اور کم علم لوگ ، جن کو فرشتوں نے عقل کی سپلائی پر لگایا ہوا ہے ۔


میں نے سوچا ہے کہ اب گالی پر غصہ نہیں کرنا
جبتک کہ کوئی وہ والی گالی نہ دے دے جس سے کہ ایک سیکریٹ لوز ہو جاتا ہے
بڑا غصہ آتا ہے جب لوگوں میں اچھا خاصا سیانا بن کر پیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی مجھے بیوقوف کہہ دے ۔

کچھ عجب رسم چل نکلی ہے ، حسد کی ، کم عقلی کی
کہ
“وہ” جو بھی کام کر کے دیکھائے  اس پر ایک ہی اعتراض ہے کہ
اتنے پیسوں میں تو فلاں فلاں کام ہو سکتا تھا ، وہ کیوں نہیں کیا ؟
یاد رکھیں ، یہ ایک “ نکمی “ سوچ ہے ،ایسی سوچ کے مالک لوگ کبھی بھی معاشرے کے لئے کارآمد نہیں بن سکتے ۔



کہ رحمانیوں نے آلو کی فصل کاشت کی تھی،آلو کی کھدائی میں جڑوں کے ساتھ لٹکے ہوئے چھوٹے چھوٹے  “ منی آلو” بہت ہوتے تھے ۔
بہت سال پہلے کی بات ہے میں بہت چھوٹا ہوتا تھا ، غالباً مڈل سکول میں  ، میں بھی اس فصل کی کھدائی میں گیا تھا ۔
سفید آلو کے “ بچے “ کوئی چار پانچ کلو اکھٹے کر کے لایا تھا
ان دنوں آلو کو چولہے کی راکھ میں بھون کر کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔
لیکن اس بچے آلو کو بھوننا بڑا مشکل کام تھا کہ راکھ میں مل کر گم ہو جاتے تھے ۔
اس لئے میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ ان آلوؤں کو بھٹھی پر بھون لیا جائے ۔ دانے بھوننے کی یہ بھٹھی ان  دنوں کوٹھی کے سامنے سڑک کے دوسری طرف  ڈاکٹر جلال صاحب کی دیوار کے نیچے ہوتی تھی ۔
میں دادای کو ساتھ لے کر جب آلو بھوننے کے لئے بھٹھی پر گیا تو  بھٹی والی نے کہا کہ
ہم کھوکھر لوگ ہوتے ہیں ، اگر ہم آلو کو کڑاہی کی ریت میں ڈال کر بھون دیں تو  ہمارے بچوں کو اور کھانے والوں کے بچوں کو بھی پھوڑے اور پھنسیاں نکل آتی ہیں  ۔
دادی نے میرا منہہ دیکھا کہ  پتر اب کیا کرنا ہے  ۔
مجھے بھنے آلو کھانے کا شوق چڑھا ہوا تھا۔
میں ضد پر اتر آیا کہ
اگر تم کھوکھر ہوتے ہو تو میں بھی کھوکھر ہوں ،مجھے بھی علم ہے کہ اگر پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی تو میں دھریک اور پھلا کے پتوں کا گھوٹا لگا کر پیوں گا۔
بھٹی والی  میری اس ضد سے ہار گئی
اور اس کے  ریت میں آلو بھون کر مجھے دئے ۔
یقین کرین کہ نہ اس کو اور نہ مجھے کسی کو بھی کوئی پھوڑے پھنسیاں نہیں نکلیں تھیں۔
یاد رہے کہ
چیمہ جاٹوں کے دیہاتوں میں جیسا کہ تلونڈی موسی خان ہے ۔
یہاں ، لوہار ، کمہار ، ماچھی ، تیلی  اور چھینبے لوگ  کھوکھر ذات کے ہوتے ہیں ۔

جن لوگوں کے کام کاروبار  مذہب  کی مہربانی سے چل ہے ہیں
وہ لوگ اپنے کاروباری مرکزوں کی فوٹو بڑے زور شور سے سوشل میڈیا میں شئیر کرتے ہیں
کاش  اے کاش
کہ کہیں  میرے جیسے لوگ بھی معاشرے میں بہتات سے ہو جائیں کہ جس کے دل کو تسکین دینی والی کتابوں کی لائیبریریاں ، ادبی محفلیں ، لبارٹریاں ، ہوں اور ان کے فوٹو لگا لگا کر  اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ رب نے کیا کیا نعمتیں ادا کی ہیں
کہ جہاں منافقت کا  کوئی گزر ہی نہیں ہے  ۔

نانو کی تکنیک  ایک نئی چیز ہے ، جو کہ اتنی بھی نئی نہیں ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس پر تحقیق اور ترقیاتی کام ہو رہا ہے
جاپان اس تکنیک میں  لیڈنگ رول کر رہا ہے  ۔
نانو کیا ہے ؟
میوکی کہنے لگی ، زیرو کی مائینس نو  ( 10¯9)۔
جس کو اپ اس طرح بھی لکھ سکتے ہیں ۔
0.000000001
ایک نانو میٹر ، ہائیڈروجن کے تین ایٹموں کی لمبائی کو مقرر کیا گیا ۔
ایٹم ؟ کائینات کا بنیادی عنصر سب سے چھوٹا زرہ ، اب نانو سے اس ایٹم کا کلیجہ چیر کر اس کی ساخت پر تحقیق ہر وہی ہے ۔
نانو سے بنائے گئے روبورٹ ، انسانی جسم  میں داخل ہو کر مطلوبہ جگہ کی مرمت کا کام کریں گے۔
دوہزار ایک میں برطانیہ کی “ ہاؤس “ میں اس بات کی بحث ہو رہی تھی کہ اس روبورٹ کو ، کیا نام دیا جائے ۔
دوائی یا کہ مشین ؟؟
حاصل مطالعہ
علم اور عمل میں تحقیق کی مسافت میں  “ ہم “ کن منزلوں پر ہیں  اور “ وہ “ کن منزلوں پر ؟؟

کسی سیانے کا قول پڑھا تھا کہ
کم تعلیم والے لوگ ،جب بات کرتے ہیں تو باتوں میں سنسنی پیدا کر کرکے بات کرتے ہیں ۔
جب سے میں نے یہ پڑھا ہے ، میں کوشش کرتا ہوں کہ میری باتوں میں سنسنی نہ ہو
کہ کہیں اصلی تعلیم یافتہ لوگوں کو میری کم علمی کا احساس شدت سے نہ ہو جائے  ۔
پاکستان کی اخباریں اون لائین نیوز دیکھ کر بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کم علم لوگوں نے
اس سیانے کا مندرجہ بالا قول بھی نہیں پڑھا ہوا ۔
اسی لئے ہر طرف سنسنی ہی سنسنی ہے مغالطے ہی مغالطے ہیں ، مبالغے ہی مبالغے ہیں ۔



قصور سکینڈل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جنسی تشدد کوئی نیا سماجی مظہر نہیں ہے ۔
 آج سے چالیس برس پہلے کے پاکستان میں بھی یہ رویے بکثرت دیکھنے میں آتے تھے ۔
 لاہور میں بڑی بڑی سماجی ، مذہبی اور سیاسی شخصیات بھی اس میں ملوث تھیں ۔
"لاہور بائی نائٹ" ایک الگ شہر تھا ۔
 بڑے بڑے سیاسی چودھری جن کا قد کجھور کے برابر تھا ، رات گئے مرسڈیز لیے شکار کی تلاش میں نوجوان لڑکوں کو لفٹ دیا کرتے تھے ۔
کالجوں کے خوش پوش نوجوان ، اساتذہ ، صحافی ، دانشور ،علماء ، جج ، وکلا ء تاجر اور پولیس والے اس " بزنس " میں یکساں دل چسپی رکھتے تھے ۔ عطار کے لونڈے سے دوا لینے والے بہت تھے جس پر کسی کو اعتراض نہیں تھا ۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مفادات کا تصادم ہوتا ہے ، ورنہ معاشرے میں نئی نسل کو خراب کرنے میں سب برابر کے شریک ہیں ۔
مسعود منور

کوئی لڑکی یا عورت ہی کیوں
کوئی لڑکا بھی ہو سکتا ہے
بس ،یہ تو نیت کی خرابی پر منحصر ہے ، گنڈا سنگھ ( قصور) ہو کہ منصورہ ۔

انگلش میڈیم لڑکی کو گوگل پر بڑی سرچ اور محنت کے بعد یہ علم ہوا تھا
کہ “ فلپس ٹونٹی ون انچ “ کوئی مرد نہیں بلکہ پرانے زمانے میں ٹیلیوژن کا ایک ماڈل ہوا کرتا تھا ۔

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کہیں جنگل میں تین افراد سفر کررہے تھے  ،  ایک ہندو پنڈت  ،دوسرا مسلمان اور تیسرا ایک پہلوان تھا  ۔
قریب میں کالا تیتر بولا !!،۔
تیتر کی صدا سن کر پنڈت بولا ۔
تیتر ، رام نام جپ رہا ہے ،۔
مسلمان ٹرخ کر بولا تمہاری سمجھ میں فرق ہے
تیتر صاف الفاظ میں کہہ رہا ہے
سبحان تیری قدرت !۔
پہلوان بولا ، جھگڑو نہیں یارو ، تم دونوں کو غلطی لگ رہی ہے ۔
تیتر کہہ رہا ہے
کھا گھی تے کر کسرت !!۔

یہ ملک اندھیروں میں ڈوب چکا ہے ، یہاں روشنی کی کوئی امید نہیں رہی ، اندھیرے یہاں کا مقدر بن چکے ہیں ، کسی مسیحا کے انے کی کوئی امید نہیں ۔
لوگ یہاں ذلیل ہو رہے ہیں ، بچوں کا مستقبل  تاریک نظر آ رہا ہے ۔
یہ ملک جہنم کا نمونہ نظر آتا ہے ،۔
جو یہ کہہ رہا تھا وہ کوئی بڑا فلسفہ نہیں بول رہا تھا
بس لوڈشیڈنگ کا شکوہ کر رہا ۔

آج چودہ آگست ہے ،۔
اس دن کی مناسبت سے جاری کیا گیا بیان !!۔
انیس سو سنتالیس کو بننے والا پاکستان ، انیس سو باون میں چوری ہو گیا تھا ۔
جوکہ
انیس سو اکہتر میں  چوروں کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا تھا ۔
ٹوٹا ہوا پاکستان ابھی تک چوروں سے بازیاب نہییں کروایا جا سکا ،۔
مسروقہ پاکستان کی باریابی تک ،آزادی کا جشن ملتوی کیا جائے ۔
منجانب : خاور کھوکھر

میرے وطن کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہوا کہ
جن کو علم تھا ،وہ انپڑھ تھے ، اور جو لکھ رہے تھے  ان کی اکثریت ،بے علم تھی ۔
مویشیوں کی دیکھ بھال ، نسلوں اور کوالٹی کا علم رکھنے والے ، یا کہ فصلوں ، جڑی بوٹیوں ،اور کیڑوں مکوڑوں سے ہر روز ڈیل کرنے والے لوگ !
انپڑھ تھے ، ان کو دیہاتی اور پینڈو بتا کر  لکھنے والوں نے لطیفے بنا دئے ۔
اور لکھ سکنے والوں کا اپنی مٹی سے اتنا ہی تعلق تھا ، جتنا گملے میں لگے ہوئے پودے کا ہوتا ہے
پودینے کے باغات اور سٹالے کے درختوں کی باتیں کرتے تھے ، دھنی کی گائیں اور ساہی وال کے بیلوں کی کوالٹی لکھتے رہے !!!۔
 ، لیکن جو جانتے تھے کہ بات اس کے الٹ ہے
دھنی کے بیل اور ساہی وال کی گائے میں کوالتی ہوتی ہے
وہ کبھی پڑھ ہی ناں سکے کہ ، ان کم علموں کی تصحیح کر سکیں ،
اس لئے انے والی نسلوں کو  اپنی مٹی سے متعلق علم  بھی انگریزی سے لینا پڑے گا
کہ اپنی زمین میں تو لکھے والوں نے جھوٹ لکھ کر دیا تھا ۔
ارود کے لکھاریوں کے بڑے بڑے نام ؟
ان میں سے کسی کو بھی کھیتوں میں کام کرنے والے کھیت مزدور ، گاؤں کے سلوتری ، کپڑے کو ڈیزائین کرنے والے ، برتنوں کو بنانے والے یا بیل بوٹے لکھنے والوں کی تعلیم اور علم تک رسائی ہی نہیں تھی۔
تو بے چارے لکھتے کیا ؟
ذہنی عیاشی کا سامان  لکھ گئے ہیں ۔
بس !!!۔

کتوں کی لڑائی ، یا کتوں والی لڑائی میں ۔ کتے ، غیر کتے کی کتے والی ہی کرتے ہیں ۔
لیکن جب کوئی کتا ،دم دبا کر پیٹھ نیچے ٹکا کر بیٹھ  جائے تو ؟
بڑے بڑے جغادری کتے بھی اس کتے کو “ وقار “کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔
انسانوں میں ایسے ایسے کتی کے بچے ہوتے ہیں ، جن کا کتا پن  بڑے بڑے جغادری کتوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔
کسی خود دار کو وقار کے ساتھ جینے ہی نہیں دیتے ، کتی دے پتر !!۔

۔ مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے
یہاں جاپان میں مسلمانوں کے سبھی مسالک  حدیث کے نام پر لکھی گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔
جاپان کی مسجد میں لڑائی ہونے پر جو لوگ مسجد کی عزت کے نام پر  مظلوم کو درگزر کی تلقین شروع کر دیتے ہیں ان کے یہ روایت پوسٹ کی جا رہی ہے ۔
اپنے کاروبار کے شو روم کی طرح مسجد کو استعمال کرنے والے نام نہاد صالحین کو بے نقاب کریں
اور اگر کوئی بندہ اپ کی عزت اچھالنے کی وشش کرئے اور مسجد کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کرئے تو اس کی روایت ضرور سنائیں ۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
حوالہ جات کے لئے مندرجہ ذیل کی کتابوں سے رجوؑ کریں
    1.    ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932

    2.    طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568

    3.    منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679


عشق رسول ﷺ کا مطلب ہے۔
رسول ﷺ کے رنگ میں رنگے جانا ۔
 اور یہ رنگی داڑھی کے خضاب ، پگڑی کے کلف ، جُبے کی چمک دمک ، گھٹنوں سے”  اونچی شلوار”  اور ماتھے کے “محراب “ میں نہیں ،

بلکہ
 خُلقِ عظیم میں ہے ۔
، جو خٓلقِ خُدا سے سچی اور غیر مشروط محبت کا نام ہے ۔
مزے کی بات کہ
اپنے کاروباری تعلقات کو خُلقِ عظیم  کے مغالطے کے شکار یہاں تاتے بیاشی میں “ چند دانے “ موجود ہیں ۔


ایک پرانی کہاوت :
خیال بو کر عمل کاٹو ۔عمل بو کر عادت کاٹو ، عادت بو کر کردار کاٹو اور کردار بو کر مقدر کاٹو

پرانی کہاوتوں کی بات
 نیت خیال کے بیج سے عمل کی فصل  اور عمل کے بیج سے عادت کی فصل اور عادت کے بیج سے کردار کی فصل اٹھتی ہے
تو
کردار کے بیج سے مقدر کے فروٹ کی فصل تیار ہوتی ہے ۔


استاد ،شاگرد سے : بجلی کی مختصر تعریف بیان کرو!۔
شاکرد: بجلی ! حکومت کی وہ آوارہ بیٹی ہے جس کے چال چلن اس حد تک خراب ہو چکے  ہیں ،کہ جب اس کا جی چاہئے چلی جاتی جب جی چاہے واپس آ جاتی ،اور اس کے واپس انے کا کوئی ٹائم مقرر نہیں ہے ۔
ماخوذ

مسجدوں کے متولی  اب جاپانی حکومت کے مقابلے میں  چندہ دینے والوں پر “آپنی رٹ “ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
پولیس ، تفشیشی افسران اور عدالت کا  کا کام خود کرنے کی خواہش اور کوشش ہے
اسی لئے تو ، جو پولیس بلا لے اس سے اتنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں کہ خدا کی پناھ
اب وقت کی ضرورت یہ ہے کہ جاپانی اداروں کو مطلع کیا جائے کہ حکومت کے مقابلے میں اپنی رٹ  کے طالب لوگ ،اسلحہ ملتے ہی ، طالبان بھی بن سکتے ہیں ۔
تاتے بیاشی کے مئیر ، شوکیو ہوجینکائی ، پولیس اور سماج سدھار کے دیگر اداروں کو سنجیدگی سے  اس بات کا جائیزہ لینا چاہئے کہ مسجد کی آر میں کیسے زہر کی پرورش کی جا رہی ہے ۔

یقین کریں کہ تاتے بیاشی کی مسجد ، مخصوص لوگوں کا اڈھ بن چکی ہے ۔
جائے وقوعہ سے پولیس کو گمراھ کرنے کی منظم کوشش  ، دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا ہوں ۔

وقوعہ جس مقام پر ہوا  ھے اس مقام کو غلط بتانا جھوٹ ہوتا ہے اور یہ قانون نافظ کرنے والے اداروں کو گمراھ کرنے والے بات ہوتی ہے جو کہ کسی بھی معاشرے میں  مناسب نہیں مانی جاتی ۔
بلکہ جاپان میں یہ چیز “اعانت جرم”  کے زمرے میں آتی ہے

نماز با جماعت پڑھنے والوں کو ، جھوٹ با جماعت اپنانے پر  سرٹفکیٹ ملنا چاہئے

تاکہ سند رہے کہ  یہ لوگ سند یافتہ منافق ہیں ۔

مسجد کی حرمت اور اسلام کی عظمت !!!!۔
عذر گنا بد تر از گناھ

خاور ، جاپان کے اردو رائیٹرز میں سے ، تخلیقی ادب کا واحد رائیٹر ہے ۔
تقلیدی ادب کے قاریین  ہو سکتا ہے اس کو نہ جاتے ہوں ۔
لیکن خاور عرصہ چودہ سال سے نیٹ پر بلاگ لکھ رہا ہے ، جاپان سے اون لائیں اخبار چلاتا ہے ، نیٹ کے انسائیکلوپیڈیا کا بانی ہے ۔
چلتا پھرتا انسائکلوپیڈیا  خاور ۔  کیا کبھی اپ کو  اس سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا ہے ؟

سوشل میڈیا پر چھوڑا گیا  خاور کا آج کا چٹکلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاپلوسی ! ، مجھے گالی جیسی بلکہ گالی ہی لگتی ہے ۔
برداشت کرنا مشکل ہوجاتی ہے ۔
لیکن
کچھ لوگ چاپلوسی  سے بہت لطف اٹھاتے ہیں ،۔
بلکہ انہوں نے چاپلوس پال رکھے ہوتے ہیں ۔
اپنی اپنی طبیعت کی بات ہے ناں جی۔


کتابوں کے مطالعہ کے شوقین ،وہ لکھاری جن کا مشاہدہ نہیں ہے
وہ اج بھی بھوک کی باتیں لکھتے ہیں ۔
حالانکہ ، کھاد کی دریافت کے بعد  بھوک کی بجائے بسیار خوری کی بیماریوں کی بہتات کی کہانیاں لکھی جانی چاہئے ۔
زمین سے خوراک کی بھوک ختم ہو چکی ہے ۔
اب طاقت ،دولت اور اقتدار کی بھوک اپنے اوج پر ہے ۔

لفظ اقلیت تو قلیل سے نکلا ہے ۔
لوگوں کی قلیل تعداد اقلیت کہلاتی ، کثیر تعداد کی اکثریت کے مقابلے میں ۔
کسی معاشرے میں  ، اقلیت اس گروہ کو کہا جاتا ہے 
جن کا
مذہب اور کلچر کسی اور زمین پر  ہو !!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 زیادہ غور نئیں کرنا ، دھرم بھرشٹ ہو جائے گا ، یا ذہن کا فیوز اڑ جائے گا ۔

من ترا حاجی بگویم ، تو مرا ملاّ بگو


سپ دے وڈھے دا منتر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باوا فضل درست
منّاں رب رسول نوں ۔ منّاں پیر استاد
بنھاں تیری وِس نوں ، کر پیر صاحب نوں نوں یاد
وس بنھاں ، مُکھ بنھاں ، بنھیاں تیری ہوس
گُر دھننتر اپنا ، اپنا گُر سنبھال
ایہہ گل دھننتر نوں 
نانگیں ہتھ نہ پائیں 
نانگ مندرائیں ، پرچائیں 
بہیل مٹی
آلے ابیس تبیس
سمندر کنارے
ڈِب دی بُوٹی 
وِس ماندری جھاڑے
وس جھڑے ، مول نہ چڑھے
بدھی سید احمد سلطان کبیر دے کڑے


صوبہ پختون خواھ میں کچھ مرودں میں یہ قبیح عادت پائی جاتی ہے
کہ چھوٹی عمر کے مرد بچوں کو “ خراب “ کر دیتے ہیں ۔
یہ “ خراب “ کئے ہوئے لڑکے “ فارن” میں بھی نظر آتے ہیں ،ان کی عادات بہت کمینی ہو چکی ہوتی ہیں ۔
لیکن ان بے چاروں کا کیا قصور ؟ “ان “ کو خراب کرنے والوں کو منع کرنے کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یہاں اپنے نزدیک “لڑکوں” کے ایک گھرانے کی “ کمینی” عادات دیکھ کر تاسف کا اظہار ۔

پنجابی


ساڈے بزرگاں نے انگریزاں کولوں  زمیناں لئیاں ، اعزاز لئے ۔
اج  سارے لوکاں نو نظر آؤندا پیا اے کہ  علاقے وچ ساڈے توں طاقتور کوئی  وہ نئیں ۔
ساڈی اولاد وی سوہنی اے ، اج وی  سرکار دے کماں وچ سانوں پوچھیا جاندا اے  ۔ْ
اوئے اے  علاقے دی کمی لوگ ! اپنیاں کمینی عادتاں تو پچھے رہ گئے نے ۔
ذیلداد صاحب دا پوترا ، بابے سیٹھ نوں گلاں کردیا پیا سی  ۔
تہاڈے کمیاراں دیا گلاں ای نئیں مکدیاں ، جی ساڈے وڈے بڑئےسیانے سن ، بڑا کاروبار سی  ، سو سو کھوٹے تے خچر رکھے ہوئے سن ۔
گل سن بابا سیٹھا !! جے او سیانے ہوندے تے اج وہ تسی لوک کھوتے ہی نہ چلا رہے ہوندے ۔
بیوقوف سن اور تہاڈے وڈکے !!۔
وڈے وڈے گھر بنا کے  ویہڑے وچ سو سو کھوتا بن کے ، سار گھر لید نال بھریا ہوندا سی ۔ تہاڈیاں زنانیاں  لید نال بھریاں ہوندیاں سن ۔
کھوتے نوں “ نسریا” ویکھ ویکھ کے  ترسیاں ہوندیاں سن ۔
ساڈے ول ویکھ ، ساڈی بیبیاں دیاں سو  سو سال پرانیاں فوٹوان ویکھ ، شہزادیاں لگدیاں نیں ۔
میرا دادا اللہ بخشے ذیلداد صاحب ! دسدے ہوندے سن ، جدوں وہ انگریز لوکی ساڈے گھراں وچ پروہنے بن کے آؤندے سن ، ساڈی کوٹھی سے کول بنے کمہیاراں دے گھر ویکھ کے نک دے رومال رکھ لیندے ہوندے سن ۔
کھوتے دے ہینکن دی آواز دے کناں وچ انگلیان دے لیندے سن ۔
تہاڈے گھراں دے کولوں لنگدیاں ہویاں ، انگریزاں  دا دل نئیں سی کردا کہ تہانون کمیاراں نوں منہ وہ لان ۔
کمشنر صاحب جدوں وہ اؤندے سن ، کنے کنے دن ساڈے گھر رہندے سن ۔
ساڈے گھراں نال کنداں جڑیاں ہویا نے کمہاراں دیاں  ، تساں نہ انگریزی سکھی تے ناں ای انگریزاں نے تہانوں منہ لگایا ،۔
میرے سامنے نہ کریا کر گلاں کہ
ساڈے کمیاراں دے وڈکے بڑے سیانے سن ۔۔
بس جی چوہدری صاحب ، کی دساں   ، کھورئ ساڈے وڈکے سیانے سن کے بے عقل ،۔پر اک کم ایہناں دا مینوں بڑا  چنگا لگیا اے ۔
او کیڑا ؟ اوئے سیٹھا ؟
اپنیاں زنانیان نوں لید دے کم تے لائی رکھ کے انگریاں کولوں بچا لئیاں نے ، نئیں تے ساڈے منڈے وی نیلی اکھیان والے ہو جانے سن  ۔

پیر، 14 ستمبر، 2015

دین فضولی تے لین حکمت


فرانسیس رائیٹر نے ایک کہانی لکھی تھی  جس میں ایک بندے کو ایک لمبی توپ سے گولے کی طرح داغ کر چاند پر پہنچایا جاتا ہے  ۔
اس کہانی کے لکھے  جانے کے کوئی سو سال بعد راکٹ داغ کر انسان کو چاند پر پہنچیا گیا ، فرانسیس رائیٹر کی لکھی کہانی کی توپ کی لمبائی اور اپالو گیارہ کو لے کر اڑنے والے راکٹ کی لمبائی ایک ہی تھی ۔
وہ بھی ایک فرانسیسی رائیٹر ہی تھا جس نے فکشن کہانی میں ایک کشتی کو  چمڑے میں مڑھ کر پانی کی  گہرائیوں میں ابدوز چلانے کی کہانی لکھی تھی ۔
جرمن لوگوں نے ابدوز اس کہانی کے کوئی ایک سو سال بعد ایجاد کی تھی ۔
یہاں جاپان میں ، جس معاشرت میں پاکستانی لوگ پناھ گزین ہیں ، یہان زندگی  کی اکثر  مشکلات ، معاملات کا کوئی نہ کوئی حل سسٹم میں موجود ہے ۔
جاپان کا دین انسان کی زندگی میں ہونے والے مصائب اور مسائل کے تدارک کے لئے بہت  مدد گار نظام ہے ۔
لیکن ایک مسئلہ ایسا نظر آیا ہے جس میں نظام  بھی مدد کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے ۔
وہ ہے
رقم کی وصولی  ، اگر دینے والا انکار کر دے یا کہ حیل و حجت پر اتر آئے  ۔
اصل میں نظام  مجبور بھی وہاں ہوتا ہے جہاں لوگ نظام  کی ہدیت کے مطابق  لین دین میں لکھائی نہیں کرتے ۔
قران میں بھی لین دین  کے معاملات کو لکھ لینے  یا لکھوا لینے کا حکم کیا ہے  ۔
یہاں ہمارے ایک دوست کے ساتھ معاملہ اس طرح ہوا کہ  انہون نے ایک برمی کی مدد کے لئے  اس کی گاڑی کو منڈی میں بیچنے میں مدد کی ، رقم وصول ہو جانے کے بعد اس گاڑی میں کوئی نقص نکل آیا  جس پر گاڑی واپس آ گئی  ، اس برمی نے گاڑی کہیں اور بیچ دی لیکن  منڈی کو واپس کرنے والی رقم  واپس نہیں کی ۔ جو کہ پاکستانی دوست کو  منڈی کا ممبر ہونے کی وجہ سے واپس کرنی ہی پڑی تھی ۔
اب وہ برمی بندہ پاکستانی کو رقم واپس نہیں دے رہا ۔ یہ معاملہ کوئی ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے  ۔
دوسرا کیس  ، ایک دوست نے ، دوسرے کو اپنا نمائیندھ اور پاٹنر بنا کر تھائی کی مارکیٹ میں بٹھایا
کہ میں گاڑیاں بھیجتا ہون اپ ان کو بیچ کر رقم جاپان پہنچاؤ ، مانفع بانٹ لیا کریں گے ۔
تھائی سائڈ والے پاٹنر نے کوئی سات ملین کی رقم دبا کر  گاڑیاں کسی اور بندے سے منگوانے لگا ۔
جاپان سائڈ والا پاٹنر  رقم کا تقاضا رتا ہے تو
اس کو بتایا جاتا ہے کہ
میں اپ کی ہی رقم کے لئے کوشاں ہوں جیسے ہی انتظام ہوتا ہے  رقم اپ کو ادا کر دیتا ہوں
اس معاملے میں بھی کوئی ایک سال گزر چکا ہے ۔
اس معاملے میں کیا ہونا چاہئے ؟؟
 معاشرہ ایسے  بندے کی کیا مدد کرسکتا ہے ؟
ایک رائیٹر کے خیال میں ،اگر  اس شہر یا علاقے کے لوگ ، جو مسجد میں یا اوکشن میں ملتے ہیں  وہ سب لوگ  باری باری ،رقم دبائے بیٹھے بندے کو ۔
بڑے آرام اور تحمل سے یہ کہیں کہ
یار جی تم  جو رقم دبائے بیٹھے ہو وہ واپس کر دو ، تم ایک غلط کا کر رہے ہو !!۔
اگر ایک بندے کو صرف پینتیس سے چالیس لوگ ایک ہفتے کے اندر دو دو یا تین تین دفعہ یہ کہہ دیں تو ؟
میں نہہں سمجھتا کہ رقم کی واپسی کا کوئی طریقہ نہ نکلے ۔
یاد رہے کہ فراڈیہ بھی ایک انسان ہے  جو کہ فراڈ کو دل کی عمیق گہرائیوں میں کہیں نہ کہیں برا ضرور سمجھتا ہے ۔
معاشرے کے یاد کروانے پر اس کے دل میں بھی یہ خوف جاگ جائے گا کہ
اگر سارے لوگوں کو میرے “ بڑے “ ہونے کا علم ہو گیا تو  ، میں فراڈ کس سے کروں گا ؟؟
جیسے بھی سہی ۔ میں اس بات کا یقین رکھتا ہوں کہ
یہ طریقہ کار کام کرئے گا ۔

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

متاثرین

بوٹے داڑہی والے کے دومنزلہ مکان کے سامنے تین چار بندے  کھڑے گالیان دے رہے
تیر پین دی ۔۔۔۔ تیری ماں دی ۔۔۔ توں تھلے اتر !!!۔
اپھو  ستھن والا بھی وہاں سے گزر رہا تھا ، اسنے سب گالیاں دینے والوں سے پوچھا کہ تم لوگ کس کو للکار رہے اور کیوں گالیاں دے رہے ہو ؟؟؟۔
کسی نے کوئی جواب نہیں دیا کہ وہ سب لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں ۔
اپھو ستھن والا خود ہی  بوٹے داڑہی والے کے مکان میں داخل ہوا ، تو آواز آئی “اتے ای آ جاؤ “ ( اوپر آ جاؤ)۔
اپھو ستھن ولا جیساے ہی اوپر پہنچتا ہے  ، بوٹا داڑہی والا اس کو دبوچ کر اس کی ستھن اتار کر  اپھو سے مردانہ وار  بلاد کار کردیتا ہے ۔
اپھو کے بوٹے کی گرفت سے نکلتے نکلتے بھی ،اپھو کو بوٹے کی واردات سے ہونے والی چپچپاہٹ کا احساس ہو جاتا ہے ۔
اپھو  ستھن والا ستھن سنبھالتے ، بغیر استنجا کئے  ،وہاں پہلے سے گالیاں دینے والوں کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے
اؤئے تھلے اتر اوئے ، تیری ماں  نوں ۔۔۔۔ تیری پین نوں ۔۔۔۔۔!۔
اب اگر کوئی اپھو ستھن والے سے بھی پوچھے کہ تم گالیاں کیوں دے رہے ہو تو ؟؟
بتائے وہ بھی کسی کو نہیں ۔

جمعرات، 10 ستمبر، 2015

بگلہ بھگت


بگلہ بھگت ! پنجابی میں اس بندے کو کہا جاتا تھا جو دھرم بھاشن زیادہ دے اور داء پر رہے ہندو دھرم میں بھگت لوگ صبح پانی میں ایک ٹانگ یا دونوں ٹانگوں پر کھڑے ہو کر انکھیں بند کر کے اشلوک پڑھا کرتے تھے ۔
وہیں پانی میں بگلے بھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہوتے تھے  ، بڑے خاموش اور لگتا تھا کہ دل سے عبادت کر رہے ہیں ۔
لیکن جیسے ہی کوئی مچھلی “رینج “ میں آتی تھی اس کو ہڑپ کر کے ایسے بن جاتے تھے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اور اگلی مچھلی کے انتظار میں عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے ۔
پاکستان بننے کے بعد نہ ہندو رہے  نہ ہندؤں کے بھگت ۔ بگلے وہیں کے وہیں ہیں لیکن نہ کسی نے بھگت دیکھے ہوئے اور نہ کسی کو یہ مثال یاد ہے ۔
لیکن بگلہ بھگت اج بھی اپکے اردگرد موجود ہیں ،۔
ہر وقت دا۴ پر بیٹھے ہوئے وہ لوگ  جو کسی مچھلی کے انتظار میں ہوتے ہیں ۔
جب اپ کو بھاشن دیتے ہیں ۔
اللہ رسول کے احکامات ماننے میں ہی دل کا سکون ہے ۔
اچھے کام کرنا ہمارا مذہب سیکھاتا ہے ۔
ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ذلیل ہو رہے ہیں ۔
اور اگر
کوئی بندہ پوچھ بیٹھے کہ
اللہ رسول کے احکامات ہیں کیا؟
تو کہتے ہیں “ تینوں نئیں پتہ “۔
بندہ کہے کہ نئیں تو ؟
بونگیاں مارنے لگتے ہیں اور دو تین سوال کے بعد یہ ضرور کہتے ہیں ۔
میں کو عالم نہیں ہوں ، تم کسی عالم سے بات کرو!!!۔
اگر ت عالم نہیں ہو تو؟
علم کی بغل میں انگل  کیا آمبھ لینے کو دی تھی ؟؟؟

بدھ، 9 ستمبر، 2015

حاجی خوشی محمد پہلوان

حاجی صاحب تو  وہ بہت بعد میں جا کر کہلوائے تھے  ، انیسو ستر  میں حج کیا تھا انہوں ، ۔
اس سے پہلے ان کو  لوگ پہلوان کہا کرتے تھے  ، پہلوان خوشی محمد اور ان کا بھائی تھا پہلوان اللہ لوک برادی کے دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر بڑے مضبوط کاروباری تھے  یہ لوگ ، تقسیم سے پہلے کے زمانے میں  ۔
ہتھ چھٹ  بھی تھے اور بیدار مغز بھی ۔ جیب میں پیسے تھے اور افرادی قوت بھی ۔
برادری خچروں اور گھوڑوں کی تعداد اس زمانے میں ان کے ہی پاس  سب سے زیادہ تھی ۔
جنس کا سودا مار کر  کسی کاروباری رقیب کی پہنچ سے پہلے  پہلوان خوشی محمد کے بھائی  خچروں اور گھوڑوں پر مال لادہ کے نکل بھی چکے ہوتے تھے ۔
پہلوان خوشی محمد کے گھوڑے کی چھٹ میں چاندی کے سکے ہوتے تھے  جو  ادائیگی زمین دار کے گھر جا کر کرتے تھے ۔
تلونڈی سے جمون کا سفر  ایک دن کا ہوتا تھا  ، ایک دن جانے میں اور ایک دن آنے میں ،۔
یہاں سے کندم اور چاول کے کر جاتے تھے اور وہاں سے سرخ بیر خرید کر لاتے تھے ۔
برادری کے کئی لوگ جن کے پاس گدھے تھے وہ ادھر جموں میں ہی ہفتوں تک جاتے تھے کہ باربرادی کام بہت تھا ۔
خچر اور گھوڑوں والے  مال لادہ کر گھر لوٹ آتے تھے ۔

ڈرپ کا علاقہ  (پسرور کے شمال مشرق ) پانی کی کمی کے لئے مشہور تھا ۔ کہیں کہیں کنویں تھے اور پانی بھی بہت گہرا تھا کہ رہٹ والے کنوئیں سے پانی نکالنے والے بیل بھی بوجھ سے ہانپ ہانپ جاتے تھے ۔
رہت میں بیل جوتے  پانی نکالتے زمینداروں سے ہاتھا پائی  کر کے جانوروں کو پانی پلانا ایک معمول تھا ۔
ایک دفعہ ، پہلوان خوشی محمد سیالکوٹ سے پیدل گاؤں آ رہے تھے کہ جیسا اس دور میں معمول تھا  کھیتوں کے منڈیر اور پہہ ہی راستے ہوتے تھے ۔
سورج کے رخ سے سمت کا تعین کر کے جو بھی راہ شارٹ کٹ لگتی تھی اس پر چل نکلتے تھے ،۔
ایک جگہ پہہ پر چل رہے تھے کہ کسی کھوھ پر زمیندار نے ان کو کہا کہ اس پہہ پر نہ جاؤ ،اگے ایک ناگ اس راھ پر ہوتا ہے ، لوگوں نے یہ راھ استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے  ۔
لیکن پہلوان خوشی محمد یہ کہہ کر کہ  “سپ شینہ ، فقیر دا دیس کوئی نہ”  اس کسان کی بات نہیں مانی ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سانپ ہو گا بھی تو  وہ کوئی گھر بنا کر وہیں تو نہیں  پڑا ہو گا ، کہیں نکل گیا ہو گا ۔
لیکن ہوا یہ کہ  وہاں واقعی سانپ تھا ور بہت بڑا سانپ تھا ۔
اس اژدہے نما کو دیکھ کر پہلوان جی پر دہشت طاری ہو گئی ، لیکن بھاگنے کی جاء نہیں تھی اس لئے لاٹھی سے اس کے سر پر وار کیا ، اژدھے نے بھی بل کھا کر پھن مارا ۔ پاس ہی کہیں کوئی اینٹ روڑوں کی ڈھیری تھی  ، جس پر چڑھ کر  پہلوان جی نے پتھر  پکڑ پکڑ کر اژدھے کو مارنے شروع کئے  ایک جنون تھا کہ بس مارے ہی چلے جاتے تھے ، پتھروں کے نیچے دبے  اژدھے کی دم ہلتی رہی  ۔
کہ حاجی صاحب  بے ہوش ہو کر گر گئے ۔
وہ کسان جس نے ان کو منع کیا تھا  وہ کچھ لوگ ساتھ لے کر اس راھ پر ان کو دیکھنے پہنچ گیا ۔
جن لوگوں نے پہلوان جی کو  اٹھا کر  نزدیکی  قصبے ،  جہاں خقش قسمتی سے اس زمانے میں بھی کوئی ڈاکٹر صاحب موجود تھے  ، ان کے پاس پہنچایا ۔
پہلوان جی کو دو دن بعد ہوش آیا  اور پانچ دن بخار میں سلگتے رہے  ۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کا علاج کیا ور ان کو انعام میں ایک رویہ دیا کہ تم نے سانپ کو مار کر راستہ صاف کردیا ہے ۔
برادری میں  ایک لڑکے کی منگنی ڈسکے کے کسی گاؤں میں ہوئی تھی
کہ عین شادی سے کچھ دن پہلے  لڑکی والے مکر گئے  ،
پہلوان جی اپنے بھائیون کے ساتھ  گھوڑوں پر بیٹھ کر گئے اور اس لڑکی کے گھر والوں کو کہا
کہ لڑکی  ہماری منگ ہے ۔
جب منگنی میں تم لوگوں نے یہ لڑکی ہم کو دے دی تو اب یہ ہماری عزت ہے  ۔
ہم اس لڑکی کو لینے آئے ہیں ۔
اگر کسی میں جرات ہے تو ہمیں روک لے ۔
لڑکی کو کہا کہ اپنا سامان  کپڑے جو تم اس گھر سے لینا چاہتی ہو  ساتھ لو اور گھوڑے پر بیٹھو ۔
لڑکی گھر والون سے  گھر سے نکلتے ہوئے  کہا کہ
اگر اپنی بیٹی کو ملنے آؤ تو ست بسم اللہ  تم لوگ ہمارے رشتہ دار ہو
لیکن اگر لڑئی کے لئے آؤ گے تو لاشیں اٹھانے والے بندے ساتھ لے کر آنا ۔
لڑکی  کو ساتھ لا کر  بڑے شگنوں کے ساتھ اس کا نکاح  اس کے منگیتر کے ساتھ کیا ۔
اس بی بی کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔
یہ بی بی  بڑی لڑاکا عورت تھی  ، اتنی لڑاکا کہ اس کا خاوند   جلدی ہی گزر گیا تھا ۔
اس کے بعد  برادری کی عورتوں سے اس کی لڑائی ختم ہی نہیں ہوتی تھی  ۔
اس کے جب کوئی پوچھتا تھا کہ تم اتنی لڑاکی کیوں ہو تو بڑے فخر سے بتایا کرتی تھی ۔
میرا میکہ بھی بڑا بہادر تھا ۔
میں بڑی لڑاکی ہوں ۔
کئی دفعہ اس کی لڑائی میں پہلوان خوشی محمد اگر پہنچ گئے تو  ؟
لاء لتر لیا اور  بہت پھینٹی لگاتے تھے  ، حاجی صاحب کی پھینٹی کے بعد بی بی بہت  بھلی مانس بنکر بیٹھ جاتی تھی ۔
اور ترس کھا کر آنے والی برادری کی عورتوں کو بتایا کرتی تھی ۔
یہ بڑے بہادر کمہار ہیں ، میرے لڑاکے میکے  سے مجھے ڈنکے کی چوٹ پر اٹھا لائے تھے  ،۔
ان سے کوئی نہیں نپٹ  سکتا  ،۔
اور حاجی صاحب کہا کرتے تھے اس  زنانی کی کوئی ہڈی “لوندی “ ہے  جدوں تک مار نہ کھا لے  اینہوں سکون ای نئیں اؤندا !!!۔

پیر، 7 ستمبر، 2015

بے مذہب کے فلسفے


گاما ایک بے مذہب انسان ہے ، زیادہ ہی کھلے دل سے مذاہب کی ترکیب پر بھی بات کر جاتا ہے ۔
بے مذہب گاما  اپنے مالک   ( اللہ ) کی بہت رسپکٹ کرتا ہے  ۔ سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے  کام کاروبار میں ہر جگہ اپنے مالک  کی  مرضی کا بہت خیال رکھتا ہے  ۔
کہ  کہیں کوئی کام ایسا نہ ہو جائے کہ  مالک ( اللہ)  سائیں کو اچھا نہ لگے  ۔
 بے مذہب گاما  ! دارے میں بیٹھا  حقے کے کش لگاتا  ، گاؤں کے دوستوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا کہ
دیکھو جی  ، پڑوس کے ملک کے ہندو  لوگ جو دنیا کا قدیم ترین مذہب رکھتے ہیں ، ان کے ہاں لاکھوں ہی خدا ہوا کرتے ہیں ۔
اس کےبعد یونانی ہوئے ہیں جن میں ہزاروں ہی خدا ہوا کرتے تھے  ،۔
ہاں ہاں وہی یونانی جن میں اگر نابینا ہیومر نہ ہوتا جس نے منظوم قصے لکھ کر یونانیوں کو زندہ کر دیا تھا
تو
یونانیوں کی  عمارتوں کو دیکھ دیکھ   کر لوگ ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے جیسے کمبوڈیا کی “ انکور واٹ “ کو دیکھ اج کی دنیا ٹامک ٹائیاں مار رہی ہے کہ کون لوگ تھے جو یہ عمارتیں بنا کر فنا کے گھپ اندھیروں میں کھو گئے  ۔
گاما یہاں تک پہنچا تھا کہ  ماسٹر جی بھی  حقہ  کشید کر کے لئے وہیں آ پہنچے !۔
ماسٹر جی نے لقمہ دیا
ہاں ہاں بتاؤ ناں  انکور واٹ کا قصہ بھی کہ  کوئی راز کھولو؟
گاما گویا ہوا : ماسٹر جی انکور واٹ والوں کو کوئی ہیومر نصیب نہ ہوا ، جو ان کا قصہ لکھ کر دے جاتا  ۔
انکور واٹ والوں سے تو اپنا صاحباں کا مرزا خوش نصیب نکلا کہ ان کو دمدرداس مل گیا جس نے  مرزے کی “واردات “ کو عشق کی انتہا بنا کر  مزرے کو زندہ کر دیا ۔
بھولا سنیارہ کہنے لگا  : یار بات کو درمیان میں چھوڑ کر دور نہ جاؤ وہی بات کرو کہ یونانیوں کے ہزاروں خدا تھے تو؟
ہاں ہاں
ہندوؤں کے لاکھوں اور یونانیوں کے ہزاروں خدا تھے  ،۔
اس کے بعد پارسی گزرے ہیں جن کے سینکڑوں خدا تھے ۔
پارسیوں کے بعد عیسائی  ہوئے جن کے تین خدا ہیں ۔
اور پھر ایک خدا کا تصور دیا گیا ۔
اب ایک خدا کے تصور نے تو  خدا ختم ہی کر دئے ، ہیں اس لئے کوئی نیا خدا نہیں بن رہا
ورنہ یہ مولوی  ہر مسیت میں ایک نیا خدا بنا کر بیٹھے ہوتے ۔
ماسٹر جی  پھر گویا ہوئے :
اوئے گامیا! تم پھر ڈنڈی مار گئے ہو ، کم عقل  لوگوں کو ادھوری بات بتاتے ہوئے تمہیں “مالک “ دیکھ رہا ہے کا خیال نہیں آیا؟
گاما گھسیانا ہو کر ہی ہی ہی کرنے لگا
اور پھر بولنے لگا ، ویکھو یارو ، اصل میں ایک خدا کا تصور تو ابراہیم علیہ سلام نے دیا تھا ۔
وہی ابراہیم ، جس پر تورایت انجیل زبور میں سلامتی بھیجی گئی ، جس کی آل کو دنیا کی منتخب نسل ہونے کا بتایا گیا  ،۔
وہی ابراہیم جن نے ایک خدا کے ماننے والوں کو پہلی دفعہ مسلمان کہا اور جس نے پہلی بار ایک خدا کے تصور  والے نظرئے کو  اسلام کہا ۔
بات سے جان چھڑانے والے انداز میں  کہتا ہے
بس اس کے بعد اسی ایک خدا کے فلسفے کو  ہر دوکاندار نے اپنے اپنے انداز میں کیش کرانے کی کوشش کی کسی  نے ایک کو  “تثلیث” کا کہہ کر ایک ہی خدا ہے  تین بنا دیئے
اور کسی نے اس کو “نور کا ہالہ “ بنا کر لاتعداد کرنیں بنا دیں ۔
بس یارو اب کوئی کچھ بھی کہلوائے
جو دین ابراہیمی کی طرح کا  سیدہی راھ پر چلنے والا ہے وہی مسلمان ہے اور جو نظام سیدھی راہ دیکھاتا ہے وہی اسلام ہے  ۔
ہاں ہاں وہی اسلام جس کے ہمیشہ عروج پر رہنے کی  اللہ نے ضمانت دی ہے ۔
ہر زمانے میں  مسلمان ہی سرخرو رہتا ہے  ۔
مسلمان کہلوانے والا کم فہم اور بد نظم  کبھی بھی سرخرو نہیں ہو سکتا ۔
گاما  یہ بات کہہ کر نکل گیا تھا کیونکہ گاما ، قران کا علم رکھنے والے ماسٹر جی کے سامنے  اپنے بے مذہبی کے فسلفے بکھارنے سے کتراتا ہے  ۔

Popular Posts