اتوار، 30 مارچ، 2014

اللہ دتّہ جنتی کمہار


گاؤں کی بڑی مسجد کی تعمیر کا کام تھا ، مولوی صاحب  نے اونچی مسجد کی پرانی  عمارت  کو گرا کر نئی عمارت کا پروجیکٹ دیا تھا ، گاؤں والوں کو !!۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی کے   اوّلین سالوں کی بات ہے ۔ معاشرے میں امن اور روادار کا دور دورہ تھا ، دلوں میں محبت تھی  ۔
اللہ دتّہ کمہار ، المعروف جنتی کمیار!۔
مسجد کی تعمیر کے لئے جو چجندہ اکٹھا کیا جارہا تھا  اس پر سب کو یقین تھا کہ اس میں سے اک دانے کا بھی ہیر پھیر نہیں ہو گا ، کہ شائد اس دور میں تو مولوی صاحب پر شک تک بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔
گاؤں کے سبھی لوگ بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے تھے  ، چندے میں رقم اور اناج دیا جا رہا تھا۔
اتنے میں اللہ دتّہ کمہار ایک گدھا لے کر آ گیا
مولوی صاحب میرے گھر میں دینے کو نہ رقم ہے اور نہ اناج ، یہی ایک گدھا ہے  ، مولوی صاحب اس گدھے کو چندے میں رکھ لیں ۔
وہاں موجود سارے ہی لوگ اللہ دتہ کمہار کی سادگی پر ہنسنے لگے ۔
مولوی صاحب اللہ دتے کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتے تھے  ، اس لئے کہنے لگے
اللہ  دتیا!! ہم نے اس کھوتے کا کیا کرنا ہے ؟
بس یار تم سمجھو کہ تمہارا مسجد میں حصہ ہو گیا ہے  ، اللہ تہاری نیت کو قبول فرمائیں  ۔
تم گدھا لے کر گھر جاؤ اور کام کرو  جب اللہ تم کو استعاعت دئیں گے اس وقت تم کچھ لے آنا !!۔
لیکن اللہ دتہ التجاعیہ نظروں سے مولوی صاسحب کا منہ دیکھنے لگا کہ
مولوی صاحب مجھے ریکجیکٹ نہ کرو جی ، گدھا رکھ لو۔
مولوی صاحب بھی پریشان ہو کر پوچھتے ہیں کہ اللہ دتیا ! ہم اس گدھے کا کریں گے کیا؟
تم ہی بتاؤ!؟،
تو اللہ دتے کمہار نے مولوی صاحب کو آئیڈیا دیا کہ  جی میں خود اس گدھے کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹاؤں گا ۔
مولوی صاحب  بھی اللہ دتے کمہار کے خلوص کے سامنے لاجئواب ہو گئے ۔
پھر زمانے بھر نے دیکھا کہ  اللہ دتّہ کمہار  مسجد کی تعمیر کے لئے ہر روز دن بھر کام گا رہتا ہے ۔
مسجد کی تعمیر میں مہینوں لگ گئے ، موسم بدلے دھوپ کہ بارش گرمی ہو کہ سردی اللہ دتے کمہار کی لگن میں کمی نہیں
آئی ۔
اللہ دتے کمہار کی لگن ، محنت اور خلوص  کو دیکھ کر مولوی صاحب کے منی سے نکل گیا کہ اللہ دتّہ کمہار جنتی ہے  جی جنتی ۔
زبان خلق نقارہ خدا ، کہ گاؤں بھر میں اللہ دتہ کمہار اللہ  دتہ جنتی کے نام سے مشہور ہو گیا ۔
اللہ دتّہ جنتی کمہار

وقت گزرتا رہا مسجد کی تکمیل کو بھی سالوں گزر گئے  نئی نسلوں کو اللہ دتہ کمہار کا نام  “اللہ دتّہ “ تو یاد ہی نہ رہا ۔
بلکہ اس کا نام ہی جنتی کمہار پڑ گیا ۔جی جنتی کمہار !!۔
گوجرانوالہ سے مشرق کی طرف کے گاؤں دیہات میں سینکڑوں ہی گاؤں دیہات میں لوگون نے اللہ دتے کو دیکھا ہو کہ نہ لیکن اس کا نام ضرور  سنا ہو گا “ جنتی کمہار”۔
جنتی کمہار نے پسرور روڈ پر زمینیں ٹھیکے پر لے پر ان میں “شٹالہ” نامی گھاس بونی شروع کر دی ۔
عالقے کے سبھی کمہاروں کی طرح دوسری تجارت بھی  یعنی اناج کی خرید و فروخت  بھی جاری رکھی ۔
گوجرانوالہ سے پسرور تک کے گاؤں دیہاتوں کے لوگ یہاں سے بسوں ویگنوں پر گزرتے تھے ۔
اگر کسی نے پوچھا کہ یہ فصلیں کس کی ہیں ؟
تو اس کو بتایا گیا
“ جنتی کمہار کی”!!!۔
 جنتی کمہار کی ایمانداری پر یا جنتی کے کاروباری معاملات پر کبھی کسی کو اعتراض کاموقع نہیں ملا ۔

پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، زمانہ بدل گیا ہے
مجھے خود زمانے میں خجل ہوتے ربع صدی گزر گئی ہے ۔
جنتی کمہار جب ہم نے ہوش سنبھالا تو اس وقت بھی ہمارے محترم بزرگ تھے ۔
گزرے کل کی بات ہے کہ
میں برادری کی ایک شادی میں شامل تھا۔
فائیو سٹار ہوٹلوں کی طرز پر لگی ہوئی  میزوں پر لوگ بیٹھے تھے ۔
ایکڑوں میں لگے تنبوؤں  میں یہ میزیں لگی تھیں ۔
اپنے لوگوں سے بچھڑے سالوں سے سیلانی کی طرح کی زندگی گزارتے ہوئے  میرا بھی یہ حال ہو چکا ہے کہ
برادری کی کسی شادی میں شمولیت کا یہ موقع مجھے کوئی تیرہ سال بعد ملا تھا
اس لئے ایک میز پر بیٹھا تھا اور اپنے بیٹوں کو کہہ رہا تھا کہ
بیٹا جی نزدیک ہی رہنا کہ مجھے بتاتے رہنا کہ کو ن ! کون ؟ ہے ۔
کہ
بابے جنتی کو دیکھا !!۔
میں تو یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ
بابا جنتی گزر چکا ہو گا
بابے کو حیات دیکھ ایک خوش ہوئی  ، اور بابا بھی اس پارٹی میں خود کو اجنبی سے ماحول میں محسوس کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اس کے “اپنے” کہاں بیٹھے ہیں ۔
میں جلدی سے اتھ کر گیا ! اور بابے جنتی کو سنھبال کر اپنے ساتھ میز پر لے آیا !!۔
بابے نے میرا چہرہ دیکھا  ، مجھے پہچاننے کی کوشش کی ،
میں نے خود ہی اپنا تعارف کروایا !!۔
بابا ! میں ہوں تہڑوائی کا بڑا پوتا!!۔
بابے جنتی نے پہچان لیا
اوئے ! ۔ پاء اسماعیل تہڑوائی  کے بڑے پوتے ہو؟
جی بابا جی!۔
تم وہی ہو نہ ، جس نے ساری دنیا پھری ہے؟
کس ملک میں ہوتے ہو ان دنوں ؟ تمہاری آوارہ کردی نئیں ختم ہوئی ابھی ؟ کام کیا کرتے ہو؟
تم گھر کیوں نہیں پلٹتے  اؤئے؟
بابے نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دئے ۔
اس کے بعد بابے جنتی سے “تلونڈی کے کمہاروں “ کی بڑی باتیں سنیں ۔
میں ! جو کہ خود بھی تلونڈی کے کمہاروں میں سے ایک کمہار ہوں ۔
بابے جنتی کی باتیں میرے لئے ایک سرمایہ ہیں ،۔
انے والے دنوں میں بابے جنتی کمہار کی بتائی ہوئے باتیں بھی لکھتا رہوں گا ۔

پیر، 24 مارچ، 2014

پیار کا آمرت



جاپان میں  ایک اہم واقعہ پیش آیا ہے ( ہو سکتا ہے کہ صرف مجھے ہی آہم لگ رہا ہو!)۔
ساتیتاما کین  میں آج  ، فٹ بال کا ایک میچ “بغیر تماشائیوں” کے ہو اہے ۔
کیونکہ ! ٹیم کے سپوٹروں نے “غیر ملکیوں “ سے نفرت کا اظہار کیا تھا
معاملہ کچھ یوں ہوا
کہ

جاپان کی فٹ بال آرگنائیزیشن “ جے لیگ” کی ایک ٹیم ” اوراواریڈ”نام بھی ہے ۔
ساتیتما کین کے شہر سائیتاما کے “اوراوا وارڈ”  کی ٹیم !!۔ “اوراوا” جو کہ تین شہروں کے اختلاط سے بننے والے سائیتاما شہر سے پہلے ایک شہر کی حثیت رکھتا تھا ۔
اس شہر کی ٹیم کے سپوٹروں نے ،سٹیڈیم میں ایسے پرچم لہرانے شروع کر دئے تھے ، جن پر لکھا ہوتا تھا کہ “ صرف جاپانیوں کے لئے۔
اس قسم کے نسلی امتیاز کرنے والے بینر لہرانے کو معیوب سمجھنے والوں نے جب ٹیم کے سرکردہ افراد سے جب یہ پوچھا کہ کیا یہ کام اپ کے علم میں ہے ؟
تو ان ذمہ دار افراد نے اقرار کیا کہ ہاں ان کے علم میں ہے !۔
جس پر میڈیا نے اس بات کے معیوب ہونے کا چرچا شروع کر دیا ، اور جاپانی معاشرت میں ایسی بات ہے بھی معیوب ، کہ کسی سے صرف اس کے رنگ ، نسل یا نظریات کی وجہ سے نفرت کی جائے ۔
اس لئے “جے لیگ” نے فیصلہ کیا کہ اوراوا کی ٹیم اگلا میچ بغیر تماشائیوں  کےکھیلے گی ۔
اوراوا ریڈ اور شیمیز ایس پلس کے درمیان ہونے والا یہ میچ ایک ایک گول کے ساتھ  برابر رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک میرے وطن کا معاشرہ ہے کہ
جس کو تعلیم ہی نفرت کی دی گئی ہے ۔
دوسروں کے مذاہب ، مسالک ، زبانوں سے نفرت کی رسم اب چلتے چلتے ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہے اور بھائی بھائیوں سے بھی نفرت کرنے لگے ہیں ۔
پاکستان پر ایک عفریت کا قبضہ ہے ۔
ایسی باتوں کو “ فگر آؤٹ” کرنے کے لئے بھی “علم” کی ضرورت ہوتی ہے
اور اس “عفریت “ نے پاکستان میں تعلیم کو ہی عنقا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور جو تعلیم میسر ہے ؟
اس میں مغالطوں اور مبالغوں کا زہر ملا کر رکھ دیا ہے ۔
انسان کے اندر کہیں دور ، گہرائیوں میں اس بات کا احساس تو موجود ہے
کہ نفرت ایک زہر ہوتا ہے 
اور
باہمی پیار قوموں کے لئے آمرت!!۔
لیکن مغالطوں اور مبالغوں کی پانچ دہایوں کی تعلیم نے ہمارے اندر پائی جانے والی ایک  آفاقی حقیقت کو بھی دھندلا کے رکھ دیا ہے ۔

ہفتہ، 15 مارچ، 2014

تیرا کیا بنے گا؟


کیپیٹل ازم ( دجالی) ہی ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے!!۔
اس کے مقابلے میں کوئی مذہب کوئی کلچر کوئی نظام مکمل ترین ہونے کا اگر دعوی  کرتا بھی ہے تو ، یہ دعوی خام ہے ۔

کیپیٹل ازم   نے کبھی بھی ایک مذہب ہونے کا دعوی نہیں کیا ہے ، اور نہ ہی کوئی شخص اس مذہب کا  نبی یا “فونڈر” ہونے کا دعوے دار ہے ۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سبھی مذاہب ، اس مذہب کی مخالفت کرتے ہیں ، اور سبھی مذہب اس کیپیٹل ازم  سے مغلوب بھی ہو چکے ہیں ،۔
کیپیٹل ازم ( دجالی) ہی ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے!!۔
انسان کی اور انسانی معاشرے کی سبھی ضرورتوں کا تعین کر کے ان ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال یہ مذہب اج کی دنیا کی ضرورت بن چکا ہے ۔
افراد کے حقوق و فرائض کا ایک ایسا نظام ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔
اس مذہب میں عبادات کا بڑا مربوب نظام ہے ۔
ہر بندے کو جاب نامی عبادت کرنی ہی پڑتی ہے ، اور اس جاب نامی عبادت میں مراتب و مقامات بھی ہوتے ہیں ، جو کہ تعلیم نامی عبادت کی قلت یا کثرت سے متعین ہوتے ہیں ۔
جو بندہ تعلیم نامی عبادت  جتنے خلوص اور لگن سے کرئے گا ، اس کو تعلیم کے بعد کی عبادت “جاب “ میں اعلی مقام عطا کیا جائے گا ،۔
اور جو بندہ کیپٹل ازم کےدین میں جاب نامی عبادت جتنی لگن اور محنت سے کرئے گا  ، اس کو اتنی ہی زیادہ “نیکیاں “ ملیں گی ۔ لیکن کیپٹل ازم نے ان “ نیکیوں “ کا نام “ کرنسی “ رکھا ہوا ہے ۔ اور جاب نامی عبادت کے ایک خاص مرحلے پر عبادت گزار کو یہ کرنسی ادا کر دی جاتی ہے ۔
اور کرنسی سے سہولیات خریدی جاتی ہیں ۔

جاب نامی یہ عبادت روایتی مذاہب کی عبادات کی طرح نہیں ہوتی کہ ہر کوئی ایک ہی جیسی حرکات کرئے اور اس کو عبات کا نام دے کر نیکیوں کی امید پر کرتا ہی چلا جائے بلکہ
جاب نامی عبادت ، ہر بندے کا ایک ایسا عمل ہے جو کہ دوسروں کی سہولت کا باعث بنتا ہے ۔
اس طرح دیگر عبادات اور ان کے اجر ہیں ۔
ان سب باتوں پر دفعتاً فوقتاً روشنی ڈالی جاتی رہے گی ۔
لیکن ان باتوں کو کیپیٹل ازم کی تبلیغ نہ سمجھا جائے ۔
اگر کسی کو کیپیٹل ازم سے نفرت ہے تو ؟
اس نظام کی رسیاں ٹروا کر اگر نکل سکتا ہے تو نکل جائے ۔
دنیا بھر کے مذاہب اس نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ۔
لیکن ان کی یہ جو جہد اسی طرح ہے ، جیسے کوئی نابینا بندہ کسی جن سے گتھم گتھا ہو ، کہ اس جن کو بچھاڑ کر چھوڑوں گا۔
پہلی بات تو یہ کہ اس جن سے جیتنا ہی مشکل ہے
اور
اگر
اس جن کو بچھاڑ ہی لیا تو ؟
کریں کے کیا؟
اس بات کا کسی بھی مذہب نے سوچا   ہی نہیں
کہ
بنکنگ ، ٹرانسپورٹ ، مواصلات، قوانین ، اور خوارک کی ترسیل کے اس مرطوب نظام اور دیگر کے مقابلے میں کسی بھی مذہب کے پاس کچھ نہیں ہے ۔

اتوار، 2 مارچ، 2014

پستے بادام اور فارمی مرغیاں


قلفی کھوئے ملائی والی اے ، پستے بادام والی اے !!۔
یہ آوازیں اپ میں سے بہت سوں نے سنی ہوں گی ۔
یا کہ کھانے والی چیزوں کو پر کشش بنا کر پیش کرنے کے لئے ، مکھن کے پیڑے ، ملائی والے  یا کہ کوئی بھی ایسی چیز جس میں سے چکنائیوں کی امید ہو ، ایسی چیزوں کے نام تقریباً سبھی نے سنے ہوئے ہیں ۔
تر نوالہ ، چپڑی اور دو دو ! ۔
ذہنیتیں ! مدتیں  لگتی ہیں تیار ہونے میں ، چکنائیاں ! برصغیر میں  محنت سے حاصل ہونے والی چیزیں تھی ، اور محنت ہی چکنائیوں کا خرچ بھی ہے ۔
بھوک کے متعلق کہانیاں ہیں ، بھوک کا ایک فلسفہ ہے ، بھوک پر لکھنے والوں کی پر اثر تحاریر سے  دینا بھر کی زبانوں کے ادب میں بے بہا خزانہ اکٹھا ہے ۔
ہمارے یہاں ایسی بھوک تو نہیں تھی کہ جیسی  کہ “ہند “ پر حملہ آور ہونے والی اقوام میں تھی
لیکن ایسی بہتات بھی نہیں تھی کہ لوگوں پر چربی کی تہیں چڑہی ہوئی ہوں ۔
دینا بھر کے معاشروں میں خوراک کے لئے جد و جہد کرنے کی کہانیاں ہیں ۔
لیکن
محققین کے مطابق ۔
اج ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں ۔
اج کا دور ! انسانوں کی معلوم تاریخ میں سے ایسا دور ہے کہ جس میں خوراک کی بہتات ہے ۔
بہتات سی بہتات ! کہ لوگ خوراک کیا کھائیں کے اج خوراک ان کو کھائے جا رہی ہے ۔
پنجابی کے اس محاورے کے مطابق ،۔
بندہ ! روٹی کھاندا اے  ، تے بہتی روٹی بندے نوں کھان لگدی اے۔
زمین پر انسانوں کی بڑہتی ہوئی ابادی کے متعلق اور اس بڑہتی ہوئی ابادی سے پیدا ہونے والے خوراک کے بحران کی باتیں کرنے والے بھی بہت ہیں ۔
لیکن جن لوگوں نے اس بات کے مشاہدے کو یاد رکھا ہے کہ اج سے چالیس سال پہلے ان کے گھروں میں کھانے پینے کی مقدار اور اج کے زمانے میں مقدار  کا کیا فرق ہے
وہ لوگ جانتے ہیں کہ
پچھلے پچاس سالوں میں زمین پر رزق کی بہتات ہوئی ہے ۔
پاکستان میں ، مہنگائی کا واویلا کر کے “ باہر” سے پیسے منگوانے والے بچوں کی بات چھوڑیں ۔ “ اباجی” لوگوں سے پوچھ لیں کہ
گوشت کا سالن ، کس تسلسل سے پکتا تھا ۔
خشک میووں کے نام پر “مونگ پھل” کے علاوہ کیا ہوتا تھا ؟
پھر دیکھتے ہیں دیکھتے ! کمائی “باہر “ کی تھی کہ”اندر” کروانے والی تھی یا کہ “عام “ سی تھی ْ۔
رزق کی بہتات سبھی نے دیکھی ہے ۔
انسانیت کی معلوم تاریخ میں رزق کی اس بہتات میں کھادوں کا ہاتھ ہے
جو زمیں کو دی جاتی ہیں
اور جو گوشت کو دی جاتی ہیں ۔
کھاد
جو گوشت کو دی جاتی ہے ۔
پاؤل سے گال !! ایک سائینسدان تھا ، جو کہ جانوروں کی سائینس “ذووالوجی “ کا ماہر تھا ۔ امریکہ کی ریاست ورجینیا کے رہنے والے اس سائینس دان نے 1957ء میں برائلر چکن تیار کیا تھا ۔
اسی نے مالیکیولوں کا ایسا علاماتی چارٹ تیار کیا تھا ، جس نے ایک عام سے پرندے کو فارمی جانور بنا دیا ۔
اسی کی تحقیق سے یہ ممکن ہو سکا کہ پیدا ہونے سے لے کر “گوشت” کی عمر تک پہنچے کے لئے جس پرندے کو چھ ماہ لگتے تھے اب وہی پرندہ چھ ہفتے میں تیار ہوجاتا ہے اور اس کا وزن یعنی کہ گوشت کی مقدار بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
فارمی مرغی کی ہسٹری کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے
اس کو دینا میں آئے ہوئے ابھی آدھی صدی ہی ہوئی ہے
اس کو تیار  کرنے میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ گوشت جلد سے جلد تیار ہو کر مارکیٹ میں پہنچایا جا سکے ۔
اور میں دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے پچیس سال میں انسانوں میں بھی گوشت کی بڑہوتی کی سپیڈ کو ایکسیلیٹر لگا ہوا ہے ۔
بڑھے ہوئے پیٹ ، فارمی مرغی کی طرح کے ملائم ملائم مسل !۔
انسانی تاریخ میں فلک نے شائد پہلی بار  دیکھے ہوں گے۔
فارمی سوروں اور فارمی  مرغیوں کی  خوراک میں جو ایکسیلیٹر ان کے گوشت کو بڑہانے کے لئے لگایا گیا ہے ۔
وہ ایکسیلیٹر ! اب اس گوشت کو کھانے والے انسانی جسموں تک پہنچ چکا ہے ۔
گوشت بڑھانے کے اس ایکسیلیٹر کی کارگردگی  کی سب سے عمدہ مثال امریکہ اور پاکستانی معاشرہ ہے ۔
جہاں فارمی مرغیوں کی طرح  ملایم ملائم اور پھولے ہوئے مسلوں والے انسان نما گھوم رہے ہیں ۔

ہفتہ، 1 مارچ، 2014

غیرت ، بے غیرت

غیرت! بڑی اہم چیز ہے ۔
اور غیرت کا معیار ،اقوام کا اپنا اپنا ہی ہوتا ہے ۔
ہمارے پٹھان لوگوں میں سے اگر کسی کا بھری محفل میں پد نکل جائے تو ؟
اس کے لئے مرجانے کا مقام ہوتا ہے ۔
خواتین کے متعلق غیرت کا معیار ، برصغیر کی ساری کی اقوام میں ملتا جلتا ہے ۔
کہ اگر کسی کی بہن ، بیٹی نے کوئی غلطی کر لی
یا کہ کسی نے ورغلا لیا تو ؟
قتل !!!۔
جاپان میں غیرت کا معیار یہ ہے کہ
اگر کسی کا جھوٹ پکڑا جائے ، یا کہ کاروبار میں وعدہ خلافی کر لے ، یا ملاوٹ کر لے یا کہ فراڈ کر لے !،
تو اس بندے کا بھی غیرت سے مرجانے کا ہی مقام ہوتا ہے ۔
اور جاپانی مر بھی جاتے ہیں ۔
جیسا کہ جاپانیوں کی خود کشیوں کی تعداد کا سبھی کو علم ہے ۔
اب یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جاپانیوں کی غیرت اپنی خواتین کے متعلق کیا ہے ؟
جاپانیوں کا خواتین کے متعلق معاشرتی رویہ یہ ہے کہ
بیٹی نے جنوائی کے گھر جان اہی جانا ہے ،اس لئے اگر اپنی زندگی کا ساتھی وہ خود جن لیتی ہے تو والدین کا فرض یہ بنتا ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ لڑکی کا فیصلہ کہیں غلط تو نہیں ؟
لڑکی کا منتخب کیا گیا لڑکا نکھٹو تو نہیں ۔
اور اس طرح بہن کے متعلق بھایئوں کا رویہ ہوتا ہے ۔
ورنہ شادیاں یہاں جاپان میں بھی ارینج میرج ہی ہوتی ہیں ۔
جاپانیوں کا اپنی غیرت کو قایم رکھنا ایک بڑی بات ہے بھی اور نہیں بھی کہ
ان کے غیرت کھانے والے کام ایسے ہیں کہ ان سے بندہ بچ سکتا ہے ۔
مثلا ، جھوٹ ! کوئی بھی انسان تھوڑی سی کوشش سے سو فیصد جھوٹ سے بچ سکتا ہے ۔
تھوڑی سی کوشش سے کاروباری وعدہ خلافیوں سے سو فیصد بچا جا سکتا ہے ۔
ملاوٹ یا فراڈ یا کہ کام چوری یا کہ طاقت کا بے جا استعمال ،ایسی ہی چیزیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ تھوڑی سی کوشش کر کے ان چیوں سے سو فیصد بچ سکتا ہے ۔
اس لئے کوئی بھی جاپانی غیرت مند اپنی ساری زندگی بڑی غیرمت مندی سے گزار دیتا ہے
اور
ناں اس کو کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پتا ہے اور ناں ہی خود اپنے ظمیر کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔
لیکن
کیا کسی بھی انسان کا اس بات کا امکان ہے کہ وہ پد مارنے سے سو فیصد بچ سکے ؟
یاکہ
اپنی غیرت کو سو فیصد بچا کر رکھ سکے کہ
نہ تو بہن کسی بہنوئی کو دے اور نہ ہی بیٹی کسی جنوائی کو؟
یا کہ
اپنی پیدایش کے مراحل میں ماں بات کے کردار پر کوئی قدغن لگایا جاسکتا ؟
وہ لوگ جو احساس رکھتے ہیں
اور جاپان اور پاکستان جیسے معاشروں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں ۔
اوہ لوگ دو انتہاؤں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں ۔ْ
ایک کنفیوزن سا ہے کہ ایسے لوگ کیا ہیں ؟
غیرت مند ؟ یا کہ بے غیرت ؟

Popular Posts