اللہ دتّہ جنتی کمہار
گاؤں کی بڑی مسجد کی تعمیر کا کام تھا ، مولوی صاحب نے اونچی مسجد کی پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت کا پروجیکٹ دیا تھا ، گاؤں والوں کو !!۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوّلین سالوں کی بات ہے ۔ معاشرے میں امن اور روادار کا دور دورہ تھا ، دلوں میں محبت تھی ۔
اللہ دتّہ کمہار ، المعروف جنتی کمیار!۔ |
گاؤں کے سبھی لوگ بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے تھے ، چندے میں رقم اور اناج دیا جا رہا تھا۔
اتنے میں اللہ دتّہ کمہار ایک گدھا لے کر آ گیا
مولوی صاحب میرے گھر میں دینے کو نہ رقم ہے اور نہ اناج ، یہی ایک گدھا ہے ، مولوی صاحب اس گدھے کو چندے میں رکھ لیں ۔
وہاں موجود سارے ہی لوگ اللہ دتہ کمہار کی سادگی پر ہنسنے لگے ۔
مولوی صاحب اللہ دتے کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتے تھے ، اس لئے کہنے لگے
اللہ دتیا!! ہم نے اس کھوتے کا کیا کرنا ہے ؟
بس یار تم سمجھو کہ تمہارا مسجد میں حصہ ہو گیا ہے ، اللہ تہاری نیت کو قبول فرمائیں ۔
تم گدھا لے کر گھر جاؤ اور کام کرو جب اللہ تم کو استعاعت دئیں گے اس وقت تم کچھ لے آنا !!۔
لیکن اللہ دتہ التجاعیہ نظروں سے مولوی صاسحب کا منہ دیکھنے لگا کہ
مولوی صاحب مجھے ریکجیکٹ نہ کرو جی ، گدھا رکھ لو۔
مولوی صاحب بھی پریشان ہو کر پوچھتے ہیں کہ اللہ دتیا ! ہم اس گدھے کا کریں گے کیا؟
تم ہی بتاؤ!؟،
تو اللہ دتے کمہار نے مولوی صاحب کو آئیڈیا دیا کہ جی میں خود اس گدھے کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹاؤں گا ۔
مولوی صاحب بھی اللہ دتے کمہار کے خلوص کے سامنے لاجئواب ہو گئے ۔
پھر زمانے بھر نے دیکھا کہ اللہ دتّہ کمہار مسجد کی تعمیر کے لئے ہر روز دن بھر کام گا رہتا ہے ۔
مسجد کی تعمیر میں مہینوں لگ گئے ، موسم بدلے دھوپ کہ بارش گرمی ہو کہ سردی اللہ دتے کمہار کی لگن میں کمی نہیں
آئی ۔
اللہ دتے کمہار کی لگن ، محنت اور خلوص کو دیکھ کر مولوی صاحب کے منی سے نکل گیا کہ اللہ دتّہ کمہار جنتی ہے جی جنتی ۔
زبان خلق نقارہ خدا ، کہ گاؤں بھر میں اللہ دتہ کمہار اللہ دتہ جنتی کے نام سے مشہور ہو گیا ۔
اللہ دتّہ جنتی کمہار |
وقت گزرتا رہا مسجد کی تکمیل کو بھی سالوں گزر گئے نئی نسلوں کو اللہ دتہ کمہار کا نام “اللہ دتّہ “ تو یاد ہی نہ رہا ۔
بلکہ اس کا نام ہی جنتی کمہار پڑ گیا ۔جی جنتی کمہار !!۔
گوجرانوالہ سے مشرق کی طرف کے گاؤں دیہات میں سینکڑوں ہی گاؤں دیہات میں لوگون نے اللہ دتے کو دیکھا ہو کہ نہ لیکن اس کا نام ضرور سنا ہو گا “ جنتی کمہار”۔
جنتی کمہار نے پسرور روڈ پر زمینیں ٹھیکے پر لے پر ان میں “شٹالہ” نامی گھاس بونی شروع کر دی ۔
عالقے کے سبھی کمہاروں کی طرح دوسری تجارت بھی یعنی اناج کی خرید و فروخت بھی جاری رکھی ۔
گوجرانوالہ سے پسرور تک کے گاؤں دیہاتوں کے لوگ یہاں سے بسوں ویگنوں پر گزرتے تھے ۔
اگر کسی نے پوچھا کہ یہ فصلیں کس کی ہیں ؟
تو اس کو بتایا گیا
“ جنتی کمہار کی”!!!۔
جنتی کمہار کی ایمانداری پر یا جنتی کے کاروباری معاملات پر کبھی کسی کو اعتراض کاموقع نہیں ملا ۔
پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، زمانہ بدل گیا ہے
مجھے خود زمانے میں خجل ہوتے ربع صدی گزر گئی ہے ۔
جنتی کمہار جب ہم نے ہوش سنبھالا تو اس وقت بھی ہمارے محترم بزرگ تھے ۔
گزرے کل کی بات ہے کہ
میں برادری کی ایک شادی میں شامل تھا۔
فائیو سٹار ہوٹلوں کی طرز پر لگی ہوئی میزوں پر لوگ بیٹھے تھے ۔
ایکڑوں میں لگے تنبوؤں میں یہ میزیں لگی تھیں ۔
اپنے لوگوں سے بچھڑے سالوں سے سیلانی کی طرح کی زندگی گزارتے ہوئے میرا بھی یہ حال ہو چکا ہے کہ
برادری کی کسی شادی میں شمولیت کا یہ موقع مجھے کوئی تیرہ سال بعد ملا تھا
اس لئے ایک میز پر بیٹھا تھا اور اپنے بیٹوں کو کہہ رہا تھا کہ
بیٹا جی نزدیک ہی رہنا کہ مجھے بتاتے رہنا کہ کو ن ! کون ؟ ہے ۔
کہ
بابے جنتی کو دیکھا !!۔
میں تو یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ
بابا جنتی گزر چکا ہو گا
بابے کو حیات دیکھ ایک خوش ہوئی ، اور بابا بھی اس پارٹی میں خود کو اجنبی سے ماحول میں محسوس کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اس کے “اپنے” کہاں بیٹھے ہیں ۔
میں جلدی سے اتھ کر گیا ! اور بابے جنتی کو سنھبال کر اپنے ساتھ میز پر لے آیا !!۔
بابے نے میرا چہرہ دیکھا ، مجھے پہچاننے کی کوشش کی ،
میں نے خود ہی اپنا تعارف کروایا !!۔
بابا ! میں ہوں تہڑوائی کا بڑا پوتا!!۔
بابے جنتی نے پہچان لیا
اوئے ! ۔ پاء اسماعیل تہڑوائی کے بڑے پوتے ہو؟
جی بابا جی!۔
تم وہی ہو نہ ، جس نے ساری دنیا پھری ہے؟
کس ملک میں ہوتے ہو ان دنوں ؟ تمہاری آوارہ کردی نئیں ختم ہوئی ابھی ؟ کام کیا کرتے ہو؟
تم گھر کیوں نہیں پلٹتے اؤئے؟
بابے نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دئے ۔
اس کے بعد بابے جنتی سے “تلونڈی کے کمہاروں “ کی بڑی باتیں سنیں ۔
میں ! جو کہ خود بھی تلونڈی کے کمہاروں میں سے ایک کمہار ہوں ۔
بابے جنتی کی باتیں میرے لئے ایک سرمایہ ہیں ،۔
انے والے دنوں میں بابے جنتی کمہار کی بتائی ہوئے باتیں بھی لکھتا رہوں گا ۔