اتوار، 2 مارچ، 2014

پستے بادام اور فارمی مرغیاں


قلفی کھوئے ملائی والی اے ، پستے بادام والی اے !!۔
یہ آوازیں اپ میں سے بہت سوں نے سنی ہوں گی ۔
یا کہ کھانے والی چیزوں کو پر کشش بنا کر پیش کرنے کے لئے ، مکھن کے پیڑے ، ملائی والے  یا کہ کوئی بھی ایسی چیز جس میں سے چکنائیوں کی امید ہو ، ایسی چیزوں کے نام تقریباً سبھی نے سنے ہوئے ہیں ۔
تر نوالہ ، چپڑی اور دو دو ! ۔
ذہنیتیں ! مدتیں  لگتی ہیں تیار ہونے میں ، چکنائیاں ! برصغیر میں  محنت سے حاصل ہونے والی چیزیں تھی ، اور محنت ہی چکنائیوں کا خرچ بھی ہے ۔
بھوک کے متعلق کہانیاں ہیں ، بھوک کا ایک فلسفہ ہے ، بھوک پر لکھنے والوں کی پر اثر تحاریر سے  دینا بھر کی زبانوں کے ادب میں بے بہا خزانہ اکٹھا ہے ۔
ہمارے یہاں ایسی بھوک تو نہیں تھی کہ جیسی  کہ “ہند “ پر حملہ آور ہونے والی اقوام میں تھی
لیکن ایسی بہتات بھی نہیں تھی کہ لوگوں پر چربی کی تہیں چڑہی ہوئی ہوں ۔
دینا بھر کے معاشروں میں خوراک کے لئے جد و جہد کرنے کی کہانیاں ہیں ۔
لیکن
محققین کے مطابق ۔
اج ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں ۔
اج کا دور ! انسانوں کی معلوم تاریخ میں سے ایسا دور ہے کہ جس میں خوراک کی بہتات ہے ۔
بہتات سی بہتات ! کہ لوگ خوراک کیا کھائیں کے اج خوراک ان کو کھائے جا رہی ہے ۔
پنجابی کے اس محاورے کے مطابق ،۔
بندہ ! روٹی کھاندا اے  ، تے بہتی روٹی بندے نوں کھان لگدی اے۔
زمین پر انسانوں کی بڑہتی ہوئی ابادی کے متعلق اور اس بڑہتی ہوئی ابادی سے پیدا ہونے والے خوراک کے بحران کی باتیں کرنے والے بھی بہت ہیں ۔
لیکن جن لوگوں نے اس بات کے مشاہدے کو یاد رکھا ہے کہ اج سے چالیس سال پہلے ان کے گھروں میں کھانے پینے کی مقدار اور اج کے زمانے میں مقدار  کا کیا فرق ہے
وہ لوگ جانتے ہیں کہ
پچھلے پچاس سالوں میں زمین پر رزق کی بہتات ہوئی ہے ۔
پاکستان میں ، مہنگائی کا واویلا کر کے “ باہر” سے پیسے منگوانے والے بچوں کی بات چھوڑیں ۔ “ اباجی” لوگوں سے پوچھ لیں کہ
گوشت کا سالن ، کس تسلسل سے پکتا تھا ۔
خشک میووں کے نام پر “مونگ پھل” کے علاوہ کیا ہوتا تھا ؟
پھر دیکھتے ہیں دیکھتے ! کمائی “باہر “ کی تھی کہ”اندر” کروانے والی تھی یا کہ “عام “ سی تھی ْ۔
رزق کی بہتات سبھی نے دیکھی ہے ۔
انسانیت کی معلوم تاریخ میں رزق کی اس بہتات میں کھادوں کا ہاتھ ہے
جو زمیں کو دی جاتی ہیں
اور جو گوشت کو دی جاتی ہیں ۔
کھاد
جو گوشت کو دی جاتی ہے ۔
پاؤل سے گال !! ایک سائینسدان تھا ، جو کہ جانوروں کی سائینس “ذووالوجی “ کا ماہر تھا ۔ امریکہ کی ریاست ورجینیا کے رہنے والے اس سائینس دان نے 1957ء میں برائلر چکن تیار کیا تھا ۔
اسی نے مالیکیولوں کا ایسا علاماتی چارٹ تیار کیا تھا ، جس نے ایک عام سے پرندے کو فارمی جانور بنا دیا ۔
اسی کی تحقیق سے یہ ممکن ہو سکا کہ پیدا ہونے سے لے کر “گوشت” کی عمر تک پہنچے کے لئے جس پرندے کو چھ ماہ لگتے تھے اب وہی پرندہ چھ ہفتے میں تیار ہوجاتا ہے اور اس کا وزن یعنی کہ گوشت کی مقدار بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
فارمی مرغی کی ہسٹری کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے
اس کو دینا میں آئے ہوئے ابھی آدھی صدی ہی ہوئی ہے
اس کو تیار  کرنے میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ گوشت جلد سے جلد تیار ہو کر مارکیٹ میں پہنچایا جا سکے ۔
اور میں دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے پچیس سال میں انسانوں میں بھی گوشت کی بڑہوتی کی سپیڈ کو ایکسیلیٹر لگا ہوا ہے ۔
بڑھے ہوئے پیٹ ، فارمی مرغی کی طرح کے ملائم ملائم مسل !۔
انسانی تاریخ میں فلک نے شائد پہلی بار  دیکھے ہوں گے۔
فارمی سوروں اور فارمی  مرغیوں کی  خوراک میں جو ایکسیلیٹر ان کے گوشت کو بڑہانے کے لئے لگایا گیا ہے ۔
وہ ایکسیلیٹر ! اب اس گوشت کو کھانے والے انسانی جسموں تک پہنچ چکا ہے ۔
گوشت بڑھانے کے اس ایکسیلیٹر کی کارگردگی  کی سب سے عمدہ مثال امریکہ اور پاکستانی معاشرہ ہے ۔
جہاں فارمی مرغیوں کی طرح  ملایم ملائم اور پھولے ہوئے مسلوں والے انسان نما گھوم رہے ہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts