پولن الرجی
پولن الرجی
میں اپ کو اس الرجی کا " حل " بتاتا ہوں ، میں نے حل لکھا ہے علاج نہیں ، کیونکہ جو میں بتانے جا رہا ہوں ، وہ دوائی نہیں ہے ،۔
پولن الرجی کسی ایک ہی درخت کے بیچوں سے نہیں ہوتی بلکہ کئی درخت ہیں جن کے بیج الرجی کا باعث بنتے ہیں ، جاپان میں بھی کچھ دہائیاں پہلے کچھ ٖغیر جاپانی درخت لگائے گئے تھے ، جو کہ فروری کے آخر سے مئی کے شروع تک عذاب بن جاتے ہیں ،۔
مجھے بھی کچھ سال پہلے یہ الرجی ہو گئی تھی، ناک بند ہو جاتا ہے ، آنکھوں میں خارش ہوتی ہے ، جاپان اس الرجی کی دوائی بھی بنا چکا ہے ، جو کہ ہر روز لینی ہوتی ہے دن میں دو بار ، کچھ ایک بار کی بھی ہوتی ہیں ،۔
کچھ داوائیاں ایسی بھی ہیں کہ ایک بار لینے سے بھی چوبیس گھنٹے نکل جاتے ہیں ، ان دائیوں سے نیند آتی ہے اور بندہ " وظیفہ زوجیت " ادا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے ۔
مختصر یہ کہ یہ بیماری لاعلاج ہے ، کہ اگر ایک دفعہ لگ گئی تو ساری زندگی اس کے ساتھ جڑی احتیاطوں کے گزارا کرنا ہے ، ہر روز دوائی لینا بھی ایک احتیاط ہی تو ہے ،۔
مجھے ایک گورا انگریز ڈاکٹر ملا تھا ، یہ ڈاکٹر کوئی اتنا بڑا ڈاکٹر تھا کہ کلینک میں بیٹھ کر مریضوں کو دیکھنے کا بھی وقت نہیں تھا اس کے پاس ، بس ڈاکٹروں کو ڈاکٹری پڑھانے والے اس ڈاکٹر سے میری ایک مندر میں ملاقات ہو گئی ، وہ جاپان سیر کے لئے آیا ہوا تھا اور میں سدا کا آوارہ گرد ، مندر(جاپانی زبان میں جینجا ) میں گھوم رہا تھا ،۔
ڈاکٹر صاحب بڑے دلچسپ اندازگفتگو کے مالک تھے ،۔
گورے کی روایت کے مطابق بات تو موسم سے ہی شروع ہوئی تھی ۔ اور پولن الرجی (کافن شو) تک پہنچی ۔
ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ ہوتا یہ ہے کہ پولن کے بیچ جب ناک میں پہنچتے ہیں تو انسانی جسم کا درجہ حرارت ان کے " پنگرنے " (پنجابی کا لفظ استعمال کرنے پر معذرت کہ مجھے اردو میں کوریکٹ لفظ نہیں مل رہا غالباً نشو نما ) کے لئے انتہائی معقول ہوتا ہے اس لئے کہ یہ بیچ اپنا اوپری کور پھاڑ کر نکلتے ہیں ، جس سے انسانی جسم کو الرجی ہوتی ہے ، اگر بیج نہ پھوٹے تو الرجی بھی نہیں ہو گی بس ناک سے داخل ہو کر معدے میں چلا جائے گا ، یا کہ انکھ میں داخل ہو کر گیڈ بن کر نکل جائے گا ، ،۔
میں نے بات کاٹ کر سوال جڑ دیا کہ اب کیا جادو کیا جائے یا کہ کس بابے سے حکم جاری کروایا جائے کہ بیج اپنی جبلت بدل کر پھوٹنے سے باز آ جائے ،۔
ڈاکٹر صاحب مسکرا کر کہتے ہیں ، بیج کو چکنا کر دو ، جس بیگ کو گریس لگ جائے وھ پیچ بنپتا نہیں ہے ،۔
اب مسکرانے کی میری باری تھی ، کہ جی بگلے کے سر پر موم بتی جلانے والی بات کر دی ،۔
ہواؤں میں تیل بکھیرنا تو ناممکن ہے ،۔
ڈاکٹر صاحب گریٹ انسان تھے ، مذاق بھی سمجھتے تھے ، ہنس کر کہنے لگے ،۔
بیسن کے اور لگے آئینے کے پاس شیلفوں میں ہر گھر میں ایک چھوٹی سی ڈبی پڑی ہوتی ہے ، واسلین کی ، ، تمہارے گھر میں بھی پڑی ہے ناں ؟
وہاں پنجاب والے گھر میں تو اس چیز کا تصور ہی نہیں تھا کہ بیسن ہو آئینہ ہو واسلین ہو ،۔
ایک لمحے کے لئے اپنے گھر کا نقشہ اپنے ذہن میں گھوم گیا ، پسار ، پچھلا کمرہ ویہڑا ، نلکا اور کھرا ، کھڑکیوں کی چوکھاٹ پر پڑے ہوئی سرسوں کے تیل کی شیشی !،۔
لیکن جاپان میں میرے گھر میں بلکل ایسا ہی تھا جیسا نقشہ ڈاکٹر صاحب نے کھینچا تھا ۔
اس لئے میں کہا جی واسلین تو ہے ۔
کہنے لگے واسلین کو انگلی پر لگا کر آنکھ کے پیوٹوں پر اور ناک میں جہاں تک انگل جائے وہاں تک واسلین سے چکنا کر دو ، یہ واسلین ہر ہر بیج کو چکنا کر دیا کرئے گی ۔ْ
چکنا کرنے سے میرے ذہن میں کھڑکی کی چوکھاٹ پر بڑی سرسوں کے تیل کی شیشی ہی اٹکی رہی ، لیکن جہاں جاپان میں سرسوں کا تیل حاصل کرنا مشکل کام ہے ۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن ایک دلچسپ گفتگو سمجھ کر دوائی کے ساتھ ساتھ واسلین (جو کہ جاپان میں اسانی سے مل جاتی ہے ) کا بھی استعمال کر کے دیکھا ، مجھے کچھ مختلف محسوس ہوا ، اگلے دن میں نے دوائی لئے بغیر صرف واسلین سے کام لینے کا سوچ کر دوائی نہیں لی ، بغیر دوائی لئے سارا دن بغیر ناک بند ہوئے گزر گیا ۔
اس دن سے میں نے دوائی لینی بند کی ہے
ناک بہتی ہے ، جو کہ سردویں کا معمول سمجھ کر جیب میں رومال رکھا ہے ،۔
یقین کریں کہ پچھلے تین سال سے میں دوائی لئے بغیر صرف واسلین سے کام چلا رہا ہوں ،۔
ناک بند ہو کر سانس لینے میں جو تکلیف ہوتی تھی اس سے بچ گیا ہوں ،۔
واسلین بہرحال مجھے صبح شام لگانئ پڑتی ہے ، اور پولن کی بہتات کے دنوں میں ، دن کے وقت ناک کا مسح کر کے بھی دو تین دفعہ لگانی پڑتی ہے ،۔
اپ بھی ایک دفعہ ٹرائی کر کے دیکھ لیں اگر فرق نہ پڑا تو ، ایک کملے بندے کی بونگی سمجھ کر معاف کردیں ۔ْ
اگر واسلین نہیں ہے تو کوئی بھی کھانے کا تیل سرسوں بنولہ یا دیسی اور ڈالڈا گھی بھی ٹرائی کر کے دیکھ لیں ،۔
خاور کھوکھر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں