بابا نانک
بابر بہ عیش کوش
کہ عالم دوبارہ نیست
مغلوں کے جد امجد بابر کو بھی علم تھا کہ ایک اور زندگی سوٹ کیس میں نہیں رکھی ہوئی اس لئے اسی زندگی سے عیش کرنی ہے
لیکن
اسنے ظلم کو عیش سمجھا تھا
اور
پنجابی کا ایک شعر ہے کہ کر کے ظلم عروج تے اون والے
اینی گل دا زرا خیال رکھیں
اوچی ہوا وچ جا کے پاٹ جاندے ، جنہاں گڈیاں نوں کھلی ڈور ملے ،۔
ابراہیم لودی کے اسلام کو کینسل کر کے اپنا اصلی اور پستے بادام والا اسلام لے کر بابر جب کابل سے چلا تھا تو ۔
پنجاب کے عظیم درویش بابا جی نانک نے اسکو سوروں کی بارات کہا تھا ،
تگانے دا منگدا دان وے لالو
اے کیڑا پرداھان وے لالو
بابر کی چڑھتل تھی ، اقبال تھا ، کہ ظالم نے بابے نانک کو پکڑ کر چکی پیسے پر لگا دیا ،۔
نانک ایک شخصیت کا نام نہیں تھا ، ناناک ایک روح کا نام ہے ، ایک نیکی کا نام ہے ناناک ایک برکت کا نام ہے ، جو مرتی نہیں ہے ، ۔
اور ظلم خلاف چلتی رہتی ہے ،۔
بابے کے ایک داس مان سنگھ نے بابر کی نسل کے اخری شاھ ظفر کو ہتھکڑی لگا کر انت کر دیا تھا ، مان سنگھ گوجرانوالہ کے قصبے منڈیالہ کا ایک سکھ تھا جو میجر ہڈسن کے ساتھ گیا تھا بہادر شاھ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون بھیجنے کے لئے ،۔
بابا جی ناناک بھی کوئی دور کے نیں تھے یہی تلونڈی کے تھے جس کو اج ننکانہ صاحب کہتے ہیں ،۔
وسدا رہے پنجاب
کہ ڈاکٹر منظور اعجاز صاحب نے قادر یار کے قصہ پورن بھگت کو بھی پنجاب کا قصہ کہا ہے کہ پورن (پنجاب)کو کنوئیں سے نکال کر ہاتھ پاؤں دینے والا جوگی کوئی اور نہیں تھا بلکہ بابا جی نانک درویش تھے ،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں