سرطان یعنی کینسر کا علاج اور اوپدیو
جاپان جہان ہر دوسرا شہری سرطان کے خطرے سے دو چار ہے
یہاں ، سرطان کی دوا دریافت ہو چکی ہے ،۔ کوئی ایک فیصد لوگ بلکل شفا یاب ہو جاتے ہیں اور باقی کو بھی خاصی شفا ہوتی ہے ،۔ یہ دوائی ابھی نئی ہے ، مارکیٹ میں دوہزار دس کہ بارہ میں آئی تھی ، چار سال میں اس کی کوالٹی کا ڈیٹا بن رہا ،۔
انے والے دنوں میں آپ اس کے متعلق سننے لگیں گے
اوپدیو (http://www.opdivo.com/) نامی یہ دوا خاصی زیادہ مہنگی ہے ،۔
کوئی چھتیس لاکھ ین سالانہ کا خرچا ہے۔
جاپان جہاں کہ بیماری کا ستر فیصد خرچا انشورنس کور کرتی ہے ،۔
یہان ڈاکٹر دوائی لکھ کر دیتے ہوئے اس بات کا بلکل بھی خیال نہیں کرتے کہ دوائی کی قیمت کیا ہے
بلکہ ڈاکٹر صاحباں کو دوائی کی قیمت علم بھی کم ہی ہوتا ہے ،۔
ڈاکٹر کا متمٰنی نظر مریض کا علاج ہوتا ہے نہ کہ مریض کی جیب کی حفاظت ،۔
جاپان میں دانش ور اس بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ سرطان کی علاج کو کیسے سستا کیا جاسکے ،۔
اوپدیو (opdivo) نامی دوا ایک بہت بڑی دریافت تھی ، اس دوا کی تحقیق پر کوئی 100,000,000,000 ین کی رقم خرچ ہوئی تھی ،۔
دوائی بنانے والی کمپنی کے منافع کے لئے حکومت نے اوپدیو نامی دوا پر 27 فیصد تک کا منافع رکھنے کی اجازت دے دی تھی ،۔
جو کہ رائج اصول کی شرٖح سے دس فئصد زیادہ ہے م،۔
رائج اصول میں منافع کی شرح 17 فیصد ہے ،۔
جاپان جو کہ داوائیوں کی تحقیق اور تکنیک میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر کا ملک ہے ،۔
یہاں سرطان کی دوا اس حد تک مہنگی ہے کہ ، قوت خرید رکھنے والی جاپانی معیشت بھی اس دوا کی مہنگائی سے پریشان ہے ،۔
جاپان سے باہر کے ممالک جو کہ اس دوا کو ایمپورٹ کر کے اپنے شہریوں کے علاج کا پروگرام رکھتے ہیں ،۔
ان کو مہنگی دوا کی قیمت کے علاوہ ٹرانسپوٹ کا کرایہ اور کسٹم ٹیکس اور دیگر ٹیکس ادا کر نے کے بعد یہ دوائی اور بھی مہنگی کر کے علاج کے لئے مہیا کرنی پڑے گی ۔
سرطان ایک ایسی بیماری ہے کہ جس ہر کوئی دو اثر نہیں کرتی تھی ، ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی کوئی دوا یا بیکٹریا ، یا کہ کوئی بھی ایسی چیز کو سرطان کے خلاف ہوتی تھی اس کے نزدیک آنے پر سرطان خود کو سمیٹ کر سخت کر لیتا تھا ،۔
اوپدیو میں یہ کوالٹی ہے کہ یہ سرطان کے خلیون میں داخل ہو کر جسم کے مدافعتی نظام کو سرطان کے خلاف فعال کر دیتی ہے ،۔
اس لئے اب یہ ممکن ہو سکا ہے کہ سرطان پر قابو پایا جا سکے ،۔
یہاں ، سرطان کی دوا دریافت ہو چکی ہے ،۔ کوئی ایک فیصد لوگ بلکل شفا یاب ہو جاتے ہیں اور باقی کو بھی خاصی شفا ہوتی ہے ،۔ یہ دوائی ابھی نئی ہے ، مارکیٹ میں دوہزار دس کہ بارہ میں آئی تھی ، چار سال میں اس کی کوالٹی کا ڈیٹا بن رہا ،۔
انے والے دنوں میں آپ اس کے متعلق سننے لگیں گے
اوپدیو (http://www.opdivo.com/) نامی یہ دوا خاصی زیادہ مہنگی ہے ،۔
کوئی چھتیس لاکھ ین سالانہ کا خرچا ہے۔
جاپان جہاں کہ بیماری کا ستر فیصد خرچا انشورنس کور کرتی ہے ،۔
یہان ڈاکٹر دوائی لکھ کر دیتے ہوئے اس بات کا بلکل بھی خیال نہیں کرتے کہ دوائی کی قیمت کیا ہے
بلکہ ڈاکٹر صاحباں کو دوائی کی قیمت علم بھی کم ہی ہوتا ہے ،۔
ڈاکٹر کا متمٰنی نظر مریض کا علاج ہوتا ہے نہ کہ مریض کی جیب کی حفاظت ،۔
جاپان میں دانش ور اس بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ سرطان کی علاج کو کیسے سستا کیا جاسکے ،۔
اوپدیو (opdivo) نامی دوا ایک بہت بڑی دریافت تھی ، اس دوا کی تحقیق پر کوئی 100,000,000,000 ین کی رقم خرچ ہوئی تھی ،۔
دوائی بنانے والی کمپنی کے منافع کے لئے حکومت نے اوپدیو نامی دوا پر 27 فیصد تک کا منافع رکھنے کی اجازت دے دی تھی ،۔
جو کہ رائج اصول کی شرٖح سے دس فئصد زیادہ ہے م،۔
رائج اصول میں منافع کی شرح 17 فیصد ہے ،۔
جاپان جو کہ داوائیوں کی تحقیق اور تکنیک میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر کا ملک ہے ،۔
یہاں سرطان کی دوا اس حد تک مہنگی ہے کہ ، قوت خرید رکھنے والی جاپانی معیشت بھی اس دوا کی مہنگائی سے پریشان ہے ،۔
جاپان سے باہر کے ممالک جو کہ اس دوا کو ایمپورٹ کر کے اپنے شہریوں کے علاج کا پروگرام رکھتے ہیں ،۔
ان کو مہنگی دوا کی قیمت کے علاوہ ٹرانسپوٹ کا کرایہ اور کسٹم ٹیکس اور دیگر ٹیکس ادا کر نے کے بعد یہ دوائی اور بھی مہنگی کر کے علاج کے لئے مہیا کرنی پڑے گی ۔
سرطان ایک ایسی بیماری ہے کہ جس ہر کوئی دو اثر نہیں کرتی تھی ، ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی کوئی دوا یا بیکٹریا ، یا کہ کوئی بھی ایسی چیز کو سرطان کے خلاف ہوتی تھی اس کے نزدیک آنے پر سرطان خود کو سمیٹ کر سخت کر لیتا تھا ،۔
اوپدیو میں یہ کوالٹی ہے کہ یہ سرطان کے خلیون میں داخل ہو کر جسم کے مدافعتی نظام کو سرطان کے خلاف فعال کر دیتی ہے ،۔
اس لئے اب یہ ممکن ہو سکا ہے کہ سرطان پر قابو پایا جا سکے ،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں