ہمارے گاؤں کے مرزائی
جذباتی لوگوں سے معذرت کے ساتھ کہ
میں مرزائی نہیں ہوں ، بلکہ مرزائیوں سے سخت نظریاتی اختلاف رکھتا ہوں
ہمارے بچپن میں ، گاؤں میں بہت سے گھر مرزایئوں کے تھے
جو کہ اب بھی ہیں
ان میں سے کچھ گھروں کو مرزائی کہ کر بلایا جاتا تھا
اور یہ لوگ خود کو احمدی کہتے تھے
اور ان کے خط وغیرہ جو آتے تھے ان پر بھی احمدی لکھا ہوتا تھا
ان احمدی لوگوں میں سے کوئی بھی گھر بے وقعت نہیں تھا
سبھی لوگ ہمارے لیے معتبر اور معزز تھے
ہم لوگ ان کے ساتھ کام ، کاروبار کرتے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ دوستیاں تھیں تعلقات تھے
جس طرح گاؤں میں دوسری مساجد تھیں
کمہاراں والی مسیت ، بیر والی مسیت اونچی مسیت بڑی مسیت
اس طرح مرزایوں کی مسیت تھی ،
لیکن یہ نہیں تھا کہ مرزائی صرف مرزایوں کی ہی مسیت میں جائیں گے
ہوتا یہ تھا کہ ، جس کو جس نماز میں جو مسیت نزدیک پڑے وہ وہیں نماز پڑہ لیتا تھا
ہم سب لوگ مل جل کر رہتے تھے ، دلوں میں پیار تھا
گاؤں کے چوہدری بھی مرزایت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے،
لیکن اس جھکاؤ کا اظہار ان کے رویے کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا
بس یہ کہ برادری میں سے احمدی گھرانوں سے میل ملاپ زیادہ تھا
ہنر مند طبقے کے مفادات ان سے منسلک تھے
ان کی زمینوں پر کام کرنا
ان کے گھروں سے اناج کا حصول اور دیگر معاشرتی کام کہ احمدیوں میں چیمہ فیملی اور وڑائیچ لوگ معاشرتی طور پر خاصے مضبوط اور معتبر لوگ تھے
پھر لوہاروں کے کچھ گھر تھے
جو اپنی جگہ مضبوط کاروباری اور انتہائی ملنسار خاندان تھا
چیمہ مرزائی خاندان افرادی طور ہر مضبوط ہونے کی وجہ سے ، کئی لڑائیوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا
لیکن ان میں کوئی لڑائی ان کے مسلک کی وجہ سے نہیں تھی
زمین کے اختلافات اور دیگر باتیں تھین جن میں اس خاندان کے کئی قتل بھی ہوئے
بابا رحمت مرازئی تھا، ہمارے گاؤں اور اس کے نزدیک کے دیہات تک کے لوگ پٹھا چڑہنے پر یا ہڈی ٹوٹنے پر بابے سے مساج کروانے اتے تھے۔
بابا رحمت ان لوگوں سے اس بات کا کوئی عوضانہ نہیں لیتا تھا
بلکہ بابا ایک جاٹ چیمہ چوہدری ہونے کے ناطے دور سے انے والوں کے کھانے پانی کا بھی ذمہ دار ہوتا تھا
پھوپھی سکینہ تھی !!
ایک انتہائی معزز عورت ۔ میں نے خود کئی دفعہ دیکھا ہے پھوپھی کی فراخ دلی کہ غریب گھروں کی عورتوں کو گندم دیتے ہوئے،
پھوپھی کے سات بیٹے تھے ، کڑیل جوان ،
جن میں سے دو اکہتر کی جنگ میں شہید ہوئے ، دو گاؤں میں برادری کی لڑیوں میں کام آئے ۔ ایک ٹریکٹر کے حادثے میں فوت ہوا
ایک نے حلیہ بدل لیا ، دنیا چھوڑ دی ، بے کار ہو گیا
اور یہ سب حادثات پھوپھی کی انکھوں کے سامنے ہوئے!
نعیم وڑائیچ ، سلیم وڑائیچ۔ ہمارے بڑے بھایئوں کی طرح تھے ، کہ ان کی عمریں مجھ سے کچھ زیادہ تھیں
آصف ننھا ، میرا بچپن کا دوست جس کے ساتھ میں نے پہلی سے لے کر دسویں تک ایک ہی سیکشن میں تعلیم حاصل کی ہے
کئی دفعہ ایک دوسرے سے اختلاف ہوا
بول چال بند لیکن یہ اختلاف کبھی بھی مذہبی نہیں تھا
پھر ایک دن یہ ہوا کہ جی
حکومت نے اس لوگوں کو اقلیت ڈکلئیر کر دیا
ہر طرف باتیں ہونے لگیں کہ جی مرازئی تو جی اب حکومتی فیصلے میں نیچ قرار دیے گئے ہیں
اب یہ لوگ عسائیوں کی طرح ٹریٹ کیے جائیں گے
لیکن مجھے اس بات کا اعتبار ہی نہیں اتا تھا کہ
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
اج کے معتبر اور شریف لوگ کیسے ایک دم سے رذیل ہو جائیں گے؟
لیکن اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ عیسائی بھی کیوں نیچ ہیں ؟
پھر ہم نے دیکھا کہ ۔ جس کو مخالفت کے لیے کوئی ناں ملا اس نے مرزائیوں سے مخالفت شروع کر دی
جس کو بہادری کا شوق چڑہا اس نے مرزائیوں پر چڑہائی کردی
جس کو اپنے اسلام کی دھاک بٹھانے کی سوجی اس نے مرزائیوں کو اگے رکھ لیا
اور پاکستان میں اس سوچ کو تو قتل ہی کردیا گیا کہ اپنی بھی غلطی ہوسکتی ہے
اس سوچ کی موت ہے کہ اج سبھی لوگ دوسروں کو غلط سمجھ کر سمجھا رہے ہیں
سبھی پاکستانیوں کو دوسروں کا اسلام غلط لگ رہا ہے
اج کے پاکستان میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کا دعوی ہے
اور پاکستانیوں سے نفرت !!
پاکستان میں بسنے والے ہندو ، عیسائی، مرزائی یا دیگر لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں ، جتنے کہ
آپ یا میں !!
کیا پاکستان میں وطنیت کا احساس ہی مر گیا ہے ؟
کیا پاکستان میں انسان کی جان کی وقعت ہی نہیں رہی ہے؟
میں مرزائیت کے نظرئے سے صرف اختلاف ہی نہیں رکھتا
بلکہ
ان کے نظریات سے نفرت کرتا ہوں
اور مرزائیت کے بعد بھی اسی نظرئے کی حامل دوسری پارٹیوں سے بھی نفرت کرتا ہوں
لیکن
اس بات پر ان کے پاکستانی ہونے سے ہی انکار نہیں کرسکتا
کسی بحث میں مرزایوں کی شکست پر مجھے بھی دلی خوشی ہوتی ہے
لیکن
کسی بھی پاکستانی کے قتل پر دکھ ہوتا ہے
مقتول پاکستانی کسی بھی رنگ نسل ، مسلک ، یا علاقے کا ہو!!!
میں مرزائی نہیں ہوں ، بلکہ مرزائیوں سے سخت نظریاتی اختلاف رکھتا ہوں
ہمارے بچپن میں ، گاؤں میں بہت سے گھر مرزایئوں کے تھے
جو کہ اب بھی ہیں
ان میں سے کچھ گھروں کو مرزائی کہ کر بلایا جاتا تھا
اور یہ لوگ خود کو احمدی کہتے تھے
اور ان کے خط وغیرہ جو آتے تھے ان پر بھی احمدی لکھا ہوتا تھا
ان احمدی لوگوں میں سے کوئی بھی گھر بے وقعت نہیں تھا
سبھی لوگ ہمارے لیے معتبر اور معزز تھے
ہم لوگ ان کے ساتھ کام ، کاروبار کرتے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ دوستیاں تھیں تعلقات تھے
جس طرح گاؤں میں دوسری مساجد تھیں
کمہاراں والی مسیت ، بیر والی مسیت اونچی مسیت بڑی مسیت
اس طرح مرزایوں کی مسیت تھی ،
لیکن یہ نہیں تھا کہ مرزائی صرف مرزایوں کی ہی مسیت میں جائیں گے
ہوتا یہ تھا کہ ، جس کو جس نماز میں جو مسیت نزدیک پڑے وہ وہیں نماز پڑہ لیتا تھا
ہم سب لوگ مل جل کر رہتے تھے ، دلوں میں پیار تھا
گاؤں کے چوہدری بھی مرزایت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے،
لیکن اس جھکاؤ کا اظہار ان کے رویے کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا
بس یہ کہ برادری میں سے احمدی گھرانوں سے میل ملاپ زیادہ تھا
ہنر مند طبقے کے مفادات ان سے منسلک تھے
ان کی زمینوں پر کام کرنا
ان کے گھروں سے اناج کا حصول اور دیگر معاشرتی کام کہ احمدیوں میں چیمہ فیملی اور وڑائیچ لوگ معاشرتی طور پر خاصے مضبوط اور معتبر لوگ تھے
پھر لوہاروں کے کچھ گھر تھے
جو اپنی جگہ مضبوط کاروباری اور انتہائی ملنسار خاندان تھا
چیمہ مرزائی خاندان افرادی طور ہر مضبوط ہونے کی وجہ سے ، کئی لڑائیوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا
لیکن ان میں کوئی لڑائی ان کے مسلک کی وجہ سے نہیں تھی
زمین کے اختلافات اور دیگر باتیں تھین جن میں اس خاندان کے کئی قتل بھی ہوئے
بابا رحمت مرازئی تھا، ہمارے گاؤں اور اس کے نزدیک کے دیہات تک کے لوگ پٹھا چڑہنے پر یا ہڈی ٹوٹنے پر بابے سے مساج کروانے اتے تھے۔
بابا رحمت ان لوگوں سے اس بات کا کوئی عوضانہ نہیں لیتا تھا
بلکہ بابا ایک جاٹ چیمہ چوہدری ہونے کے ناطے دور سے انے والوں کے کھانے پانی کا بھی ذمہ دار ہوتا تھا
پھوپھی سکینہ تھی !!
ایک انتہائی معزز عورت ۔ میں نے خود کئی دفعہ دیکھا ہے پھوپھی کی فراخ دلی کہ غریب گھروں کی عورتوں کو گندم دیتے ہوئے،
پھوپھی کے سات بیٹے تھے ، کڑیل جوان ،
جن میں سے دو اکہتر کی جنگ میں شہید ہوئے ، دو گاؤں میں برادری کی لڑیوں میں کام آئے ۔ ایک ٹریکٹر کے حادثے میں فوت ہوا
ایک نے حلیہ بدل لیا ، دنیا چھوڑ دی ، بے کار ہو گیا
اور یہ سب حادثات پھوپھی کی انکھوں کے سامنے ہوئے!
نعیم وڑائیچ ، سلیم وڑائیچ۔ ہمارے بڑے بھایئوں کی طرح تھے ، کہ ان کی عمریں مجھ سے کچھ زیادہ تھیں
آصف ننھا ، میرا بچپن کا دوست جس کے ساتھ میں نے پہلی سے لے کر دسویں تک ایک ہی سیکشن میں تعلیم حاصل کی ہے
کئی دفعہ ایک دوسرے سے اختلاف ہوا
بول چال بند لیکن یہ اختلاف کبھی بھی مذہبی نہیں تھا
پھر ایک دن یہ ہوا کہ جی
حکومت نے اس لوگوں کو اقلیت ڈکلئیر کر دیا
ہر طرف باتیں ہونے لگیں کہ جی مرازئی تو جی اب حکومتی فیصلے میں نیچ قرار دیے گئے ہیں
اب یہ لوگ عسائیوں کی طرح ٹریٹ کیے جائیں گے
لیکن مجھے اس بات کا اعتبار ہی نہیں اتا تھا کہ
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
اج کے معتبر اور شریف لوگ کیسے ایک دم سے رذیل ہو جائیں گے؟
لیکن اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ عیسائی بھی کیوں نیچ ہیں ؟
پھر ہم نے دیکھا کہ ۔ جس کو مخالفت کے لیے کوئی ناں ملا اس نے مرزائیوں سے مخالفت شروع کر دی
جس کو بہادری کا شوق چڑہا اس نے مرزائیوں پر چڑہائی کردی
جس کو اپنے اسلام کی دھاک بٹھانے کی سوجی اس نے مرزائیوں کو اگے رکھ لیا
اور پاکستان میں اس سوچ کو تو قتل ہی کردیا گیا کہ اپنی بھی غلطی ہوسکتی ہے
اس سوچ کی موت ہے کہ اج سبھی لوگ دوسروں کو غلط سمجھ کر سمجھا رہے ہیں
سبھی پاکستانیوں کو دوسروں کا اسلام غلط لگ رہا ہے
اج کے پاکستان میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کا دعوی ہے
اور پاکستانیوں سے نفرت !!
پاکستان میں بسنے والے ہندو ، عیسائی، مرزائی یا دیگر لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں ، جتنے کہ
آپ یا میں !!
کیا پاکستان میں وطنیت کا احساس ہی مر گیا ہے ؟
کیا پاکستان میں انسان کی جان کی وقعت ہی نہیں رہی ہے؟
میں مرزائیت کے نظرئے سے صرف اختلاف ہی نہیں رکھتا
بلکہ
ان کے نظریات سے نفرت کرتا ہوں
اور مرزائیت کے بعد بھی اسی نظرئے کی حامل دوسری پارٹیوں سے بھی نفرت کرتا ہوں
لیکن
اس بات پر ان کے پاکستانی ہونے سے ہی انکار نہیں کرسکتا
کسی بحث میں مرزایوں کی شکست پر مجھے بھی دلی خوشی ہوتی ہے
لیکن
کسی بھی پاکستانی کے قتل پر دکھ ہوتا ہے
مقتول پاکستانی کسی بھی رنگ نسل ، مسلک ، یا علاقے کا ہو!!!
10 تبصرے:
بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ سنا ہے انہی چیموں نے مرزائیوں کے کافر قرار دیے جانے پر اپنے گھر کی حفاظت کیلیے باڈی گارڈ رکھ لیے تھے جو چھتوں پر چوبیس گھنٹے پہرا دیتے تھے۔
لیکن جب انہوں نے دیکھا اب گزارہ مشکل ہے تو وہ سیاسی چال چلتے ہوئے شیعہ بن گئے۔
جناب افضل صاحب
مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کے زمانے میں ابھی ملک حالات اج جیسے غیر محفوظ نہیں تھے
کہ محافظ کھڑے کیے جاتے
اور دوسری بات کہ ہم نے بہت سے مرزائیوں کو تائب ہوتے بھی دیکھا ہے
تائب ہونے والے بھی اور مرزائی بھی کبھی شیعہ نہیں ہوتے
یہ لوگ ہر دو حالات میں خود کو اہلسنت الجماعت ہونے کا دعوہ کرتے ہیں ۔
ديوبندی بھی کم نہيں، بڑے منافق لوگ ہيں
http://www.youtube.com/watch?v=Nfde2WGvf3w
مذہبی تفرقہ بازی کامیں بھی سخت مخالف ہوں
مذہب انسانوں کے قلبی سکوں کیلئے ہوتا ہے۔
مذہب ہمیں اچھی معاشرت کرنا سکھاتا ہے۔
مذہب کی تعلیمات اختیار کرکے ہم اپنی چند روزہ زندگی اچھے طریقے سے گذارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کی ساری یادوں اور باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن جناب نظریئے اور عقیدے کے اختلاف میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ہم جاپان میں جاپانیوں کے ساتھ پاکستانیوں کی نسبت زیادہ اچھے طریقے اور پیار و محبت سے رہ رہے ہیں۔
لیکن ایک بت پرست کے ساتھ ہمارا نظریاتی اختلاف نہیں عقیدے کا اختلاف ہے۔
اسی طرح میرا قادیانیوں سے عقیدہ کا اختلاف ہے نظریات کا نہیں ۔۔عقیدہ غلو سے باطل ہو جاتا ہے۔
بالکل ٹھیک کہا لیکن ایسی باتیں پاکستان سے باہر ہی کی جا سکتی ہیں ورنہ آپ بھی مرزائی۔
عجیب پاغل قوم ہیں ہم
ہت لمبا موضوع ہے ۔ مختصراً عرض کرونگا ۔
یہ درست ہے کہ قتل غارت کسی بھی بنی نوح انسان کی درست نہین ہوتی۔ مگر مرزائیوں پہ بھی کچھ پابندیاں ہونی چاہئیں کہ وہ یوں سرعام مسلمانوں کے جزبات کو برہم کرنے کے لئیے ہر وقت شرارت پہ آمادہ نہ ہوا کریں۔ اگر کسی کو یقین نہیں۔ تو انکا مواد اور انکے مذھبی رہنماؤں کے خطابات و بیانات عبادت خانوں میں مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اشتعال پڑھ لیں۔ سُن لیں۔ تو شاید بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔
یوں تو پاکستان میں بہت سی اقلیتیں بستی ہیں۔ ہندؤ ۔ نصرانی۔ سکھ ۔ پارسی اور دیگر کچھ معدودئے چند اقلیتیں ۔ اور مرزائی ۔ قادیانی ۔لاہوری گروپ۔ یعنی مرزا ملعون کے پیروکار جو اپنے آپ کو "احمدی" کہلواتے ہیں۔ یہ اقلیت بھی پاکستان میں بستی ہے۔
مرزائی مسلمانوں کے بنیادی عقیدے پہ نہ صرف اوچھا وار کرتے ہوئے نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ۔ جو کہ نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے ۔ جس وجہ سے مرزائی شاتم رسول( صلٰی اللہ علیہ وسلم )بھی ہیں۔ اور دیدہ دانستہ نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی کرتے ہوئےہ مرزا غلام احمد ملعون کو نبی بیان کرتے ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ انکی کتب دیکھ لے۔
مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے انھیں صفائی دینے کے لئیے باقاعدہ ہر قسم کا موقع دیا گیا ۔ انھیں دنوں کے حساب سے سُنا گیا ۔ انھیں ہر قسم کا موقع دیا گیا کہ وہ کفر سے تائب ہو کر اسلام قبول کر لیں ۔ اور اسکے بعد انہیں کافر قرار دیا گیا۔
نیز پاکستان میں بسنے والی دیگر اقلیتیوں کے برعکس ۔ مرزائی مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں۔ مثال کے طور ھندؤؤں کے نام مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ سکھوں کے نام مختلف ہیں۔ نصرانی بھی اپنی جدا شناخت کے لئیے مسیح کا لا حقہ لگاتے ہیں۔ اور تقریبا یہ سبھی اقلیتیں کم و بیش عام پاکستانی کی طرح محب وطن ہیں۔ انکے عبادت خانے مندر ۔ گرجا۔ و گرودوارے ہوتے ہیں جہاں یہ سبھی مذاہب اپنے اپنے مذھب کی عبادت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
(گذشتہ سے پیوستہ)
جبکہ مرزائی ، قادیانی جو آپ اپنے آپ کو قادیانی احمدی ۔ لاہوری وغیرہ کہلواتے ہیں۔ یہ اپنے نام مسلمانوں کی طرح رکھتے ہیں۔ اپنی عبادت گاہوں کو مساجد بیان کرتے ہیں۔ دہوکہ دہی سے کام لیتے ہیں۔ مسللمانوں کی مساجد مین نماز پڑھ لیں گے۔ اپنے آپ کو مسلمان بیان کریں گے اور سادہ لوح مسلمانوں کو دہوکے لالچ اور ہوس کا شکار کرتے ہوئے اپنے کفر کی تبلیغ "اسلام" کہہ کر کریں گے۔ اور کافر کے ساتھ "منافق" کی تمام شرائط پہ پورا اترتے ہیں۔
آجکل یہ دو قدم آگے بڑھ کر اپنے آپ کو "مسلمان" اور مسلمانوں کو کافر کہلوانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اگر مسلمان یونہی انسانی ہمدردی اور فطری رحمدلی سے کام لیتے ہوئے اتنے بڑے سنگین مسئلے سے درگزر کرتے رہے تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب یہ فتنہ نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ باقی ممالک میں بھی شدت سے سر اٹھائے گا۔
تاریخ گواہ ہے۔ اسلام میں تخریف اور نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اتنی بڑی گستاخی ایک مسلمان ریاست میں کبھی نہیں ہوئی۔ آپ تصور کریں اگر یہ فتنہ راسخ عقیدہ کسی اور مسلمان ریاست یا کسی عرب ملک میں ہوا ہوتا تو کب کا اس فتنے کا قلع قمع کیا جا چکا ہوتا۔
اس بات کے ثبوت ہمارے ایجینسیوں کے پاس ہیں کہ پاکستان کے اندر فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئیے مرزائی بیرونی ایجنسیوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والوں کی مساجد پہ منظم حملوں کے پیچھے قادیانی ہیں ۔
پاکستان کی اتیمی تنصیبات پہ کسی چانک سراپرائز حملے ۔ یا پاکستان پہ امریکہ کے کسی بڑے حملہ کی صورت میں پاکستان کے اندر سے لاجسٹک اسپورٹ کے لئیے دیگر کے ساتھ مرزائی بھی شامل ہونگے۔
آپ کا کیا خیال ہے۔ بیرونی حملہ آور قابض انگریز حکمرانوں کی سرپرستی میں ہندوؤستان میں ایک فتنہ جنم لے جو اسلام کے بنیادی عقائد کی ضد ہو اور اسلام کا نام اپنائے ۔ پاکستان بن جائے تو بھارت سے پاکستان میں در آئے۔ جسے پاکستان کی اسمبلی میں متفقہ طور پہ (جس میں ہر طرز فکر کے لوگ اور سیاسی پارٹیاں شامل ہوں) کافر قرار دیا جائے اور وہ فتنہ اسلام کی شناخت ہر صورت اپنانے پہ بضد جبکہ اسلام کی ضد ہو۔ مسلمانوں کو کافر کہے۔ مسلمانوں کے نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے ۔ (جبکہ اسلام میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور منافق کے بارے واضح احکامت بھی ہوں)۔ ایک مسلمان ریاست کے اندر مسلمانوں کو دہوکہ دے۔ قتل و غارت کرے۔ ملک کی جڑیں کاٹے۔ ملک دشمن طاقتوں کے لئیے واضح طور پہ کام کرے۔ تو کیا ایسے کسی فتنے کے لئیے پاکستان جیسے ملک کے عوام جو حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرتے ہوں ۔ وہاں یہ مرزائی فتنہ انگیزی کریں ۔ اور نتیجتاً فساد پیدا ہو ۔ اور اس فساد کو عالمی منڈی میں م مرزائی فتنہ اپنے حق میں خوب کئیش کروائے ۔اور قصور وار بھی مسلمانوں اور پاکستان کو ہی ٹہرایا جائے؟۔
سارے ہی کافر ہيں؛
fatwa, deobandi kafir, brelvi kafir, ahle hadith kafir, wahabi کافر
http://www.youtube.com/watch?v=X01htQUvKcQ
Watch;
http://www.youtube.com/watch?v=c0L7BoHETUI
In sab ko kafir bnany ka kitna jnun ha kabi koe musalmaan b bnaya ha
ایک تبصرہ شائع کریں