منگل، 14 اگست، 2012

کاش میرا وطن ایک ملک ہوتا

میرے وطن کو ملک بنانے کا جھانسہ دے کر
ایک ملک سے ملوکیت بنا دیا گیا
اج اس بات کو پینسٹھ سال ہو گئے
که میرا وطن  ، ملک نهیں هے
جیسا که دنیا کے ممالک هوتے ہیں
نظم ضبط میں بندھے اداروں کے مجموعے کو ایک ملک کہتے ہیں
اور وطن تو جی جنم پوئیں  هوتا ہو ناں جی
جو جہاں پیدا ہوا وه اس کا وطن ٹھرا
رب نے وطن سب کو دیا ہے
هاں ایک بنده گزرا ہے چالرس سوبراج جو دھائیوں تک بے وطن رها لیکن اخر پر اس کو بھی فرانس نے نیشنیلٹی دے هی دی
بے وطن کو وطن بھی اور ملک بھی مل کيا
هم ہیں که سوچتے ہیں که کاش میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
جس ميں ایک اداره انصاف کا هوتا
ایک اداره صحت کا هوتا
ایک اداره روزگار کے انتظام کا هوتا
اسی طرح بہت سے اداروں کے خواب ہیں جی
جو هوتے تو میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
ایک اداره ملکی دفاع کا بھی هوتا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟!!!!
ملکی دفاع؟
ملک ؟
شائد یہیں غلطی لگ گئی تھی جی بابے کو
ملک بنا لیا تھا جی اس نے میرے وطن کو
لیکن اس ميں ایک اداره اس کو بنا بنایا مل گیا جی
ملک دفاع کا
ملک کمزور تھا جی میرا وطن!
لیکن جی وه تھے ناں جی آدم جی ملز والے
انہوں نے جی
ملکی دفاع کے ادارے کو تین مہینے چلانے کا خرچ اور تنخواه دی تھی
پھر جی
چل سو چل
جی ناں آدم جی ملز والے رهے جی
ناں هی میرا وطن میرا ملک رہا
بس جی ایک اداره ہی رہ گیا جی
ملکی دفاع کا
اور میرا وطن ہے جی
لہو لہان
میرے وطن کے سیاستدان بیوقوف اور غداّر گنے گئے
میرے وطن کے  لکھاری غائب هونے لگے
 اور ادارے کی بدنامی کی سازش کے نام پر مسخ شده لاشیں بن کر
آ جاتے ہیں
میرے وطن کے بلوچ مارے جاتے ہیں
میرے وطن کے ہندو ،گندے گنے گئے جی
میرے وطن کے عیسائی چوہڑے گنے گئے جی
میرے وطن کے "کمی" ، کمینے گنے گئے جی
میرے وطن کے مسلمان ؟
ابھی فیصلہ هونا باقی ہے که مسلمان کی ڈیفینیشنز کیا ہیں اور کون مسلمان ہے
اس لیے میرے وطن میں مسلمانوں کا کیا حال ہے
اس بات کا فیصلہ پہلے مسلمان کون ہیں کا فیصله کرنے کے بعد کريں گے
کاش اے کاش
که میرا وطن بھی ایک ملک هوتا
جیسا که ایک ملک جاپان ہے
یا امریکہ ہے
یا چلو جی غریب ہی سہی
سری لنکا ہے
ہندوستان ہے
بنگله دیش ہے
کاش اے کاش
ابادیوں میں دھول اڑ رہی هے
پانی بجلی کے لیے لوگ ترس رہے ہیں
انصاف کے نام پر لارے دئے جارهے هیں
میرا وطن ایسا تو نہیں تھا یارو
ابھی چند دھائیاں پہلے تک !!!!٠

1 تبصرہ:

ارتقاء حیات کہا...

بیت گئے تئیس سال
بیت گئے تئیس سال
گونگا ماضی اندھا حال
اجڑے ہیں پنچھی ٹوٹی ڈال
پھیلے ہیں انجانے جال
عزم سے خالی ہےدستور
جہد و عمل کی منزل دور
شمع قیادت ہے بے نور
گلشن میں پھولوں کا کال
عقل و فراست ہیں بیمار
فکر و نظر وائے بیکار
دیدۂوحشت ہے بیدار
لرزاں ہے ہمت کی ڈھال
بھاری ہیں ہم پر اغیار
بھولے طارق اور ضرار
نغمۂ وحدت سے سرشار
ملت کی عظمت کا سوال
نوٹ:
یہ نظم ساغر صدیقی نے قیام پاکستان کے تئیس سال بعد لکھی تھی۔
ذرا سوچیےکہ آج 65سال بعد بھی کیا حالات میں کچھ بھی بہتری آئی ہے؟

Popular Posts