پیر، 28 مئی، 2018

جاپان کے مہنگے خربوزے



جاپان میں خربوزوں کی ایک نیلامی میں ایک جوڑے کی بولی بتیس لاکھ ین ، جو کہ پاکستانی روپے بھی تقریباً بتیس لاکھ ہی بنتے ہیں تک گئی ہے ،۔
جاپان کے شمالی علاقے یوباری کے خربوزے ایک برانڈ نام کی طرح جانے جاتے ہیں ، جاپان میں یوباری میلون دوستوں کو یا کہ رشتے داروں کو دینے کا رواج عام ہے ،۔
خوبصورت ساخت کے حامل یہ خربوزے اپنے مٹھاس اور خوشبو  میں بھی اپنی مثال آپ ہیں ،۔
عام طور پر ان خربوزوں کا جوڑا دس ہزار سے پندرہ ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہوتا ہے ،۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے کی بولی میں خریدے جانے والے ، اتنے مہنگے خربوزے کون خریدتا ہے اور کون کھاتا ہے ؟
تو اس کے جواب کے لئے اپ کو جاپان کے معاشی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،۔
آپ نے پڑھا اور سنا ہو گا کہ جاپان میں ٹونا مچھلی کی بولی لاکھوں ڈالر تک جا کر فروخت ہوئی ؟
اسی طرح خربوزوں یا کہ کل کلاں کو کسی اور جاپان کی پروڈکٹ کے متعلق بھی کہیں پڑھیں یا سنیں تو 
اس کو سمجھے کے لئے جاپان کے معاشی نظام پر ایک نظر ڈالیں ،۔
جاپان میں کام کاروبار کے لئے ہر فرد اور کمپنی کو اپنے نفع (یا کہ خسارہ ) کا آڈٹ کروانا ہوتا ہے ، یہ آڈٹ ماہانہ ششماہی یا کہ سالانہ بھی ہو سکتا ہے ،۔
اس آڈٹ میں ہونے والی انکم پر ٹیکس کی ادائیگی فرض ہوتی ہے ،جو کہ منافع کی شرح کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے ،۔
اس ٹیکس کی زیادہ ادائیگی کو کم سے کم کرنے کے لئے کمپنیاں اپنے خرچ بڑھا کر دیکھاتی ہیں ،۔
جیسا کہ ایک کروڑ کی انکم پر چالیس فیصد ٹیکس کو اگر دس لاکھ کی امدن پر دس فیصد پر لانے کے لئے کمپنی نوے لاکھ کی رقم کو اپنے کام کرنے والے لوگوں کو بونس کے نام پر رقم دے کر  ورکروں کو خوش کرتی ہے ،۔
یا کہ نئی مشینیں ، اور اوزار خرید کر انکم کی شرح کو کم کر لیتی ہیں ،۔
انکم کو کم کر کے دینے کے اس ٹیکٹ پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، کیونکہ اس طرح رقم ٹیکس میں جانے کی بجائے ڈائریکٹ شہریوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ۔
اور جاپانی حکومت کا یہی کام ہے کہ شہریوں کی سہولت کا سوچے نہ کہ شہریون ٹائیٹ کرنے کی تکنیک پر کام کرئے ،۔
جس سے شہری اس رقم سے اگر گاڑی خریدتے ہیں تو یہ ملکی صعنت کی کمائی بن جائے گی ، اگر کسی اور جگہ یعنی ریسٹورینٹ ، بجلی کا سامان یا کہ کہیں سفر کرنے پر بھی خرچ ہو گی تو  بھی یہ رقم ، قوم کے ہی کام آئے گی ،۔
اس لئے ٹیکس افسران یا کہ ملکی نظام کو اس فضول خرچی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ،۔
تو اس بات کے تناظر میں جب ایک خربوزوں کی تجارت کرنے والی فرم یا کہ مچھلی کے گوشت کی تجارت کرنے والی فرم کسی ایک علاقے کی پہلی فصل کے پہلے دانے کو مقابلے کی دوسری فرموں کے مقابلے میں مہنگا خریدتی ہے تو اس میں ایک تو اس فرم کی مشہوری ہوتی ہے ، دوسرا اس صنعت سے وابستہ  لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ،اور تیسرا ٹیکسوں میں بھی کمی آتی ہے ،۔
اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ اتنا مہنگا خربوزہ اور مچھلی کھاتا کون ہے ؟
تو جی 
یہ خربوزہ اس فرم کے سٹور پر کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں رکھ دیا جاتا ہے اور عام عوام کے گاہک جو یہاں آتے ہیں وہ اس خربوزے کو چکھ کر لذت لیتے ہیں اور واھ واھ کرتے ہیں ،۔
اسی طرح مہنگی بولی میں خریدی جانے والی ٹونا مچھلی بھی اس فرم کے سٹوروں پر بھیج دی جاتی ہے اور عام قیمت پر فروخت کی جاتی ، بس اس پر لکھ دیا جاتا ہے یا کہ زبانی بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ والی مہنگی مچھلی ہے ۔
میرا خیال ہے کہ بات سمجھ لگ گئی ہو گی 
کہ
جاپان کا سسٹم کہتا ہے کہ
دولت پر سانپ بن نہیں بیٹھ جاؤ ، دولت کو حرکت دو کہ اسی میں عام عوام کا بھلا ہے ،۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts