ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

کچھ کہانیاں

ایک دفعہ کا ذکر ہے
کہ کہیں کسی گاؤں کے دو جوان دوست سفر پر نکلے تو انہوں نے زندگی میں پہلی بار کیلا دیکھا، نام تو سنا ہوا تھا  پہلی بار اس کو خرید کر بڑے چاؤ سے سنبھال کر لے کر چلے ، اس کے بعد انہوں نے زنگی میں پہلی بار ٹرین کے سفر کے لئے ٹکٹ لی اور ٹرین میں سوار ہوئے ،۔
سنبھال کر پکڑے ہوئے کیلے کو ٹرین کے چلنے کے کچھ دیر بعد ایک جوان نے  بلکل ننگا ( چھلکا اتار کر ) کر کے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ ٹرین سرنگ میں داخل ہو گئی ، یک دم اندہیرا سا چھا گیا  ، اس جوان نے فوراً اپنے ساتھی سے سوال کیا ، تم نے ابھی کیلا تو نہیں کھایا؟
جواب ملا، نہیں ! ۔
کھانا بھی نہیں ، میں تو کھاتے ہی اندھا ہو گیا ہوں ، تم بچ جانا ۔
بچپن سے ہی پڑہایا جاتا ہے
ایک تھا بادشاہ ، جو کہ بہت غریب تھا ، پھٹے پرانے کپڑے پہنتا تھا ، ٹوٹی جوتی پہنتا تھا گھر میں فاقے ہوتے تھے ، لیکن اس کے دور میں دریا کے کنارے ایک بکری بھی پیاسی نہیں رہتی تھی ۔
اب بے چاری بکری دریا کے کنارے بھی پیاسی رہ گئی تو ؟ وہ بکری  پاکستانی ہی ہو سکتی ہے کہ اس کی ٹانگ کو کسی نے رسی باندہی ہو گی ۔
پھٹے کپڑوں والے بادشاھ کے پاس اگر سمجھ بوجھ ہوتی تو ، اپنے جولاہوں اور موچیوں کو “کام” کرنے کا ماحول ہی میسر کر دیتا کہ  بادشاھ ے لئے بھی اور عام لوگوں کے لئے بھی جوتیاں اور کپڑے بنا کر کاروبار ہی کر لیتے ۔
اب پتہ نہیں کہ بادشاھ جولاہوں اور موچیوں کے خلاف تھا یا کہ ان کو “ کمی “ سمجھ کر ٹریٹ کرتا تھا ۔
ملک میں دولت اور مال کی بہتات تھی  کیونکہ دوسرے ممالک سے مال غنیمت آ جاتا تھا ۔
کبھی کبھی کپڑے کی تقسیم پر منہ ماری بھی ہو جاتی تھی  ، لیکن اپنے جولاہوں کی کارگردگی کا کوئی ثبوت نہیں  ملتا ۔

ایک اور دفعہ کا ذکر ،ایک اور بادشاہ تھا ، وہ بہت امیر تھا ، حتٰی کہ اس کا غلام بھی امیر ہو چکا تھا ، اس بادشاھ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا ، تبلیغ کے لئے اس نے کوئی سترہ دفعہ دارالکفر پر حملے کئے ۔
دارلکفر کی عورتوں اور مردوں کو غلام بنا کر منڈیوں میں اس لئے بیچتا تھا تاکہ  مذہبی آقاؤں کے مذہب کی خدمت کرئیں ۔
یہ بادشاھ بڑا علم دوست تھا کتاب لکھنے کا معاوضہ سونے میں طے کر کے چاندی میں بھی ادا کر دیا کرتا تھا،۔
۔
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں کوئی لڑکا رہتا تھا جس نے پہلے والے بادشاھ کی کہانیاں پڑھی ہوئی تھیں ،اس کو بادشاھ سے اتنی عقیدت اور محبت تھی کہ اس نے جوان ہو کر جب کمائی شروع کی تو اس نے اپنے ابا جی کو بھی مجبور کر کے اس بادشاھ کی طرح کا لباس اور جوتے پہننے پر مجبور کردیا تھا ۔
کیلا کھا کر اندھے ہوئے لوگوں کو اس کی یہ ادا بڑی پسند آئی تھی اور اس واہ واہ کیا کرتے تھے ۔
جس سے یہ جوان اور بھی بڑھ چڑھ کر اپنے اباجی کی خدمت میں  گندے سے گندے اور  کپڑے اور ٹوٹے جوتوں نہ صرف پیش کیا کرتا تھا بلکہ اباجی کے درجات بلند کرنے کے لئے اباجی کو استعمال کرنے پر مجبور کیا کرتا تھا ۔
کیلا کھانے سے بچے ہوئے لوگ اس جوان کا ابا جی کے ساتھ سلوک دیکھ جو کہا کرتے تھے وہ ناقابل تحریر ہے ۔
تاریخ کی کتابیں پڑھ پڑھ کر یہی ہوتا ہے کہ
کسی کو کیلا کھانے سے اندھیرا چھا جاتا ہے اور کوئی بچ جاتا ہے ۔
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ پڑہی گئی کتابوں کا علم شارٹ سرکٹ کر جاتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts