ایک کہانی ،سُکھا سنگھ کی زبانی
سُکھا سنگھ |
پاء خاور ، میرے دل میں ایک کہانی ہے جو میں نے کسی دن لکھنی ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کب لکھنی ہے ؟ کہنے لگا کسی دن کبھی نہ کبھی۔
میں پوچھا کہ اگر کہانی کو خفیہ نہیں رکھنا چاہتے تو اسکا پلاٹ مجھے بھی سناؤ!۔
پاء خاور اپ سے کیا خفیہ رکھنا ہے ، فرانس انے کے بعد اپ ہی تو ایک بندے ملے ہو جو اپنے اپنے سے لگتے ہو اور دل کا حال تک کھول سنانے کو جی کرتا ہے ۔
سُکھا سنگھ، انڈیا والے پنجاب کے کسی گاؤں کا تھا، جو کہ انڈیا سے ماسکو تک ہوائی جہاز پر بیٹھ کر پہنچا تھا اور اس کے بعد کا سفر ، ماسکو سے پیرس تک کا، ایجنٹ کے ساتھ پیدل ، کنٹینروں اور ڈنکیاں لگا لگا کر کیا تھا۔
سُکھا اس سفر کی روداد سناتا رہتا تھا ، یورپ میں انٹر ہونے کے اس سفر میں بیمار ہو کر رہ جانے والے ساتھیوں کا ذکر ، اور ان کا ذکر بھی جو اس سفر میں جان کی بازی ہار گئے ۔
گوجرانوالہ کے ایک لڑکے کا بھی ذکر کیا کرتا تھا ، جو کہ مکیش کا گایا ہوا ایک گیت کنگناتا رہتا تھا ۔
دنیا بنانے والے ، کیا تیرے دل میں سمائی ۔
سُکھا سنکھ کہا کرتا تھا
پاء خاور ، وہ منڈا ایک گریٹ آدمی تھا ، جو کہ ٹولی کے سبھی لوگوں کے دکھ درد تو بٹاتا ہی تھا ، روز مرہ کے کاموں میں بھی بہت مدد کرتا تھا ، کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ اگر وہ منڈا نہ ہوتا تو شائد میں بھی کہیں حوصلہ ہار چکا ہوتا ۔
اور یہاں فرانس میں آ کر پاء خاور ، اپ کے ساتھ معاملہ پڑا ہے تو اپ بھی گریٹ بندے ہو ، گوجرانوالہ کا نام سنا تھا ایک تو راجہ رنجیت سنکھ کی رجہ سے اور دوسرا امرتا پریتم کی وجہ سے ، اور معاملہ پڑا تو یورپ کے سفر میں جو دو گریٹ بندے ملے وہ بھی گوجرانوالہ کے ہی نکلے ۔
میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ جب یورپ کے کسی ملک کے کاغذ مل جائیں تو پاکستان جا کر گوجرانوالہ دیکھوں ۔
اس طرح کی باتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں
کہ کہانی کی بات کا بھی دو تین دفعہ ذکر ہوا تو
ایک دن لنچ کے وقفے میں سُکھا سنگھ نے اپنے “ من” میں موجود کہانی کا پلاٹ سنانا شروع کیا ۔
پاء خاور کہانی تو بڑی لمبی کر کے لکھوں گا میں لیکن اپ کو مختصر کر کے بتاتا ہوں ، کیونکہ اپ کو ماسکو سے پیرس تک کے دکھوں کی تفصیل تو معلوم ہی ہے ، اس لئے ہم اُن دکھوں کی تکرار کو چھوڑ کر بات کرتے ہیں ۔
ایک لڑکا
انڈیا میں پنجاب کے کسی گاؤں میں کسی عام سے گھر میں پیدا ہو کر جوان ہوتا ہے ۔
جس نے باہر کی کمائی کے جلوے دیکھے ہوتے ہیں ۔
ایجنٹ کو پیسے دے کر یورپ کو روانہ ہوتا ہے ۔
ماسکو سے پیرس تک کے سفر میں کئی دفعہ بیمار ہو کر مرتے مرتے بچتا ہے ۔
بھوک سے اپنی انتڑیوں کے چٹخنے کی آواز سے بھی اسی سفر میں آشناء ہوتا ہے ۔
پاء خاور ! بھوک سے انتڑیوں کے چٹخنے کی آواز تو سنی ہو گی نہ ؟
پاء خاور تم مسلمانوں میں رمضان کے روزے ہوتے ہیں نہ ؟ اس لئے پوچھا ہے !۔
میں سکھے کو یہ نہ بتا سکا کہ “جس بھوک “ کی تم بات کر رہے ہو ، وہ بھوک روزے سے بہت ہی وراء قسم کی چیز ہوتی ہے ، جس میں افطاری کے ٹائم کا علم نہیں ہوتا اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ ۔ !۔
سکھا بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔
پنجاب میں صحرا کی گرمی کی کہانیاں تو سنی تھیں ، اور پوھ ، مانگھ کے مہینوں کی سردی بھی دیکھی ہوئی تو تھی ، لیکن برف کا جہنم ، نہ کسی سے سنا تھا اور نہ اس جہنم کا تصور ہی تھا ۔
برف کے اس جہنم میں پاؤں کی انگلیاں گل کر پیک پڑتی دیکھی اور اس درد سے جوانی میں مر جانے والے ساتھیوں کے چہرے یادوں کی سکرین پر ثبت سے ہی ہو کر رہ گئے ۔
مختصر یہ کہ
ساری مصیبتیں اور دکھ اپنی جان پر جھیل کر جب پیرس پہنچتا ہے تو؟
ہمالیہ سے بڑا سوال یہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ رہوں گا کہاں ؟
اپنے گاؤں کے لڑکوں کے پاس جاتا ہے تو ، ان کی اپنی پریشانیوں اور مجبوریاں ہوتی ہیں کہ کوئی کسی کے ساتھ رہ رہا ہے اور کسی کے ساتھی اس کے گاؤں کے تعلقات پسند نہیں کرتے ۔
ایک گھر میں جب کچھ ساتھی اس کو اس شرط پر رکھ ہی لیتے ہیں کہ
اج سے تمہارا خرچا شروع ہے ، اور تم پر قرض کی ادائیگی فرض ہو گی کہ جیسے ہی کام ملے یہ رقم ادا کرو گے۔
انہی دوستوں میں سے کسی سے رقم ادھار لے کر جب وہ لڑکا ٹیلی فون کرنے والا کاڑد خرید کر ، انڈیا میں گھر فون کرتا ہے تو ؟
فون اس کا باپ اٹینڈ کرتا ہے ۔
ابا، میں پیرس پہنچ گیاں !۔
ابا کہتا ہے ، شکر ہے او رب دا ، بس پتر اب تو دل لگا کر کام کرو، تمہیں تو علم ہی ہے کہ کتنا قرضہ ادا کرنا ہے ، تمہاری بہن کی شادی کرنی ہے ،۔ میری دوا کا بھی خرچا ہے ، بس پتر اب تم نے کوئی کسر نہیں چھوڑنی ہے کام کرنے میں ۔
ابے کے بعد چھوٹا بھائی فون پکڑ لیتا ہے ۔
پاء میں نے بائک لینی ہے تمہیں تو علم ہی ہے کہ وہ پڑوسیوں نے پچھلے سال نئی بائک نکلوائی تھی اب ہمارے پاس بھی بائک نہ ہو تو عزت نہیں رہتی ۔
چھوٹے بھائی کے بعد بہن فون پکڑ لیتے ہیں ۔
ہائے میریاں تے دعاواں قبول ہو گیاں نئیں ۔ رب نے بڑا کرم کیتا ہے بھائی اپ پیرس پہنچ گئے ہو
اب مجھے سونے کے گہنے بنوا کر دینے ہیں کالج جانے کے لئے میرے پاس اچھے اچھے سوٹ بھی نہیں ہیں وہ بھی بنوا کر دینے ہیں ۔اور جیب خرچ ہر مہینے مجھے علیحدہ سے ہی بھیج دیا کرنا ۔
ٹیلی فون کارڈ کے یونٹ ختم ہونے کو تھے
جب ماں کو فون پر بات کرنے کا موقع ملا ۔
ست سری اکال ، کو ماں نے سنا ان سنا کر دیا اور ماں کے منہ سے نکلا
وئے سُکھیا! روٹی بھی کھائی ہے کہ نہیں ؟
کہ لائین کٹ گئی !۔
فون کارڈ کے یونٹ ختم ہو گئے تھے ۔
3 تبصرے:
yar sab likha kar par rulaya na kara kar,barf kay jahanum say lay kar arab kay sehrayi jahanum tak kahani sab ki aik hi ha, bas isay dilon main hi rehnay day, kahin aisa na ho unit chal rahay hon aur maa sun lay....
سچی کہانی لگ رہی ہے
واہ!خاور صاحب پردیس کا بڑا ہی خوبصورت انداذ میں منظر ناًمہ پیش کیا ہے ایک پردیسی کے دُکھ اور تکلیفوں کو آپ نے بڑے ہی عام فہم انداز میں بڑی ہی خوبصورتی سے بیان کردیا میں بھی ایک پردیسی ہوں اسلیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپکی تحریر حقیقت کے بہت ذیادہ قریب تر ہے
ایک تبصرہ شائع کریں