جمعہ، 8 اگست، 2014

گریس ہوٹل بنکاک

آتش بھی کہیں جوان ہی ہو گا ،
لیکن آتش ضرور جوان تھی ، جذبوں کی امنگوں کی  کچھ کرنے کی  یا کہ کر گزرنے کی  ۔
لیکن پیسے اپنے اپنے گھر کے حلات کے مطابق تھے لیکن تھے سب کے  پاس کم ہی ۔
کچھ لوگ ایجینٹ افورڈ کر سکتے تھے  ، جاپان جانے کے لئے اور کچھ خود کو سیانے سمجھنے والے براستہ تھائی لینڈ  خود ہی جاپان پہنچنے کے لئے یہاں ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے ۔
ڈی پورٹ ہو کر ، دوبارہ ٹرائی کرنے اور کروائے جانے کی امید میں یہاں بنکاک کے جنرل پوسٹ آفس ( پسنی کان) کے اردگرد کے مکانوں ہوٹلوں میں بسے ہوئے تھے ۔
ہوٹلوں میں محفلوں میں جاپان کی انٹری کی تکنیکوں پر بحژیں ہوتی تھیں ، اپنے اپنے ایجنٹ کی سیانفوں کی باتیں ، کسی کے لٹے جانے کی کہانیاں لذت لے لے کر اس تسکین کے لئے کہی جاتی تھیں کہ
میں بچ گیا !!!۔
کچھ وہ بھی تھے جو شراب پی کر اپنی کوالٹی بتا رہے ہوتے تھے کہ
مینوں نشہ نئیں ہوندا!۔
اور دلیلیں ساری ایسی کہ نشہ ہر حرکت سے عیاں ۔
اپنی اپنی ریزرو کنجری کو گرل فرینڈ کا نام ہوتا تھا ۔
ایک بٹ صاحب کی گرل فرینڈ جب آتی تھی تو
دروازے کی چوکھٹ پر کونی ٹکا کر  پنجابی کہتی تھی ۔
بٹ صاحب ! آؤ ناں میری ۔ ۔ ۔  مارو!!!۔
اور بٹ صاحب بڑے فخر سے دوستوں کے چہرے دیکھتے اور بتایا کرتے تھے ،۔
اینہوں پنجابی سکھائی ہوئی اے ۔
سوکمیتھ روڈ کے سوئے نانا ( سات نمبر گلی) کے کلبوں سے لڑکی کے مغالطے میں خسرا لے کر کمرے میں پہنچنے والے کی خجالت اگلے دن دیکھنے والی ہو تی تھی ۔
جب دوست پوچھتے تھے ۔
اوئے کردا کی رہیاں ایں ساری رات ؟
ساتھ میں کوئی لقمہ دیتا تھا ۔
اوئے اینے کی کرنا سی “ اوہ” ای کچھ کردا رہا ہوئے گا ۔
شریف گھرانوں میں پلے بڑھے زندگی میں پہلی بار باہر نکلے ہوئے زیادہ تر لوگوں کے لئے عورت ایک اسرار تھا ، جو یہاں عیاں ہونے کے قریب تھا ۔
ہر ہر بندے نے یہاں اس اسرار  کو پانے کی بساط بھر کوشش کی ہے ۔
پاکستان کی ایمبیسی کے قریب گریس ہوٹل ہی وہ ہوٹل تھا جہاں “ڈسکو “ بھی تھا ۔
دوسرے ڈسکو بھی ہون گے لیکن داخلے کی فیس ادا کرنے کی بساط نہ رکھنے والے گلیوں میں پھرنے کی بجائے گریس کو ترجیع دیا کرتے تھے کہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھے یا گھومتے دیکھ کر کوئی یہ ہی سمجھے گا کہ یہاں کسی کمرے کا کرایہ دار ہے ۔
بڑی رونقیں ہوتی تھیں ہہاں ، گریس میں ، یہاں لابی کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے نوجوان دلوں میں جاپان کی کمائی کے ارمان لئے ، گرسنہ نگاہوں سے کنجریوں کو تاڑ رہے ہوتے تھے،۔
اور بنکاک کی جسم فرشی کی تاریخ میں “ان” لوگوں نے بھی پہلی بار ایسے لوگ دیکھے تھے جو مال کو دیکھتے ہی رہتے تھے ، اگے بڑھ کر بات کرنے کی ہمت   نہیں کرتے تھے ۔
اگر کسی لڑکی نے ہی بڑھ کر بات شروع کر لی تو ، دائیں بائیں دیکھنے لگتے تھے اور چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں
کہ
ہن کی کرئیے؟
ایجنٹوں کی کوشش ہوتی تھی کہ منڈے کو کسی نہ کسی کے ساتھ کچھ کروا دیں تاکہ اگر منڈا جاپان نہ پہنچا تو یم از کم اس کی رقم تو واپس نہ کنا پڑے ۔
کہ اگر منڈے نے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا بھی تو اس کو بتایا گیا کہ
دساں تینوں ؟ پیسے کتھے گئے ؟اوئے گریس وی تے توں ای جاندا ہوندا سیں ناں ؟

1 تبصرہ:

منصور مکرم کہا...

ہم م م
اچھی تحریر
غیر قانونی تارکین وطن کے احوال پر لکھی جانے والی باتیں اور انکے مشکلات کی ایک جھلک

Popular Posts