جمعہ، 25 جولائی، 2014

مسلمان بنو! انتہا پسند نہیں

ہمارے یہاں ، پرانوں سے ایک تہوار ہوا کرتا تھا ، لوڑی ( لوہی) ! اسلام کے انے کے بعد بھی ہند میں ، ہمارے بڑے بزرگ یہ تہوار مانتے رہے ہیں ، کیونکہ یہ تہوار کسی غیر اللہ کے نام سے نہ تو وابسطہ تھا اور نہ ہی اس میں کوئی مشرکانہ بات تھی ۔ اسی تہوار کو ہالوین کہہ کر امریکیوں نے بھی اپنایا ! ۔
جس میں لڑکے بھالے جانور کا بہروپ بھر کر ناچتے گاتے مختلف گھروں جاتے ہیں اور وہاں سے ان کو میٹھی چیزیں ملتی ہیں  ۔
پاکستان بننے کے بعد بھی یہ تہوار منایا جاتا رہا ہے ۔
پھر؟ وقت بدلا ! بقول شخصے ، چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
پاکستان میں سرمے والی سرکار نے مودودی کا سلام "نازل" کر دیا ۔
ہر معاشرتی ایکٹویٹی بدعت اور ہندوانہ چیز بن کے رہ گئی ۔
کلاشنکوف مومن کا زیور ہوا ، منافقت مومن کی فراست قرار پائی ۔
ہر طرف اسلام اسلام ہوا ۔
اب تو حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ
اسلام کے قلعے میں  بھی اسلام خطرے میں ہے ۔
اللہ بچائے ۔ پاکستان میں تفرقہ کی انتہا ہے ۔
اور ہر تفرقے باز کو اپنی اپنی شرارت  “ عین اسلام “ لگتی ہے اور دلیل اس بھی “اسی رائیٹر کی کتاب “ سے ملتی ہے جس کتاب سے اس کے مخالف تفرقے باز نے لی ہوتی ہے  ۔
ہندو کی مخالفت ۔ “ان” کی لگژری کی ضمانت ہے ۔
اور “ان” کے مذہبی ونگ والے اس مخالفت میں اتنے اگے چلے گئے ہیں کہ
پنجابی کے محاورے
گرو جنہاں دے ٹپنے
چیلے جان شڑپ
ہر علاقائی روایت کو رسم کو  “ ہندوانہ” کہہ کر مخالفت کرنے والے مذہبی لوگوں “فکر” کرنے کا ٹائم ہی نہیں ہے ۔
عربوں کے پیسے سے ہر چیز کو عربی ہی کرتے چلے جا رہے ہیں
میں نے پنجاب میں دیہاتی عورتوں سے سنا ہے
ہائے ہائے ! نی عربی لوک ، ۔
نی او تے اپنیاں دھیاں نو ویچ دے نی ۔
جیہڑا بہتے پیسے دے ، اپنی دھی دا ویاہ اوس نال کردے نی۔
ہند کی شادی بیاھ کی رسموں کے پیچھے صدیوں کا تجربہ ہے کہ
لڑکے لڑکی کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ تم لوگ ایک بہت ہی اہم رشتے میں بندھنے والے ہو۔
یہ رشتہ تم دو افراد کا نہیں ہو گا ، بلکہ دو خاندانوں کا ہو گا ،۔ یہ ڈھولک پر کئی ہفتے ۔ ماہیے ، ٹپے ، لوگ گیت کانے والی برادری کی خواتین  ، اور شادی بہاھ کے کام کرنے ولاے “ لاگی” لوگوں کے اس کام کو مٹی میں نہیں ملانا ، صلح سلوک سے رہنا ہے ، اس رشتے کو توڑ نہیں دینا ہے ْ
۔

پاکستانیوں  نے اپنا اپنا اسلام پال رکھا ہے
اسلام نہ ہوا بٹیرا ہو گیا
جس طرح شوقین لوگ بٹیرے لڑایا کرتے تھے
پاک لوگ اپنا اپنا سلام لڑاتے ہیں ۔
بٹیرے والے کہا کرتے تھے
میرا بٹیرا پنجا مار کر دھرتی ہلا دیتا ہے  ۔
بٹیرے کا پنجا کیا اور بٹیرے کی اوقات کیا!۔

5 تبصرے:

آصف کہا...

افسوس سب کچھ نام نہاد اسلام کے سیلاب میں بہہ گیا۔ انتہاپسندی کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔
کہاں وہ شاندار تہذیب کہ ساری دنیا میں ہندوستان ایک افسانوی دنیا تھی، اور کہاں آج کا پاکستان۔۔۔

گمنام کہا...

مودودی دا کھڑاک...

افتخار اجمل بھوپال کہا...

محترم ۔ آپ کسی ایسے پاکستان کی بات کر رہے ہیں جو کسی کے خیالوں میں بستا ہے ۔ شادیوں پر ڈھولک اور ٹپّے جو اپنے قریبی رشتہ دار جوان کرتے تھے وہ تو پرانی جاہلانہ رسم سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ۔ اُس کی جگہ ماڈرن اوصاف نے لے لی ہوئی ہے ۔ اب تو جوان لڑکیاں لڑکے رمبا سمبا ۔ شیک اور پتا نہیں کون کون سے ناچ ناچتے ہیں ہالی وُوڈ کے میوزک پر اور رسمیں ہوتی ہیں ہوٹلوں میں جہاں سب کے سامنے جسموں کو تھراتی ہوئی جوان لڑکیاں اور لڑکے ناچ کر ساری حسرتیں پوری کرتے ہیں اور کئی خاندان کی الہڑ لڑکیاں اور لڑکے سڑک پر ناچتے ہوئے ہوٹل تک جاتے ہیں تاکہ راہ گیر بھی محظوظ ہوں ۔
اسلام پر عمل کرنا تو میرے جیسے بیوقفوں کا کام ہے ۔ کبھی رَوہ (گنّے کا رس) یا شکر کا شربت پی کر خوش ہوا تھے جسے اب گنواروں کا مشروب سمجھا جاتا ہے اور ولائتی مشروب (مجھے تو نام بھی نہیں معلوم) پیئے جاتے ہیں ۔
ضیاء الحق کا تو نہیں کاش اللہ کا دین اسلام جسے موددی صاحب نے ب اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور مُفتی محمد شفیع صاحب نے بھی اور جس کا ذکر قائد اعظم محمد علی جناح بھی بار بار کرتے رہے کاش وہ اس مُلک پاکستان میں رائج ہو جاتا تو کوئی فساد باقی نہ رہتا

گمنام کہا...

بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ۔ ۔صحیح اور غلط کی ظاہری شکلیں کچھ اور ہو گئی ہیں۔ بس اللہ ہدایت دے اور آسانیاں کرے

Usman Mustafvi کہا...

بہت زبردست ، کافی معلوماتی ہے، میں نے بھی اردو بلاگنک میں آپ کے بلاگ سے متاثر ہو کر آغاز کیا ہے، برائے مہربانی دیکھ کر بتائے کیسا ہے
http://usmanmustafvi.blogspot.com/

Popular Posts