منگل، 1 جولائی، 2014

یادیں اور کمہار گھیری


بھٹی بھنگو روڈ سے ہمارے گھر کی طرف مڑیں تو ، سیدہے (دائیں ) ہاتھ پر خراس ہوا کرتا تھا ، بلکل ہمارے گھر کے سامنے ۔
خراس آٹا پیسنے کی اس چکی کو کہتے تھے جو بیلوں کی جوڑی کے ساتھ چلتا ہے ۔
پانچ دہائیاں پہلے عام گھروں میں ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکیاں ہوا کرتی تھیں  ۔
لیکن بڑے قصبوں کے مستری لوگ خراس بھی لگا کر دیتے تھے   ، آٹا پیسنے کے خواہشمند اپنی گندم اور اپنے بیل لے کر آ جاتے تھے ۔ اور خراس والے کو بھاڑے کی  مد میں اناج یا آٹا دیا جاتا تھا ۔
ہماری معاشرت کے اچھے دن تھے ، کہ جب کوئی زمنیدار اپنے بیل خراس میں جوتتا تھا تو
عام گھروں کے لوگ بھی اپنی گندم لے کر آ جاتے تھے کہ ساتھ ہی پس جائے گی ۔
ہمارے ہوش سنبھالنے تک خراس کے ساتھ ہی مستری شفیع  جن کو میاں جی کہتے تھے انہوں نے بجلی سے چلنے والی چکی لگا لی تھی ۔ اور خراس پر ہم بچے لوگ کھلا کرتے تھے ۔ یا کہ جہاں تک میری یادیں ساتھ دیتی ہیں کوئی ایک دو بار ، بھرو والئے  جاٹوں کو اپنے  بیلوں کے ساتھ آٹا پیستے ہوا دیکھا ہے ۔
یہاں خراس پر کھیلتے ہوئے مجھے ایک دفعہ بھڑوں نے کاٹا تھا ، کاٹتی کیوں ناں کہ میں نے بھی تو اندھیرے میں بھڑوں کی کھکھر کو کوئی لاٹو نما سوئچ سمجھ کر مٹھی میں بھینچ ہی لیا تھا !۔
میاں شفیع کی کی مشین جو کہ بعد میں میرے دادا نے خرید لی تھی اس کے سامنے ہی  اور میرے گھر سے جڑی ہوئی  احمدیوں کی مسیت ہے ۔
احمدیوں کی مسیت اور قصبے کے ہائی سکول کے درمیاں لوہاروں کے تین گھر ہیں ۔
سکول کے ساتھ جڑے ہوئے گھر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اردو کے مشہور اور محمور شاعر
عبدالحمید  عدؔم  اس گھر کے رہائیشی تھے ۔
لوہاروں کے گھروں کے سامنے روڑی ہوا کرتی تھی 
جس کو باجوہ صاحب سے خرید کر میرے دادا محمد اسماعیل صاحب کے  میرے چاچاؤں کے لئے گھر بنائے ، ۔
روڑی کے اگے اور سکول کے سامنے کی جگہ کو ہم کھتے کہا کرتے تھے
کھتے بمعنی چھوٹے کھیت !۔
کھتوں کے جنوب اور مشرق میں ڈسپنسری ہوا کرتی تھی ۔
ڈسپنسری سے جڑے ہوئے دو کھتے  یوسی ( محمد یوسف لوہار) کے ابا جی کے تھے اور سکول کے سامنے وال کھتا  چوہدری رحمت کا تھا
چوہدری رحمت اور یوسی کے خاندان کے کھتوں کے درمیان درختوں کی ایک دیوار بنی ہوئی تھی جو کہ انگریزی کے لفظ ایل کی طرح کی تھی ۔
یوسی میرا وہ دوست ہے کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اس کو اپنے ساتھ پایا ۔
میری یادیں جہان تک میرا ساتھ دیتی ہیں ۔
میں سکول میں ٹاٹ پر یا کہ گھر سے لائی ہو بوری پر اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں ۔
ڈسپنسری کی عمارت کی جنوبی طرف والی چاردیواری ، جو کہ پسرور روڈ کے ساتھ ملتی تھی اور جہاں ڈسپنسری کا مین گیٹ تھا ۔
یہاں ایک پیلو کا درخت ہوا کرتا تھا ۔
سرخ رنگ کی پیلو جب پک کر تیات ہو جاتی تھی تو میٹھی لگتی تھیں ۔
لیکن مجھے کبھی بھی لذیذ نہیں لگیں ، بس میٹھی لگتی تھیں ۔
اس پیلو کے درخت کے نیچے میں نے پہلی بار “کمہار گھیری” ( کمہار کی شکار گاہ ) دیکھی تھی ۔


لمبڑو ،  جو کہ ہم سے بڑی عمر کا تھا اور مھؒے کے لڑکوں کا رنگ لیڈر سا تھا  اس کے ساتھ یہاں کھیلتے ہوئے اس نے زمین پر بنے ہوئے “ کھتھی “ نما ان سوراخوں کے متعلق بتایا کہ  ان کو کمہار گھیری کہتے ہیں ۔ اس  سوراخ کی تہہ میں ایک کیڑا چھپا بیٹھا ہوتا ہے ، جس کو کمہار کہتے ہیں ۔
اگر اس سوراخ میں  چیونٹی کو ڈالیں تو مٹی کے نیچے سے نکل کر کمہار اس کیڑی کو کھا جاتا ہے ۔
اسی وقت لمبڑو نے ایک کیڑی کو پکڑ کر اس سوراخ میں ڈالا اور گانے لگا “ کمہارا ، کمہارا ، کیڑی تیرے پانڈے پن گئی آ “
کمہار او کمہار چیونٹی تمہارے برتن توڑ رہے ہے ۔
لمبڑو کا گانا سنتے ہیں زمین سے ایک کیڑے کی ٹانگیں نکلیں اور چیونٹی کو لے کر زمین میں چھپ گئیں ۔
لمبڑو نے ریت میں اس سوراخ کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سوراخ کو الٹ دیا
اور ہم نے دیکھا کہ ایک پیلے سے رنگ کا مکڑی نما کیڑا ۔ وہاں پڑا تھا ۔
لمبڑو نے کہا دیکھنا دیکھنا یہ کیڑا جس کو کمہار کہتے ہیں ، جب چلے کا تو الٹی طرف چلے گا ۔
اس کیڑے کی ساخت ہی ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ  منہ کی سیدھ کی بجائے پیٹھ کی سیدھ میں چل رہا ہے ۔
وقت گزرنے پر علم ہوا کہ یہ کیڑا اپنے گھر بناتا ہی وہاں ہے جہاں چیونٹیوں کی بہتات ہوتی ہے ۔

جاپانی میں اس کیڑے کے گھر کو “آری نو جی کوک” کہتے ہیں ۔
جس کے معنی ہیں ،۔ چیونٹی کا جہنم ۔
اس سوراخ کی ریتلی ساخت ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ اگر کوئی  چیونٹی اس سوراخ میں گر جائے تو  نکل نہیں سکتی ۔ ریت ، پھسل پھسل کر چیونٹی کو باہر نہیں نکلنے دیتی اور اس دوران وہ کیڑا نکل کر چیونٹی کو دبوچ لیتا ہے ۔
چند دن پہلے میں نے یہاں  جاپان میں اپنے یارڈ  میں ایک درخت کے نیچے کمہار کے کگر والے سوراخ دیکھے  تو ان کی تصاویر بناے لگا۔
تنزانیہ سے آئے ہوئے سلیم نامی کالے نے دیکھا تو کہنے لگا کہ سواحلی میں اس کو کیا کہتے ہیں یاد نہیں لیکن ، اگر اس سوراخ کو پلٹ دیں تو ایک کیڑا نکلتا ہے جو کہ پیٹھ کی سیدھ میں چلتا ہے ۔
مں نے اس کو بتایا کہ ہاں مجھے بھی اس بات کا علم ہے
اور یہ چیزیں میری بچپن کی یادوں میں در آتی ہیں ۔
اسی لئے میں اس سوراخ کی فوٹو لے کر اور ویڈیو بنا کر اپنے بلاگ پر لگانا چاہتا ہوں
تاکہ میرے وطن کی نئی نسل کو بھی علم ہو کہ ایسی چیزیں بھی گاؤں دیہات میں پائی جاتی ہیں  ۔

اس ویڈیو میں اپ ایک چیونٹی کو کمہار گھیری میں گرتے اور کیڑے کا شکار ہوتے دیکھ سکتے ہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts