ڈرین کا نظام
میں نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ
ترقی یافتی اقوام نے " ڈرین" کے نظام کو صدیوں پہلے اپنا لیا تھا۔
اور "نکمی" اقوام کو سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کا نام ترقی بتا کر
ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہوا ہے ۔
پیرس کی تعمیر میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہوا ہے کہ
بارش کے پانی کو بھی دو قسموں میں تقسیم کر کے استعمال کیا جائے گا
عمارتوں کی چھتوں کا پانی پینے کے کام اتا ہے اور سڑکوں کا گندا پانی دریا میں چلا جاتا ہے ۔
واشنگٹن ڈی سی میں ، میں نے دیکھا کہ سڑکوں کے نیچے میٹروں کی گہرائی کی گلیاں بنی ہوئی ہیں ۔
اگر کچھ دن طوفانی بارشیں بھی ہو جائیں تو لاکھون ٹن پانی تو ان گلیوں میں ہی غرق ہو جائے گا۔
لندن کی نالیاں زمین دوز اس طرح کی بنی ہوئی ہیں کہ ان کی انڈرگراؤنڈ ٹرین کے اسٹیشنوں کا پانی تک بھی ٹھکانے لگ جاتا ہے ۔
واشنگٹن چلو نیا شہر ہے (ایک سو کچھ سال) لیکن پیرس اور لندن صدیوں پہلے تعمیر کئے گئے تھے، ڈرین کے فول پروف نظام کے ساتھ!!۔
لیکن
یہاں پاکستان میں کیا ہوتا ہے ؟
سڑکوں کی تعمیر پر حکومتیں نمبر بناتی ہیں ۔
اور لوگوں کے مکان ! سڑک سے نیچے چلے جاتے ہیں ۔
لوگ اپنے مکان اونچے کر تے ہیں ۔
اور
مکانوں کا پانی سڑک پر چڑھ جاتا ہے ۔ کول تار ، ٹھنڈک اور پانی سے سخت ہو جاتی ہے ۔
جس پر چلتی گاڑی کے ٹائیر کی چوٹ لگنے سے سڑک ٹوٹ جاتی ہے ۔
دوسری تیسری گاڑی کے ٹائروں کی چوٹ اس گڑھے کو وسیع کر دیتی ہے
اور ؟
سڑک ٹوٹ جاتی ہے ۔
حکومت پھر اتی ہے اور سڑک کو اونچا کر جاتی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئی تکنیک جاپانیوں نے پاکستان کو دی ہے کہ
ابادیوں کے اندر سڑک کو کنکریٹ کا بنا دو ۔
پانی سے ٹوٹے گی نہیں ۔
لیکن پانی کے نکاس کے فوائد کا کسی کو علم ہی نہیں ہے ۔
میں نے دنیا کے کتنے ہی غیر ترقی یافتہ ممالک کے افسروں سے بات کر کے دیکھی ہے ۔
ان سب کی سوچ میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر ہی ترقی کی معراج ہوتی ہے ۔
اور اس ترقی کے لئے پیسے نہ ہونے کا رونا ہوتا ہے ۔
ابادی کے پانی کا انتظام فول پروف ہو جائے تو؟
کتنی دہایوں تک ۔سڑکوں اور مکانوں کی تعیر پر اٹھنے والی دولت کی بچت کر کے نئی عمارتیں اور سڑکیں بنائی جا سکتی ہیں ۔
ترقی یافتی اقوام نے " ڈرین" کے نظام کو صدیوں پہلے اپنا لیا تھا۔
اور "نکمی" اقوام کو سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کا نام ترقی بتا کر
ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہوا ہے ۔
پیرس کی تعمیر میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہوا ہے کہ
بارش کے پانی کو بھی دو قسموں میں تقسیم کر کے استعمال کیا جائے گا
عمارتوں کی چھتوں کا پانی پینے کے کام اتا ہے اور سڑکوں کا گندا پانی دریا میں چلا جاتا ہے ۔
واشنگٹن ڈی سی میں ، میں نے دیکھا کہ سڑکوں کے نیچے میٹروں کی گہرائی کی گلیاں بنی ہوئی ہیں ۔
اگر کچھ دن طوفانی بارشیں بھی ہو جائیں تو لاکھون ٹن پانی تو ان گلیوں میں ہی غرق ہو جائے گا۔
لندن کی نالیاں زمین دوز اس طرح کی بنی ہوئی ہیں کہ ان کی انڈرگراؤنڈ ٹرین کے اسٹیشنوں کا پانی تک بھی ٹھکانے لگ جاتا ہے ۔
واشنگٹن چلو نیا شہر ہے (ایک سو کچھ سال) لیکن پیرس اور لندن صدیوں پہلے تعمیر کئے گئے تھے، ڈرین کے فول پروف نظام کے ساتھ!!۔
لیکن
یہاں پاکستان میں کیا ہوتا ہے ؟
سڑکوں کی تعمیر پر حکومتیں نمبر بناتی ہیں ۔
اور لوگوں کے مکان ! سڑک سے نیچے چلے جاتے ہیں ۔
لوگ اپنے مکان اونچے کر تے ہیں ۔
اور
مکانوں کا پانی سڑک پر چڑھ جاتا ہے ۔ کول تار ، ٹھنڈک اور پانی سے سخت ہو جاتی ہے ۔
جس پر چلتی گاڑی کے ٹائیر کی چوٹ لگنے سے سڑک ٹوٹ جاتی ہے ۔
دوسری تیسری گاڑی کے ٹائروں کی چوٹ اس گڑھے کو وسیع کر دیتی ہے
اور ؟
سڑک ٹوٹ جاتی ہے ۔
حکومت پھر اتی ہے اور سڑک کو اونچا کر جاتی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئی تکنیک جاپانیوں نے پاکستان کو دی ہے کہ
ابادیوں کے اندر سڑک کو کنکریٹ کا بنا دو ۔
پانی سے ٹوٹے گی نہیں ۔
لیکن پانی کے نکاس کے فوائد کا کسی کو علم ہی نہیں ہے ۔
میں نے دنیا کے کتنے ہی غیر ترقی یافتہ ممالک کے افسروں سے بات کر کے دیکھی ہے ۔
ان سب کی سوچ میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر ہی ترقی کی معراج ہوتی ہے ۔
اور اس ترقی کے لئے پیسے نہ ہونے کا رونا ہوتا ہے ۔
ابادی کے پانی کا انتظام فول پروف ہو جائے تو؟
کتنی دہایوں تک ۔سڑکوں اور مکانوں کی تعیر پر اٹھنے والی دولت کی بچت کر کے نئی عمارتیں اور سڑکیں بنائی جا سکتی ہیں ۔
2 تبصرے:
ڈرین کے نظام کی کمی واقعی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے تفصیل سے اِس پہ روشنی ڈالی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہاں لفظ "نظام" کو دوبارہ تشریحredefineکرنے کی ضرورت ہے۔
سن 1666 میں لندن میں بہت بڑی آگ لگ گئی تھی جس سے سارا لندن جل گیا تھا۔ اس وقت لندن میں پلیگ پھیلی ہوئی تھی جس سے لاکھوںلوگ مرے تھے۔ پہلے لوگوں نے سمجھا کہ شائد یہ کتے بلیوں سے پھیل رہی ہے تو انہوں نے کتے بلیوںکو مارنا شروع کیا اس سے یہ وبا اور پھیل گئی۔ کیونکہ اس کے ذمہ دار چوہے تھے جو کتے بلیوںکے نہ ہونے سے اور پھلے پھولے۔ جب لندن میںآگ لگی تو اس آگ میںکوئی 6 افراد مرے لیکن اس سے جراثیم ختم ہوگئے۔ گریٹ فائر آف لندن کی یادگار آج بھی اس جگہ کھڑی ہے جہاںیہ آگ شروع ہوئی تھی۔ اگر سوچا جائے تو آج لندن میںجو بھی ہے وہ زیادہ تر 1666 کے بعد کا ہی ہے۔ یعنی 400 سو سال سے کم عرصے میںایک شہر کو اس کے باسیوںنے کہاںسے کہاں پہنچایا ہے۔ وہ میںلندن برج کے پاس بھیٹھ کر سوچ رہی تھی۔ میں اور بچے فائر کی یادگار کی 311 سیڑھیاں چڑھ کر اوپر تک گئے اور ہمیںاس کا سرٹیفکٹ بھی ملا جو ہم اپنے ساتھ واپس لے آئے۔ بارش بے انتہا ہوتی ہے لندن ہے ہر وقت چھتری لے کر نکلنا ہوتا ہے۔ پانی فورا" ٹھکانے لگ جاتا ہے ڈرین سسٹم سے۔ جہاںلوگ کل کی اور آنے والی نسلوںکی سوچ رکھتے ہیںاور اس لحاظ سے شہر ڈیویلپ کرتے ہیںتو پھر اسی طرح یہ شہر دنیا میںآگے بڑھتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں