بدھ، 17 دسمبر، 2014

سولہ دسمبر ، پشاور میں بچوں کا قتل


پشاور میں ہونے والا بچوں کا قتل ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس نے دل کو چیر کر سکھ دیا ہے ۔
میرے بھی بچے ہیں ، اور اپ بھی جن کے بچے ہیں ،زرا ان کے منہ دیکھ کر بتائیں کہ کیا ان کی عمر ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے ؟
فوج نے جو جیش ، لشکر اور جتھے بنا کر قوم کی بغل میں دئے ہوئے ہیں ناں   ۔
ان کی جو فصل تیار ہو رہی ہے اس کا پھل ہے ۔
پاکستان کے مسائل کا گڑھ ہی فوج ہے ،۔
نظریہ ضروت سے لے کر عدالتی نظام کس نے تباھ کیا ؟
تعلیم میں زہر کس  گھولا؟
طاقت کے بے جا اظہار کی راہیں کس نے قوم کو دیکھائیں ۔
ملک میں مسائل پیدا کر کے ، بشمول مسئلہ کشمیر فوج کے ناگزیر ہونے  کا پروپیغینڈا اور اس کی اوجھل میں چھاؤنیوں کی لگژری لائف   کون انجوائے کر رہا ہے ۔
طاقت سے اداروں کے آڈٹ جیسی بنیادی رسم کس نے ختم کی ہے ؟
دوستو! فوج کی حمایت میں بات کرنے سے پہلے سوچ لو
کہ اس فوج کی  حمایت جھوٹ کی حمایت ہے ۔
اور جس بندے کو رب نے عقل دی ہو وہ جھوٹ کی حمایت نہیں کیا کرتا ۔

پاکستان کی سیاست اب ،اج اس دور سے گزر رہی ہے  ، کہ جس میں سیاستدانوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہوا ہے کہ اب فوج کی غلطیوں پر پردہ نہیں ڈالا جائے گا ۔
اگر چہ کہ یہ سیاستدان بھی  فوج ہی کی پیداوار ہیں ۔
لیکن ایک قدرتی سیاستدان نے ان کو یہ راھ دکھلا دی ہے کہ
جس جس نے فوج کی غلطیوں پر پردہ ڈالا  ، وہ ہی مارا گیا ۔
اکہتر سے پہلے کے سیاستدان  باری باری خفیہ طور پر ٹھکانے لگا دئے گئے ، باقی کو کونے لگا کر بنگال کو علیحدہ ہی کر دیا  ، اس غلطی پر بھٹو نے پردہ ڈالا ، اور مارا گیا ۔
گارگل کے پہاڑوں سے نواز شریف نے ان کی جانیں بچائیں تو اس کو بے عزت کیا گیا ۔
زرداری کی بیوی ، سالے  کو قتل کر کے  قاتل تک غائب کر دئے گئے ۔
 تو اب اگر  آپریشن ضرب عضب کو کرنے کی آزادی ملی ہوئی ہے تو اس لئے کہ سیاستدان قوم کی فوج کا وہ چہرہ دیکھا دینا چاہتے ہیں جو کہ اس بھگیاڑ کا اصلی چہرہ ہے ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یک دم نہیں ہوا کرتے

کوؤئیں کے پانی کو پاک کرنا ہے تو؟
پہلے اس میں سے کتا نکالنا ہو گا ۔
اداروں کو ان کی حدود اور فرائض کا علم جاننا ہو گا ۔
اور خود پر اخلاقی قدغن لگانے ہوں گے ، شتر بے مہار  کو کوئی نہ کوئی کہیں ناں کہیں یا تو قتل کر دیتا ہے یا پھر نتھ ڈال دیتا ہے ۔
اور اگر یہ دونوں کام نہ بھی ہو سکیں تو خود ہی کسی گڑھے میں گر جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سولہ دسمبر ہے ۔
آج کے دن ،  انیس سو اکہتر میں پاکستان  ٹوٹ گیا تھا ، پاکستان ٹوٹ چکا ہے ۔
لوگوں کا پاکستان ، انیس سو باون (1952ء) میں چوری ہو گیا تھا ۔
اکہتر میں انہی چوروں کے ہاتھوں سے گر کر پاکستان ٹوٹ گیا تھا ۔
جوروں کے اس ٹولے کو چوری کرنے کی عادت پڑ چکی ہے ۔
الیکشن چوری کر کے  دیتے ہیں ، رقبے اور اعزاز چوری کر کے رکھ لیتے ہیں ۔
چوروں کے اس بکٹیریا کا ایک ہی تریاق ہے ۔
وہ ہے انصاف!۔
صرف اور صرف خالص انصاف کی فضا ہی  میں ان کا دم گھٹ سکتا ہے ، کہ جس سے ان  چوروں کی موت واقعی ہو سکتی ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts