کھلی کچہریاں
نام تو اس کا شمس تھا لیکن فرانس میں وہ چوہدری جمی کے نام سے جانا جاتا ہے ،۔
ہاں ہاں وہی جمی جو ائر ہوسٹس بیوی کو قتل کر کے جیل بھگت چکا ہے ۔
اس نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا تھا کہ
اس کے ایک جج دوست کے سامنے بندے کو مجروح کرنے کا ایک کیس لایا گیا ۔
ایک فوجی حکومت کے دور کی بات ہے اور ملزمان جنرل صاحب کے رشتے دار تھے ۔
جج کو صرف فیصلے کے لئے بلایا تھا اور کچہری بھی کھلی کچہری تھی ۔
جج صاحب کے ساتھ چار جرنیل بھی بیٹھے تھے ،۔
اور جج صاحب کو کہا گیا تھا ملزمان کو بری کر دینا ہے ۔
میز پر سرخ اور سفید کارڈ پڑے تھے ۔
جج صاحب کو حکم تھا کہ سب باتیں سن کر ، آخر میں سفید کارڈ اٹھا کر دیکھا دینا ۔
بس اتنا سا کام ہے ۔
اب معاملہ یہ تھا کہ
ملزمان نے ایک بندے کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ، اس کی انکھیں بھی نکال دی تھیں اور زبان کی بھی کاٹ دی تھی ۔
جمی ! یہاں تک بتا کر کہتا ہے
یار خاور ! تم خود ہی بتاؤ کہ اب یہ بندھ تو نہ ہوا “ ٹنڈ” ہوا ناں جی ٹنڈ !!۔
بندہ مرنے سے تو بچ گیا تھا ، اور زخم بھی بھر چکے تھے ۔
کہتا ہے جب یہ عدالت نما ڈرامہ چل رہا تھا ۔
تو کیا ہوا کہ مجروح کے گاؤں کے مراثی نے اس مجروح کو ٹوکرے میں ڈال کر عدالت یعنی کہ کھلی کچہری میں لے آیا۔
اور مراثی جج صاحب کو مخاطب کر کے کہتا ہے ۔
جج صاحب اے ویکھ لو ، تے فیصلہ کر دیو! جان تساں وی رب نوں دینی اے ۔
جج بتاتا ہے کہ یہ وہ لمحات تھے جب میں نے فیصلے کا کارڈ دیکھانا تھا ۔
ٹوکرے میں پڑے اس ٹنڈ نما بندے کو دیکھ کر میرے رونکھٹے کھڑے ہو گئے ، ایک عجیب سے احساس کی لہر میرے جسم میں سے گزر گئی
میرا ہاتھ خود بخود ہی سرخ کارڈ پر جا پڑا اور میں نے بے اختیار سرخ کارڈ اٹھا دیا ۔
جرنل صاحب نے اپنے سگوں کو کسی ناں کسی طرح بچا ہی لیا تھا ۔
اور مجھے بھی نوکری چھوڑنی ہی پڑی تھی کہ جرنل صاحب بڑے ہی طاقت ور تھے ۔
یہاں تک بتا کر چوہدری جمی کہتا ہے ۔
جج نے مجھے پوچھا کہ چوہدری اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟
میں نے جواب دیا تھا کہ میں بھی یہی کرتا جو آپ نے کیا ہے ۔
پھر چوہدری جمی مجھے پوچھتا ہے
خاور اگر تم ہوتے تو کیا کرتے ؟
میں چوہدری جمی کے سوال کا جواب نہیں دے سکا تھا
کیونکہ مجھے اپنی غربت اور کم مائگی کے احساس نے خاموش کردیا تھا ۔
ہاں ہاں وہی جمی جو ائر ہوسٹس بیوی کو قتل کر کے جیل بھگت چکا ہے ۔
اس نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا تھا کہ
اس کے ایک جج دوست کے سامنے بندے کو مجروح کرنے کا ایک کیس لایا گیا ۔
ایک فوجی حکومت کے دور کی بات ہے اور ملزمان جنرل صاحب کے رشتے دار تھے ۔
جج کو صرف فیصلے کے لئے بلایا تھا اور کچہری بھی کھلی کچہری تھی ۔
جج صاحب کے ساتھ چار جرنیل بھی بیٹھے تھے ،۔
اور جج صاحب کو کہا گیا تھا ملزمان کو بری کر دینا ہے ۔
میز پر سرخ اور سفید کارڈ پڑے تھے ۔
جج صاحب کو حکم تھا کہ سب باتیں سن کر ، آخر میں سفید کارڈ اٹھا کر دیکھا دینا ۔
بس اتنا سا کام ہے ۔
اب معاملہ یہ تھا کہ
ملزمان نے ایک بندے کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ، اس کی انکھیں بھی نکال دی تھیں اور زبان کی بھی کاٹ دی تھی ۔
جمی ! یہاں تک بتا کر کہتا ہے
یار خاور ! تم خود ہی بتاؤ کہ اب یہ بندھ تو نہ ہوا “ ٹنڈ” ہوا ناں جی ٹنڈ !!۔
بندہ مرنے سے تو بچ گیا تھا ، اور زخم بھی بھر چکے تھے ۔
کہتا ہے جب یہ عدالت نما ڈرامہ چل رہا تھا ۔
تو کیا ہوا کہ مجروح کے گاؤں کے مراثی نے اس مجروح کو ٹوکرے میں ڈال کر عدالت یعنی کہ کھلی کچہری میں لے آیا۔
اور مراثی جج صاحب کو مخاطب کر کے کہتا ہے ۔
جج صاحب اے ویکھ لو ، تے فیصلہ کر دیو! جان تساں وی رب نوں دینی اے ۔
جج بتاتا ہے کہ یہ وہ لمحات تھے جب میں نے فیصلے کا کارڈ دیکھانا تھا ۔
ٹوکرے میں پڑے اس ٹنڈ نما بندے کو دیکھ کر میرے رونکھٹے کھڑے ہو گئے ، ایک عجیب سے احساس کی لہر میرے جسم میں سے گزر گئی
میرا ہاتھ خود بخود ہی سرخ کارڈ پر جا پڑا اور میں نے بے اختیار سرخ کارڈ اٹھا دیا ۔
جرنل صاحب نے اپنے سگوں کو کسی ناں کسی طرح بچا ہی لیا تھا ۔
اور مجھے بھی نوکری چھوڑنی ہی پڑی تھی کہ جرنل صاحب بڑے ہی طاقت ور تھے ۔
یہاں تک بتا کر چوہدری جمی کہتا ہے ۔
جج نے مجھے پوچھا کہ چوہدری اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟
میں نے جواب دیا تھا کہ میں بھی یہی کرتا جو آپ نے کیا ہے ۔
پھر چوہدری جمی مجھے پوچھتا ہے
خاور اگر تم ہوتے تو کیا کرتے ؟
میں چوہدری جمی کے سوال کا جواب نہیں دے سکا تھا
کیونکہ مجھے اپنی غربت اور کم مائگی کے احساس نے خاموش کردیا تھا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں