عمر رفتہ
کوئی بیس سال بعد اس کو لندن جانے کا اتفاق ہوا ،۔ایک وقت تھا کہ پیریس سے لندن ہر ہفتے کا ویک اینڈ گزرتا تھا ، ہفتے کی شام لندن پہنچ کر ساری رات گلیون کی آوارہ گردی ہوتی یا کسی ناں کسی سہیلی کے روم میں شب بسری کر کے اتوار کی شام کو پیرس واپس ،۔
یورپ کے شمالاً جنوباً شہروں کے نام گامے کو اپنی سہلیوں کے ناموں سے یاد رہتے تھے ۔
پھر یہ ہوا کہ یورپ چھوڑا ، مشرق میں بسیرا کیا ، مشرق بھی کہ مشرق بعید جس کو خاور کہتے ہیں فارسی میں ۔
فجر کی نماز ، مسجدوں سے زیادہ اسٹیشنوں کے بنچوں پر ادا کرنے والے اس پلے بوائے کو یورپی لوگ مسلمان کہتے تھے اور اس کے اپنے اس کو کافر کہتے تھے اور وہ بھی پیٹھ پیچھے !۔
ایمبارکمنٹ کے اسٹیشن سے جوانی کی عادت کے مطابق پیدل ہی چلتے ہوئے چئیرنگ کراس کے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ٹیلی فون کا وہ لال بوتھ جو یہاں کونے میں ہوتا تھا ، سمارٹ فون کی بہتات میں اپنی بقا کی جنگ ہار گیا ،۔
ٹیلی فون کے لال بکس والی جگہ پر اب کوڑے والوں کا صفائی کا سامان پڑا تھا ۔
ٹگالگر سکوائیر کے کبوتروں والے فوارے کی بغلی سڑک کی جڑہائی چڑھتے اس کو اپنی عمر کا احساس بہت شدت سے ہوا کہ یہ بھی کوئی چڑہائی ہے کہ جس میں اج ٹانگوں کے مسل کھچ رہے ہیں ،۔
ٹفالگر کے گرد ادھا چکر کاٹ کر سیدہے ہاتھ کو مڑتے ہی ماتسکوشی کا براڈڈ چیزوں کا سٹور نظر آیا ۔
یہاں ساتھ ہی آکسفورڈ سٹریٹ کی کتابوں کی وہ دوکان بھی اس کو یاد آ گئی ، جہاں گھنٹوں کھڑے ہو کر کتابیں پڑھا کرتا تھا ، زیبراکراسنگ کے بغر ہی درمیان سے سڑک کراس کر کے جب کونے والی دوکان تک پہنچا تو ، کتابون کی دوکان ختم ہو چکی تھی اب وہاں گروسری سٹور تھا ۔
جب ، جس ملک سے کتابوں کی دوکانیں ختم ہونے لگیں اور کھانے کی دوکانیں بڑھنے لگیں تویہ اس ملک کے علمی انحطاط کی نشانی ہوتی ہے ۔
کسی سیانے کا یہ قول اس کے ذہن میں آیا تو اس سوچ کی لہر بھی گزر گئی کہ
برطانیہ عظمی بھی علمی انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے ؟
ہاں ! کیوں نہیں ، کہ اج علم کے ممبے تو امریکہ سے پھوٹتے ہیں ۔
پکڈلی کے فوارے کے پاس سے گزر رہا تھا کہ نسوانی آواز نے اس کو چونکا دیا جو کہ اس کو نام لے کر پکار رہی تھی ۔
عورت کی سکل دیکھ کر دو لمحے بے تاثر سے گزر گئے کہ عمر رفتہ کے اثار سے اصلی چہرہ نمودار ہوا ۔
ایمی ؟؟
ہاں ایمی ۔ تم مجھے کیسے بھول سکتے ہو ۔ یا کہ تم جتنی مضبوط یادداشت والے ہو ، ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کی شکلیں اور نام تمیں یاد ہوں گے ۔
تمہاری طنز کرنے کی عادت نہیں گئی ، کرتی کیا ہو؟
ساتھ چلو ، اکیلی ہی ہوں شوہر سے طلاق لے لی ہے ، بچے شوہر کے پاس ہیں ، نائٹس بریج کے پاس اپارٹ میں رہتی ہوں۔
گاما رات ایمی کے گھر ہی رہا ، صبح فجر کی نماز ادا کر رہاتھا کہ ایمی بھی جاگ کر رہیں آ گئی ۔
جوانی میں بھی بغیر غسل کئے نماز ادا کرنے والے سے میں کیسے توقہ کرسکتی ہونکہ وہ بڑھاپے میں نماز چھوڑ دے گا ۔
گامے نے یہ سن کر بے تاثر سی نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں ۔
جوانی میں تم سے مل کر پہلی دفعہ علم ہوا تھا کہ مسلمان نماز بھی پڑھتے ہیں ، اور تمہاری ہر فجر کی نماز کے بعد لازمی وچھوڑے کی تلخ یادیں بھی ہیں ۔
لیکن ہو ہی ہرجائی ، نہ تم میرے تھے اور ناں کسی اور کے پتہ نہیں کتنی لڑکیون نے تمہاری فجر کی نماز کو یادوں میں بسا رکھا ہو گا کہ گاما جب بھی فجر کی نماز ادا کرتا ہے تو پھر شائد ملے کہ نہ ملے ۔
مجھے بھی تو اج رات ، تم کوئی اکیس سال پہلے ادا کی فجر کی نماز کے بعد ملے ہو ۔
،تم نے مجے بوڑھا کہا ہے ۔ کیا میں واقعی بوڑھا ہو گیا ہوں ؟
گامے نے بڑے کرب سے پوچھا ۔
ہاں تم بوڑھے ہو چکے ہو ، تمہاری جوانی کی ہر لڑکی یہ سمجھتی تھی کہ گاما کبھی بوڑھا نہیں ہو گا
اور شائد میں پہلی عورت ہوں جس نے اج کی گزری رات میں تمہارا زور ٹوٹتے محسوس کیا ہے ۔
تم آئیندہ جب کسی پرانی یا نئی سہیلی کے ساتھ ملو گے تو آئینے میں دیکھنا
تمہاری پیٹھ ڈھلک چکی ہے ۔
ہاں تمہاری پیٹھ کا گوشت ۔
اب تمارے پاس دوسری یا تیسری دفعہ کسی پیاسے کی پیاس بجھانے کی نمی بھی نہیں ہے ۔
گاما سیڑہیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔
اب مرنے تک نامعلوم کتنی عورتوں کے طنز سننے پڑیں گے ، وہ عورتیں جن کو وقت گزاری کا پرزہ سمجھتا رہا وہ بھی گوشت پوست کی انسان تھیں ان کے بھی جذبات تھے جو اب جب جب بھی سننے کو ملیں گے طنزمیں ہی ملیں گے ۔
یورپ کے شمالاً جنوباً شہروں کے نام گامے کو اپنی سہلیوں کے ناموں سے یاد رہتے تھے ۔
پھر یہ ہوا کہ یورپ چھوڑا ، مشرق میں بسیرا کیا ، مشرق بھی کہ مشرق بعید جس کو خاور کہتے ہیں فارسی میں ۔
فجر کی نماز ، مسجدوں سے زیادہ اسٹیشنوں کے بنچوں پر ادا کرنے والے اس پلے بوائے کو یورپی لوگ مسلمان کہتے تھے اور اس کے اپنے اس کو کافر کہتے تھے اور وہ بھی پیٹھ پیچھے !۔
ایمبارکمنٹ کے اسٹیشن سے جوانی کی عادت کے مطابق پیدل ہی چلتے ہوئے چئیرنگ کراس کے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ٹیلی فون کا وہ لال بوتھ جو یہاں کونے میں ہوتا تھا ، سمارٹ فون کی بہتات میں اپنی بقا کی جنگ ہار گیا ،۔
ٹیلی فون کے لال بکس والی جگہ پر اب کوڑے والوں کا صفائی کا سامان پڑا تھا ۔
ٹگالگر سکوائیر کے کبوتروں والے فوارے کی بغلی سڑک کی جڑہائی چڑھتے اس کو اپنی عمر کا احساس بہت شدت سے ہوا کہ یہ بھی کوئی چڑہائی ہے کہ جس میں اج ٹانگوں کے مسل کھچ رہے ہیں ،۔
ٹفالگر کے گرد ادھا چکر کاٹ کر سیدہے ہاتھ کو مڑتے ہی ماتسکوشی کا براڈڈ چیزوں کا سٹور نظر آیا ۔
یہاں ساتھ ہی آکسفورڈ سٹریٹ کی کتابوں کی وہ دوکان بھی اس کو یاد آ گئی ، جہاں گھنٹوں کھڑے ہو کر کتابیں پڑھا کرتا تھا ، زیبراکراسنگ کے بغر ہی درمیان سے سڑک کراس کر کے جب کونے والی دوکان تک پہنچا تو ، کتابون کی دوکان ختم ہو چکی تھی اب وہاں گروسری سٹور تھا ۔
جب ، جس ملک سے کتابوں کی دوکانیں ختم ہونے لگیں اور کھانے کی دوکانیں بڑھنے لگیں تویہ اس ملک کے علمی انحطاط کی نشانی ہوتی ہے ۔
کسی سیانے کا یہ قول اس کے ذہن میں آیا تو اس سوچ کی لہر بھی گزر گئی کہ
برطانیہ عظمی بھی علمی انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے ؟
ہاں ! کیوں نہیں ، کہ اج علم کے ممبے تو امریکہ سے پھوٹتے ہیں ۔
پکڈلی کے فوارے کے پاس سے گزر رہا تھا کہ نسوانی آواز نے اس کو چونکا دیا جو کہ اس کو نام لے کر پکار رہی تھی ۔
عورت کی سکل دیکھ کر دو لمحے بے تاثر سے گزر گئے کہ عمر رفتہ کے اثار سے اصلی چہرہ نمودار ہوا ۔
ایمی ؟؟
ہاں ایمی ۔ تم مجھے کیسے بھول سکتے ہو ۔ یا کہ تم جتنی مضبوط یادداشت والے ہو ، ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کی شکلیں اور نام تمیں یاد ہوں گے ۔
تمہاری طنز کرنے کی عادت نہیں گئی ، کرتی کیا ہو؟
ساتھ چلو ، اکیلی ہی ہوں شوہر سے طلاق لے لی ہے ، بچے شوہر کے پاس ہیں ، نائٹس بریج کے پاس اپارٹ میں رہتی ہوں۔
گاما رات ایمی کے گھر ہی رہا ، صبح فجر کی نماز ادا کر رہاتھا کہ ایمی بھی جاگ کر رہیں آ گئی ۔
جوانی میں بھی بغیر غسل کئے نماز ادا کرنے والے سے میں کیسے توقہ کرسکتی ہونکہ وہ بڑھاپے میں نماز چھوڑ دے گا ۔
گامے نے یہ سن کر بے تاثر سی نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں ۔
جوانی میں تم سے مل کر پہلی دفعہ علم ہوا تھا کہ مسلمان نماز بھی پڑھتے ہیں ، اور تمہاری ہر فجر کی نماز کے بعد لازمی وچھوڑے کی تلخ یادیں بھی ہیں ۔
لیکن ہو ہی ہرجائی ، نہ تم میرے تھے اور ناں کسی اور کے پتہ نہیں کتنی لڑکیون نے تمہاری فجر کی نماز کو یادوں میں بسا رکھا ہو گا کہ گاما جب بھی فجر کی نماز ادا کرتا ہے تو پھر شائد ملے کہ نہ ملے ۔
مجھے بھی تو اج رات ، تم کوئی اکیس سال پہلے ادا کی فجر کی نماز کے بعد ملے ہو ۔
،تم نے مجے بوڑھا کہا ہے ۔ کیا میں واقعی بوڑھا ہو گیا ہوں ؟
گامے نے بڑے کرب سے پوچھا ۔
ہاں تم بوڑھے ہو چکے ہو ، تمہاری جوانی کی ہر لڑکی یہ سمجھتی تھی کہ گاما کبھی بوڑھا نہیں ہو گا
اور شائد میں پہلی عورت ہوں جس نے اج کی گزری رات میں تمہارا زور ٹوٹتے محسوس کیا ہے ۔
تم آئیندہ جب کسی پرانی یا نئی سہیلی کے ساتھ ملو گے تو آئینے میں دیکھنا
تمہاری پیٹھ ڈھلک چکی ہے ۔
ہاں تمہاری پیٹھ کا گوشت ۔
اب تمارے پاس دوسری یا تیسری دفعہ کسی پیاسے کی پیاس بجھانے کی نمی بھی نہیں ہے ۔
گاما سیڑہیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔
اب مرنے تک نامعلوم کتنی عورتوں کے طنز سننے پڑیں گے ، وہ عورتیں جن کو وقت گزاری کا پرزہ سمجھتا رہا وہ بھی گوشت پوست کی انسان تھیں ان کے بھی جذبات تھے جو اب جب جب بھی سننے کو ملیں گے طنزمیں ہی ملیں گے ۔
4 تبصرے:
مجھے تو اس تحریر میں کچھ دنوں بعد کا اپنا آپ نظر آ را
عرصہ دراز بعد کوئی اتنی اچھی تحریر پڑھی
بہت ہی عمدہ
وقت آفاق کے جنگلوں کا جواں چیتا ہے
میری دنیا کے غزالوں کا لہو پیتا ہے
بڑے عرصے بعد کچھ اچھا پڑھنے کو ملا۔۔۔ بہت عمدہ۔۔۔
بہت کمال کی تحریر....اس میں کوئی شک نہیں کہ خاور جب لکھتا ہے کمال لکھتا ہے
ایک تبصرہ شائع کریں