ہفتہ، 15 جون، 2019

ایک کا خرچا دوسرے کی کمائی



ایک تحریر ، ان کے لئے جو تھوڑی سی عقل ، تھوڑا سا درد دل  رکھتے ہیں یا کہ کم از کم بے عقل نہیں ہیں ،۔
کہ
پاکستان میں رویہ بن چکا ہے کہ ایوان صدر کے خرچے ہوں کہ وزیر اعظم ہاؤس کے خرچے  ! سوشل میڈیا پر لوگ لٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں ،۔
عید ہو کہ شبِ برات  ، کوئی میلا ہو کہ بسنت ، بلکہ اب تو لوگ کسی کی شادی پر کے بھی خرچوں پر کوسنے دے دے کر  کوس رہے ہوتے ہیں ،۔
میں جانتا ہوں یہ فلسفہ کہاں سے آیا 
لیکن اس کی نشاندہی نہیں کروں گا کہ بات کسی  اور طرف چلی جائے گی اور جو بات میں کہنا چاہتا ہو پسِ پشت چلے جائے گی ،۔
یہ جو خرچے ہوتے ہیں 
مثال کے طور پر  ایوان صدر کے لئے طوطے کا پنجرہ بنوانا ہے م،۔
اس پر جو بھی رقم مختص ہو گی ، وہ کہاں جائے گی ؟
وہ پاکستان کے کسی شہری ٹھیکدار کی اکاؤنٹ میں جائے گی ،  وہ ٹھیکدار اس رقم میں سے کچھ رقم کسی مستری کو دے گا کہ پنجرہ بنوا دو ، وہ مستری بھی پاکستان کا شہری ہے ،۔
مستری اس پنجرے کے لئے بازار سے لوہا خریدے گا ، جس پر لوہے کا دوکان دار منافع کمائے گا ، وہ دوکاندار بھی پاکستانی شہری ہے ،۔
ہر بندہ ایوان صدر سے ملنے والی اس رقم میں سے کچھ نہ کچھ منافع کما رہا ہے ،۔
یہ منافع وہ بندہ کسی ریسٹورینٹ میں جا کر خرچ کرئے گا ، اس ریسٹورینٹ میں کام کرنے والے کک اور بیرے  بھی ایوان صدر سے ملنے والی رقم سے مستفید ہوں گے  ؟
اس طرح ایک سلسلہ چلے کا جو دولت کو گراس روٹ لیول تک لے کر جائے گا م،۔
اور یہ سارے فائدے عام پاکستانی اٹھا رہے ہوں گے ،۔
اسی طرح ٹھیکدار نے ایوان صدر سے ملنے والی رقم سے لمبی ہی دیہاڑی لگائی ہو گی ؟
اس بکر عید پر وہ ٹھیکیدار منڈی سے بیس لاکھ کا بیل خرید کر قربانی کرئے گا ،۔
وہ بیل کہاں سے آیا ہو گا ؟
چیچوکی ملیاں کے کسی آرائیں نے پالا ہو گا ،۔
گوجرانوالہ کے کسی مہر  کے گھر کا بچھڑا ہو ؟
ایک سال کی محنت سے پال پوس کر  بیس لکھ کا بیل بیچنے والا بھی ایک پاکستانی ہی ہو گا ،۔
جب بیس لاکھ اس مہر یا آرائیں کے گھر پنچے کا تو َ
ہو سکتا ہے اس نے بیٹی کی شادی کرنی ہو  ؟
مہر کی بیٹی بھی پاکستانی ہے اور اس کی شادی پر ہونے والے خرچے ، کپڑوں کی خرید داری ، زیور بنوانے ، کھانا پکوانا ، یہ سب خرچے جو ہو رہے ہیں وہ سب خرچے کسی نہ کسی کی کمائی کا باعث بن رہے ہیں  ؟
اور میری نظر میں یہ ساری کمائی کرنے والے میرے اپنے لوگ ہیں پاکستانی  !،۔
اے اے عقل رکھنے والو !۔
یہ ایک طریقہ کار ہے،  اکنامک کا، دولت کو معاشرے میں بانٹنے کا ،۔
لیکن  پسماندہ ممالک میں دولت بانٹنے کے اس طرقہ کار کو سب سے بڑی روکاٹ لگاتی ہیں ان ممالک کی فوجیں ،۔
اگر فوج کی وردیاں ، فوج کے بوٹ ، فوج کا دلیہ ، فوج کی بالٹیاں ، بیلچے  بیلٹس اور دیگر سامان ، ٹھیکے پر سول سوسائیٹی سے بنوایا جائے ، جیسا کہ امریکہ فرانس  جرمنی برطانیہ وغیرہ کرتے ہیں تو  ؟
اوپر دی گئی ایوان صدر کے پنجرے کی مثال کی طرح دولت  معاشرے میں بکھر کر اپنے ثمرات بانٹتی ہے ،۔
لیکن پس ماندہ ممالک کی افواج یہ سارے ٹھیکے  اپنے ہی جنریلوں کو دے کر ڈیفینس کے علاقوں میں فیکٹریاں اور گودام بنا کر دولت کو ڈفینس تک محدود کر دیتے ہیں جس سے ڈیفینس کی زندگی اور سول معاشرے کی زندگیوں میں طبقاتی فرق در آتا ہے ،۔
جاپان میں کاروباری لوگ ٹیکس بچانے کے لئے ایک ٹیکٹ استعمال کر تے ہیں ،۔
دو سو ملین کی انکم پر چالیس فیصد (اندازاً ) انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے ،۔
لیکن 
ایک سو ملین کی انکم پر دس فیصد(اندازاً ) ٹیکس ہوتا ہے ،۔
کاروباری لوگ جب دیکھتے ہیں کہ اس سال انکم دوسو ملین سے تجاوز کر رہی ہے تو ؟
جاپانی   لوگ ٹیکٹ استعمال کرتے ہیں کہ
نئی مشینیں خرید کر ، اور اپنے ورکروں کو بونس کے نام پر  نقد رقم دے پر ایک ڈیڑھ سو ملین خرچ کر کے دیکھا دیتے ہیں ،۔
جس سے انکم ٹیکس صرف دس فیصد رہ جاتا ہے ،۔
جاپان کی حکومت کی نظر میں ان کا یہ ٹیکٹ کوئی جرم نہیں ہے 
کیونکہ بونس کی مد میں دی گئی رقم جاپانی شہریوں کی انکم بنے گی اور نئی مشنری خریدی گئی رقم جاپان کی صنعت  کی کمائی بنے گی ،۔
بونس میں ملنے والی رقم ایوان صدر کے پنجرے والی مثال کی طرح ،  قوم کے پاس بکھر کر ایک کا خرچا دوسرے کی کمائی بنے گی ،۔
تحریر خاور کھوکھر

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts