منگل، 21 مئی، 2019

پاء منّو


آج مجھے  اسّی کی دہائی کا گوجرانوالہ کا ایک کردار یاد آ گیا ،۔
کیا دلچسپ انسان تھا  ،۔
پاء منّو !،۔
اصلی نام مجھے یاد نہیں ، اس کی بسیں چلتی تھی  گجرات سے لاہور ،۔
گوجرانوالہ کے لاری اڈے پر سارا دن سفید کپڑے پہنے مختلف مکینکوں کے پاس پھرتا رہتا تھا ،۔
پہس مکھ ، یار باش  اور حاضر جواب ،۔
 پا منّو نے گوجرانوالہ کے ریجنٹ سیمنا میں منور ظریف کی فلم چکر باز لگا لی ،۔
سارے لاری اڈے پر مشہور ہو گیا کہ پاء منّو نے فلم لگائی ہے اور اج کل پاء منو سیمنا میں ہی ہوتا ہے ،۔
گوجرانوالہ کے لاری اڈے  کے مکینکوں کے سارے شاگرد لوگ  پاء منو کے پاس فلم دیکھنے کے لئے گئے ، کئی تو کئی کئی دفعہ گئے ،۔
ہر دفعہ مفت فلم اور  کھانا کھا کر واپس آتے تھے ،۔
مجھے خود تو جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔
لیکن آس پاس کے سارے منڈے پا منو سے کھانا کھا کر آئے تھے ،۔
تین ہفتے بعد جب فلم اتری تو پاء منو  پھر لاری اڈے پر نظر آیا ،۔
مجھے پوچھتا ہے ،۔
اوئے توں نئیں آیا فلم ویکھن ؟
تو میں نے اس سے پوچھا 
پاء منو فلم لگانے پر کمائی تو بہت ہوتی ہو گی ؟
کتنے پیسے کمائے ہیں تین ہفتے میں ؟
پاء منو نے  بڑے فخر سے بتایا : پچہتر روپے (تقریباً دس امریکی ڈالر)!،۔
میں نے بڑی حیرانی سے پوچھا صرف پچہتر روپے ؟ کیا یہ بہت کم نہیں ہیں ؟
پاء منو نے تاریخی جواب دیا ، ان الفاظ کی بازکشت اج بھی میرے ذہن میں  گھونجتی ہے ،۔
لے ، سارے شہر دے یار خوش کر کے فیر وی کجھ پیسے بچ گئے نے ، تینوں اے تھوڑے لغدے نے پئے !!،۔
یعنی سارے شہر کے دوستوں کو خوشیاں دے کر پیسے بھی بچ گئے ہیں یہ تھوڑی بات ہے م۔
اس سوچ کے اس بندے سے وابستہ کچھ اور یادیں بھی ہیں کہ
لاری اڈے پر برقعہ پہنے بچہ اٹھائے بھیک مانگنے والی جب آتی تھیں تو سب کو بھائی کہہ کر پکارتی تھیں ،۔
تاش کھیلتے ہوئے  پاء منو کو جب ایک بی بی نے بھائی کہہ کر مخاطب کر بھیک کا سوال کیا تو پاء منو بدک گیا 
اور اس بی بی کو کہتا ہے ،۔
بیٹھ جا پہن میری ، اور بتا کہاں ہے میرا بہنوئی  پئین چ۰۰ !، کیا کرتا ہے وہ کتی کا ب۰ ۰، جس نے میری بہن کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے،۔
ابھی بتا یا پھر مجھے ساتھ لے کر چل کہیں اس کو نوکری دیتا ہوں ، اگر معذور ہے تو اس کا علاج کرواتا ہوں ۔
مجھے اس عورت کا جان چھڑا کر بھاگنا اب تک یاد ہے ،۔
اُس زمانے میں سفید پوش بھکاری ہوتے تھے جو ٹولے میں ہوتے تھے ایک عورت ایک بزرگ اور ایک جوان کے ساتھ ایک بچہ !،۔
ان کا کہنا ہوتا تھا کہ فیصل آباد سے آئے ہیں 
یہان گوجرانوالہ میں جیب کٹ گئی ہے ،۔
واپسی کا کرایہ نہیں ہے ،۔
مستعار پیسوں کے نام پر بھیک نما کام کرتے تھے ،۔
ان لوگون کا کہنا ہوتا تھا کہ اپ ہمیں مستعار پیسے دیں ہم گھر پہنچ کر آپ کے پیسے اپ کو منی آڈر کر دیں گے ،۔
ایک دن  پاء منو اس خاندان کو ٹانگے پر بٹھا کر لاری اڈے لے آیا 
اور فیصل آباد جانے والی  بس کے پاس جا کر کنڈکٹر اور ڈائیور سے پوچھتا ہے کیا تم مجھے جانتے ہو ؟
ڈائیور اور کلینڈر نے بیک زبان کہا  ، ہاں پاء منو  کیوں نہیں !،۔
تو پھر یہ میرے عزیز ہیں ان کو فیصل آباد تک لے کر جانا ہے ،۔
اور خبردار اگر ان سے کرایہ لیا یا کہ ان کو فیصل آباد سے پہلے کہیں اترنے دیا ،۔
اب پتہ نہیں کہ اس خاندان پر کیا بیتی لیکن پاء منو نے ان کو فیصل آباد روانہ کر دیا تھا ،۔
اور مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ یہیں کہیں گوجرانوالہ کے نوحی گاؤں کے تھے 
اور بس کے عملے نے بڑی ذمہ داری سے ان کو فیصل آباد پہنچا دیا ہو گا ،۔
اب واپسی کا کرایہ فصل آبادیوں سے مانگیں گے ،۔

پاء منو کا ایک بہنوئی بھی تھا حاجی بشیر ،۔
یہ بندہ بھی اپنی  جگہ ایک کریکٹر تھا ،۔
اس پر پھر کبھی لکھوں گا ،۔
بس اتنا سمجھ لیں کہ حاجی بشیر پاء منو کے بچوں کا پھپھڑ تھا ،۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts