پنجاب کی جاتیاں
دادے کی زمین داری تھی ، چوہڑا لوگ سیپی کر کے زمینوں پر رکھے ہوئے تھے ،۔
چوہڑا لوگوں کا کھانا پینا علیحدہ ہوتا تھا ،۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے شادی بیاھ پر چوہڑوں کے خاندان کے بچے بوڑھے اور خواتین کھانا کھانے آتے تھے ، ان کو بھی انہی برتنوں میں کھانا دیا جاتا تھا ، جیسا کہ سب لوگوں کو ،۔
میں نے دادی سے پوچھا کہ ان کے برتن علیحدہ کیوں نہیں ہیں ؟
تو مجھے بتایا گیا کہ کرائے کے برتن ہیں سب کے سانجھے ہیں !،۔
دلچسپ سوال اس دن پیدا ہوا جس دن ایلس اور یونس مسیح کے بیٹے کی شادی تھی
اور اگلے دن ولیمے پر دادا جی کو بھی بمعہ اہل عیال بلایا ہوا تھا ،۔
میں نے پوچھا کہ
ہم چوہڑوں کے گھر کا کھانا کھائیں گے ؟
تو مجھے بتایا گیا کہ رسم پوری کرنے کے لئے دادا جی چوہڑوں کے گھر میں جائیں گے ، اور وہاں سے کچا کھانا ملے گا جو ہم خود پکا کر کھائیں گے
کہ
پنجاب کی یہی رسم ہے ،۔
اپنی جاتی سے اعلی جاتی کے گھر جا کر کھایا جا سکتا ہے لیکن اپنے سے کمتر جاتی سے تعلق تو رکھنا ہے اس لئے کمتر جاتی کے گھر سے کچا کھانا سوجی گھی چینی وغیرہ آ جائے گا م،۔
پنجاب میں سکھ جاٹوں کے کئی ایسے گاؤں تھے جو تقسیم سے پہلے ایک ہی برادری کے لوگ سکھ دھرم کے بھی تھے اور مسلمان بھی تھے ،۔
تحصیل ڈسکہ کے دو مشہور گاؤں آدمکے چیمہ اور آدمکے ناگرہ
ہر دو گاؤں میں چیمے اور ناگرے سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی ، ان کے کھروں میں شادی بیاھ پر نیوندرے کا بھی لین دین ہوتا تھا ، کھانے کی دعوتیں بھی ،۔
ایک ہی گوت کے جاٹوں میں سکھ جاٹ اعلی جاتی کے ہوتے تھے اور مسلمان ، نیچ جاتی کے ۔
اس لئے مسلمان چیمے ناگرے تو سکھ چیمے ناگروں کے شادی بیاھ پر کھانا کھانے چلے جاتے تھے
لیکن
خود ان کے گھروں میں ہونے والی شادیوں میں سکھ چیمے اور ناگروں کے گھر کچا اناج بھیجا جایا کرتا تھا،۔
پاکستان بننے کے بعد عظمت اسلام کے شور میں پاکستان کی پچھلی چار نسلوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہماری معاشرتی حثیت کیا تھا ؟
مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مغل شہزادے ؟
پاکستان میں تعلیم دی جاتی ہے کہ انگریزوں نے مغلوں سے ہندوستان چھین لیا تھا ،۔
لیکن
ستائیس جون 1839ء کا دن مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مرن دن ہے !،۔
رنجیت سنگھ کہ حکومت ملتان کشمیر سے لے کر توخم تک پبھیلی ہوئی تھی ، یعنی کہ تقریباً اج کا پاکستان اور ہندوستان کا پنجاب اور ہریانہ راجہ رنجیت سنگھ کی قلم رو تھا ،۔
سن 1857ء کا غدر المعروف جنگ آزادی سے کوئی اٹھارہ سال پہلے موجودہ پاکستان پر کا حکمران حکومت کر کے گزر بھی چکا تھا ،۔
تو اس کا مطلب ہوا کہ موجودہ پاکستان کا علاقہ انگریز نے راجہ رنجیت سنگھ سے یا کہ اس کی اولاد سے سازشیں کر کے حاصل کیا تھا ؟
تو یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے
کہ
پاکستان میں رہنے والے مغل شہزادے المروف لوہاراں ترکھاناں دے منڈے سکھا شاہی کے دور کو بائی پاس کر کے اپنا شجرہ بہادر شاھ ظفر سے کس طرح ملاتے ہیں ؟
موجودہ پاکستان کے مغلوں کی سلطنت مغلیہ کے دور کی جاگیریں کیا ہوئیں ؟
شیر سوری نے تھوڈل مل سے مل کر پٹوار کا نظام بنایا تھا ، اس نظام کے تحت مغلوں کی زمینوں کی ملکیت کی طرح کا شجرہ ہونا چاہئے ہے جیسا کہ جاٹوں کا ہوتا ہے ،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں