جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

امن پروگرام ، اور پاک لوگ

جاپان سے دبئی کے لئے پرواز تھی میری پچھلے ہفتے
اکانومی کے کانٹر پر کھڑا تھا کہ فرسٹ کلاس کے کانٹر پر دو شلوار قمیض پہنے پٹھان کھڑے دیکھ کر بڑے رشک کا احساس ہوا
لاؤنج میں ان سے ملاقات ہو گئی
فارسی میں باتیں کرتے دیکھ کر احسا س ہوا کہ
بندے افغان ہیں
ان میں سے ایک سے بات شروع کی تو علم ہوا کہ اغان ہی ہیں
اور جاپان کی حکومت کی سکیم کے تحت جاپان دورے پر اآئے ہوئے تھے
اور پروگرام تھا
پیس پروگرام
یعنی کہ امن پروگرام
اج صبح یہان شارجہ میں ایک ریسٹورینٹ پر پاک ٹی وی دیکھنے کا اتفاق ہوا
 عمران صاحب کے امن مارچ کا پروغرام چل رہا تھا
جس مٰیں ان کے ساتھ
شامل ہوں گے بتیس امریکی ، اور وہ والی خاتون  جس کے اسلام قبول کرنے کے بڑے چرچے ہیں
سابق برطانوی وزیر اعظم کی سالی !!
پروگرام کروانے والے تھے جی حامد میر صاحب
جن کے متعلق میرا خیال ہے کہ یہ صاحب فرشتوں کے ایجنڈے کا مشہوری کا ذمہ دار بندہ ہے
بات کرنے کا مقصد ہے کہ
یہ کیا بات ہے کہ جو بھنک "آسمانوں" سے نکلتی ہے
وہی بات پاکستان کے بڑوں کے منہوں سے نکلنے لگتی ہیں
اور اس بات کو خاص پاک سیانوں کا آئیڈیا بتا کر بیان کیا جاتا ہے
کہ یہ امن پروگرام جاپان کی ایک سرکاری تنظیم کے کرنے کی بھنک ملتی ہے اور
پاکستان میں وہی الفاظ استعمال کرنے والے سیانے نکل آتے ہیں
یہ بات ہے کہ
آئیڈیا بھی کہیں اور سے اتے ہیں اور امداد بھی
اور حکم بھی اور حکمران بھی
کیا ہم آزاد ہیں
یا کہ یہ ہے آزادی
ہم کیا قوم ہیں
ادمی مشاہدے کا غلام ہے
میرا مشاہدہ مجھے امریکیوں کا غلام براستہ فرشتے دیکھاتا ہے
ہم وہ قوم ہیں کہ جس کے لکھنے والے بھی اوریجنل آئیڈیا نہیں رکھتا
سیاستدان بدذات خود ہی اوریجنل نہیں ہے
میری قوم کی سوچ تکنیک ، علم کچھ بھی اوریجنل نہیں رہا ہے
میری قوم کی سوچ ، علم تکنیک اگر دوسروںکے مقابلے میں کم تر بھی ہو تو اندیشہ نہیں ہے کہ
کبھی بڑھیا بھی ہوا ہی جائیں گے
لیکن
ہر چیز ہی نقلی اور اس پر لیبل ہیں لگاتے ہیں اصلی کا
جب میں نے یہاں تک لکھ لیا تو یہاں میرے پاس جاپان میں پی ٹی آئی کے تھویاما کے صدر بھیٹھے ہیں
انہوں نے عمران کی وکالت شروع کر دی اور انہوں نے بتایا ہے کہ عمران کا یہ امن پروگرام کا آئیڈیا تین مہینے پہلے کا ہے
خاور کی یہ تھریر پڑحنے والے سوچیں گے کہ خاور کی سوچ محدود اور تعصب بھری ہے
لیکن
میں کہوں کا گا کہ امن پروگرام کی بھنک مجھے جب ملی تو اس وقت لوگ جاپان کا دورہ کرکے واپس جا رہے تھے
یعنی کہ یہ بات کچھ ماہ پہلے ہی شروع ہوئی ہو گی تو اج مجھ جیسے عام سے بندے کے مشاہدے میں ائی ہو ناں جی!!
میں عمران کے خلاف نہیں ہوں
میں اس سسٹم کے خلاف ہوں جو عمران کو یا شریفیں کو یا بھٹو کو یا کسی کو بھی سیاستدان بنا کر اور قوم کا نجات دہندہ بنا پیش کرتے ہیں اور قوم کی نجات اور بھی دور ہوتی چلی جاتی ہے

3 تبصرے:

Dohra Hai کہا...

ہم نے پہلے دِن سے ہی کِسی دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر لِکھنا شُروع کیا اور پس پھِر اِسی کے عادی ہوگئے خود سے لِکھنےکی کبھی کوشش ہی نہ کی۔ ہم نے دیکھا کہ جو خود لِکھے تو اُس سے قلم چھین لیا جاتا ہے بس پھر تو اِس خواہش کا گلا ہی گھونٹ دیا۔ خاور صاحب ،لکھنے کے لئے اور خود سے سوچنے کے لئے کچھ موزوں حالات کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ابھی ہم آزاد ہی کہاں ہوئے ہیں جو خود سے فیصلہ کرنے کےقابل ہو جایئں؟ مگر نِت نئے تجربے کرنے یا اُن کا حِصہ بننے سے ہم اِک پروسس کا حِصہ تو بنیں گے نہ کبھی نہ کبھی یہ زنجیریں ٹوٹیں گی نہ بھلے ہم نہ ہی توڑیں خود ہی گل سڑ کر ٹوٹ جائیں۔یہ امن مارچ بھی اِک ڈھکوسلہ ہی سہی مگر ہمیں زِندہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کُچھ تو کرنا ہے ایسا یا ویسا۔

جعفر کہا...

ہماری تو گالیاں بھی اوریجنل نی رہیں۔ تکنیک وغیرہ تو دور کی بات رہ گئی۔ اب ایف ورڈ کا فیشن ہے۔

افتخار اجمل بھوپال کہا...

خاور صاحب ۔ حال تو یہ ہے کہ اگر ہموطن کوئی نئی چیز دریافت کرے تو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہو گا ان میں آپ بھی شامل ہوں گے ۔ بعد میں اگر وہی چیز چِٹی چمڑی والا بتائے گا تو سب بلا چوں و چرا مان جائیں گے ۔ یہ حادثہ کئی پاکستانیوں کے ساتھ ہو چکا ہے جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے ۔ میں نے تو اپنے مُلک کی خاطر یہ کیا تھا کہ وہ ڈیزائن جرمنی میں اپنے ایک جرمن دوست کو بھیجی کہ اسے نقل کر کے اپنے ادارے کی مہر لگوا کر ہمارے ادارے کو بھیج دے ۔ جی ہاں ۔ یہ واقعہ 1968ء کا ہے اور اس ڈیزائن پر بنی مشین گن کی بیرل ابھی تک ہماری افواج کے استعمال میں ہے

Popular Posts