پیر، 22 اکتوبر، 2012

حقوق آدم اور مولوی

محفل میں بات چل پڑی
کہ
شیطان کی ذاتی زندگی اور نظریات اور مذہب کیا ہے؟
اور
کس کام سے شیطان ہے؟
بتانے والے نے بتانا شروع کیا
کہ
اس کا نام عزازئیل تھا!۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ
عزازئیل آدم کی تعمیر کا بھی شاہد ہے
کہ جب اس نے ادم کا بت دیکھا تو یہ اس میں داخل ہو کر کبھی ناک سے نکل جاتا اور کبھی کان سے داخل ہو کر منہ سے نکل جاتا
اس نے رب سے یہ بھی کہا کہ
یہ کیا چیز بنائی ہے اتنے سوراخوں والی؟ اس چیز کو مجھے سونپ دے میں اس کو سیدھا کردیتا ہوں!۔

رب کا بڑا ہی عبادت گزار ، فرمانبردار ۔ حتی کی شرک سے بھی بہت دور ، خالص توحید والا۔
اس نے زمین کے چپے چپے  پر سجدہ کیا ہوا ہے
رب کی ربوبیت کی حقیقت کا نزدیک سے شاہد!۔
جنت میں ایک جھولا بنا ہوا تھا اس کے لئے  جس پر بیٹھ کر یہ فرشتوں کو رب کی ربوبیت کا علم دیا کرتا تھا
فرشتے اس کے اس جھولے کو اگے دھکیلتے جاتے تھے
اور "وہ" ان کو علم کی باتاں بتاتا جاتا تھا
یعنی کہ فرشتوں کا بھی استاد!
اس کا کام  رب کی عبادت اور اسی کا نام جپنا تھا!
عبادت گزار ہر وہ عبادت کرتا تھا جس جس سے کہ رب راضی ہو
رب کی رضا کے حصول کے لئے اس نے جتنی کوشش کی ہے اتنی کسی اور مخلوق نے کم ہی کی ہو گی

جب بات یہاں تک پہنچی تو
سننے والوں میں سے ایک نے پوچھا
کہ پھر کیا ہوا کہ ، ایک عبادت گزار ، کو رب نے ناپسند کر دیا ؟

بتانے والے نے بتایا کہ
پھر ایک دن رب نے "اس" کو حکم دیا کہ
یہ ہے آدمی ! اس کی رسپکٹ کرو یعنی کہ آدم کے حقوق کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے ۔ اس نظام کے تحت میرے حکم سے ان کو ادا کرو!!!۔
تو
عبادت گزار نے رب کی عبادات کو ترجیع دی اور بندے کے حقوق ماننے سے انکار کر دیا
حالنکہ ان حقوق کی ادائیگی کا حکم بھی "وہی رب" دے رہا ہے ، جس کی عبادت ، عبادت گزار کرتا ہے
اس لئے
عبادت گزار عزازئیل  حقوق العباد کے انکار سے شیطان ہو گیا!!!۔
سننے والوں میں سے سے ایک نے سوال جڑ دیا
کہ
سر جی
یہ اپ نے شیطان کا "سی وی " بتایا ہے
کہ
ہمارے زمانے کے عبادت گزار مولوی کا؟؟
جو وظیفے پر وظیفے اور ثواب پر ثواب کے طریقے بتاتا ہے
اور اولاد ادم  میں سے بہت سوں کو کم تر جانتا ہے!!۔

 شیطان کی پرسنل ہسٹری بتانے والے نے اس سوال کا کوئی  جواب نہیں دیا تھا
اس لئے
اپ بھی امریکیوں کی طرح کندھے اچکا کر ، پنجابیوں کی طرح کہیں
سانوں کی!!!۔

15 تبصرے:

ڈاکٹر جواد احمد خان کہا...

بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔ تحریر نہایت عمدہ ہے بس ایک ہی غلطی ہے کہ شیطان نے کسی حقوق العباد کی نہیں بلکہ حقوق اللہ کا انکار کیا تھا صرف اور صرف اپنی عزت اور برتری کی خاطر۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ جب وہ اپنی مخلوق کو کسی بات کا حکم دیں تو وہ انکار نا کرے۔ خاص طور پر جب وہ بندہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اسکے کمالات کا عینی شاہد بھی ہو۔
جناب اسوقت تک تو انسان کے حقوق کا سوال ہی نہیں تھا۔
پھر بقول آپ کے مولوی کو جتنا ہی عبادت پر غرور کیوں نا ہو اور جتنا ہی حقوق العباد کیوں نا غصب کرلے اللہ تعالیٰ کے سامنے انکار اور نافرمانی کا رویہ نہیں اپنا سکتا ۔ یہ صفت شیطان کی ہی تھی۔ جسے اس نے راندہ درگاہ کیا

مکی کہا...

توحید کی بڑی بڑی باتاں کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ابلیس سب سے بڑا موحد تھا.. اس نے غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا..

عمران اقبال کہا...

مکی صاحب۔۔۔ سجدہ غیراللہ کو نہیں۔۔۔ اللہ تبارک تعالیٰ کے نور کو کرنے کا حکم دیا تھا۔۔۔ آپ بھی جانے کہاں کہاں سے تاویلیں ڈھونڈ لاتے ہیں۔۔۔ سائیں۔۔۔ چلیں یہ بھی مان لیا جائے کہ نور شور کچھ نہیں تھا۔۔۔ تو جس کی پرستش کی جارہی ہے، اس کا حکم ماننے سے انکار۔۔۔!!! یہ کہاں کی بندگی ہوئی پھر۔۔۔ کہ اپنی مان لی۔۔۔ اور اس کی نا مانی جس نے بنایا اور اپنا مقرب بنایا۔۔۔ ایسا تو نہیں ہوتا نا صاحب۔۔۔

مکی کہا...

کیا کمال کی کوڑی لائے ہیں عمران اقبال صاحب یہ تو اس سے پہلے میں نے بھی کبھی نہیں سنی تھی!؟ ویسے کیا آپ قرآن سے ثابت کر سکتے ہیں کہ آدم کو نہیں بلکہ کسی نام نہاد نور کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا؟

عرب کے کتے بھی "اسجدوا لآدم" کا مطلب سمجھتے ہیں سوائے آپ کے ان تاویلی مولویوں کے جنہوں نے آپ کی برین واشنگ کر رکھی ہے.. جہاں تک بات حکم کی ہے تو معاملہ بڑا سیدھا سادہ ہے.. اسلامی لٹریچر ہی کہتا ہے کہ خدا مکار ہے.. یعنی کہتا کچھ ہے اور چاہتا کچھ اور ہے.. اس نے ابراہیم کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا مگر اصل میں وہ چاہتا کچھ اور تھا.. یہاں بھی معاملہ بعینہ یہی ہے.. وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ ابلیس اتنا احمق نہیں کہ میرے علاوہ کسی اور کو سجدہ کر ڈالے گا، یہاں پر اس کا حکم بعینہ ابراہیم کے کیس کی طرح ہے.. یعنی مکر.. حکم کچھ تھا اور مشیت کچھ اور تھی.. ابلیس خدا کی مشیت بھانپ گیا اور سجدہ کرنے سے انکار کر گیا.. ورنہ خود ہی سوچیے کہ جو خدا اپنے علاوہ کسی اور کو سجدہ برداشت نہیں کر سکتا وہ خود کسی اور کو ایسا کرنے کا حکم کیوں دے گا؟

خاور کھوکھر کہا...

مکی صاحب بحث ناں کریں
معاملات کسی اور ہی نحج پر چلے جائیں گے
یہاں کوئی بھی اپ کے پائے کا عالم نہیں ہے
اس لئے لاحاصل بحث سے گریز ہی بہتر نہیں ہے کیا؟

مکی کہا...

جو حکم میری سرکار دا :)

عبدالروف کہا...

خاور صاحب، ایک عمدہ تحریر کے مبارک بار قبول کیجئے، ڈاکٹر جواد صاحب کے نقطئہ نظر سے متفق ہوں، باقی ایک اور غلطی بھی درست فرما لیں کہ مکی صاحب کوئی عالم نہیں ہیں، انکا پول انہی کے بلاگ پر کُھول چکا ہوں، جسکا ردعمل یہ ہے کہ ناچیز کو انکے بلاگ سے بلاک کردیا گیا ہے، عنیقہ جی کے بلاگ پر بھی موصوف کی اصلیت کا پردہ چاک کیا تھا اور ادھر بھی ببانگ دھل یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مکی صاحب خالی ڈھول کی طرح شور تو بہت کرتے ہیں مگر اپنے پلے کچھ نہیں ہونے کے باعث للکارنے والوں کو بلاک کردیتے ہیں، اگر انکا بس چلے کو شائد بلاک کے بجائے ہلاک کرنے کے درپے ہوں۔

جعفر کہا...

مکی صاب کی "فلسفیانہ اور عالمانہ" گفتگو ہم عامیوں کی سمجھ سے کوسوں آگے ہے۔ لہذا مکی جانے تے رب جانے۔
تحریر اعلی ہے۔ بنا شک۔

Unknown کہا...

عبدالرؤف صاحب مکھی صاب آپکے تبصروں کا جواب کیسے دیں یہ تو جسٹ ملحدین و مستشرقین کی تحریروں کے اور چند سافٹ ویرز کے اردو ٹرانسلیٹر ہیں. آپ کے تبصرے واقعی بہت قیمتی ہوتے، انہیں دیکھنے کے لیے ھم طالب علموں کو ضرورت پڑنے پر مکمل ڈیٹیل کے لیے ان بدمذہبوں کی سائیٹ پر جانا پڑتا ہے.آپ بجاۓ انکی بلاگ ریٹنگ بڑھانے کے اگر اپنا اک بلاگ بنا لیں اور اس پر انکا جواب دے دیا کریں اور اپنے پرانے تبصروں کو بھی اک جواب کی شکل میں وہاں ٹاپک وائز جمع کردیں تو اچھا ہو. اگر آپ بلاگ بنانے، اردو وغیرہ کی سیٹنگ کرنے سے واقف نہیں تو میں یہ سب کچھ کرکے دینے کے لیے تیار ہوں، آپ میرے بلاگ پر آکر وہیں یا وھاں سے میرے فیس بک اکاؤنٹ پر جاکر مجھے میسج کردیں. جزاک اللہ

خاور صاحب غیر متعلقہ بات کرنے پر معذرت.

ڈاکٹر جواد احمد خان کہا...

ویسے برادر عمران اقبال کی بات میں ایک رمز پوشیدہ ہے اور وہ اسطرح سے کہ آدم علیہ السلام کے جسد کو صرف اسی وقت سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا جب اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ان کے جسد میں پھونکی۔
اس لحاظ سے نکتہ میں دم ہے اور غالباً اسی بات کا لحاظ کرتے ہوئے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کا حکم دیا گیا تاکہ عزازیل کا تکبر کھل کر سب کے سامنے آجائے۔
اور غالباً اسی نکتہ کو متعدد علما نے اسی لحاظ سے بیان کیا۔
مکی صاحب کے متکبرانہ انداز سے طبیعت نے سخت انقباض محسوس کیا۔

ڈاکٹر جواد احمد خان کہا...

میں بھائی بنیاد پرست کی بات کی تائید کرتا ہوں ۔ عبدالرؤف صاحب کے پر مغز تبصروں اور تجزیوں کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ وہ اپنا ایک الگ بلاگ بنائیں تاکہ ہم سب لوگ انکے دلائل اور تجزیوں سے مستفیذ ہوسکیں۔
غیر متعلقہ گفتگو پر میری طرف سے بھی خاور صاحب سے معذرت

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

مجھے تو حیرت ہوئی کہ مکی کے تبصرے رکوانے کیلئے خاور ساب نے ارشادا کہ ان کے پائے کا کوئی عالم نہیں!!!۔
ایک شخص اگر بد اخلاقی پر اتر آئے تو اس کا مطلب آسان سا ہوتا ہے کہ وہ اب خالی ڈھول کی مانند ہو چکا ہے۔
ایک عالم ہر جگہ جا کر چوولاں نہیں مارتا ۔اپنی بات دلائل سے مسلسل کہتا رہتا ہے۔
اور مکی کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ بیچارہ جانتے بوجھتے سب کے جذبات کو چھیڑ رہا ہے وہ بھی خدا کو مکار کہہ کر ۔
ہم خدا کے محافظ نہیں ہیں۔وہ ہمارا خالق ہے ہم اس کے آگے مجبور و بے کس ہیں۔۔اس لئے رب جانے تے مکی جانےِ
لیکن خاور جی اتنا عرض کر دوں ،ایک عالم اپنی بات دلائل سے کہتا ہے لوگوں کی دل آزاری نہیں کرتا۔
آپ یا دوستی کا حق ادا کرنے کیلئے منافقت کر رہے ہیں یا پھر کوئی اور معاملہ ہو گا۔
بحرحال میرے لئے جتنا ہی قابل احترام یہ شخص تھا اب میں اس کی کم عقلی سے اتنا ہی بیزار ہوں۔

Truth Exposed کہا...

بہت اعلیٰ بلاگ لکھتے ہیں. ماشااللہ

Truth Exposed کہا...

آپکو اب پتا چلا ہے؟ میں نےتو دو چار بار ہی موصوف مکی کی ویب سائٹ دیکھ کر بتا دیا تھا کہ یہ عیسائی مشنریوں کے لٹریچر کو کاپی پیسٹ کرتے ہیں. اگر شک ہو تو کسی مقامی پادری سے اسلام پر چند کتابیں لے کر پڑھ لیں، مکی صاحب کے بلاگ میں وہی لکھا ہے جو ان کتابوں میں لکھا ہو گا.
اور خاور صاحب یہ کپچا تو ہٹا دیں کمنٹ کرتے ہے بڑی کوفت ہوتی ہے.

Unknown کہا...

آدم علیہ السلام کو کیا گیا یہ سجدہ حقیقت میں اللہ کو ہی تھا...یہاں آدم علیہ السلام کی حیثیت سجدہ کرنے والوں کے سامنے وہی تھی جو ہمارے سامنے قبلہ کی ہے، جیسے یہاں غیراللہ کو سجدہ کرنے کا اندیشہ نہیں، وھاں بھی نہیں تھا،
جس طرح بیت المقدس سےبیت اللہ کی طرف تبدیلی کے پیچھے مقصد آزمائش تھا جیسا کہ دوسرے سپارے کے پہلے صفحے پر ذکر ہے یہاں بھی آزمائش تھی کہ کون حکم کی تعمیل کرتا ہے...
جس طرح تحویل قبلہ کا انکار کرنے والے سفہاء اور مردود قرار دیے گۓ اس طرح یہاں بھی سجدہ کا انکار کرنے والا مردود ہوا..
جس طرح شیطان نے عقل لڑائ اور حکم کو نی سمجھ سکا اور لعین قرار پایا، اس طرح مکی بھی عقل لڑا کر اصل مصلحت کو سمجھنے میں ناکام رہا اور راندہ درگا ہوا... آج خدا کو گالیاں دیتا پھرتا ہے..

Popular Posts