جمعہ، 30 دسمبر، 2016

جیدا سائیں اور جغرافیہ

گوجرانوالہ کے قریب کہیں کسی گاؤں میں سردیوں کی کسی رات کے پہلے پہر  کسی دارے میں حقہ کشید کرتے کچھی دیسی دانشور بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ
پنجاب کے دہی علاقوں میں سردیوں کی لمبی راتوں میں  ایسی محفلیں  بڑی دانش ، بڑی زیرک ،اور اس سے بھی زیادہ حماقت اور بونگیوں سے بھری ہوتی ہیں ،۔
جیدا سائیں  بتاتا ہے کہ
جی
ایک لڑکی  اپنی عمر 18 سے 22 سال میں افریقہ کی طرح ہوتی ہے ،
آدھی جنگلی ، آدھی پر اسرار، قدرتی حس ن اور زرخیر !!،۔
23 سے 30 سال میں امریکہ کی طرح
کہ
ویل ڈویلپ ، اوپن فار ٹریڈ ، سرمایہ کاری کی طلب  گار ،امیروں  غریب سب کو لبھانے والی ،۔
اور 31 سے 45 کی عمر میں
انڈیا کی طرح ، بڑی ہاٹ ، بڑی پرسکون ، اور اپنے حسن کے یقین میں مگن ، لیکن  پرانی پرانی سی ،۔
اس کے بعد 46 سے 55 کی عمر میں
فرانس کی طرح ، پولائیٹ بولی ، شرافت کا پرچار اور سونے (گولڈ) کے لالچ میں مبتلا ۔
پھر 56 سے 60 کی عمر میں
جنگ میں ہارے ہوئے مشرقی یورپ کی طرح جس کو میک اپ کی لیپا پوتی کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،۔
یہان ٹھہر کر جیدا سائیں  سانس لیتا ہے اور پھر گویا ہوتا ہے ،۔
کہ 61 سال کی عمر کے بعد
ایک عورت پڑوسی ملک افغانستان کی طرح ہوتی ہے ،۔جسے ہر کوئی جانتا ہے کہ کہان واقع ہے
لیکن کوئی بھی وہاں جانا یا رہنا نہیں چاہتا ،۔
جیدا سائیں  ، اپنے گامے کی طرف دیکھ کر کہتا ہے
یار گامیا !،۔
اب کچھ مرد  لوگوں کا جغرافیہ تم ہی بتاؤ؟
گاما بتاتا ہے ،۔
مرد  اپنے عمر کے پہلے سالوں میں
پاکستان کی طرح ہوتا ہے  اس پر “ ڈو مور “ کا پریشر ہوتا ہے ،۔
اس کے بعد 15 سے 80 سال کی عمر میں بھی
پاکستان ہی ہوتا ہے
جس پر حماقت اور احمقوں کا راج ہے اور ہاتھ میں ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے ،۔
ماخوذ،۔

جمعرات، 1 دسمبر، 2016

اک ہور ، سانوں کی !۔

یہاں ایک چیز کی وضاحت کہ مختلف اقوام کی اپنی اپنی تاریخ سے کچھ وراء ہو کر سوچیں انسانی معاشرھ
جس میں ہم سب رہ رہے ہیں ،
مختلف اقوام پر عروج آیا !!ـ
اس عروج سے پہلے کی جو باتیں جن باتوں کی تاریخ کم ہی لکھی ہوتی ہے ، وہ وہی ہوتی ہیں،۔
کمزور پیدائش بتدریج جوانی تعلیم ، طاقت پکڑنا وغیرہ وغیرہ۔
دنیا پر چھا گئیں ، بہادری کی ایک تاریخ چھوڑ کر انے والی نسلوں کی کم عقلی کو سہارا دینے والی شنہری تاریخ لکھوا گئیں ،۔

اور پھر بتدریج کمزور ہوتی ہوئیں اپنے انت کو پہنچیں ـ
لیکن اج
 ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سائینس کی ترقی ہے ۔
کہ ہوتی ہی چلی جا رہی ہے !!۔
میرے ہم عمر اور مجھ سے بڑے جو لوگ زندھ ہیں وہ جانتے ہیں کہ
ابھی ہمارے پجپن ميں جن چیزوں کا تصور بھی محال تھا ، آج وھ جادو بھری ایجادات ہمارے استعمال میں ہیں ۔
یعنی که سائینس
 جو که ہمارے پجپن تک ایک کمزور سی چیز تھی
آج اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنی جوانی کی طرف مائیل ہے ۔

اور اس صدی کا ہر جوان اس یقین کا کا شکار ہے کہ
یہ ایجادات کا رواج ،  مسلسل زور ہی پکڑتا چلا جائے گا
اس پر کبھی کمزوری نہیں آئے گی ۔
ہر زمانے کا جوان اپنی جوانی میں یہی گمان کرتا ہے
کہ

وہ اپنے دادے کی طرح بوڑھا نہیں ہو گا
اور اگر ہوا بھی تو؟
اس
 ہونے میں ابھی صدیاں بڑی ہیں ۔
حالانکہ اپنا،  دادااپنے سامنے ہوتا ہے ۔
جو کہ خود تیس سال پہلے کڑیل جوان تھا،۔

لیکن سائنس کی جوانی ہے کہ اس کے سامنے کوئی دادا یا بابا نهیں ہے ۔

اس کے سامنے اس جیسی کوئی مثال نهیں ہے۔
کہ زمانے نے کبھی سائنس کی ترقی کی جوانی ہی نہیں دیکھی تو اس کے کے بڑھاپے کا تو تصور ہی محال ہے ،۔
 لیکن کائنات کے افاقی اصول میں
ہر اوج کو زوال ہے ۔
اور یہ اصول اٹل ہے !!،۔
تو
 میں بھی یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہوں کہ کب
اور کون سے وقت کو؟ کس نقطہ کو انتہا کہوں
کہ
نقطہ انتہاء ہی نقطہ انحطاط ہوا کرتا ہے ۔
 اس سائینس کی جوانی کا زمانہ کس زمانے کو  کہیں گے؟؟
کون سا وہ نقطہ ہو گا کہ جہاں سے اس کی ڈھلوان شروع ہو گی ؟
که جہاں سے یہ کمزور ہوتی هوئی بتدریج اپنے انت کو پہنچے گی؟؟
ہاں جی ایک بات اور بھی تو ہے!ـ
حادثاتی موت!!!!ـ
بھری جوانی میں قتل ، حادثہ ، یا کچھ اور ؟
اور یه کچھ اور، کسی درخت کے ساتھ ہو کہ کسی چرند یا پرند کے ساتھ!،۔
 یا کسی پہاڑ کے ساتھ کہ دریا کے ساتھ یا کسی انسان کے ساتھ هو کہ سلیمان تاثیر کے ساتھ !!!ـ
یه کچھ اور تو نهیں ہونے والا اس سائینس کے ساتھ
کوئی ایٹمی جنگ ؟؟
یا وباء یا
کچھ اور ؟
اس ایٹمی جنک سے یاد ایا که هماری پیاری اور نسلی ایلیٹ نے امریکہ کو یہ باور کرایا ہوا ہے کہ ہمارے مولویوں کو ایٹم بم چلانے کا بڑا شوق ہے
اور پاكستان کے جوانوں کا یه حال ہے کہ
وہ چاہتے ہیں که دو تین مزائیل نیفے میں اڑس کر چلیں، اور جیب میں دو تین دانے ایٹم بموں کے بھی پڑے هوئے هوں
لیکن جی اکر سائینس کےساتھ کوئی اور حادثہ نهیں ہوجاتا اور کائینات کے افاقی قانون کے مطابق بتدریج کمزور ہوتی چلی جاتی هے تو ایسا کیسے هو گا
اور پھر اس کے بعد کے انسانوں کے کیا حالات زندگی ہوں کے ؟
اور وہ کیا سوچ کر ان سب سائینسی چیزوں کے استعمال کے فائدے پر صبر کرلیں گے؟؟؟
میرے خیال ميں وہ پاکستانی سوچ کے مالک بن جائیں گے
اور ہر چیز کے نقصان پر کندہے اچکا کر کہا کریں گے
سانوں کی!!!!ـ

جمعرات، 24 نومبر، 2016

کوّی اور کلپنا

میاں محمد بخش صاحب کی پنجابی شاعری سے مجھے بچپن سے یہ کچھ شعر یاد ہیں ،۔
زبان ، آسان پنجابی ہے ، مجھے امید ہے کہ اپ کو بغیر ترجمعہ لکھے سمجھ لگے گی
ورنہ اس کے بعد کی میری کلپنا سے تو مجھ لگ ہی جائے گی

کرماں باجھ پیاریا گل کوئی ناں

پاویں سر تے لالاں دی پنڈ ہوئے

جائے بازار تے نکل سب کھوٹے

پاویں مگر دلالاں دی ڈنڈ ہوئے ۔

بیجے کنک تے اگ باغاٹ پیندا

پاویں خاص نیائی دی ونڈ ہوئے

پراوں باجھ پیاریا جیون کوئی ناں

پاویں مگر قبیلے دی ترنڈ ہوئے ،۔

نومبر کا مہینہ چل رہا ہے ۔
امریکہ میں نئے صدر اور پاکستان میں نئے سپہ سالار کی  تبدیلی کا وقت ہے ۔
پاکستان میں ایک آفواھ اڑی ہوئی ہے کہ
آنے والا چیف آف آرمی سٹاف  کوئی قادیانی ہے ۔
عام عوام کا ایمان بھرسٹ ہونے کو ہے ،۔
اسلام خطرے میں پڑا نظر آتا ہے
اللہ خیر کرئے !!،۔
پاکستان میں ہم نے سرمے والی سرکار جناب جرنل زیاں صاحب کی قیادت میں اسلام کاشت کیا تھا ،۔
جرنل صاحب والا اسلام بھٹو صاحب نے قادیانیوں والا نقلی اسلام علیحدہ کر کے خالص اسلام بنا
کر دے دیا تھا،۔
یہ ختم نبوت والا اسلام ، مودودی صاحب کی تفہیم القران کی کھاد سے پاکستان میں بو دیا گیا تھا،۔
لیکن ہوا یہ کہ

بیجے کنک تے اگ باغاٹ پیندا

پاویں خاص نیائی دی ونڈ ہوئے

بوئی تو گندم تھی لیکن اس میں مسالک ، فرقوں اور نظریات کا باغاٹ اس کثرت سے اگا کہ
خدا کی پناھ
اس پر جو پھل آیا اس سے لشکر ، جیش ، جتھے اگ  کر سرخ انقلاب کی راھ میں پہاڑ بن کر کھڑے ہو گئے ،۔
سفید ریچھ ، زخموں سے چور ، دریائے آمور کے اس پار جا کر زخموں کو چاٹنے لگا تو؟
تفہیم القران کی کھاد سے اگا ہوا اسلام !۔
خدا کی آنکھ بن کر معاشرے کی برائیوں کو چن چن کر قتل کرنے لگا،۔
اپنے گھر میں قتل ، پڑوسیوں کے گھر میں قتل ، کافر کافر شیعہ کافر ، کافر کافر سنی کافر ، کافر کافر یہ بھی کافر وہ بھی کافر
قادیانی تو پکے کافر !!،۔
اب جو بھی ہو سو ہو
اگر قادیانی چیف آ جاتا ہے تو ؟
اے ایمان والو یقین رکھو ، اس سے اسلام کو ئی خطرہ نہیں ہے ،۔
اسلام کوئی غریب کو جورو نہیں ہے جو چوراہے میں لٹ جائے گی ،۔
قادیانی چیف کے انے سے خطرہ ہے تو ان جڑی بوٹیوں کو ، جن کی جڑہیں  جی ایچ کیو کے گملوں میں لگی ہیں ۔
ہم پینڈو دیہاتیوں کو علم ہے کہ جب جھاڑ جھنگار پڑھ جائے تو درختوں کو کھیتوں کو کھالوں اور نالیوں کو اس جھاڑ جھنگاڑ سے صاف کرنا ہی پڑتا ہے ،۔
اللہ کرئے کہ کوئی ایسا آئے جو اس جھاڑ جھنگار کو صاف کر کے دے !،۔
وہ چاہے
قادیانی ہو کہ کافر ،!،۔
بس بندہ ہونا پاکستانی چاہئے،۔

منگل، 8 نومبر، 2016

سموگ ، وجوہات اور علاج

لاہور میں  سموگ نامی جو دھند پھیلی ہوئی ہے ؟
یہ کیا ہے ؟
یہ گاڑیوں کے انجن سے نکلنے والا دھواں اور گیسیں ہیں ،۔ فیکٹریوں ، ملوں اور بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والی گیسیں ہیں ، جو زہر سے بھری ہوئی ہیں ،  ان سے طرح طرح کی بیماریاں انسانی جسموں میں سرایت کر جائیں گی ،۔
اور یہ ماحول کوئی ایک دن میں نہیں بنا ہے ،۔
یہ صنعتی  فضلہ ہے ۔
یہ زہر ہیں جو فضا میں رچ چکے ہیں ،۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  وہ ممالک جو ہم سے زیادہ ملیں ، گاڑیاں اور چمنیوں والی ملیں رکھتے ہیں ان میں یہ مسئلہ کیوں نہیں ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
دھویں کے علاج کے لئے انیس اٹھتر میں امریکہ میں ایک قانون بنا تھا کہ ہر گاڑی کے سائلنسر میں ایک ڈبہ نما پرزہ لگایا جائے گا ،۔
اس سال کے بعد بننے والی ہر گاڑی میں یہ ڈبہ لگا ہوا ہے
جو پہلے پہل المونیم کی گولیوں سے بھرا ہوا یک ڈبہ ہوا کرتا تھا
اس کے بعد سرامک کا سوراخ دار برتن بنا  جو کہ اب بھی چل رہا ہے اور کچھ کمپنیاں میٹل یعنی لوہے کی جالی سے بھی بنا رہی ہیں ،۔
گاڑیوں کے سائلنسر میں لگا ہوئے اس ڈبے کا کیا فنکشن ہے ؟
پاکستان میں کوئی ایک بھی مکینک نہیں جانتاہو گا ۔
پاکستان میں اس تکینک کا کسی کو علم ہی نہیں ،۔
بلکہ مکینک لوگ اس ڈبے کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں ،۔ حالانکہ اس ڈبے میں کوئی تین ہزار سے دس ہزار روپے کا سونا نکلتا ہے ،۔
اج میں جاپان اور دیگر مہذب دنیا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈبہ ہر کارخانے کی چمنی میں لگا ہوا ہے م،۔۔
دوئیں کے زہر کو صاف کرنے کے اس انتظام کو
انگریزی میں
catalytic converter کہتے ہیں
اور جاپانی میں شوکوبائی ، اردو میں اس کو نام دیا گیا ہے ، آلہ ردعمل یا آگ پریرک،۔
یہ آلہ پلاٹنم ، پلوڈیم اور دوڈیم نامی قیمتی دھاتوں سے فضا میں ہونے والے کیمیائی عمل سے گیسوں کے زہریلے خواص ختم کر دیتا ہے ،۔
پاکستان میں اس تکنیک کی تعلیم کی ضروت ہے
اور اس تکنیک کو اپنانے کی ضروت ہے
ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اپاہج اور مفلوج ہوں گی
اور یہ سارا جرم
ہم پر آئے گا
یعنی اس نسل پر جو اج فضا کو گندا کر رہی ہے ،۔
اس زہر بھری فضا سے
کوئی ایک ڈیڑھ کروڑ لوگ سینے کے کنسر سے مریں گے ،۔
دس کروڑ بیماریوں میں مبتلا ہوکر کرب سے گزریں گے
جب بات ارباب اقتدار کے بچوں کی موت تک پہنچے گی ؟
تو
پہلے اس کا الزام سگریٹ پر لگایا جائے گا
بھر کسی سخی داتا ملک سے مدد کی بھیک مانگی جائے گی
شاید کوئی سخی ملک پاک لوگون کو شوکوبائی کی افادیت کی تعلیم دے گا
اور پھر جو کمیشن دے گا اس ملک کی امداد لے کر کارخانے داروں اور بھٹہ مالکان کی " بغل " میں ڈنڈا دے کر پیسے نکلوائے جائیں گے ۔
ٹریفک پولیس کا سائلنسر کے دھوئیں کے نام پر جگا ٹیکس چلے گا ،۔
ہم تم فارن میں بیٹھ کر فلسفے بکھاریں گے
کہ
ہم تو پہلے ہی کہتے تھے ۔

وقت کرتا ہے پروریش برسوں
حادثے یک دم نہیں ہوا کرتے
“””””””””””””””
اردو کے انسائکلوپیڈیا پر اس تکنیک کی کچھ تفصیل
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%84%DB%81_%D8%B1%D8%AF%D8%B9%D9%85%D9%84_%D8%8C_%D8%B4%D9%88%DA%A9%D9%88_%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C

منگل، 25 اکتوبر، 2016

ستمبر 2016ء فیس بک پر لکھے خاور کھوکھر کے اسٹیٹس ،۔

پاکستانیوں !،۔
چولاں نہ مارو ، میں تہاڈا ماما ضرور لگنا واں ۔
پر میں رب دے کمپیوٹر کا مانیٹر نئیں جے  ،۔
“” چندا ماموں “”
******************
میری قوم کی جہالت کو سب سے بڑا خطرہ کتابوں سے ہے ،۔
ملکی سلامتی اور حفاظت کے ذمہ داروں نے  بڑی کوشش کر کے قوم کو کتابوں کے کلچر سے بچایا ہوا ہے ،۔
کتابوں سے دور رہیں ، جہالت کی حفاظت کریں  اور آگہی کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں  ،۔
“” گاما پی ایچ ڈی “”
*******************
مینوں میری دادی دسیا سی
کہ
چن دے وچ اک بڈھی مائی چرخا داہے بیٹھی اے
تے چرخا وی پٗٹھا اے ۔
تے جاپانیاں نوں اینہاں دیاں دادیاں نے دسیا ہویا اے کہ
چن وچ اک  سیاھ (خرگوش) پچھلیاں لتاں تے کھلوتا اے  ،ْ۔
ایس طرحاں ای سب قوماں دیاں دادیاں  کجھ ناں کجھ دسدیاں نئیں
اک نویکلی قوم اے پاکستانی
ایس قوم دے پتر دسدے نئیں کہ چن  ، رب دے کمیوٹر دا مانیٹر بن گیا اے تے نویاں نویاں چیزاں  وکھان لگ پیاء اے ۔
اللہ دی شان اے جی
تے
عقل دے طوفان نے جی  ،۔
جیہڑے ایس قوم دے دماغاں وچ اٹھدے نیں ،۔
***********************


تھائی لینڈ کے بادشاھ  بھومی بول ادویادیج فوت ہو گئے  ہیں ،۔
تھائی لینڈ “ آزاد لوگوں کی سرزمین “ ، کے بادشاھ کو ان کی قوم کے لوگ خدا کی طرح پوجتے تھے ،۔
کون ہے جو تھائی گیا ہو اور اس نے بادشاھ کی فوٹو نہ دیکھی ہو ؟
بادشاھ  بھومی بول ادویادیج ایک گریٹ انسان تھے ،۔
ہو سکتا ہے  ، بادشاھ  بھومی بول ادویادیج کی موت کی خبر اپ کو میڈیا میں نہ ملے
لیکن یہ بادشاھ  بھومی بول ادویادیج تاریخ میں سب لمبا عرصہ بادشاھ رہے ۔
خدا انہیں غریق رحمت کرئے  کہ بادشاھ  بھومی بول ادویادیج  صاحب اپنی قوم کے لئے بہت ہی مخلص تھے ،۔

*******************
ہم تاریخ کے اس دور سے گزر رہے ہیں ۔
کہ
پچھلے ایک ہزار سال کی ہند کی تاریخ پر نظر رکھنے والا  بندہ چرخ گردوں کے پھیر پر حیران رہ جائے ،۔
چرخ گردوں کہ جس پر ایران کے بادشاھ خسرو  نے تفع بھیجا تھا ،۔
پچھلے ایک ہزار سال سے افغان لوگ جہاد کے نام پر ہند کو اسلام سیکھانے آتے رہے ہیں ،۔
ہند کے راجپوت  اس جہاد کے راستے میں سب سے بڑی روکاٹ رہے ہیں ،۔
ہند کا راجپوت ، اب جہاد سیکھ چکا ہے ، اور پچھلے تیس سال سے افغانوں کو جہاد سیکھا سیکھا کر  کبھی روس کے خلاف کبھی اپس میں جہاد کے لئے تعلیم دے رہا ہے ،۔
جہاد واپس پلٹ رہا ہے ، راجپوت  بہادر تو پہلے ہی تھا ، اب سیانا بھی ہو چکا ہے ،۔
***************************

یار ،گامیا! کیا وجہ ہےکہ اسلام ایک بہترین مذہب ہونے کے ،صدیوں سے اپنے نشاط ثانیہ تک نہیں پہنچ پا  رہا ؟؟؟
گاما : بس یار ،تو اتنا سمجھ لے کہ اسلام تو کبھی کا نشاط ثانیہ پار چکا ہوتا ، بس یہ مولوی ہیں جو روکاوٹ بنے ہوئے ہیں م،۔
***********************
میں تمہیں علم کیمیا کا وہ عظیم راز بتا ہی دیتا ہوں
جس سے تم سونا بنانے کے قابل ہو جاؤ گے ،۔
بس ایک چیز کا خیال رکھنا ہے
کہ
سونا بنانے کے اس عمل کے دوران
تمہارے ذہن میں باندر کا خیال نہیں آنا چاہئے ،م۔
اچھا ! تو اب غور سے سنو!۔
۔۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
آپ کا دماغ ابھی تک باندر میں اٹکا ہوا ہوگا ؟
***************************

سیاست ؟ مہذب ممالک میں ،
سوشل ورکر کی اعلی ترین قسم کے انسان کو سیاستدان کہتے ہیں ۔
جو اپنی معاشرت اور ملک کو سدھار کی راہ پر رواں رکھنے کے لئے ،آئین کے دائیرے میں رہتے ہوئے ،اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اسی کام میں جتے رہتے ہیں م،۔
لیکن
پاکستان میں ؟
سیاست ؟ فوج کے لے پالکوں کے درمیان کھینچا تانی کا نام ہے ، جن کی آدھی صلاحیتیں “ محلاتی سازشوں” میں ہی ضایع ہوتی رہتی ہیں ،۔
اور باقی کی آدھی ؟ مال اکٹھا کرنے میں ،۔

*********************
گوجرانوالہ کی کسی فیکٹری میں دو کاریگر  باتیں کر رہے تھے ۔
جیدا سائیں کہتا ہے
میرے بچے جوان کیا ہوئے ہیں میری تو سنتے ہی نہیں ہیں ،۔
میں تو گھر میں کتا بن کے رہ گیا ہوں
تم سناؤ ، تمہارے گھر والے کیسے ہیں ؟
بٹ صاحب گویا ہوتے ہیں ،
میرے گھر والے مجھے خدا کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ۔
میں تو اپنے گھر کا خدا ہوں خدا ، میرے گھر والے مجھے پکارتے ہی تب ہیں
جب ان کو  اپنی کسی خواہش کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ،۔
حاصل مطالعہ
بس جی گھر میں سب کا ایک ہی حال ہے ۔
تحریر : خاور کھوکھر
**********************
عمران کے متوالے   یہ سمجھتے ہیں کہ
عمران کے وزیر اعظم بنتے ہی  پاکستان ، پری ستان بن جائے گا ،۔
PAKISTAN
میں سے  K کو  اڑا کر  R کر دیں گے ۔ْ
نیو PAKISTAN ہو گا  
اصلی PARISTAN  ۔
ایسے  K !!۔
**********************

اسی کی دہائی میں ،اپنی عمر کی دوسری دہائی کے پہلے سالوں میں ، جاپان پہنچے لوگوں کو تو موت ہی یاد نہیں تھی
کیونکہ نہ تو ان کا کوئی دوست مرتا تھا اور نہ ہی ان کو کسی جاپانی کی موت کا علم ہوتا تھا ،۔
اب جب کہ زیادہ تر اپنی عمر کی پانچویں دہائی میں ہیں تو ؟
یہی سننے کو ملے گا
وہ بھی گیا اور وہ بھی گیا ، اس بات کا کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ اگلی باری " میری " بھی ہو سکتی ہے ،۔
مشقت کو نیچ جان کر تن اسانی کی تلاش میں نکلے لوگون کو جاپان کی معیشت نے تن اسانی میسر کر دی ۔ْ
انکھون کی بھوک کو حلال فوڈ کے سستے ترین ایمورٹڈ گوشت نے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ نکل سکی انکھون کی بھوک
کہ
جس کی انکھوں میں بھوک بس جائے اس کو  پنجابی میں لینج کہتے ہیں ۔
اور لینج لوگ جب کھانا کھاتے ہیں تو معیار نہیں مقدار دیکھتے ہیں ،۔
اس کو کہتے ہیں “ لڑ مارنا”۔
بہت کم لوگوں اس بات کا ادراک تھا کہ کائینات کے ازلی اصولوں میں مشقت ہی تن درستی کی قیمت ہے ۔
اور دین ابراہیمی میں جو سات جرم بتائے گئے تھے ،۔،
چوری ، زنا، لوبھ ، کرود ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ،
ان میں ساتوں جرم تھا بسیار خوری
یعنی “ لڑ مارنا” ،۔
اکثریت کو ادارک نہیں تھا اور جن کو ادارک تھا ،؟
وہ اپنی دنیا میں مگن رہے ، کیونکہ جاپان کے معاشرے میں پناھ گزین پاکستانیوں کی اکثریت  دوسروں کو اس کی مالی حالت کے تناسب سے عزت دیتی تھی م،۔
بسیار خوری اور تن اسانی کی سزا ہے کہ جاپان ، جس ملک میں مقامی لوگوں کی عمر کی اوسط 96 سال ہے ،۔
یہاں پاکستانی  اپنی پچھلی دھرتی  کے لوگوں والی اوسط عمر 53 سال میں ہی دنیا سے کوچ کئے چلے جاتے ہیں م،۔
پنجابی ادب سے ایک شعر
شکر دوپہرے ، میرا ڈھل چلیا پرچھاواں
قبراں اڈیکدیاں ، جیویں پتراں نوں ماواں
(شیو کمار بٹالوی)
***********************************

جاپان میں پولیس نے پوکے مون ڈویلپروں کو طلب کر لیا ،۔
نیٹ سورسز کازو :  ٹوکیو کے مشہور پارک اودائیوا میں پولیس نے پوکے مون بانے والی کمپنی کے ڈویلپروں کو اس وقت طلب کر لیا
جب یہاں پارک میں سینکڑوں  لوگوں کے جمع ہونے سے نقص امن کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا ،۔
ٹوکیو کے ساحل سمندر پر واقع اودائیوا پارک دنیا بھر میں نایاب پوکے مون کا شکار ملنے کے لئے مشہور  گیم پوائینٹ ہے م،۔
منگل کے روز سینکڑوں لوگوں کی بھیڑ کے اکٹھے ہو جانے پر پولیس کو کئی فون کا ملیں ، جس کی وجہ سے پولیس کا عملہ جب پارک میں پہنچا تو انہون نے دیکھا  کہ موبائیل فونون پر پوکے مونز کے شکاری اتنے مگن ہیں کہ ان کو ٹریفک کے خلل اور پیدل چلنے والوں کی مشکل کا بھی احساس نہیں ہے ،۔
تو پولیس نے پوکے مون کے ڈویلپروں کو بھی وہاں طلب کر لیا
تاکہ ان کو بتایا جا سکے کہ موقع واردات میں گیم سے کس قسم کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں ،م۔
بعد میں پوکے مون کے ترجمان نے جاپان کے قومی نشریاتی ادارے این ایچ کے  پر آ کر پوکے مون شکاریون کے لئے پیغام دیا کہصاف لوگ اپنے روئے کو اس طرح کا رکھیں کہ دوسروں کو دقت پیش نہ آئے اور اپنی حفاظت سے غافل نہ ہوں ،۔

**************
اوری میں حملہ کر کے “انہوں “ نے ہمارے بندہ مار دئے ہیں ۔
پم نے بھی ٹوئیٹر پر  #اروی-اٹیک کے ہیش ٹیگ کے ساتھ  دشمن کی نیندیں اڑا دی ہیں م،۔
ویلکم ٹو انڈیا !،۔
فار ایکشن ؟ ووئی واچ موویز!!،۔

************************
حالیہ پاک بھارت ٹینشن کے تناظر میں
یہاں بمبئی میں ایک اعلی سطح کا اجلاس ہوا ہے ،
جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان  میں اندر جا کر مار کرنے کے لئے ایک کمانڈو گروپ ترتیب دیا جائے جو کہ پاکستان میں موجود سارے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباھ کر دے گا ،۔ اخر میں پاکستان کے ایٹمی  پلانٹ کو تباھ کر کے ، نواش شریف اور راحیش شریف کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا ۔
اس فلم کا نام رکھا جائے گا “  مہا یدھ “ !!،۔
*************************

تھوڑا ہس وی لو
بڑی سوہنی  تے وڈی ساری پراڈو دے کول کھلوتا ہویا سی ،۔
شو مارن لئی او ، کونی   چک کے ہتھ لمبا کر کے پراڈو دی چابی کن وچ پھیردا سی پیا ،۔
مائع لگے کپڑے سن تے کچھ وچ آیا ہوا مڑکا (پسینہ) وی دِس دا سی پیا ،۔
ویگن بدلن لئی اڈے تے اتریا ، اگلیاں پنڈاں وچوں کسے پنڈ دے اک مسافر نے اینہوں کن وچ چابی پھیردیاں ویکھیا تے
آکھن لگا
پاء جی ! تہاڈا دماغ دھکا سٹارٹ لغدا اے  ، چابی نال سٹارٹ نئیں جے ہونا،۔
پراڈو والا غصہ کر گیا مسافر نوں گالاں کڈن لگ پیا
نالے اکھدا اے
اوئے تینوں پتہ ہے میں ہے کون  آں ؟؟
مسافر نے معافی منگ کے جان چھڑائی  تے کول تماشا دیکھدے ، گامے نوں پچھدا اے ۔
اے صاحب ہیں کون جی تے اینہاں دا ناں کی اے؟
گاما اینہون دسدا اے
امریکہ والے وڈے پراھ نے اینہوں پراڈو لے دتی ہے تے
اے آپی ہے کی شے وے ؟ ایس دا اینہوں آپی وی نئیں پتہ  کہ اے ہے کون !،۔
مسافر چونک کے پچھدا اے
اے کی گل ہوئی جی ؟؟؟
اوے پائیا  ایس دی ماں ایس دے پیو نوں کتا آکھدی اے تے
ایس دا پیو ایدھی ماں نوں بلی آکھدا اے
ایس لئی اس نوں اجے آپی وی پتہ نئیں کہ اے
کتورا اے کی بلونگا!!،۔

ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

گرم پانیوں کی جنگ کی حقیقت


میرے خیال میں سوشل میڈیا پر پاک جاپان روس تعلقات کے بہتری کی طرف رواں ہونے کوئی ایک سال پہلے لکھا تھا ،۔
اور یہ بھی لکھا تھا کہ عام عوام تک یہ معلومات کوئی چھ ماھ یا سال بعد پہنچیں گی
فیس بک پر مجھے فالو کرنے والے اور فرینڈز یہ بات جانتے ہیں م،۔

اس لئے میں ان روسی فوجیوں کی فوجی مشقوں کو پاکستان کے مستقبل کے لئے اچھی چیز سمجھتا ہوں ،۔

باقی جو بات ہے ماضی میں روس کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکنے کی تو ؟
وہ اک بہانہ تھا
صدیوں سے افغان حملہ آور ہمارے علاقے میں اتے ہیں اور لوٹ کر چلے جاتے تھے ،۔
جب راجہ رنجیت سنگھ نے ان کو طورخم تک کے علاقے کو اپنی حکومت میں شامل کر کے ، قندھار تک حملے کر کر کے جو کام کیا تھا اس سے
  افغانون کو سمجھ آنی چاہئے تھی کہ اب " دال خور " جاگ گئے ہیں  ،۔

اس لئے اپنی فصلیں اگئیں ۔
اناج لوٹ کر لے جانے کی عادت پر قابو پائیں
احمد شاھ ابدالی کے بعد  رجنیت سنگھ کی وجہ سے افغان حلمہ نہ کر سکے
اس کے بعد برٹش گورمنٹ نے ان کو روک لاگئی رکھی ۔
پاکستان بنے کے بیس سال بعد ہی ان افغانوں کے اندر کی وحشی جبلت ان کو پاکستان پر حملے کے لئے اکسانے لگی ۔
اور سردار داؤد خان نے ماضی قریب میں پھر حملے کا پروگرام بنایا تو ؟
بھٹو نے افغان سیاست میں انارکی ڈال کر افغانستان کے حالات خراب کئے تاکہ افغان اپنے اندر کا جنگی گند اپنے ملک میں ہی نکالنے کے قابل ہو سکیں ،۔
اس انارکی کو سنبھالا دینے کے لئے جب روس افغانون کی مدد کو آیا تو ؟
گرم پانیون کا بہانہ بنا کر رینجیت  سنگھ کانے کے بعد دوسرے کانے ضیاؑ نے افغانستان کا بیڑا ہی غرق کر دیا ،۔
لیکن اصل معاملہ گرم پانی اور روس کا نہیں تھا
اصل معاملہ افغانوں کی وحشی جبلت کو روک لگانے کا تھا ،۔
اب جب معاملہ کچھ نہج پر آیا ہے تو ؟
پاکستان خود سڑک بنا کر روس کی گئس کی پائپ لائین بنا کر روس کو گرم پانیوں تک ویکم کہہ رہا ہے ،۔

افغانون میں اب بھی اگر عقل ہے تو بجائے اپنی لوٹ مار کی وحشی جبلے کی تسکین کے
اپنے ملک کی زراعت کو ترقی دیں اور افیم کے علاوہ گندم وغیرہ بھی اگا لیا کریں ،۔
اگر افغان یہ سمجھتے ہیں کہ احمد شاھ ابدالی  نے اٹک تک کنٹرول کیا تھا اس لئے افغانستان اٹک تک ہے تو ؟
اس کے بعد رنجیت سنگھ نے قندھار تک کنٹرول کیا تھا  تو کیا پاکستان قندھار تک کا ہے ؟
ہا ں ہے اگر ملا عمر کو امریکہ ٹھکانے نہ لگا دیتا تو ؟
 ملا عمر قندھار سے جلال اباد تک کی پٹی کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانا چاہتا تھا ،۔
پاک روس تعلقات زندہ باد
مجھے پوتن صاحب کا وہ تقاضا بہت اچھا لگا تھا جو انہوں نے 2015ء کے شروع میں راحیل شریف اور نواز شریف کو باری باری بلا کر کیا تھا ۔
وہ تقاضا تھا ،۔
مجھے پاکستان میں محفوظ حالات چاہئے !!،۔
پوتن صاحب کا یہ تقاضا میرے دل کی آواز ہے ،۔

بدھ، 31 اگست، 2016

نویکلی سوچ ، پنجابی ۔

فجر  پڑھن کی عادت  ، بستر  بڑا نرم مالیم تے عالیشان سی میں اٹھ کے پوڑہیاں اتریاں
کہ تھلے دی منزل والے سنک تے وضو کر لاں ،۔
پر پائیا مصطفٰے پہلوں ائی لاؤنج وچ  نماز لئے اٹھیا، مسلے تے بیٹھا سی ،۔
میں سلام آکھ  وضو کرن لگ پیا ،۔
پائیا مصطفے  کوئی تین دہایاں پہلوں جاپان آ گیا سی  ،  درویش صفت پائیے مصطفے دا زندگی  گزارن دا اپنا ای سٹائل اے  ،۔
پاؤند دناں وچ ای سکریپ دے کم وچ پئے گیا تے  بڑا پیسہ کمایا ۔ دولت دی ریل پیل سی کھان پین دی کوالٹی کہ لوک مثالاں دیں ،۔
کپڑے وی اعلی تو اعلی  ، پر وکھرا سٹائل اے کہ کم والی وردی  پائی تے کم ای کم ، چھٹی ہوئی تے تے فیر  زندگی دے اک اک منٹ توں لطف لے لے کے گزاری اے،۔
پر کم تے سکریپ دا ای سی ناں
ایس لئی جے شام تو بعد دی زندگی عسائش دی انتہا سی تے
کم کردیا ہویاں مشقت دی وی انتہا ہوندی سی ۔
بس جیہڑا وی کم کیتا انتہا تک کیتا!!،۔

گانے، اپنی مان بولی دے، تے راگ ؟ او سندا سی جیدی مینوں تے کدی سمجھ نئیں لگی ۔
اک دن ، دادرہ راگ سندا سی پیا تے مینوں کہن لگا
سن ایس راگ وچ  گاؤن والا اک ای شعر نوں ست رنگاں وچ کہوے گا ،۔
توں دہیان دیوں تے  تینوں سمجھ لگے گی کہ
کیویں رون وچ ہچکی بندھدی اے تے  بندے دے منہ وچوں  گل کیویں نکلدی اے ،۔
تے اوہو گل جدوں ہاسا اندروں نکلدا ہوئے تے کیویں نکلدی اے
یاں
اپنے یار اگے ترلا کردیاں کی لہجہ ہوجاندا اے ؟؟
دادرہ دے کجھ لہجیاں دی مینوں سمجھ لگی تے کجھ ناں لگی ،۔ پر پا ء مصطفے ایس راگ نوں سندا رہیا،۔
کدی کدی تے مینوں پاء مصطفے ایج لگدا سی جیوں  اے مسلمان ای نئیں ،۔
کدی مینوں کافر لغدا سی تے کدی ہندو تے کدی بابے نانک دی توحید دیاں گلاں ،۔
پر میں اینہوں جدوں وی کسے نماز دے ٹایم تے ملیا تے نماز  پڑھدیاں ای ویکھیا ،۔

جاپان وچ رہن والا ہر  جھوٹا تے مغرور بندہ  پائیے مصطفے توں بہت کوڑ کھانا سی ،۔
جے کدی کسے پوچھا کہ یار فلاں تے فلاں بندے تینوں بڑا برا آکھدے نے ۔
تے پایئے دا جواب ہوندا
یار اوس بندے نال میری گراری نئیں بہندی ،۔

ہر جھوٹا بندہ ایس گل تو تنگ کہ  ایدہے وچ عقل ای نئیں ، گل نوں سمجھدا ای نئیں ،۔
تے ہر  ہنکار بھریا ایس گل توں تنگ کہ  ایدھا دماغ خراب اے  بندے نوں بندہ ای نئیں سمجھدا ،۔
باقی دے لوگ ایس نوں بیوقوف سمجھدے سن
کہ
اپنی مجبوری تے مصیبت کا جھوٹا رونا وی رو  کے ویکھا دیو تے ، پنج ست لاکھ دا داء لاؤناں تے کوئی گل ای نئیں ،۔
میں وضو کر کے پلٹیا تے پائیا نماز پڑھ چکیا سی
منون کہن لگا ہن دو بندیاں دی جماعت  کی کرنی سی ؟ میں پڑھ لئی اے تے توں وہ پڑھ لے کھانا تیار اے ،۔
فیر کھانے آں،۔
نماز پڑھ کے میں پچھیا پرجائی تے منڈے نماز نئیں پڑھدے ؟
چھڈ پراں ! آ کھانا کھائے ،۔
ٹیبل تے  وڈے ویلے سویرے سویرے  ای لسی تے پراٹھے رکھے سن !۔
خورے راتی پکا کے  ہاٹ پاٹ وچ رکھ چھڈے ساؤ،۔
 تے نال ای فرانس  والی او “چیز “ رکھی سی جینہوں اسی لوک اپنی بولی وچ آکھدے تے پنیر آن پر  پر اے پنیر ہوندا نئیں
کہ پنیر تے پنجابی والی چھڈی نوں آکھدے نیں تے اے  “چیز “ سی انگریزی والا چیز جس دے وچوں اولی دی بو آؤندی سی  ،۔
میں اے اولی والی بو ماردی چیز پہلی واری  کوئی پندرہ سال پہلوں پائیے مصطفے دے گھر ای ویکھی سی ،۔
جدوں میں ایس نوں کھان تو کریچ کیتی تے پائیا آکھن لگا
اک واری کھا کے ویکھ لے
ایدی بو تیرے دماغ وچ وڑ جائے گی تے تون  اپنے اپ کولون اے “چیز “ کھان نوں منگیا کریں گا ،۔
واقعی اوہو گل ہوئی کہ
کئی واری ایس چیز کا سوچ کے وی منہ وچ پانی آ گیا ،۔
 کھانا کھا کے پائیا مصطفے دعا منگن لگ پیا ،۔
ہتھ چک کے کوئی ادھ گھنٹا نمانا منہ بنا کے دعا منگدا ای چلا گیا ،۔
میں وی  مجبوری نال اتھ چک اودھا منہ ویکھدا رہیا ،۔
جدوں دعا مکی تے میں پچھا کی منگدا سیں پیا ؟
کچھ وی نئیں !،۔
سب کجھ دے دتّہ سو ہور کی منگنا اے ،۔
میں تے شکر پیا کردا ساں کہ
گاں دے تھناں وچ وچ دودہ پایا  جیدا ایک ایک قطرہ چیز بنا کے ساڈے سامنے رکھ  دتہ
کنک دے سٹے وچ دانے پائے ، جیدا آٹا اساں کھادا ،
پانڈے دھون دا صابن دتہ ،  پین نون پانی دتہ ، چکھن نوں جیبھ دتی ، نگلن نوں تٗھک دتہ
پاء مصطفے
اپنے شکرانے دی تفصیل دسی جا رہیا سی تے میں سوچی پیاں سان
اک ساڈے مولوی نیں  جیہڑے سانوں دسدے نے کہ رب نوں راضی کر لو
تے
اک اے پاء مصطفے اے جیہڑا رب تے راضی ہویا پھردا اے ،۔
پاء مصطفے دی ایس نویکلی سوچ کو سمجھن لئی وی بہتی ساری سمجھ دی لوڑ اے ،۔

میرا خیال اے اج ایس زمانے نوں تو ایس تعلیم دی لوڑ نئیں کہ
رب نوں راضی کرو
بلکہ پاء مصطفے والے کم دی لوڑ اے کہ اسی رب تو راضی ہو جائیے ،۔
یقین کریا جے ایس گل وچ بڑا اسرار لکیا ہویا جے ۔
جیدہے وچ زمانے کی بھلائی دے خزانے دبے ہوئے جے ،۔
نویکلی سوچ

جمعہ، 26 اگست، 2016

ای سگریٹ ، تمباکو نوشی میں ایک نئی جہت

گاؤں دیہات میں ہم نے دیکھا ہے کہ  بڑی بوڑھیں پھسکڑا مارے بیٹھی ہوئی یا کہ چار پائی سے ٹانگیں لٹکائی ہوئی حقے کی نئے منہ میں دبائے سوٹے لگا رہی ہیں ،۔
برگد کے نیچے ، ڈیروں پر چوپالوں میں مردں کے گروپ حقہ نوشی کر رہے ہیں م،۔
بانس یا لکڑی کی نڑی والے منقش حقے یا کہ نرم پائیپ والے حقے  یہاں وہاں کشید کئے جارہے ہیں ،۔
پھر مارکیٹ میں سگریٹ آ گئے ،۔
حقے کو تازہ کرنا ، تمباکو کا انتظام ، آگ کا  انتظام کوفت لگے لگی اور مارکیٹ میں سگریٹ چھا گیا ،۔
سیگرٹ کی مضحر صحت ہونے کی  حکومتی آگاہی کی مہم چلی تو فلٹر والے سگریٹ آ گئے ،۔
سگریٹ نما کئی فلٹر چیزیں بھی آئی لیکن سگریٹ کے مقابلے میں نہ چل سکیں م،۔
ہاں حقہ کہیں نہ کہیں اپنی خصلت میں بقا کے جراثیم لئے چلتا ہی رہا
اور پھر  شیشہ کے نام سے ہماری محفلوں میں گڑ گڑ کرنے لگا ہے ،۔
اور اب  تمباکو نوشی کی مارکیٹ میں ای سیگریٹ آیا ہے اور آتے ہی چھا گیا ہے  م،۔
ای سیگریٹ فلپ موریس والوں نے اس کو  “ آئی کیو اے ایس “ کا نام دیا ہے م،۔
جس کے مقابلے میں جاپان  تمباکو نے “ پلوم ٹیک “ نامی ای سیگریٹ مارکیٹ میں لانچ کیا ہے  ،۔
ہر دو ! ای سیگریٹ فلپ موریس والوں اور جاپان تمباکو والوں کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ مارکیٹ میں جتنے بھی شوکیس تک پہنچتے ہیں بک جاتے ہیں  ۔
فلپ موریس والوں نے ای سگریٹ پچھلے سال ستمبر میں مارکیٹ میں پھینکا تھا ، اس دن سے اج تک اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ،۔
مارکیٹ میں جتنا بھی لایا گیا بک گیا
بلکہ کچھ سٹوروں والے تو ایڈوانس بکنگ کر کے رکھتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اپنے گاہکوں کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتے ،۔
اس ای سیگریٹ کو کشید کرنے سے نہ تو شعلہ بنتا ہے اور نہ ہی دھواں نکلتا ہے ،۔
اس میں ایک خاص قسم کے بخارات نکل کر سانسوں میں تحلیل ہو جاتے ہیں م،۔
نیکوٹین کی مقدار کسی بھی عام روائیتی سیگرٹ جتنی ہی ہوتی ہے م،۔
ای سگریٹ  کی مشین کی قیمت فلپ موریس والوں کی کوئی نوہزار ین ہے اور جاپان تمباکو والوں کی کوئی چار ہزار ین ہے م،۔]
ہر دو میں کشید کرنے کے لئے مخصوص سگریٹ کیپسول علیحدہ سے خریدنے پڑتے ہیں م،،
ای سیگریٹ کو کشید کرنے سے صحت پر پڑنے والے برے اثرات کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ویسے ہیں ہیں جیسے کہ عام سگریٹ کے اثرات برے ہیں م،۔
صرف دھواں نہ نکلنے اور شعلہ نہ ہونے کی وجہ سے  اس کے برے اثرات  سے وہ لوگ بچے رہتے ہیں جو سیگریٹ نوش کے قریب ہوتے ہیں م،۔۔
ای سیگریٹ کو شروع کرکے چند ہفتوں سے لے کر چند مہینوں میں سگریٹ نوشی چھوڑ دینے والے افراد بھی سوسائٹی میں نظر آنے لگے ہیں ،۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ اپنی صحبت کی وجہ سے کسی دوست کو تمباکو نوشی کرتے دیکھ کر  ، ایک  سوٹا مجھے بھی لگوانا  ، سے دوبارہ اسی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں م،۔
جہان تک علاقائی حکومتوں کا رویہ ہے تو ،وہ مختلف علاقوں میں مختلف ہے ،۔
ٹوکیو میٹروپولیٹن کی “چیودا “ وارڈ  ای سگریٹ کو بھی  تمباکو نوشی کی طرح ہی پبلک مقامات پر یا کہ چلتے پھرتے سموکنگ کرنے کو جرمانے  کے قابل جرم  کے طور پر ڈیل کرتی ہے ،۔
اوساکا اور ناگویا کہ بلدیہ سرکار اس معاملے کو  شعلہ اور دھواں نہ ہونے کیہ وجہ سے ابھی   سزا سے مستثنی قرار دیتی ہیں ،۔
لیکن اس بات کا ضرور کہتی ہیں کہ عوام کو سروس مہیا کرنے والے کاروبار ریسٹورینٹ وغیرہ اپنی اپنی جگہ اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ
ای سیگریٹ کو سمکنگ ایریا تک محدود رکھنا ہے یا کہ نان سموکنگ ایریا میں بھی کشید کیا جاسکتا ہے ،۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے ،۔
حقے سے سیگریٹ اور اب ای سیگریٹ ،۔
ترقی یافتہ اقوام نے ہر زمانے میں ان چیزوں کے استعمال کے اصول وضع کر کے اپنی زندگیوں کو اسان بنایا ہے ،۔
جاپان ای سیگریٹ کے دور میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے لئے اصول بھی وضع کر رہا ہے ،۔

ہفتہ، 20 اگست، 2016

کامیابی

جنگل کے بادشاھ شیر نے کہا کامیابی بس اسی چیز کانام ہے اپنے خاندان کے لئے جان لڑا دینااور زمانہ امن میں مکھیوں سے ناک چھپا کر سولینا ،۔
شیرنی نے زبان بے زبانی سے کہا  ، اپنے اور اپنے قبیلے کے لئے شکار مارنا کامیابی شکار پر قابو پا کر کھانے کھلانے کا نام ہے ،۔
گہلری نے کہا ، گٹھلیوں سے گھر بھر لینے کا نام کامیابی ہے ،۔
کتے نے کہا ؛ ہڈیوں کو دوسروں سے چھپا کر زمین میں دفن کر لینا چھوٹی کامیابی ہے اور ہڈی چھپائی کہاں ہے اس کو یاد رکھنا ہی کامیابی ہے ،۔
کوئے نے سیانے پن کی سیانف “گند “ کا حصول بتایا ،۔
اور بلبل نے پھولوں کی صحبت اور محبت کو کامیابی کہا ،۔
لومڑی نے کہا کہ کامیابی کسی دوسرے کے مارے شکار کو لے اڑنے کانام ہے تو دشمن کو چکمہ دینا ہی کامیابی ہے ،۔
اتنے میں ہلکی سی ہوا چلی
کہ
مچھر دہائی دیتا ہوا اڑا کہ اس ہوا سے خود کو سنبھال لیا جس نے وہ بڑا کامیاب ہوا ۔
سپیدہ سحر نمودار ہو کہ الو نے انکھیں میچ لیں
کہ اگر یہ روشنی نہ ہوتی تو میں کامیاب ہوتا ،۔
بھیڑ نے سوچا کہ اون منڈھوانا کامیابی ہے کہ ناکامی ،انسان نے مجھے دھر بنا کر رکھ لیتا ہے
کہ میری قسمت ہی مونڈھے جانا ہے ،۔
بندر کہنے لگا کسی کے ہاتھ نہ  آنا ، چستی ہوشیاری اور پھرتی کامیابی ہے ،۔
وہیں حضرت انسان بھی تو تھے
سب نے ان کی طرف دیکھا
کہ جناب اپ کے نزدیک کامیابی کیا ہے ؟
تو ؟
انسان سوچ میں پڑ گیا ،
اور خود سے پوچھنے لگا کامیابی ہے کیا چیز ؟
پھر حضرت انسان گویا ہوا ۔
دیکھو یارو تم سب جانور اپنی اپنی جگہ ایک مکمل جانور ہو
لیکن میں ابن آدم ایک ایسا جانور ہون جو سب جانوروں کی فطرت لئے ہوئے ہوں ،۔
میں جو کہ عقل رکھتا ہوں ، احساس رکھتاہوں  سوچ رکھتا ہوں  تو انسان ہوتا ہوں ۔
میں اگر ایمانداری سے کہوں تو
یہ ہی کہوں گا کہ
ابن آدم کی ایک بڑی اکثریت نے تو ، تم جانوروں کی طرح جس جس میں  جس جس جانور کی فطرت اوج کو آئی اس نے اسی کو کامیابی ہونے کا یقین رکھ کر گزر گیا ،۔
اب آدم نے اپنے اندر کے جانور کی طلب کو پا کر اپنی طلب کو کامیابی کہا اور دوسروں کی طلب کو حقیر جانا ،۔
ابن آدم  میں جو انسان ہوا
اس انسان نے ابھی کامیابی کی کوئی تعریف مقرر نہیں کی ہے
یارو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ انسان ابھی تک کامیابی کی کوئی تعریف مقرر ہی نہیں کر سکا ،۔
انسان  جو کہ اپنی سوچ میں اضطراب رکھتا ہے،۔
کبھی تو ندیوں کی روانی میں  کیدار راگ سن کر لطف لیتا ہے تو
دھوپ کی تپش میں دیپک راگ کو کانوں سے زیادہ مساموں سے سنتا ہے ،۔
چٹانوں کے چٹکنے سے تلنگ راگ کو سن کر یا گا کر اگر کامیابی نہیں تو
کبھی گہلری کی طرح مال اکٹھا کرتا ہے ، کبھی کتے کی طرح اپنے مال کو چھپا کر خود ہی بھول جاتا ہے ،۔
کبھی شیر کی طرح دشمن کو مارنا کامیابی کہتا ہے تو اگلے لمحے بیماری کی مکھیوں سے بچنے کو کامیابی محسوس کرتا ہے ،۔
کبھی کوئے کی طرح سیانا بن کر  گرتا ہے تو گند پر بھی گر جاتا ہے ۔
کبھی بھیڑ کی  طرح مونڈھا جاتا ہے اور اولاد کے ہاتھ مونڈھ منڈوا کر کامیابی کہتا ہے ،۔
کبھی الو کی طرح بے علمی کی سیاہی کو کامیابی اور علم کے نور کو اندھا پن کہہ کر اس کو کامیابی کہتا ہے ،۔
 بندر کی طرح ہوشیاری ،اور پھدکنے کو کامیابی کہنے والے بھی بہت ہیں ،۔
انسان ابن آدم بڑا متلون مزاج ہے ،۔
اس لئے انسانوں کی معاشرت میں کامیابی کی کوئی ڈیفینشنز مقرر نہیں ہوئیں۔
سانپ کی طرح مذاہب کی بین پر جھومنے والے کامیاب ہیں تو سائینس کی چونکا دینے والی  نکتہ چینیوں کے خوشہ چین بھی ہیں ،۔
فلسفے کی موشگافیاں ہیں تو حماقتوں کے قہقہے بھی ہیں ،۔
یارو ! مجھے ، بحثیت انسان  یہ کہنے دیں کہ ابھی انسانوں نے تو کامیابی کی کوئی تعریف مقرر نہیں کی  ، ہاں اپ لوگوں یعنی جانوروں کی برادری کی اپنی اپنی کامیابیاں ضرور ہیں  ۔ْ

جمعرات، 18 اگست، 2016

کٹ پیس


محبت ؟ ہاں محبت آندھی ہوتی ہے ،۔
اس  مرض کا علاج ، شادی ہوتی ہے ،۔
بینائی کی بحالی ہی نہیں ، انکھیں کھول دیتی ہے  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت ؟ اکھدے نے انھی ہوندی اے ،
پر ، شادی ؟ اکھاں کھول دیندی اے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کو ہنسی میں اڑانے کا طریقہ سیکھو ۔
کہ
اگر کوئی شر پسند ، جنت میں بہنے والی دودہ کی نہر کو دہی سے جاگ لگا جائے تو ؟
بجائے اس کو  سزا دینے کے لئے پاگل ہونے کے ۔
دہی کو ریڑکا لگا کر
مکھن ، اور لسی بنا لو ۔
مولا خوش رکھے ،۔

جذباتی ، پاک مسلمانوں سے معذرت
کہ
جرنل ضیاع والے اسلام سے پاکستان کو واگزار کروانے کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔
اپ کے ارمانوں کا قتل ہو رہا ہے ، اپ کے جذبات مجروع ہو رہے ہیں ؟
تو
عقل نوں ہتھ  مارو !،۔
تے سیانے بنو!۔


وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ،یک دم نہیں ہوا کرتے ۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے وفاقی کابینہ، پارلیمنٹ اور محترمہ فاطمہ جناح کی مذمت کے باوجود سندھ طاس معاہدے پر دستخط کئے تھے
تقریباً نصف صدی بعد ۔
پنجاب میں دریاؤں کا پانی رس رس کر زمین میں فلٹر ہوتا رہتا پے ، جس کو کنوئیں اور پمپوں کے ذریعے نکال کر انسان پیتے ہیں ،۔

راوی دریا ایک نالہ بن چکا ہے ،۔
لاہور ! میں پانی کی سطح گر چکی ہے ،۔
جو پانی نکل رہا ہے اس میں سیسے کی مقدار  انسانی صحت کے لئے خطرناک حد تک  پائی جاتی ہے ،۔
پینے کا پانی لاہور کے لئے مسئلہ بن چکا ہے ،۔ گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی بہتات ہے ،
ریکارڈ نہ رکھنے کی وجہ سے ،اس خطرناک صورت حال کا ادراک مشکل بنا ہوا ہے ۔
اگر راوی میں پانی پہتا رہتا تو؟
لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح  اور کوالٹی برقرار رہتی ،۔
لیکن
کام خراب ہو چکا ہے
اور اس کا کوئی حل نہیں ہے ،۔
کہ سندہ طاس معاہدے کی رو سے  ستلج اور راوی کا پانی انڈیا کو دیا جاچکا ہے ۔
لاہوریو! تہاڈا پانی تے تہاڈی اؤن والی نسلاں دا پانی !۔
جرنل عیوب ویچ کے کھا وی چکیا ہویا جے ۔
تے تہانوں پتہ ای نئیں کہ تہاڈے نال کی “ ہینڈ “ ہو چکیا اے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توحید ؟ توحید دنیاوی زندگی میں بھی کامیابی کی کنجی ہے ، اس کے بہت فائدے ہیں ،۔
لبرل یا کہ بے مذہب ہو کر بھی اگر بندے کو سمجھ ہے تو؟ وہ "ایک خدا " ضرور بنا رکھے گا کہ
یہ بہت گہری بات ہے ۔
لیکن جہاں تک بات ہے پاکستان کے شرک کی تو یہ ایک علاقئی "جینز" میں پائی جانے والی چیز ہے ،۔
بنیادی طور پر یہ ہندو نیچر کہہ لیں یا کہ طریق معاشرت ؟ اس میں مورتوں اور شخصیات کی عقیدت ضرور ہوتی ہے ۔
ہندو طرز معاشرت کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ
اپنے نزدیک آنے والے ہر مذہب کو کھا جاتا ہے ، ۔
ہندو کے نزدیک کا کوئی بھی مذہب ، صدیوں کے سفر میں ہندو ہی بن جاتا ہے ،۔
دلچسپ بات کہ کچھ مذاہب اپنا نام علیحدہ رکھ کر خود کو غیر ہندو ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں
مگر
ان کی عبادات ، اور عقیدتیں ، ہندو ہی کی طرح کی ہوتی ہیں ،۔
فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ہر نئے مذہب کی عقیدت اور عبادت کے لئے گھڑی گئی شخصیات مختلف ہوتی ہیں ،۔
باقی مذاہب کی مثال بھی دی جا سکتی ہے لیکن ہم یہاں اسلام کی مثال دیتے ہیں ۔
کہ اسلام جس میں توحید کا سبق بڑا اہم ہے ، جس میں انسانوں کے برابر ہونے کا بہت بتایا جاتا ہے ،۔
یہی اسلام جب ہند میں آتاہے تو ۔
ہندو کے جنگی نعرے “بجرنگ بلی “ کے ہم وزن نعرہ “ یا علی “ لے آتا ہے ۔
انسانی برابری کی مثال
یہ کہ برہمن کے مقابلے میں “ سید “ لے آتا ہے ۔
ہر ہندو دیوتا ، بت کے مقابلے میں ایک قبر لے آتا ہے ۔
لیکن پھر بھی خود کو توحید پرست اور مساوات کا داعی کہتا ہے ۔
پاکستان کا اسلام ، پاک اسلام ہے ،۔
اس میں جو جو باتیں شامل ہو چکی ہیں ، وہ اس علاقے کی عادات ہیں ۔

منگل، 16 اگست، 2016

علم عقل کی باتیں


محاورے کی کہانی!،۔
ٹرک دی بتی پچھے!!،۔
ساٹھ کی دہائی میں ، ملک تو ترقی کر رہا تھا لیکن لوگ ملک سے بھاگنے شروع ہو چکے تھے ،۔
جرمنی میں کہیں کسی لوگر ہاؤس میں  پاکستانی اور کچھ سکھ بھی  جرمن حکومت نے رکھے ہوئے تھے ،۔
ان میں سے سکھ اور مسلمان لڑکوں کی ہر روز کسی نہ کسی بات میں  مقابلہ بازی ہوتی ہی رہتی تھی ۔
کبھی گٹ پکڑنا ، کبھی پنجہ لڑانا ۔
جوان لڑکے مقابلے بازی میں اپنے اپنے ملک اور دھرم کو بہتر بنا کر پیش کرتے تھے تو بزرگ لوگ ریفری ہوتے تھے ،۔
اقبال سنگھ اور محمد اقبال کی چڑ چڑ سے تنگ ایک دن  ایک بزرگ لوگوں نے ان کو دوڑ کر اپنی صلاحیت دیکھناے کا راستہ دیکھایا ،۔
سارے لوگر ہاؤس کے لوگ ہلا شیری دینے لگے ،۔
رات کا وقت تھا ،۔
دور کہیں کسی گھر کی بتی جل رہی تھی ، پہلے محمد اقبال کو کہا گیا کہ تم اس بتی کو چھو کر واپس آؤ گے ،۔
ایک گھڑی درمیان میں رکھ کر محمد اقبال کو ون ٹو تھری کر دیا گیا ،۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا ، محمد اقبال کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آیا ۔
اب باری تھی  اقبال سنگھ کی ، پہلے ہی کی طرح اس کو بھی ون ٹو تھری کروا  دیا گیا ۔
سب لوگ گھڑی دیکھ کر انتظار کرنے لگے ، اقبال سنگھ واپس نہیں پلٹا ، ایک گھنٹا ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، رات بھیگنے لگی ، سب لوگ مایوس ہو کر سو گئے ، اگلے دن بھی اقبال سنگھ واپس نہیں آیا ،۔
بڑی چرچا ہوئی سب لوگ اقبال سنگھ کے لئے پریشان تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ۔
تیسرے دن  اقبال سنگھ واپس پلٹا ، چہرئے پر ہوائیاں ، اڑ رہی تھیں ۔ سانس پھولی ہوئی تھی ، چہرہ پچک کر چوسے ہوئے آم کی طرح ہوا تھا ،۔
سب لوگ اس کے گرد اکھٹے ہوگئے ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا
کہ اقبال سنگھا ہوا کیا تھا ؟
اقبال سنگھ نے ہانپتے ہوئے بتایا
یارو، تم لوگوں نے جو بتی مجھے دیکھائی تھی وہ ٹرک کی بتی تھی ۔
اور وہ ٹرک فرینکفرٹ جا کر رکا تھا ،۔
میں اس ٹرک کی بتی کو فرینکفرٹ میں ہاتھ لگا کر واپس آ رہا ہوں ۔
حاصل مطالعہ
اس دن سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اقبال سنگھ کی فیلنگ کو  محسوس کرنے والا بندہ خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا محسوس کرتا ہے ،۔


اچھو : یار گامیا؟ یہ سارے مذہبی سکالر ، دانشور ، اور  مولوی شولوی  چودہ سو سال سے بحثیں اور لڑائیاں کیے جا رہے ہیں ۔
اخر ان کا مقصد کیا ہے ؟ یہ چاہتے کیا ہیں ؟؟
اے سارے سیانے اللہ دے حکم  “ واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا” تے عمل کیوں نہیں کرتے ؟
شیدا سیانا : گامیا کھول دے سیکرٹ ، اور بتا دے  حقیقت !۔
گاما : ویکھ اچھو ! یہ بات بڑی سیکرٹ ہے اپنے تک رکھنا ورنہ  ، یہ سارےے تمہیں قتل کرنے کی بات میں سارے تفرقے کو ایک طرف رکھ دیں گے۔
وہ سیکرٹ یہ ہے
کہ
اگر ان سب لوگوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا تو ؟
شیطان بے چارے کا کیا بنے گا ؟؟
گل سمجھ لگ گئی اے ناں ، اے سارے اللہ دے نام تے شیطان دے بندے نے !!۔


ایک کان صاحب، بادام بیچ رہا تھا ۔
گامے کو کہتا ہے بادم لے لو سیٹھ ! اس کے کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے ۔
گاما: اچھا وہ کیسے ؟
کان صاحب : میں ایک سوال پوچھتا ہوں اس کا جواب دو ۔
گاما : ہاں پوچھو !۔
کان صاحب : ایک سیر وزن میں چاول کے کتنے دانے ہوتے ہیں ؟
گاما : 38400 اٹھتیس ہزار چار سو دانے ۔
کان ساحب : بکواس کرتا ہے اے دال خور ، تم  نے چاول کا دانہ گنا ہوا اے ؟ گپ باز کمہارو!۔
گاما: کان صاحب وزن کا فارمولہ ہے
کہ 5 دانے چاول برابر ہے ایک رتی ،۔
آٹھ رتی کا ایک  ماشہ ، بارہ ماشے کا ایک تولہ  ، اسی تولے کا ایک سیر ،
یہ بنتے ہیں ، 5* 8=40 یعنی  ایک ماشہ ، 40*12= 480 ایک تولہ ، 480*80=38400 دانے چاول یعنی کہ ایک سیر ۔

اوئے کان صاحب ، عقل بادام کھانے سے نہیں آتی ،عقل تعلیم حاصل کرنے سے آتی ہے ۔

==================
جس کے پاس جا کر ہر مرد سر جھکا کر بیٹھ جاتا ہے ۔
اس کو کیا کہتے ہیں ؟،۔
اس کو راجہ (نائی) کہتے ہیں !!۔
اور  اس مرد مہربان کو کیا کہیں گے ، جو راجہ کے سامنے بھی سر نہیں جھکاتا ؟؟َ
اس مرد مہربان کو کہیں گے !
گنجا !!،۔؎


شرک اور عقیدت پر بات چل رہی  تھی۔
شیدا سیانا ، بڑا سنسنی خیز لہجے میں جیسے کہ سب کو اطلاع دے رہا ہو !۔
بتاتا ہے ۔
ویکھو جی ؛ دنیا بھر میں کوئی بھی دھرم  ایسے ہی کوئی پتھر اٹھا کر اس کی پوجا شروع نہیں کر دیتا ۔
پتھر کے ہر بت یا قبر کے تعویذ کے پیچھے ایک شخیصت  ہوتی ہے ، جس کی پرستش یا عقیدت کرتے ہیں ۔
خاص گامے کی طرف منہ کر کے کہتا ہے ۔
کیوں جی بھائی گامیا؟ کیا ایسا کوئی احمق ہو گا جو ایسے ہی ، کسی پتھر سے امیدیں لگائے بیٹھا ہو ؟؟
گاما ہلکا سا  “ آہو “ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے ۔
شیدا سیانا تپ کر کہتا ہے ، بھائی گامیا ، کوئی گل کر کرن والی ، ایسا کوئی احمق ہو ہی نہیں سکتا جو صرف ایک پتھر سے عقیدت یا  امید رکھتا ہو ۔
گاما: یار شیدیا ! تم نے بھی تو وہ کتاب پڑہی ہے ناں ؟ “ پتھروں کے خواص”؟ اور تم نے بھی تو فیروزہ انگوٹھی میں منڈھ رکھا ہے ناں ؟
کہ اگر فیروزہ مافک آ گیا تو وارے نیارے ہو جائیں گے ۔
اسی طرح نیلم ، تامڑہ ، زمرد اور پکھراج پہننے والوں کی امیدوں سے کیا تم واقف نہیں ہو ؟
شیدا سیانا لاجواب ہو کر کھسیانی سی ہنسی  ہونٹوں پر سجا کر سب کی طرف دیکھتا ہے
او جی اے گاما ہے ہی کھسکیا ہوا ، جب بھی بولتا ہے  وکھی سے ہی بولتا ہے  ۔
ہی ہی ہی ہی !!!۔


سوال تھا کہ
اصحاب اعراف کیا ہیں ،۔
جواب : وہ لوگ جو جہنم اور جنت کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں کہ
اس کے تیار کردہ کاغذات (نامہ اعمال) کے حساب سے ان کو جنت نصیب ہو گی کہ جہنم ۔
فی زمانہ
اپ ایسے لوگوں کی کیفیت کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو؟
ایسے لوگ دیکھ لیں جو ، امریکہ یورپ یا جاپان پہنچ چکے ہیں ،
اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ
امیگریشن والے ان کو جنت میں داخل کرتے ہیں یا کہ  ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

سوال تھا کہ
ذندیق کیا ہیں ؟؟
جواب : وہ لوگ جو فواید حاصل کرنے کے لئے  مسلمانون کے ساتھی ہوں لیکن دل سے اس نظام کی تباہی چاہتے ہوں ۔ بجائے تشکر کے کیڑے نکلاتے ہوں ۔
فی زمانہ
 امریکہ ،یورپ یا جاپان کی ایمگریشن ، نیشنیلٹی کے لئے ہلکان ، لیکن انہی ممالک کو درالاکفر ، کہتے ہوئے ان کی تباہی کی دعائیں کرتے ہیں ، ان کی مثال دیکھ سکتے ہیں ،۔

پیر، 15 اگست، 2016

فوک وژڈم اور وچار


فلوک وژڈم (دیسی دانش) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان کے دورے پر آئے ہوئے  پاکستان کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب سے ،ایمبیسی کے توسط سے ملاقات ہوئی تھی ،۔
ڈار صاحب نے بہت تفصیل سے بتایا کہ جاپان کی حکومت نے اس بات کا بہت تکرار سے شکوہ کیا ہے کہ
جاپان کو لگتا ہے ، پاکستان تو جاپان کو بھول ہی گیا ہے ۔
راقم نے سوال کیا ،  جاپان کے اس شکوے کو دور کرنے کے لئے ، آپ کے ذہن میں کیا لائحہ عمل ہے ؟
تو ڈار صاحب نے بڑا منہ توڑ جواب دیا تھا ۔
پچھلے آدھ گھنٹے سے میں اس بات کی تو تفصیل بتا رہا ہوں  کہ جاپان کیا محسوس کرتا ہے ،۔
سوال چنا ، جواب گندم !!،۔
المیہ : حکمرانوں کی سوچ ہی چائینہ کا مال بن چکی ہے ،۔

چائینہ کا مال !!۔
ناقص کارگردگی کا استعارہ  ہے ۔
اور جاپان کا مال ؟
کوالٹی اور بھروسے کا نام ،۔
پاکستان میں اقتصادی کوریڈور سے لے کر ، ٹرینوں کے انجن ، چاند گاڑی ،بلکہ حکومت تک چائینہ کے مال سے چل رہی ہے ،۔
اور
دشمن پڑوسی ملک  ، کے ایٹمی پلانٹ ، ٹرینیں ، سی پورٹ ! ۔
جاپانی ماہرین بنا کر دے رہے ہیں ،۔
پھر کہتے ہیں ،
بنیا  بہت چالاک ہے ،۔
***************
کھاؤ خصماں دا سر ، تے ؟ سانوں کی !!۔


عید مبارک !!۔
****************
صرف میرے دوستوں ، خیر خواہوں اور پیاروں کو  “* عید مبارک “*۔
اللہ تعالی اپ سب کو بہت زیادہ خوشیاں نصیب فرمائیں ۔
******************
دیگر عوام   ، منافقوں کو ان کی منافقت ، جھوٹوں کو ان کا جھوٹ ، مغروروں کو ان کا ہنکار  مبارک ہو ۔
کتی کے بچوں کو ان کا کت خانہ ،مبارک ہو ۔

میرے طرف سے ،اپنی اپنی مبارک کا تعین خود کر لیں ۔
جزاک اللہ!!!۔

نوٹ : میں نہ تو خدا ہوں کہ سب پر رحمت  ہی کرتا چلوں
اور
نہ ہی منافق  ہوں !،۔


ہندو ایک طرز معاشرت ہے ،
جس میں برہمن ، مذہبی معاملات کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ  کشتھری لوگوں کی “پوتھی “ (شجرہ) بھی لکھتا تھا ۔
اپ اس کو برتھ ریکارڈ رجسٹر سمجھ لیں ۔
اس رجسٹر کو سنبھالنے والے خاندان کو  مراثی کہتے تھے ، ۔
برصغیر میں پرانوں سے یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ
اپنی “جاتی “ تبدیل کر کے بڑی “جات “ (ذات) والے بن جاتے ہیں ،۔
یہ مراثی لوگ بھی کبھی کبھی علاقہ تبدیل کر کے  برہمن بن جاتے تھے ۔
لیکن ان کی بد قسمتی کہ ایک دو نسل تک لوگ ان کو “ بنا ہوا “ برہمن ہی کہتے تھے ،۔
پھر اسلام آ گیا ۔ یہی لوگ سید بن  جاتے تھے ،
لیکن برصغیر کے لوگوں کی ذہنیت کہ ان کو  بھی  “ بنا ہوا “ سید ہی کہتے تھے ۔
یہان جاپان میں ۔
پچھلی دو دہائیوں میں جن لوگوں نے جاپان کی شہریت لی ہے ان میں  زیادہ تر وہ پاکستانی وہ ہیں جو  “سید “ ہیں ۔
یہاں جاپان میں بھی یہی مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے کہ
سارا معاشرہ  ان کو “ بنا ہوا “ جاپانی ہی سمجھتا ہے ۔
مجبوری بھی ہے شکل ہی علیحدہ ہے ۔
لیکن کوئی بات نہیں جیسا کہ برصغیر میں ہوتا تھا
ایک دو نسل بعد تو “ اصلی والے “ ہی ہو جائیں گے ناں جی ۔

باتیں شکوفے ،چٹکلے


اسلام میں ، روح کی غذا “گانے “ حرام ہیں ۔
اور
میڈیکل سائینس میں  ، مریضوں کو سارے مزے کے کھانے حرام ہیں ،۔

یارو ؟ بندہ مسلمان بھی ہو اور مریض بھی تو؟

تسی آپ ای دسو کہ بندہ منجی کتھے ڈائے ؟؟
جواب: تسی بس “بٹ “ ہو جاؤ  تھے کھاندے ای جاؤ تے گاؤندے وی جاؤ ۔
مر تے اک دن جانا ای ایں ۔


گرمی دے موسم وچ ،آمبھ!
آمبھ کھان نال بندے وچ حوصلہ پیدا ہوندا اے !،۔
ہور بہتے سارے آمبھ خریدن کا حوصلہ ۔
ہدوانہ کھان نال ٹھنڈ پئے جاندی اے ،   ہدوانہ خریدن تے دل ای نئیں کردا !،۔


پینو سیانی ، اچھو ڈنگر کو ہمیشہ “ اچھو کوجا “ (بد صورت) کہہ کر پکارا کرتی تھی ،۔
پھر یہ ہوا کہ ایک دن پینو نے اچھو کی بنک والی پاس بک دیکھ لی ۔
اب
پینو سیانی ،   اچھو ڈنگر کو کیا کہہ کر پکارتی ہے ؟
کوجا تے کنگلا!!،۔


اچھو : یار گامیا؟ تم نے کبھی مشاہدہ کیا ہے کہ
یہاں کسی بھی دانش ور کی نسبت کسی بھی کتے کے زیادہ محسن ہوتے ہیں !۔
بھلا کیوں ؟
گاما : کیونکہ  کتّے دم ہلاتے ہیں ،۔
اور دانش ور کی دم نہیں ہوتی ۔


ایدھی صاحب کے لئے اللہ سے ان کے “جنت میں درجات” بلند فرمانے کی دعا کرنے والوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے
کہ
ایدھی جیسے لوگوں کو جنت میں بھیج کر اللہ تعالی  جنت کے درجات بلند فرماتے ہیں ،۔
جس پر جنت بھی  اللہ تعالی کی  مشکور ہوتی ہے ،۔
مولا خوش رکھے !۔

***************
ایدہی صاحب ، فوت ہو گئے ،۔
صرف بانوے سال کی عمر میں !،۔
ایدھی کے جانے کا پڑھ کر ، میرے ذہن میں ، شدّت کے ساتھ جو الفاظ ابھرے ،۔
وہ یہی ہیں ۔
ایڈھی چھیتی؟؟(اتنی جلدی)۔
اربوں سال عمر کی اس جوان کائینات میں اگر ایدہی کو  چند سو سال عطا کر دئے جاتے تو بھی کم ہی تھے ،۔ صرف بانوے سال !۔
دیسی دانش میں ایک محاورہ ہے کہ
جو لوگ خوبصورت فطرت  لے کر پیدا ہوتے ہیں  ، ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے ،۔
ایدہی صاحب ایک بہت ہی خوب فطرت انسان تھے ، اسی لئے ان کو اتنی جلدی بلا لیا ہے  رب نے اپنے پاس ،۔
ہر رزو ،لوگوں کے مرنے کی خبریں پڑھتے ہیں ، سنتے ہیں ،ایک فقرہ لکھ کر گزر جاتے ہیں ،۔
انالله و انا الیه راجعون ،۔
وہ بھی کاپی پیسٹ  کرتے ہیں ،۔
یہ علم تھا کہ اب ایدھی صاحب کے دن کم ہیں ، سفید ریش ضعیف ، نقاہت جس کی ہر ادا سے جھلک رہی ہے ،۔
اس کے جانے کا زمانہ اب ایا ہی چاہتا ہے ،۔
لیکن پھر بھی دل کو تسلی دیتے تھے ،۔
شائد ابھی نہیں !!،۔
یہ موت ،انالله و انا الیه راجعون کہہ کر گزر جانے والی نہیں ہے ۔ میرے جیسے کٹھور دل کے بندے سے بھی بہت سے انسوؤں کا نذرانہ لے کر جانے والی موت ہے ،۔
ایدھی جیسے لوگ  روز روز پیدا نہیں ہوتے ، ایدھی جیسے لوگ ، خدا کے ہونے کا ثبوت لے کر آتے ہیں ۔
اور مذاہب کے منہ پر تھپڑ لگا کر چلے جاتے ہیں ،۔
عبدل ستار ایدھی ، زندہ باد !!۔

یوکائی واچ یعنی واہموں والی گھڑی ،۔

یوکائی واچ یعنی واہموں والی گھڑی کا ٹائیٹل ایمجز، ایج بشکریہ وکی پیڈیا
یوکائی واچ یعنی واہموں والی گھڑی ،۔
====== کہانی کا مرکزی خیال  ======
ایک لڑکا جس کا نام “ کے ای تا” ہے ،جاپان میں ساکورا نیو ٹاؤن نامی ابادی میں رہتا تھا ،۔
ایک دن جنگل میں بینڈے (کیڑے مکوڑے) پکڑنے کے لئے جاتا ہے ،۔
جنگل میں ایک پرانے درخت کے پاس اس کو گیند نما کیپسل ملتے ہیں ،۔
کے ایتا ان میں سے ایک کیپسل کو کھولتا ہے  تو اس میں سے ایک  یوکائی (بھوت یا واہمہ ) نکلتا ہے  ،۔
کیپسل مشین ، خیالی مشین کا ایمج ، جس میں سے کے ایتا کو یوکائی ویسپا والا کیپسل ملا تھا ۔

جس کا نام ہے ویسپا (سرگوشیاں)!۔
ویسپا  نامی یہ واہمہ  کے ایتا کو ایک گھڑی دیتا ہے ،۔
اس گھڑی کام ہے یوکائی واچ !۔
یوکائی  یعنی واہمے  واچ یعنی گھڑی ،۔
واہموں کو شناخت کرنے والی گھڑی ، یوکائی واچ!۔
اس یوکائی واچ سے کینتا  مختلف یوکائی (واہموں) کو دیکھنے اور ان کو قابو کرنے کے قابل ہو جاتا ہے ،،۔
یہاں ان دونوں یعنی ویسپا اور کے ایتا کے ساتھ ایک بلی کی روح جو کہ یوکائی بن چکی ہے بھی شامل ہو جاتی ہے ،۔
اس کانام ہے جی بانیاں !،۔
یوکائی یعنی واہمے جو کہ معاشرے میں انسانوں کے روئیے پر اثر انداز ہوتے ہیں ،۔
کیپسل والی مشین سے آیت مصطفے والموں کا میڈل خرید کر دیکھا رہا ہے۔

یہ تینوں ، کے ایتا ، ویسپا، اور جیبانیاں مل کر ان واہموں کو شکار کرتے ہیں ،۔
یوکائی جو کہ معاشرے میں سارے فساد  کی جڑ ہوتی ہیں ،۔
یہ تینوں  اپنی گھڑی یوکائی واچ سے ان یوکائی یعنی واہموں کو شناخت کر کے ان کا سد باب کرتے ہیں ،۔
کےای تا کی کلاس دیکھتا ہے کہ اس کوئی کلاس فیلو  اچناک ایک دن مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ،۔
کیتا کو  جیبانیاں احساس دلاتی ہے کہ اس پر ضرور کسی  یوکائی کا اثر ہے ،۔
کیتا اپنی گھڑی کے کور کو کھول کر دیکھتا ہے تو اس کو اپنے کلاس فیلو کے سر پر سوار  یوکائی (واہمہ) نظر آتی ہے ،۔
جس کا نام ہے مایوسی ، ۔
اس پر کیتا  ، ویسپا سے مشورہ کرتا ہے تو ، ویسپا جو کہ یوکائی (واہموں) کے معاشرے کا علم رکھتا ہے ۔
کیتا کو مشورہ دیتا ہے کہ
اگر ہم امید نامی یوکائی کو دوست بنا کر لے آئیں تو  امید نامی یوکائی کے سامنے یہ مایوسی نامی یوکائی بھاگ جائے گی ،۔
کیتا اور اس کے دونوں ساتھی  جیبانیاں اور ویسپا ، تلاش کر کے امید نامی یوکائی لے آتے ہیں ،۔
امید نامی یوکائی کا چہرہ روشن اور کھلا کھلا ہوتا ہے اس کو دیکھ کر ہی  دل کھل اٹھتا ہے ،۔
جب امید نامی یوکائی (واہمہ) مایوسی نامی یوکائی (واہمہ) کے سامنے آتی ہے تو  مایوسی ، امید کو بھی بھی مایوس کرنے کی کوشش کرتی ہے ،۔
جیبانیاں ۔

لیکن امید کے ساتھ ہلا شیری دینے کے لئے کیتا اور اس کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اس لئے امید کی جیت ہوتی ہے اور مایوسی بھاگ جاتی ہے ،۔
جس سے کیتا کا کلاس فیلو ایک دفعہ پھر سے امید یافتہ فرد بن کر خوش خوش نظر آنے لگتا ہے ،۔
اسی طرح یہ کہانی چلتی رہتا ہے ،۔
کہ جب بھی کسی فرد پر یا کہ افراد پر کسی فساد ڈالنے والے یوکائی  (واہمے) کا اثر ہو جاتا ہے تو کیتا اور اس کے ساتھی اس کے مقابلے میں اس فساد کا توڑ کرنے والی یوکائی (واہمے) کو دوست بنا کر لے آتے ہیں ،۔
یوکائی کو شناخت کرنے والی گھڑی کی وجہ سے کیتا نے  سماج دوست واہموں کو دوست بنا رکھا ہے اور کیتا مسلسل سماج دوست واہموں کو دوست بناتا چلا جاتا ہے ،۔
فساد ڈالنے والے واہموں کو جن سے ایک دفعہ نمٹ لیتا ہے ان سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے ،۔
اس لئے جب مستقبل میں ان سے دوبارہ واسطہ پڑتا ہے تو ، ان سے معاملہ کرنے میں اسانی رہتی ہے ،۔
یوکائی () کے برے اثرات سے معاشرے کو بچانے کے اس مشن میں کے ایتا کے دوست “کوما” بمعنی ریچھ  ایدےای (کانچی) اور کاتی ائے (فومی چاں) بھی اس کی مدد کرتے ہیں ،۔
بعد میں کہانی میں ایک لڑکی بھی شامل ہو جاتی ہے جو کہ اس قصبے میں نئی وارد ہے ،۔
اس لڑکی کا نام اینا ہو ہے اور اس کے پاس اس کی اپنی یوکائی واچ ہے ،۔
ایناہو کے پاس سپیس ویسپا نامی یوکائی ہے ،۔

============
مندرجہ بالا کہانی  یوکائی واچ یعنی کہ واہموں والی گھڑی کا مرکزی خیال ہے ۔
اس کے بعد اسی کہانی کی بنیاد پر ٹیلی وژن کی کارٹون سیریز چلتی ہے ،۔
جس میں ہر دفعہ ایک نئی کہانی ہوتی ہے ،۔
مرکزی خیال میں  ، جن کرداروں کا ذکر ہوا ہے ان کے ساتھ  کچھ نئے کردار ملا کر اور مختلف واہموں  سے مختلف کہانیاں  ہوتی ہیں ،
اسی طرح  میگزین میں بھی یوکائی واچ یعنی واہموں کی گھڑی کی تصویری کہانییاں ہوتی ہیں ،۔
جن کو جاپانی زبان میں “ مانگا “ کہا جاتا ہے ،۔
جاپانی زبان کا یہ لفظ مانگا اج دنیا کی کئی زبانون میں استعمال ہو رہا ہے ،۔
انگریزی ، فرانسیسی اور لاطینی میں  جاپانی زبان کے لفظ مانگا کو مانگا ہی لکھا پڑھا اور بولا جاتا ہے  ،۔
یوکائی واچ کی ویڈیو گیمز بہت مقبول ہیں ،۔
نینٹنڈو  کے ڈی ایس نامی ڈوائیس پر یوکائی واچ کی گیمیز کھیلی جاتی ہیں ،۔
کچھ گیمز سمارٹ فونز پر بھی کھیلی جاتی ہیں ،۔
گیم کے کھلاڑی  گیم میں واہموں کو کھانے کی چیزیں دے کر یا کہ بیٹلز میں جیت کر واہموں کو دوست بنا لیتے ہیں  یا قابو کر لیتے یں ،۔،۔
ان قابو کئے ہوئے واہموں سے گیمز میں دیگر واہموں پر قابو پانے اور اسی طرح گیم سے گیم نکلتی جاتی ہے ،۔
یوکائی واچ کی مقبولیت کی وجہ سے مارکیٹ میں بہت سے کھلونے یوکائی واچ کے ٹریڈ مارک کے ساتھ بک رہے ہیں م،۔
تولئے ، بھالو ، لنچ بکس ، گارمنٹس اور یوکائی واہموں کے میڈیل، ان میڈیلز سے جس واہمے کا میڈل ہو وہ واہمہ ایک کیور آر کوڈ کے ذریعے گیم میں داخل کر کے اس سے کھیلا جا سکتا ہے  ،۔
جاپان کے معاشرے میں اگر کارٹونز سیریز کی مقبولیت کو مختصر بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے
کہ
گزری صدی میں ستر کی دہائی ،دورائے مون کی مقبولیت کی دہائی تھی ، اسّی کی دہائی ،کریو چین چان کی دہائی تھی اور نوئے کی دھائی  پوکے مون کی دہائی تھے ،۔
اس صدی کی دوسری دہائی یوکائی واچ کی دہائی ہے ،۔
یوکائی واچ کی مقبولیت کی انتہا کے دنوں  یعنی  دوہزار سولہ میں پوکے مون گو کی اچانک مقبولیت نے دنیا کو چونکادیا ہے ۔


ہفتہ، 13 اگست، 2016

مذید وچار اور دیسی دانش


خلافت کے خاتمے سے کچھ دہائیاں پہلے !۔
ترکی میں ینی چری فوج اس کمال کو پہنچ چکی تھی کہ اپنی مرضی کے سلطان لگاتے ،ہٹاتے رہتے تھے ۔
سلطان مصطفٰے نے ان کو بیرکوں میں محدود کیا ،۔
مصطفٰے کمال پاشا کے بعد فوج ترکی کو کنٹرول کرتی تھی ، معاشرتی سمجھ بوجھ کو استعمال کر کے اردگان نے فوج کو کونے لگایا ،۔
اج ترکوں نے تیسری دفعہ فوج کو بیرکوں میں دھکیل کر واپس کیا ہے ،۔
لیکن میری قوم کی بد قسمتی کہ
ان کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ فوج ہو یا کہ سیاستدان ، مولوی ہوں یا کہ رائیٹرز ان سب کا اپنی اپنی حدود میں رہنا معاشرے کے لئے کتنا سود مند ہوتا ہے ۔
اگر کو ئی دانش ور ان کو اس بات کے “ سود مند “ ہونے کا بتانے کی کوشش کرئے گا تو؟
یہ احمق ، سود کے حرام حلال پر بحث شروع کر دیں گے ،۔


نواز شریف کو جو بندہ بھی قریب سے دیکھتا ہہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ
ایسا ڈھگا بندہ ؟
اگر ایسے کو جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء ، اس عروج تک پہنچا سکتے ہیں تو؟
میں بھی کیوں نہ بوٹ پالش کا وظیفہ شروع کر دوں ۔
مثالیں : عمران خان اور مولوی قادری ۔
ایک شعر
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لئے ۔
سمجھ تے گئے ہو گئے تسی ؟


فوک وژڈم یعنی دیسی دانش۔
میری قوم کی تین بڑھکیں ۔
پہلی :  تہانوں پتہ ای اے
کہ
میں کدی جھوٹ نئیں بولیا !!،۔
**جھوٹ **
دوسری : تہانوں پتہ ای اے
کہ میں گل منہ تے کرنا واں ، مینوں غیبت دی عادت نئیں ،۔
**غیبت **
تیسری : تہانوں پتہ ای اے
کہ
جدوں مینوں غصہ چڑھ جاوے ،تے فیر !!،۔
** بزدل **

 مولوی کا رب ! جبار و قہار ہے ، آگ کا ایک لاؤ دھکائے بیٹھا ہے  ،  جو اس آگ سے بچ گیا  وہ کامیاب ہوا ،۔
گامے کا رب ! رحمان و رازق ہے ، ایک باغ لگائے بیٹھا ہے ، جو اس باغ کی بہاریں نہ لوٹ سکا ، وہ بلکل ہی عقل کا اندھا ہو گا ،۔
پنڈت اور مولوی کے رب کا خوفناک ہونا  ہی  مسجدوں اور مندروں کے چڑھاوے  کے کاروبار کی بڑھوتری ہے ،۔

جمعہ، 12 اگست، 2016

ماں بولی ،پنجابی اور دیسی دانش


پاکستان کے سیاسی ورکروں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ
اگر ترکی جیسا معاملہ پاکستان میں ہو جاتا تو؟
آپ جنم لینے سے پہلے ہی یتیم ہو چکے ہوتے  ۔
یہ معاملہ جرنل عیوب کے ساتھ ہو جاتا تو ؟
تو ناں بھٹو کو ڈیڈی ملتا ، ناں پیپلز پارٹی ہوتی اور نہ  ہی ۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر یہ معاملی جرنل ضیاع کے ساتھ ہو جاتا تو؟
تو ناں جرنل جیلانی ہوتے  نہ  شریف صاحب کے بیٹوں کو اقتدار ملتا اور نہ اپ کو نونیے کہلوانے کا موقع ملتا !،۔
اور اگر ؟
جرنل پاشا کی ریٹائیرمنٹ نہ ہوتی تو ؟
عمران اج وزیر  یازم ہوتا ۔
پی ٹی آئی والوں کے پٹ سیاپے ہوتے ، اور قندیل  بلوچ ابھی زندہ ہوتی ،۔
:: ہور وی لکخاں ؟ کہ اینا ای کافی اے ؟


*پنجابی*
کر کے ظلم عروج تے آؤن والے

ایس گل دا زرا خیال رکھیں

جا کے اوتلی ہوا وچ پاٹ جاندے

جنہاں گڈیاں نوں کھلی ڈور ملے ۔

**پیر فضل شاھ گجراتی۔**

بڑا کہاون تے بڑا دکھ پاون ، تے میں بڑا کہا کے بھلی
بڑے اونٹ مر جاندے ، پالے ، نہ کوٹھا نہ کلی
بڑے رکھ ڈِگ پیندے نے ، جد پوند ہنیری جھلی
 تے بلھّیا رب تو تِنّے منگ لے  ، کُلّی گُلّی جُلّی ۔

ایک پرانا لطیفہ ہے
کہ
بی آر بی نہر  کے اپری علاقے ، اور نواح کے باجوے (میرے فیس بک کے دوستوں میں بھی کچھ باجوے ہیں ، ان سے معذرت کے ساتھ) ۔
رات کے وقت گزرنے والے راہگیروں کو لوٹ لیا کرتے تھے ۔
میاں والی بنگلہ سے ایک مراثی گزر رہا تھا کہ لوگوں کے کہا ادھر نہ جاؤ، باجوے لوٹ لیں گے ۔
مراثی نے سوال جڑ دیا ، کچھ پاس ہو تو ہی لوٹتے ہیں
یا کہ کاغذ بھی کروا لیتے ہیں ؟
 وہ پرانا زمانہ تھا
اج سرمایہ دارانہ نظام میں ، جس کے پاس کچھ ہو ، وہ تو لٹتا ہی ہے
 ، جس کے پاس کچھ نہ ہو اس سے کاغذ کروا لیتے ہیں ،۔

جمعرات، 11 اگست، 2016

حالات حاضرہ


ریو دی جنیرو اولمپک میں صرف سات نفر پاکستانی اتھلیٹ شامل ہو سکے ہیں ،۔
صرف سات ، جن میں سے چار کی تربیت پاکستان سے باہر ہوئی ہے ،۔
پاکستان میں اب کھلاڑی ، رائیٹرز ، فنون لطیفہ یا فنون سائنس کے لوگ پیدا نہیں ہوتے ،۔
اب وہاں صرف "مذہب" ہی رہ گیا ہے ۔
ساینس ، ادب ، تکنیک کی کتاب نہیں ملتی ،۔
صرف مذہبی کتابیں ملتی ہیں ،۔
یاد رکھیں ! جن معاشروں سے فنون ادب  اٹھ جاتا ہے وہ معاشرے زمانے کا ٹھٹھول بن کر رہ جاتے ہیں ،۔
جیسے کہ پاکستان کا معاشرہ ،۔
اگر کسی کو شک ہے تو ؟
مولا خوش رکھے ، تسی بڑے عظیم لوگ ہو ، تہاڈے نال بحث کر کے میں ذلیل نئیں ہونا چاہندا ۔

 مولا خوش رکھے
ویسے اپس کی بات ہے
یہ جاپان امریکہ والے جتنے چاہیں گولڈ میڈیل جیت لیں
آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ،۔

ریو دی جنیرو اولمپک کے پہلے ہی روز ! پاکستان کی ایک کھلاڑی کے ہار کر اولمپک سے آؤٹ ہونے پر
آپ کا کیا خیال ہے کہ
اگر کھلاڑیوں کی بجائے سٹیج پر کھڑے ہو کر بلند بانگ تقریروں کا مقابلہ ہوتا تو ؟
پاکستان کے مذہبی دانشور ضرور کوئی ناں کوئی میڈل لے آتے ؟
جی نہیں آپ کا خیال غلط ہے۔
معاشرتی انحطاط کی انتہا ہے کہ
ایسا بھی نہ ہوتا
کیونکہ
ترقی یافتہ ممالک میں بکواس کرنے کے ماہرین بھی ہوتے ہیں ،۔
جن کو جوکر کہتے ہیں ،۔
ہمارے مذہبی دانشوروں نے ان سے شکست کھا جانی تھی ،۔

اصلی لفظ ہے پوکے مون، پوکٹ مونکی کو مختصر کر کے بولنے کی جاپانی عادت نے اس کو پوکے مون بنا دیا ،۔
اج کل ایک گیم چل رہی ہے، جس میں پلئیر فون لے کر چلتے چلتے ہیں ، پلئیر کو کہیں بھی کوئی کریکٹر مل جاتا ہے جس کریکٹر سے " بیٹل " کرتے ہیں ،۔
ابھی یہ گیم جاپان میں نہیں آئی ،
لیکن حیرت انگیز طور پر کوریا کے ایک پارک میں یہ کریکٹر ملنے لگے ہیں ۔ شائد جی پی ایس والے سٹلائیت میں کوئی کوڈ یہ شرارت کر رہا ہے ۔
پوکے مون ، اینیمیشن کریکٹرز ہیں ، نوے کی دہائی میں اپنے عروج تک جانے والی اس سیریز کی ویڈیو گیم بھی بنائی جاتی ہیں ،
طرح طرح کے کریکٹرز ایک گولے میں بند ہوتے ہیں ،
جن کو نکال کر بچے “بیٹل “ کرواتے ہیں ،
ویڈیو گیم میں ان کریکٹرز سے کھیلا جاتا ہے ،۔
نئی انے والی گیم ایک موبائل فون ایپلی ہے ،۔جو کہ جی پی ایس سسٹم کے ساتھ کام کرتی ہے ،۔
اس گیم میں کمپنی کے پوکے مون کے کریکٹرز امریکہ کی سر زمین پر آبادیوں میں ،جگہ جگہ تخلیق کر دئے ہیں ،۔
جاپان میں اس ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے
کیونکہ خدشہ ہے کہ اس سے فون مشین وائیرس سے متاثر ہو سکتی ہے ،۔
ویسے بھی پوکے مون بنانے والی کمپنی جاپانی کمپنی ہے اور کمپنی نے ابھی یہ گیم جاپان میں کھیلنے کے لئے جاپان کی سرزمین پر کریکٹرز تخلیق ہی نہیں کئے ہیں ،۔
فلحال یہ کریکٹرز چند ممالک میں متعارف کروائے گئے ہیں ۔
مستقبل قریب میں یہ کریکٹرز ساری زمین پر بھی پائے جا سکتے ہیں ۔
امریکہ میں ایک قبرستان کے قریب، پوکے مون کے کریکٹر کی بہتات کی وجہ سے جوان لوگون کا ایک ہجوم لگا رہتا ہے ،۔
اس قبرستان کی انتظامیہ نے  پوکے مون کمپنی سے درخواست کی ہے کہ جی پی ایس سسٹم میں موڈفکیشن کر کے ان کریکٹرز کو سڑک کے اس پار والے پارک میں متقل کر دیا جائے ،۔
جگہ جگہ ،چرچوں کے آس پاس ان کریکٹرز  کے پائے جانے سے جوان سال اور نو عمر لڑکے لڑکیاں چرچوں کے سامنے ، جوق در جوق اکٹھے ہو رہے ہیں ،۔
اپنے فون کی سکرین میں مگن  جوان سال پلئیر ،حادثوں  بھی شکار ہو رہے ہیں ،۔
نوے کی دہائی میں اپنے عروج پر جانے والی پوکے مون سیریز  ، جاپان میں یوکائی واچ نامی سیریز کے انے سے دوسری پوزیشن پر چلی گئی ہے ،۔
جاپان میںپوکے مون کی مقبولیت اج بھی یوکائی واچ کے بعد ہے
لیکن امریکہ اور دیگر ممالک میں پوکے مون “گو” کی ریلیز کے بعد ایک دفعہ پھر پوکے مون کا زمانہ  آ چکا ہے ،۔

بدھ، 10 اگست، 2016

وچار


میرا مطلب ہے
کہ
ہلکا پھلکا دورہ پڑنے کو !،۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں !۔
نرگسیت کے دورے کو "سیلفی " کہتے ہیں ،۔
***************
کھیلوں کا بڑا اثر ہوتا ہے جی معاشرے میں ،۔
نہیں یقین تو اپ ہی بتائیں
کہ
ہمارا قومی کھیل تھا ،ہاکی !۔
ہاکی میں سب لوگ مل کر کھیلتے ہیں ،۔ سب کا سانس پھولا ہوا ہوتا ہے ،۔
عزت بے عزتی سب کی برابر ہوتی ہے ،۔
گول کرنے پر اگر کسی کے لئے تالیاں اور نعرے لگتے بھی ہیں تو ،۔
باقی کے  کھلاڑی بھی خوش ہوتے ہیں
کہ گول والی ہٹ لگانے تک اس کو گیند بھی تو انہوں نے ہی ڈلیور کیا ہوتا ہے  ،۔
بڑا سوشل کھیل ہے جی ، پاس کراؤ ، ڈلیور کرو ، لے کر اگے دے دو سب کی کوشش سے گھول کر دو ،۔
 دوسرا کھیل ہے کرکٹ ،۔
جس میں سب مل کر بیٹس میں کو کھلا رہے ہوتے ہیں ،۔
بلکل فوجی حکومت کی طرح ،۔
اگر بیٹس مین ٹک گیا تو
محلے کے سارے لڑکے بس گیند لا لا کر باؤلر کو دیتے رہیں گے ، بیٹس مین کھیلے کا  چوکے لگائے گا چھکے لگائے گا ، کبھی ٹک ٹک کر کے دن گزارے گا ،۔
باؤلر اپوزیشن کی طرح اس کو گرانے کی کوشش میں کھیلاتا رہے گا ،۔
ساری  ٹیم بس شامل باجے ہوں گے ، اگر چھکا لگا تو بیٹس میں کا
اگر آؤٹ ہو گیا تو باؤلر کا ،۔
باقی ساری ٹیم قوالوں کے ساتھ تالی لگانے والوں کی طرح شامل باجے  ،۔
بلکل کرکٹ والا معاشرہ نہیں ہو چکا ہمارا ؟
پاک معاشرہ ؟ 
******************
ے پینو کو آنکھ ماری۔
پینو غصے سے بولی : پئینچود ، ڈنگر!!۔
اچھو غصے سے لال پیلا ہو گیا ،۔
کشتی عورت مجھے ڈنگر کہتی ہے !!،۔
معاشرتی رویہ کہ پئینچود تو اب گالی ہی نہیں رہی ،۔
🤔  😠     😳 😡

منگل، 9 اگست، 2016

دو باتیں

پہلی بات
دادی سے سنی کہانیوں میں ایک بہت ہی سوہنی اور گوری شہزادی کے حسن کی تعریف کچھ اس طرح ہوتی تھی ،۔
کہ
اتنی سوہنی کہ اسے دیکھ کر راہیوں (مسافروں) کو راہ بھول جاتے تھے ،۔
سمجھ نہیں لگتی تھی کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔
سوال کرنے پر دادی نے بتایا۔
پتر ہو جاندا اے ، اجہے تینوں سمجھ نئیں لگنی ۔
ایک عمر گزرنے پر سمجھ لگی
کہ
گھر سے کمائی کرنے نکلے تھے
کہ ایک دن وطن واپس جا کر زندگی گزاریں گے ،۔
لیکن
کسی کو پیرس میں کسی کو وینس میں ، کسی کو لندن میں تو کسی کو ٹوکیو میں !،۔
کہانی والی گوری ملی اور اس راہی کو اپنی رہیں اور منزل یاد ہی نہ رہی ،۔
کہیں کے کہیں نکل گئے ۔
کچھ ، ڈبے میں بند “ میت “ بن کے وطن لوٹے، کچھ کو یہ بھی نصیب نہ ہوا ،۔

دوسری بات
گاما پی ایچ ڈی!  بتا رہا تھا
کہ جس طرح پھول اپنی خوشبو سے ، درخت اپنے پتوں سے جانور اپنی نسلوں سے پہچانے جاتے ہیں ،۔
اسی طرح انسان اپنے اوصاف سےاور اپنی صحبت سے پہچانے جاتے ہیں ،۔
بھولا سنیارا پوچھتا ہے ، مثال دے کر بتائیں ، مہربانی ہو گی۔
دیکھو ! میرے ساتھ کاروبار کرنے والے ، تعلق رکھنے والے اور میرے دوست ان سب کی صفات دیکھ لو سب کے سب بڑے معتبر  زیرک اور سیانے لوگ ہیں ،۔
ان سب کی صحبت کرنے والے ، ہم بھی انہی کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں ،۔
بھولا سنیار پریشان ہو کر سوال کرتا ہے
لیکن میں دیکھ رہا ہوں گاما صاحب
کہ یہاں بڑی بڑی داڑھیوں والے اور سفید پوش لوگ ، آپ کو کریزی اور کھسکا ہوا کہتے ہیں ،۔
گاما پی ایچ ڈی  مسکراتے ہوئے گویا ہوتے ہیں ،۔
بھولیا ! کیا تم نے کبھی کسی کوئے کو بلبل کی طرح پھولوں پر چہچہاتے ہوئے دیکھا ہے ،۔
کوا گندگی پر گرتا ہے ۔
مجھے کھسکا ہوا کہنے والے دوسری کیٹگری کے  لوگ ہیں ،۔
دوسری کیٹگری ! جو کہ میرے دوستوں کے اوصاف سے متضاد کوالٹی والے ہیں ،۔
بھولا منمناتا ہے
یعنی کہ
سفید پوش  لیکن سیاھ کار لوگ !!۔
نوٹ : یہ تحریر  فیس بک پر میری وال پر شایع ہو چکی ہیں ،۔
 

منگل، 2 اگست، 2016

دورے مون (دورائے مون) کیا ہے ؟


ٹی وی پر چلنے والی کارٹون سیریز !۔
پاکستان میں جس کو دورے مون کہتے ہیں
یہ لفظ اصل میں دورائے مون ہے ۔
دورائے مون ایک بلی ہے
روبوٹ بلی جو کہ ٹام مشین پر سفر کرکے مستقبل بعید  سے تائم مشین پر سفر کر کے ،اس زمانے میں آئی ہوئی ہے ۔
دورائے مون نامی  کارٹون سیزیز
پہلے پہل انیس سو انہتر کے دسمبر میں کارٹون کی شکل میں شائع ہوئی ،   پہلی بار چھ میگزین میں شائع ہوئی ۔
اس کارٹون سیزیز کے خالق کا نام ہے
فوجیکو فوجی او ہے ۔
اس سیریز کی اوریجنل سٹوریز ایک ہزار تین سو پنتالیس کہانیاں ہیں ۔
اس  سیریز کی اصلی میگزین  جاپان کے تویاما کین کی تاکا اوکا سنٹرل لائیبریری میں رکھے ہوئے ہیں ۔
تاکا اوکا جو کہ اس کارٹون سیریز کے خالق کی جائے پیدائش ہے ۔
الف لیلی کی ہزار داستان کی طرح دورائے مون کہانیاں بھی ہر کہانی اپنی جگہ ایک  ایک داستان ہی ہے ،۔
الف لیلی ہی کی طرح ان داستانوں کی شروعات کی بھی ایک کہانی ہے ،۔
الف لیلی میں تو شہزادوں کی بیویاں کہانی سناتی ہیں ، جو سلسلہ در سلسلہ چلتی ہوئی ہزار داستان بن جاتی ہی ،۔
لیکن دورائے مون سیریز میں ہر کہانی دورائے مون اور نوبیتا کے گرد گھومتی ہے  ،۔
تخلیق کی کہانی ۔
نوبیتا جس کا پورا نام نوبی نوبیتا ہے ،۔
یہ بیٹا نوبیتا اور ایشیزکا نامی لڑکی سے شادی سے پیدا ہوتا ہے ۔
ان کا بیٹا جو کہ مستقبل یعنی کہ اکیسویں صدی میں پیدا ہوتا ہے ۔
بیسویں صدی کی چھیوں دہائی تک یعنی انیس انہتر تک مستقبل کی جو ترقی کا تصور کیا جا سکتا تھا ،۔
اس تصور کردہ ترقی کے مطابق ۔
نوبیتا کا بیٹا جو کہ
 بہت  ترقی کرتا ہے ،۔
نوبیتا کا بیٹا اور پوتے  بہت سی دولت حاصل کر لیتے ہیں کہ اپنے زمانے کے دولت مند ترین لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں ،۔
انیس سو انہتر میں اس کہانی کے خالق کے تصور کے مطابق اکیسویں صدی میں ٹائم مشین ایجاد ہو چکی ہے اور لوگ اس مشین کو آزادنہ استعمال کر کے زمانوں کا سفر کرنے کے قابل ہو چکے ہیں ،۔
روبوٹ کی تکنیک ترقی کرتے کرتے اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ
گھروں میں روبوٹ نوکر ایک عام سی بات بن چکی ہے ،۔
نوبیتا کی مستقبل کی اولاد فیصلہ کرتی ہے کہ ایک روبوٹ  کو ماضی میں بھیج کر نوبیتا کے ساتھ منسلک کردیا جائے ، جو کہ نوبیتا کی ہر معاملے میں اعانت کرتا رہے ،۔
مستقبل کی نوبیتا کی اولاد کا بھیجا ہوا یہ روبوٹ ہے ۔
دورائے مون۔
نوبیتا جو کہ زیادہ ہشیار بچہ نہیں ہے ،۔
اس کی مستقبل کی اولاد کا خیال ہے کہ اگر نوبیتا کی شادی ایشیزکا چان سے نہیں ہوتی تو ؟
یہ سب بھی نہیں ہوتے ،۔
ایشیزکا کے نزدیک پیسے والا اور لومڑی صفت “سونے یو “ ہے ۔
تعلیمی طور پر بہت ہی نالج والا اور ذہین “اودیکی “ ہے ۔
روبوٹ نے کوشش کرنی ہے کہ نوبیتا کی شادی ایشیکا چان سے ہی ہو ،۔
یہ نہ ہو کہ ایشیزکا کو کوئی اور لے اڑے ، کہ جس سے خاندان کا شجرہ اور مستقبل ہی اور کا اور ہو جائے ،۔
دورائے مون نامی روبوٹ کے پاس ایک تھیلی ہے ،۔
اس تھیلی کا تصور غالباً طلسم ہوش رہا کے کردار عمرو عیار کی زنبیل سے لیا گیا ہے ،۔
عمرو عیار کی زنبیل میں سے انبیاء اور ساحروں کے دئے ہوئے تحفے نکل کر حیرتانگیز کام کیا کرتے تھے
لیکن
دورائے مون کی تھیلی سے مستقبل کی سائینسی ترقی سے ممکن ہو چکے طلسمی آلے ہوتے ہی جن سے کام لیا جاتا ہے ،۔

ٹائم مشین ، نوبیتا کے کمرے کی میز کی دراز ہے ۔ جس میں سے دورائے مون اپنے زمانے میں بھی آتا جاتا رہتا ہے ۔
اور
نوبیتا کے ساتھ بھی منسلک رہتا ہے ۔
نوبیتا ، ایشیزکا، سونیو، جائین ، اور اودیکی کے گرد گھومتی ان کہانیوں میں اس بات کی جھلک نظر آتی ہے کہ کیسے دورائے مون کوشش کرتا ہے کہ نوبیتا کا ایمج اشیزکا چان کے سامنے بہتر رہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے قریب رہیں ،۔
دورائے مون کی کہانیوں میں جاپانی بچوں کی تربیت اور نالج ، مستقبل کی تکنیک کے متعلق آئیڈیاز اور مہمیز دینے کا کام صاف نظر آتا ہے ۔


ورائے مون کے نام کی وجہ تسمیہ !!۔
کہ اس بلی کو “ دورائی یاکی “ نامی مٹھائی بہت پسند ہے ۔
یہ نام دورائے مون دو الفاظ کو ملا کر ایک بنا ہے ۔

دورا اور مون ۔
لفظ دورا  دورائی یاکی نامی مٹھائی کو پسند کرنے کی وجہ سے
اور مون لفظ کے لئے پس منظر میں ایک کہانی ہے
کہ پرانے زمانے میں ایک بہت بہادر اور جی دار چور گزرا ہے جس کا نام تھا
ایشی کاوا گوئے مون
ایشی کاوا گوئے مون کو لوہے کے ٹب میں ابال کر مار دیا گیا تھا
یعنی کہ اس کو پانی میں ابال کر مارنے کی سزا ہوئی تھی ۔
دورائے مون کے نام کا دوسرا حصہ مون اس گوئے مون سے لیا گیا ہے
جیسا کہ جاپان میں بہت سی چیزوں میں دو ناموں کو جب جوڑ کر پڑہتے ہیں تو دونوں ناموں کا آدھا حصہ سائلینٹ کر جاتے ہیں ۔
جاپانی میں آوارہ کتے یا بلی کو  نورا اینو ( آوارہ کتا ) یا کہ نورا نیکو( آوارہ بلی ) بھی کہتے ہیں ۔
یا کہ کتا یا بلی لگائے بغیر لورا بھی کہہ دیا جاتا ہے ۔
اس لفظ لورا کے وزن پر لفظ دورا  بنا
اور گوئے مون کا مون لگا کر اس کو دورا مون  کا نام دیا گیا ۔
#PTIvsDoraemon

بدھ، 20 جولائی، 2016

پوکے مون کیا ہے ؟

پوکے مون ،کے کریکٹرز ،۔

تحریر خاور کھوکھر: پوکے مون گو نامی ویڈیو گیم ،امریکہ کناڈا اسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد اج سے جاپان میں بھی کھیلی جا سکے گی  ،
ننٹینڈو کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سرورز کو اپ ڈیٹس کیا جا رہا ہے  ،۔
تاکہ صارفین کو کوئی دقت نہ ہو ،۔
بہت سے دوست پوچھتے ہیں کہ پوکے مون ہے کیا ؟
پوکے مون ایک ویڈیو گیم ہے ، جو کہ ایک کہانی کے کریکٹرز کے ساتھ کھیلی جاتی ہے  ،۔
کہانی  میں کچھ بچے اہنے اپنے جانور رکھتے ہیں ،۔
جن کو پاکٹ مونسٹر کہتے ہیں ،۔ جس کا مخفف ہے پوکے مون ،۔
اردو میں اس کو جیب میں رکھی جا سکنے والی بلا کہہ سکتے ہیں ،۔
جو کہ ایک مخصوص ، گیند نما ڈبی میں بند ! بچے کی جیب میں پڑے ہوتے ہیں ،۔
آپ یوں کہہ لیں کہ
بچوں کے پاس ڈیجٹل بٹیرے ہیں اور وہ بچےاپنے اپنے بٹیرے لڑاتے ہیں ،۔
ہمارے معاشرت میں پوکے مون کو سمجھانے کے لئے بٹیروں سے بہتر مثال نہیں دی جا  سکتی ،۔
جس طرح بٹیرے باز اپنے اپنے بٹیروں کی نہگداشت کرتے ہیں ،
جس طرح بٹیرے بازوں کے پاس طرٖح طرح کی نسلون کے بٹیرے ہوتے ہیں اسی طرح پوکے مون میں بچوں کے پاس طرح طرح کے مونسٹر (بلائیں) ہوتے ہیں ،۔
پر بٹیرے باز کا بٹیرا بھی ایک بلا ہی ہوتا ہے ،۔
آپ نے سنا تو ہو گا
کہ
جب بٹیرے باز بڑہک لگاتا ہے ،۔
میرا بٹیرا ، پنچہ مار کر دھرتی ہلا دے !،
بس کچھ اسی طرح پوکے مون میں پوکٹ مونسٹر بھی دھرتی ہلا دیتے ہیں ،۔
ٹی وی پر کارٹون سیریز چلتی ہے ،۔
جس میں بچے اپنے اپنے بٹیروں کی جنگ (بیٹل) کرواتے ہیں ،۔
اس جنگ میں نئے نئے پینترے ، حربے ، اور وار کئے جاتے ہیں ،۔
ہر بٹیرا اپنی ایک یونیک شکل اور صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے ،۔
ٹی وی سیریز میں دیکھے ہوئے پنترے اور حربے ویڈیو گیم میں ازمائے جاتے ہیں م،
پوکے مون گو ، کیا ہے  ،۔
پوکے مون گو میں  ایک گیم متعارف کروائی گئی ہے  ،۔
جن میں فون کے کیمرے کے ساتھ کھلاڑی اپنے اردگرد دیکھتا ہے تو اس کو اپنی دنیا میں “مونسٹر “ یعنی کہ بٹیرے نظر آتے ہیں ،۔
جن کو قابو  کیا جاسکتا ہے  ،۔
ان قابو کئے گئے مونسٹرز سے دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹل کیا جا سکتا ہے  ،م،۔
بلکل بٹیرے بازوں کی طرح جس کے پاس جتنے زیادہ بٹیرے ہوں گے وہ اتا ہی عزت دار بٹیرے باز ہو گا  ،۔
پوکے مون گو میں کوئی  ایک سو اکاون  قسم کے مونسٹر ہیں ،۔
جن میں سے کچھ تو بہت ہی  نایاب قسم کے ہیں ،۔
یعنی کہ گیم بنانے والوں نے،کیم میں  یہ مونسٹر کم ہی ڈالے ہیں ،۔
پوکے مون گو میں ، مونسٹرز صارف کو چلتے پھرتے اپنے اردگر مل جاتے ہیں ،۔ کچھ نایاب قسم کے مونسٹرز کے متعلق انفارمیشن مل جاتی ہیں کہ وہ کس جگہ پائے جاتے ہیں م،
بہت سے مونسٹرز پانی کے جانور کی شکل ہے ہوتے ہیں جو کہ پانی ، یعنی دریا جھیل یا سمندر کے کنارے مل جاتے ہیں ،۔
زمین میں رہنے والے جانوروں والے کونے کھدوں میں مل جاتے ہیں ،۔
اڑنے والے مونسٹرز پارکوںمیں مل جاتے ہیں ،۔
اوارہ روحیں چرچ مندر یا قبرستانوں میں مل جاتی ہیں ،۔

ہفتہ، 2 جولائی، 2016

مانگت یا مولوی

ارویا مقبول جان اور دیگر علماء میڈیا اج کل مولوی کی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بول بول کر ہلکان ہیں ،۔
انگریز کو الزام دیا جارہا ۔ سازشی تھیوری کو سان پر چڑہایا جا رہا ہے ۔
اپ خود بھی سوچیں
کہ
کیا اپ نے کبھی احساس کیا ہے کہ
جنرل ضیاء صاحب والے اسلام کے بعد  مسجدوں کی بہتات ہو چکی ہے ،۔
ابادی ؟ سولہ کروڑ کی ابادی تھی  سن انیس پچاسی میں جو کہ اب بڑھ کر بیس کروڑ ہو چکی ہے ،۔
یعنی کہ کوئی 60% اضافہ ہوا ہے ، ابادی میں ،۔
اس طرح ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسجدوں کی رونق بڑھتی یا کہ چلو جس گاؤں میں دو مساجد تھیں وہاں تین ہو جاتیں ، چلو چار ہو جاتیں
لیکن ؟ یہاں ہوا یہ کہ
مساجد تین سو فیصد بڑھ چکی ہیں ،۔
ایسا کیون ہوا ہے
ایسا اس لئے ہوا ہے کہ
جنرل ضیاء کے اسلامی نفاذ کے دوران مودودی صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں پاک فوج نے جو نظام روس کو زچ کرنے کے لئے بنایاتھا
اس میں مولوی کی کمائی کے لئے لوگوں کے سخاوت کے جذبات ابھار کر ، مولوی کو چندہ اکٹھا کرنے کی تکنیک سیکھائی گئی ، ۔
چندہ مانگنے کی یہ تکنیک جماعت اسلامی کے پوروگراموں سے گراس روٹ لیول تک پہنچ چکی ہے
مدرسوں میں دھڑا ڈھڑ مولوی اور مجاھد تیار کئے گئے ۔
مجاھد لوگ شہید کے مرتبے کو پہنچے
مجاھد تیار کرنے کی فیکٹریاں مساجد بنانے کے لئے چندے کے نظام کو مرتب کیا گیا
ڈھڑا ڈھڑ مولوی تیار کرتے گئے ؟
طلب اور رسد کے افاقی قانوں کے تحت ، مولوی کی رسد زیادہ ہوتی چلی گئی اور روس کے اندہام کے بعد طلب بھی ختم ہو گئی ۔
کچھ طالبان کے نام پر افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے پروجیکٹ میں ،
مولوی کی طلب برقرار رہی ۔
لیکن اخر کب تک ۔
اج مولوی بنانے کی فیکٹریاں بےحساب ہیں ۔
مولوی بھی بہتات میں ہیں ،۔
لیکن طلب نہیں رہی ،۔
جنازے ، پڑھانے کے لئے مولوی زیادہ ہیں مردے کم ہیں ،۔ بم دھماکے ، ڈکیٹی کے قتل اور نامعلوم قاتلوں کے کارگردگی کے باوجود
مولوی کی رسد ، مولوی کی طلب سے کہیں زیادہ ہے ۔
 بھیک کی کمائی سے تیار کردہ فیکٹری میں
بھیک کی کمائی کھا کر  بھیک مانگنے کا فن سیکھ کر جو مولوی تیار ہو گا
اس کی معاشرے میں حثیت کیا ہو گی ؟
یاد رکھیں
خالق کائینات نے چیزوں میں تاثیر رکھی ہے ،۔
اگر ایک بندہ پانی میں ہاتھ ڈالے کا تو اس کاہاتھ ضرور بھیگ جائے گا ۔
جو بندہ جھوٹ بولے گا اس کا اعتبار ختم ہو جائے گا ،
جو سود کھائے گا  ،اس کے جین سے محنت کی عادت ختم ہو جائے گی جس کی وجہ سے اس کی تیسری نسل مفلسی کا شکار ہو گی ۔
اسی طرح
بھیک (چندہ) مانگنے کی بھی یہ تاثیر ہے کہ  بندہ معاشرے میں ذلیل کر دیا جاتا ہے
اور یہ ہو رہا ہے مولوی کے ساتھ ،
مولوی کنگرے ، بھانڈ اور مانگت کے لیول پر اتر چکا ہے
لیکن عزت مولوی والی چاہتا ہے ۔

جہاں تک بات ہے مولوی کی تو ، جنرل ضیاء صاحب کے اسلام سے پہلے گاؤں قصبوں میں مولوی کی ایک بڑی حثیت تھی ، ہر مسجد کے ساتھ ایک رقبہ ہوتا تھا جس کے دانے مولوی صاحب کو ملتے تھے ۔
ہمارے گاؤں سے سیکرٹری وزارت خزانہ جناب ممتاز خان صاحب ہوئے ہیں ۔
جو کہ ملوانہ فیملی سے تھے ۔
ان کا خاندان گاؤں چھوڑ کر جا چکا ہے ، ان کے متروک مکان اج بھی گاؤں کے بہترین مکانات ہیں ،۔
مختصر یہ کہ اگر کوئی کہے کہ مولوی کو حقیر جاننے کا رویہ انگریز کا پیدا کیا ہوا ہے تو یہ ایک غلط بات ہے ۔

اس کے بعد جو میں نے دیکھا ہے کہ لفظ کمی ،کامے کی مختصر ہے ۔
اور میں نے یہ بھی دیکھاہے کہ کسی کو اس کے پیشے کی وجہ سے حقیر جاننے کا رویہ ہمارے علاقے میں بہت ہی کم ہوتا ہے ،۔
ہر بندے کی اقتصادی حالت ضرور اس کی عزت اور بے عزتی کا باعث ہوتی ہے ۔
اگر ایک کمہار ، یا لوہار  دانش مندی سے پیسہ کما لیتا ہے تو اس کو ئی بھی اوؤے کر کے نہیں پکارتا ،۔
اس کے برعکس اب جب کہ زمینیں گھٹ کر مرلوں تک پہنچ چکی ہے تو
جاٹوں کے بیٹے بھی ، ترکھان لوہار کا کام کر رہے ہیں ،۔
پیشہ بدلنے سے میں نے تو کہیں کسی کی عزت میں کمی ہوتی نہیں دیکھی ہے ۔
پیشہ بدلنے سے !!،۔
بھیک مانگنا کمائی ضرور ہے لیکن پیشہ نہیں ہے ، اگر پیشہ ہونے کا کہہ بھی لیں تو ؟
یہ ایک ذلیل ترین پیشہ ہے ۔

جمعہ، 1 جولائی، 2016

محاورے کی کہانی

محاورے کی کہانی!،۔
ٹرک دی بتی پچھے!!،۔
ساٹھ کی دہائی میں ، ملک تو ترقی کر رہا تھا لیکن لوگ ملک سے بھاگنے شروع ہو چکے تھے ،۔
جرمنی میں کہیں کسی لوگر ہاؤس میں  پاکستانی اور کچھ سکھ بھی  جرمن حکومت نے رکھے ہوئے تھے ،۔
ان میں سے سکھ اور مسلمان لڑکوں کی ہر روز کسی نہ کسی بات میں  مقابلہ بازی ہوتی ہی رہتی تھی ۔
کبھی گٹ پکڑنا ، کبھی پنجہ لڑانا ۔
جوان لڑکے مقابلے بازی میں اپنے اپنے ملک اور دھرم کو بہتر بنا کر پیش کرتے تھے تو بزرگ لوگ ریفری ہوتے تھے ،۔
اقبال سنگھ اور محمد اقبال کی چڑ چڑ سے تنگ ایک دن  ایک بزرگ لوگوں نے ان کو دوڑ کر اپنی صلاحیت دیکھناے کا راستہ دیکھایا ،۔
سارے لوگر ہاؤس کے لوگ ہلا شیری دینے لگے ،۔
رات کا وقت تھا ،۔
دور کہیں کسی گھر کی بتی جل رہی تھی ، پہلے محمد اقبال کو کہا گیا کہ تم اس بتی کو چھو کر واپس آؤ گے ،۔
ایک گھڑی درمیان میں رکھ کر محمد اقبال کو ون ٹو تھری کر دیا گیا ،۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا ، محمد اقبال کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آیا ۔
اب باری تھی  اقبال سنگھ کی ، پہلے ہی کی طرح اس کو بھی ون ٹو تھری کروا  دیا گیا ۔
سب لوگ گھڑی دیکھ کر انتظار کرنے لگے ، اقبال سنگھ واپس نہیں پلٹا ، ایک گھنٹا ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، رات بھیگنے لگی ، سب لوگ مایوس ہو کر سو گئے ، اگلے دن بھی اقبال سنگھ واپس نہیں آیا ،۔
بڑی چرچا ہوئی سب لوگ اقبال سنگھ کے لئے پریشان تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ۔
تیسرے دن  اقبال سنگھ واپس پلٹا ، چہرئے پر ہوائیاں ، اڑ رہی تھیں ۔ سانس پھولی ہوئی تھی ، چہرہ پچک کر چوسے ہوئے آم کی طرح ہوا تھا ،۔
سب لوگ اس کے گرد اکھٹے ہوگئے ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا
کہ اقبال سنگھا ہوا کیا تھا ؟
اقبال سنگھ نے ہانپتے ہوئے بتایا
یارو، تم لوگوں نے جو بتی مجھے دیکھائی تھی وہ ٹرک کی بتی تھی ۔
اور وہ ٹرک فرینکفرٹ جا کر رکا تھا ،۔
میں اس ٹرک کی بتی کو فرینکفرٹ میں ہاتھ لگا کر واپس آ رہا ہوں ۔
حاصل مطالعہ
اس دن سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اقبال سنگھ کی فیلنگ کو  محسوس کرنے والا بندہ خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا محسوس کرتا ہے ،۔

جمعرات، 23 جون، 2016

سوال ہی سوال


ذہنی نابالغ یہ لوگ ابهی تک یه ہی فیصله نہیں کرسکے که پاکستان کی تاریخ کہاں سے شروع کریں اور پاکستان کی تاریخ کیا ہو گی اور پاکستان کے ہیرو کون لوگ ہوں گے ؟؟
سن سنتالیس تاریخ مرتب کرنی شروع کر لیں ؟
یه تو صرف شرمندگی ہوگی کہ اس دوران میں ہم کوئی ہیرو بهی امپورٹ نہیں کر سکے ـ
ایک ہیرو امپورٹ کيے تو تهے ـ
اپنے معین قریشی صاحب ـ
یه تو دیسی تهے اور دیسی ہیرو ہو ہی نہیں سکتا ـ
ایک ایٹمی سائینسدان بنایا گیا 
جو بعد میں اسمگلنگ میں ملوث نکلا ۔
چلو جی اس سے تھوڑا پہلے سے شروع کر لیتے ہیں ،
احمد شاھ ابدالی کے انے سے شروع کر لیتے هیں ؟
نہیں اس سے تھوڑا پہلے
یعنی، مغلوں کے انے سے شروع کرتے هیں ؟
تھوڑا تھوڑا کر کے ماضی میں چلتے چلے جاتے ہیں ۔
محمود غزنوی سے؟
غیاث الدین بلبن سے ؟
چلو جی محمد بن قاسم سے شروع کر لیتے هیں ـ
اس سے زیادہ ماضی میں نہیں جانا جی ۔
کہ
اور آگر کسی بچے نے پوچھ لیا که کیا اس سے پہلے اس سرزمین پر کچھ بهی نہیں ہوتا تها یا راجه داهر انسان نہیں تها ؟
کیا دہبیل کسی ہوائی قلعے کا نام تها ؟
اور کیا عرب تاجر اس زمین پر احسان کرنے آتے تهے ؟
ہم موہن جوڈرو سے شروع کرلیتے هیں !ـ
لیکن تکنیکی تربیت سے محروم ہم تو ابهی تک اس معاشرے کی تحاریر بهی نہیں پڑه سکے بلکه اس درو کی اصلی چیزیں اور برتن تو ہم دوسری قوموں کو بیچ کر کها بهی چکے هیں اور اب تو موہن جوڈرو کا اثاثه محمد نواز کمہار کے فن پارے هیں ـ
پهر بهی کوئی بدتمیز(اردو کے ایک بلاگر بهی بدتمیز نام کرتے هیں) بچه پوچھ سکتا ہے که موہن جوڈرو کے بعد اور راجه داهر تک کے ہزاروں سال میں کیا هوتا رها ہے ؟
توتاریخ پاکستان کیا جواب دے گی؟
سندهی اجرک کو ڈزائینکرنے والے جولاہےـ
کهیس (موٹا سوتی کمبل) رمٹا (پتلا سوتی کمبل)اور لوئی (اونی کمبل)بنانے والے لوگ ـ
گرمٹ (لکڑی میں سوراخ کرنے والا ورما) چوسا (ایک بہت هی کهردری ریتی لکڑی کے لیے )کا استعمال بهی همارے آباء کرتے رہے ـ
چجر(ایک قسم کا مٹی کا برتن جس میں رکها گیا پانی ٹهنڈایخ هو جاتا تها چاہے چجر دهوپ میں هی پڑی هو) کا پانی فریج کے پانی سے بہتر هوتا تها
منجی(چارپائی) کے بننےکا ہنر کیا آج کے لوگوں کی دریافت ہے اس ہنر کو ہم نے کتنا ڈویلپ کیا ہے؟
اور کتنی هی تکنیکیں ہنر کیا هوئے ؟
جنریشن گیپ غالباً اسی کو کہتے هیں ناں جی؟؟
جنتر منترکرتے لوگ کیا هوئے ؟
منتر کیا ہے اور جنتر کیا ہے ؟
کلینڈر کو پنجابی میں جنتری کہتے هیں اور جنتر اسٹرونومی یا علم نجوم کو کہتے هیں ـ
منتر علم تحریر کو کہتے هیں که کسی اور کی کهینچی لکیروں کو پڑھ لینا بهی ایک اسرار هے ناں جی !؟
ناں پڑھ سکنے والے لوگوں کے لیے ـ
دنیا کے زیاده تر لوگ جب اشکال کو تحریر کی صورت دیتے تهے جیسے که مصری اور چینی ـ
تو آواز کو تحریر کی شکل دینے والے لوگ کیا ہوئے ؟
زیرو کی دریافت کے ذمه دار لوگ کیا هوئے ؟
کپل وستو کا شہزادھ سدهارت (گوتم بده)کیا هوا؟
برصغیر میں آنے والے رسول کیا هوئے ؟
یا که امپورٹڈ دهرم کے ماننے والوں کی سوچ کی پرواز هی اتنی ہے که بنی اسرائیل کے رسولوں کے سوا کسی اور رسول کا علم هی نہیں ہے؟؟
ماہر عمرانیات چان نکیا (چانکیه)کے وجود کا کیا کریں گے ؟
یونانیوں کو واپس پلٹنے پر مجبور کرنے والے جہلمی راجے پورس کا کیا کریں گے ؟
سکها شاهی ہی کہـ لیں رنجیت سنگھ کے دور کو کس خانے میں فٹ کریں گے ؟؟
اگر یه تاریخ اس طرح بهی شروع کی جائے تو کتنے سوال پیدا هوتے هیں یا یه کہہ لیں که ہمیں کچھ اس طرح کی تاریخ بتائی جارهی هے ـ
جس میں کتنے هی خلا هیں اور اگر ان خلاؤں کو پُر کرنے کی بات کی جائے تو ........ـ؟؟
میں جب بهی آپنے پاکستانی معاشرے پر غور کرتا هوں ، خاص کر حکومتی لوگوں کی عادات اور سوچ پر پر تو ! مجهے ایسا لگتا ہے ۔
کہ یہ ایک ایسا گهرانہ ہے جس کے سارے بڑے اچانک مر گئے ہوں ۔
اور بچوں کو حکومت دے دی گئی ہو ، بچے بھی ایسے کہ جن کو ناں تو ابهی معاملات که سمجھ تهی اور ناں ہی آپنے خاندان کی تاریخ کا علم ـ
اور آپنے خاندانی ہنر سے تو بلکل هی نابلد ـ
یه بچے کس بهی قسم کی معاشری اخلاقی اور تکنیکی تربیت سے بهی محروم رهے ـ
معاشری تربیت سے محروم ان لوگوں نے دوسروں کی بهونڈی نقالی سے جیسا معاشره بنانے کی کوشش کی وه آج کے پاکستان کی صورت میں آپ کے سامنے هے ـ
اخلاقی تربیت سے محروم ان لوگوں نے جس قسم کا اخلاق آپنایا وه بهی ہمارے سامنے هےـ
اور تکنیکی تربیت سے محرومی کی هی وجه هے که هم آج هم قوموں کی برادری میں مذاق بن کر ره گئے هیں ـ

جمعرات، 16 جون، 2016

پھکو جولاہ

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
پھکو جولاہ کی یادوں میں سے
کہ
کراچی کے لئے عازم سفر تھی گاؤں کے کوئی پانچ چھ لڑکوں کی ٹولی ،۔
کراچی کے ساحل سمندر پر بھنے ہوئے چھولے بیچنے کے لئے ۔
ٹرین کا نام کچھ بھی ہو ایکسپریس یا کہ پسنجر ؟ پھکو جولاہ اینڈ ٹولی کا مقدر تو تھرڈ کلاس میں سفر کا ہی تھا ۔
روٹیاں اور پکوڑے  گھر سے ساتھ لے کر چلے تھے ، پانی کسی ناں کسی اسٹیشن سے مل جاتا تھا ،۔
پاک وطن کی دھول مٹی ، ان کے لئے مسئلہ ہی نہیں تھی کہ اسی مٹی کا جنم اور اسی میں مر کے جانا نصیب ٹھرا تھا ۔
گوجرانوالہ سے  خانیوال تک کے سفر کا تو کوئی حال نہیں ، اس کے بعد کہیں سے ایک جوان لڑکا ٹرین میں چڑھا ، اپنے ہم عمر اور ہم مرتبہ سے لوگ دیکھ کر وہ بھی پھکو  اینڈ ٹولی کے پاس ہی آ کر بیٹھ گیا ،۔
پھکو اینڈ ٹولی  پینڈو لہجے کی پنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے لوگوں میں اس لڑکے نے جب دو چار الفاظ انگریزی کے  بولے تو جاجو مرزائی  کے منہ سے نکل گیا ۔
جی تسی کوئی تعلیم یافتہ بندے لگتے ہو ؟
وہ لڑکا کچھ اکڑ کر بیٹھ گیا ۔
ہاں جی !، بی ایس سی کر کے میں نے کیپٹنی کا کورس کیا ہوا ہے !۔۔
سب لوگ حیران ہو کر اس لڑکے کا منہ دیکھنے لگے کہ کچھ زیادہ ہی چھاڈو لگتا ہے ،۔
پھر بھی برداشت کرتے ہوئے بڑی ملائیمت سے  بھولا پوچھتا  ہے ۔
پائی جی تسی کون سے ضلعے کے ہو ؟
لڑکا جواب دیتا ہے ، شہر ساہیوال ، ضلع پنجاب ،۔
اب کیا کریں ضلع تو پنجاب ہی بنتا ہے ناں جی  شہر ساہیوال کا !،۔
ہیں جی ؟
پکھو جولاہ اینڈ ٹولی ایک دفعہ پھر اس لڑکے کا منہ دیکھتی رہ گئی ،۔
کسی نے سوال جڑ دیا ۔
جی تہاڈے ابا جی ،کام کیا کرتے ہیں ؟
لڑکا بڑی زہریلی مسکراہت ہونٹوں پر سجا کر کہتا ہے
کام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
میرے ابا جی پولیس میں ایس پی ہیں ،۔
دو چاچے فوج میں کرنل ہیں ۔
فیر تے جی آپ کی زمین بھی ہو گی ؟
زمین ؟ ہاں بہت ہے لیکن وہ سب مزارعوں پر چھوڑی ہوئی ہے ،۔
ٹھیکا آ جاتا ہے اللہ کا شکر ہے  بڑی موج لگی ہوئی ہے ،۔
پھکو اینڈ ٹولی منہ کھولے اس کی باتیں سن رہی تھی ، اس لڑکے نے بھی جب  دیکھا کہ سب لوگ خاصے متاثر ہو چکے ہیں تو ۔
کمال مہربانی سے پوچھتا ہے ۔
یارو ، میرے متعلق ہی پوچھے جا رہے ہو ، کوئی اپنی بھی بات سناؤ؟
کون  ہو ؟ کہاں کے ہو ؟ کہاں جا رہے ہو ۔
پھکو جولاھ اینڈ کمپنی نے پھکو کا منہ دیکھنا شروع کر دیا ،۔
جاجو مرازائی کہتا ہے ۔
یار پھکو ، تم ہی ان صاحب جی کو ہینڈل کرو ۔
پھکو جولاہ ، تھوڑا سا اس لڑکے کی طرف جھکا اور شرگوشیانہ انداز میں گویا ہوا
اب یار تم سے کیا پردہ ، لیکن یہ بات اپنے تک رکھنا ، بڑا ٹاپ سیکرٹ ہے ۔
یہ جو سارے لڑکے ہیں ناں ۔
یہ سارے میرے گاؤں کے کمیوں کے لڑکے ہیں ،۔
میں ان سب کو اپنے ساتھ لے کر نکلا ہوا ہوں ،۔
میرے اباجی نے میری ایک ذمہ داری لگائی ہوئی ہے اس لئے ۔
اس اجنبی لڑکے کے منہ سے نکلتا ہے
وہ کیا ؟
پھکو جولاہ سب کی طرف منہ کر کے پوچھتا ہے ۔
بتا دوں !۔
ساری ٹولی اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں سر ہلا کر پھکو کو ہلا شیری دیتی ہے کہ بتا دو!!۔
پھکو دوبارہ گویا ہوتا ہے ۔
اصل میں ناں یار ! یہ جو ٹرین ہے ، جس میں ہم سفر کر رہے ہیں ؟
یہ ٹرین میرے اباجی کی ملکیت ہے ،۔
بس ایک ہی ٹرین ہے ابا جی کی ملکیت باقی کے کام تو بس کچھ فیکٹریاں ہیں ہیں گوجرانوالہ میں ۔
اب بات یہ ہے کہ اباجی کو شک ہے کہ اس ٹرین کا کنڈیٹر اور ڈرائیور مل کر ٹکٹوں میں گھپلا کر رہے ہیں ،۔
ابا جی نے میری ڈیوٹی لگائی ہے کہ ذرا ان پر نظر رکھوں ، دیکھ کر آؤں کہ ٹرین میں ہو کیا رہا ہے ،۔
ابھی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ
اس اجنبی لڑکے کا منہ کھلے کھلا ہی رہ گیا ، کچھ لمحوں کے بعد کہتا ہے
یار تم تو بڑے چھاڈو ہو ، اتنی بڑی گپ
ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ ٹرین کسی کی ذاتی ملکیت ہو !،۔
یہاں پر جاجو مرزائی انٹری مارتا ہے
اور کہتا ہے ،۔
بڑے کم ظرف ہو یار؟
پچھلے تین گھنٹوں سے ہم سب تمہاری لمبی لمبی گپیں سن رہے ہیں ۔
ہم میں سے کسی نے تھے گپّی یا چھاڈو کہا ہے ؟
اور تم ہو کہ ہمارے پھکو کی ایک بھی برداشت نہیں کر سکے ۔
پھکو جولاہ کی ساری ٹولی قہقہے مار کر ہنسنے لگی ۔
بس پھکو ہی تھا جو سنجیدہ سا منہ بنائے اس لڑکے کا چہرہ دیکھا رہا
اور زبان بے زبانی میں پوچھ رہا تھا ۔
ہور سنا ، چناں ؟
جاجو مرزائی بتاتا ہے کہ اس کے بعد اس لڑکے نے ڈبہ چینج کر لیا تھا ۔

بدھ، 15 جون، 2016

برادر اسلامی ملک

جب افغانی لوگ  ! برادر اسلامی  ملک کہتے ہیں تو مجھے
پھکو جولاہ یاد آ جاتا ہے ،۔
جو کہ ان افغان لوگوں کے اسلامی بھائی چارے کااپنا مشاہدہ بتایا کرتا تھا ،۔
پھکو ، گوجرانوالہ سے ٹرین میں بیٹھ کر کراچی جایا کرتا تھا ، جہاں وہ ساحل سمندر پر بھنے ہوئے چنے بیچا کرتا تھا۔
جہاں ہمارے گاؤں کے کئی لڑکے یہی کام کرتے تھے ۔
کمائی خاصی معقول تھی ، ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی ٹولی گھر کا چکر لگانے آ جاتی تھی ۔
کراچی کی باتیں ہم نے ان سے ہی سن سن کر جانا کہ کراچی بڑا پر امن اور غریب نواز شہر ہوا کرتا تھا ۔
پھکو بتاتا ہے کہ جب ہم یہاں گوجرانوالہ سے ٹرین میں  چڑھتے تھے تو
پشاور سے ٹرین میں سوار، ساری سیٹوں پر پٹھان قابض ہوتے تھے ،۔
دو دو تین تین سیٹیں سنبھالے بیٹے ہیں ،۔
کسی پر چادر رکھی ہے اور کسی پر نسوار کی آئینہ لگی ڈبی ۔
کوئی صاحب استنجا کرنے والا لوٹا اور بکسا  کے لئے سینٹ منتخب کر چکے پیں ۔
جب ہم ان کو کہتے کہ کوئی سیٹ ہمیں بھی دیں تو ؟
تڑک کر جواب دیتے ۔
اوئے خوچہ ! ادھر ام بیٹھی اے ، یہ اماری سیٹ اے ۔
ام اتنی دور سے آتی ، چلو چلو مغز نہیں کاؤ۔
آیا بڑا سیٹ مانگنے والا۔
اور سرگوشی سی میں کہتے “دال خور” جو کہ ہم سن بھی لیتے کہ دال کھانے میں کیا برائی ہے؟۔
گوجرانوالہ سے کراچی تک کا سفر ان پٹھانوں کی وجہ سے سیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ذلیل ہو کر رہ جاتے ۔
سفر کی اس کوفت اور ذلالت سے بچنے کے لئے جب ہم واپس آتے تو؟
کراچی سے ہم  ، وقت سے پہلے ہی آ کر سیٹیں سنبھال لیتے تھے ،۔
پٹھان لوگ بعد میں آتے ، ہمین سیٹیں سنبھال کر بیٹھے دیکھ کر ، خوش اخلاقی سے انکی باچھیں کانوں تک کھلی ہوتی تھیں ۔
لہجے میں حلاوت ہوتی تھی کہ سن کر بھکاری بھی شرما جائیں ۔
بائی ساب ! توڑا ام کو بھی بیٹھنے دو ۔
لیکن ہم لوگ بھی تپے بیٹھے ہوتے تھے ، ہمارے ذہن میں گوجرانوالہ سے کراچی تک کی وہ بے عزتی اور کوفت ہوتی تھی
اس لئے ہم بھی انکار کر دیتے تھے ،۔
تو
پٹھان لوگوں کو اسلامی بھائی چارہ یاد آ جاتا تھا ۔
دیکھو جی ام سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ، نبی پاک نے بھی روادری کا درس دیا ہے ۔
تے ماما ! جب وہاں گوجرانولہ سے کراچی تک ہم اپ لوگوں سے روادری کا تقاضا کرتے ہیں ،
تو کیا ہم کافر ہوتے ہیں ؟؟
یہ اپنا، افغانی اسلام  نسوار کی ڈبی میں واپس ڈال اور فرش پر بیٹھ کر ہمارے گوجرانوالہ اترنے تک صبر کر ۔
کہ اسلام صبر کی بھی تلقین کرتا ہے ۔

بدھ، 8 جون، 2016

بھوک کا ادب

بھوک کا ادب (عالم ادب یا کہ مقامی) پڑھ پڑھ کر  کئی نسلیں جوان ہوئیں اور مر کھپ گئیں  ۔
تھوڑے سے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
جو پیٹ کی بھوک کی بات کو  “ترس “  کے حصول کے لئے لکھتے ہیں ،۔
صاحب چار دن سے بھوکا ہوں !
دو دن سے کچھ کھانے کو نہیں ملا ، وغیرہ وغیرہ!۔
کھاد کی دریافت کے بعد عموماً اور  جنیاتی  موڈیفکیشن  والے چکن کے بعد خصوصاً ، اگر کوئی بھوکا ہے تو ؟
یاتو کام کی مصروفیت کی وجہ سے ہوگا یا پھر کاہلوں کا بادشاھ کہ اس انتظار میں ہو گا کہ کوئی اس کے منہ میں  نوالہ ڈال دے ۔
کھاد کی دریافت (بیسویں صدی کی چوتھی دہائی) کے بعد  معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ انسان ، کھانے میں روٹیوں کی تعداد سے بے فکر ہوا ۔
کھاد کی دریافت کے بعد ستر کی دہائی میں جنیاتی موڈیافائی بیجوں کے تجربے کی وجہ سے افریقہ میں موزنبیق اور صومالیہ میں
قحط کی صورت حال پیدا ہوئی اور بڑی شدت سے پیدا ہوئی ۔
جس پر قابو پانے میں  دو دہائیاں صرف ہوئیں ۔
اور آئیندہ کے لئے معاملات کے اصول وضع کر لئے گئے ،۔
ورنہ جنگ زدہ علاقوں تک میں لوگ بھوک سے نہیں مرئے ۔
کھاد کی دریافت کے تقریباً  تیس سال بعد یعنی کہ ستر کی دہائی میں  پاکستان میں عام گھروں میں ہر فرد کو ایک روٹی یا کہ دو روٹیاں کی شرط ختم ہو چکی تھی ،۔ مشرقی پاکتسان کی شورش کی وجہ سے چند ماھ کے عرصے کو نکال کر  کہ ان دنوں  گندم کی بجائے لوگ مکئی یا باجرے کی روٹیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے ،۔
بھول کا ادب پرانا ہوا
اب یہ بس کتابوں میں رہ گیا
تاکہ انے والی نسلیں پڑھ لیں کہ پرانے زمانے کے لوگوں کی زندگی کتنی مشکل تھی اور انہوں نے انے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑا ۔
آج کا ادب ، بھوک کی بجائے “رج “ کا ہونا چاہئے ، “ لڑ “ (پنجابی کے لفظ لینج یعنی جس کی انکھ کی بھوک نہ مرے ،اس کے کھانا کھانے کے انداز کو لڑ مارنا کہتے ہیں ) مارنے کا ہونا چاہئے ،۔
بھرے پیٹ سے ہونے والی بیماریوں کی بات ہونی چاہئے ،۔
شوگر ، کولیسٹرول ،  بلڈ پریشر کی کہانیاں ہونی چاہئے ۔
ہاں اگر بھوک پر ہی لکھنا ہے تو ؟
پیسے کی بھوک پر لکھنا چاہئے ۔
اقتدار کی بھوک پر لکھنا چاہئے ۔
کہ ایک بھکاری نے دروازہ کھٹکٹایا
اور سوال کیا، کچھ کرنسی کا سوال ہے بابا  ، بٹوا پتلا ہو گیا ہے بابا !،۔
اقتدار کے بھکاریوں کے واشنگٹن کےوالی سرکار کے  در پر جانے کا احوال ہونا چاہئے ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ کی برکات کا لکھنا چاہئے
کہ  کیسے ان درباروں سے خیرات ملتی ہے ۔
اور کیسے ان درباروں کے گدا بادشاھ بن جاتے ہیں ،۔
 

منگل، 7 جون، 2016

سجّی اور کھّبی



سجّی اور کھّبی ؟
پنجابی زبان میں ،۔
سجّے  ہاتھ (دائیں ) کی چپیڑ کو سجی اور کھبّے ہاتھ (بائیں) کی چپیڑ کو کھبّی کہتے ہیں ،۔
ویسے بکرے یا کہ پیڈو دنبے کی شولڈر کی بوٹی کو بھی کھبّی کہتے ہیں ،۔
اور بلوچ پکوانوں میں  ایک پکوان ہوتا ہے  سجّی !،۔
سنا ہے اج کل پاکستان میں لوگ سجیّاں اور  کھبّیاں کھا رہے ہیں ،۔
چپیڑیں بھی اور پکوان بھی  ،۔
میں نے یہ دونوں پکوان کبھی نہیں کھائے ،۔
کھبی غالباً شولڈر کی بوٹی کو سالم ہی کوئلے پر بھون کر کھانے کا نام ہے ، کھبّی  ؟
اور
سجّی؟
مجھے ایک بوڑھے بلوچ نے بتایا تھا کہ
سردیوں کی آمد سے پہلے ہم لوگ  دنبے ذبح کر کے ،اندر پیٹا نکال کر ان کو خشک ہونے کے لئے لٹکا دیا کرتے تھے  ،۔
ہلکے اندھیرے  میں اس گوشت پر ململ کا کپڑا ڈال دیتے تھے کہ مکھی یا اڑنے والے کیڑوں  کی مار سے محفوظ رہے ،۔
اصل میں مکھی کے انڈے گوشت میں کیڑے بن جاتے ہیں ناں اس لئے ۔
سخت سردی میں یہ گوشت خشک ہو جایا کرتا تھا ،۔
جسے ہم سٓجّی کہتے تھے ،۔
ساری سردیاں ، ہم اس میں سے گوشت کاٹ کاٹ کر پکایا کرتے تھے ،۔
تھوڑے سے گوشت میں بہت سا پانی ،جس کے نیچے آگ دھک رہی ہوتی تھی ،۔
سردیوں میں اس آگ کی حرارت ہوتی تھی اور سجّی کا سوپ اور بوٹیاں ہوتی تھیں ،۔
یقین کرنا خاور ! بوڑھا بلوچ بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔
کہ سجی کا پکوان اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں نے عربوں میں اور ایشا کے کئے ممالک کا سفر کیا ، طرح طرح کے کھانے کھائے
لیکن اس سجی کے ذائقے کو سب سے اعلی پایا ،۔
سنا ہے وہاں گوجرانوالہ میں بھی اب سجی کے پکوان مل جاتے ہیں ؟
کیا کبھی کھا کر دیکھا ہے ؟
نہیں میں نے کبھی نہیں کھایا ، میرے بتانے پر بوڑھا بلوچ گویا ہوا
سنا ہے وہاں گوجرانوالہ میں تو تازہ گوشت  کو ہی  پکا کر سجی کا الزام دے دیتے ہیں ؟

یقین کرو مجھے نہیں علم !،۔
کہ
مجھے خود گوجرانوالہ چھوڑے تیس سال ہو گئے ہیں ،۔
میں اور کیا جواب دیتا
کہ میرا تو وطن ہی چھن چکا ہے ۔
اب کیا سجّیاں اور کیا کھبّیاں ؟
وہ بوڑھا بلوچ بھی اسی کرب کا شکار تھا کہ
وہ بھی  یہیں میرے پاس بے وطن ہی تو بیٹھا ہوا تھا!!۔

پیر، 6 جون، 2016

بندوقاں والے

گاؤں میں لڑائیاں ہوتی ہی رہتی تھیں ،ڈانگ سوٹے سے لوگ پھٹر بھی ہو جاتے تھے ،۔
زیادہ سیریس معاملہ ہوتا تھا تو  گنڈاسے اور  ٹوکے چھریاں خنجر بھی نکل آتے تھے ۔
زمانہ بدلا
وڈے چک میں  ایک ہی دن سات قتل ہوئے ، وہ بھی بندوق کی گولیوں سے ۔
سارے علاقے میں دہشت پھیل گئی ،
چکاں والے قتل اور قاتلوں کا نام دہشت کی علامت بن گیا ،۔
لڑائی کرنے والے خاندانوں نے بھی بندوقیں لینی شروع  کر دیں ،۔
کچھ لائیسنسی ، کچھ بے لائیسنسی!،۔
اب جب بھی گاؤں میں لڑائی ہوتی تھی تو  دونوں پارٹیاں ،گولیاں چلا چلا کر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتی تھیں ،۔
تجربہ کار لڑاکا خاندانوں  میں تو آپس میں تو کوئی قتل نہیں ہوا ۔
ناتجربہ کار  ماچھیوں نے ایک ہی  فائیر میں اپنے چاچے کو قتل کر کے بیٹھ گئے ،۔
یا پھر ایک دفعہ یہ ہوا کہ  لڑاکا فیملی کا ایک لڑکا ساتھ  کے گاؤں والوں کی گولی سے مارا گیا ،۔
اسلحے کی دوڑ چل نکلی
کمہاروں نے ، جولاہوں نے ، مستریوں نے سبھی نے ، کسی نے ایک کسی نے دو چار بندوقیں خرید کر گھر میں رکھ لی۔
کہ بندوق گھر میں ہونے سے زرا وجھکا سا رہتا ہے
کوئی کتا بلا منہ اٹھا کر  گھر میں گھسا نہیں چلا آتا ۔
گھالو  مومن کے گھر میں سعودیہ سے ریال آتے تھے ،
انہوں نے بھی بندوق خرید لی ، سعودی کی کمائی تھی اس لئے بندوق بھی جدید ترین لی کہ  اڑوس پڑوس میں ایسی بندوق کسی کے پاس نہیں تھی ،۔
اب کھالو لوگوں کا خیال تھا کہ لوگ ان سے دبک کر بات  کریں گے ،۔
اسی خام خیالی میں  کھالو ، ایک دن ہیرے موٹے سے منہ ماری کر بیٹھا ۔
ہیرے نے جب دو چپتیں لگائیں تو ؟
روتا ہوا گھر گیا کہ میں ابھی بندوق لے کر آتا ہوں ،۔
بندوق لے کر کھالو گلی سے نکلتا ہے ، اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کی بندوق کی دہشت سے   ہیرا بھاگ چکا ہو گا ۔
کھالو کو یہ علم نہیں تھا کہ صرف بندق کی دہشت سے دشمن نہیں بھاگتا ، بندے کی کوئی اپنی بھی کوالٹی ہونی چاہئے ۔
بس جیسے ہی کھالو  گلی سے نکلتا ہے ہیرا بڑھ کر اس سے بندوق چھین لیتا ہے ۔
اور دو چمپتیں مذید لگا کر کھالو کو بھاگ جانے کا کہتا ہے
کھالو بڑی شرافت سے گھر چلا جاتا ہے کہ اب بندوق ہیرے کے ھاتھ میں تھی اور کہیں یہ نہ ہو کہ ہیرا اسے چلا ہی دے ،۔
بندوق ! محفوظ  ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی  ۔
ہیرا موٹا کہتا پھرتا تھا
لوگ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی پاور بنتے ہی سارا گاؤں ہم سے ڈرنے لگے گا ، اب ورزش ، ڈسپلن یا کہ دوسری مشقتیں کرنے کی ضروت نہیں ہے ۔
میں نے ان کا ایٹم بم ہی چھین لیا ہے
ہاہاہاہا،۔
وڈے آئے ، بندوقاں والے !!،۔
 

Popular Posts