اک ہور ، سانوں کی !۔
یہاں ایک چیز کی وضاحت کہ مختلف اقوام کی اپنی اپنی تاریخ سے کچھ وراء ہو کر سوچیں انسانی معاشرھ
جس میں ہم سب رہ رہے ہیں ،
مختلف اقوام پر عروج آیا !!ـ
اس عروج سے پہلے کی جو باتیں جن باتوں کی تاریخ کم ہی لکھی ہوتی ہے ، وہ وہی ہوتی ہیں،۔
کمزور پیدائش بتدریج جوانی تعلیم ، طاقت پکڑنا وغیرہ وغیرہ۔
دنیا پر چھا گئیں ، بہادری کی ایک تاریخ چھوڑ کر انے والی نسلوں کی کم عقلی کو سہارا دینے والی شنہری تاریخ لکھوا گئیں ،۔
اور پھر بتدریج کمزور ہوتی ہوئیں اپنے انت کو پہنچیں ـ
لیکن اج
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سائینس کی ترقی ہے ۔
کہ ہوتی ہی چلی جا رہی ہے !!۔
میرے ہم عمر اور مجھ سے بڑے جو لوگ زندھ ہیں وہ جانتے ہیں کہ
ابھی ہمارے پجپن ميں جن چیزوں کا تصور بھی محال تھا ، آج وھ جادو بھری ایجادات ہمارے استعمال میں ہیں ۔
یعنی که سائینس
جو که ہمارے پجپن تک ایک کمزور سی چیز تھی
آج اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنی جوانی کی طرف مائیل ہے ۔
اور اس صدی کا ہر جوان اس یقین کا کا شکار ہے کہ
یہ ایجادات کا رواج ، مسلسل زور ہی پکڑتا چلا جائے گا
اس پر کبھی کمزوری نہیں آئے گی ۔
ہر زمانے کا جوان اپنی جوانی میں یہی گمان کرتا ہے
کہ
وہ اپنے دادے کی طرح بوڑھا نہیں ہو گا
اور اگر ہوا بھی تو؟
اس
ہونے میں ابھی صدیاں بڑی ہیں ۔
حالانکہ اپنا، دادااپنے سامنے ہوتا ہے ۔
جو کہ خود تیس سال پہلے کڑیل جوان تھا،۔
لیکن سائنس کی جوانی ہے کہ اس کے سامنے کوئی دادا یا بابا نهیں ہے ۔
اس کے سامنے اس جیسی کوئی مثال نهیں ہے۔
کہ زمانے نے کبھی سائنس کی ترقی کی جوانی ہی نہیں دیکھی تو اس کے کے بڑھاپے کا تو تصور ہی محال ہے ،۔
لیکن کائنات کے افاقی اصول میں
ہر اوج کو زوال ہے ۔
اور یہ اصول اٹل ہے !!،۔
تو
میں بھی یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہوں کہ کب
اور کون سے وقت کو؟ کس نقطہ کو انتہا کہوں
کہ
نقطہ انتہاء ہی نقطہ انحطاط ہوا کرتا ہے ۔
اس سائینس کی جوانی کا زمانہ کس زمانے کو کہیں گے؟؟
کون سا وہ نقطہ ہو گا کہ جہاں سے اس کی ڈھلوان شروع ہو گی ؟
که جہاں سے یہ کمزور ہوتی هوئی بتدریج اپنے انت کو پہنچے گی؟؟
ہاں جی ایک بات اور بھی تو ہے!ـ
حادثاتی موت!!!!ـ
بھری جوانی میں قتل ، حادثہ ، یا کچھ اور ؟
اور یه کچھ اور، کسی درخت کے ساتھ ہو کہ کسی چرند یا پرند کے ساتھ!،۔
یا کسی پہاڑ کے ساتھ کہ دریا کے ساتھ یا کسی انسان کے ساتھ هو کہ سلیمان تاثیر کے ساتھ !!!ـ
یه کچھ اور تو نهیں ہونے والا اس سائینس کے ساتھ
کوئی ایٹمی جنگ ؟؟
یا وباء یا
کچھ اور ؟
اس ایٹمی جنک سے یاد ایا که هماری پیاری اور نسلی ایلیٹ نے امریکہ کو یہ باور کرایا ہوا ہے کہ ہمارے مولویوں کو ایٹم بم چلانے کا بڑا شوق ہے
اور پاكستان کے جوانوں کا یه حال ہے کہ
وہ چاہتے ہیں که دو تین مزائیل نیفے میں اڑس کر چلیں، اور جیب میں دو تین دانے ایٹم بموں کے بھی پڑے هوئے هوں
لیکن جی اکر سائینس کےساتھ کوئی اور حادثہ نهیں ہوجاتا اور کائینات کے افاقی قانون کے مطابق بتدریج کمزور ہوتی چلی جاتی هے تو ایسا کیسے هو گا
اور پھر اس کے بعد کے انسانوں کے کیا حالات زندگی ہوں کے ؟
اور وہ کیا سوچ کر ان سب سائینسی چیزوں کے استعمال کے فائدے پر صبر کرلیں گے؟؟؟
میرے خیال ميں وہ پاکستانی سوچ کے مالک بن جائیں گے
اور ہر چیز کے نقصان پر کندہے اچکا کر کہا کریں گے
سانوں کی!!!!ـ
جس میں ہم سب رہ رہے ہیں ،
مختلف اقوام پر عروج آیا !!ـ
اس عروج سے پہلے کی جو باتیں جن باتوں کی تاریخ کم ہی لکھی ہوتی ہے ، وہ وہی ہوتی ہیں،۔
کمزور پیدائش بتدریج جوانی تعلیم ، طاقت پکڑنا وغیرہ وغیرہ۔
دنیا پر چھا گئیں ، بہادری کی ایک تاریخ چھوڑ کر انے والی نسلوں کی کم عقلی کو سہارا دینے والی شنہری تاریخ لکھوا گئیں ،۔
اور پھر بتدریج کمزور ہوتی ہوئیں اپنے انت کو پہنچیں ـ
لیکن اج
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سائینس کی ترقی ہے ۔
کہ ہوتی ہی چلی جا رہی ہے !!۔
میرے ہم عمر اور مجھ سے بڑے جو لوگ زندھ ہیں وہ جانتے ہیں کہ
ابھی ہمارے پجپن ميں جن چیزوں کا تصور بھی محال تھا ، آج وھ جادو بھری ایجادات ہمارے استعمال میں ہیں ۔
یعنی که سائینس
جو که ہمارے پجپن تک ایک کمزور سی چیز تھی
آج اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنی جوانی کی طرف مائیل ہے ۔
اور اس صدی کا ہر جوان اس یقین کا کا شکار ہے کہ
یہ ایجادات کا رواج ، مسلسل زور ہی پکڑتا چلا جائے گا
اس پر کبھی کمزوری نہیں آئے گی ۔
ہر زمانے کا جوان اپنی جوانی میں یہی گمان کرتا ہے
کہ
وہ اپنے دادے کی طرح بوڑھا نہیں ہو گا
اور اگر ہوا بھی تو؟
اس
ہونے میں ابھی صدیاں بڑی ہیں ۔
حالانکہ اپنا، دادااپنے سامنے ہوتا ہے ۔
جو کہ خود تیس سال پہلے کڑیل جوان تھا،۔
لیکن سائنس کی جوانی ہے کہ اس کے سامنے کوئی دادا یا بابا نهیں ہے ۔
اس کے سامنے اس جیسی کوئی مثال نهیں ہے۔
کہ زمانے نے کبھی سائنس کی ترقی کی جوانی ہی نہیں دیکھی تو اس کے کے بڑھاپے کا تو تصور ہی محال ہے ،۔
لیکن کائنات کے افاقی اصول میں
ہر اوج کو زوال ہے ۔
اور یہ اصول اٹل ہے !!،۔
تو
میں بھی یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہوں کہ کب
اور کون سے وقت کو؟ کس نقطہ کو انتہا کہوں
کہ
نقطہ انتہاء ہی نقطہ انحطاط ہوا کرتا ہے ۔
اس سائینس کی جوانی کا زمانہ کس زمانے کو کہیں گے؟؟
کون سا وہ نقطہ ہو گا کہ جہاں سے اس کی ڈھلوان شروع ہو گی ؟
که جہاں سے یہ کمزور ہوتی هوئی بتدریج اپنے انت کو پہنچے گی؟؟
ہاں جی ایک بات اور بھی تو ہے!ـ
حادثاتی موت!!!!ـ
بھری جوانی میں قتل ، حادثہ ، یا کچھ اور ؟
اور یه کچھ اور، کسی درخت کے ساتھ ہو کہ کسی چرند یا پرند کے ساتھ!،۔
یا کسی پہاڑ کے ساتھ کہ دریا کے ساتھ یا کسی انسان کے ساتھ هو کہ سلیمان تاثیر کے ساتھ !!!ـ
یه کچھ اور تو نهیں ہونے والا اس سائینس کے ساتھ
کوئی ایٹمی جنگ ؟؟
یا وباء یا
کچھ اور ؟
اس ایٹمی جنک سے یاد ایا که هماری پیاری اور نسلی ایلیٹ نے امریکہ کو یہ باور کرایا ہوا ہے کہ ہمارے مولویوں کو ایٹم بم چلانے کا بڑا شوق ہے
اور پاكستان کے جوانوں کا یه حال ہے کہ
وہ چاہتے ہیں که دو تین مزائیل نیفے میں اڑس کر چلیں، اور جیب میں دو تین دانے ایٹم بموں کے بھی پڑے هوئے هوں
لیکن جی اکر سائینس کےساتھ کوئی اور حادثہ نهیں ہوجاتا اور کائینات کے افاقی قانون کے مطابق بتدریج کمزور ہوتی چلی جاتی هے تو ایسا کیسے هو گا
اور پھر اس کے بعد کے انسانوں کے کیا حالات زندگی ہوں کے ؟
اور وہ کیا سوچ کر ان سب سائینسی چیزوں کے استعمال کے فائدے پر صبر کرلیں گے؟؟؟
میرے خیال ميں وہ پاکستانی سوچ کے مالک بن جائیں گے
اور ہر چیز کے نقصان پر کندہے اچکا کر کہا کریں گے
سانوں کی!!!!ـ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں