محاورے کی کہانی
محاورے کی کہانی!،۔
ٹرک دی بتی پچھے!!،۔
ساٹھ کی دہائی میں ، ملک تو ترقی کر رہا تھا لیکن لوگ ملک سے بھاگنے شروع ہو چکے تھے ،۔
جرمنی میں کہیں کسی لوگر ہاؤس میں پاکستانی اور کچھ سکھ بھی جرمن حکومت نے رکھے ہوئے تھے ،۔
ان میں سے سکھ اور مسلمان لڑکوں کی ہر روز کسی نہ کسی بات میں مقابلہ بازی ہوتی ہی رہتی تھی ۔
کبھی گٹ پکڑنا ، کبھی پنجہ لڑانا ۔
جوان لڑکے مقابلے بازی میں اپنے اپنے ملک اور دھرم کو بہتر بنا کر پیش کرتے تھے تو بزرگ لوگ ریفری ہوتے تھے ،۔
اقبال سنگھ اور محمد اقبال کی چڑ چڑ سے تنگ ایک دن ایک بزرگ لوگوں نے ان کو دوڑ کر اپنی صلاحیت دیکھناے کا راستہ دیکھایا ،۔
سارے لوگر ہاؤس کے لوگ ہلا شیری دینے لگے ،۔
رات کا وقت تھا ،۔
دور کہیں کسی گھر کی بتی جل رہی تھی ، پہلے محمد اقبال کو کہا گیا کہ تم اس بتی کو چھو کر واپس آؤ گے ،۔
ایک گھڑی درمیان میں رکھ کر محمد اقبال کو ون ٹو تھری کر دیا گیا ،۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا ، محمد اقبال کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آیا ۔
اب باری تھی اقبال سنگھ کی ، پہلے ہی کی طرح اس کو بھی ون ٹو تھری کروا دیا گیا ۔
سب لوگ گھڑی دیکھ کر انتظار کرنے لگے ، اقبال سنگھ واپس نہیں پلٹا ، ایک گھنٹا ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، رات بھیگنے لگی ، سب لوگ مایوس ہو کر سو گئے ، اگلے دن بھی اقبال سنگھ واپس نہیں آیا ،۔
بڑی چرچا ہوئی سب لوگ اقبال سنگھ کے لئے پریشان تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ۔
تیسرے دن اقبال سنگھ واپس پلٹا ، چہرئے پر ہوائیاں ، اڑ رہی تھیں ۔ سانس پھولی ہوئی تھی ، چہرہ پچک کر چوسے ہوئے آم کی طرح ہوا تھا ،۔
سب لوگ اس کے گرد اکھٹے ہوگئے ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا
کہ اقبال سنگھا ہوا کیا تھا ؟
اقبال سنگھ نے ہانپتے ہوئے بتایا
یارو، تم لوگوں نے جو بتی مجھے دیکھائی تھی وہ ٹرک کی بتی تھی ۔
اور وہ ٹرک فرینکفرٹ جا کر رکا تھا ،۔
میں اس ٹرک کی بتی کو فرینکفرٹ میں ہاتھ لگا کر واپس آ رہا ہوں ۔
حاصل مطالعہ
اس دن سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اقبال سنگھ کی فیلنگ کو محسوس کرنے والا بندہ خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا محسوس کرتا ہے ،۔
ٹرک دی بتی پچھے!!،۔
ساٹھ کی دہائی میں ، ملک تو ترقی کر رہا تھا لیکن لوگ ملک سے بھاگنے شروع ہو چکے تھے ،۔
جرمنی میں کہیں کسی لوگر ہاؤس میں پاکستانی اور کچھ سکھ بھی جرمن حکومت نے رکھے ہوئے تھے ،۔
ان میں سے سکھ اور مسلمان لڑکوں کی ہر روز کسی نہ کسی بات میں مقابلہ بازی ہوتی ہی رہتی تھی ۔
کبھی گٹ پکڑنا ، کبھی پنجہ لڑانا ۔
جوان لڑکے مقابلے بازی میں اپنے اپنے ملک اور دھرم کو بہتر بنا کر پیش کرتے تھے تو بزرگ لوگ ریفری ہوتے تھے ،۔
اقبال سنگھ اور محمد اقبال کی چڑ چڑ سے تنگ ایک دن ایک بزرگ لوگوں نے ان کو دوڑ کر اپنی صلاحیت دیکھناے کا راستہ دیکھایا ،۔
سارے لوگر ہاؤس کے لوگ ہلا شیری دینے لگے ،۔
رات کا وقت تھا ،۔
دور کہیں کسی گھر کی بتی جل رہی تھی ، پہلے محمد اقبال کو کہا گیا کہ تم اس بتی کو چھو کر واپس آؤ گے ،۔
ایک گھڑی درمیان میں رکھ کر محمد اقبال کو ون ٹو تھری کر دیا گیا ،۔
فاصلہ خاصا زیادہ تھا ، محمد اقبال کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آیا ۔
اب باری تھی اقبال سنگھ کی ، پہلے ہی کی طرح اس کو بھی ون ٹو تھری کروا دیا گیا ۔
سب لوگ گھڑی دیکھ کر انتظار کرنے لگے ، اقبال سنگھ واپس نہیں پلٹا ، ایک گھنٹا ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، رات بھیگنے لگی ، سب لوگ مایوس ہو کر سو گئے ، اگلے دن بھی اقبال سنگھ واپس نہیں آیا ،۔
بڑی چرچا ہوئی سب لوگ اقبال سنگھ کے لئے پریشان تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ۔
تیسرے دن اقبال سنگھ واپس پلٹا ، چہرئے پر ہوائیاں ، اڑ رہی تھیں ۔ سانس پھولی ہوئی تھی ، چہرہ پچک کر چوسے ہوئے آم کی طرح ہوا تھا ،۔
سب لوگ اس کے گرد اکھٹے ہوگئے ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا
کہ اقبال سنگھا ہوا کیا تھا ؟
اقبال سنگھ نے ہانپتے ہوئے بتایا
یارو، تم لوگوں نے جو بتی مجھے دیکھائی تھی وہ ٹرک کی بتی تھی ۔
اور وہ ٹرک فرینکفرٹ جا کر رکا تھا ،۔
میں اس ٹرک کی بتی کو فرینکفرٹ میں ہاتھ لگا کر واپس آ رہا ہوں ۔
حاصل مطالعہ
اس دن سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اقبال سنگھ کی فیلنگ کو محسوس کرنے والا بندہ خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا محسوس کرتا ہے ،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں