بدھ، 8 جون، 2016

بھوک کا ادب

بھوک کا ادب (عالم ادب یا کہ مقامی) پڑھ پڑھ کر  کئی نسلیں جوان ہوئیں اور مر کھپ گئیں  ۔
تھوڑے سے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
جو پیٹ کی بھوک کی بات کو  “ترس “  کے حصول کے لئے لکھتے ہیں ،۔
صاحب چار دن سے بھوکا ہوں !
دو دن سے کچھ کھانے کو نہیں ملا ، وغیرہ وغیرہ!۔
کھاد کی دریافت کے بعد عموماً اور  جنیاتی  موڈیفکیشن  والے چکن کے بعد خصوصاً ، اگر کوئی بھوکا ہے تو ؟
یاتو کام کی مصروفیت کی وجہ سے ہوگا یا پھر کاہلوں کا بادشاھ کہ اس انتظار میں ہو گا کہ کوئی اس کے منہ میں  نوالہ ڈال دے ۔
کھاد کی دریافت (بیسویں صدی کی چوتھی دہائی) کے بعد  معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ انسان ، کھانے میں روٹیوں کی تعداد سے بے فکر ہوا ۔
کھاد کی دریافت کے بعد ستر کی دہائی میں جنیاتی موڈیافائی بیجوں کے تجربے کی وجہ سے افریقہ میں موزنبیق اور صومالیہ میں
قحط کی صورت حال پیدا ہوئی اور بڑی شدت سے پیدا ہوئی ۔
جس پر قابو پانے میں  دو دہائیاں صرف ہوئیں ۔
اور آئیندہ کے لئے معاملات کے اصول وضع کر لئے گئے ،۔
ورنہ جنگ زدہ علاقوں تک میں لوگ بھوک سے نہیں مرئے ۔
کھاد کی دریافت کے تقریباً  تیس سال بعد یعنی کہ ستر کی دہائی میں  پاکستان میں عام گھروں میں ہر فرد کو ایک روٹی یا کہ دو روٹیاں کی شرط ختم ہو چکی تھی ،۔ مشرقی پاکتسان کی شورش کی وجہ سے چند ماھ کے عرصے کو نکال کر  کہ ان دنوں  گندم کی بجائے لوگ مکئی یا باجرے کی روٹیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے ،۔
بھول کا ادب پرانا ہوا
اب یہ بس کتابوں میں رہ گیا
تاکہ انے والی نسلیں پڑھ لیں کہ پرانے زمانے کے لوگوں کی زندگی کتنی مشکل تھی اور انہوں نے انے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑا ۔
آج کا ادب ، بھوک کی بجائے “رج “ کا ہونا چاہئے ، “ لڑ “ (پنجابی کے لفظ لینج یعنی جس کی انکھ کی بھوک نہ مرے ،اس کے کھانا کھانے کے انداز کو لڑ مارنا کہتے ہیں ) مارنے کا ہونا چاہئے ،۔
بھرے پیٹ سے ہونے والی بیماریوں کی بات ہونی چاہئے ،۔
شوگر ، کولیسٹرول ،  بلڈ پریشر کی کہانیاں ہونی چاہئے ۔
ہاں اگر بھوک پر ہی لکھنا ہے تو ؟
پیسے کی بھوک پر لکھنا چاہئے ۔
اقتدار کی بھوک پر لکھنا چاہئے ۔
کہ ایک بھکاری نے دروازہ کھٹکٹایا
اور سوال کیا، کچھ کرنسی کا سوال ہے بابا  ، بٹوا پتلا ہو گیا ہے بابا !،۔
اقتدار کے بھکاریوں کے واشنگٹن کےوالی سرکار کے  در پر جانے کا احوال ہونا چاہئے ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ کی برکات کا لکھنا چاہئے
کہ  کیسے ان درباروں سے خیرات ملتی ہے ۔
اور کیسے ان درباروں کے گدا بادشاھ بن جاتے ہیں ،۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts