برادر اسلامی ملک
جب افغانی لوگ ! برادر اسلامی ملک کہتے ہیں تو مجھے
پھکو جولاہ یاد آ جاتا ہے ،۔
جو کہ ان افغان لوگوں کے اسلامی بھائی چارے کااپنا مشاہدہ بتایا کرتا تھا ،۔
پھکو ، گوجرانوالہ سے ٹرین میں بیٹھ کر کراچی جایا کرتا تھا ، جہاں وہ ساحل سمندر پر بھنے ہوئے چنے بیچا کرتا تھا۔
جہاں ہمارے گاؤں کے کئی لڑکے یہی کام کرتے تھے ۔
کمائی خاصی معقول تھی ، ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی ٹولی گھر کا چکر لگانے آ جاتی تھی ۔
کراچی کی باتیں ہم نے ان سے ہی سن سن کر جانا کہ کراچی بڑا پر امن اور غریب نواز شہر ہوا کرتا تھا ۔
پھکو بتاتا ہے کہ جب ہم یہاں گوجرانوالہ سے ٹرین میں چڑھتے تھے تو
پشاور سے ٹرین میں سوار، ساری سیٹوں پر پٹھان قابض ہوتے تھے ،۔
دو دو تین تین سیٹیں سنبھالے بیٹے ہیں ،۔
کسی پر چادر رکھی ہے اور کسی پر نسوار کی آئینہ لگی ڈبی ۔
کوئی صاحب استنجا کرنے والا لوٹا اور بکسا کے لئے سینٹ منتخب کر چکے پیں ۔
جب ہم ان کو کہتے کہ کوئی سیٹ ہمیں بھی دیں تو ؟
تڑک کر جواب دیتے ۔
اوئے خوچہ ! ادھر ام بیٹھی اے ، یہ اماری سیٹ اے ۔
ام اتنی دور سے آتی ، چلو چلو مغز نہیں کاؤ۔
آیا بڑا سیٹ مانگنے والا۔
اور سرگوشی سی میں کہتے “دال خور” جو کہ ہم سن بھی لیتے کہ دال کھانے میں کیا برائی ہے؟۔
گوجرانوالہ سے کراچی تک کا سفر ان پٹھانوں کی وجہ سے سیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ذلیل ہو کر رہ جاتے ۔
سفر کی اس کوفت اور ذلالت سے بچنے کے لئے جب ہم واپس آتے تو؟
کراچی سے ہم ، وقت سے پہلے ہی آ کر سیٹیں سنبھال لیتے تھے ،۔
پٹھان لوگ بعد میں آتے ، ہمین سیٹیں سنبھال کر بیٹھے دیکھ کر ، خوش اخلاقی سے انکی باچھیں کانوں تک کھلی ہوتی تھیں ۔
لہجے میں حلاوت ہوتی تھی کہ سن کر بھکاری بھی شرما جائیں ۔
بائی ساب ! توڑا ام کو بھی بیٹھنے دو ۔
لیکن ہم لوگ بھی تپے بیٹھے ہوتے تھے ، ہمارے ذہن میں گوجرانوالہ سے کراچی تک کی وہ بے عزتی اور کوفت ہوتی تھی
اس لئے ہم بھی انکار کر دیتے تھے ،۔
تو
پٹھان لوگوں کو اسلامی بھائی چارہ یاد آ جاتا تھا ۔
دیکھو جی ام سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ، نبی پاک نے بھی روادری کا درس دیا ہے ۔
تے ماما ! جب وہاں گوجرانولہ سے کراچی تک ہم اپ لوگوں سے روادری کا تقاضا کرتے ہیں ،
تو کیا ہم کافر ہوتے ہیں ؟؟
یہ اپنا، افغانی اسلام نسوار کی ڈبی میں واپس ڈال اور فرش پر بیٹھ کر ہمارے گوجرانوالہ اترنے تک صبر کر ۔
کہ اسلام صبر کی بھی تلقین کرتا ہے ۔
پھکو جولاہ یاد آ جاتا ہے ،۔
جو کہ ان افغان لوگوں کے اسلامی بھائی چارے کااپنا مشاہدہ بتایا کرتا تھا ،۔
پھکو ، گوجرانوالہ سے ٹرین میں بیٹھ کر کراچی جایا کرتا تھا ، جہاں وہ ساحل سمندر پر بھنے ہوئے چنے بیچا کرتا تھا۔
جہاں ہمارے گاؤں کے کئی لڑکے یہی کام کرتے تھے ۔
کمائی خاصی معقول تھی ، ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی ٹولی گھر کا چکر لگانے آ جاتی تھی ۔
کراچی کی باتیں ہم نے ان سے ہی سن سن کر جانا کہ کراچی بڑا پر امن اور غریب نواز شہر ہوا کرتا تھا ۔
پھکو بتاتا ہے کہ جب ہم یہاں گوجرانوالہ سے ٹرین میں چڑھتے تھے تو
پشاور سے ٹرین میں سوار، ساری سیٹوں پر پٹھان قابض ہوتے تھے ،۔
دو دو تین تین سیٹیں سنبھالے بیٹے ہیں ،۔
کسی پر چادر رکھی ہے اور کسی پر نسوار کی آئینہ لگی ڈبی ۔
کوئی صاحب استنجا کرنے والا لوٹا اور بکسا کے لئے سینٹ منتخب کر چکے پیں ۔
جب ہم ان کو کہتے کہ کوئی سیٹ ہمیں بھی دیں تو ؟
تڑک کر جواب دیتے ۔
اوئے خوچہ ! ادھر ام بیٹھی اے ، یہ اماری سیٹ اے ۔
ام اتنی دور سے آتی ، چلو چلو مغز نہیں کاؤ۔
آیا بڑا سیٹ مانگنے والا۔
اور سرگوشی سی میں کہتے “دال خور” جو کہ ہم سن بھی لیتے کہ دال کھانے میں کیا برائی ہے؟۔
گوجرانوالہ سے کراچی تک کا سفر ان پٹھانوں کی وجہ سے سیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ذلیل ہو کر رہ جاتے ۔
سفر کی اس کوفت اور ذلالت سے بچنے کے لئے جب ہم واپس آتے تو؟
کراچی سے ہم ، وقت سے پہلے ہی آ کر سیٹیں سنبھال لیتے تھے ،۔
پٹھان لوگ بعد میں آتے ، ہمین سیٹیں سنبھال کر بیٹھے دیکھ کر ، خوش اخلاقی سے انکی باچھیں کانوں تک کھلی ہوتی تھیں ۔
لہجے میں حلاوت ہوتی تھی کہ سن کر بھکاری بھی شرما جائیں ۔
بائی ساب ! توڑا ام کو بھی بیٹھنے دو ۔
لیکن ہم لوگ بھی تپے بیٹھے ہوتے تھے ، ہمارے ذہن میں گوجرانوالہ سے کراچی تک کی وہ بے عزتی اور کوفت ہوتی تھی
اس لئے ہم بھی انکار کر دیتے تھے ،۔
تو
پٹھان لوگوں کو اسلامی بھائی چارہ یاد آ جاتا تھا ۔
دیکھو جی ام سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ، نبی پاک نے بھی روادری کا درس دیا ہے ۔
تے ماما ! جب وہاں گوجرانولہ سے کراچی تک ہم اپ لوگوں سے روادری کا تقاضا کرتے ہیں ،
تو کیا ہم کافر ہوتے ہیں ؟؟
یہ اپنا، افغانی اسلام نسوار کی ڈبی میں واپس ڈال اور فرش پر بیٹھ کر ہمارے گوجرانوالہ اترنے تک صبر کر ۔
کہ اسلام صبر کی بھی تلقین کرتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں