جمعہ، 12 اگست، 2016

ماں بولی ،پنجابی اور دیسی دانش


پاکستان کے سیاسی ورکروں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ
اگر ترکی جیسا معاملہ پاکستان میں ہو جاتا تو؟
آپ جنم لینے سے پہلے ہی یتیم ہو چکے ہوتے  ۔
یہ معاملہ جرنل عیوب کے ساتھ ہو جاتا تو ؟
تو ناں بھٹو کو ڈیڈی ملتا ، ناں پیپلز پارٹی ہوتی اور نہ  ہی ۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر یہ معاملی جرنل ضیاع کے ساتھ ہو جاتا تو؟
تو ناں جرنل جیلانی ہوتے  نہ  شریف صاحب کے بیٹوں کو اقتدار ملتا اور نہ اپ کو نونیے کہلوانے کا موقع ملتا !،۔
اور اگر ؟
جرنل پاشا کی ریٹائیرمنٹ نہ ہوتی تو ؟
عمران اج وزیر  یازم ہوتا ۔
پی ٹی آئی والوں کے پٹ سیاپے ہوتے ، اور قندیل  بلوچ ابھی زندہ ہوتی ،۔
:: ہور وی لکخاں ؟ کہ اینا ای کافی اے ؟


*پنجابی*
کر کے ظلم عروج تے آؤن والے

ایس گل دا زرا خیال رکھیں

جا کے اوتلی ہوا وچ پاٹ جاندے

جنہاں گڈیاں نوں کھلی ڈور ملے ۔

**پیر فضل شاھ گجراتی۔**

بڑا کہاون تے بڑا دکھ پاون ، تے میں بڑا کہا کے بھلی
بڑے اونٹ مر جاندے ، پالے ، نہ کوٹھا نہ کلی
بڑے رکھ ڈِگ پیندے نے ، جد پوند ہنیری جھلی
 تے بلھّیا رب تو تِنّے منگ لے  ، کُلّی گُلّی جُلّی ۔

ایک پرانا لطیفہ ہے
کہ
بی آر بی نہر  کے اپری علاقے ، اور نواح کے باجوے (میرے فیس بک کے دوستوں میں بھی کچھ باجوے ہیں ، ان سے معذرت کے ساتھ) ۔
رات کے وقت گزرنے والے راہگیروں کو لوٹ لیا کرتے تھے ۔
میاں والی بنگلہ سے ایک مراثی گزر رہا تھا کہ لوگوں کے کہا ادھر نہ جاؤ، باجوے لوٹ لیں گے ۔
مراثی نے سوال جڑ دیا ، کچھ پاس ہو تو ہی لوٹتے ہیں
یا کہ کاغذ بھی کروا لیتے ہیں ؟
 وہ پرانا زمانہ تھا
اج سرمایہ دارانہ نظام میں ، جس کے پاس کچھ ہو ، وہ تو لٹتا ہی ہے
 ، جس کے پاس کچھ نہ ہو اس سے کاغذ کروا لیتے ہیں ،۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts