جمعہ، 4 دسمبر، 2015

کوئے اور بلی کا گوشت

کوئے اور بلی کے گوشت کے متعلق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائی تائی یارڈ پر جب رمضان کام کرتا تھا تو
اس کی مہربان طبیعت کی وجہ سے بلیّاں بہت اکھٹی ہو گئی تھیں ۔
پھر یہ ہوا کہ رمضان کام چھوڑ گیا تو
یارڈ پر عزیز خان کا راج تھا ، اس نے بلیّوں پر پابندی لگا دی کہ  جس طرح مرغیاں انڈہ دیتی ہیں اس طرح اگر ساری بلیاں بھی انڈے دینے لگیں تو ان کو کھانا ملے گا ورنہ نہیں ۔
ان دنوں بلیوں سے جان چھڑانے کے کوشاں تھے
ہیرانو نامی  ایک سادہ دل جاپانی کا آنا جانا تھا ، اس کو کہا کہ کچھ بلیاں تم لے جاؤ!!۔
ہیرانو چٹخ کر کہتا ہے نہیں نہیں بلیاں نہیں چلیں گی
میں نے پوچھا کیوں ؟
ہیرانو کہنے لگا
بلی کے گوشت میں بال ہوتے ہیں ، گوشت کے اندر تک بال ہوتے ہیں ،
کھایا ہی نہیں جاتا
کتنی ہی بلیاں ٹرائی کی ہیں ، سب کے گوشت میں بال تھے اس لئے بلی نہیں چلے ۔ بلکل بھی نہیں چلے گی ۔

کوا کھانا یا کہ کوئے کی بریانی ،جیسی باتیں بس ایک مذاق ہی ہیں ۔
کوئے کا گوشت گلتا ہی نہیں ہے ۔
پریشر ککر میں ایک ایک گھنٹے کی شھک شھک کے بعد بھی کوئے کا گوشت ربڑ کی طرح سخت رہتا ہے ،۔
کبھی تجربہ کر کے دیکھ لینا
یا کہ اگر کوئے پر طبیعت نہ مانے تو سفید رنگ کی ایک مرغی مل جاتی ہے جس کی کلغی کالے رنگ کی ہوتی ہے ۔
یہاں جاپان میں اس مرغی کو لوگ انڈوں کے لئے پالتے ہیں ،۔
ہو سکتا ہے یورپ کے دیہاتی علاقوں میں بھی پالتے ہوں ۔ ورنہ " پٹ شاپ " سے تو ضرور مل جائے گی ۔
اس کالی کلغی والی مرغی یا مرغ کو کوئے کی پیوند کاری سے تیار کیا گیا ہے ۔
اس مرغی کا گوشت گلتا ہی نہیں ہے ۔
اسی طرح کوئے کے گوشت والا بھی مذاق ہی ہے ، کوئے کا گوشت بھی گلتا ہی نہیں ہے ۔

منگل، 10 نومبر، 2015

جان محمد ڈاکیا

میں نے اپنی زندگی میں کسی شخصیت کا انتظار کیا جانا دیکھا ہے تو وہ تھے ۔
باسی والا گاؤں کے جان  محمد ، جان محمد ڈاکیا!!۔
ستر کی دہائی میں  جب عربوں میں  مزدوری کے لئے جانے کا ٹرینڈ نیا نیا چلا تھا ، ان دنوں کی بات ہے کہ  ابھی فون تو تھے نہیں ، تو سب لوگ خط کا انتظار کرتے تھے ،۔
ڈاکخانے میں  گاؤں کے درجنوں لوگ  جان محمد ڈاکئے کا انتظار کر رہے ہوتے تھے اور ہر روز کرتے تھے  ۔
جان محمد ڈاکیا  باسی والا سے ڈاک نکال کر   گاؤں آتا تھا ، جہاں سے تلونڈی کی ڈاک نکال کر  تھیلوں میں بند کر کے  جنڈیالے پہنچتا تھا  ۔
یہاں جنڈیالے باغ والے میں ڈاک کا تبادلہ ہوتا تھا ،۔
جان محمد نے ڈاک کا تھیلا ، جنڈیالہ باغ والا سے اٹھانا ہوتا تھا  ، جہان  ڈاک کا تھیلا لے کر دوسرا ڈاکیا  پہنچتا تھا ،۔
جنڈیالے سے تھیلے لے کر  ایک تھیلا پیرو چک  پہنچا کر  ایک تھیلا گاؤں لانا ہوتا تھا ، اس کے بعد ایک تھیلا لے کر باسی والا پہنچتا تھا  جہاں ان کا گھر تھا ۔
گوجرانوالہ سے ڈال کے کر پہنچنے والے ڈاکیے کی لیٹ  یا کہ جان محمد کے سائیکل میں کوئی مسئلہ بن جانے پر ڈاک لیٹ ہو جاتی تھی  ۔
جس پر گاؤں والوں کی بے تابی دیدنی ہوتی تھی ۔
خاکی وردی پہنے جان محمد جیسا انتظار میں کسی اور ہوتے نہیں دیکھا ۔
بہت سے لوگون کا انتظار ہوتے دیکھا ہے ۔ کسی کا کسی جلسے میں ! لیکن اس جلسے کی حد تک ۔
کسی  دوست کا ، لیکن اس دوست کی حد تک ۔
لیکن جان محمد کا انتظار  ہر روز ہوتا تھا اور بے تابی سے ہوتا تھا  ،۔

بدھ، 4 نومبر، 2015

حاجی رفیق آٹوالیکٹریشن

گوجرانوالہ کے لاری اڈے کے سامنے کی ایک ورکشاپ پر میں آٹو الیکٹریشن کا کام سیکھنے جایا کرتا تھا ۔
گولڈن واٹر پمپ والوں کی بغل میں طارق ترپال ہاؤس کے ساتھ ،حاجی رفیق آٹو الیکٹریشن کی دوکان ہوا کرتی تھی ۔ ورکشاپ پر حاجی رفیق صاحب کا چھوٹا بھائی حاجی یوسف کام کرتا تھا ۔
میں حاجی یوسف صاحب کا شاگرد تھا ۔
 حاجی صاحبان کی بسیں بھی چلتی تھیں ۔
لاہور سے گجرات کے روٹ پر ۔
یہاں میں نے بیٹری ( لیڈ سٹوریج بیٹری) بنانی سیکھی ،۔ سیلف موٹر اور جنریٹر کی مرمت کا کام سیکھا ، گاڑیوں کی وائیرنگ کا کام میں پہلے ہی حاجی سودے سے سیکھ چکا تھا ۔
انیس سو تراسی کی بات ہے ۔
مجھے خرچے کے لئے ہفتے کے دس روپے ملتے تھے ۔  ابھی میرے بھائی بہت چھوٹے تھے گھر میں بہت غریبی تھی ،۔ ابا جی کے قرضے تھے جو اتارنے تھے ۔
کوئی تیرہ ہزار ڈالر کے قریب کی رقم تھی  ، جو کہ ان دنوں پچاسی ہزار روپے بنتی تھی ۔
کسی بھی روٹ پر چلنے والے بس کا عملہ تین افراد پر مشتمل ہوتا ہے ،۔ ڈارئیور ، کلینڈر اور ہیلپر ۔
ڈرائور اور کلینڈر ایک سکیل جاب تھی ، لیکن ہلیپر ، کوئی بھی بس سکتا تھا ۔ ہیلپر سے کلینڈر اور ترقی کرتے کرتے ڈرائیور  بن جاتے تھے ۔
ان دنوں ہیلپر کی دہاڑی پچیس روپے ہوتی تھی ۔
اپنے گھر کی غریبی کے احساس سے میں بھی کمائی کر کے کچھ ابا جی  کی مدد کرنا چاہتا تھا ۔
اس لئے ایک دن میں نے حاجی یوسف صاحب سے کہا کہ
پاء جی ! مجھے کسی بس پر ہیلپر رکھ لیں !!۔؎
حاجی صاحب نے بڑا چونک کر پوچھا کہ کیوں ؟؟
کیونکہ ہیلپر کو پچیس روپے مل جاتے ہیں ۔ مجھے کمائی کی بہت ضرورت ہے ۔
حاجی صاحب نے مجھے سختی سے ٹوک دیا
کہ
نہیں تم ہیلپر نہیں بنو گے !!۔
میرے دل میں خیال آیا کہ حاجی صاحب کو کام کرنے والے مفت کے بندے ی ضرورت ہے اس لئے مجھے روک رہے ہیں ۔
حاجی صاحب کا رویہ مجھے اپنی ترقی میں روکاوٹ لگنے لگا ۔
اس لئے میں نے لاری اڈے پر جاننے والے ایک دو دیگر بسوں کے مالکوں کو اپنی ضروت کا کہا ۔
تو دو ہی دن میں سارے جاننے والوں میں یہ بات پھیل گئی ۔
حاجی صاحب نے مجھے کہا
میں سن رہا ہوں کہ تم ہیلپر بننے کے لئے کوشش کر رہے ہو ، لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ پنڈی سے فیصل آباد اور پشاور سے لاہور تک کے روٹ پر ،یا کہ سیالکوٹ سے لاہور  کے روٹ پر
چلنے والی کسی بس میں میں تمہیں ہیلپر نہیں بننے دوں گا ۔
گوجرانوالہ سے گزرنے والی بسوں کے مالکان ہمیں جانتے ہیں ،۔ تم جس بس پر بھی رہو گے میں اس کے مالک کو کہہ کر تمہیں نکلوا دوں گا ۔
میں حاجی صاحب کے روئے سے بہت مایوس ہوا ۔ انہی دنوں میں نے “حاجی شفیع ٹرالی میکر “ والوں کے لڑکے نواز شریف سے بات کر کے آٹوالیکٹریشن کی ورکشاپ کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ۔
کیونکہ مجھے یقین تھا کہ بس پر ڈرائیور تو کجا کلیڈر یا ہیلپر بھی نہیں بن سکتا ۔ اس لئے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ میں اپنا ورکشاپ کر لوں ۔
میری کام پر جانے کی روٹین خراب ہو گئی ،۔ ایک دن کام پر جاتا اور دو دن نواز شریف کے ساتھ گھومتا رہتا تھا ۔ استاد یعقوب سے بیٹری چارجر اور آرمیچر ٹیسٹر بنوا لیا ۔
لیکن دوکان کے کرئے کے لئے رقم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے گاؤں میں ورکشاپ ڈالنے کا کام شروع کر دیا ۔
میری روٹین کو بگڑے دیکھ کر ایک دن حاجی صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے پوچھا، ورکشاپ شروع کر رہے ہو ؟
میں نے گول مگول سا جواب دیا کہ کہیں میری ورکشاپ میں بھی کوئی روکاوٹ نہ ڈال دیں ۔
میں نے ورکشاپ شروع کی
لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں ابھی روکشاپ چلانے کے قابل نہیں ہوں ،۔
میں حاجی صاحب کے پاس واپس چلا گیا ۔
کوئی دو تین ہفتے بعد مجھے پوچھتے ہیں ، ورکشاپ کیوں چھوڑ دی ؟
میں نے کہا کہ تجربے کی کمی کی وجہ سے !!۔ تو حاجی صاحب نے مجھے کہا کہ دوبارہ شروع کرو لو میں تمیں اوزار لے کر دیتا ہوں۔
اور اگر کوئی اور بھی مسئلہ بنے تو بتانا ۔
حاجی صاحب نے بیٹریوں میں دھلائی کے لئے کچھ اوزار اور ایک پلاس مجھے دیا ۔
میں نے پوچھا کہ حاجی صاحب آپ نے مجھے ہیلپر کیون نہیں بننے دیا ؟ مجھے نقد کمائی کی ضرورت تھی ؟
تو حاجی صاحب نے کہا کہ ہیلپر بننا ، تماہرے قابل کام نہیں ہے ۔ تم نے بہت ترقی کرنی ہے ۔ اگر ہیلپر بن گئے تو تم ضائع ہو جاؤ گے ۔ْ
آج مجھے اپنے اس دور کے احساسات یاد آتے ہیں تو بڑا عجیب سا لگتا ہے
کہ
مخلص لوگوں کی باتیں اور کام کبھی کبھی سمجھ میں نہیں آتے لیکن ہمارے مستقبل کے لئے کتنے آہم ہوتے ہیں ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک کہانی ہے مخلص مشورے کی
اور میری کئی کہانیاں ہیں گمراھ کرنے والے مشوروں کی ۔
لیکن لکھنے میں ڈر لگتا ہے کہ خون کے رشتوں سے چپکلش شروع ہو جائے گی ۔

منگل، 3 نومبر، 2015

چوھدری ڈبے دا رحم دل پراء

اودھا ناں تے کجھ ہور سی  پر لوکی ایس کو چوہدری ڈبہ  آکھدے سن ۔
خورے ایس لئے کہ اینہوں پھلہویری  ہوئی سی تے ایدھا منہ ڈبکھڑبا جہیا بن گیا سی  ۔
بڑا کوڑا بندہ سی ، ایویں راھ نادے لوکاں نوں وی پھنڈ کڈھا سی ۔
اے وکھری گل اے کہ کئی واری ایس نوں وہ پھنڈ لگ جاندی سی تے فیر  اینہوں دوڑنا وی اؤندا سی تے بڑا تیز ڈوردا سی ۔
پنڈ دے اوتلے پاسے ، جتھوں نہر لنگدی اے  ،ایدھے نال نال اینہاں دیا پیلیاں سن ۔
مجاں وی رکھیاں ہوییاں سن ، تے کجھ کامے وی سن ۔
چوہدری ڈبہ  کامیاں کولں کم کروان دا وی بڑا ماہر سی کہ کوئی وی کاما ایدہے کول چھ مہینیاں تو بوہتا نئیں سی ٹکدا ۔
پند دا کوئی منڈا  جے ایدھے ہتھیں چڑھ نادا سی تے فیر اوس دا سارا دن  چوہدری ڈبے دے  کھوھ تے کم کردیاں ای لنگ جاندا سی ۔
مجاں لئے پٹھے وڈنے ، ٹوکے تے کترنے ، مجاں دے اگے پانے ، مجاں نوں پانی ڈاھناں ۔
جے اے سارے کم مک وی جاندے تے ، مجاں نوں نوان  دے کم تے لاء لیندا سی ۔
منڈے تے منڈے  پنڈ دے کمیاں دیاں دا کوئی بابا بزرگ وی ہتھے چڑھ جاندا تے  اودھا وی ایہو حال ہوندا سی ۔
پر چوہدری ڈبے دا وڈا پراھ بڑا ای بیبا تے خدا ترس بندہ سی  پر اینہوں تھانے کچری دے کماں لئے سارا دن شہر ای لنگ جاندا سی  ۔
تھانے کچری دے کم وی بس چودھری ڈبے  دے بنائے ہوئے ای ہوندے سن پر  وڈا پرھ بڑے شوق نال اے کم کردا رہندا سی ۔
شام نوں وڈا پراء جدوں شہروں واپس مڑدا تے سب تو پہلوں اور کھو تے جاندا سی ۔
تے سارا دن پکھے تے ترہائے اوس بندے کول جاندا سی جیہڑا بد نصیب  چوہدری ڈبے دے ہتھ چڑھ گیا ہونا سی ۔
تے فیر وڈا پراء چوہدری ڈبت¥ے وں بڑیاں گالاں کڈھدا سی ۔
کہ اوئے توں میرے ایس پتر نوں سارا دن پکھا تے ترہایا  کم تے لائی رکھیا اے
اؤئے تون جے ایدہی جان ای کڈ چھڈی  اے ظالماں
تے فیر وڈا پراء ایس بندے نوں کہندا، چل ہن تو نکل جاتے اپنے گھر جا کہ کوئی روٹی شوٹی وی کھا لے ۔
بندہ جا چھڈا کے پجن دی کردا
پر رحم دل تے بڑا ہی چنگا وڈا پراء ایس نوں تاکید کردا کہ
جے اے ڈبہ  فیر تیرے نال ایس طرح کرئے تے توں مینوں ضرور دسئیں ۔ ایس  بد دے بی نوں میں بڑا ماراں گا ۔
ڈیرے دے کولوں ای  سڑک لگندی سی  جدہے تے بساں وی لنگدیاں سن ، بساں تے بہہ کے شہر مزدوری کرن جان والے مزدور  وی ایس دے شکار بن جاندے سن ۔ چوھدری ڈبہ بس ای روک لیندا سی تے  مزدوراں نوں سارا دن کم تے لائی رکھدا  سی۔
مونجی دی لابھ لان لئی  ایہاں دناں وج چدوں لابے  مدلے ای نئیں ۔ اے مزدور لوگ لابھ لاون دی جاچ کٹ سیکھدے سن تے پکھ نال ٹرفدے زیادہ سن ۔
ایہاں  مزدوراں دی جان وہ واڈا پراء ای آ کے چھڈاندا ہوندا سی ۔
اک دن کی ہویا کہ جس بس نوں ڈبے نے کھلاریا اوس بس وچ کچھ  باجوے  جٹ منڈے شہر تاریخ بھگتن واسطے جاندے ہوئے بیٹھے سن  ۔
جدوں اینہاں نوں چوہدری ڈبے نے بسوں اتر کے مونجی دی لابھ لاؤن لئی آکھیا تے
ایہاں منڈیاں نے  چوہدری ڈبے نو  پاء لمیاں لیا  تھ بڑی پھینٹی لائی ۔
ہڈی پسلی تے نئیں بھنی پر  گجی مار بڑی ماری ،۔
چوہدری ڈبے نوں ادھ مویا کر کے اور بجویاں دے منڈے بس تے بیٹھے تے شہر ٹر گئے ۔
ایس دن وڈا پراء سویرے سویرے ای چوہدری ڈبے دی مدد نوں پہنچ گیا ، تے جدوں انہون پتہ لگا کہ کوئی منڈے  ڈے نوں مار کے شہر ٹر گئے نئیں تے  وڈا پارھ وہ ڈانگ لے سڑک تے بہہ گیا کہ جدوں اوہ منڈے واپس پلٹن گے تے اج انہاں دیاں ہڈیاں  تروڑ کے ای کلاں گے ۔
او ای گل ہوئی کہ
پچھلے پہر او باجوے منڈے  کجھ بس دے اندر سن تے کجھ بس دی چھت تے ۔
چوہدری ہوراں نے بس کھلار  لئی  تے للکارا ماریا۔
پر باجوے منڈے بجائے پجن دے اینہاں دواں پراواں تے اینہاں دے کامیاں  دے گل پئے گئے ۔
ڈبے تے ایدھے پراھ کولون ڈانگاں کھو کے ایہناں دواں پراواں نوں انت دی کٹ لائی ۔
کامے  لوک چھیتی ای لمبے پئے گئے ،تے باجوے منڈیاں نے ایہاں نوں تے کجھ نئیں  اکھیا
پر دواں پراوں نوں پھنٹی وہ لائی تے نالے بس دے وچ سٹیا تے بس چلوا کے ٹر پئے  ۔کوئی دو تن پنڈ لنگن تو بعد ایہاں دوواں پراواں دے کپڑے لاھ کے اینہاں نوں ننگیاں ای ویران سڑک تے سٹ کے ٹر گئے ۔
ایس کٹ کھان والے واقعے تو بعد وی سال ہا سال اے دویں پراء   انج ای کردے رہے کہ
اک پراھ کم کراندا سی تے دوجا  مظلوماں دی مدد کر کے اینہاں نوں فرار کرواندا سی  ۔

اتوار، 1 نومبر، 2015

فیس بک اسٹیٹس اکتوبر دوہزار پندرہ


خاوند کے مرنے کے تین سال بعد اس زنانی کو حمل ہو گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کے چیمہ کے انتظار علی چیمہ بتا رہے تھے
کہ
ماچھی کی موت کے کوئی تین سال بعد اس کی بیوی کو حمل ہو گیا ، سارے گاؤں میں اس بات کی بہت چرچا ہونے لگی ۔
گاؤں کے چوہدری ہونے کے ناطے  ابا جی نے اس ماچھن کو بلایا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟
ماچھن نے چوہدری صاحب کو بتایا کہ اصل میں چوہدری صاحب ، اپ کے ماچھی کی موت کے صدمے نے مجھے بے حال کردیا تھا ، جسم میں سے پانی خشک ہو جانے کی وجہ سے حمل خشک ہو گیا تھا اور کھرنڈ سا بن کر اندر ہی پڑا رہا، اب جب کہ  میرے دل کو کچھ تسلی ہوئی ہے اور جسم میں توانائی آئی ہے تو حمل تازہ ہو گیا ہے ۔
چوہدری صاحب نے بھی بہت تحقیق کی ، بندہ تلاش کرنے کی کوشش کی ، لیکن ان کو وہ بندہ نہیں ملا جس نے ماچھن کو پریگنٹ کیا ہو !،۔
اس لئے چوہدری صاحب نے ماچھن کو گاؤں چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دے دیا ۔
ماچھن گاؤں چھوڑ کر چلی گئی ۔
اس کے بعد کیا ہوا ؟
اس پر تاریخ خاموش ہے کہ ایسا معجزے سے پیدا ہونے والا بچہ روحانیت کے کن بلند درجات تک پہنچا ، یا کہ اس بچے نے کیا کارنامے انجام دئیے؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیس بک پر زنانہ آئیڈیز سے میں کترا کر گزر جاتا ہوں !۔
ایک اس لئے کہ زنانہ آئی ڈیز کی اکثریت  جعلی ہوتی ہے
دوسری بات یہ کہ اگر خاتوں رائیٹر نہیں ہے تو؟
اس کو قبول کرنے کی تک ہی نہیں بنتی
کہ مجھ کیا لینا کسی زنانی سے زنانہ طعنے معنے کر کے ، ہاں ایک رائیٹر خاتون کی بات دوسری ہے !۔
میں نے پہلے بھی ایک لطیفہ لکھا تھا
کہ
گاما کسی بہت ہی ہاٹ آئی والی خاتون کو  میسج کرتا ہے ۔
برائے فروخت ہو؟
خاتون غصہ کر جاتی ہے  اور گالیاں دیتی ہوئی پوچھتی ہے  تم نے یہ سوال کرنے کی جرآت کیا سمجھ کر کی ہے ؟؟
گاما کہتا ہے
اپ ، مال کی مشہوری ہی اس طرح کر رہی ہیں کہ جیسے گاہک کی تلاش ہے ۔
تو جی زنانہ آئی سے سے عزت بچائیں
بن ٹھن کر بازار میں گردن گمھا گمھا کر یہ دیکھ رہی عورتیں تو اپ نے دیکھی ہوں گی؟
جو یہ دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ کون کون سا مرد ان کو دیکھ رہا ہے
اور اگر کسی مرد سے انکھ مل جائے تو اس کی بے عزتی کر سکیں
یہ پوچھ کر!۔
کہ کیا دیکھ رہے ہو؟؟
فیس بک پر احتیاط کریں ، کسی دوست کی وال پر کی گئی کومنٹ پر ریپلے پر اگر وہ آئی زنانہ ہوئی تو ؟
کہہ سکتی ہیں ، خبرادا میری کومنٹ پر ریپلے کیا تو ( ٹٹ پینا ، مرنا گونگلو جہیا ناں ہووئے تے )۔
::
فیس بک پر زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے اجتہاد سے نئے اصول وضع کرنے کی کوشش ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیس بک پر فرینڈز کے متعلق میرے اصول
سب سے پہلے کہ میں کون سے لوگوں کو فرینڈز ریکوسٹ بھیجتا ہوں ؟
اردو میں لکھنے والوں کو !۔
اس امید پر کہ عظیم لوگ قبول کرلیں تو مہربانی نہ کریں تو شکوہ نہیں ہے ۔
دوسرے ان لوگوں کو جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔
میں کن لوگوں کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرتا ہوں ؟۔
اردو میں لکھنے والوں کی !!۔
جن لوگوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں
اور وہ لوگ جن کا مجھے علم ہو کہ جاپان میں مقیم ہیں ۔
اگر اپ میری فرینڈ لسٹ میں شامل ہیں تو؟
اپ ایک بہت ہی معتبر اور معزز انسان ہیں ۔
میں اپ کی عزت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اپ بھی میری عزت کرتے ہوں گے ۔
آپ سب کا مخلص
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرانے زمانے میں لوگ سیاست کی “ بات “ سنتے تھے اور
مسخروں پر ہنستے تھے ۔
نئے زمانے میں لوگ مسخروں کی سنتے ہیں اور سیاست پر  ہنستے ہیں ۔

اخر کار میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
فی زمانہ ، لوگ اپنے ٹیلی فون کے قیدی  ہیں ، اس لئے تو یہ اس کو “سیل” فون کہتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گورے نے  طوطا رکھا ہوا تھا
جو اس کو ہر روز صبح  سوتے سے جگانے کے لئے کہتا تھا
گڈ مارننگ سر ، ویک اپ سر، یو ہیو تو گو ورک !!۔
گورے کا تبادلہ پاکستان ہو گیا
چھ ماھ بعد طوطے کی بولی بدل گئی ۔
اب طوطا کہتا ہے ۔
اٹھ  جا کھوتے دیا پترا ، کم تے نکل ، سور وانگوں لمبا پیا ائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مودی کی نقل میں اپنے جرنل صاحب بھی فیس بک کے ہیڈ آفس میں دورے پر گئے ۔
انہوں نے مارک سے سوال کیا کہ
اپ کے یہاں بہت سے انڈین انجنئیر کام کرتے ہیں ! کیا یہاں کوئی پاکستانی بھی کام کرتا ہے ؟
مارک : یس آف کورس ،۔ کہہ کر مارک ہانک لگاتا ہے ۔
اوئے لیاقت  اپنے جرنل صاحب لئی چاء لے کے آ اؤے !!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجابی ماں : لے پتر روٹی کھا لے ،دال پکی آ ۔
بیٹا : ایوری ڈے دال اینڈ ویجیٹیبل ؟ آئی ہیٹ دال ، ماما ، گیو می سم مٹن اینڈ بیف !!۔
پنجابی ماں : چل پتر ،سکول دا سبق بعد وچ سنائیں ، پہلوں روٹی کھا لے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جو کالے شیشوں کا والی عینک ہوتی ہے ناں ؟ جس کو سن گلاسز کہتے ہیں ۔
یہ صرف شو شاء کے لئے نہیں ہوتی ہے ۔
یہ اس لئے ہوتی ہے کہ کیمرے کے فلیش سے  یا کہ پرستاروں کی آوازوں سے  لوگوں کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ  “عظیم چیز” انکی طرف دیکھ رہی ہے ۔
اصلی عوامی نمائیندے  کتنے بھی طاقتور عہدے تک پہنچ جائیں  ، کالی عینک پہن کر عوام میں نہیں آتے ۔
کالی عینک وہ پہنتے ہیں  جن کو یقین ہوتا ہے کہ وہ انسان  نہیں بلکہ کوئی “ نازل “ کی گئی چیز ہیں ۔
یا پھر “بیمار لوگ “ پہنتے ہیں ۔

جماعت کی ایک کوالٹی ضرور دیکھی ہے
کہ
مکہ کے قبلہ ماننے والوں سے  نظریاتی  مسلکی  اور دیگر اختلافات  بہت سخت  بلکہ خون خرابہ کرنے تک سخت ہیں ۔
لیکن جی ایچ کیو کو قبلہ ماننے والے  نئے یا پرانے ، کسی کی بھی  کسی بھی طرح کی مخالفت نہیں کرتے ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نوکرانی دوڑتی ہوئی آ کر اچھو کو بتاتی ہے ۔
صاحب جی صاحب جی 
وہ ناں بی بی جی سوئی ہوئی ہیں اور ان پر سانپ چڑھ گیا ہے 
بی بی جی کو بچاؤ سانپ ڈنگ نہ مار دے ۔
اچھو بڑے اطمینان سے نوکرانی کو تسلی دیتا ہے 
کجھ نئیں ہوندا جھلئے ۔
سانپ کا زہر ختم ہو گیا ہو گا ، بی بی کو ڈنگ مار کر زہر چارج کرنے آیا ہو گا ۔

کہیں کسی سڑک پر جو کہ ابادی سے دور تھی اس پر ایک مولوی اور اس کا شاگرد بچہ بورڈ لئے کھڑے تھے ،۔
جس پر لکھا ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بہت  کم ہے !!۔
رک جائیں
ہم اپ کی زندگی بچا سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک  گاڑی والا وہاں سے گزرا ، اس نے بورڈ دیکھا  اور نظر چرا کر گزر رہا تھا لیکن شاگرد بچے نے اشارہ کر کر کے اس  کو بورڈ دکھایا لیکن گاڑی والا منہ میں بڑبڑاتا ہوا گزر گیا
یہان اس ویرانے میں بھی چندہ مانگ رہے ہیں ۔
 شاگرد نے مولوی کی طرف دیکھا
مولوی نے کہا
جیسے اللہ کی مرضی!!۔
کچھ دیر بعد ایک ٹرک گزرا  شاگرد نے ٹرک والے کی بھی توجہ بورڈ کی طرف کی لیکن ٹرک والا بھی نہیں رٗکا ۔
 مولوی صاحب نے پھر فرمایا
جیسی اللہ کی مرضی ۔
ٹرک کے گرنے کی آواز آتی ہے ، جس میں ڈرائیور کی چیخ بھی شامل ہوتی ہے ۔
مولوی صاحب پھر فرماتے ہیں ۔
جیسے اللہ کی مرضی ۔
تو
شاگرد تپا ہوا بولتا ہے
مولوی جی !!۔
 اللہ کی مرضی اپنی جگہ
ہم لوگ ہی بورڈ کی  تحریر تبدیل کر کے یہ کیوں نہ لکھ دیں
کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے پل ٹوٹا ہوا ہے ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولوی صاحب در گزر  پر درس دے رہے تھے
اور کہہ رہے تھے کہ اپنے دشمنوں کو معاف کر دینا ہی عظمت کی نشانی ہے ۔
لمبے درس کے بعد مولوی صاحب سب کو کہتے ہیں ، اج میرے سامنے اپ لوگ اپنے سب دشمنوں کو معاف کر دیں ۔
اور صاف دل سے  جس جس نے اپنے دشمنوں کو معاف کر دیا ہے وہ ہاتھ کھڑا کرئے ۔
 سب لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر دئے ، سوائے مودے لومبڑ کے !۔
 مولوی صاحب نے مودے لومبڑ سے پوچھا
مودے ، کیا تم اپنے دشمنوں کو معاف نہیں کرو گے ؟
 مودا لومبڑ: مولوی جی میرا کوئی دشمن ہی نہیں ہے ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
تم زرا یہاں ممبر کے قریب آ کر بتاؤ۔
مودا لومبڑ  ممبر کے قریب آ کر  سپیکر کا مائیک پکڑتا ہے
اور بتاتا ہے ۔
یقین کرو جی میرا کوئی وی دشمن نئیں ہے
میں اونج ای  پین چود لوکاں کولوں دور رہنا واں ۔
بمع مولی سارے مجمعے کو چپ ہی لگ گئی ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کا اسلام   ، انگلی اٹھانے والے پر بندوق اٹھا لیتا ہے ۔
اور  اسلام پر بندوق سے چڑھ دوڑنے والے امریکہ سے بھیک کی امید کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیونکہ ؟ وہ ایک "متروس " قوم ہیں ۔ وہ سب ترس کی تلاش میں ۔
بلکہ وہ انتہا کی متروس قوم ہیں
ترس کھانے والے قومیں بڑی قومیں ہوتی ہیں اور متروس قومیں بس ایک ہجوم ہوتا ہے ، ْ
جو تلاش میں ہوتی ہیں ایک خصم کی جو ترس کھائے  ان کی ہر ہر ادا پر
امریکہ نہ سہی چین ہی سہی ،برطانیہ نہ سہی روس ہی سہی ،بس ایک ترس کھانے والا چاہئے ہوتا ہے متروس قوم کو  ۔ْ

یہاں ایسے ایسے  متروس پائے جاتے ہیں
کہ پھوپھی کی نند کی بیماری ، چاچے کے سانڈھو کی بھینس مرنے پر بھی فیس بک پر اسٹیٹس بنا  کر ترس  کے طالب ہیں ۔
ابّے کے پھپڑ  کی موت  ، دادے کے سسرال میں بے بے کی موچ پر بھی  متروس لوگوں کو   ترس کی طلب ہوتی ہے  ۔
مجھے متروس لوگوں کی ترس کی طلب پر ترس آتا ہے  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجدوں میں آنے والے نمازی ! مسجد کے متولیوں کی نظر میں “انڈہ دینے والی مرغی” ہوتے ہیں ۔
جن کی تعداد بڑھانے میں  “منافع” ہے ۔
اسی لئے تو عبادات کی تبلیغ کی جاتی ہے ، تعمیر معاشرت کی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھو ڈنگر ، گامے کے پاس بندھے جانور کو دیکھ کر حیران ہو کر  پوچھتا ہے ۔
اوئے گامیا ؟ یہ تمہارا کتا تو بلکل شیر لگتا ہے شیر ، اس کیا کھلاتے ہو ؟
گاما: اوئے ڈنگرا ، یہ کتا نہیں شیر ہی ہے  ، بس فیس بک پر  “کتیّ کتّی “ باتیں اور ایمج شئیر کر کر کے  اس کی شکل کتے جیسی ہو گئی ہے  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دوسرے سے : جو بندہ اپنی بات کسی کو سمجھا نہ سکے ! وہ بھی بیوقوف ہوتا ہے ۔
دوسرا : مجھے اپ کی بات کی سمجھ نہیں لگی !!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک پرانا لطیفہ ہے
کہ
کہیں کسی پاغل خانے کے قریب ایک بندے کی گاڑی پکنچر ہو گئی ،۔
بندے نے گاڑی کا ٹائیر بدلنے کے لئے  نٹ اتار کر نزدیک رکھے اور ڈگی سے شپئیر ٹائیر نکالنے گیا
کہ
نٹ ڈھلک کر ڈھلان سے  پھسل گئے اور کھائی میں جا گرئے ۔
بندہ پریشان کھڑا ہے کہ پاغل خانے کی کھڑکی سے جھانکتے ایک پاغل نے اس کو کہا ۔
بھائی صاحب  ! باقی کے تینوں ٹائروں کے ایک ایک نٹ کھول کر اس ٹائر کو لگا لو ، نزدیکی آبادی میں پہنچ کر  نٹ پورے کر لینا۔
بندہ بڑ خوش ہوا اور خوشی سے کہنے لگا
یار تم ہو تو پاغل  لیکن تم نے آئیڈیا بڑا کمال کا دیا ہے ۔
پاغل نے فرمایا! ہاں جی ، میں پاغل ضرور ہوں  ، لیکن بیوقوف نہیں ہوں ۔
جرمن زبان کا ایک محاورہ ہے
دنیا کو نقصان  نہ تو پاغل دیتے ہیں اور ناں ہی عقلمند  ، نقصان دہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو  نیم عقلمند ہوتے ہیں ۔
فارسی کا بھی تو ایک محاورہ ہے ناں جی
نیم حکیم  خطرہ جان ، نیم ملاّ خطرہ ایمان  ۔

میں بھی ایک نیم عقل مند ہوں ، اور اس فکر میں رہتا ہوں کہ لوگوں کو پتہ نہ چل جائے
اس لئے میں عقلمند لوگوں سے بات چیت کر کے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ۔
ایک سوال: تسّی کس پوزیشن وچ او ؟ تے تسّی کی کردے او ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج  ایک بڑی دلچسپ شخصیت سے ملاقات ہوئی ہے ۔

موصوف (چوھدری صاحب) سائیتاما کین کے شہر “کاس کابے “ میں رہائیش رکھتے ہیں ،۔
ان کا کائی تائی یارڈ  کازو میں ہے ، بقول چوہدری صاحب کے چوہدری صاحب بڑے مضبوط کاروباری ہیں ،۔
عرصہ تیس سال سے “ کاس کابے” میں رہائیش کا بتا رہے تھے ،۔
میں نے  کہا جی کس کابے میں میں دو تین چیزیں ہی جانت اہوں ،۔
ایک اپنے  جاپان کی پاکستان کیونٹی کے ایڈمن  “ غازی عالم “ کو ۔۔۔۔!ْ
میں ابھی یہیں تک پہچا تھا کہ بات کاٹ کر  غازی عالم سے اپنی شناسائی کا باتانے لگے ، ہاں ہاں ابھی نیا آیا ہوا لڑکا ہے ۔ کاس کابے میں ہم تو پرانے ہیں ناں۔
میں  نے پھر بات شروع کی ، وہ راشد صمد  فیس بک فوٹو لگاتا ہے ایک ریسٹورینٹ  نواب رہسٹونٹ کاس کابے ۔۔۔۔۔!۔
چوہدری صاحب بات کاٹ کر بتانے لگے کہ  راشد صمد پوچھ لینا جی میرا وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے  ۔
میں نے پھر بات شروع کی اور ایک  میں جانتا ہوں کاس کابے کے “کریو شین چان “ کو ۔۔۔۔!،۔
چوہدری صاحب نے بات کات کر پھر پوچھا  وہ کون ہے ؟؟
میں ے بتایا کہ ایک اینمیشن کریکٹر ہے  ، ٹی وی سیریز کا ۔۔۔َ
ہاں ہاں اچھا اچھا !! میں جانتا ہون اس کے باپ کا “ایزاکا” ریسٹورینٹ ہے ۔
میرے قریب ہی ہے ۔
بلکہ میری کریو شین چان سے کئی دفعہ ملاقات بھی ہو چکی ہے ، وہ لڑکا  ہمارے رہسٹورینٹ میں آتا رہتا ہے  ۔۔
میں کراھ کر بس اتنا ہی کہہ سکا
چوہدری صاحب اپ نے تو مجھے لاجواب ہی کردیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے پیدل چلنا پسند ہے ،۔
کیونکہ پیدل چلنے میں  “انسان “ کا ایک قدم  “ ہمیشہ “ زمین پر  رہتا ہے  ۔
زمین جو کہ دھرتی  ماتا ہے ، ۔
 نودولتیوں سے معذرت کہ جو دھرتی سے پاؤں اپنی کوشش سے اٹھا لیتے ہیں، اور زمانے کے جغادری ان کی ٹانگیں اٹھوا لیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپان سے تخلیقی ادب کے واحد رائیٹر ، اردو بلاگر ، انسائکلوپیڈیا منتظم ، روزنامہ جاپان کے بانی ۔ خاور کھوکھر کا کہنا ہے کہ یہ تحریر مبالغے پر مبنی ہے ۔
....................................
کوئی نوہزار پاکستانی لوگ ہیں یہان ، جن میں سے کوئی دو ہزار کے قریب گاڑیوں کے کاروبار میں ہوں گے ، جو کہ جاپان کے گاڑیوں کے کاروبار کا زیرو اعشاریہ  صفر صفر نو فی صد ہو گا ۔

بغیر زر ضمانت کے بولی میں حصہ لینے والے بات کہ حقیقت یہ ہے کہ  یو ایس ایس نامی اوکشن کی ممبر شپ  لینے کے لئے کئی لوگ ذلیل ہوتے دیکھے ہیں ، اور کئی کی ممبر شپ کینسل ہوتی دیکھی ہے ۔
تین ملین ین سے زیادہ کی خریداری پر  ، منڈی سے بغیر ادائیگی کئے مال نہیں نکال سکتے  ۔
توچیگی کے آرائی اوکشن میں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی جا سکتی ہے  ۔
جو کہ اوکشن کے کل ممبران کا کوئی  دس فیصد ہو سکتا ہے  ۔
نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی گاڑیوں کے کاروبار میں اتنا ہی ہے کہ وہ جاپان  کی وہ گاڑیاں جو جاپانیوں کے معیار کہ نہیں رہیں ہیں وہ خرید کر یا تو پارٹس کر رہا ہے ( خاور کی طرح ) یا کسی دوسرے ملک میں کھپت کے قابل ہے ،۔

باقی پاکستانیوں کے تابکاری کے خوف سے جاپان نہ چھوڑے کی بابت یہ بیس مارچ دوہزار گیارہ کی روز نامہ اخبار کا ایک جاپانی کا پیغام دیکھ لیں ۔
http://gmkhawar.net/?p=4862
تیسری بات کہ  سلمان رشدی کی کتاب کے ترجمعے پر پاکستانی اثر انداز ہوئے تھے ،
بلکل غلط ہے ۔
اس کتاب کا ترجمعہ کرنے والا پروفیسر  اباراکی کی تسکوبا  یونیورسٹی میں چھریون کے وار سے قتل پایا گیا تھا  ۔
جس کا قتل اج تک نہیں مل سکا ، جس کے متعلق  پوس کا اندازہ ہے کہ اٹالین پاسپورٹ پر سفر کرنے والے بندہ تھا ، جس کی  قومیت کا پتہ نہیں ۔
خاور  کھوکھر
http://khawarking.blogspot.jp/

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب نے سانوں پیار دتہ تے ایس پیار نوں دوگنا کر کے دین لئی سانوں ماں دے دتّی۔
تے ماں نے اپنی محبت سانوں بھائی دے کے ایس  محبت نوں “ جاگ “ لاء دتّی ۔
 لسی دی طرح ہور ودھا کے پیار دا آنت کر دتّہ!!۔
اللہ میراے بھائیاں  نوں سدا سلامت رکھے ، تے اینہاں نوں آنت کا عروج دے ۔
آمین!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے ہفتے مجھے  اپنے جاپانی سسرال  ناگانو  جانے کا اتفاق ہوا ۔
وہاں پہنچتے ہیں ،ٹیبل پر سلاد میں خنزیر کے گوشت کے قتلے دیکھ کر  طبیعت بہت خراب ہوئی ۔
تین دن میرا کچھ بھی کھانے کو جی نہں چاہا ۔
تین دن میں ساکے ( چاولوں کی شراب ) اور مونگ پھلیوں سے گزارا کرتا رہا  ۔

ایک دوست کی فیسبک وال سے ماخوذ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکی چاند سے آگے کسی اور دنیا  کو تلاش کرنے کی فکر میں ہیں ۔
چینی زمین کی نوے فیصد مارکیٹ  ہر چھا جانے کی فکر میں ہیں ،۔
جاپانی  دنیا کی ایک نمبر اقتصادی طاقت بننے کی فکر میں ہیں ۔
اور ایک میری قوم ہے
کہ
صرف اس فکر  سے ہی نہیں نکل سکی
کہ بجلی آنی ہے اور موٹر چلا کر  پانی کی ٹنکی بھرنی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری دنیا ، پٹرول کو لیٹروں اور کلو میٹروں میں  ماپتی ہے ۔
میرے خیال میں  میری قوم دنیا کی واحد قوم ہو گی جو پٹرول کو دنوں میں ماپتی ہے ۔
کسی کی کار کی ٹنکی کا پٹرول  چھ دن نکالتا ہے
اور
میری کار کی پٹرول کی ٹنکی  چار دن چلتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہین یا باز بھی ایک عجیب پرندہ ہے
بلکل نوکری پیشہ  بندے جیسے
اس کا مالک اس کو فضا میں چھوڑ بھی دے تو ، تھوڑے سے گوشت کے لئے پھر پلٹ آتا ہے ۔
اس  سے تو چڑیا ، کوا یا  طوطا  آزاد طبیعت کے پرندے ہیں ،۔ سالہاسال قید کر کے رکھو جب بھی چھوڑو کے  ،اپنی دنیا میں پلٹ کر ہی دم لیں گے
اگر چہ کہ قید کی نقاحت سے بقا کی جنگ کرنے کے قابل نہ رہے ہوں ۔
بقا کی جن میں ہار کر مر جائیں گے ، “ ماسٹر “ کے غلام نہیں بنیں  گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے مشہور بلاگر، ہمارے محترم دوست جناب شعیب صفدر گھمن صاحب کی پوسٹنگ  یو کے (UK ) میں ہو گئی ہے ۔
گھمن صاحب ٰ یو کے ( ) میں سرکاری وکیل کے طور پر اپنا عہدہ سنبھال کر  کام شروع کر چکے ہیں ۔
یہ دوہزار پندہ ہے  ، کوئی برٹش گورمنٹ نہیں ہے کہ کسی دیسی وکیل کو براطیہ میں تعین کر دیا گیا ہو گا ۔
کراچی والے   عمر کوٹ ( UmerKot) کو   یو کے ( UK) کہتے ہیں  ۔
Shoiab Safdar Ghumman

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان میں اگر اپکی طرف کسی کی رقم نکلتی ہے تو ؟
پندرہ ین کی رقم کے تقاضے کے لئے ،اسّی ین کی ٹکٹ لگا خط بھی اپ کو مل سکتا ہے ۔
دس ین کی فون کال ،اور ایک ہزار ین گھنٹے پر کام کرنے والے  دو افراد چار ہزار ین کا پٹرول خرچ کر کے اپ سے وصولی کے لئے بھی آ سکتے ہیں ۔
جب تک وصولی مکمل نہیں ہو گی فائل بند نہیں ہو گی ۔
اسی طرح اگر اپ کو کسی نے سو ین ادا کرنا ہے تو ؟
دو سو دس ین  بنک کی فیس دے کر اپ کو اپ کی رقم اپ کے آکاؤنٹ میں پہنچا دی جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں ، نو من سوّر کا گوشت پکڑا گیا !!۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سوّر کی فارمنگ کہاں ہوئی ؟
سور کے گوشت کو پہچنانا کس نے ؟
اس پہچاننے والے کی گوشت کو پہچاننے کی تعلیم کیا ہے ؟
سب سے بڑی بات کہ” سور آئے کتھوں ؟؟؟”۔
،۔
لاہور کے ہوٹلوں میں “ گندگی “ ایک افسر نے دیکھائی ،اس افسر کا نام آیا گندگی کی موجودگی ایک حقیقت تھی ۔
کھانے کی چیزوں کی ایک بے ترتیبی کی حقیقت کو دیکھا کر  لوگوں کے ذہن بن گئے ۔
تو
میڈیا نے گدھے ، گھوڑے کے گوشت کے بعد سوّر (خنزیر) کے گوشت کا واویلا مچا کر  لوگوں کو گوشت سے ہی بد ظن کرنا شروع  کر دیا ۔
اب لوگ کھائیں گے کیا ؟
مچھلی  مہنگی ہے۔ اور چکن دستیاب!!!۔
چکن فارمنگ انڈسٹری  کی جے ہو !!!!۔
پاکستان میں چکن فارمنگ اصغر خان کے بیٹے نے انیس سو اکیاسی میں متعارف کروائی تھی
آج کل کس کا بیٹا اس چکن کی انڈسٹری کو چلا رہا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے برٹش میوزیم میں فرعونون کی بنائی ہوئی ململ کے تھان دیکھے ہیں ۔
جو بلکل ہمارے جولاہوں کے بنے ہوئے ململ جیسے باریک تھے ۔
میں اس تصویر کو " حضور" سے منسوب کرنے کی کستاخی نہیں کر سکتا
لیکن
ایسا باریک کپڑا بننا مصر اور ہند میں تو ممکن تھا اور ہے
لیکن ہمیشہ سے اخلاقی ، تکنیکی اور تاریخی طور پر پسمنادہ عرب کے لوگ شائد اج بھی اس قابل نہ ہوں !!۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پاپی پیٹ سے زیادہ عزت نفس اور مستقبل کے غیر محفوظ ہونے کے اندیشے ہیں ، جو ہجرتوں کا باعث بن رہے ہیں ۔
اسلامی ممالک میں جو دین ( سسٹم ) رایج ہیں ، وہ منافقت جھوٹ اور چھینا جھپٹی والے ہیں ۔ ان میں کمزور لوگوں کو اپنے بچوں کا مستقبل غیر محفوظ نظر آ رہا ہے ۔
اگر کوئی بندہ جاپان میں بیٹھ کر مجھے اسلام کی حقانیت کا درس دے گا تو ؟
اس کی ہجرت کے پیچھے بھی یہی عوامل تھے ۔

جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

فیس بک اسٹیٹس ستمبر اکتوبر ۲۰۱۵ء


اس کائینات میں عزازئل  سے بڑا عبادت گزار نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
اللہ کی وحدت کا گواہ ، فرشتوں کا استاد  عظیم ترین عبادت گزار ،عزازئیل صرف اور صرف اس لے شیطان ابلیس ٹھیرا
کہ
اس نے آدم کو حقیر جانا تھا
اج ! ہمارے اردگرد بہت سے عبادت گزار  اور عبادتوں کی تبلیغ کرنے والے ، سنت عزازئیل کے چلتے پھرتے نمونے  بھی “ ابن آدم “ کو حقیر جانتے ہیں ۔
تو ؟
اہل علم ایسے لوگوں کو نفرت  اور طعن کے کنکر مار کر سنت ابراہیم کو زندہ رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میرا قبیلہ مسلمان تھا تو ہر معرکہ ہم ہی جیتا کرتے تھے ۔ وہ کارزار حیات ہوتا تھا کہ کارزار علم عمل۔
پھر کیا ہوا کہ  “وہ “ مسلمان ہو گئے ،اور میرا قبیلہ گم راھ !!!،۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جاپان میں سیاست کرنے والے اور سیاسی لوگوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے ، جو خود کو کسی بھی طریقے سے عوام دوست بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
ان کے لئے ایک پیغام
کہ میڈیا ، یا کہ رائیٹر لوگوں  کا آپ لوگوں کے ساتھ  رویہ کیسا ہونا چاہئے اور کیوں ہونا چاہئے ؟
سب سے پہلے  سیاستدان کی ڈیفینشز
کہ سیاستدان ،سوشل ورکر کی اعلی ترین قسم کے ورکر کو کہتے ہیں ۔
جس کو عوام اگر چن کر اگے لاتی ہے تو اس لئے کہ  حکومتی اہلکار لوگوں کے علم اور ہنر سے عوام کا پیسہ خرچ کر کے اپنی سوشل ورکنگ کی “ جبلت” کا انت کر لو !!۔
سڑکیں بناؤ ، ڈیم بناؤ ، یا کہ لوگوں کی اسانی کے لئے اصول اور قانون بناؤ ۔
سوشل ورکنگ کے کام کرنا اپ کی کوالٹی ہونی چاہئے ۔
جس طرح جاپان میں اگر اپ کے پاس گاڑی چلانے کا ڈرائیونگ لائیسنس ہے تو اپ سڑک پر گاڑی چلا سکتے ہیں ۔
آپ ساری زندگی بھی گاڑی کو محفوظ اور بااصول ڈارئیونگ سے چلاتے رہیں ۔
آپ کو کسی بھی سڑک پر یا چوک میں کھڑا کر کے  پولیس والا کبھی بھی کوئی ایوارڈ نہیں دے گا۔
اپ کبھی بھی اپ کی اچھی ڈرائیونگ پر اپ کو  کوئی ٹریفک کانسٹیبل  کوئی انعام نہیں دے گا ۔
کیونکہ یہ اپ کی ذمہ داری ہے کہ اپ اصول و ضوابط کے ساتھ گاڑی چلائیں ۔
لیکن
اگر
کہیں کبھی  کسی موڑ پر اپ سے غلطی ہو جاتی ہے ، تیز رفتاری ، سیٹ بیلٹ نہ باندھنا  وغیرہ
تو؟
اگر کوئی پولیس والا اپ کو دیکھ لے گا تو اپ کو جرمانہ ضرور برضرور کرئے گا ۔
اسی طرح اگر اپ سوشل ورکر ہیں تو
اپ اپنا کام کرتے رہیں ، معاشرے میں سدھار کے کام ، لوگوں کے مسائل کے حل ، لوگوں کے مصائب  میں کمی کی کوشش کرتے رہیں
یہ اپ کی ذمہ داری ہے کوئی باصول رائیٹر اس بات پر اپ تعریف میں اگر کالم لکھتا ہے تو  وہ بے اصولی کرتا ہے ، جس پر ہو سکتا ہے کہ اپ نے پیسے دے کر مجبور کیا ہو  ،اور یہ اپ کی بھی بے اصولی ہے ۔
خاور جیسا  خودار اور خود انحصار رائیٹر اپ کی حاشیہ برداری نہیں کرئے گا۔
اپ کی بے جا تعریف نہیں کرئے گا ۔
ہاں
اگر اپ نے کوئی غلطی کی تو
اس کی نشاندہی ضرور کرئے گا
اگر اپ کو یہ ناگوار گزرتا ہے تو؟
اپ سیاستدان نہیں ہیں ، اپ سوشل ورکر نہیں ہیں
اپ صرف اور صرف شہرت کے بھوکے ہیں ۔
اس لئے بات کو سمجھنے کی کوشش کریں
اور اپنی معاشرتی حثیت کو پہچانیں
اور رائیٹر لوگوں کی معاشرتی پوزیشن کو ذہن میں رکھیں ،۔
رائیٹر لوگ  معاشرے کی انکھ ہیں ، کان ہیں اور زبان ہیں ۔
یہ لوگ جو سنیں گے ، جو دیکھیں گے وہ لکھ کر چھوڑ دیں گے  ۔
انے والے زمانوں کا تاریخ دان ان رائیٹروں کے لکھے کو پڑھ کر تاریخ مرتب کرئے گا
یار رکھیں کیکر بو کر اپ آم نہیں اتار سکتے ۔
اگر اپ اچھے ہیں تو اپ کو اچھا لکھا جائے گا
اور اگر اپ منافق ہیں تو اپ کو منافق ہی لکھا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان نے تقریباً ہر بڑے شہر  میں  جہاں گومی (کچرا) جلانے کا پلانٹ ہوتا ہے اس کے ساتھ گرم پانی کا سوئنمگ پول اور “سینتو” بھی ہوتا ہے ۔
ببل باتھ ، گرم پانی کی ٹکور ، اور ابشار بنے ہوتے ہیں ۔
ان غسل خانوں میں بنے ہوئے ابشار اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کے نیچے کاندھے کر کے اس پر مکے مار مساج کیا جاسکے ۔
جن لوگوں کو “کاتاکوری” ( گردن اور کاندھوں کے مسل کی تھکاوٹ ) ہوتی ہے ان کے لئے یہ آبشار بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔
ان غسل گھروں میں نیم گرم پانی ،کچھ گرم پانی اور بہت گرم پانی کے تالاب بنے ہوتے ہیں ۔ پر تلاب کی ساخت پڑی خوبصورت اور علیحدہ طرز کی ہوتی ہے ۔
لیٹنے والے ٹب ، اکھڑوں بیٹھنے والے ٹب  یا ہلکی سی تیراکی کرنے کے قابل وسیح ٹب موجود ہوتے ہیں ۔
عام طور پر یہ غسل گھر ، صبح نو بجے سے رات نو یا دس بجے تک کھلے ہوتے ہیں ۔
میں اپنے شہر کے گسل گھر میں اتوار کے روز صبح نو بجے پہنچ جاتا ہوں ۔
اس وقت بہت کم لوگ ہوتے ہیں ۔
بلکہ دس بجے تک عموماً یہ ہوتا ہے کہ میں اکیلا ہی ہوتا ہوں ۔
گرم پانی ، صاف ستھرا ماحول ، شیشے کی دیواروں کے پار ہریالی ، اور آبشاروں کے گرتے پانی کے ترنم میں  مود خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین بندہ محسوس کرتا ہوں
کہ یہ ماحول میں اکیلا بندہ کتنی بھی کمائی کر لیتا  ، کبھی بھی نہیں بنا سکتا تھا ۔
اگر اپ کو یہ الفاظ برے نہ لگیں تو
یقین کریں کہ میں سوچ رہا ہوتا ہوں کہ یہ عیاشی کی انتہا ہے ۔
پریشر سے نکلنے ہوئے گرم پانی کے اوپر کر کے پیروں کو مساج کرنے کا اپنا ہی لطف ہے ، ایک گدگدی کا احساس ، راحت سے نیند سی انے لگتی ہے ،۔
ساتھ میں ساؤنا ہے جس میں بیٹھ کر پسینہ لیا جاسکتا ہے
لیکن مجھے ساؤنا پسند نہیں ہے ،۔ میں گرم پانیوں سے لطف لیتا ہوں ۔
یاد رہے کہ اس غسل گھر میں اپ نہانے کے مخصوص لباس کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے۔

 اس سوئمنگ پول کے ساتھ ہی سینتو ہے ۔ یہاں سارے کپڑے اتار کر
مختلف سائز اور مختلف حرارت کے ان غسل خانوں کا اپنا ہی لطف ہے ۔
ایک تالاب باہر کھلی فضا میں بنا ہوا ہے ۔
جس  کے اوپر لکڑی کی چھت ہے ۔
سخت سردی یا برف باری میں چالیس درجے کے گرم پانی کے اس ٹب کا اپنا ہی مزہ ہے  ۔
کیا اپ کبھی اپنے شہر کے پول میں گئے ہیں ؟
اگر نہیں تو
ایک دفعہ جا کر دیکھیں ، مجھے یقین کی حد تک امید ہے کہ اپ لطف اندوز ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ضیاع صاحب کے اسلام کو کچھ دن اور مل جاتے تو  عربوں سے عشق اور دیسی پن سے حقارت اس نہج تک پہنچنے والی تھی کہ
کسی کو بھی ہند کی زمین سے تعلق بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہونی تھی ۔
سارے آرائیں ، فلسطین کے علاقے اریحا  سے تعلق والے بتائے جانے تھے
اور سارے جٹ جدہ سے ، سارے ملک مکّہ سے
اور باقی سب ہاشمی ، قریشی ، عباسی ،اُموی ، بخاری ، سمرقندی ، گردیزی ، سبزواری، جیلانی، گیلانی ، مشہدی ، تبریزی ، فلسطینی ، عراقی ، ایرانی ، دُرانی وغیرہ وغیرہ بن کر ایران ، شام لبنان افغانستان سے تعلق جوڑ  کر اپنے شرمندہ ماضی سے جان چھڑاتے نظر آتے ۔
 لیکن خاور کو اپنے اباء پر اور اپنے خمیر کے پنجاب کی زمین سے اٹھنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ ہر دیسی کو اس کے اپنے دیس میں دیسی پولیس اور سرکاری اداروں کے شر سے محفوظ رکھنا ۔
اور پردسیووں کو ان کے  پردیس کے “پکے “ ویزے دلاتے رہنا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ترا نشمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

 اس شعر میں شاعر  مرد گوہستانی لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے
کہ
اسلام آباد کی طرف منہ نہیں کرنا
اسلام آباد کے قصر سلطانی  پاک فوج اور  ان کے بنائے ہوئے سیاستدانوں کی حکمرانی کے لئے ہیں
اپ لوگ وہیں رہو جہاں رہ رہے ہو ۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
گر سو برس بھی جیتے تو یہی انتظار ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اپ کی کسی رائیٹرکی تحریر پر کوئی بندہ یہ تبصرہ کرئے کہ
پتہ نہیں کیا الٹا سیدھا لکھتے رہتے ہو ۔
تو ؟
ننانوے فیصد وہ بندہ “مذہبی “ ہو گا ۔
اس بندے نے فقرے میں  الٹے کے بعد سیدھا ، صرف رسماً لکھ دیا ہے ورنہ اس کو رائیٹر کا لکھا ہوا الٹا ہی نظر آ رہا ہوتا ہے  ۔
پتہ کیوں ؟
کیونکہ اس کو تعلیم ہی الٹی دی گئی ہے ، جبتک اس کو سر کے بل الٹا کر کے نہیں پڑہائیں گے اس کو سیدھا نظر ہی نہیں آ سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورین اور چینی لوگ جو کہ حرام حلال سے قطع نظر ہر گوشت کھا جاتے ہیں ۔
لیکن پاکستان میں وہ لوگ بھی احتیاط کرتے ہیں ۔
یہاں مردار بھی کھلا دیا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی ذوق اور مذہبی رویہ !۔
دو مختلف چیزیں ہیں ۔
ادبی ذوق نہ رکھنے والے بچے عموماً مذہبہ لوگوں ہے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ، اور معاشرتی کجیون کا باعث بنتے ہیں ۔
ایک ادبی ذوق ولا بچہ ، مذہبی بچے کو ساتھ لے کر چل سکتا ہے
لیکن مذہبی ذہن کا بچہ ادبی ذوق والے کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتا ۔
ادبی ذوق والا  مذہبی بچے کی سوچ اور روئے کو سمجھ سکتا ہے
لیکن مذہبی سوچ والے بچے کو ادبی ذوق والے کی سمجھ نہیں لگے گی ۔
ادبی ذوق والا بچہ کسی بھی معاشرت کی اچھی بری چیزوں کا تجزئی کر سکتا ہے
لیکن مذہبی ایسا نہیں کر سکتا۔
مذہبی بچہ ،ادبی ذوق والے کو کمراھ ، بے عقل ، بھٹکا ہوا ۔ بلکہ کافر تک کہہ سکتا ہے
لیکن ادبی ذوق والا ، مذہبی کو ایسا نہیں سمجھے گا ۔
ایک ادبی ذوق والا بندہ کسی بھی مذہبی سوچ کے بندے سے بہتر مسلمان ہو سکتا ہے ۔
یقین کریں کہ ادبی ذوق والے ہی بہتر معاشرت کی تعمیر کر سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پنجابی مکالمہ
گاما: اچھو ڈنگر سے ، اوئے اے انڈا حلال ای ؟
اچھو : کیوں ؟ تیوں انڈا کھوان تو پہلوں ! ککڑی تے ککڑ دا نکاح نامہ وکھاواں ؟؟
گاما: اوئے بد بختا ، انڈا کچھو کومے دا تے نئیں سی ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڈے بزرگاں نے انگریزاں کولوں  زمیناں لئیاں ، اعزاز لئے ۔
اج  سارے لوکاں نو نظر آؤندا پیا اے کہ  علاقے وچ ساڈے توں طاقتور کوئی  وہ نئیں ۔
ساڈی اولاد وی سوہنی اے ، اج وی  سرکار دے کماں وچ سانوں پوچھیا جاندا اے  ۔ْ
اوئے اے  علاقے دی کمی لوگ ! اپنیاں کمینی عادتاں تو پچھے رہ گئے نے ۔
ذیلداد صاحب دا پوترا ، بابے سیٹھ نوں گلاں کردیا پیا سی  ۔
تہاڈے کمیاراں دیا گلاں ای نئیں مکدیاں ، جی ساڈے وڈے بڑئےسیانے سن ، بڑا کاروبار سی  ، سو سو کھوٹے تے خچر رکھے ہوئے سن ۔
گل سن بابا سیٹھا !! جے او سیانے ہوندے تے اج وہ تسی لوک کھوتے ہی نہ چلا رہے ہوندے ۔
بیوقوف سن اور تہاڈے وڈکے !!۔
وڈے وڈے گھر بنا کے  ویہڑے وچ سو سو کھوتا بن کے ، سار گھر لید نال بھریا ہوندا سی ۔ تہاڈیاں زنانیاں  لید نال بھریاں ہوندیاں سن ۔
کھوتے نوں “ نسریا” ویکھ ویکھ کے  ترسیاں ہوندیاں سن ۔
ساڈے ول ویکھ ، ساڈی بیبیاں دیاں سو  سو سال پرانیاں فوٹوان ویکھ ، شہزادیاں لگدیاں نیں ۔
میرا دادا اللہ بخشے ذیلداد صاحب ! دسدے ہوندے سن ، جدوں وہ انگریز لوکی ساڈے گھراں وچ پروہنے بن کے آؤندے سن ، ساڈی کوٹھی سے کول بنے کمہیاراں دے گھر ویکھ کے نک دے رومال رکھ لیندے ہوندے سن ۔
کھوتے دے ہینکن دی آواز دے کناں وچ انگلیان دے لیندے سن ۔
تہاڈے گھراں دے کولوں لنگدیاں ہویاں ، انگریزاں  دا دل نئیں سی کردا کہ تہانون کمیاراں نوں منہ وہ لان ۔
کمشنر صاحب جدوں وہ اؤندے سن ، کنے کنے دن ساڈے گھر رہندے سن ۔
ساڈے گھراں نال کنداں جڑیاں ہویا نے کمہاراں دیاں  ، تساں نہ انگریزی سکھی تے ناں ای انگریزاں نے تہانوں منہ لگایا ،۔
میرے سامنے نہ کریا کر گلاں کہ
ساڈے کمیاراں دے وڈکے بڑے سیانے سن ۔۔
بس جی چوہدری صاحب ، کی دساں   ، کھورئ ساڈے وڈکے سیانے سن کے بے عقل ،۔پر اک کم ایہناں دا مینوں بڑا  چنگا لگیا اے ۔
او کیڑا ؟ اوئے سیٹھا ؟
اپنیاں زنانیان نوں لید دے کم تے لائی رکھ کے انگریاں کولوں بچا لئیاں نے ، نئیں تے ساڈے منڈے وی نیلی اکھیان والے ہو جانے سن  ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں  رشتے خون کے بھی ہوتے ہیں اور خون چوسنے کے بھی، ۔
اور
خون جلانے کا خونخوار رشتہ ؟
میاں بیوی کا رشتہ ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں اگر جوان لڑکا گھر سے باہر رہے تو ؟
آوارہ !۔
اور اگر گھر پر ہی رہے تو ؟
نکما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ایک بڑے سیاسی لیڈر کا دھانسو بیان ۔ ہماری پارٹی میں کرپٹ لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
اندر کی بات ۔
ہاؤس فل ہو چکا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڈھ پیر میں جو ہوا ہے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔
 پاک  فضائیہ کی بیس پر اس حملے سے قبل بھی کراچی، کوئٹہ، کامرہ اور پشاور  کے ایئر بیس اور ایئرپورٹس کو نشانہ بنایاجا چکا ہے ۔
توکیوں نہ پاک فضائیہ اور چھاؤنیوں کے حفاظت کے لئے  “رینجر” کو بلا لیا جائے ؟
مولا خوش رکھے  عالم اسلام کی محافظ فوج کی حفاظت کا معاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں ایسے” مسلکی “ لوگوں کی بہتات ہے جو
یہ سمجھتے ہیں کہ "ہم " سفید کھوتے “ ہیں  جن پر کالی دھاریوں بن گئی ہیں ۔
اور دوسرے سارے مسالک کے لوگ  “ کالے کھوتے “ ہیں جنہوں نے سفید دہاریاں بنائی ہوئی ہیں ۔
بس دہاریوں کی بحث ہے ۔
دوسرے سارے مسالک والوں کی  دہاریاں سفید اور کھوتے  کالے ہیں ۔
اہل علم  ان کو “ زبیرا “ نہیں ! “کھوتا” ہی سمجھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچاس ہزار کا قربانی کا جانور ؟
اتنے پیسوں میں تو  کسی غریب کی بچی کی شادی ہو سکتی تھی
ایسی باتیں کرنے والے لوگں کا مائینڈ سیٹ  مخصوص لوگوں نے سال ہا سال کی محنت سے بنایا ہے ۔
پاکستان میں کوئی بھی کام چاہے کوئی سیاستدان کرئے یا سوشل ورکر ، ماجا کرئے کہ گاما۔
دٹو کرئے کہ فتو اس پر کوئی ناں کوئی یہ کہہ کر
کہ
اس کی بجائے “وہ “ کام کیوں نہیں کیا ۔ کسی غریب کو روٹی کیوں نہیں کھلائی ،اگر روٹی ہی کھلا رہا ہو تو مسجد کو کیوں نہیں دئے ، مسجد کو دے رہا ہو تو اپنے رشتہ داروں کو کیوں نہیں دئے ، رشتہ داروں کو دے رہا ہو تو  اقرباء پروری کی تہمت کے ساتھ سڑک کیوں نہیں بنا رہا ، سڑک بنا رہا ہو تو ڈیم کیوں نہیں بنا رہا ، ڈیم بنادے تو کرپشن کر کے پیسے باہر لے گیا  ْ
اس ملک میں سوائے دفاع کے ہر خرچ فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے ۔
اقتصادی ترقی کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ، اقتصادیات کا علم  ایک انڈر میٹرک بندے جتنا بھی نہیں ہے
خرچ کرنے سے  دولت کی حرکت ہوتی ہے جس سے دولت کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچتے ہیں ۔
مغالطوں کے شکار یہ کم علم لوگ ، لیکن ہائے مجبوری کہ یہ میرے اپنے لوگ ہیں ۔
یا اللہ اینہاں نوں عقل دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے دل سے پوچھا!۔
چلتے چلتے یوں ہی رک جاتا ہوں میں ۔
بیٹھے بیٹھے یوں ہی کھو جاتا ہوں میں ۔
کیا یہ پیار ہے ؟
دل نے جوب دیا!۔
نئیں پاغلا یہ کمزوری ہے انرجی ڈرنک پیا کر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین ملاّ ؟ فساد فی سبیل للہ!۔
ان لوگوں کا مذہب ؟ نام ہی بحث مباحتوں ، مناظروں ، حجتوں اور جگتوں کا ہے ۔
یہ لوگ کبھی بھی  کسی نتیجے پر پہنچ کر  کسی بات پر متفق ہو کر معاشرت  کی تعمیر نہ تو کر سکے ہیں اور نہ کرسکیں گے ۔


دو لطیفے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر سائیکل کا ٹائیر پنکچر ہو گیا ۔
وہ موٹر سائیکل کو دھکیل کر چلتے چلتے ایک “ پھوک سنٹر “ پر پہنچا تو ۔چھوٹا بھاگ کر آیا
جی سر ؟
پنکچر لگانا ہے !، میری تو اس موٹر سائیکل کو گھسیٹ گھسیٹ کر اج پھٹ گئی ہے ۔
سادہ دل اور بھولا بھالا “  چھوٹا “ کنفیوز ہو کر پوچھتا ہے
تو پہلے کس کو پنکچر لگانا ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی جی کو بازار میں  ایک بہت بڑے ماہر امراض نسواں  نظر آگئے ۔
بی بی جی ان کے پاس جا کر پوچھتی ہیں
کیا اپ نے مجھے پہچانا ؟
نئیں بی بی جی ! میں خواتین کو ان کے چہرے سے  یاد نہیں رکھتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم میں کرین گرنے اور منیٰ میں بھگڈر سے ہونی والی “اموات “ پر میرا کیا خیال ہے ؟
میرے خیال میں یہ قدرت کی طرف سے  مسلمان کہلوانے لوگوں کے لئے خاص طور پر اطلاع اور پیغام  ہے
کہ
اگر احتیاطی تدابیر میں کمی یا کوتاہی ہو گی تو ، مقام کتنا بھی مقدس ہو گا ، حادثہ ہو کر ہی رہے گا ۔

دوش نہ دیو ہواواں نوں ،سر توں اڈیاں تنبوو واں دا
کلے ٹھیک نئیں ٹھوکے خورے ساتھوں رسّے ٹہلے رہے

منگل، 13 اکتوبر، 2015

کرامتی مراثی

 مراثی کے مرتے ہی  منظر بدل جاتا ہے۔
موت کے فرشتے کرامتی مراثی کو
کرامت صاحب کرامت صاحب کہہ کر پکارنے لگتے ہیں
یه بگھی آ گئی ہے جی کرامت صاحب قبلہ !ـ
ادھر تشریف لائیں حضور کرامت صاحب !ـ
کرامتی مراثی کہ ٹک ٹک دیدم 
اور گھگی بندھی آواز میں کہتا ہے۔
 کہ
 جی کوئی غلطی لگ گئی ہے آپ کو فرشته صاحب !!۔
میں ہوں جی سدا کا کرامتی مراثی !ـ
کہیں یہ نہ ہو بعد میں بے عزتی کردیں میری ۔

سجی دھجی سواری میں بٹھا کر کرامتی کو  عدالت میں پیش کیاجاتا ہے
تو کرامتی سجدے میں گر جاتا ہے
 جی سچے بادشاھ صاحب اپ کا درشن هو گيا۔
 اب بے شک جہنم میں پھینک دیں  ساری زندگی کی کچلی  حیاتی کا کوئی گلہ نہیں  !ـ
ایک دفعه میں چوھدریوں کے گھوڑے پر چڑھ گیا تھا
اور اس پر بڑی لترول هوئی تھی
اپ کو بھی اگر کوئی غلطی لگ گئی  تو جی معاف کردیں میں کرامتی مراثی ہی ہوں  !ـ
کرامت   کہہ کر بلانے کی عزت ہی کافی ہے جی مجھے ۔
فرشته رضوان فائیل کھول کر پڑھنا شروع کرتا ہے  کہ جی
پیدائیشی نام کرامت علی، قوم مراثی ، ساری زندگی کسی کو دکھ دیا ناں دھوکہ
گناھ کوئی ناں بندوں نہیں،  خدمت ہی کرتے زیست گزار دی اس لیے کرامت صاحب کو جنت میں محل الاٹ کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ـ
رضوان کی سارش قبول ہو جاتی ہے ۔
حکم جاری ہو جاتا ہے ۔
جنت میں محل اور جنت کی ساری نعمتوں   کرامت کو مہیا کرنے کا ۔
کرامتی کو لے کر پروٹوکول افسر ٹائیپ فرشتے محل میں جاتے ہیں اور کرامتی کو سارا محل دکھاتے ہیں که جی اب یہ آپ کا ہے
اور آپ اب جنت میں ہیں
یہاں اپ کی ہر خواہش پوری کی جائے گی !ـ
کرامتی نے محل کی ڈیوڑہی میں منجی ڈلوا لی اور کہنے لگے که جی مجھے یہی ٹھیک ہے
فرشتوں نے بہت کہا که جی یه سارا محل آپ کا ہے اور اب آپ کی ہر خواهش پوری ہو گی
مگر کرامتی کو یقین ہی نہیں آ رها تھا ـ
فرشتوں کی بار بار تکرار پر کہ یہاں ہر خواهش پوری ہو گی پر 
کرامتی جھجکتے ہوئے کہتا ہے۔

اچھا ؟ کیا آپ لوگ مجھے هر روز  تندور کی پکی دو روٹیاں اور کم شورے والی گاڑھی دال دے سکتے ہو؟؟
یه سن کر فرشتوں نے شرم سے سر جھکا لیا کہ 
جی اس بندے کی سوچ ہی اتنی ہے۔
 حاصل مطالعہ
تو ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا
ورنہ  گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا۔

بندے کو سوچ بڑی رکھنے چاہئے
 بڑی سوچ والے لوگ ہی بڑے کام کرتے ہیں ۔


ہفتہ، 10 اکتوبر، 2015

گدھے


ایک دفعہ کا ذکر ہے ، پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک بادشاھ تھا  ایک دن بادشاھ کا دل چاہا کہ  ملک کے دورے پر نکلے ، تو اس نے محکمہ موسمیات کے افسر سے پوچھا کہ آنے والے چند  دنوں میں موسم کیسا رہے گا ؟
محکمہ موسمیات کے بڑے افسر نے  حساب کتاب نکال کر بادشاھ کو بتایا کہ انے والے کئی دنوں تک بارش کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
 اس لئے اپ مطمعن ہو کر  ملک کی سیر کو نکل سکتے ہیں ۔
بادشاھ اپنی ملکہ کو ساتھ لے کر دورے پر نکل جاتا ہے ،  دارالحکومت سے میلوں دور  ایک جگہ اس کی ایک کمہار سے ملاقات ہوتے ہے جو اپنےگدھے پر مال لادھے کہیں جا رہا ہوتا ہے ،
کمہا بادشاھ کو پہچان جاتا ہے اور بادشاھ کو بتاتا ہے کہ  جتنی جلدی ہو سکے واپس چلے جائیں ، اس علاقے میں بہت موسلادار بارش ہونے جا رہی ہے ۔
بادشاھ کمہار کو کہتا ہے کہ میرے موسمیات کے افسر نے مجھے بتایا ہے کہ بارش کا کوئی امکان نہیں ہے ، میرا افسر ایک تعلیم یافتہ  اور بہت ذہین بندہ ہے ، جس نے ملک کی اعلی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کی ہے
اور میں اس کو بہت بڑی تنخواھ دیتا ہوں ۔
اس لئے میں ایک کمہار کی بجائے  اپنے افسر کی بات پر یقین رکھ کر سفر جاری رکھوں گا ۔
انہونی یہ ہوئی کہ    ایک یا دو پہر بعد ہی  بارش شروع ہو گئی  اور بارش بھی طوفانی بارش کہ جس میں بادشاھ اور ملکہ کا سارا سامان بھی بھیگ گیا ۔
بادشاھ وہیں سے واپس مڑا اور راج دھانی میں پہنچتے ہی محکمہ موسمیات کے افسر کو قتل کروا دیا
اور
بندے بھیج کر کمہار  کو دربار میں بلایا ،۔
دربار میں بلا کر بادشاھ نے کمہار کو محکمہ موسمیات کی نوکری کی پیش کش کی ۔
بادشاھ کی پیش کش  پر کمہار نے بادشاھ کو بتایا کہ  میرے پاس کوئی علم عقل نہیں ہے ، میں یہ نوکری کرنے کا اہل نہیں ہوں ۔
جہان تک بات ہے بارش کی پشین گوئی کی تو  ؟ وہ اس طرح ہے کہ  اس کا اندازہ میں گدھے کے کان دیکھ کر لگاتا ہوں
جب بھی گدھے کے کان مرجھائے ہوئے ہوتے ہیں اس بعد  بہت بارش ہوتی ہے ۔
یہ سن کر بادشاھ نے بجائے کمہار کے گدھے کو کلرک رکھ لیا ۔
بس اس زمانے سے یہ رواج پڑا ہوا ہے کہ حکومتی محکموں میں  گدھے ہی بھرتی کئے جاتے ہیں ۔
ماخوذ

بدھ، 23 ستمبر، 2015

منطق اور اصول

اپنے وڈے استاد جناب سقراط صاحب نے سوفسطائیوں کو کہا تھا
مجھے اس بات کا علم ہے کہ  میں کم علم ہوں
لیکن تم لوگوں کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے ْ۔
اپنا گاما ، یہ سب  جانتے ہوئے بھی  پچھلے کچھ دنوں سے ، مذہبی ریاکار ان لوگوں کو جن کے کاروبار کچھ چل نکلے ہیں ۔
ان کو جان بوجھ ستا ستا کر خود کو اہل علم ، سمجھدار ، بیدار مغز  بتا بتا کر مزے لے رہا ہے ۔
ریاکاروں کی کم عقلی کہ  گامے سے تپے ہوئے ہیں اور یہی گاما چاہتا ہے ۔
اب ہوا یہ کہ وہاں منڈی میں   دو تین لوگوں نے اس کو گھیر لیا ،۔
بڑی تیاری سے آئے تھے
ایک پوچھتا ہے اوئے کیا علم ہے تیرے پاس اوئے ، ہم نے تو جتنے عالم دیکھے ہیں وہ خود کو طالب علم کہتے ہیں تم خود کو اہل علم کہہ  رہے ہو ؟
تمہاری یہ بات ہی تمہاری کم عقلی کا ثبوت ہے !۔
گاما: خود کو طالب علم کہنے والے لوگ مذہبی ہوتے ہیں ، دولے شاھ کے چوہوں کی طرح سکڑے دماغوں والے  یہ لوگ جو چودہ سو سال سے  بس علمی کے حصول میں لگے ہیں ،  کسی نتیجے پر نہ پہنچے ہیں ناں پہنچیں گے ۔
پنتالیس سالہ  خان صاحب ، چربی سے چھلکتا جسم چھلکاتا اگے آئے ، آواز کی کپکپاہٹ سے لگ رہا تھا کہ گامے سے ڈرے ہوئے بھی ہیں ، اور غصے میں بھی ہیں ۔
 پتہ نہیں کس نے ان کو سوال گھڑ کر دیا تھا
جو انہوں نے گامے کے آگے رکھ دیا کہ
اگر ایسے ہی علم والے ہو تو میرے ایک سوال کا جواب دو!!۔
وہ کیا چیز ہے جو قانونی طور پر غلط اور  منطقی طور پر ٹھیک ہے ؟
منطقی طور پر ٹھیک ہے لیکن قانونی طور ہر غلط ہے  ۔
منطقی طور پر بھی غلط اور قانونی طور پر بھی غلط ہے ؟؟؟
تماشہ دیکھنے کو بہت سے لوگ اکھٹے ہو گئے تھے ، سوال جڑ کر  ریار کار لوگ  زیر لب مسکرا رہے تھے  ۔
ایک دوسرے کو انکھوں سے  زبان بے زبانی میں کہہ رہے تھے
آج آیا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے  ۔
گاما ایک کرسی پر بیٹھا ہے ، ساتھ کی دو کرسیوں کی پشت  پر بازو پھلائے ہوئے ہیں  اور ان سب کے روئے سے لطف لیتے ہوئے  پوچھتا ہے ۔
واقعی بتا دوں ؟؟
کپکپاتی آواز میں خان صاحب للکارا مارتے ہیں  ، فرار کی رہیں نہ تلاش کر ۔ بات کر بات  جواب دے ، تم کہتے ہو مذہبی لوگوں کو ادب کا علم نہیں ہوتا ۔ یہ سوال تو  علم منطق کا ہے ۔
گاما : اچھا ! سن کاکا!!۔
تم اپنی عمر چھیالیس سال بتاتے ہو ، شکل سے ساٹھ کے لگتے ہو ۔ تم نے ایک جوان بیوی بھی رکھی ہے ۔
یہ بات قانونی طور پر ٹھیک اور منطقی طور ہر غلط ہے ۔
تماہری اس بیوی کے کریانے والے جوان  لڑکے سے تعلقات ہیں ۔ یہ بات قانونی طور پر غلط ہے لیکن منطقی طور پر ٹھیک ہے ۔
اور تم نے اس کریانے والے کو دولاکھ کی رقم سود پر دی ہوئی ہے
جو کہ نہ منطقی طور پر ٹھیک ہے اور نہ  قانونی طور پر !!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گامے کو بڑی گالیاں پڑیں ،  لڑائی ہوتے ہوتے بچی ، بہت سے لوگوں نے گامے کو واجب القتل بھی کہا ۔
حاصل مطالعہ
عزت کرو اور عزت کرواؤ۔ْ
جب اہل علم ، کسر نفسی چھوڑ دیں تو ؟ سمجھو کہ معاشرے میں بے غیرت زیادہ ہوگئے ہیں ۔

بدھ، 16 ستمبر، 2015

فیس بک اسٹیٹس جولائی ،آگست


مسجدوں اور محفلوں میں افطاری کے لئے پچاس پچاس ہزار دے دے گا
کہیں اللہ کے نام پر کھانا پکانا ہو تو  سو سو بندے کا کھانا ،سارا خرچا کر کے بنا دے گا
جاننے والے مجبور لوگوں کو گندم اور چاول کی بوریاں لے کر دے دے گا
لیکن
اگر کوئی “ کارکن” چندہ مانگنے آ جائے تو، ایک روپیہ دیتے ہوئے بھی اس کو موت پڑتی ہے  ۔
کہتا ہے
میں اپنی کمائی سے غیر اللہ کے نام پر کچھ دے دوں ، یہ میرے لئے شرمندگی سے مر جانے کی بات ہے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مسجدوں کے متولیوں سے کاروباری تعاون کی امید رکھنے والوں کے لئے ایک شعر !!۔


مانگت کولوں منگن والا رہیا ہمیشہ خالی
او کی دیوے ،دان محؔمد  جیہڑا آپ سوالی

میاں محمد بخش



پاکستان میں فلم انڈسٹری کے زوال نے بہت سے لوگوں کو اپنا مستقبل بنانے کے لئے ذاکر ، واعظ ، نعت خوان اور دیگر غیر فلمی ایکٹنگ کے شعبوں میں قدم بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے ۔
طارق جمیل صاحب کا خاندانی پس نظر کیا ہے ؟
تلمبہ میں وہ برادری اکثریت میں تھی جو کہ برصغیر کی سب سے سیانی اور اپنی بقا میں بہت مضبوط برادی ہے
یعنی مراثی ( میں ان لوگون کو استاد سمجھتا ہوں اور ان کی رسپکٹ کرتا ہوں ) جن کی اکثریت اج کے پاکستان میں یا تو سید بن چکی ہے یا پھر مذہب کے ڈسٹریبیوٹر ( ذاکر ، واعظ ، نعت خوان اور دیگر ) ۔
مولوی جمیل صاحب کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اپنے اردگرد کی بدنام ( تلمبہ کی کنجریاں ) کی شادیاں کروا کر ان کے مستقبل محفوظ کر دئے ہیں ۔
یہ بھی اپنی بقا کی کوالٹی کی ایک دلیل ہے ۔

کنجر ہونا ، اپنی جگہ ایک کوالٹی ہے ۔
ہیرا منڈی کا وہ ادبی ماحول ، سر کی سمجھ ، سنگیت کی تانیں ، ادب اداب کا کلچر ، میں تو اس بات کا نوحہ لکھنا چاہتا ہوں کہ جرنل ضیاع کے اسلام نے یہ ماحول تباھ کردیا ۔
ہیرا منڈی کے کوٹھے ویران کر دئے اور ان ادبی لوگوں نے کوٹھے چھوڑ کر کوٹھیاں بسا لیں ۔
جاپان میں بلکہ برصغیر میں بھی نواب لوگ اپنے بچوں کو اچھی بول چال اور گفتگو کا سلیقہ سیکھانے کے لئے کنجریوں کے پاس بھیجا کرتے تھے ۔
ان سب باتوں کے تناظر میں میں نے لکھا ہے کہ مولوی طارق صاحب بھی اس ماحول کے پروردہ ہیں تو
ان کی گفتگو ، ان کیا سلیقہ ان کی داستان کوئی میں ایک کوالٹی ہے ۔
لیکن میں اس کو اسلام کی خدمت ہونے کا نہیں مان سکتا

یار جی میں کسی مسلک کا نہیں ہوں اس لئے مجھے سے مذہبی بحیثں کرانے کی کوشش ناکام ہو گی
مولوی صاحب فلم انڈسٹری کے بندے ہیں
اج کا زمانہ یوٹیوب فلموں کا تھا
اس لئے ویڈیو داستان گو سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔
اپ کا اگر جی چاہتا ہے کہ ان کو کوئی اعلی ہستی ماننے کو ، تو اپ کی اپنی مرضی ۔
دیکھیں میں مولوی صاحب کی کوالٹی کی تعریف کر رہا ہوں ۔ ان کی بے عزتی نہیں ۔
مولوی صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے تھے وہ ماحول بڑا ادبی ذوق والا ماحول تھا ۔
اس ماحول کو اگر جرنل ضیاؑع والے اسلام کی بیماری لاحق نہ ہوتی تو اس ماحول کے پروردہ لوگ ، فلم ، ڈارامے ، گینت سنگیت اور دیگر ادبی سرگرمیوں میں بڑا نام پیدا کرتے ۔
اب بھی مولوی صاحب جو کر رہے ہیں ، وہ صرف داستان گوئی اور قصہ خوانی ہی تو ہے ۔



بھکاری نے ایک  دروازے پر صدا لگائی ۔
بھوکا ہوں  کچھ کھانے کو دو۔
ایک مرد باہر نکلا اور بھکاری کو بتایا کہ گھر کی ساری عورتیں تو شادی پر گئیں ہوئی ہیں ۔
بھکاری تپ کر بولا
میں کون سی بارات لے کر آیا ہوں عورت بیاہنے!!۔
روٹی مانگی ہے روٹی ۔

بکواس فلسفے
 دولت سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتیں ، یہاں جنت کی بشارتیں تو دولت کے بغیر ملتی نہیں ۔

شراب پینے سے مسئلے حل نہیں ہوتے پریشانیاں دور نہیں ہوتیں ،  کوکا کولا یا شربت روح افزاء پینے سے کیا حل ہو جاتی ہیں  ؟
 اپنے دشمنوں کو معاف کر دو ، تاکہ وہ پھر تنگ کرنے آ جائیں ۔
مصیبت میں رشتے داروں کی مدد کر ، تاکہ وہ ادھار مانگنے کے لئے تمہیں تنگ کرتے رہیں ۔
تمباکو نوشی کرنے والے مر جاتے ہیں ۔ تو کیا نہ کرنے والے نہیں مرتے ؟


ایک لڑکی نے فیس بک پر اپنی تصویر کچھ اس طرح کی لگائی ہوئی تھی کہ دیکھ کر مردوں کو اشکل آ جائے ۔
گامے نے اس کو میسج کیا کہ ، کیا یہ”  چیز “ برائے فروخت ہے؟
لڑکی نے جواب دیا گندی ذہنیت کے گندے ! میں برائے فروخت نہیں ہوں ۔
گاما: تو پھر بی بی ! اگر چیز بیچنی نہیں ہے تو اس کی ایڈورٹائزنگ  ہی بند کردو !!!۔


اچھو ڈنگر ؛ یار گامیا، پاکستان میں تین نسلیں ( عمرانیاں کے ماہرین کے مطابق پندرہ سال میں ایک نسل تیار ہوتی ہے ) گزر گئیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سہتے سہتے ،
اب تک تو اس قوم کو عادی ہو کر شکایت چھوڑ دینی چاہئے تھی ، ہے ناں یار؟
گاما: اچھو یہ ذہنی مریضوں کا ٹولہ ہے جو ملک پر قابض ہے ،
اگر ایک مسلسل روٹین سے عوام کو صرف ایک گھنٹہ بجلی کی تریسل کا بھی عادی بنا دیتے تو لوگ خود کو اس میں ڈھال لیتے
لیکن یہ بکری کی طرح دودہ بھی مینگنیاں ڈال کر دیتے ہیں ۔ کہ اذیت پسند لوگوں کا یہ وطیرہ ہوتا ہے ۔


یہ صرف اور صرف دین اور بے دینی کے کرشمے ہیں
کہ” دین “ ( سسٹم ) کے داعی ممالک میں
سعودی عرب جیسی جمہوریت ہے صومالیہ جیسی خوش حالی ، ایران جیسی آزادی ، افغانستان جیسا امن ، پاکستان جیسی روادری اور بھائی چارہ نائیجیریا جیسا استحکام عراق جیسی وحدت یمن جیسی ترقی ، سوڈان جیسی شرح تعلیم  ہے ۔
اور دوسری طرف بے دین ممالک کا یہ حال ہے کہ
سوئس لینڈ میں آمریت ، امریکہ میں جہالت ، سویڈن میں دہشت گردی ، سکینڈے نیویا ممالک میں بد امنی ، جاپان میں پسمانندگی برطانیہ میں غربت جرمنی میں قحط جیسی صورت حال اور کناڈا میں تفرقے بازی  کا حال سب کے سامنے ہے ۔

اللہ تعالی سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور بے دین لوگوں کو دین کی سمجھ عطافرمائے ۔
آمین
خاور کھوکھر


اگر آپ ؟
سعودی عرب جیسی جمہوریت ، صومالیہ جیسی خوش حالی ، ایران جیسی آزادی ، افغانستان جیسا امن ،
 پاکستان جیسی روادری اور بھائی چارہ نائیجیریا جیسا استحکام عراق جیسی وحدت یمن جیسی ترقی ، سوڈان جیسی شرح تعلیم چاہتے ہیں تو؟
ان ممالک میں رائج تعلیمی نظام سے مستفید کرنے والے  دینی سکول جاپان میں بھی کھل چکے ہیں ۔
اپ بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں تعلیم دلوائیں
اور دنیا و آخرت کی فلاح پائیں ،۔

مہر سنگھ ببر ( ببر خالصہ ) کا بیٹا دیوندر سنگھ وہاں فرانس میں میرے ساتھ بجلی کا کام کرتا تھا ۔
بڑی درد ناک تھی اس کی کہانی ۔
دو بھائی اور یک بہن تھی ، بھائی لاس اینجلیس میں تھا اور ماں کناڈا میں ، باپ مہر سنگھ لاہور میں تھا ۔
سب کے سب خالصتان تحریک کے بڑے بڑے آگو تھے ،۔
کہایناں تو بہت لمبی ہیں کہ کس طرح انڈیا سے فرار ہوئے ، بنکاک میں پنجاب پولیس کی دسترس سے کیسے بچے ، پنجاب میں پنجاب پولیس کیسے کیسے مارتی تھی ۔ بالوں کی چوٹی ( دیویندر سنگھ کیس رکھنے والا سکھ تھا) کو چھت سے باندہ کر کیسے لٹکایا کرتی تھی ۔
فرانس کے گاغذ کیسے ملے ، موہن سنگھ کو کیسے امریکہ پہنچایا ۔
اصلی باتیں تو وہ ہوا کرتی تھی کہ اسلحہ کہاں سے آتا تھا ؟
پیسے کون دیتا تھا ؟
اس تحریک کے لئے ٹریننگ کون دیتا تھا ۔
اور اک دم یہ تحریک ختم ہی کیوں ہو گئی ۔

دیوندر سنگھ الزام تو نہیں دیتا تھا 
کہ سکھوں کو بیوقوف بنا کر مروانے والے پاک فوج کے جرنیل تھے ، لیکن اس کے بتانے کے انداز سے سمجھ سب لگ رہی ہوتی تھی ۔
شائد وہ الزام اس لئے نہیں لگایا تھا کہ اس کا باپ ابھی فوج کی حفاظت میں لاہور میں ہی تھا ( شائد اب بھی ہو ) ۔
بلوچستان میں انڈیا کی مداخلت کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہو گی۔
انڈیا ہمارا دشمن ہے  ، مجھے انڈیا سے ہارنا پسند نہیں ہے
لیکن اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے
میں جنگی میدان میں جیتنے سے زیادہ اس بات میں جیتنا چاہتا ہوں
کہ تکنیک ، کاروبار ، معاشرتی ترقی اور سہولتیں پاکستان میں اتنی زیادہ ہوں کہ
ہندو حسد سے سڑ سڑ کر مرتے رہیں
اور ہمارے کھیتون میں باغوں میں فیکٹریون میں سے مال اتنی بہتات سے نکلے کہ ہم ان کو بھیک دیں
ہمارے سکولوں کالجوں میں سے تعلیم لے کر ایسے ایسے اہل علم نکلیں کہ
ادب ، علم ، موسیقی ، سائینس ،انجرنگ میں ہندو کو وہ مات دیں کہ ہندو صدیوں تک اس ہار کو جیت میں نہ بدل سکے ۔


جیدو ڈنگر ، بڑا تپا ہوا گھر آیا ، اور بیوی کو کہنے لگا تمہارے باپ چاچے عمر دین کی “انگل “ کروانے کی عادت نہیں  گئی ۔
بیوی : ہائے ہائے کیا ہوا ہے ؟ ایسا کیا کہہ دیا جی میرے ابا جی نے ؟؟
جیدو ڈنگر: مجھے بازار میں ملا تھا بڑا مسکرا مسکرا کر پوچھ رہا تھا “ خوش تو ہو ناں میری بیٹی سے شادی کر کے ؟”۔

جیدو گامے سے ، یار وہ کون سے تین لفظ ہیں جن کو سن کر ہر بیوی خوش ہو جاتی ہے ؟
گاما : غلطی میری تھی !!!۔
جیدو ڈنگر : میں تو سمجھا تھا تم آئی لوّو یو ، بتاؤ گے ۔
گاما : اوئے  ڈنگرا ! دیسی کھوتی تے ولائیتی ٹیٹنے  مجھے نہیں آتے ۔

بڑے دبدبے والا چوہدری تھا  چوہدری رب نواز ، پرہے پنچایے کا سرپنچ ، علاقے کے سبھی مسائل کے حل کے لئے لوگ اس کے در پر آتے تھے۔
پھر اچانک اسلام اسلام ہو گیا
قصبے کی بڑی مسجد میں اسلام آباد سے مولوی آ گیا ، لوگ اہستہ اہستہ مولوی کے گرویدہ ہونے گے
مولوی جنت کی باتیں کرتا تھا ، جنت میں جانے کے طریقے بتاتا تھا ، بے دینوں کے خلاف جہاد میں شامل ہونے کے لئے رابطے کراتا تھا
چوہدری رب نواز کو اپنی دوکانداری خطرے میں پڑی نظر آنے لگی ۔
ایک دن چوہھدری رب نواز حواریوں کے ساتھ مولوی کی جنت کی باتیں سننے کے لئے مسجد آیا ، چوہدری کو دیکھ کر بہت سے دیہاتی بھی آ شامل ہوئے ۔
مولوی نے جنت کا نقشہ کھینچا ، بڑی سوہنی سوہنی باتیں کیں دیہاتی بڑے متاثر نظر آ رہے تھے
کہ
چوہدری نے سوال کیا
وہاں جنت میں زمین کے جھگڑوں کے فیصلے کون کرئے گا؟
جنت میں زمین کے جھگڑے ہوں گے ہی نہیں ۔
مولوی نے بتایا
چوہدری : کیوں ؟
مولوی : لوگوں کے دلوں دے غصہ ہی نکال دیا جائے گا   اس لئے !۔
چوہدری : اچھا تو یہ غیرت کے معاملے کیا کیا ہوگا اگر کسی نے کسی کی بہن بیٹی کو چھیڑ دیا  ، نکال کر لے گیا تو؟؟
مولوی : جنت میں ایسا کچھ نہیں ہو گا لوگوں کے دلوں سے یہ جذبات ہی نکال دیئے جائیں گے !۔
چوہدری : کیا مطلب مولوی صاحب جنت میں “ غیرت “ ہی نہیں ہو گی ؟ یعنی جنت میں سارے بے غیرت ہوں ؟
چلو اوئے لوکو چلو ، اس مولوی کی تو جنت ہی بے غیرت ہے ۔ ہمیں نہیں چاہئے ایسی جنت جو ہمیں بے غیرت بنا دے ۔
ہم غیرت مند لوگ ہیں ہم نہیں جاتے بے غیرت جنت میں ۔
چوہدری ایک کامیاب سیاستدان نکلا ، ہجوم کو ساتھ لے کر نکل گیا ۔
مولوی کا جہاد کا کاروبار تو پھر بھی چلتا ہی رہا  ، کہ غربت اپپنی جگہ ایک حقیقت ہے
لیکن چوہدری کے اس حربے کے بعد مولوی کاروبار بہت مندا پڑ گیا تھا ْ۔

ایک خان صاحب دوسرے سے پوچھتے ہیں
اگر میں ونڈو سیون کی بتیس بیٹ ، دو دفعہ انسٹال کر لوں تو کیا یہ چونسٹھ بیٹ کی ہو جائے گی؟
ہاں ہاں کیوں نہیں ! بیٹ تو چونسٹھ ہو جانی چاہئے
اور ساتھ میں ونڈوز بھی سیون کہ بجائے دوگنی ہو کر فورٹین ہو جائے گی!!۔

شوسلسٹ کہتے تھے مذہب ایک افیم کا نام ہے ۔
میں کہوں گا کہ اس نشے میں ٹن بندے کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو ؟
ملکی ماحول پاکستان جیسا بن جاتا ہے ۔
مذہب کے نشے میں ٹن ایک بھکاری کے حجرے کے باہر مسجد کے چندے کا ڈبہ پڑا تھا
جس پر لکھا تھا
غلے میں ریزگاری ڈال کر شور نہ کریں

بڑے نوٹ ڈالیں ۔
جزاک اللہ!!۔

رمضان کی بات ہے ،گرمی سے برا حال تھا ، بیوی کی چخ چخ جاری تھی ۔
جب صبر بلکل ہی جواب دے گیا تو
گاما کراہ کر بولا : بھلیے لوکے !اب بس کر !۔
 کسی کا دماغ کھانے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔

انالله و انا الیه راجعون۔
جان دی کہ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا
جبر کے خلاف ڈت جانا ، اپنے وعدوں کے پاس کے لئے ،اپنے نظرئے کے لئے ، اپنے لوگوں کے لئے کبھی بھی نہ جھکنا۔
تاریخ میں جب بھی خود دار ،لوگوں کا ذکر آئے گا ، اپ کا نام ادب سے لیا جائے گا۔
کہ مولوی عمر کو دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین قتل نہ کر سکی ۔


چچ نامہ میں لکھا ہے کہ
سندہ کی فتح کے بعد عربوں نے سیوہن کے قریب ایک شہر بسایا تھا ، جس کا نام “منصورہ” تھا۔
منصورہ عربی دور میں “ علم “ کا مرکز رہا ۔
صدیوں بعد  سعودی عربوں نے لاہور کے نزدیک ایک اور منصورہ بنایا ، کہتے ہیں یہ منصورہ بھی علم کا مرکز ہے ۔
منصورہ سے منصورہ تک کا علم  اور تاریخ ۔
قیاس غالب ہے کہ پرانے منصورہ کے علم سے بھی عام لوگوں کا یہی حال ہوتا ہو گا جیسا کہ جدید منصورہ کے علم سے ہو رہا ہے ۔ْ۔
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے ۔

پاکستان میں طالبان کے لاجسٹک سپورٹر ملک اسحاق کے مبینہ پولیس مقابلے میں مرتے ہی
افغانستان سے کئی اموات کی خبریں وصول ہونے لگی ہیں اور خبریں بھی “گڑھے مردے “ اکھاڑ کر اچھالی جا رہی ہیں ۔
سمجھ نہیں لگ رہی کہ اگر مولوی عمر دو سال پہلے فوت ہو گیا تھا تو ، یہ اینکر ، تجزیہ نگار یہ جرنسلٹ ، کسی کو بھی حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی کہ “ کوئی “ مر نہ گیا ہو ۔
یہ کم عقل اور کم علم لوگ ، جن کو فرشتوں نے عقل کی سپلائی پر لگایا ہوا ہے ۔


میں نے سوچا ہے کہ اب گالی پر غصہ نہیں کرنا
جبتک کہ کوئی وہ والی گالی نہ دے دے جس سے کہ ایک سیکریٹ لوز ہو جاتا ہے
بڑا غصہ آتا ہے جب لوگوں میں اچھا خاصا سیانا بن کر پیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی مجھے بیوقوف کہہ دے ۔

کچھ عجب رسم چل نکلی ہے ، حسد کی ، کم عقلی کی
کہ
“وہ” جو بھی کام کر کے دیکھائے  اس پر ایک ہی اعتراض ہے کہ
اتنے پیسوں میں تو فلاں فلاں کام ہو سکتا تھا ، وہ کیوں نہیں کیا ؟
یاد رکھیں ، یہ ایک “ نکمی “ سوچ ہے ،ایسی سوچ کے مالک لوگ کبھی بھی معاشرے کے لئے کارآمد نہیں بن سکتے ۔



کہ رحمانیوں نے آلو کی فصل کاشت کی تھی،آلو کی کھدائی میں جڑوں کے ساتھ لٹکے ہوئے چھوٹے چھوٹے  “ منی آلو” بہت ہوتے تھے ۔
بہت سال پہلے کی بات ہے میں بہت چھوٹا ہوتا تھا ، غالباً مڈل سکول میں  ، میں بھی اس فصل کی کھدائی میں گیا تھا ۔
سفید آلو کے “ بچے “ کوئی چار پانچ کلو اکھٹے کر کے لایا تھا
ان دنوں آلو کو چولہے کی راکھ میں بھون کر کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔
لیکن اس بچے آلو کو بھوننا بڑا مشکل کام تھا کہ راکھ میں مل کر گم ہو جاتے تھے ۔
اس لئے میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ ان آلوؤں کو بھٹھی پر بھون لیا جائے ۔ دانے بھوننے کی یہ بھٹھی ان  دنوں کوٹھی کے سامنے سڑک کے دوسری طرف  ڈاکٹر جلال صاحب کی دیوار کے نیچے ہوتی تھی ۔
میں دادای کو ساتھ لے کر جب آلو بھوننے کے لئے بھٹھی پر گیا تو  بھٹی والی نے کہا کہ
ہم کھوکھر لوگ ہوتے ہیں ، اگر ہم آلو کو کڑاہی کی ریت میں ڈال کر بھون دیں تو  ہمارے بچوں کو اور کھانے والوں کے بچوں کو بھی پھوڑے اور پھنسیاں نکل آتی ہیں  ۔
دادی نے میرا منہہ دیکھا کہ  پتر اب کیا کرنا ہے  ۔
مجھے بھنے آلو کھانے کا شوق چڑھا ہوا تھا۔
میں ضد پر اتر آیا کہ
اگر تم کھوکھر ہوتے ہو تو میں بھی کھوکھر ہوں ،مجھے بھی علم ہے کہ اگر پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی تو میں دھریک اور پھلا کے پتوں کا گھوٹا لگا کر پیوں گا۔
بھٹی والی  میری اس ضد سے ہار گئی
اور اس کے  ریت میں آلو بھون کر مجھے دئے ۔
یقین کرین کہ نہ اس کو اور نہ مجھے کسی کو بھی کوئی پھوڑے پھنسیاں نہیں نکلیں تھیں۔
یاد رہے کہ
چیمہ جاٹوں کے دیہاتوں میں جیسا کہ تلونڈی موسی خان ہے ۔
یہاں ، لوہار ، کمہار ، ماچھی ، تیلی  اور چھینبے لوگ  کھوکھر ذات کے ہوتے ہیں ۔

جن لوگوں کے کام کاروبار  مذہب  کی مہربانی سے چل ہے ہیں
وہ لوگ اپنے کاروباری مرکزوں کی فوٹو بڑے زور شور سے سوشل میڈیا میں شئیر کرتے ہیں
کاش  اے کاش
کہ کہیں  میرے جیسے لوگ بھی معاشرے میں بہتات سے ہو جائیں کہ جس کے دل کو تسکین دینی والی کتابوں کی لائیبریریاں ، ادبی محفلیں ، لبارٹریاں ، ہوں اور ان کے فوٹو لگا لگا کر  اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ رب نے کیا کیا نعمتیں ادا کی ہیں
کہ جہاں منافقت کا  کوئی گزر ہی نہیں ہے  ۔

نانو کی تکنیک  ایک نئی چیز ہے ، جو کہ اتنی بھی نئی نہیں ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس پر تحقیق اور ترقیاتی کام ہو رہا ہے
جاپان اس تکنیک میں  لیڈنگ رول کر رہا ہے  ۔
نانو کیا ہے ؟
میوکی کہنے لگی ، زیرو کی مائینس نو  ( 10¯9)۔
جس کو اپ اس طرح بھی لکھ سکتے ہیں ۔
0.000000001
ایک نانو میٹر ، ہائیڈروجن کے تین ایٹموں کی لمبائی کو مقرر کیا گیا ۔
ایٹم ؟ کائینات کا بنیادی عنصر سب سے چھوٹا زرہ ، اب نانو سے اس ایٹم کا کلیجہ چیر کر اس کی ساخت پر تحقیق ہر وہی ہے ۔
نانو سے بنائے گئے روبورٹ ، انسانی جسم  میں داخل ہو کر مطلوبہ جگہ کی مرمت کا کام کریں گے۔
دوہزار ایک میں برطانیہ کی “ ہاؤس “ میں اس بات کی بحث ہو رہی تھی کہ اس روبورٹ کو ، کیا نام دیا جائے ۔
دوائی یا کہ مشین ؟؟
حاصل مطالعہ
علم اور عمل میں تحقیق کی مسافت میں  “ ہم “ کن منزلوں پر ہیں  اور “ وہ “ کن منزلوں پر ؟؟

کسی سیانے کا قول پڑھا تھا کہ
کم تعلیم والے لوگ ،جب بات کرتے ہیں تو باتوں میں سنسنی پیدا کر کرکے بات کرتے ہیں ۔
جب سے میں نے یہ پڑھا ہے ، میں کوشش کرتا ہوں کہ میری باتوں میں سنسنی نہ ہو
کہ کہیں اصلی تعلیم یافتہ لوگوں کو میری کم علمی کا احساس شدت سے نہ ہو جائے  ۔
پاکستان کی اخباریں اون لائین نیوز دیکھ کر بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کم علم لوگوں نے
اس سیانے کا مندرجہ بالا قول بھی نہیں پڑھا ہوا ۔
اسی لئے ہر طرف سنسنی ہی سنسنی ہے مغالطے ہی مغالطے ہیں ، مبالغے ہی مبالغے ہیں ۔



قصور سکینڈل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جنسی تشدد کوئی نیا سماجی مظہر نہیں ہے ۔
 آج سے چالیس برس پہلے کے پاکستان میں بھی یہ رویے بکثرت دیکھنے میں آتے تھے ۔
 لاہور میں بڑی بڑی سماجی ، مذہبی اور سیاسی شخصیات بھی اس میں ملوث تھیں ۔
"لاہور بائی نائٹ" ایک الگ شہر تھا ۔
 بڑے بڑے سیاسی چودھری جن کا قد کجھور کے برابر تھا ، رات گئے مرسڈیز لیے شکار کی تلاش میں نوجوان لڑکوں کو لفٹ دیا کرتے تھے ۔
کالجوں کے خوش پوش نوجوان ، اساتذہ ، صحافی ، دانشور ،علماء ، جج ، وکلا ء تاجر اور پولیس والے اس " بزنس " میں یکساں دل چسپی رکھتے تھے ۔ عطار کے لونڈے سے دوا لینے والے بہت تھے جس پر کسی کو اعتراض نہیں تھا ۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مفادات کا تصادم ہوتا ہے ، ورنہ معاشرے میں نئی نسل کو خراب کرنے میں سب برابر کے شریک ہیں ۔
مسعود منور

کوئی لڑکی یا عورت ہی کیوں
کوئی لڑکا بھی ہو سکتا ہے
بس ،یہ تو نیت کی خرابی پر منحصر ہے ، گنڈا سنگھ ( قصور) ہو کہ منصورہ ۔

انگلش میڈیم لڑکی کو گوگل پر بڑی سرچ اور محنت کے بعد یہ علم ہوا تھا
کہ “ فلپس ٹونٹی ون انچ “ کوئی مرد نہیں بلکہ پرانے زمانے میں ٹیلیوژن کا ایک ماڈل ہوا کرتا تھا ۔

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کہیں جنگل میں تین افراد سفر کررہے تھے  ،  ایک ہندو پنڈت  ،دوسرا مسلمان اور تیسرا ایک پہلوان تھا  ۔
قریب میں کالا تیتر بولا !!،۔
تیتر کی صدا سن کر پنڈت بولا ۔
تیتر ، رام نام جپ رہا ہے ،۔
مسلمان ٹرخ کر بولا تمہاری سمجھ میں فرق ہے
تیتر صاف الفاظ میں کہہ رہا ہے
سبحان تیری قدرت !۔
پہلوان بولا ، جھگڑو نہیں یارو ، تم دونوں کو غلطی لگ رہی ہے ۔
تیتر کہہ رہا ہے
کھا گھی تے کر کسرت !!۔

یہ ملک اندھیروں میں ڈوب چکا ہے ، یہاں روشنی کی کوئی امید نہیں رہی ، اندھیرے یہاں کا مقدر بن چکے ہیں ، کسی مسیحا کے انے کی کوئی امید نہیں ۔
لوگ یہاں ذلیل ہو رہے ہیں ، بچوں کا مستقبل  تاریک نظر آ رہا ہے ۔
یہ ملک جہنم کا نمونہ نظر آتا ہے ،۔
جو یہ کہہ رہا تھا وہ کوئی بڑا فلسفہ نہیں بول رہا تھا
بس لوڈشیڈنگ کا شکوہ کر رہا ۔

آج چودہ آگست ہے ،۔
اس دن کی مناسبت سے جاری کیا گیا بیان !!۔
انیس سو سنتالیس کو بننے والا پاکستان ، انیس سو باون میں چوری ہو گیا تھا ۔
جوکہ
انیس سو اکہتر میں  چوروں کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا تھا ۔
ٹوٹا ہوا پاکستان ابھی تک چوروں سے بازیاب نہییں کروایا جا سکا ،۔
مسروقہ پاکستان کی باریابی تک ،آزادی کا جشن ملتوی کیا جائے ۔
منجانب : خاور کھوکھر

میرے وطن کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہوا کہ
جن کو علم تھا ،وہ انپڑھ تھے ، اور جو لکھ رہے تھے  ان کی اکثریت ،بے علم تھی ۔
مویشیوں کی دیکھ بھال ، نسلوں اور کوالٹی کا علم رکھنے والے ، یا کہ فصلوں ، جڑی بوٹیوں ،اور کیڑوں مکوڑوں سے ہر روز ڈیل کرنے والے لوگ !
انپڑھ تھے ، ان کو دیہاتی اور پینڈو بتا کر  لکھنے والوں نے لطیفے بنا دئے ۔
اور لکھ سکنے والوں کا اپنی مٹی سے اتنا ہی تعلق تھا ، جتنا گملے میں لگے ہوئے پودے کا ہوتا ہے
پودینے کے باغات اور سٹالے کے درختوں کی باتیں کرتے تھے ، دھنی کی گائیں اور ساہی وال کے بیلوں کی کوالٹی لکھتے رہے !!!۔
 ، لیکن جو جانتے تھے کہ بات اس کے الٹ ہے
دھنی کے بیل اور ساہی وال کی گائے میں کوالتی ہوتی ہے
وہ کبھی پڑھ ہی ناں سکے کہ ، ان کم علموں کی تصحیح کر سکیں ،
اس لئے انے والی نسلوں کو  اپنی مٹی سے متعلق علم  بھی انگریزی سے لینا پڑے گا
کہ اپنی زمین میں تو لکھے والوں نے جھوٹ لکھ کر دیا تھا ۔
ارود کے لکھاریوں کے بڑے بڑے نام ؟
ان میں سے کسی کو بھی کھیتوں میں کام کرنے والے کھیت مزدور ، گاؤں کے سلوتری ، کپڑے کو ڈیزائین کرنے والے ، برتنوں کو بنانے والے یا بیل بوٹے لکھنے والوں کی تعلیم اور علم تک رسائی ہی نہیں تھی۔
تو بے چارے لکھتے کیا ؟
ذہنی عیاشی کا سامان  لکھ گئے ہیں ۔
بس !!!۔

کتوں کی لڑائی ، یا کتوں والی لڑائی میں ۔ کتے ، غیر کتے کی کتے والی ہی کرتے ہیں ۔
لیکن جب کوئی کتا ،دم دبا کر پیٹھ نیچے ٹکا کر بیٹھ  جائے تو ؟
بڑے بڑے جغادری کتے بھی اس کتے کو “ وقار “کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔
انسانوں میں ایسے ایسے کتی کے بچے ہوتے ہیں ، جن کا کتا پن  بڑے بڑے جغادری کتوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔
کسی خود دار کو وقار کے ساتھ جینے ہی نہیں دیتے ، کتی دے پتر !!۔

۔ مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے
یہاں جاپان میں مسلمانوں کے سبھی مسالک  حدیث کے نام پر لکھی گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔
جاپان کی مسجد میں لڑائی ہونے پر جو لوگ مسجد کی عزت کے نام پر  مظلوم کو درگزر کی تلقین شروع کر دیتے ہیں ان کے یہ روایت پوسٹ کی جا رہی ہے ۔
اپنے کاروبار کے شو روم کی طرح مسجد کو استعمال کرنے والے نام نہاد صالحین کو بے نقاب کریں
اور اگر کوئی بندہ اپ کی عزت اچھالنے کی وشش کرئے اور مسجد کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کرئے تو اس کی روایت ضرور سنائیں ۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
حوالہ جات کے لئے مندرجہ ذیل کی کتابوں سے رجوؑ کریں
    1.    ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932

    2.    طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568

    3.    منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679


عشق رسول ﷺ کا مطلب ہے۔
رسول ﷺ کے رنگ میں رنگے جانا ۔
 اور یہ رنگی داڑھی کے خضاب ، پگڑی کے کلف ، جُبے کی چمک دمک ، گھٹنوں سے”  اونچی شلوار”  اور ماتھے کے “محراب “ میں نہیں ،

بلکہ
 خُلقِ عظیم میں ہے ۔
، جو خٓلقِ خُدا سے سچی اور غیر مشروط محبت کا نام ہے ۔
مزے کی بات کہ
اپنے کاروباری تعلقات کو خُلقِ عظیم  کے مغالطے کے شکار یہاں تاتے بیاشی میں “ چند دانے “ موجود ہیں ۔


ایک پرانی کہاوت :
خیال بو کر عمل کاٹو ۔عمل بو کر عادت کاٹو ، عادت بو کر کردار کاٹو اور کردار بو کر مقدر کاٹو

پرانی کہاوتوں کی بات
 نیت خیال کے بیج سے عمل کی فصل  اور عمل کے بیج سے عادت کی فصل اور عادت کے بیج سے کردار کی فصل اٹھتی ہے
تو
کردار کے بیج سے مقدر کے فروٹ کی فصل تیار ہوتی ہے ۔


استاد ،شاگرد سے : بجلی کی مختصر تعریف بیان کرو!۔
شاکرد: بجلی ! حکومت کی وہ آوارہ بیٹی ہے جس کے چال چلن اس حد تک خراب ہو چکے  ہیں ،کہ جب اس کا جی چاہئے چلی جاتی جب جی چاہے واپس آ جاتی ،اور اس کے واپس انے کا کوئی ٹائم مقرر نہیں ہے ۔
ماخوذ

مسجدوں کے متولی  اب جاپانی حکومت کے مقابلے میں  چندہ دینے والوں پر “آپنی رٹ “ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
پولیس ، تفشیشی افسران اور عدالت کا  کا کام خود کرنے کی خواہش اور کوشش ہے
اسی لئے تو ، جو پولیس بلا لے اس سے اتنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں کہ خدا کی پناھ
اب وقت کی ضرورت یہ ہے کہ جاپانی اداروں کو مطلع کیا جائے کہ حکومت کے مقابلے میں اپنی رٹ  کے طالب لوگ ،اسلحہ ملتے ہی ، طالبان بھی بن سکتے ہیں ۔
تاتے بیاشی کے مئیر ، شوکیو ہوجینکائی ، پولیس اور سماج سدھار کے دیگر اداروں کو سنجیدگی سے  اس بات کا جائیزہ لینا چاہئے کہ مسجد کی آر میں کیسے زہر کی پرورش کی جا رہی ہے ۔

یقین کریں کہ تاتے بیاشی کی مسجد ، مخصوص لوگوں کا اڈھ بن چکی ہے ۔
جائے وقوعہ سے پولیس کو گمراھ کرنے کی منظم کوشش  ، دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا ہوں ۔

وقوعہ جس مقام پر ہوا  ھے اس مقام کو غلط بتانا جھوٹ ہوتا ہے اور یہ قانون نافظ کرنے والے اداروں کو گمراھ کرنے والے بات ہوتی ہے جو کہ کسی بھی معاشرے میں  مناسب نہیں مانی جاتی ۔
بلکہ جاپان میں یہ چیز “اعانت جرم”  کے زمرے میں آتی ہے

نماز با جماعت پڑھنے والوں کو ، جھوٹ با جماعت اپنانے پر  سرٹفکیٹ ملنا چاہئے

تاکہ سند رہے کہ  یہ لوگ سند یافتہ منافق ہیں ۔

مسجد کی حرمت اور اسلام کی عظمت !!!!۔
عذر گنا بد تر از گناھ

خاور ، جاپان کے اردو رائیٹرز میں سے ، تخلیقی ادب کا واحد رائیٹر ہے ۔
تقلیدی ادب کے قاریین  ہو سکتا ہے اس کو نہ جاتے ہوں ۔
لیکن خاور عرصہ چودہ سال سے نیٹ پر بلاگ لکھ رہا ہے ، جاپان سے اون لائیں اخبار چلاتا ہے ، نیٹ کے انسائیکلوپیڈیا کا بانی ہے ۔
چلتا پھرتا انسائکلوپیڈیا  خاور ۔  کیا کبھی اپ کو  اس سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا ہے ؟

سوشل میڈیا پر چھوڑا گیا  خاور کا آج کا چٹکلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاپلوسی ! ، مجھے گالی جیسی بلکہ گالی ہی لگتی ہے ۔
برداشت کرنا مشکل ہوجاتی ہے ۔
لیکن
کچھ لوگ چاپلوسی  سے بہت لطف اٹھاتے ہیں ،۔
بلکہ انہوں نے چاپلوس پال رکھے ہوتے ہیں ۔
اپنی اپنی طبیعت کی بات ہے ناں جی۔


کتابوں کے مطالعہ کے شوقین ،وہ لکھاری جن کا مشاہدہ نہیں ہے
وہ اج بھی بھوک کی باتیں لکھتے ہیں ۔
حالانکہ ، کھاد کی دریافت کے بعد  بھوک کی بجائے بسیار خوری کی بیماریوں کی بہتات کی کہانیاں لکھی جانی چاہئے ۔
زمین سے خوراک کی بھوک ختم ہو چکی ہے ۔
اب طاقت ،دولت اور اقتدار کی بھوک اپنے اوج پر ہے ۔

لفظ اقلیت تو قلیل سے نکلا ہے ۔
لوگوں کی قلیل تعداد اقلیت کہلاتی ، کثیر تعداد کی اکثریت کے مقابلے میں ۔
کسی معاشرے میں  ، اقلیت اس گروہ کو کہا جاتا ہے 
جن کا
مذہب اور کلچر کسی اور زمین پر  ہو !!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 زیادہ غور نئیں کرنا ، دھرم بھرشٹ ہو جائے گا ، یا ذہن کا فیوز اڑ جائے گا ۔

من ترا حاجی بگویم ، تو مرا ملاّ بگو


سپ دے وڈھے دا منتر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باوا فضل درست
منّاں رب رسول نوں ۔ منّاں پیر استاد
بنھاں تیری وِس نوں ، کر پیر صاحب نوں نوں یاد
وس بنھاں ، مُکھ بنھاں ، بنھیاں تیری ہوس
گُر دھننتر اپنا ، اپنا گُر سنبھال
ایہہ گل دھننتر نوں 
نانگیں ہتھ نہ پائیں 
نانگ مندرائیں ، پرچائیں 
بہیل مٹی
آلے ابیس تبیس
سمندر کنارے
ڈِب دی بُوٹی 
وِس ماندری جھاڑے
وس جھڑے ، مول نہ چڑھے
بدھی سید احمد سلطان کبیر دے کڑے


صوبہ پختون خواھ میں کچھ مرودں میں یہ قبیح عادت پائی جاتی ہے
کہ چھوٹی عمر کے مرد بچوں کو “ خراب “ کر دیتے ہیں ۔
یہ “ خراب “ کئے ہوئے لڑکے “ فارن” میں بھی نظر آتے ہیں ،ان کی عادات بہت کمینی ہو چکی ہوتی ہیں ۔
لیکن ان بے چاروں کا کیا قصور ؟ “ان “ کو خراب کرنے والوں کو منع کرنے کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یہاں اپنے نزدیک “لڑکوں” کے ایک گھرانے کی “ کمینی” عادات دیکھ کر تاسف کا اظہار ۔

پنجابی


ساڈے بزرگاں نے انگریزاں کولوں  زمیناں لئیاں ، اعزاز لئے ۔
اج  سارے لوکاں نو نظر آؤندا پیا اے کہ  علاقے وچ ساڈے توں طاقتور کوئی  وہ نئیں ۔
ساڈی اولاد وی سوہنی اے ، اج وی  سرکار دے کماں وچ سانوں پوچھیا جاندا اے  ۔ْ
اوئے اے  علاقے دی کمی لوگ ! اپنیاں کمینی عادتاں تو پچھے رہ گئے نے ۔
ذیلداد صاحب دا پوترا ، بابے سیٹھ نوں گلاں کردیا پیا سی  ۔
تہاڈے کمیاراں دیا گلاں ای نئیں مکدیاں ، جی ساڈے وڈے بڑئےسیانے سن ، بڑا کاروبار سی  ، سو سو کھوٹے تے خچر رکھے ہوئے سن ۔
گل سن بابا سیٹھا !! جے او سیانے ہوندے تے اج وہ تسی لوک کھوتے ہی نہ چلا رہے ہوندے ۔
بیوقوف سن اور تہاڈے وڈکے !!۔
وڈے وڈے گھر بنا کے  ویہڑے وچ سو سو کھوتا بن کے ، سار گھر لید نال بھریا ہوندا سی ۔ تہاڈیاں زنانیاں  لید نال بھریاں ہوندیاں سن ۔
کھوتے نوں “ نسریا” ویکھ ویکھ کے  ترسیاں ہوندیاں سن ۔
ساڈے ول ویکھ ، ساڈی بیبیاں دیاں سو  سو سال پرانیاں فوٹوان ویکھ ، شہزادیاں لگدیاں نیں ۔
میرا دادا اللہ بخشے ذیلداد صاحب ! دسدے ہوندے سن ، جدوں وہ انگریز لوکی ساڈے گھراں وچ پروہنے بن کے آؤندے سن ، ساڈی کوٹھی سے کول بنے کمہیاراں دے گھر ویکھ کے نک دے رومال رکھ لیندے ہوندے سن ۔
کھوتے دے ہینکن دی آواز دے کناں وچ انگلیان دے لیندے سن ۔
تہاڈے گھراں دے کولوں لنگدیاں ہویاں ، انگریزاں  دا دل نئیں سی کردا کہ تہانون کمیاراں نوں منہ وہ لان ۔
کمشنر صاحب جدوں وہ اؤندے سن ، کنے کنے دن ساڈے گھر رہندے سن ۔
ساڈے گھراں نال کنداں جڑیاں ہویا نے کمہاراں دیاں  ، تساں نہ انگریزی سکھی تے ناں ای انگریزاں نے تہانوں منہ لگایا ،۔
میرے سامنے نہ کریا کر گلاں کہ
ساڈے کمیاراں دے وڈکے بڑے سیانے سن ۔۔
بس جی چوہدری صاحب ، کی دساں   ، کھورئ ساڈے وڈکے سیانے سن کے بے عقل ،۔پر اک کم ایہناں دا مینوں بڑا  چنگا لگیا اے ۔
او کیڑا ؟ اوئے سیٹھا ؟
اپنیاں زنانیان نوں لید دے کم تے لائی رکھ کے انگریاں کولوں بچا لئیاں نے ، نئیں تے ساڈے منڈے وی نیلی اکھیان والے ہو جانے سن  ۔

پیر، 14 ستمبر، 2015

دین فضولی تے لین حکمت


فرانسیس رائیٹر نے ایک کہانی لکھی تھی  جس میں ایک بندے کو ایک لمبی توپ سے گولے کی طرح داغ کر چاند پر پہنچایا جاتا ہے  ۔
اس کہانی کے لکھے  جانے کے کوئی سو سال بعد راکٹ داغ کر انسان کو چاند پر پہنچیا گیا ، فرانسیس رائیٹر کی لکھی کہانی کی توپ کی لمبائی اور اپالو گیارہ کو لے کر اڑنے والے راکٹ کی لمبائی ایک ہی تھی ۔
وہ بھی ایک فرانسیسی رائیٹر ہی تھا جس نے فکشن کہانی میں ایک کشتی کو  چمڑے میں مڑھ کر پانی کی  گہرائیوں میں ابدوز چلانے کی کہانی لکھی تھی ۔
جرمن لوگوں نے ابدوز اس کہانی کے کوئی ایک سو سال بعد ایجاد کی تھی ۔
یہاں جاپان میں ، جس معاشرت میں پاکستانی لوگ پناھ گزین ہیں ، یہان زندگی  کی اکثر  مشکلات ، معاملات کا کوئی نہ کوئی حل سسٹم میں موجود ہے ۔
جاپان کا دین انسان کی زندگی میں ہونے والے مصائب اور مسائل کے تدارک کے لئے بہت  مدد گار نظام ہے ۔
لیکن ایک مسئلہ ایسا نظر آیا ہے جس میں نظام  بھی مدد کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے ۔
وہ ہے
رقم کی وصولی  ، اگر دینے والا انکار کر دے یا کہ حیل و حجت پر اتر آئے  ۔
اصل میں نظام  مجبور بھی وہاں ہوتا ہے جہاں لوگ نظام  کی ہدیت کے مطابق  لین دین میں لکھائی نہیں کرتے ۔
قران میں بھی لین دین  کے معاملات کو لکھ لینے  یا لکھوا لینے کا حکم کیا ہے  ۔
یہاں ہمارے ایک دوست کے ساتھ معاملہ اس طرح ہوا کہ  انہون نے ایک برمی کی مدد کے لئے  اس کی گاڑی کو منڈی میں بیچنے میں مدد کی ، رقم وصول ہو جانے کے بعد اس گاڑی میں کوئی نقص نکل آیا  جس پر گاڑی واپس آ گئی  ، اس برمی نے گاڑی کہیں اور بیچ دی لیکن  منڈی کو واپس کرنے والی رقم  واپس نہیں کی ۔ جو کہ پاکستانی دوست کو  منڈی کا ممبر ہونے کی وجہ سے واپس کرنی ہی پڑی تھی ۔
اب وہ برمی بندہ پاکستانی کو رقم واپس نہیں دے رہا ۔ یہ معاملہ کوئی ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے  ۔
دوسرا کیس  ، ایک دوست نے ، دوسرے کو اپنا نمائیندھ اور پاٹنر بنا کر تھائی کی مارکیٹ میں بٹھایا
کہ میں گاڑیاں بھیجتا ہون اپ ان کو بیچ کر رقم جاپان پہنچاؤ ، مانفع بانٹ لیا کریں گے ۔
تھائی سائڈ والے پاٹنر نے کوئی سات ملین کی رقم دبا کر  گاڑیاں کسی اور بندے سے منگوانے لگا ۔
جاپان سائڈ والا پاٹنر  رقم کا تقاضا رتا ہے تو
اس کو بتایا جاتا ہے کہ
میں اپ کی ہی رقم کے لئے کوشاں ہوں جیسے ہی انتظام ہوتا ہے  رقم اپ کو ادا کر دیتا ہوں
اس معاملے میں بھی کوئی ایک سال گزر چکا ہے ۔
اس معاملے میں کیا ہونا چاہئے ؟؟
 معاشرہ ایسے  بندے کی کیا مدد کرسکتا ہے ؟
ایک رائیٹر کے خیال میں ،اگر  اس شہر یا علاقے کے لوگ ، جو مسجد میں یا اوکشن میں ملتے ہیں  وہ سب لوگ  باری باری ،رقم دبائے بیٹھے بندے کو ۔
بڑے آرام اور تحمل سے یہ کہیں کہ
یار جی تم  جو رقم دبائے بیٹھے ہو وہ واپس کر دو ، تم ایک غلط کا کر رہے ہو !!۔
اگر ایک بندے کو صرف پینتیس سے چالیس لوگ ایک ہفتے کے اندر دو دو یا تین تین دفعہ یہ کہہ دیں تو ؟
میں نہہں سمجھتا کہ رقم کی واپسی کا کوئی طریقہ نہ نکلے ۔
یاد رہے کہ فراڈیہ بھی ایک انسان ہے  جو کہ فراڈ کو دل کی عمیق گہرائیوں میں کہیں نہ کہیں برا ضرور سمجھتا ہے ۔
معاشرے کے یاد کروانے پر اس کے دل میں بھی یہ خوف جاگ جائے گا کہ
اگر سارے لوگوں کو میرے “ بڑے “ ہونے کا علم ہو گیا تو  ، میں فراڈ کس سے کروں گا ؟؟
جیسے بھی سہی ۔ میں اس بات کا یقین رکھتا ہوں کہ
یہ طریقہ کار کام کرئے گا ۔

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

متاثرین

بوٹے داڑہی والے کے دومنزلہ مکان کے سامنے تین چار بندے  کھڑے گالیان دے رہے
تیر پین دی ۔۔۔۔ تیری ماں دی ۔۔۔ توں تھلے اتر !!!۔
اپھو  ستھن والا بھی وہاں سے گزر رہا تھا ، اسنے سب گالیاں دینے والوں سے پوچھا کہ تم لوگ کس کو للکار رہے اور کیوں گالیاں دے رہے ہو ؟؟؟۔
کسی نے کوئی جواب نہیں دیا کہ وہ سب لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں ۔
اپھو ستھن والا خود ہی  بوٹے داڑہی والے کے مکان میں داخل ہوا ، تو آواز آئی “اتے ای آ جاؤ “ ( اوپر آ جاؤ)۔
اپھو ستھن ولا جیساے ہی اوپر پہنچتا ہے  ، بوٹا داڑہی والا اس کو دبوچ کر اس کی ستھن اتار کر  اپھو سے مردانہ وار  بلاد کار کردیتا ہے ۔
اپھو کے بوٹے کی گرفت سے نکلتے نکلتے بھی ،اپھو کو بوٹے کی واردات سے ہونے والی چپچپاہٹ کا احساس ہو جاتا ہے ۔
اپھو  ستھن والا ستھن سنبھالتے ، بغیر استنجا کئے  ،وہاں پہلے سے گالیاں دینے والوں کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے
اؤئے تھلے اتر اوئے ، تیری ماں  نوں ۔۔۔۔ تیری پین نوں ۔۔۔۔۔!۔
اب اگر کوئی اپھو ستھن والے سے بھی پوچھے کہ تم گالیاں کیوں دے رہے ہو تو ؟؟
بتائے وہ بھی کسی کو نہیں ۔

جمعرات، 10 ستمبر، 2015

بگلہ بھگت


بگلہ بھگت ! پنجابی میں اس بندے کو کہا جاتا تھا جو دھرم بھاشن زیادہ دے اور داء پر رہے ہندو دھرم میں بھگت لوگ صبح پانی میں ایک ٹانگ یا دونوں ٹانگوں پر کھڑے ہو کر انکھیں بند کر کے اشلوک پڑھا کرتے تھے ۔
وہیں پانی میں بگلے بھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہوتے تھے  ، بڑے خاموش اور لگتا تھا کہ دل سے عبادت کر رہے ہیں ۔
لیکن جیسے ہی کوئی مچھلی “رینج “ میں آتی تھی اس کو ہڑپ کر کے ایسے بن جاتے تھے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اور اگلی مچھلی کے انتظار میں عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے ۔
پاکستان بننے کے بعد نہ ہندو رہے  نہ ہندؤں کے بھگت ۔ بگلے وہیں کے وہیں ہیں لیکن نہ کسی نے بھگت دیکھے ہوئے اور نہ کسی کو یہ مثال یاد ہے ۔
لیکن بگلہ بھگت اج بھی اپکے اردگرد موجود ہیں ،۔
ہر وقت دا۴ پر بیٹھے ہوئے وہ لوگ  جو کسی مچھلی کے انتظار میں ہوتے ہیں ۔
جب اپ کو بھاشن دیتے ہیں ۔
اللہ رسول کے احکامات ماننے میں ہی دل کا سکون ہے ۔
اچھے کام کرنا ہمارا مذہب سیکھاتا ہے ۔
ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ذلیل ہو رہے ہیں ۔
اور اگر
کوئی بندہ پوچھ بیٹھے کہ
اللہ رسول کے احکامات ہیں کیا؟
تو کہتے ہیں “ تینوں نئیں پتہ “۔
بندہ کہے کہ نئیں تو ؟
بونگیاں مارنے لگتے ہیں اور دو تین سوال کے بعد یہ ضرور کہتے ہیں ۔
میں کو عالم نہیں ہوں ، تم کسی عالم سے بات کرو!!!۔
اگر ت عالم نہیں ہو تو؟
علم کی بغل میں انگل  کیا آمبھ لینے کو دی تھی ؟؟؟

بدھ، 9 ستمبر، 2015

حاجی خوشی محمد پہلوان

حاجی صاحب تو  وہ بہت بعد میں جا کر کہلوائے تھے  ، انیسو ستر  میں حج کیا تھا انہوں ، ۔
اس سے پہلے ان کو  لوگ پہلوان کہا کرتے تھے  ، پہلوان خوشی محمد اور ان کا بھائی تھا پہلوان اللہ لوک برادی کے دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر بڑے مضبوط کاروباری تھے  یہ لوگ ، تقسیم سے پہلے کے زمانے میں  ۔
ہتھ چھٹ  بھی تھے اور بیدار مغز بھی ۔ جیب میں پیسے تھے اور افرادی قوت بھی ۔
برادری خچروں اور گھوڑوں کی تعداد اس زمانے میں ان کے ہی پاس  سب سے زیادہ تھی ۔
جنس کا سودا مار کر  کسی کاروباری رقیب کی پہنچ سے پہلے  پہلوان خوشی محمد کے بھائی  خچروں اور گھوڑوں پر مال لادہ کے نکل بھی چکے ہوتے تھے ۔
پہلوان خوشی محمد کے گھوڑے کی چھٹ میں چاندی کے سکے ہوتے تھے  جو  ادائیگی زمین دار کے گھر جا کر کرتے تھے ۔
تلونڈی سے جمون کا سفر  ایک دن کا ہوتا تھا  ، ایک دن جانے میں اور ایک دن آنے میں ،۔
یہاں سے کندم اور چاول کے کر جاتے تھے اور وہاں سے سرخ بیر خرید کر لاتے تھے ۔
برادری کے کئی لوگ جن کے پاس گدھے تھے وہ ادھر جموں میں ہی ہفتوں تک جاتے تھے کہ باربرادی کام بہت تھا ۔
خچر اور گھوڑوں والے  مال لادہ کر گھر لوٹ آتے تھے ۔

ڈرپ کا علاقہ  (پسرور کے شمال مشرق ) پانی کی کمی کے لئے مشہور تھا ۔ کہیں کہیں کنویں تھے اور پانی بھی بہت گہرا تھا کہ رہٹ والے کنوئیں سے پانی نکالنے والے بیل بھی بوجھ سے ہانپ ہانپ جاتے تھے ۔
رہت میں بیل جوتے  پانی نکالتے زمینداروں سے ہاتھا پائی  کر کے جانوروں کو پانی پلانا ایک معمول تھا ۔
ایک دفعہ ، پہلوان خوشی محمد سیالکوٹ سے پیدل گاؤں آ رہے تھے کہ جیسا اس دور میں معمول تھا  کھیتوں کے منڈیر اور پہہ ہی راستے ہوتے تھے ۔
سورج کے رخ سے سمت کا تعین کر کے جو بھی راہ شارٹ کٹ لگتی تھی اس پر چل نکلتے تھے ،۔
ایک جگہ پہہ پر چل رہے تھے کہ کسی کھوھ پر زمیندار نے ان کو کہا کہ اس پہہ پر نہ جاؤ ،اگے ایک ناگ اس راھ پر ہوتا ہے ، لوگوں نے یہ راھ استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے  ۔
لیکن پہلوان خوشی محمد یہ کہہ کر کہ  “سپ شینہ ، فقیر دا دیس کوئی نہ”  اس کسان کی بات نہیں مانی ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سانپ ہو گا بھی تو  وہ کوئی گھر بنا کر وہیں تو نہیں  پڑا ہو گا ، کہیں نکل گیا ہو گا ۔
لیکن ہوا یہ کہ  وہاں واقعی سانپ تھا ور بہت بڑا سانپ تھا ۔
اس اژدہے نما کو دیکھ کر پہلوان جی پر دہشت طاری ہو گئی ، لیکن بھاگنے کی جاء نہیں تھی اس لئے لاٹھی سے اس کے سر پر وار کیا ، اژدھے نے بھی بل کھا کر پھن مارا ۔ پاس ہی کہیں کوئی اینٹ روڑوں کی ڈھیری تھی  ، جس پر چڑھ کر  پہلوان جی نے پتھر  پکڑ پکڑ کر اژدھے کو مارنے شروع کئے  ایک جنون تھا کہ بس مارے ہی چلے جاتے تھے ، پتھروں کے نیچے دبے  اژدھے کی دم ہلتی رہی  ۔
کہ حاجی صاحب  بے ہوش ہو کر گر گئے ۔
وہ کسان جس نے ان کو منع کیا تھا  وہ کچھ لوگ ساتھ لے کر اس راھ پر ان کو دیکھنے پہنچ گیا ۔
جن لوگوں نے پہلوان جی کو  اٹھا کر  نزدیکی  قصبے ،  جہاں خقش قسمتی سے اس زمانے میں بھی کوئی ڈاکٹر صاحب موجود تھے  ، ان کے پاس پہنچایا ۔
پہلوان جی کو دو دن بعد ہوش آیا  اور پانچ دن بخار میں سلگتے رہے  ۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کا علاج کیا ور ان کو انعام میں ایک رویہ دیا کہ تم نے سانپ کو مار کر راستہ صاف کردیا ہے ۔
برادری میں  ایک لڑکے کی منگنی ڈسکے کے کسی گاؤں میں ہوئی تھی
کہ عین شادی سے کچھ دن پہلے  لڑکی والے مکر گئے  ،
پہلوان جی اپنے بھائیون کے ساتھ  گھوڑوں پر بیٹھ کر گئے اور اس لڑکی کے گھر والوں کو کہا
کہ لڑکی  ہماری منگ ہے ۔
جب منگنی میں تم لوگوں نے یہ لڑکی ہم کو دے دی تو اب یہ ہماری عزت ہے  ۔
ہم اس لڑکی کو لینے آئے ہیں ۔
اگر کسی میں جرات ہے تو ہمیں روک لے ۔
لڑکی کو کہا کہ اپنا سامان  کپڑے جو تم اس گھر سے لینا چاہتی ہو  ساتھ لو اور گھوڑے پر بیٹھو ۔
لڑکی گھر والون سے  گھر سے نکلتے ہوئے  کہا کہ
اگر اپنی بیٹی کو ملنے آؤ تو ست بسم اللہ  تم لوگ ہمارے رشتہ دار ہو
لیکن اگر لڑئی کے لئے آؤ گے تو لاشیں اٹھانے والے بندے ساتھ لے کر آنا ۔
لڑکی  کو ساتھ لا کر  بڑے شگنوں کے ساتھ اس کا نکاح  اس کے منگیتر کے ساتھ کیا ۔
اس بی بی کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔
یہ بی بی  بڑی لڑاکا عورت تھی  ، اتنی لڑاکا کہ اس کا خاوند   جلدی ہی گزر گیا تھا ۔
اس کے بعد  برادری کی عورتوں سے اس کی لڑائی ختم ہی نہیں ہوتی تھی  ۔
اس کے جب کوئی پوچھتا تھا کہ تم اتنی لڑاکی کیوں ہو تو بڑے فخر سے بتایا کرتی تھی ۔
میرا میکہ بھی بڑا بہادر تھا ۔
میں بڑی لڑاکی ہوں ۔
کئی دفعہ اس کی لڑائی میں پہلوان خوشی محمد اگر پہنچ گئے تو  ؟
لاء لتر لیا اور  بہت پھینٹی لگاتے تھے  ، حاجی صاحب کی پھینٹی کے بعد بی بی بہت  بھلی مانس بنکر بیٹھ جاتی تھی ۔
اور ترس کھا کر آنے والی برادری کی عورتوں کو بتایا کرتی تھی ۔
یہ بڑے بہادر کمہار ہیں ، میرے لڑاکے میکے  سے مجھے ڈنکے کی چوٹ پر اٹھا لائے تھے  ،۔
ان سے کوئی نہیں نپٹ  سکتا  ،۔
اور حاجی صاحب کہا کرتے تھے اس  زنانی کی کوئی ہڈی “لوندی “ ہے  جدوں تک مار نہ کھا لے  اینہوں سکون ای نئیں اؤندا !!!۔

پیر، 7 ستمبر، 2015

بے مذہب کے فلسفے


گاما ایک بے مذہب انسان ہے ، زیادہ ہی کھلے دل سے مذاہب کی ترکیب پر بھی بات کر جاتا ہے ۔
بے مذہب گاما  اپنے مالک   ( اللہ ) کی بہت رسپکٹ کرتا ہے  ۔ سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے  کام کاروبار میں ہر جگہ اپنے مالک  کی  مرضی کا بہت خیال رکھتا ہے  ۔
کہ  کہیں کوئی کام ایسا نہ ہو جائے کہ  مالک ( اللہ)  سائیں کو اچھا نہ لگے  ۔
 بے مذہب گاما  ! دارے میں بیٹھا  حقے کے کش لگاتا  ، گاؤں کے دوستوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا کہ
دیکھو جی  ، پڑوس کے ملک کے ہندو  لوگ جو دنیا کا قدیم ترین مذہب رکھتے ہیں ، ان کے ہاں لاکھوں ہی خدا ہوا کرتے ہیں ۔
اس کےبعد یونانی ہوئے ہیں جن میں ہزاروں ہی خدا ہوا کرتے تھے  ،۔
ہاں ہاں وہی یونانی جن میں اگر نابینا ہیومر نہ ہوتا جس نے منظوم قصے لکھ کر یونانیوں کو زندہ کر دیا تھا
تو
یونانیوں کی  عمارتوں کو دیکھ دیکھ   کر لوگ ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے جیسے کمبوڈیا کی “ انکور واٹ “ کو دیکھ اج کی دنیا ٹامک ٹائیاں مار رہی ہے کہ کون لوگ تھے جو یہ عمارتیں بنا کر فنا کے گھپ اندھیروں میں کھو گئے  ۔
گاما یہاں تک پہنچا تھا کہ  ماسٹر جی بھی  حقہ  کشید کر کے لئے وہیں آ پہنچے !۔
ماسٹر جی نے لقمہ دیا
ہاں ہاں بتاؤ ناں  انکور واٹ کا قصہ بھی کہ  کوئی راز کھولو؟
گاما گویا ہوا : ماسٹر جی انکور واٹ والوں کو کوئی ہیومر نصیب نہ ہوا ، جو ان کا قصہ لکھ کر دے جاتا  ۔
انکور واٹ والوں سے تو اپنا صاحباں کا مرزا خوش نصیب نکلا کہ ان کو دمدرداس مل گیا جس نے  مرزے کی “واردات “ کو عشق کی انتہا بنا کر  مزرے کو زندہ کر دیا ۔
بھولا سنیارہ کہنے لگا  : یار بات کو درمیان میں چھوڑ کر دور نہ جاؤ وہی بات کرو کہ یونانیوں کے ہزاروں خدا تھے تو؟
ہاں ہاں
ہندوؤں کے لاکھوں اور یونانیوں کے ہزاروں خدا تھے  ،۔
اس کے بعد پارسی گزرے ہیں جن کے سینکڑوں خدا تھے ۔
پارسیوں کے بعد عیسائی  ہوئے جن کے تین خدا ہیں ۔
اور پھر ایک خدا کا تصور دیا گیا ۔
اب ایک خدا کے تصور نے تو  خدا ختم ہی کر دئے ، ہیں اس لئے کوئی نیا خدا نہیں بن رہا
ورنہ یہ مولوی  ہر مسیت میں ایک نیا خدا بنا کر بیٹھے ہوتے ۔
ماسٹر جی  پھر گویا ہوئے :
اوئے گامیا! تم پھر ڈنڈی مار گئے ہو ، کم عقل  لوگوں کو ادھوری بات بتاتے ہوئے تمہیں “مالک “ دیکھ رہا ہے کا خیال نہیں آیا؟
گاما گھسیانا ہو کر ہی ہی ہی کرنے لگا
اور پھر بولنے لگا ، ویکھو یارو ، اصل میں ایک خدا کا تصور تو ابراہیم علیہ سلام نے دیا تھا ۔
وہی ابراہیم ، جس پر تورایت انجیل زبور میں سلامتی بھیجی گئی ، جس کی آل کو دنیا کی منتخب نسل ہونے کا بتایا گیا  ،۔
وہی ابراہیم جن نے ایک خدا کے ماننے والوں کو پہلی دفعہ مسلمان کہا اور جس نے پہلی بار ایک خدا کے تصور  والے نظرئے کو  اسلام کہا ۔
بات سے جان چھڑانے والے انداز میں  کہتا ہے
بس اس کے بعد اسی ایک خدا کے فلسفے کو  ہر دوکاندار نے اپنے اپنے انداز میں کیش کرانے کی کوشش کی کسی  نے ایک کو  “تثلیث” کا کہہ کر ایک ہی خدا ہے  تین بنا دیئے
اور کسی نے اس کو “نور کا ہالہ “ بنا کر لاتعداد کرنیں بنا دیں ۔
بس یارو اب کوئی کچھ بھی کہلوائے
جو دین ابراہیمی کی طرح کا  سیدہی راھ پر چلنے والا ہے وہی مسلمان ہے اور جو نظام سیدھی راہ دیکھاتا ہے وہی اسلام ہے  ۔
ہاں ہاں وہی اسلام جس کے ہمیشہ عروج پر رہنے کی  اللہ نے ضمانت دی ہے ۔
ہر زمانے میں  مسلمان ہی سرخرو رہتا ہے  ۔
مسلمان کہلوانے والا کم فہم اور بد نظم  کبھی بھی سرخرو نہیں ہو سکتا ۔
گاما  یہ بات کہہ کر نکل گیا تھا کیونکہ گاما ، قران کا علم رکھنے والے ماسٹر جی کے سامنے  اپنے بے مذہبی کے فسلفے بکھارنے سے کتراتا ہے  ۔

جمعرات، 27 اگست، 2015

معاشرہ اور معاشرت

میں ایک بیوہ ہوں ، خاوند کو مرئے کئی سال ہو چکے ہیں ، میرا ایک بیٹا بھی ہے  ، جو کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے دیور کا کا بچہ ہے ۔
میرے خاوند کے اس چچا زاد کے گھر کی دیوار سانجھی ہے ناں ، شائد اس لئے  ،۔ میرے بچے کی پیدائش کے ایک ہی سال میں میرا خاوند جوانی میں ہی بیمار پڑ کر  فوت ہو گیا تھا ، محلے میں سبھی یہ کہتے ہیں کہ میں نے دیور کے ساتھ مل کر زہر دے دیا تھا ۔
بچہ چھوٹا ہے ، گھر میں اکیلی ہوتی ہوں ، دیور اور دیگر سسرالی  رشتہ دار  کڑوے گھونٹ کچھ ناں کچھ مدد امداد کرتے ہی رہتے ہیں ۔
پچھلے  کئی ہفتوں سے  رات کو، کوئی  میرے گھر کی باہر سے کنڈی لگا جاتا ہے  ،۔
صبح لوگوں کے جاگنے تک میں رفع حاجت کے لئے بھی نہیں نکل سکتی ، دیوار پھلاند کر باہر جانا  عورت ذات کے لئے  مشکل ہے ۔
بہت ذہن دوڑایا کہ کہ کون ہو سکتا ہے ، کچھ سمجھ نہیں لگی ،۔
اخر ایک رات میں نے ساری رات جاگ کر کنڈی لگانے والےکو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا ،۔ میں کوٹھے پر بیٹھ گئی  کہ اج ضرور  شرارتی بندے کو پکڑ کے چھوڑوں گی ۔
ساری رات چھت پر بیٹھے گزر گئی ہے ، اوس سے کپڑے بھیگ چکے  ، سوچوں کی یلغار کہ  لوگ کسی بیوہ کو زندہ کیوں نہیں رہنے دیتے ،۔
دیور بھی اب شادی کر کے پڑوس میں ہی  اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی کر کے میرا دل جلاتا ہے 
بھری جوانی کی اداس راتیں میں نے دیور کے انتظار میں گزار دیں ، ۔
رات ڈھلنے لگی لیکن کوئی بھی بندہ میرے دروازے کے سامنے نہیں گزار ، میں یہ سوچنے لگی کہ شائد آج  میری محنت اکارت جائے ، ، کنڈی لگانے والا بندہ آج ناغہ کرنا چاہتا ہوگا ۔
تہجد کے وقت ہو گیا ، محلے کے صوفی صاحب  کو آتا دیکھ کر میں مایوس ہو گئی کہ اج  شرارت کرنے والا بندہ نہیں آئے گا ۔ اب تو لوگ تہجد کے لئے جاگ گئے ہیں ، اب کون آئے گا  ۔
 صوفی صاحب  کا جانوروں والے باڑے کا راستہ میرے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے ۔ میں سوچوں میں گم  خالی نظروں سے صوفی صاحبب کو گزرتے دیکھ رہی تھی کہ  مجھے حیرانی ایک جھٹکا لگا ، صوفی صاحب گلی کے درمیان سے اچانک میرے دروازے کی طرف مڑے اور ایک سیکنڈ کے عرصے میں میرے کواڑ کی کنڈی لگا کر چلتے بنے ۔
 میں نے گالی دی اور صوفی صاحب پر اینٹ پھینک ماری ،۔
صوفی صاحب بڑھاپے میں بھی بہت پھرتیلے نکلے اینٹ کے وار سے بچ کر نکل گئے  ۔
صبح میں میں نے شور مچا کر سارے محلے کو اکٹھا کر لیا ۔
کہ صوفی صاحب نے یہ کام کرتے ہیں ۔
سارے محلے نے مجھے چھوٹا کیا ، ایک بڑی برادری کے بڑے بھائی ،اور  فارن کی کمائی والے بیٹوں کے باپ  صوفی صاحب کو کسی نے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ یہ بیوہ عورت جو کہہ رہی ہے ، اپ کا اس پر کیا موقف ہے  ۔
اگر رسمی طور پر کسی نے صوفی صاحب سے بات کی بھی تو ؟
صوفی صاحب نے کہا
بےچاری  بیوہ ،دیور نے بھی شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا ہے ناں اس لئے مرد کی خواہش میں  اب الزامات پر اتر آئی ہے ، ۔
میں اس بات سے ہی مطمعن ہوں کہ اینٹ کا اوچھا ہی سہی وار کرنے سے یہ ہوا کہ اب میرے دروازے کی کنڈی کوئی نہیں لگاتا ۔

ہفتہ، 22 اگست، 2015

عمر رفتہ

کوئی بیس سال بعد اس کو لندن جانے کا اتفاق ہوا ،۔ایک وقت تھا کہ پیریس سے لندن ہر ہفتے کا ویک اینڈ گزرتا تھا ، ہفتے کی شام لندن پہنچ کر ساری رات گلیون کی آوارہ گردی ہوتی یا کسی ناں کسی سہیلی کے روم میں  شب بسری کر کے اتوار کی شام کو پیرس واپس ،۔
یورپ کے شمالاً جنوباً شہروں کے نام  گامے کو  اپنی سہلیوں کے ناموں سے یاد رہتے تھے ۔
پھر یہ ہوا کہ یورپ چھوڑا  ، مشرق میں بسیرا کیا ، مشرق بھی کہ مشرق بعید  جس کو خاور کہتے ہیں فارسی میں  ۔
فجر کی نماز  ، مسجدوں سے زیادہ اسٹیشنوں کے بنچوں پر ادا کرنے والے اس پلے بوائے کو یورپی لوگ مسلمان کہتے تھے اور اس کے اپنے اس کو کافر کہتے تھے اور وہ بھی پیٹھ پیچھے !۔
ایمبارکمنٹ کے اسٹیشن سے جوانی کی عادت کے مطابق پیدل ہی چلتے ہوئے چئیرنگ کراس کے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ٹیلی فون کا وہ لال بوتھ جو یہاں کونے میں ہوتا تھا  ، سمارٹ فون کی بہتات میں اپنی بقا کی جنگ ہار گیا ،۔
ٹیلی فون کے لال بکس والی جگہ پر اب کوڑے والوں کا  صفائی کا سامان پڑا تھا ۔
ٹگالگر سکوائیر کے کبوتروں والے فوارے کی بغلی سڑک کی جڑہائی چڑھتے اس کو اپنی عمر  کا احساس بہت شدت سے ہوا کہ یہ بھی کوئی چڑہائی ہے کہ جس میں اج ٹانگوں کے مسل کھچ رہے ہیں ،۔
ٹفالگر کے گرد ادھا چکر کاٹ کر  سیدہے ہاتھ کو مڑتے ہی ماتسکوشی کا براڈڈ چیزوں کا سٹور نظر آیا ۔
یہاں ساتھ ہی آکسفورڈ سٹریٹ کی کتابوں کی وہ دوکان بھی اس کو یاد آ گئی ، جہاں گھنٹوں کھڑے ہو کر کتابیں پڑھا کرتا تھا ، زیبراکراسنگ کے بغر ہی درمیان سے سڑک کراس کر کے جب کونے والی دوکان تک پہنچا تو  ، کتابون کی دوکان ختم ہو چکی تھی اب وہاں گروسری سٹور تھا ۔
جب  ، جس  ملک سے کتابوں کی دوکانیں ختم ہونے لگیں اور کھانے کی دوکانیں بڑھنے لگیں تویہ اس ملک کے علمی انحطاط کی نشانی ہوتی ہے ۔
کسی سیانے کا یہ قول اس کے ذہن میں آیا تو  اس سوچ کی لہر بھی گزر گئی کہ
برطانیہ عظمی بھی علمی انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے ؟
ہاں ! کیوں نہیں ، کہ اج علم کے ممبے تو امریکہ سے پھوٹتے ہیں ۔
پکڈلی کے فوارے کے پاس سے گزر رہا تھا کہ نسوانی آواز نے اس کو چونکا دیا جو کہ اس کو نام لے کر پکار رہی تھی ۔
عورت کی سکل دیکھ کر دو لمحے بے تاثر سے گزر گئے کہ عمر رفتہ کے اثار سے اصلی چہرہ نمودار ہوا ۔
ایمی ؟؟
ہاں ایمی ۔ تم مجھے کیسے بھول سکتے ہو ۔ یا کہ تم جتنی مضبوط یادداشت والے ہو  ، ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کی شکلیں اور نام  تمیں یاد ہوں گے ۔
تمہاری طنز کرنے کی عادت نہیں گئی ، کرتی کیا ہو؟
ساتھ چلو ، اکیلی ہی ہوں شوہر سے طلاق لے لی ہے ، بچے شوہر کے پاس ہیں ، نائٹس بریج کے پاس اپارٹ میں رہتی ہوں۔
گاما رات ایمی کے گھر ہی رہا ، صبح  فجر کی نماز  ادا کر رہاتھا کہ ایمی بھی جاگ کر رہیں آ گئی ۔
جوانی میں بھی بغیر غسل کئے نماز ادا کرنے والے سے میں کیسے توقہ کرسکتی ہونکہ وہ بڑھاپے میں  نماز چھوڑ دے گا ۔
گامے نے یہ سن کر بے تاثر سی نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں ۔
جوانی میں تم سے مل کر پہلی دفعہ علم ہوا تھا کہ مسلمان نماز بھی پڑھتے ہیں ، اور تمہاری  ہر فجر کی نماز کے بعد لازمی وچھوڑے کی تلخ یادیں بھی ہیں ۔
لیکن ہو ہی ہرجائی  ، نہ تم میرے تھے اور ناں کسی اور کے پتہ نہیں کتنی لڑکیون نے تمہاری فجر کی نماز کو  یادوں میں بسا رکھا ہو گا کہ  گاما جب بھی فجر کی نماز ادا کرتا ہے تو پھر شائد ملے کہ نہ ملے ۔
مجھے بھی تو اج رات ، تم کوئی اکیس سال پہلے ادا کی فجر کی نماز کے بعد ملے ہو ۔
،تم نے مجے بوڑھا کہا ہے ۔ کیا میں واقعی بوڑھا ہو گیا ہوں ؟
گامے نے بڑے کرب سے پوچھا ۔
ہاں تم بوڑھے ہو چکے ہو ، تمہاری جوانی کی ہر لڑکی یہ سمجھتی تھی کہ گاما کبھی بوڑھا نہیں ہو گا
اور شائد میں پہلی عورت ہوں جس نے اج کی گزری رات میں تمہارا زور ٹوٹتے محسوس کیا ہے ۔
تم آئیندہ جب کسی پرانی یا نئی سہیلی کے ساتھ ملو گے تو  آئینے میں دیکھنا
تمہاری پیٹھ ڈھلک چکی ہے ۔
ہاں تمہاری پیٹھ کا گوشت ۔
اب تمارے پاس دوسری یا تیسری دفعہ کسی پیاسے کی پیاس بجھانے کی نمی بھی نہیں ہے  ۔
گاما سیڑہیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔
اب مرنے تک نامعلوم کتنی عورتوں کے طنز سننے پڑیں گے ، وہ عورتیں جن کو وقت گزاری  کا پرزہ سمجھتا رہا وہ بھی گوشت پوست کی انسان تھیں ان کے بھی جذبات تھے جو اب  جب جب بھی سننے کو ملیں گے طنزمیں ہی ملیں گے ۔

Popular Posts