جمعہ، 9 مارچ، 2007

جاپانیوں کی رحم دلی اور غیر ملکی

جاپانی لوگوں کی بات ہے که یه لوگ آپنے ملک کو پسند کرتے هیں ـ

کہیں بهی چلے جائیں جاپان کی باتیں کرتي هیں جاپان واپس آنا چاهتے هیں ـ
جاپان واپس آکر انتہائی خوش هوتے هیں ـ
آپنا گهر آپنی جنت والی بات کچھ جابانیوں کے لیے ـ
دوسری جنگ عظیم میں امریکه کے ایٹمی حملے کے بعد جاپانیوں کی پسپائی کو ایک جاپانی نے کہا تها که ہم لڑائی نہیں ہارے جنگ هار گئے هیں ـ
هارنے پر ہر جاپانی نے جاپان کا رخ کیا ـ ایک فوجی افسر کی بیٹی جو که ان دنوں فلپائن کے کسی علاقے پر قابض تها نے مجهے بتایا تها که جاپان واپسی کے لیے کشتیاں کم پڑ گئیں تهیں تو بہت سے لوگوں نے خود کو رسے سے بانده کر کشتیوں سے بانده لیا تها اور تیرتے هوئے جاپان پہنچے تهےـ
اس ليے جاپانی سمجهتے هیں که ہر انسان اور جانور آپني جائے پیدائش اور ملک علاقے سے محبت کرتا ہے ـ
سی لائن نام کی ایک مچهلی جس کو پرانے زمانے میں جل پری بهی سمجها جاتا تها ـ اس مچهلی کاایک بچه راسته بهول کر سمندر سے کتنے هی میل دور خشکی پر بهٹک رها تها که کسی کی نظر میں آگیا ـ
اس شہر کے لوگوں کو اس پر ترس آیا اور اس کو بچا لیا گیا اس کی چھ ماه تک حفاظت اور پرورش کرگے آج اس کو واپس سمندر میں چهوڑ دیا گیا هے ـ
جاپانی ٹی وی پر اس بات کو بار بار دیکهایا جا رها ہے که اس بیچارے کو واپس اس کی دنیا میں پہنچا دیا گیا هے ـ
لیکن ان لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے که پیدائش کے فوراَ بعد کا یه بچه جب چھ ماه تک انسانی تحویل میں ره کر اسانی سے ملنے والی خوراک اور سہولتوں کا عادی ہو چکا ہے واپس جا کر کیسے آپنی بقا کی جنگ لڑے گا ؟
صرف شکار کا حصول هی مشکل نہیں بڑی مچهلیاں اور دشمن موسمی حالات کا یه کیسے مقابله کرے گا ـ
اور اس کی آپنی نسل کی مچهلیاں بهی کیا اس کو اپنے گروه میں قبول کر لیں گی ؟
آپنے گروه کے ساتھ مل کر شکار کا طریق سیکهنے کا زمانه اس نے پردیس میں گزار دیاـ
اب کیا یه آپنی جائے پیدائیش میں سروائو کرسگے گا ـ
اپنی زمین اور ملک سے محبت کرکے اس ملک کو جنت نظیر بنانے والے جاپانی یه سمجهتے هیں که ہر کسی کا ملک اس کے لیے جنت کی هی حثیت رکهتا هے ـ
اس لیے جب یه کسی اوور سٹے غیر ملکی کو پکڑتے هیں تو اس کو اس کے ملک واپس بهیجنے کو بهی اس غیر ملکی پر احسان کرنا سمجهتے هیں ـ
لیکن پاکستانیوں کے لیے یه اس طرح هوتا هے که جیسے جہنم میں بهیجے جا رهے هیں ـ
شیطان صفت وه لوگ جنہوں نے پاکستان کو جہنم بنا رکها هے وه لوگ خود بهی آپنے بچوں کو جنت نظیر ملکوں میں رکهتے هیں ـ

یہاں تک لکھ کر میں جمعه پڑهنے چلا گیا تها ـ
مسجد المصطفے میں اس مسجد کے امام صاحب طاہر القادری صاحب کے پیروکار هیں ـ
یه مولوی صاحب ساؤنڈ افیکٹ بہت چهوڑتے هیں ـ
کبهی لگتا ہے که ابهی رونے لگیں گے کبهی لگتا ہے که ان کی ہچکی بندهی هوئی ہے ـ
مین لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اگر کبهی آپ کو ان کی تقریر سننے کا موقع ملے آپ بهی انجؤائے کریں گے ـ
ان مولوی صاحب کے ساونڈ افیکٹز سننے والے هیں ـ
مولوی صاحب نے سورة فاتحه کی ساتوں ايت قریمه تلاوت کی تهی ـ

صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیهِمْ غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ

جس میں اللّه صاحب سے انعام یافته لوگوں کے طریق پر چلنے کی دعا اور سزایافته لوگوں کے طریق سے بچنے کی دعا مانگی گئی ہے ـ

اور مولوی صاحب اس کی اپنی هی وضاحتیں کر رهے تهے جو که آپ صاحبان نے ہزاروں دفعه سنی هوں کي ـ

جاپانیوں نے ایک طریق اختیار کیا اور اس پر قائم رہے تو اللّه صاحب نے ان پر انعام کیے که ان کے ملک میں رزق کی فراوانی کی ان کو امن دیا که آپنے ملک میں یه محفوظ هوتے هیں ـ
ان کے ملک میں انصاف قائم کیا که ان کے دل ایطمنان پکڑیں ـ
اب جو بهی غیر ملکی اس انعام یافته ملک میں آ جاتا هو وه رزق پاتا ہو اور واپس نہیں جانا چاهتا ـ
اور اسلام کا ٹهیکدار کہتا ہے که نہیں یه تو کافر هیں یه انعام یافته هو هی نهیں سکتے ـ

2 تبصرے:

Unknown کہا...

آپ اس بات پر اتفاق کریں گے کہ ترقی کے چند اصول ہیں، یعنی قانون کی حکمرانی، انصاف کا حصول، محنت کی لگن، حب الوطنی، بھائی چارہ وغیرہ وغیرہ۔ یہی اسلام سکھاتا ہے اور انہی اصولوں پر عمل کرکے ان لوگوں نے ترقی کرلی جنہیں ہم کافر کہتے ہیں اور خود ان اصولوں سے انحراف کرکے غیر ترقی یافتہ رہے اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں۔
امید ہے جاپان کی سیر کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہوسکے تو جاپانیوں سے پوچھئے گا کہ انہوں دوسری جنگ کے بعد کس طرح اپنے حالات بدلے یعنی حکومت نے کس طرح افرادی قوت کو استعمال کیا اور کس طرح جرائم یعنی رشوت، اقربا پروری، دھوکہ ، فریب کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوئے

گمنام کہا...

مجھے بڑا پرانا واقعہ یاد آیا ۔ شاید 1962 عیسوی کی بات ہے کہ پہلی بار پاکستانی صحافی چین پہنچے ۔ چین کے وزیراعظم چو این لائی سے سوال کیا کہ آپ کا یہ لباس کس نے ڈیزائن کیا ۔ تو اس نے جواب میں کہا کہ ہم نے یہ لباس اور کئی حکمرانی کے اصول آپ کے خلیفہ دوم عمر ابن الخطاب سے لئے ۔ ہم نے اپنا دین اور ثقافت چھوڑ دی اور دوسروں سے اچھی بات تو کوئی نہ سیکھی خرافات سب اپنا لیں ۔ اور پھر اپنے ہی لوگوں پر نقطہ چینی کی مہارت بھی حاصل کر لی ۔

Popular Posts