بدھ، 16 مئی، 2007

یوم مادر یعنی مدر ڈے

آج کی بڑی خبر( جاپان سے ) ہے که ایک لڑگے نے آپنی ماں کو قتل کر دیا اور ماں کا سر کاٹ کر بیگ میں ڈال کر تهانے پہنچ گیا ـ
ہائی سکول کے سٹوڈنٹ ستره سال اس لڑکے نے آپنی ماں کو گهر پر قتل کیا ، ماں کا کٹا ہوا سر لے کر بیگ میں ڈالا اور انٹرنیٹ کافے  گیا  ، کچھ مخصوص ویب سائٹس دیکهنے کے بعد تهانے پہنچ گیا ـ
تھانے پہنچ کر لڑکے نے پولیس کو بتایا!۔
میں نے ماں کو مار دیا هے اور میں ماں کا سر لے آیا ہوں ـ

آپنے بڑے بهائی اور ماں کے ساتھ  یہ تین افراد  کا کنبہ ایک ہی مکان میں رہتے تهے ـ
اس لڑکے کے دهدیال کے پڑوسی اور اس کے سکول کے استاد ! اس واردات پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں ـ
که یہ لڑکا تو سکینگ جمپ کا کھلاڑی بھی تها اور سنجیده رویہ رکهتا تها ، یہ اس نے کیا کر دیا؟ ـ
مگرجرائم اور نفسیات پر بات کرنے والے اس کو کچھ اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ
دوسروں سے منفرد بننے کی خواہش میں قاتل بننے کی کوشش یا قتل کر کے آپنے آپ کو منوانے کی خواہش ، کوئی زیاده عجیب بات نہیں ہے ـ
اور پهر اس لڑکے کا اپنی ماں کا کٹا ہوا سر لے کر پولیس سٹیشن پہنچ جانا بهی اس بات کا ثبوت ہے کہ جیسا دعوا کر ہو !!۔
 دیکهو میں نے یہ کارنامه کیا ہے ـ
میں ذاتی طور پر اس قسم کی نفسیات والے لوگوں سے واقف ہوں !۔ بلکه وکٹم ہوں ـ
دشمن دار کہلوانے کے شوقین ، ایک چیمه صاحب نے میرے ساتھ الله واسطے  کا بیر بنا لیا تها آپنے اردگرد کے لوگوں  دکهانے کے لیے مجهے فون پر دھمکیاں اور گالیاں دیتے تھے ۔ کتنے  ہی سال اس طرح کے روئیے اور میری خاموشی  سے یہ صاحب ! اس یقین کی منزل پر پہنچ چکے تھے که خاور ایک ڈپوک شخص ہے اور میرے تھلے لگ چکا ہے ـ
پهر ایک دن ملاقات هو گئی ـ
اور ان صاحب نے صرف ایک ہی گهونسا کهایا تها کہ ناک اور منہ سے لہو اور کرلے کی طرح لمبے ـ
،
آج کل جاپان میں اس بات کو محسوس کیا جارہا ہے کہ جاپانی لوگوں کا جاپانی زبان کا زخیره الفاظ کم ہوتا جا رہا ہے ـ
یارو! یہ ترقی یافتہ قومیں کن کن باتوں پر غور کرتی هیں ؟ ـ
ہماری سوچ کے جہاں پر جل جاتے ہیں اس سے آگے کا سوچتے ہیں یه لوگ ـ
کسی محفل میں اچها شعر سناتے هوئے ڈر لگتا ہے کہ کتنے ہی لوگوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں لگے گی مگر الفاظ کے معنی بهی نہیں پوچهیں گے ـ
اور آپنی ناسمجهی کو شعر سنانے والے کا کهسکا ہوا سمجهیں گے ـ
میں نے یہ بات پندرہ سال پہلے محسوس کی تهی کہ آپنے گاؤں سے باہر لوگوں کا زخیره الفاظ بہت کم ہے ۔
 مجهے آپنی بات سمجهانے کے لیے اسان الفاظ ڈهونڈنے پڑتے تهے پهر یہ ہوا کہ
 اسان الفاظ ڈهونڈتے ڈهونڈتے اسان الفاظ  بولنے کی عادت ہو گئی ، جس کی وجہ سے  آپنا بهی زخیره الفاظ  بھی کم ہونا شروع ہے ۔
 اور اب آپنے گاؤں میں بهی احساس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بهی زخیره الفاظ کی کمی کا شکار ہیں ـ
ایک وقت تها کہ ہمارے گاؤں میں آلو چهولے بیچنے والے حاجی صاحب بهی ایسے شعر سنایا کرتے تهے که جن میں جام جمشید اور جام صفال کا تقابل ہوتا تها ـ
اسرار اور اصرار کی بارکیوں کو سمجهنے والے پُراسرار فقرے ہوتے تهے۔
 اچهے شعر ہوتے تهے ۔
 اور ان شعروں کی تشریح ہوتی تهی ـ
یه ہوتا تها ہمارا گاؤں
یا
ہمارا پاکستان
اب ہم کیا هیں ؟؟
مسلسل انحطاط کا شکار ایک ذہنی بیمار قوم ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts